اسکا آپریشن تو ہو گیا تھا ۔۔۔مگر ۔۔۔۔۔!!
وہ ابھی تک پٹیوں میں جکڑا بے سدھ ۔۔پڑا تھا ۔۔
I am sorry۔۔۔۔۔۔
یہ کومہ میں چلے گئے ہیں ۔۔۔۔ڈاکٹر کے اس جواب نے گویا سب کے پیروں سے زمین کھینچ لی تھی ۔۔۔
وہ شاکڈ کی کیفیت میں بینچ پر بیٹھتی چلی گئی ۔۔۔
ہسپتال میں پہنچتے ہی اسکے قدم بے اختیار تھم گئے ۔۔۔
اسے کسی انہونی کا احساس ہوا ۔۔۔آس پاس کا ماحول دیکھتے ہوئے اس نے شاکڈ کی سی کیفیت میں حدید سے سوالات کرنا شروع کیئے ۔۔
یہاں کیوں لائے ہیں مجھے ؟۔۔۔۔اور ۔۔اور بھائی کہاں ہیں ۔۔۔؟
خالی خالی نظروں سے حدید اسے دیکھنے لگا ۔۔۔
بتاتے کیوں نہیں ۔۔کہاں ہے بھائی ۔۔۔وہ اسکی شرٹ کو مٹھی میں جکڑتے ہوئے چیخی ۔۔
جس سے اسکا ہاتھ خون آلود ہو گیا ۔۔۔
بھائی ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ شاکڈ کی سی کیفیت میں اپنے ہاتھ میں لگے خون کو دیکھتے ہوئے بڑبڑانے لگی ۔۔۔
اچانک اسکی نظر سٹریچڑ پر پڑے سفید چادر میں لپٹے وجود پر پڑی ۔۔جسے آپریشن تھیٹر سے آئی سی یو میں منتقل کیا جارہا تھا ۔۔
اسنے نم آنکھوں سے حدید کی جانب دیکھا ۔۔جیسے پوچھنا چاہ رہی ہو یہ کون ہے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔باسط ۔۔۔۔۔حدید نے آنکھوں کی نمی چھپاتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔نہیں ۔۔۔۔وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے باسط کی جانب لپکی ۔۔
ہولے ہولے سے وہ اس باڈی کے چہرے پر سے کپڑا ہٹانے لگی ۔۔
نہیں ۔۔۔بے اختیار تابی نے سسکی دبانے کے لیئے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے نفی میں سر ہلایا ۔۔۔
ہا ۔۔۔۔۔۔۔جونہی باسط کا پٹیوں بھرا چہرہ دیکھا تھا وہ دو چیخ لگاتے ہوئے دو قدم پیچھے ہوئی ۔۔۔
نہیں ۔۔۔۔۔۔یہ ۔۔۔بھائی ۔۔۔۔وہ آس پاس دیکھتے ہے صدمے کا شکار ہوتے ہوئے بولی ۔۔۔مگر آنکھ سے ایک آنسو نہ ٹپکا ۔۔۔
مناہل ۔۔۔۔ماروی اور تابین نے اس بوکھلائی ہوئی لڑکی کو پیچھے سے تھاما ۔۔
حدید سے یہ منظر دیکھا نہ گیا ۔۔۔وہ ہاتھ کی پشت سے آنکھ صاف کرتے ہوئے وہاں سے رخ موڑ کر چلا گیا ۔۔۔۔
۔**************۔
با مشکل ہی وہ مناہل کو سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے مگر وہ کچھ سوچنے اور سمجھنے کے قابل ہی نہ رہی ۔۔۔
اسے تو چپ لگ گئی تھی بھائی کی حالت دیکھتے ہوئے ۔۔۔
