"دوپیر تین بجے۔”
” بس ہوگیا تمہارا ڈراما ختم؟ یا ابھی اور بھی کوئی تمہارا ڈراما باقی رہتا ہے۔ عائشہ جیک کے کمرے میں بڑے غصے سے داخل ہوتے ہی، اپنے سوالات کا ڈھیر جیک کے سامنے رکھ دیتی ہے ۔۔۔۔”
” جیک اپنے نوٹس کو ترتیب دے رہا تھا۔۔
کونسا ڈرامہ ؟ جیک نے مشکوک لہجے سے پوچھا۔”
” یہی کے تم آیت سے محبت نہیں کرتے تھے بلکہ آج تک تم اٌس سے فلرٹ کرتے رہے ہو۔۔۔ بے اختیاری سے عائشہ نے کہا۔۔۔”
” پہلے تو جیک خاموش رہا۔۔
مگر چند لمحوں کی خاموشی کے بعد اس نے یہ سوچا، کہ اگر میں خاموش رہا تو عائشہ واقعی اسے قصور وار سمجھے گی۔۔۔۔ ”
” اس کے عجیب سوال نے جیک کو گہرا سانس لینے پہ مجبور کر دیا تھا۔”
” مجھے آپ سے بات ہی نہیں کرنی۔۔۔ جیک نے نفی میں سرہلایا اور کمرے سے باہر جانے لگا۔”
” کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔ عائشہ جیک کے سامنے دونوں ہاتھ پھیلائے ،، درشت آواز میں بولتے ہوئے کھڑی ہو گئی۔۔۔”
” جانے دیں مجھے۔۔۔ جیک نے اپنے غصے کا اظہار کیا۔۔۔”
” کہیں نہیں جانے دو گی تمہیں۔۔۔۔۔۔ اور کیوں نہیں کرنی بات مجھ سے؟؟؟
بات تو تمہیں کرنی پڑھے گی۔۔۔۔ عائشہ جیک کے چہرے پہ نظریں گاڑتے ہوئے بولی۔”
” جیک جو اندر سے پہلے ہی ٹوٹ چکا تھا۔
عائشہ کے اس بیکار سے سوال نے جیک کو اور مایوس کر دیا تھا۔”
” جب آپ کسی بات کو سمجھتی ہی نہیں، تو میں آپ سے کیوں بات کروں؟ جیک نے اپنا زخ اس کیطرف بدل کر غیر محتاط انداز میں پوچھا۔۔۔۔”
” پہلی بات تو یہ ہے۔ کے آپ کسی بات کو سمجھنا ہی نہیں چاہتی۔۔۔ جیک نے بدمزگی سے کہا۔۔ عائشہ کو جیک کی مایوسی دیکھائی دے رہی تھی۔۔۔۔”
” اوہ ریلی ۔۔۔۔۔ وہ کمر پہ دونوں ہاتھ رکھے منہ بسورتی بولی۔۔۔”
” ویسے آپ کو تو خوش ہونا چاہیے۔ کیونکہ آپکی مراد جو پوری ہوگئی ہے۔۔ بے اختیار جیک کے منہ سے نکلا۔۔۔۔ اور اس نے نفی میں سر ہلایا۔
اور جاکر اپنی جگہ پہ واپس بیٹھ گیا۔۔”
” نہیں جیک تم مجھے غلط سمجھ رہے ہو ۔۔۔ عائشہ نے دھیما لہجہ اختیار کیا۔۔۔ ”
” وہ میری بہن ہے۔ اور میں اُسکے خوشیوں کا گلہ کیسے گھونٹ سکتی ہوں؟ عائشہ نے جیک آنکھوں میں دیکھ کر روندے لہجے میں جیک کا بازو پکڑ کر بولی۔۔۔”
” جیک کو عائشہ کے بدلے ہوئے لہجے پہ بہت حیرانگی ہوئی۔۔
اس نے سوالیہ نظروں سے عائشہ کو دیکھا۔۔”
عائشہ سامنے پڑی کرسی پر بیٹھ گئ۔ رخ اسکا جیک کیطرف تھا۔۔۔ وہ ہمدردی سے جیک کیطرف دیکھ رہی تھی۔۔”
” جس دن آیت کی کلائی پے چوڑی لگی تھی۔۔۔ بس مجھے غصّہ آگیا تھا۔۔۔ میں بہت پریشان ہوگئی تھی آیت کو لے کر۔
اس میںِ میرا بھی کوئی قصور نہیں ہے۔ عائشہ وضاحتی انداز اپناتے ہوئے تحمل لہجے میں بولی۔۔۔
عائشہ کے چہرے پہ فکر مندی کے اثرات نمایاں تھے۔۔۔۔”
” اور وہ جیک کو صفائی دے رہی تھی ۔۔۔۔
جیک کا چہرہ الجھن سے بھرپور تھا۔
