میرے ناول کے ہیرواور ہیروئن دونوں مجھ سے ناراض تھے، کیونکہ جب ان کی شادی کے اسباب آپ ہی آپ عین فطری طور پر انجام پار ہے تھے تو میں نے ان کا بنا بنایا کھیل چوپٹ کر دیا اور اپنی ترجیحوں کو ناول پر لاد کر انہیں آخری صفحے تک ایک دوسرے سے جدا کرنے پر اڑا رہا۔
نہیں ،میں ان دونوں کو بے حد عزیز رکھتاہوں ، مگر مشکل یہ ہے کہ اگر انہیں ایک دوسرے کے لیے جینے کا موقع فراہم کر دیتا ہے تو میری اپنی زندگی کے نشانے دھرے رہ جاتے ۔ وہ بہر حال میرے کردار تھے اور جو اور جیسے تھے، میری ہی بدولت تھے اور انہیں یہی ایک چارہ تھا کہ میری زندگی کا اسباب کرتے رہیں ۔
مگر وہ دونوں تو موقع کی تاک میں تھے۔ ایک دن نظریں بچاکر اچانک غائب ہوگئے۔میںنے ناول کے مسودے کی ایک ایک سطر چھان ماری ،ہرمقام پر انہیں اپنے ناموں کی اوٹ میں ڈھونڈتارہا، مگر وہ وہاں ہوتے تو ملتے۔
مجھے بڑا پچھتاوا محسوس ہونے لگا۔
اگر وہ مجھے کہیں مل جاتے تو میں فوراََان کا نکاح پڑھوادیتا۔ مگراب کیاہوسکتا تھا؟ میں منہ سر لپیٹ کر پڑگیا۔
آپ حیران ہوں گے کہ کئی سال بعد ایک دن وہ دونوں بہ اتفاق مجھے اپنے ہی شہر میں مل گئے۔
نہیں ،وہ مجھے بڑے تپاک سے ملے اور اپنے گھر لے گئے۔
میرے ناول کے پنوں سے نکلتے ہی انھوں نے اپنی شادی کی تدبیر کر لی تھی اور اتنے سال بعد اب تین پھول جیسے بچوں کے ماں باپ تھے اور ان کا گھر بار خوب آباد تھا۔
نہیں، انہیں اپنے سنسار میں اس قدر پھلتے پھولتے پاکر مجھے حوصلہ ہی نہ ہوا کہ انہیں ناول میں لوٹ آنے کو کہتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...