پوری دنیا میں ایک یہی آسرا ہی تو تھا اسکے پاس ۔۔ماں باپ کے جانے کے بعد ایک بھائی جیسی نعمت ہی تو تھی اسکے پاس جو اسکا دوست تھا اسکا سب کچھ ۔۔۔
اور اب وہ بھی اسے چھوڑ کر جانے لگا تھا ۔۔۔
نوشین اور اسکے گھر والوں تک خبر پہنچتے ہی وہ بھی یہاں آ پہنچے تھے ۔۔۔
یقین تو انھیں بھی نہیں اڑھا تھا کہ باسط اور خود کشی ۔۔۔۔
حدید نوشین کے ابا کو ساری صورتحال سے آگاہ کر رہے تھے ۔۔۔
مگر نظریں بے اختیار مناہل پر ہی جا اٹکی تھیں ۔۔۔جو بت بنی بیٹھی تھی ۔۔بس کچھ ہی لمحوں میں ایک خبر نے اسکے حال کیا کر دیئے تھے ۔۔۔
آ ۔۔۔۔بیٹا ۔۔۔۔وہ ۔۔۔اتنے بڑے ہسپتال میں ۔۔۔خالو کو ہسپتال کے بل کی پڑی تھی ۔۔کہیں انھیں نہ ادا کرنا پڑتا جبھی ہچکچاتے ہوئے پوچھنے لگے ۔۔۔
آپ فکر نہ کریں ۔۔۔سارا بل ادا ہو چکا ہے ۔۔اور ویسے بھی جان سے زیادہ پیسہ تو اہمیت نہیں رکھتا ۔۔پیسہ تو آسکتا ہے مگر جان نہیں ۔۔حدید نے انھیں رسانیت سے جواب دیا ۔۔۔
حدید کی بات سن کر انکا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا ۔۔۔
باسط کی خبر میڈیا تک پہنچ چکی تھی ۔۔۔پولیس والے معلومات کرنے کے لیئے ہسپتال آ پہنچے تھے ۔۔
مناہل کو تو ہوش نہ تھا جسکی وجہ سے وہ پولیس والوں کے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دیتی ۔۔لہٰذا انکو بھی حذیفہ نے اپنے طریقے سے ہینڈل کیئے ہوئے تھا ۔۔۔
کسی طبیعت ہے اب میری جان ۔۔۔۔امل کے ہوش میں آتے ہی ساتھ بیٹھی ماروی نے پوچھا ۔۔
وہ کیسا ہے ۔۔۔اسے کچھ ہوا تو نہیں نہ ۔۔۔باسط کا خیال آتے ہی امل نے فوراً پوچھا ۔۔۔
نا چاھتے ہوئے بھی ماروی کی آنکھیں بھر آئیں ۔۔۔
"کیا ہوا وہ ٹھیک تو ہے نا "۔۔۔۔کتنی آس بھری تھی نہ اس جملے میں ۔۔۔
دروازے کے باھر ہاتھ میں سوپ لئے تابین نے اپنا آنسوؤں سے بھگا ہوا چہرہ صاف کر کے خود کو نارمل کیا ۔۔
اور دروازے کو دھکیلتی ہوئی اندر کی جانب بڑھی ۔۔۔
ہاں۔۔۔ ہاں وہ بلکل ٹھیک ہے ۔۔۔۔کچھ دیر پہلے ہی ہوش میں آتے ہی اس نے تمہارے بارے میں پوچھا ۔۔۔اور اب دوائیوں کے زیر اثر غنودگی میں ہے ۔۔
ڈاکٹر نے اسے کوئی شاکڈ بات بتانے سے پرہیز کیا تھا جبھی تابین کو اس سے جھوٹ بولنا پڑا ۔۔۔
کیا تم سچ کہہ رہی ہو ۔۔۔۔۔۔؟
چلو اب تم یہ جلدی سے ختم کرو تاکہ ٹھیک ہو کر اس سے ملو ۔۔۔نا چار سنجیدہ صورتحال میں بھی تابین کو اپنے چہرے پر مسکراہٹ نمودار کرنا پڑی ۔۔۔
لیکن میرا دل نہیں مانتا ۔۔۔۔وہ کچھ سوچتے ہوئے سوپ ختم کرنے لگی ۔۔
