رات کے گیارہ بج رہے تھے اور آپریشن تھیٹر کی سرخ بتی پچھلے چار گھنٹے سے ایسے ہی جل رہی تھی۔ مہجبین کی حالت کو قدرے بہتر محسوس کرتے ہوئے ڈاکٹر نے سرجری کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ زیان جو اپنے سسر کی مدد نہیں لینا چاہتا تھا۔ اس کے بارے میں ڈاکٹر حیدر بھی جانتے تھے اس لیے انہوں نے اپنی فیس نہ لینے کا اعلان کیا تھا۔ ان کی اپنی بیٹی اس مرض کی شکار ہو کر دنیا سے جاچکی تھی۔
عاصم اور شمائلہ کے سمجھانے سے زیان نے حامی بھر لی تھی۔ وہ دن کو دفتر اور رات اسپتال میں رہتا تھا۔
رمضان کی طاق راتوں میں سے آج ایک طاق رات ہی تو تھی، زیان آپریشن تھیٹر کے سامنے زمین پہ بیٹھا تھا،اس کا سر دیوار سے لگا ہوا تھا۔ وہ آج سجدے میں جھکا ہوا نہیں تھا، مگر اسکا دل جھک گیا تھا۔
زیان چند لمحے کے لیے آنکھیں بند ہی کرنے لگا تھا کہ اسے آپریشن تھیٹر کی لائٹ آف ہوتی دیکھائی دی۔ اس سے پہلے کہ ڈاکٹرز باہر آتے زیان دیوانوں کی مانند لپکا اور دروازے کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔
اس کی یہ حالت اور بے تابی دیکھ کر عاصم نے آگےبڑھ کے اس کو پکڑ کر پیچھے ہٹانے کی کوشش کرنا چاہی تو شمائلہ نے اسے روک دیا۔
آپریشن تھیٹر سے نکلنے والوں میں سب سے آگے ڈاکٹر حیدر ہی تھے۔ ان کو دیکھتا ہی زیان دور کر ان کے پاس چلا آیا!۔۔۔
زیان: مہجبین! ۔۔۔۔ نہ جانے کیوں آج زیان کی آواز نے اس کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ وہ صرف اپنی بیوی کا نام ہی لے پایا تھا کہ اسکی آنکھوں میں آنسوں تیرنے لگے تھے۔ وہ سوال ہی مکمل نہ پوچھ پایا تھا۔ اس کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے کر مسل ڈالا تھا۔ وہ رو دیتا اس عزیت سے جس سے وہ دوچار تھا۔
اس کے ادھورے سوال کے جواب میں ڈاکٹر حیدر نے زیان کے شانے پہ تھپکی دی۔
ڈاکٹر حیدر: زیان بیٹا ہم نے اپنی تمام کوشش کر دی ہے۔ اب یہ بات اس نیلی چھتری والے کی مرضی کی ہے۔ اب دعائیں ہی آخر امید ہیں۔ وہ چاہے تو تمھاری مہجبین تمہیں انعام کے طور پہ دے دیں۔ جس آزمائش سے تم گزرتے ہوئے صبر کیے ہوئے ہو یہ سب آسان نہیں ہوتا بچے۔۔۔ ‘ڈاکٹر حیدر نے بات جاری رکھی’
72 گھنٹے بہت اہمیت کے حامل ہیں زیان۔۔۔۔ اگر ہوش آگیا تو ٹھیک۔ ورنہ باقی کی زندگی، یہ بچ جانے والے سانس وہ مشینوں کے سہارے ہی لیتی ہے گی۔۔
ڈاکٹر حیدر تو ایک ڈاکٹر کی طرح یہ جملے ادا کر کے چلے گئے مگر زیان کو ایک نہ ختم ہونے والے انتظار کی سولی پہ لٹکا گئے۔۔۔
•———-• •———-•
انتظار ایک ایسی مسافت ہے کہ، مسافر جس قدر سفر تہہ کرتا جاتا ہے منزل اتنی ہی دور دیکھائی دینے لگتی ہے۔
زیان کے لیے انتظار کی گھڑیاں ختم ہونے کا نام ہی نہ لیتیں تھی۔ باہتر گھنٹے کی جو ڈیڈ لائن دے رکھی تھی اس کے ختم ہونے میں کچھ ہی گھنٹے باقی تھے۔۔ دعائیں ماننگے کی رفتار میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا۔ لیکن مہجبین کی صورتحال میں ابھی تک کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ زیان کی امی اپنی پوتی کی وجہ سے بہت دنوں سے اسپتال بھی نہیں آسکیں تھی۔ دعا نور اپنے بابا سے بھی بہت دن سے نہیں مل پائی تھی۔
