افسانے میں کردار ایک ناگزیر حصہ ہے۔ ہر عہد میں کرداریات پر گفتگو ہوتی رہی ہے۔ اہل یونان سے لے کر دور حاضر کے ادیبوں، مفکروں اور حیاتیاتی ماہرین کرداروں کی تشکیل و تعمیر میں کارفرما عناصر کا مطالعہ کرتے رہے ہیں۔ اور یہ بلاشبہ حقیقت ہے کہ اب اس ضمن میں ہونے والے مطالعے کو باقاعدہ ایک سبجیکٹ (Subject) کا درجہ حاصل ہو چکا ہے۔
شمس الرحمن فاروقی کردار نگاری کو افسانے میں دلچسپی کا ایک اہم سبب سمجھتے ہیں۔کیونکہ وہ یہ بات جانتے ہیں کہ ’’کہانی عام طور پر کردار اور واقعے کے آپسی تفاعل (Interaction)سے وجود میں آتی ہے۔‘‘[74] وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ افسانہ صرف واقعات کے سہارے نہیں بنتا بلکہ ’’واقعات اسی وقت افسانہ بنتے ہیں۔۔۔جب وہ ایسے لوگوں پر واقع ہوں یا ایسے لوگوں کے ذریعے واقع ہوں جو ہمیں انسانی سطح پر متحرک اور متوجہ کر سکیں۔‘‘[75]وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’افسانہ ایسی بات کا تقاضا کرتا ہے جس کے بارے میں ہمیں کرید ہو، جس کے کرنے والوں سے، یا ان لوگوں سے جن پر وہ بات واقع ہو رہی ہے ہمیں انسانی سطح پر دل چسپی ہو۔ ایسے لوگوں کو آپ کردار بھی کہہ سکتے ہیں۔‘‘[76]اور پھر کردار کو مزید واضح کرتے ہیں کہ ’’ہر کردارانسانی صفات کا حامل ہونا چاہیے، کردار سے مراد کوئی بھی شخص، کوئی بھی شے ہے جو افسانے میں کوئی عمل براہ راست کرتی ہے۔‘‘[77]لیکن پھر ایک جگہ لکھتے ہیں :
’’کردار سازی کا کڑا کوس اب وہ معنی نہیں رکھتا جو پریم چند بلکہ منٹو کے زمانہ تک تھا۔ اس وقت کردار سازی میں سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ افسانہ نگار کی اپنی ذاتی پسند یا نا پسند اس کی کردار نگاری میں جھلک اٹھتی تھی اور قاری کی آزادی خطرے میں آ جاتی تھی۔ اس لیے قاری ہر اس افسانے کو مسترد کرنے پر مائل رہتا تھا جس میں افسانہ نگار اپنی پسند یا ناپسند یا اپنے اخلاقی فیصلوں کو قاری پر مسلط کرنا چاہتا تھا۔ لیکن کردار سازی کی اور بھی صورتیں ہیں۔ کافکا کی مثال سامنے ہے۔ ایک اور صورت Irony کی ہے۔ یعنی کردار کو اس طرح نہ بیان کیا جائے جیسا کہ وہ در اصل ہے، لیکن پڑھنے والے پر دونوں پہلو روشن ہوں (یا روشن ہو سکتے ہوں، اگر وہ اردو کا نقاد نہ ہو۔)‘‘[78]
ان اقتباسات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ فاروقی کو افسانے میں کردار کی اہمیت سے انکار نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ کردار وہ کوئی بھی چیز ہو سکتی ہے جس سے انسانی دلچسپی استوار ہو سکتی ہے۔تیسری بات یہ ہے کہ کردار کس طرح تخلیق کیا جائے ؟ ایک پریم چند کے تخلیق کردہ کردار ہیں، جو فاروقی صاحب کے نزدیک اب کوئی معنی نہیں رکھتے اور دوسری صورت Irony والی ہے۔ فاروقی کے ان نکات پر اگر مکالمہ قائم کیا جائے اور بحث کو صحت مند ڈھنگ سے آگے بڑھایا جائے تو واضح تصویر ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے سے سامنے آ سکتی ہے کہ کردار کیا ہے ؟ افسانوی کردار کسے کہتے ہیں ؟ حقیقی اور افسانوی کرداروں کے درمیان کیا کوئی فرق ہے یا دونوں ایک ہیں ؟ افسانوی کردار سازی کے مختلف طریقۂ کار کیا ہو سکتے ہیں ؟ وغیرہ۔ ذیل میں انھیں سوالات سے بحث کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اس سے قبل کہ میں کردار پر بات کروں یہ عرض کر دوں کہ افسانہ مختصر کینوس کا متحمل ہوتا ہے اور اس وجہ سے اس میں کردار نگاری کے اتنے امکانات نہیں ہوتے، جتنا کہ ناول یا ڈرامے یا دوسرے طویل بیانیوں کے حصہ میں آتے ہیں۔ انتن چیخوف کے افسانوں کا جدید ناقد چارلس ای مے (Charles E. May) اس کی کہانیوں کے کرداروں کی بات کرتے ہوئے کہتا ہے :