۔*************۔
اگر تم کل تک یہاں نہیں پہنچے تو میں ابھی اور اسی وقت خود آؤں گا تمہیں لینے سن لی بات ۔۔۔۔وہ غصے سے اسے باور کرنے لگے ۔۔
پر بابا میں ان حالات میں سب کو چھوڑ کر کیسے آسکتا ہوں ۔۔۔حذیفہ نے لہجے میں بیزاری نمودار کرتے ہوئے کہا ۔۔۔
نہ جانے یونی ورسٹی سے انکے گھروں میں کیا اطلاع دی گئی تھی جسکی وجہ سے مسٹر احمد بہت ہی غصے میں اسے واپس آنے کا کہنے لگے ۔۔۔۔
بہت کر لی تم نے اپنی من مانی ۔۔۔کیا اب بھی تم دس بارہ سال کے بچے ہو ۔۔کہ جو دل میں آیا کرتے پھرو گے ۔۔۔۔
نہیں ۔۔۔۔۔تم اب independant ہو حذیفہ ۔۔۔۔تمہاری ڈگریاں گھر میں پڑی خستہ حال ہو رہی ہیں اور تم ہو کہ پاکستان میں خاک چھانتے پھر رہے ہو ۔۔۔
وہ غور سے انکی ڈانٹ سنتا رہا ۔۔۔۔
بابا آپ کو پتا ہے ۔۔۔میں یہاں ۔۔۔۔
ہاں پتا ہے ۔۔۔کہ تم وہاں اپنی کھوئی ہوئی محبت پانے گئے ہو ۔۔۔نہ جانے آج کل کی نوجوان نسل کو کیا ہوتا جارہا ہے ۔۔ایک محبت کے لئے اپنا کیرئیر تباہ کر دیتے ہیں ۔۔اور محبت بھی ایسی کے جو پل میں ماشہ اور پل میں تولا ۔۔۔
وہ دیوار سے ٹیک لگائے بابا کی بات توجہ سے سننے لگا جبھی روم سے نکلتی تابین اسکے سامنے سے گزر کر جانے لگی ۔۔
اسنے جلدی سے اسکی نازک کلائی اپنی گرفت میں لیتے ہوئے روکنا چاہا ۔۔۔
یہاں اچھی سے اچھی انٹر نیشنل جاب مل سکتی ہے تمہیں ۔۔اپنا بزنس سمبھالنا ہے تم نے ۔۔۔مسٹر احمد کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ تابین کو غور سے دیکھنے لگا ۔۔
جسکی نقاب سے جھانکتی سوجی ہوئی لال آنکھیں کچھ سوال کرنے کو تھیں ۔۔۔
میرا ہاتھ چھوڑو ۔۔۔وہ غصے میں غراتے ہوئے حذیفہ سے کہنے لگی ۔۔
تم ٹھیک ہو ۔۔۔۔بابا کا فون بند کرتے ہی وہ تشویش سے اس سے پوچھنے لگا ۔۔۔
ان حالات میں ۔۔۔میں ٹھیک ہو سکتی ہوں ۔۔۔زہر خند لہجے میں اس نے جواب دیا ۔۔۔
ہاں ان حالات میں ٹھیک ہو بھی کون سکتا ہے ۔۔یقین ہی نہیں آرہا ۔۔۔۔۔حذیفہ رسانیت سے کہنے لگا ۔۔۔
شکور ۔۔۔۔۔شکور ۔۔۔۔فون بند ہوتے ہی وہ غصے میں ملازم کو آوازیں دینے لگے ۔۔۔
جی صاحب ۔۔۔ملازم نے تابعداری سے جواب دیا ۔۔۔
ڈرائیور کو بولو گاڑی نکالے ۔۔۔روعب دار لہجے میں انہوں نے کہا ۔۔۔
کہاں جائیں گے آپ اس وقت ۔۔۔مسز احمد نے تشویش سے پوچھنا چاہا ۔۔۔
تمہارے بگڑے ہوئے لاڈلے کی عقل ٹھکانے لگانے ۔۔۔
یہ کہتے ہی وہ باھر کی جانب بڑھ گئے ۔۔۔۔
