(Last Updated On: )
ڈاکٹر اظہر حیات
ڈاکٹر اظہر حیات ناگپور میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اردو اور عربی میں ایم اے کیا اور ناگپور یونی ورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ناگپور میں ایک ڈگری کالج میں لکچرر کے عہدے پر فائز تھے، سبک دوش ہونے کے بعد انجمن گرلز ڈگری کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے۔
ڈاکٹر اظہر حیات کی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں حافظ ولایت اللہ حافظ، حیات و خدمات، احمد شوقی ایک مطالعہ، لبیک (حج رپورتاژ)، آتش فشاں (ترجمہ) وغیرہ، انھوں نے اخبارات اور رسائل میں طنزیہ و مزاحیہ مضامین اور کالم بھی تحریر کئے۔ ان کے مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ’’بس کچھ نہ پوچھئے‘‘ ، زیرِ ترتیب ہے۔
بس کچھ نہ پوچھئے
محمد اظہر حیات
خدا رکھے ہمارے ایک بزرگ ہیں وضع دار۔۔ ۔۔ روایت کے پاس دارا ور تنخواہ دار کہ ایک لگی بندھی تنخواہ پر عمر کاٹ دی۔ نوکری کی، بڑی شان سے کی، پابندی سے قرض لیتے تھے اور پابندی سے چکاتے تھے۔ اللہ کے فضل سے ابھی موصوف بقیدِ حیات ہیں اور ان ہی کا ایک قول دہرانے کی ہم سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ وہ کہا کرتے ہیں کہ میاں مہینے کے تین حصے ہیں۔۔ ۔۔ مہینے کے پہلے دس دن یعنی پہلا عشرہ تر بتر، دوسرا عشرہ کاٹ کسر اور تیسرا عشرہ در بدر۔۔ ۔ ان کی اس تقسیم زبانی کو ہم اس وقت سمجھے جب خود نوکر ہوئے اور تینوں عشروں سے بنفسِ نفیس گزرنے کا اتفاق ہوا۔ رمضان کی تقسیم اکثر مولوی صاحبان سے سنی تھی کہ اول عشرہ رحمت دوسرا مغفرت اور تیسرا آگ سے نجات کا عشرہ ہے۔ مگر تنخواہ دار کے لیے ہر مہینہ چاہے وہ رمضان ہی کیوں نہ ہو زحمت ہی زحمت ہے۔ گویا پہلا عشرہ رحمت کے بجائے زحمت اور دوسرا مغفرت کے بجائے توبہ بھی قبول نہ ہوتی اور تیسرا عشرہ آگ سے نجات کی بجائے تنخواہ دار کے تن بدن میں، دل و دماغ میں آگ ہی آگ لگی ہوئی ہوتی ہے۔ تنخواہ حقیقتاً ’’تن کھا‘‘ ہوتی ہے جو تن کھاتی ہے۔ من کھاتی ہے اور صبح و شام کا چین کھاتی ہے۔
آخری عشرہ شروع ہوتے ہی ہماری جیب اور بیوی کا بٹوا اس طرح خالی ہو جاتا ہے جیسے عاشقِ نامراد کی آنکھوں سے آنسو غائب ہو جاتے ہیں۔ گھر میں رکھے اناج کے خالی ڈبے تو ہاتھ لگاتے، چڑ چڑا اٹھتے ہیں تو بس، بیتے ہوئے اچھے دنوں کی یادیں رہ جاتی ہیں۔ باقی ہر چیز دھواں دھواں، خواب خواب معلوم ہوتی ہے۔ ہاں اگر یاد رہتا ہے تو دال آٹے کا بھاؤ۔ صبر و شکر کی کیفیات کا غلبہ ہوتا ہے۔ ضبط و تحمل، انکساری و عاجزی والی صفات حسنہ خود بخود ان دنوں عود کر آ جاتی ہیں۔