“The short story is too short to allow for the character to be created by the kind of dense and social interaction through duration typical of the novel”[79]
ناول کی طرح گہرے، پیچیدہ اور سماجی تفاعل والے کرداروں کی اجازت دینے کے لیے افسانہ بہت مختصر ہے۔ یعنی ناول میں جس طرح کی کردار نگاری ممکن ہے وہ افسانے کا حصہ نہیں ہے۔کیونکہ افسانہ مختصر ہوتا ہے۔کردار کے حوالے سے مختلف قسم کی رائیں پیش کی گئی ہیں۔ رولاں بارت کہتا ہے کہ ’’آج کے ناول میں جو چیز متروک ہوتی جا رہی ہے وہ ناول پن یا قصہ پن نہیں بلکہ کردار ہے۔ وہ چیزجس کا لکھنا اب ممکن نہیں، اسم معرفہ ہے ‘‘۔اور بقول کلر (Culler) ’’وضعیاتی نقادوں کے نزدیک کردار محض فرضی ہے۔‘‘[80] اے جے گرائما (A.J.Greimas) نے کلاسیکی بیانیہ کے کرداروں کو کردار کے بجائے ’’عامل‘‘ یعنی Actant کہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ کوئی ضروری نہیں کہ کلاسیکی بیانیہ میں عامل اس طرح کے صفات کا حامل ہو جن صفات سے ہم ناول کے کردار کو متصف دیکھتے ہیں۔ اس کا خیال ہے کہ ضروری نہیں کہ عامل کوئی انسان یا ذی روح ہو۔ کوئی بھی شے عامل کا کام کر سکتی ہے۔[81] وکٹر اشکلاوسکی (Viktor Shklovsky)کا دعوی ہے کہ کردار کچھ نہیں ہوتا، وہ محض واقعات کو آشکار کرنے کا ایک طریقہ ہے۔اور واقعات کچھ نہیں ہیں، سوائے متن، یا کلام کو آشکار کرنے کے طریقے۔[82]جبکہ ہنری جیمس کا دعوی ہے :
’’کردار اور کیا ہے، بس واقعے کو متعین کرنے والی شے۔ واقعہ اور کیا ہے، بس کردار]کے خواص[ کے لیے مثال۔ کسی تصویر، یا کسی ناول میں کون سی شے ہے جس کی اصل کردار سے نہیں ؟وہ اور کیا شے ہے جسے ہم اس میں تلاش کرتے ہیں اور اس میں پاتے ہیں ؟[83]
وکٹر اشکلا وسکی کا اوپر مذکور قول در اصل ہنری جیمس کے اسی دعوے کا جواب ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ناول سے کردار ختم ہو گیا ہے ؟ یا پھر کیا واقعی ایسا ممکن ہے کہ بیانیہ سے کردار کا اخراج ہو جائے ؟ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے لیکن یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ بیانیہ کے تانے بانے میں چاہے خفیف اور دھندلے کردار ہی کیوں نہ ہوں، اس نے اپنے اندر ابھی تک وہ جگہ محفوظ رکھی کہ ان کے تفاعل کو مناسب طرح سے بیان کیا جا سکے۔یہ الگ بحث کا موضوع ہے۔ ابھی ہم اپنی توجہ افسانے میں کردار نگاری کے مسئلے پر ہی مرکوز رکھتے ہیں۔
کردار کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔پہلا معنی یہ ہے کہ افسانے میں موجود کوئی شخص (اسم معرفہ) کردار کہلاتا ہے۔ جیسے لاجونتی، مادھو، گھیسو، بھولا، بابو گوپی ناتھ، شنکر، سلطانہ، بدھیا وغیرہ افسانوی کردار ہیں۔در اصل افسانے یا کہانی میں کوئی ایک خاص یا مرکزی کردار ہوا کرتا ہے جو مرکزی کہانی کے ارتقا کے ساتھ بندھا ہوتا ہے یا اس کے حرکات و اعمال کے نتیجے میں واقعات رونما ہوتے ہیں اور کہانی اس سے جڑی رہتی ہے۔ ایسے کردار کو انگریزی میں Protagonist کہتے ہیں۔ ان کرداروں سے جو کردار ٹکراتے ہیں یا ان کی مخالفت میں جو کردار پیش کیے جاتے ہیں انھیں Antagonist کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ وہ اشخاص ہیں جو افسانے کے واقعات سے متعلق ہوتے ہیں، جن پر یا جن کے ذریعہ واقعہ وجود میں آتا ہے اور انھیں ہر قاری آسانی کے ساتھ جان لیتا ہے۔ کردار کا دوسرا معنی اشخاص کی خصوصیات (Characteristics)یا اوصاف بھی ہے۔ کردار کے حوالے سے اسے ہم اسم صفت بھی کہہ سکتے ہیں۔کہانی کو اگر دلچسپ بنانا ہے تو اس کے کردار کو حقیقی محسوس کرانا ضروری ہے یا اس کی پیشکش اس ڈھنگ سے کرنی ہو گی کہ وہ قاری کو ماورائی دنیا کا نہیں، بلکہ اپنے ہی جہان کا مسافر لگے اور قاری خود کو اس سے جوڑ سکے۔ کرداروں کو حقیقی کرداروں جیسا پیش کرنا ایک اہم مرحلۂ عمل ہے اور اسی لیے اس کے خواص یا اوصاف افسانہ نگار افسانے میں قاری کے سامنے بیان کرتا ہے۔ اس کے لیے کئی طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ جیسے اس کی جسمانی ساخت، اس کے خیالات، اس کے احساسات، اس کے خواب، اس کے اعمال و افعال اور اس کے متعلق دوسروں کے نظریات وغیرہ افسانے میں پیش کیے جائیں۔ کیونکہ یہی وہ چیزیں ہیں جو کسی بھی افسانوی کردار کے بارے میں قاری کو معلومات فراہم کراتی ہیں۔
اسی لیے جو افسانے بے نام کرداروں پر مشتمل ہوتے ہیں ان میں ’وہ‘، ’میں‘، ’تیسرا آدمی‘، ’لنگڑا آدمی‘،’بھائی‘، ’بہن‘، ’نوجوان‘، ’بوڑھا‘ وغیرہ افسانوی کردار کے ہی زمرے میں آتے ہیں۔کتا، بھیڑ، بکری، اونٹ، ہاتھی یا دوسرے جانور بھی افسانوی کردار بن سکتے ہیں۔ پریم چند کے افسانے ’پوس کی رات ‘ میں ’جھبرا‘ (کتا) ایک کردار کے طور پر پیش ہوا ہے۔ حالانکہ ممتاز ناقد وارث علوی نے جن کے نام نہیں، انھیں کردار ماننے سے انکار کیا ہے۔یہ باتیں انھوں نے شمس الرحمن فاروقی پر تنقید کرتے ہوئے کہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں :
’’کردار اگر بے نام ہیں تو وہ کردار رہتے ہی نہیں کیوں کہ کردار اپنی شناخت نام ہی سے پاتا ہے۔ ایسے کرداروں کو جن کا نام نہیں، صفات سے مشخص کرنے کی بات بھی بے معنی ہے۔ کیوں کہ صفات کا تعلق ذات سے ہے اور جب کردار نے ذات اور صفات پیدا کر لیں تو وہ اپنے طبقے کے دوسرے کرداروں سے ممیز ہو گیا۔ مثلاً اگر باپ کا کردار بے نام ہے، اس کی کوئی ذاتی صفات نہیں، تو محض ایک باپ ہے، جو باپ کے نمائندہ رویوں کی علامت ہے، لیکن اگر باپ جابر ہے، سخت گیر ہے، بے رحم ہے تو وہ دوسرے باپوں سے مختلف ہے اور اسی لیے وہ اب نمائندہ یا ٹائپ یا علامت کی سطح سے بلند ہو کر کردار کی سطح میں داخل ہو گیا۔‘‘ [84]
وارث علوی کی یہ بات درست نہیں لگتی کہ نام کے بغیر کردار کی کوئی شناخت نہیں ہوتی اور علامت کی سطح سے بلند ہو کر کردار کی سطح میں داخل ہونے کا کوئی مطلب سامنے نہیں آتا۔کیونکہ ایسے بھی کردار ہوتے ہیں جن کے نام ہونے کے باوجود وہ اپنا ایک علامتی پس منظر اپنے ساتھ وابستہ رکھتے ہیں۔ ایسی صورت میں تو ہمیں بہت سارے افسانوں کو بے کردار کہنا ہو گا۔ جن میں ضمائر کردار ہیں اور کچھ نہیں تو راوی ہی اس کا کردار ہے۔ آپ خود سوچیں کہ کس افسانے کے راوی کا نام ہوتا ہے ؟ حالانکہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ افسانے کا راوی افسانے کا کردار بھی ہوتا ہے۔ متکلم افسانوں کے اسماء تو عموماً افسانوں کا حصہ ہوتے ہی نہیں۔ اگر وارث علوی مرحوم کی بات سچ مان لیں تو بہت سے بہترین افسانوں کے وجود سے انکار لازم آئے گا۔چونکہ افسانے میں بہر حال کردار کا ہونا لازمی امر ہے کہ افسانہ واقعے سے بندھا ہوا ہے اور واقعہ کسی نہ کسی پراور کسی نہ کسی کے ذریعے ہی واقع ہوتا ہے۔ در اصل ہم واقعہ اور کردار کو ایک دوسرے سے الگ کر ہی نہیں سکتے۔ کیونکہ واقعہ کردار کے بغیر ممکن نہیں اور بغیر کردار کے واقعہ کا تصور نہیں کیا جا سکتا ہے۔اس لیے میں جہاں تک سمجھ سکا ہوں اگر کوئی شے واقعہ کے ٹھہرے ہوئے منظر میں ارتعاش پیدا کر سکتی ہے، وہ افسانوی کردار بن سکتی ہے۔ کہانی میں چاہے اس کا تذکرہ بار بار ہو یا ایک بار، اگر وہ واقعہ میں ایک مضبوط حسی پیکر کی صورت میں موجود ہے تو کہانی کا کردار بن سکتا ہے۔منجملہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ واقعے میں یا افسانے میں کردار اشخاص، ضمائر، جاندار، غیر جاندار، انسان، جانورسب ہو سکتے ہیں چاہے ان کے اسماء ہوں یا نہ ہوں۔ یعنی ’خدیجہ‘، ’نصیر‘ سے لے کر ‘وہ‘، ’میں ‘، ’لنگڑا‘، ’اندھا‘، ’جھبرا‘، بے نام جانور اور دیگر اشخاص افسانے کے کردار بن سکتے ہیں اور کردار ہوتے ہیں۔
افسانوں میں کردار نگاری پر بات کرتے ہوئے عموماً یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ ’اس میں کردار نگاری اچھی نہیں ہے کیونکہ اس کے کردار اصلی نہیں ہیں یا مثبت نہیں یا حقیقی نہیں ہیں وغیرہ۔ یہاں کرداروں کی تشکیل کے حوالے سے ماہرین سماجیات کی جانب سے پیش کیے گئے نکات کا جاننا فائدے سے خالی نہیں۔ سماجیات کے ماہرین کے مطابق کسی مخصوص کردار کے حوالے سے مصنف کا ذاتی تجربہ یا موجودہ کردا رکی غیر معمولی صلاحیت جو مصنف کو اس کے بارے میں لکھنے پر مجبور کر دے، کرداروں کی تخلیق کا سبب ہوا کرتی ہے۔ ساتھ ہی ممکن ہے کہ بیان کیا جانے والا کردار خود مصنف کا کردار ہو جس کی نمائندگی کسی اور نام سے ہو رہی ہویا کبھی کبھی زمانہ، ماحول Localeیا زمان و مکان ملے جلے کردار کے طور پر ابھر سکتے ہیں۔[85] ایسی صورت میں صرف یہ کہہ دینا کہ کردار نگاری اچھی نہیں وغیرہ، مبنی بر انصاف نہیں، بلکہ یہ ناقد کی تن آسانی کا ثبوت ہے۔ ہمیں کردار کی تشکیل کے اسباب اور ان عناصر تک رسائی حاصل کرنی ہو گی جو اس کے وجود میں آنے کا سبب ہیں۔ یقیناً افسانے میں افسانہ نگار جو کردار تخلیق کرتا ہے وہ عام زندگی میں نظر آنے والے کرداروں سے ذرا مختلف ہوتے ہیں۔ کیونکہ افسانہ نگار معاشرے کا وہ با شعور فرد ہے جو اشیا و اشخاص کو ایسی گہری نظر سے دیکھتا ہے جو عام لوگوں کے لیے ممکن نہیں اور اسی لیے جب وہ کوئی کردار خلق کرتا ہے تو وہ اس کے بظاہر کسی مخفی پہلو کو ہمارے سامنے پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اس کی چھپی ہوئی زندگی کو عیاں کرنا چاہتا ہے۔یہ بات قابل توجہ ہے کہ اگر ہمیں افسانے میں بھی وہی چیزیں دستیاب ہوں جو ہم اپنی اصل زندگی میں دیکھتے یا حاصل کرتے ہیں تو پھر افسانے کا مطلب کیا ہوا؟ افسانہ در اصل کرداروں کی چھپی ہوئی زندگیوں کی جہتوں کو باہر لاتا ہے۔ منٹو کے کرداروں کو مثال کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ جہاں ایشر سنگھ جیسا کردار موجود ہے، جس کے ظاہر سے یہی اندازہ ہو گا کہ وہ ظالم قسم کا کردار ہے وغیرہ وغیرہ، مگر افسانہ نگار اس کے متعلق ایک بظاہر پوشیدہ بات سامنے لاتا ہے کہ اس کے اندر ایک ضمیر بھی ہے جو اسے کچوکے لگاتا ہے۔ یا پھر طوائفوں کے کردار دیکھ لیں۔ سوگندھی کی مثال سامنے کی ہے۔ اس کے علاوہ ’کفن‘ کی مثال لے لیں۔ افسانہ نگار انہی واردات یا واقعات کا انتخاب کرتا ہے جو ہمیں کردار کی باطنی زندگی سے روشناس کراتے ہیں۔ اس لیے یہاں حقیقی کرداروں اور افسانوی کرداروں کے درمیان فرق ہو جاتا ہے۔ آپ ایک شخص کے ساتھ برسوں ہوتے ہوئے بھی اس کے باطن کا پتہ نہیں لگا پاتے لیکن جب کوئی تخلیق کار کسی ایسے پہلو کو سامنے لاتا ہے، جو آپ اس کے اندر دیکھنے میں ناکام رہ گئے تھے، یا وہ پہلو کسی نفسیاتی یا خارجی سبب کی بنا پر سامنے آ نہیں سکا تھا تو آپ یہ کہنے لگتے ہیں، کہ یہ کردار تو حقیقی نہیں۔ اگر آپ کو وہی کردار دیکھنا یا پڑھنا ہے جس سے آپ روزانہ دوچار ہو رہے ہیں تو پھر افسانہ کیوں پڑھ رہے ہیں ؟ افسانہ اس حقیقت سے آگے کی سچائی ہے، جو اس کردار کی اصل حقیقت کو سامنے لاتا ہے۔ لیکن یہیں ایک سوال جنم لیتا ہے کہ آخر قاری اسے کیوں خیالی، یا مصنوعی کردار سمجھنے لگتا ہے ؟ اس بارے میں اگر غور کریں تو جو باتیں سامنے آتی ہیں ان میں ایک یہ کہ افسانہ نگار کردار کی پیشکش میں ناکام رہا ہے۔ یعنی اس نے کردار کو جس طرح سے پلاٹ میں ڈھالا ہے وہ یقین آمیز طریقے سے اس کی حقیقت کو عیاں کرنے سے قاصر رہا ہے۔ اور دوسری وجہ قاری کی فہم ہے۔یعنی قاری اس بات پر راضی ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے تصورات کو حقیقی دنیا سے الگ کر کے افسانے کی دنیا میں لے آئے اور کردار کو اس افسانوی دنیا کے پس منظر میں دیکھے۔ اس صورت میں یہ لازم آتا ہے کہ وہ جس چیز کو حقیقی سمجھتا ہے اس کو غیر حقیقی سمجھنے پر رضا مند نہیں ہو سکتا۔ دیویندر اسّرنے لکھا ہے :
’’ادب میں تو اپنی رضا سے غیر یقینی کیفیت کو تیاگنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ لہٰذا افسانوی کردار کے بارے میں نقاد اور قاری ہمیشہ اس بحث کو جاری رکھیں گے کہ کیا حقیقی ہے ؟ جسے افسانہ نگار حقیقی سمجھتا ہے وہ قاری کے نزدیک غیر فطری ہے اور جسے قاری حقیقی سمجھتا ہے وہ افسانہ نگار کے لیے سطحی ہے۔ ویسے بھی بے چارے ادیب سے ہر قسم کے مطالبے کیے جاتے ہیں۔۔۔۔یہی وجہ ہے کہ خواندہ مگر غیر تربیت یافتہ پڑھنے والوں کی تسلی کے لیے افسانہ نگار کبھی بھی کوئی کردار مکمل پیش نہیں کر سکتا۔ کردار نگاری کو کامیاب بنانے کے لیے افسانہ نگار کچھ تو قاری کے تصور حقیقت کو قبول کرے گا تاکہ وہ افسانے کو پڑھ سکے اور کچھ اپنا تصور پیش کرے گا تاکہ کردار میں بصیرت ملے۔ اس بات میں خطرہ ہے کہ کردار مسخ ہو جائے اور مسخ شدہ کردار اور حقیقت نامکمل ہے اور نامکمل کردار زندگی اور افسانہ دونوں کے نقطۂ نظر سے غیر حقیقی ہوتے ہیں۔‘‘[86]
فی الحقیقت فن کار سے اس طرح کا مطالبہ فن پارے کے لیے سم قاتل ثابت ہوتا ہے۔ در اصل فن پارے کا خالق ہی کردار کا بھی خالق ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں اس کے بارے میں جو علم خالق کے پاس ہے وہ علم قاری کے پاس نہیں ہو گا۔ اس لیے اگر ہم اس کردار کو افسانے کی دنیا میں ہی رکھ کر دیکھیں تو ہمیں اس کے حقیقی یا غیر حقیقی ہونے کا صحیح فیصلہ کرنے میں آسانی ہو گی۔ کیوں کہ بہر حال افسانے میں جو دنیا خلق کی گئی ہے وہ افسانہ نگار کی پیدا کی ہوئی دنیا ہے اور وہ ہماری اصل دنیا سے میل کھاتے ہوئے بھی مختلف ہوتی ہے، تو کرداروں کے اندر لامحالہ کچھ امتیازات ہونا طے ہیں۔ای۔ ایم فاسٹر نے اس حقیقت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا ہے کہ کردار حقیقی لوگوں کی طرح ہو تے ہیں، حقیقی لوگ یا اشخاص نہیں ہوتے اور کبھی کبھی وہ ہمارے آس پاس موجود لوگوں سے بھی زیادہ حقیقی ہو سکتے ہیں۔اس نے اپنے مضمون Aspects of the Novel میں لکھا ہے :
“The aesthetic reply, to the effect that the novel is a work of art, with its own laws, which are not those of daily life, and that a character in a novel is real when it lives in accordance with such laws”.[87]
اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ افسانہ(ناول)ایک فن پارہ ہے جس کے اصول روز مرہ کی زندگی کے اصولوں کی طرح نہیں ہیں۔ اس لیے اگر کردار اصلی ہے تو اس کو پرکھنے کا معیار روزہ مرہ کی زندگی نہیں ہو سکتی بلکہ کہانی کی وہ دنیا ہے جس میں وہ پیدا ہوا ہے۔یعنی کہ افسانے میں کردار کی حقیقت کا تعلق اسی متن کی دنیا کے دائرے میں رکھ کر دیکھنا بہتر ہے۔دیویندر اسّرنے لکھا ہے :
’’ایک حقیقی کردار کا افسانوی کردار بننا اور ایک افسانوی کردار کا حقیقی شکل اختیار کر لینا ہی کردار نگاری کے فن کا کرشمہ ہے۔ زندگی کے حقیقی کرداروں کو فن کے افسانوی کرداروں میں ڈھونڈنے کی کوشش میں ہم زندگی اور فن دونوں کو کھو بیٹھتے ہیں۔ مگر حقیقی کردار کی روح کو افسانوی پیکر عطا کر کے اسے پھر حقیقی کردار بنا دینے میں ہم زندگی اور فن دونوں حاصل کر لیتے ہیں۔‘‘[88]
کردار نگاری کے تعلق سے بحث کرتے ہوئے ناقدین نے اس کے اقسام بیان کیے ہیں۔ارسطو کے شاگرد تھیو فراسٹس نے کرداریات کے حوالے سے بنیادی نظریات پیش کیے ہیں۔ اس نے Ethical Characters میں تیس قسم کے کرداروں کا ذکر کیا ہے اور ہر کردار کے تشکیلی عناصر سے بحث کی ہے جس کا اثر ہمیں سترہویں اور اٹھارہویں صدی کے مغربی ادب پر بھی نظر آتا ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ افسانے کا کینوس چونکہ اختصار کا متقاضی ہے اس لئے اس میں زیادہ کرداروں کی گنجائش نہیں ہوتی۔ افسانے میں کم سے کم ایک اور زیادہ سے زیادہ دس کردار ہونے چاہئیں۔ان میں سے ایک مرکزی کردار ہوتا ہے اور باقی ذیلی کردار ہوتے ہیں۔مرکزی کردار وہ ہوتا ہے جس کے گرد کہانی گھومتی ہے اور ذیلی کردار کہانی کو آگے بڑھانے میں افسانہ نگار کی مدد کرتے ہیں۔ مرکزی اور ذیلی کرداروں کی نوعیت دو طرح کی ہوتی ہے۔زندہ اور متحرک نیز بے جان اور ساکت۔زندہ اور متحرک کردار جیتا جاگتا ہوتا ہے۔کسی بھی انسان میں نہ تو صرف اچھائیاں ہوتی ہیں نہ صرف برائیاں۔اگر کسی انسان میں اچھائیاں زیادہ ہیں اور برائیاں کم تو ہم اسے ایک اچھا انسان کہتے ہیں۔بر خلاف اس کے اگر کسی شخص میں برائیوں کا حصہ زیادہ ہے تو ہم اسے برا کہتے ہیں۔ افسانے میں ہم جس کردار کو پیش کر رہے ہیں ہمیں اس کی اچھائیوں اور برائیوں دونوں کو اجاگر کرنا ہو گا تبھی ہم ایک زندہ اور متحرک کردار تخلیق کر سکتے ہیں۔زندہ اور متحرک کردار کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ وہ افسانہ نگار کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن کر نہیں رہتا بلکہ اپنے اعمال اور افعال کا خود مالک ہوتا ہے۔جبکہ بے جان اور ساکت کردار افسانہ نگار کے اشاروں پر کام کرتا ہے۔وہ وہی سوچتا ہے جو افسانہ نگار سوچتا ہے اور وہی کرتا ہے جو افسانہ نگار اس سے کہتا ہے اور وہ مکالمے بھی افسانہ نگار کی زبان میں ادا کرتا ہے۔
کردار نگاری کے کئی طریقے ہیں۔ ایک طریقہ جو ہمارے یہاں بہت مقبول ہے وہ دو زمانی(Diachronic) ہے، یعنی وہ کردار جو وقت کے ساتھ ارتقا کرتا ہوا دکھایا جائے۔ یعنی انسانوں کی طرح امتداد زمانہ کے ساتھ ساتھ اس کے خواص، عادات، علم وغیرہ میں تھوڑی بہت تبدیلیاں ہوتی رہیں۔دوسرا طریقہ جس نے ہنری جیمس کے زیر اثر مقبولیت اور معتبریت حاصل کی، وہ یہ ہے کہ کردار کی داخلی کیفیات، اس کے ذہنی عوامل، اس کے اندرونی معاملات اور فکری پیچیدگیاں واضح کی جائیں۔ اس طرح کی کردار نگاری کے پیچھے بھی دو زمانی اصول کارفرما ہیں۔ کردار نگاری کا ایک طریقہ یک زمانی Synchronicہے، یہ طریقہ عموماً داستانوں میں اختیار کیا گیا ہے۔ یعنی اس کے تحت تخلیق کیے جانے والے کردار بہت چھوٹی عمر میں اپنی پوری قوتوں اور کمزوریوں کو حاصل کر لیتے ہیں اور پھر ویسے ہی رہتے ہیں۔