زیان اس وقت بھی مہجبین کے پاس بیٹھا اس کے سر کے بالوں میں ہاتھ گھما رہا تھا۔ کبھی یہ زلفیں گھنی گھٹائیں محسوس ہوا کرتی تھیں۔ اور آج یہ بے جان سی سوکھی ہوئی گھاس کی مانند لگتی تھیں۔۔
•———-• •———-•
کاشف: مجھے پہلے بتاتی آپی! اب مجھے تراویح سے دیر ہو جائے گی۔ آپ کا پلان بھی میری سمجھ سے باہر ہی ہوا کرتا ہے۔۔
کاشف نے اپنی عینک اتار کر میز پہ رکھی اور بہن کی جانب روٹھے ہوئے بچے کی طرح دیکھا۔
وہ لوگ صبح سے ایک الگ ہی مشکل کا شکار تھے۔۔۔ وہاب کی چار بار کال آچکی تھی! وہ حق مہر میں دیے جانے والا پلاٹ واپس مانگ رہا تھا۔
اور اس رقم کا مطالبہ بھی کر رہا تھا جو اس نے انجبین کو حق مہر میں پلاٹ کے علاوہ دی تھی۔ جس کو لینے کا اب اسے کوئی حق نہیں تھا۔ وہ عزیت پسند شخص ان سیدھے سادے لوگوں کا نہ جانے پھر سے امتحان کیوں لے رہا تھا۔
اب اس طرح کے ماحول میں انجبین کی اتنی رات میں باہر جانے کی اجازت لینا بلکہ ضد کرنا پریشانی کا باعث بن رہا تھا۔
کاشف نے نہ چاہتے ہوئے بھی جانے کی حامی بھر لی تھی۔ وہ بہن کو ساتھ لے کر اسپتال کی جانب رواں دواں تھا۔
عید قریب آرہی تھی اسی وجہ سے سڑکوں پہ رش بڑھتا جا رہا تھا۔ عید کی خریداری کرنے والے لوگوں کا ہجوم ایسے تھا جیسے میدان حشر کی جانب سب نے دوڑ لگا رکھی ہے۔
انجبین جانتی تھی کہ کاشف کو غصہ آرہا ہے اس لیے وہ مسلسل گاڑی سے باہر ہی دیکھے جا رہی تھی۔ اس کے ہاتھ مسلسل متحرک تھے۔ وہ کبھی انگلیاں چٹخانے لگتی تو کبھی ہاتھوں کو آپس میں ملنے لگتی۔ وہ بے چین تھی اور اس بات کو چھپانے کی لاکھ کوشش کے باوجود بھی چھپا نہیں پارہی تھی۔۔۔
وہ لوگ شارٹ کٹ راستوں سے گزرتے ہوئے اسپتال پہنچ چکے تھے۔۔ کاشف قریب ہی مسجد میں تراویح اور عشاء کی نماز پڑھنے چلا گیا۔۔۔
•———-• •———-•
کمرے کا دروازہ بنا دستک کے ہی کھل گیا تھا۔ اندر آنے والا اب تک کمرے میں داخل نہیں ہوا تھا۔۔۔ زیان کو جب قدموں کی آہٹ سنائی نہ دی تو اس نے اپنا سر اٹھا کر دروازے کی طرف دیکھا!۔۔۔ وہ مہجبین کے سر کے قریب سر ٹکا کر بیٹھا ہوا تھا۔اور اس کے الجھے ہوئے بالوں کو سلجھانے میں مصروف تھا۔ زیان نے دروازے کی جانب دیکھا تو وہا انجبین کھڑی تھی۔ وہ ایک بت کی مانند استعادہ تھی دروازے کے عین بیچوں بیچ۔
زیان نے کرسی سے اٹھتے ہوئے کمرے میں آنے کی دعوت دی۔
زیان: آجائیں اندر۔ آج اس کے دل کی دھڑکنیں ڈول نہیں رہی تھیں۔ وہ انجبین کو ایسے دیکھ رہا تھا جیسے جانتا ہی نہیں انجبین کو۔
اسکی نظریں خالی تھیں
انجبین نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے اپنی پشت پہ دروازہ بند کر دیا اور بیڈ کی جانب بڑھنے لگی۔ وہ باوقار انداز میں چل رہی تھی۔ اس کی چال میں خود اعتمادی تھی۔ وہ بہت عرصے کے بعد اس قدر مضبوط دیکھائی دے رہی تھی, یا دیکھائی دینے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔
مہجبین کے بیڈ کے قریب آکر اس نے جھک کر مہجبین کے ماتھے پہ بوسہ دیا، اور اپنی دوست کے مرجھائے ہوئے گالوں پہ اپنا ہاتھ نہایت نرمی اور پیار سے پھیرا۔