یا اللہ خیر ۔۔۔۔میرے بچے کی حفاظت کرنا ۔۔۔وہ اللہ پاک سے دعائیں مانگتی ہوئیں زرش کے پاس جانے لگیں ۔۔۔
۔*************۔
یہ حالات بھی تم نے خود ہی پیدا کئے ہیں ۔۔۔۔ایک جھٹکے سے اس نے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا ۔۔۔
میں نے ۔۔۔۔۔؟ حذیفہ کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا ۔۔۔۔
نہ تم ۔۔سر حمید سے پنگا لیتے ۔۔۔اور نہ وہ باسط سے بدلہ اس انداز میں لیتے ۔۔۔۔
مطلب تمہارا مطلب ہے یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے ۔۔۔۔؟ وہ غصے میں بولا ۔۔۔
ہاں ۔۔۔۔۔ہم بچا سکتے تھے اسے ۔۔۔اسے روک سکتے تھے ۔۔مگر نہیں ۔۔۔تمہیں تو ہیرو بننا تھا ۔۔۔میرا ہاتھ پکڑ کر روک لیا مجھے ۔۔۔وہ روتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔
مطلب تم اس سب کا ذمہ دار مجھے ٹہرا رہی ہو ۔۔۔وہ اسکے اوپر جھکتے ہوئے غصے سے غرایا ۔۔۔
کاش کے کبھی دوبارہ ہمارا سامنا ہی نہ ہوتا ۔۔اگر ہوا تو کاش تم حذیفہ نہ ہوتے ۔۔۔میرے یوسف نہ ہوتے ۔۔۔چلے جاؤ یہاں سے ۔۔۔نہ جانے وہ اسے کیا جتاتے ہوئے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے چلی گئی ۔۔۔
I can’t believe this ۔۔۔۔
دیوار پر مکہ برساتے ہوئے اس نے غصے کو کم کرنا چاہا ۔۔
۔************۔
کہاں جارہی ہو ۔۔۔؟ اسے بیڈ سے اٹھتے دیکھ کر اندر آتی ماروی جلدی سے بولی ۔۔
میں تھک گئی ہوں لیٹے لیٹے ۔۔باھر جانا چاہتی ہوں ,۔۔لہجے میں بیزاری نمودار کرتے ہوئے وہ بولی ۔۔۔
تم ٹھیک نہیں ہو ۔۔اور اس حالت میں ۔۔۔
پلز میں اب بلکل ٹھیک ہوں ۔۔۔یوں کہہ کر مجھے اور بیمار نہ کریں ۔۔۔وہ بیچ میں ماروی کی آواز کاٹتے ہوئے بولی ۔۔۔
اچھا ۔۔آؤ میں لے چلتی ہوں ۔۔۔۔
نہیں میں چلی جاؤں گی ۔۔۔
چلو میں لے چلتی ہوں ۔۔۔۔ماروی نے اسے اکیلے جانے سے منا کیا اور خود اسکے ساتھ چل دی ۔۔۔
۔************۔
۔۔
یار یہ تمہاری کزن پاگل ہو گئی ہے ۔۔آکر سمبھالو اسکو ۔۔۔کہاں ہو تم ۔۔۔۔۔؟ کافی دیر سے اسے ہسپتال میں نہ پاکر حذیفہ نے اسے فون ملایا ۔۔۔
میں ایک کام سے جارہا ہوں ۔۔گاڑی میں بیٹھتے ہوئے اسنے جواب دیا ۔۔۔
اس سے بھی کوئی ضروری کام ہو سکتا ہو جو تم یوں بنا بتائے ہسپتال سے نکل گئے ۔۔۔حذیفہ اس پر بر س پڑا ۔۔
ہمم ۔۔۔اس سے بھی بڑا کام کرنے jجارہا ہوں ۔۔۔۔وہ دبے لہجے میں بولا ۔۔۔
کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔حذیفہ کو حیرت ہوئی ۔۔۔