کہ آخر یہ اب کیا چاہتی ہے۔”
” وہ جیک کے پاس امید کی کرن لے کر آئی تھی۔ کہ وہ اسے کسی اچھی خبر سے آگاہ کرے گا۔۔۔ اپنے اور آیت کے متسقبل کیلئے۔۔۔ مگر عائشہ کو ابھی کچھ نہیں بتانے والا تھا۔۔”
” وہ معصومانہ انداز میں جیک کو دیکھ رہی تھی۔ کہ وہ کب بولے گا۔ مگر وہ چپ تھا۔۔۔ وہ عائشہ سے کچھ نہیں کہنا چاہتا تھا۔۔”
” کیونکہ عائشہ ہر بات پہ جلدی غصہ کرتی تھی۔۔ اس لیئے جیک کو خاموش رہنا زیادہ مناسب لگا تھا۔۔۔”
” اب تمہارا فیصلہ کیا ہے؟ لمبی خاموشی توڑتے ہوئے عائشہ نے اپنا سوال کیا۔۔۔”
” میرا فیصلہ آپ جانتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیک نے سارے نوٹس کو بیگ میں رکھا اور ایک سرسری نگاہ عائشہ پے ڈالتے ہوئے کہا۔۔۔۔”
” ہاں میں جانتی ہوں۔۔ پٌراعتماد انداز میں عائشہ نے اٹھتے ہوئے کہا۔۔۔”
” تو پھر آپ، سب کچھ مجھ پہ چھوڑ دیں۔ جیک نے مطمئن کرنے والے انداز میں سپاٹ لہجے سے کہا۔ اور اس کی پریشانی کو دور کیا۔”
” عائشہ کا دل اب ہلکا ہو چکا تھا۔
لیکن مجھے پھر بھی تمہارے جواب کا انتظار رہے گا جیک۔۔”
” وہ پر سکون انداز میں پیچھے مڑ کر مسکرائی ۔۔
جیک نے پیشانی پہ بل ڈالتے عائشہ کو دیکھا۔۔۔۔۔”
————————– ————————
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
” رات دو بجے کے قریب جیک پانی پینے کے لیئے اٹھا۔
اِس نے لائٹ آن کی۔ لیکن جگ میں پانی نہ تھا۔۔
وہ جگ اٹھائے آنکھوں کو مسلتے چند
ھیائی ہوئی آنکھوں سے کچن میں گیا۔۔۔”
” فریج سے پانی کی بوتل نکالا۔
بوتل کا پانی وہ ابھی جگ میں ڈال ہی رہا تھا کہ کچن میں کھڑےاچانک اس کی نظر، کچن کی کھڑکی پہ پڑی۔۔۔
کیونکہ ہال کا دروازہ کھولا تھا ۔۔۔وہ دروازہ، جو لان کی طرف جاتا تھا ۔۔۔”
” ہر طرف اندھیرا تھا۔پورے ہال کی لائٹس اوف تھیں۔”
” وہ جلدی سے کچن سے باہر آیا۔۔ اس نے جگ کو ڈائنگ ٹیبل پہ رکھا۔۔۔ اور ایک نظر دوڑا کر اس نے نیچے والے فلور کے کمروں، کے دروازے پر ڈالی،۔۔۔ لیکن سارے دروازے بند تھے ۔”
” جیک کو حیرانگی کا جھٹکا لگا۔ وہ بڑی خاموشی سے لائٹ آف میں ہی، اوپر والے فلور کی طرف بڑھا۔
اوپر بھی ہر ایک کمرے کا دروازہ بند تھا۔۔
وہ اٌسی لمحے تیزی سے دوبارہ نیچے آیا۔۔۔۔۔”
” وہ اوپر اس لیئے گیا تھا۔ کیونکہ اُسے لگا تھا۔ کہ شاید گھر میں کوئی کر گٌھس گیا ہے۔۔۔
لیکن جب اس نے سارے دروازے بند دیکھے تو اسے اطمینان ہوا۔”
” وہ اب لان کی طرف بڑھا۔ تاکہ وہ دروازہ بند کرے۔”
” سامنے کُرسی پے بیٹھے کسی لڑکی کا اُسے عکس دکھائی دے رہا تھا ۔۔۔”
” پہلے تو اس پہ خوف طاری ہوا۔ پھر اس نے خود کو مطمئن کیا۔ اور بہاری سے اٌس عکس کیطرف بڑھا۔”
” لان میں وہ بالکل گم سم بیٹھی تھی۔۔۔
جیسے اُسے خود کی بھی ہوش نہ ہو۔
ٹھنڈائی ہوائیں چل رہی تھی۔۔
ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا۔۔۔۔ اس کی زلفیں رہ رہ کر ہوا کی زد میں لہرا رہیں تھیں۔۔”
” وہ عجیب سا پٌراسرار خاموش منظر تھا۔
لیکن اسکی خوبصورت آنکھوں ابھی بھی نم تھیں۔۔ وہ خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی۔۔ ”
” جیک نے ادھر اٌدھر دیکھتے ہوئے آہستہ آہستہ قدم اس سائے کیطرف بڑھائے ۔۔۔”
” وہ بھی سایہ دیکھ کر خوف زدہ ہوگئی تھی۔۔۔۔ اس کے جسم میں کپکپی طاری ہونے لگی۔”
” سائے کے ڈر اس کی دھڑکنیں تیزی سے دھڑک رہیں تھی ۔۔وہ سہم گئی تھی۔ وہ جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ ٹیبل پہ پڑا گلاس اس نے ہاتھ میں لیا۔۔ ”
” وہ دھڑکنوں کو قابو میں رکھنے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔ اس نے دل پہ ہاتھ رکھ کر ایک گہرا سانس لیا۔۔۔ وہ آہستہ آہستہ اپنا رُخ بدل رہی تھی۔”
” تجسس سے اِس سائے کو دیکھنے کی کوششں میں وہ تھی۔ ابھی آہستہ آہستہ اپنا رخ بدل ہی رہی تھی کے اس نے شور مچانا شروع کر دیا تھا۔۔۔ ”
” کیونکہ ہر طرف اندھیرا تھا۔ اس کی آواز زیادہ گونج رہی تھی۔
اس نے کپکپاتے ہوئے، گلاس کو ٹیبل سے اٹھایا۔ زور سے اس سائے کیطرف وہ گلاس دے مارا۔۔۔”
” اور وہ گلاس جیک کے ماتھے پر جالگا۔۔۔ جس سے خون رواں ہونا شروع ہوگیا۔۔۔۔”
” مگر آیت اس بات پوری طرح سے بے خبر تھی کہ وہ سایا کس کا جیک ہے۔۔۔”
” جیک نے ماتھے پہ ہاتھ رکھا۔۔ تو اس کا ہاتھ خون سے بھرا پڑا تھا۔۔۔”
” آیت نے شور مچانا شروع کر دیا۔۔۔ وہ اونچی آواز میں مسلسل چیخ رہی تھی۔۔۔”
” جیک تکلیف کی حالت میں ،،،، دور کھڑا، دوڑتا ہوا اسکی طرف آیا۔۔۔۔”
” منہ بند کرو! میں ہوں ۔۔۔ جیک نے اس کے منہ ہاتھ رکھ دیا تھا۔”
” وہ ابھی بھی چلانا چاہ رہی تھی۔۔ تلماتے اس نے جیک کا ہاتھ اپنے منہ سے ہٹانے کی کوشش کی۔۔۔”
” لیکن آیت اتنا ڈر گئی تھی۔ کہ وہ چپ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔۔۔”
” میں کہتا ہوں بالکل چپ۔۔۔ جیک نے دانت پیستے ہوئے اسے سختی سے ڈانٹا۔۔۔۔”
” خون تیزی سے بہتا ہوا۔۔ جیک کے چہرے پر آگیا تھا۔۔۔۔۔۔”
” آپ؛؛؛؛؛ آیت جیک کو خون سے لگ بھگ دکھ کر بہوش ہوگئ۔ وہ پہلے ہی کافی خوف زدہ تھی۔۔ لیکن جب اُسے پتا چلا کہ وہ گلاس اس نے غلطی سے جیک کو مار دیا ہے۔ اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین سرکی۔۔۔”
” وہ خود کی فکر کیے بغیر۔۔۔ اس کو ہوش میں لانے کی کوشش کر رہا تھا۔۔”
” آیت اٹھو۔
آیت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیک اس کو تھپتھپا رہا تھا۔ مگر آیت کو ہوش میں نہیں آرہی تھی۔۔”
” وہ اتنی رات کو اسے اپنے کمرے میں لےجانے سے بھی ڈر رہا تھا۔۔۔”
” کیونکہ شفق بیگم کا رویہ آج کل جیک کے ساتھ ٹھیک نہیں تھا۔۔۔۔”