کچھ نقاد مثبت و منفی کردار قسم کی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں اور اس بات کا مطالبہ بھی ہوتا ہے کہ مثبت کردار پیش کرنا چاہیئے۔ پیچیدہ کردار، سپاٹ کردار، فطری، اصلی، حقیقی یا خیالی کردار وغیرہ جیسی قسمیں بھی بیان کی جاتی ہیں۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ کردار کیسا ہو گا یہ فنکار کی ذاتی بصیرت پر منحصر ہے اور یہ کہانی کے موڈ اور مواد کے رجحان سے طے ہوتا ہے۔ افسانہ نگار کا ذاتی نقطۂ نظر کردار نگاری کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے۔یہیں اس سوال کا جواب بھی مل جاتا ہے کہ وہ کس طرح کے کرداروں کو افسانے میں پیش کرتا ہے۔شمس الرحمن فاروقی کردار سازی میں ڈرامائی طریقۂ کار اپنانے کے متمنی ہیں۔ تاکہ افسانہ نگار اپنی ذاتی پسند و ناپسند سے دور رہے اور قاری کو اپنا فیصلہ کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دے۔یہ تمنا بری بات نہیں ہے بلکہ یہ بہت بہتر ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ فکشن یا افسانے میں ڈرامائی طریقۂ کار کردار سازی کے لیے استعمال نہیں ہوتا ہے لیکن اسی طریقۂ کار پر اصرار بہتر نہیں ہے۔ اس سلسلے میں وارث علوی کی بات دل کو لگتی ہے کہ ’’ڈرامائی طریقۂ کار فی نفسہ دوسرے طریقوں پر کوئی فضیلت نہیں رکھتا۔ ہر فن کار اپنے موضوع اور مواد کی ضرورت کے مطابق جو طریقہ چاہے اپنا سکتا ہے اور یہی قاری اور فن کار کا عہد نامہ ہے۔‘‘[89] راجندر سنگھ بیدی اور سعادت حسن منٹو دونوں ایک ہی عہد میں افسانے تخلیق کر رہے تھے لیکن ان کے کرداروں کی تخلیق کا انداز جدا ہے۔ منٹو نے اس کے لیے ڈرامائی طریقۂ کار اپنا یا کیونکہ وہ جن کے بارے میں افسانے خلق کر رہا تھا، انھیں اسی طرح بیان کرنا زیادہ دلچسپ اور حقیقی تھا۔ تاہم بیدی کا رویہ، بیدی کے موضوعات اور بیدی کے کردار الگ ڈھنگ سے تخلیق ہوئے ہیں اور یہ الگ ڈھب کی قرأت کے متقاضی ہیں۔در اصل کردار نگاری کے کسی طریقے کو کسی پر افضلیت حاصل نہیں ہے، نہ ہی ہم کسی طریقے کو افضل اور کسی کو مفضول کہہ سکتے ہیں۔ بقول ٹاڈاراف کلاسیکی بیانیہ میں یہ اہم نہیں کہ کس نے کیا دیکھا، بلکہ یہ اہم ہے کہ کیا دیکھا گیا؟[90]شمس الرحمن فاروقی نے ژرار ژنیت (Gerard Genette ) کا ایک قول نقل کیا ہے، وہ کہتا ہے :
’’ افسانہ اور ناول کا بنیادی کام دنیا کو بیان کرنا ہے، لیکن براہ راست نہیں، بلکہ کسی کردار کے ذہنی کوائف کے حوالے سے۔اس تکنیک کو وہ Focalisationکہتا ہے یعنی کوئی کردار دنیا کو جس طرح دیکھتا ہے، اسے دنیا کا حال بنا کر پیش کیا جائے۔لیکن ژنیت اس امکان کو بھی تسلیم کرتا ہے کہ بیانیہ کسی کردار کے ذریعہ نہیں، بلکہ کسی کردار پر مرتکز کیا جائے اور واقعات اس کردار کے اعمال کے ذریعہ، نہ اس کے ذہنی احوال کے ذریعہ ہم تک پہنچیں۔‘‘[91]