دیکھو اگر تم نے کوئی ایسا ویسا کام کیا جس سے ہم اور مشکل میں پڑ جائیں ۔۔۔تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا ۔۔۔حذیفہ نے اسکے ارادے بھانپتے ہوئے اسے باور کرایا ۔۔
لیکن جب تک میں نے اس حمید کو سبق نہ سکھایا ۔۔تب تک میں چپ نہیں بیٹھوں گا ۔۔۔وہ غصے سے بولا ۔۔
یہ غصہ بھی اسے تب چڑھا جب سر حمید کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دیکھا ۔۔انکا کہنا تھا کہ ۔۔۔
” باسط نے ایگزیم میں چیٹنگ کی جسکی وجہ سے اسے ریسٹیگریٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔۔اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے باسط نے خود کشی کرنے کی کوشش کی ۔۔” اور اسی طرح کی نہ جانے اور بھی باتیں کرنے لگے جنکا تو نہ اس معملے سے تعلق بھی تھا ۔۔
۔***************۔
تم بیٹھو یہاں پر میں ابھی آتی ہوں ۔۔۔ماروی اسے ایک بینچ پر بٹھا کر خود ڈاکٹر کے پاس جانے لگی ۔۔جس نے ایک نرس کے ذریعے اسے پیغام بھجوایا تھا ۔۔۔
اور خبردار ۔۔۔۔۔۔۔!!!!!
جو تم یہاں سے ہلی بھی تو ۔۔۔میں ابھی آتی ہوں ۔۔۔ساتھ میں اسے باور بھی کرا گئی ۔۔۔
وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بیٹھ کر آس پاس دیکھنے لگی ۔۔۔
جبھی اسکی نظر اچانک تابین پر پڑی جو مناہل کو ساتھ لئے آئی سی یو سے باھر نکل رہی تھی ۔۔۔
آئی سی یو ۔۔۔۔!!!!!!!
مناہل کی حالت دیکھتے ہوئے وہ بڑبڑائی ۔۔۔
اسے کسی انہونی کا احساس ہوا ۔۔۔
جبھی ایک جھٹکے سے اٹھ کر جانے لگی ۔۔۔اچانک اٹھنے کی وجہ سے اسکا سر چکرانے لگا ۔۔۔
جبھی خود کو سمبھالتے ہوئے وہ آئی سی یو کی جانب بڑھ گئی ۔۔۔
۔**************۔
وہ ڈرائیونگ کرنے کے ساتھ ساتھ ۔۔۔منصوبہ بندی بھی کر رہا تھا جبھی ۔۔۔سڑک پر اچانک کسی کے آجانے سے اسے بریک لگانا پڑیں ۔۔۔
اسکے منہ سے ابھی گالی نکلنے ہی والی تھی کہ سامنے کھڑے بندے کو غور سے دیکھ کر وہ ٹھٹھکا ۔۔
سڑک پر ۔۔سنجیدہ تاثرات لیئے ۔۔ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو ئے حذیفہ کو دیکھ کر اوہ گاڑی سے اتر آیا ۔۔
تم ۔۔۔تم یہاں کیا کر رہے ہو ۔۔۔۔۔؟ حدید اسکی جانب بڑھتے ہوئے بولا ۔۔۔۔
*******
اشرف یعقوبی: جدید احساسات اور خوبصورت خیالات کا شاعر
اشرف یعقوبی کا کولکاتا مغربی بنگال سے ہے، آپ جدید احساسات اور خوبصورت خیالات کے شاعر ہیں ان کی غزل...