” وہ جلدی سے دوڑتا ہوا ڈائننگ ٹیبل کیطرف جلدی سے بڑھا ۔۔ جہاں وہ جگ چھوڑ کر آیا تھا۔۔۔ ”
” سامنے کُرسی پہ پڑا اسے دوپٹہ دیکھائی دیا۔ اس نے وہ دوپٹہ اٹھایا اور اپنے سر پہ رکھا۔”
” جلدی سے اس نے پانی کا گلاس بھرا اور وہ واپس لان میں آیا۔۔”
” آیت کے چہرے پہ اس نے پانی چھڑکا۔۔ دو تین مرتبہ یہ عمل دہرانے سے آیت کو پھر کہیں جا کر ہوش آئی۔۔”
” آپ یہاں کیا کے رہے ہو؟ اس نے نم لہجے میں اٹکتے ہوئے بمشکل سے پوچھا۔”
” اور یہ خون ؟ آیت نے جیک کے گال پہ ہاتھ رکھ کر پوچھا۔ وہ ابھی بھی سہمی
ہوئی تھی۔ خون کی بوندیں اب آیت کے چہرے پہ بھی گر رہیں تھیں۔۔”
” یہ تمہارا کارنامہ ہے۔۔ جیک نے مصنوعی خفگی سے کہا۔۔۔ اور اس نے دائیں بازو سے ماتھے پہ بہتا خون صاف کیا۔۔۔ اس کی شرٹ گندی ہورہی تھی۔ جو دوپٹہ جیک نے پہلے استمعال کیا تھا وہ کافی گندہ ہو چکا تھا۔۔”
” آہ ہ ہ ۔ آیت نے منہ پہ ہاتھ رکھ کر کہا۔۔۔
اور اس کا منہ کھولے کا کھلا ہی رہ گیا۔۔۔۔ وہ اپنی اس نادانی پہ بہت مایوس ہوئی۔۔۔
” اٹھو جلدی سے۔۔ آیت نے فکر مندی سے جیک کا بازو پکڑا۔۔ روتے روتے آیت نے کہا۔۔”
” تم جاؤ! میں دیکھ لوں گا۔۔ وہ انہتائی افسردگی سے اسے دیکھنے لگا۔۔۔۔ جیک کا چہرہ خون سے بھیگا پڑا تھا۔۔ جیک کی یہ حالت دیکھ آیت کے دل میں درد کی لہر اٹھ رہی تھی۔۔۔۔”
” جیک درد کی شدت محسوس کیے
اٹھ کر ہال کیطرف گیا۔۔ آیت اس کے پیچھے بھاگی ۔۔۔ جب جیک اپنے کمرے میں پہنچا تو آیت بھی اس کے پیچھے کمرے تک آئی۔۔۔”
” جیک فورا وش روم میں گیا اس اپنا منہ دھویا اور سارا خون چہرے سے صاف کیا۔۔۔ گندی شرٹ اس نے اتار کر بیڈ پہ پھینکی۔۔۔”
” تم؟ جیک نے چونک کر اس کیطرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ اور نفی میں سر ہلایا۔”
” آیت دروازے کے پیچ کھڑی تھی۔ ہاں میں۔۔۔۔۔۔ سرسری لہجے سے کہتے ہوئے آیت اس کے قریب آئی۔۔۔۔”
” آیت جاؤ یہاں سے۔۔ جیک خفگی سے ،بیڈ کی دوسری طرف جاکر بیٹھ گیا۔۔۔۔
اس کی آنکھوں میں شدید غصے تھا۔”
” جیک کو تکلیف میں مبتلا دیکھ کر
آیت پھر جیک کے پیچھے آئی۔ اٌس کا سانسیں اکھڑ رہیں تھیں۔۔۔۔ وہ جیک کی حالت پہ مزید پرشان ہورہی تھی۔۔۔۔
کچھ لمحے کیلئے اٌس نے جیسے سارے شکوے بھولا دیے تھے۔۔۔”
” تم پھر پیچھے آگئ ہو؟
جیک نے سوالیہ نظروں سے آیت کو دیکھا۔۔۔۔ وہ خاموش کھڑی رہی اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ اس وقت بلکل سنجیدہ تھی۔”
” اگر کسی نے آدھی رات ک ہم دونوں کو ایک ساتھ دیکھ لیا نہ۔ تو قیامت ٹوٹ پڑے گی آیت۔۔۔ اس وہی دوپٹہ ہاتھ میں لیا۔اور سر پہ رکھ کر بیڈ پہ بیٹھ گیا۔”
” کیا دیکھ رہی ہو؟ کچھ لمحے کے بعد جیک نے اس سے پوچھا۔ کیونکہ جیک چاہتا تھا کہ آیت وہاں سے چلی جائے۔ ”
” مگر آیت بھی جیک کو اس حالت میں چھوڑ کر، جانے کیلئے تیار نہ تھی۔۔ آیت کے آنسو مسلسل بہہ رہے تھے۔۔