ارسطو نے ٹریجڈی یا المیہ کے کرداروں کے بارے میں چار بنیادی با توں پر توجہ دینے کی بات کہی ہے۔ اولاً کردار کو نیک ہو نا چاہیے۔ دوسرے اس کی عکاسی موزوں اور موقع و محل کے مطابق ہونی چاہیے۔ تیسرے کرداروں کو زندگی کے مطابق ہو نا چاہیے اور چوتھے ان کو مربوط و ہم آہنگ ہو نا چاہیے۔[92]در اصل کرداروں کے حوالے سے یہ بات یاد رکھنے کی ہے افسانے میں آنے والے کردار ماورائی دنیا کے نہ ہوں کہ اس وجہ سے قاری کے ساتھ ان کا رشتہ قائم ہونا مشکل ہے۔ افسانے کے کرداروں کو ہمارے گرد و پیش کے چلتے پھرتے انسانوں کی خصوصیات اور اخلاق و عادات کا حامل ہونا چاہیے۔ اگر کردار مصنوعی ہوں گے تو قاری کو متاثر نہیں کر سکیں گے۔ ایک کردار کو بلاوجہ مثالی کردار دکھانا اور دوسرے کو بلاسبب اخلاق کی پستیوں میں دھکیل دینا بھی افسانے کی ایک بہت بڑی خامی ہے۔ جس طرح عام انسان عادات و اطوار میں ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اسی طرح افسانے کے کرداروں میں بھی یکسانیت نہیں ہونی چاہیے۔ مثال کے طور پر نا پختہ نوجوانوں، پختہ کار اور جہاندیدہ بوڑھوں، عورتوں اور بچوں میں ان کی فطرت اور نفسیات کے اعتبار سے فرق دکھانا چاہیے۔افسانے کا مثالی کردار بڑا معیاری اور عام انسانوں سے بلند ہونا چاہیے لیکن اسے اس قسم کے غیر فطری اور ماورائی اوصاف سے بھی متصف نہیں دکھانا چاہیے کہ وہ ایک مافوق الفطرت انسان بن کر رہ جائے۔یہیں ایک بات اور کہ حقیقی زندگی میں چونکہ کوئی کردار یک رخی نہیں ہوتا اس لیے افسانے میں اس طرح کی یک رخی تصویریں پیش کر کے بھی کردار نگاری کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا ہے۔
کردار نگاری ایک ذمہ داری بھرا عمل ہوتا ہے۔ واقعہ کردار کے ساتھ اور کردار واقعہ کے ساتھ مل کر کہیں نہ کہیں پلاٹ کی تشکیل کرتے ہیں۔ یہ سب آپس میں اس طرح گتھے ہوئے ہیں کہ ایک کو دوسرے سے الگ کر کے دیکھنا زیادہ بہتر عمل نہیں ہے۔ اس لیے واقعہ اگر کہانی کی اصل ہے تو کردار اس کے وقوع پذیر ہونے کا سبب یا اس وقوعے سے متاثر ہونے والا لازمی عنصر۔ ایسی صورت میں دونوں کی جو بھی تصویریں بنیں گی وہ ایک دوسرے سے جڑی ہوں گی۔ یہیں سے یہ بات نکل کر سامنے آتی ہے کہ کردار واقعہ کے سہارے اپنی شناخت قائم کرے گا، وہ افسانہ نگار کے چاہنے سے عمل نہیں کرے گا۔ اور اگر کردار اس رو میں بہتا رہے تو پلاٹ کا وحدت تاثر قائم رہے گا۔اگر کردار افسانہ نگار کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی کی طرح استعمال ہونے لگا تو واقعہ، پلاٹ اور کردار، جو کہانی کے تین بنیادی عناصر ہیں بکھر جائیں گے۔ پھر افسانے کے نتائج فطری نہ ہو کر مصنوعی ہوں گے اور مصنف کی زبردستی تمام پہلوؤں پر دکھائی دے گی۔افسانہ نگار افسانوی پلاٹ کے لیے کردار کے جتنے پہلو روشن کرنے ہیں، انھیں کرے گا لیکن ان کی عکاسی کی وجہ سے وہ اپنے کسی کردار سے متعلق کوئی حتمی فیصلہ کرنے کا حق نہیں رکھتا اور نہ ہی وہ اپنے قارئین کو اس طرح کا کوئی فیصلہ کرنے کے لیے مجبور کرے گا۔
شمس الرحمن فاروقی کا نظریہ صاف ہے کہ کردار کیا کیا ہو سکتے ہیں۔ جس کا تذکرہ پہلے بھی کیا جا چکا ہے۔ البتہ انھوں نے ایک جگہ یہ بات کہی ہے کہ افسانوں میں کرداروں کو مکالمے ایسے ادا کرتے ہوئے ہونے چاہیے کہ محسوس ہو کہ انسان بول رہا ہے کوئی مشین یا کمپیوٹر نہیں۔ اور یہ بات پہلے ہوئی بحث سے واضح ہو چکی ہے کہ افسانہ نگار اپنی ذاتی رائے اس پر نہیں تھوپے گا یا قاری کو اپنا بتایا ہوا فیصلہ کرنے کے لیے مجبور نہیں کرے گا۔ کہانی کا جو تقاضہ ہے کردار اسی کے مطابق Re-act کرے گا۔وہ واقعے کے مطالبے کے مطابق اپنے اعمال و افعال انجام دے گا، نہ کہ مصنف کی خواہش و آرزو کی تکمیل کو اپنا مطمح نظر بنائے گا۔ کیونکہ اگر ایسا ہو گا تو اس میں تصنع کا غلبہ ہو گا اور قاری اس افسانے کو قبول کرنے میں ہچکچائے گا۔
٭٭٭