مہینے کے آخر دن کچھ اس طرح کے ہوتے ہیں کہ بے اختیار خدا یاد آ جاتا ہے۔ بس کچھ نہ پوچھئے، عجیب بے خودی کا عالم طاری رہتا ہے۔ ان دنوں، ہر دم کسی سوچ میں غرق رہتے ہیں مگر دیکھنے والے سمجھتے ہیں کہ ہم یادِ الٰہی میں غرق ہیں۔ اس طرح لوگ ہمیں خدا ترس، خدا شناس اور خدا رسیدہ سمجھتے ہیں۔
لیکن کچھ لوگوں کے لیے۔۔ ۔۔ ۔ بلکہ اکثریت کے لیے پہلی تاریخ کے بعد سے ہی مہینے کے آخری دن شروع ہو جاتے ہیں۔ تنخواہ ملی۔ ساہوکار، بنیا۔ بزاز، دودھ، اخبار والا، مالکِ مکان کا بقایا ادا کیا اور خود باقی بچنے پر شکر خداوندی بجا لائے۔ مہینے کے آخری دنوں کا اپنا ایک چارم اور دلکشی ہوتی ہے۔ دیکھئے نا اگر مہینے کے آخری دن نہ ہوں تو مہینے کے ابتدائی دنوں کی قدر کون کرے گا۔ اسی مہینے کے آخری دنوں۔۔ ۔ کا مزہ ان لو گوں کے نصیب میں نہیں ہے جو بیوپاری ہیں یا جنھیں دستِ غیب کی مدد حاصل ہے۔ یا یوں کہئے کہ گنگا نہائے ہوئے ہیں۔ ایسے لوگ بھلا کیا جانیں ایام آخر کے مزے۔ یہاں تو مہینے کے آخری دنوں میں یہ حال ہوتا ہے کہ اخبار کی ردی بھی محبوبۂ دلنواز کی طرح حسین لگتی ہے۔ اس آڑے وقت میں کام آنے والی چیز کو کسی ردی ذہنیت والے نے ردی کہہ کر پکارا کہ یہ مونس جاں تنخواہ دار کے لیے در بدری کے دور کی رفیقِ دیرینہ ہے۔ در اصل سرمایہ دار طبقے نے اس کی حیثیت کا مذاق اڑایا ہے۔
مہینے کے آخری دنوں میں آپ اسکوٹر گھر میں رکھ کر صحت بنانے کے لیے پیدل چل سکتے ہیں اس طرح سے آپ گلی کوچوں کی راہ سے گھر بھی پہنچ سکتے ہیں جس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ دکاندار کی نظر سے بچ جاتے ہیں۔ یہ سب اور بہت کچھ آپ کر سکتے ہیں لیکن مہمان سے بچنا ذرا مشکل ہی ہے۔ مگر بڑے تجربہ کاروں نے اس کے بھی راستے نکال لیے ہیں۔ ہاں ایسا کوئی شعر لکھ کر دروازے کی چوکھٹ پر لٹکا یا جائے تو مہمان شرطیہ واپس جائے گا۔
خالی ہے جیب آخری ہفتہ ہے ان دنوں
مہمان آج گھر میں نہ آئے خدا کرے
اور بعض تجربہ کاروں نے اس سے آسان ترکیب بتائی ہے کہ آپ خود کسی کے گھر مہمان بن کر چلے جائیں اور گھر پر ذرا بڑا سا تالا ڈال جائیں۔ لیکن اس بات کا خیال رہے کہ جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے۔ آپ نے دیر کی اور کوئی مہمان آپ کے گھر آ دھمکا۔
مہینے کے آخری دنوں کا ذکر ہے کسی صاحب کا ایک کتا گم ہو گیا انھوں نے ایک اخبار میں اشتہار دیا کہ کتے کو دھونڈ کر لانے والے کو پانچ سو روپئے کا نقد انعام دیا جائے گا۔ اشتہار کی اشاعت کے بعد موصوف شام کو اخبار کے دفتر گئے تاکہ معلوم کریں کہ کتے کا پتہ چلا یا نہیں۔ دفتر پہنچے تو دیکھا کہ دفتر میں سناٹا بول رہا ہے، ہڑتال کا سا ماحول ہے۔ اونگھتے ہوئے چوکیدار سے دریافت کیا کہ ماجرا کیا ہے تو اس نے جواب دیا کہ آج جو کتے کے لیے اشتہار چھپا ہے اسی کتے کی تلاش میں سب نکل پڑے ہیں۔