مگر وہ جیک سے اس وقت کچھ نہیں کہنا چاہتی تھی۔۔
وہ جیک کو مزید تکلیف نہیں دینا چاہتی تھی۔۔۔”
” جیک آیت کا ہاتھ تھامے اٌسے دروازے تک لے گیا۔۔
جاؤ اب؛ باہر کیطرف اپنے ہاتھ سے اس نے اشارہ کیا۔۔۔”
” قیات پہلے بھی ٹوٹ چکی ہے۔ آیت نے روندے لہجے سے کہا۔۔اور وہ واپس اندر آئی۔”
” کوئی دیکھتا ہے تو دیکھ لے۔۔۔ مجھے اب کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔ آیت خفگی سے الماری کیطرف بڑھی۔”
” جیک اس کے پیچھے الماری تک گیا۔۔ یہ کیا کر رہی ہو؟ جیک نے چونک کر کہا۔۔۔”
” آیت نے الماری سے جیک کی شرٹ نکال کر بیڈ پہ رکھی ۔۔”
” آپ نے شرٹ اتار کر پھینکی ہے۔ آیت نے اپنا منہ دوسری طرف مڑ لیا تھا۔۔
اٌس نے گندی شرٹ کیطرف اشارہ کیا۔۔۔
جو خون کی وجہ سے خراب ہوئی تھی۔۔۔ جیک نے جلدی سے ٹاول اٹھ کر اپنے سینے پہ رکھا ۔۔۔۔ اور دوسری شرٹ جو آیت نے دی وہ جلدی سے پہنیں۔۔٬”
” میں پھر پٹی کر ہی یہاں سے جاؤ گی وہ دونوں ہاتھ باندھنے کھڑی دوسری طرف دیکھ رہی تھی۔۔ جیک کا خون ابھی بھی تھوڑا،تھوڑا کر کہ بہہ رہا تھا۔۔۔ اس لیے تو آیت وہاں سے جانے کیلئے راضی نہ تھی۔”
” جیک نے جلدی سے شرٹ پہنی ۔۔۔ اب جاؤ تم جیک نے بٹن بند کیے اور سپاٹ لہجے سے اسے دیکھا۔۔۔۔”
” فرسٹ ایڈ باکس کہاں ہے؟ آیت نے ادھر اٌدھر نظر دوڑائی۔ جیک نے دراز کیطرف اشارہ کیا۔۔ ”
” اب بیٹھو جلدی سے۔
آیت باکس لیے فکر مندی سے کھڑی تھی۔۔۔ اپنے لیے اتنی فکر آیت کی آنکھوں میں دیکھ کر وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبا پڑا تھا۔۔۔”
” کیا دیکھ رہے ہیں؟ اب بیٹھ بھی جائیں۔۔۔۔ آیت نے جیک کا بازو پکڑ کر اٌسے زبردستی بیٹھایا۔۔۔۔۔
وہ انہماک سے آیت کو مسرور دیکھ رہا تھا۔”
” آیت جیک کو پٹی کر رہی تھی ۔۔ دیکھو ابھی بھی خون نکل رہا ہے آیت نے زخم پے دوائی لگا۔۔ ”
” آہ۔ جیک چلایا۔۔۔۔ ”
” آیت نے دل پہ ہاتھ رکھ پوچھا۔۔۔۔ آیت ڈر گئ تھی۔ ”
” دیکھ کر لگاؤ۔۔ جو بھی لگا رہی ہو ظالم۔۔ جیک نے ہلکی سی مسکراہٹ سے کہا۔۔۔ جیک نے دھیمی آواز سے کہا۔۔۔۔ آیت کی ساری توجہ جیک پہ تھیں۔”
” آپ ہنس رہے ہو۔۔۔۔ آیت نے نم آنکھوں سے جیک کیطرف دیکھا۔۔۔”
” نہیں تو۔۔ جیک نے طنزایہ انداز میں کہا۔۔۔”
” اور کتنا ٹائم لگے گا۔۔ جیک نے مخصوص انداز میں پوچھا۔۔”
” بس تقریباً ہوگئی۔۔ آیت نے آنکھوں میں آئی نمی کو چھپایا اور باکس اٹھا کر واپس اٌسی جگہ پہ رکھا۔ جہاں سے آیت نے لیا تھا۔۔۔ آنسو صاف کرتے ہوئے وہ کمرے سے باہر جانے لگی۔۔۔ ”
” سنو ! تم رو رہی ہو؟ جیک آیت کو پیچھے سے آواز دی۔۔ ”
” نہیں ! میں کیوں روں گی۔۔۔۔ آیت نے مایوسی سے جواب دیا۔۔۔”
” اچھا ایک منٹ بات سنو۔ یہاں آؤ۔ جیک نے اسے پیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔”
” جیک بیڈ کی دائیں طرف لیٹا تھا۔۔ آیت آکر بیڈ کی بائیں طرف بیٹھ گئی۔۔۔ ”
” جیک کیطرف آیت کا پیچھا تھا۔۔۔
کیوں آئیں تھے آپ وہاں۔ آیت نے روتے ہوئے پوچھا۔۔ پتا ہے میری تو جان ہی نکل گئی تھی۔۔۔۔ آیت کی آنکھوں میں واقعی ہی خوف تھا۔۔۔”
” آیت سے اب اور برداشت نہ نہیں ہو رہا تھا۔۔ اس نے بڑی ہمت کے بعد اب رونا شروع کر دیا تھا۔۔ ”
” وہ دل ہی دل میں خود کو بدعائیں دے رہی تھی۔۔ اس وقت جیک کی اس تکلیف کی وجہ وہ وہی تھی”
” اور یہی سوال اگر میں تم سے پوچھو تو؟ جیک نے پیشانی پہ بل ڈالتے پوچھا۔۔”
” تم رات کے پچھلے پہر وہاں کیا کر رہی تھی ؟؟؟ جیک اٹھ کر بیٹھ گیا۔”
” میں سایہ دیکھ کر خوف زدہ ہوگئی تھی۔ آیت نے ڈرتے ڈرتے کہا۔۔”
” جیک تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھے ۔ اسے غور سے دیکھ رہا تھا۔ جیک کو اس پہ پیار بھی آرہا تھا۔”
” تھوڑی خاموشی توڑتے ہوئے آیت پھر بولی۔۔ اوپر سے آپکی یہ کنڈیشن دیکھ کر میری تو حالت ہی خراب ہو گئی تھی۔۔۔”
” اگر اتنا ڈر تھا تو اتنی رات کو یہاں کیا کر رہی تھی؟ جیک اس کے تھوڑا قریب ہوا۔”
Leave me alone۔۔
” آیت روتے روتے سے وہاں سے،لان میں واپس چلی آئی۔۔”
” آیت بات سنو۔ جیک فکر مندی سے اس کے پیچھے آیا۔۔”
” مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی۔۔
میں صرف تنہائی چاہتی ہوں۔۔ آیت غصے سے وہاں کھڑی اپنے اھڑتے ہوئے بالوں کو سنبھال رہی تھی۔جو ہوا کہ بحث سے اڑ رہے تھے۔۔۔۔۔۔”
” پتہ ہے میں پانی لینے کیلئے کچن میں آیا تھا۔ دروازہ کھولا تھا تو مجھے اس طرف آنا پڑا۔۔۔ جیک نے وضاحتی انداز میں آیت کو بتایا۔۔۔۔ جیک آیت پیچھے ہی کھڑا تھا۔۔۔”
” رات کے تین بج چکے تھے۔۔ ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ ”
” رات بہت ہو گئ ہے اب جاؤ یہاں سے اور سو جاؤ تم بھی۔۔۔ جیک نے اسے وہاں سے جانے کا کہا۔”
” نہیں جا رہی میں کہیں بھی جاؤ آپ یہاں سے۔۔۔۔ آیت نے آنسو صاف کرتے ہوئے خفگی سے کہا۔۔۔”
” نہیں جا رہی میں کہیں بھی جاؤ آپ یہاں سے۔۔۔۔ آیت نے آنسو صاف کرتے ہوئے خفگی سے کہا۔۔۔ اور وہ تھوڑا اور آگے جا کھڑی ہوئی۔۔۔”
” میں تو سو رہا تھا۔۔ مجھے کیا خبر تھی کے تم یہاں بیٹھی ہو۔۔۔ مجھ پتہ ہوتا تو میں یہاں آجاتا۔۔۔ اب جیک بلکل سامنے کھڑا تھا۔”
” میری نیندیں برباد کر کے آپ مجھے جھوٹی فکریں دیکھا رہے ہیں؟ آیت نے چیخ کر کہا۔”
” اور خود سکون سے سو رہے تھے۔۔۔ اسکا لہجہ عجیب سا ہوگیا تھا۔”
” پیلز جیک چلے جاؤ آپ یہاں سے۔
وہ درشت آواز میں بولتی ہوئی کرسی پر جا کر بیٹھ گئی۔۔۔ کیونکہ جیک اس کے پیچھے،پیچھے جا رہا تھا۔۔”
” اب جیک اسکے پاس کھڑا ہوگیا۔
مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی پلیز۔۔۔ آیت نے اکتاہٹ بھرے انداز اپنے ہاتھ جوڑ کر کہا۔۔۔”
” ابھی تک ناراض ہو؟ جیک اس پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔ اور وہ سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔”
” اچھا میری بات سنو۔ جیک نے بڑی اپنائیت سے آیت کا ہاتھ پکڑا۔۔۔۔ آیت نے غصے سے اپنا منہ دوسری طرف کر لیا۔۔۔۔
کیونکہ جیک بھی اب اٌسے اٌکسا رہا تھا۔”
” ہٹیں پیچھے۔۔۔ مجھے نفرت ہونے لگی ہے آپ سے۔ آیت نے جیک کو روز سے پیچھے دھکا دیا۔۔۔ آیت کے ذہین میں پھر وہ سارا منظر گھوم رہا تھا۔ جو جیک کی برتھ ڈے والے دن ہوا تھا۔۔۔۔۔”
” وہ منظر آیت کا دل چیر رہا تھا۔ وہ ابھی تک اٌس بات کو بھلا نہیں پائی تھی۔۔۔
آیت کے لہجے میں عجیب بےبسی تھی۔”
” پلیز ایک منٹ میری پوری بات سُن لو۔ پھر جو دل چاہے بولنا مجھے۔۔۔۔
نکال لینا پھر ساری بھڑاس۔۔ جیک اسے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ”
” وہ چاہتا تھا کہ آیت فرصت سے جیک کی پوری بات سنے۔۔۔”
” ٹھیک ہے میں ہی یہاں سے چلی جاتی ہوں ۔۔۔۔۔ آیت کڑے انداز میں بولی اور وہ ہال کیطرف بڑھی ۔۔۔”
” میری بات سن لو پہلے ۔۔۔ ایک بات سمجھ نہیں آتی ہے کیا؟ جیک نے اسے جھنجھلا کر کہا۔”
” ابھی شرافت سے کہہ رہا ہوں ۔ تم ہو سُن ہی نہیں رہی۔۔۔۔۔۔ جیک نے پیچھے سے اسکا ہاتھ پکڑ کر درشت آواز میں کہا۔۔۔”
” مجھے کچھ نہیں سنا اب۔۔ آیت ہاتھ چھڑا رہی تھی۔۔۔ اور ساتھ ساتھ رو رہی تھی۔۔۔”
” میں کہتا ہوں میری بات سُن لو پھر جانا یہاں سے۔۔۔۔ غصے سے اسکا ہاتھ چھوڑ کر جیک نے کہا۔”
” ہاں میں جارہی ہوں۔ آیت نے جیک کی بات کو ان سنا کیا اور دو قدم آگے بڑھی۔۔۔۔”
” صرف دو منٹ میری بات سن لو۔ پھر چلی جانا اپنے کمرے میں۔ جیک آیت کے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھا۔۔۔”
” پیچھے ہٹیں۔۔۔ اور اب نیکسٹ ٹائم مجھے ہاتھ مت لگنا۔۔۔ ورنہ میرا ہاتھ اٹھ جائے گا۔۔۔ انگلی دیکھاتے ہوئے اس نے کہا۔”
” آیت نے پھر سے جیک کو دھکا دیا۔ جیک کو آیت کی یہ بات بلکل بھی پسند نہ آئی۔ وہ ناگواری سے آیت کو گھورنے لگا۔۔۔”
” یہ بھی منظور ہے ۔ جیک نے اثبات میں سر ہلایا۔
کیونکہ یہ ہاتھ تم کوئی پہلی دفعہ نہیں اٹھاؤ گی ۔
ایک دفعہ پہلے بھی یہ ہاتھ اٹھ چکا ہے۔۔۔ جیک ہزیانی بولا۔۔۔۔”
” وہ آپکی غلطی کی وجہ سے ہی اٹھا تھا۔ ورنہ میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔۔۔
آیت نے چیخ کر نم آنکھوں سے جیک کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔”
” پیچھلے دو دن سے شرافت سے بات کر رہا ہوں۔
لیکن تم مان ہی نہیں رہی ۔۔۔۔۔۔
برداشت کی ایک حد ہوتی ہے۔۔۔ سنا تم نے۔۔
جیک نے آیت کوانگلی دکھائی۔ بے ادبی سے جیک نے کہا۔۔۔۔”
” ہاں سُن لیا میں نے ۔۔۔۔ کچھ لمحے سوچنے کے بعد وہ گویا ہوئی۔۔۔۔ اور وہ وہاں سے جیک کی بات سنے بغیر چلی گئی۔”
————————— ————————-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” دوسرے دن دوپہر کو”
” آیت تم تو روز یونیورسٹی جارہی ہو؟
لیکن جیک کیوں نہیں جارہا۔؟ حیات اپنے کام میں مصروف سرسری لہجے سے آیت کو پوچھا۔۔”
” پتہ نہیں، کیوں نہیں جارہے وہ۔
میں نے پوچھا تھا اٌن سے۔ کہ وہ کیوں نہیں جارہے۔۔۔ آیت بیگ سے بوکس نکالتے،، نظریں چراتے ہوئے بولی۔۔”
” لیکن انہوں نے وجہ نہیں بتائی۔ کہہ رہے تھے۔ بس ویسے ہی نہیں جارہا۔۔۔ آیت نے مخصوص انداز سے کہا۔۔۔۔”
” پوچھا بھی ہے تم نے إس سے؟ یا میرے سامنے جھوٹ بول رہی ہو؟ حیات نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے یہ سوال اس سے پوچھا۔۔۔۔”
” جی! پوچھا تھا۔ میں نے اٌن سے۔۔۔۔۔ آیت نے زخمی مسکراہٹ سے کہا۔۔۔۔ کیونکہ وہ جھوٹ بول رہی تھی۔”
” اچھا ابھی تم کیا کر رہی ہو۔ اگر تمہیں کوئی کام نہیں ہے۔۔۔۔ تو میرا ایک کام کر دو گی۔۔۔۔۔ حیات اٹھ کر ٹیبل پہ رکھے گفٹ کو ترتیب دے رہی تھی۔۔۔۔۔”
” ویسے تو میں ابھی آسئمینٹ بنا رہی ہوں۔۔۔ آپکو جو کام ہے آپ مجھے بتا دو۔ میں آسئیمنٹ کمپلیٹ کرنے کے بعد آپکا کا کام کر دوں گی ۔۔۔۔۔۔ آیت بلکل گٌم سٌم بیٹھی تھی۔ اس نے کافی دیر کے بعد حیات کو جواب دیا تھا۔۔۔”
” میں جیک کے سارے گفٹ سمیٹ رہی ہوں۔ اٌسے تو آج کل بلکل بھی ہوش نہیں رہتی اپنے کاموں کی۔۔۔۔ لاپروائی سے حیات نے آیت کو دیکھ کر کہا۔۔۔”
” آیت سوالیہ نظروں سے حیات کو دیکھنے لگی۔۔۔ کہ یہ شاید اسے طنز مار رہی ہے۔۔۔ مگر حیات کے دل میں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔۔۔ اٌس نے معمولی سی بات کی تھی۔ مگر وہ بات آیت کے دل پہ جالگی تھی۔۔ آیت نے انہتائی افسردگی سے حیات کیطرف دیکھا۔۔۔۔”
” کافی گفٹ تو میں نے اسکی الماری میں رکھ دیئے ہیں۔۔۔۔ بس تھوڑے رہ گئے ہیں۔۔۔ حیات شاپر میں گفٹ ڈال رہی تھی۔۔”
” تم اور عائشہ اوپر والے فلور میں جتنے بھی نئے پردے لگے ہیں انکو اُتار دو۔
اور پرانے والے دوبارہ لگا دینا۔۔ اس نے ذمہ داری والا انداز اپناتے ہوئے کہا۔۔۔ ”
” میں نے کل سارے پردے دھوئے تھے۔۔
تیکھی نظروں سے اس نے آیت کو دیکھا۔۔۔
کیونکہ آیت ٹھیک سے کسی بات کا جواب نہیں دے رہی تھی۔۔۔”
” ٹھیک ہے میں خود چنیج کر لوں گی۔ آپ بےفکر ہوجائیں ۔ آیت نے اسے مطمئن کرنے والے انداز میں کہا۔۔”
” حیات نے مسکراتے ہوئے آیت کو دیکھا۔”
” چلو ٹھیک ہے جیسے تمہیں مناسب لگے ویسے تم کر لو۔۔
ویسے تم عائشہ کو اپنے ساتھ لگا لینا۔۔۔
وہ ٹیبل وغیرہ پکڑنے میں تمہاری مدد کر دے گی۔۔۔۔۔ حیات کمرے سے باہر کیطرف بڑھی ۔”
” میں آتی ہوں جیک کے کمرے کی صفائی کر کے۔ فکر مند لہجے سے حیات مڑ کر آیت کو کہا۔۔۔”
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...