زیان اس دوران کمرے سے باہر چلے جانا چاہتا تھا مگر انجبین نے ہاتھ ک اشارے سے زیان کو باہر جانے سے روک لیا، وہ اپنے دل کی باتیں زیان کے سامنے کرنا چاہتی تھی۔ اس کے اندر اتنا حوصلہ ہی کہاں تھا کہ وہ اپنی سہیلی کو اس حالت میں دیکھ سکے۔ اگر زیان وہاں سے چلا جاتا تو؟ وہ کیسے اس مہجبین کے ساتھ بیٹھتی! جس نے آج پہلی بار دوست کے آنے پر آگے بڑھ کر اسے گلے سے نہیں لگایا تھا۔ وہ بے نور آنکھوں سے نہ جانے کن خلاؤں میں گھوڑتی جا رہی تھی۔
خاموشی کے طویل وقفے کے بعد انجبین نے اپنے آپ کو اپنے جزبات کو قابو میں لاتے ہوئے بات کرنے کی حمت جمع کی۔
انجبین: مہجبین مبارک ہو تم کا خدا نے ایک بہت پیاری بیٹی سے نوازا ہے۔وہ وہ نا! بلکل میرے پہ گئی ہے۔ سچی جبین۔ لگتا میری تصویر بہت دیکھتی رہی ہو۔
وہ ماشاءاللہ سچ مچ بہت پیاری ہے۔
(انجبین یہ جملے ادا کرتے ہوئے مسکرا رہی تھی، مگر اس کی آنکھوں سے آنسوں بھی رواں تھے۔
انجبین کی آواز بھرائی تھی، وہ کچھ لمحے خاموش رہنے کے بعد بولی،)
میں نے وہ باکس کھول کر دیکھ لیا مہجبین! میرے سے نہیں رہا جاتا تم جانتی ہو نا۔۔
مجھے معاف کر دینا میں نے وہ خط پڑھ لیا!۔۔۔
جسے چند ماہ بعد پڑھنے کا تم کہ رہی تھی۔۔۔۔ انجبین کے ان جملوں کے ادا ہونے کے دوران مشینوں کا شور بڑھنے لگا تھا ۔ مہجبین یہ سب کچھ سن رہی تھی۔۔
زیان ان دونوں دوستوں کے بیچ ہونے والی ان باتوں سے بے خبر تھا۔ کون سا خط؟ کیسا باکس! وہ سوال کرنا چاہتا تھا مگر خاموش رہا۔۔
سچ کہوں تو مجھے دکھ اس بات کا نہیں کہ میں نے آج پڑھا اسے۔اس کاغذ کے ٹکڑے کو۔ جس نے تمھارے سکون کو برباد کر کے رکھا تھا۔ کاش میں یہ اسی روز پڑھ لیتی تمھاری آنکھوں کے سامنے تمھارے ہوتے ہوئے۔۔۔۔ انجبین مہجبین سے یوں ہی مخاطب تھی جیسے وہ ہوا کرتی تھی۔ اس کا انداز بلکل بھی ایسا نہیں تھا کہ جس سے وہ بات کر رہی ہے وہ اسے سن بھی رہی ہے یا نہیں۔۔
زیان: پلیز انجبین یہ سب باتیں پھر کبھی کر لیجیے گا، اس کے لیے یہ وقت بہت نازک ہے۔
وہ مزید کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ انجبین نے اپنی مٹھی میں تھاما ہوا چڑمڑا سا کاغذ نکالا اور پڑھنے لگی۔ اس نے زیان کی بات سنی ان سنی کردی تھی۔
انجبین: انجبین میں تم سے بہت کچھ کہنا چاہتی ہوں۔ مگر تمھاری ذہنی حالت اس قابل نہیں کہ یہ باتیں سن سکو! تم بہت بڑے امتحان سے گزر کر آئی ہو۔ میری زندگی بھی پہلے جیسی نہیں رہی ہے۔ میری شادی ایسے شخص سے ہوئی ہے جس کو میں پیار کرتی تھی، اور کرتی ہوں۔۔۔ مگر میرا شوہر!!!
” میں جانتی ہوں زیان کے دل میں اور کوئی نہیں بس تم ہو!۔ یہ بات میں بہت پہلے سے جانتی ہوں۔ تم کو شاید یاد بھی نہیں ہوگا تمھاری مہندی پہ! تمھارے ساتھ ٹکراؤ سے تمھارا جھمکا زیان کی شرٹ سے اٹک گیا تھا۔۔ جانتی ہو ان کی آنکھوں میں صرف تم تھی۔
میں ان کی آنکھیں پڑھ لیتی ہوں انجو!
ان کی آنکھیں جھوٹ بولتی ہیں مگر وہ یہ بات نہیں جانتے۔۔
میں ایک چاندنی رات میں بیٹھ کر یہ سب لکھ رہی ہوں۔ تم جب اسے پڑھوں گی تو تب بھی چاندنی راتوں میں سے ہی کوئی رات ہو گئ۔ یہ میرا اندازہ ہے۔ میری بیٹی نہ جانے کیسی صحت والی ہوگی۔ وہ اب جیسی بھی ہوئی وہ تمھاری ہو گی انجبین! میں جا چکی ہوں گی۔ میری بیٹی کا بہت خیال رکھنا اسے تم میرے بارے میں ہماری دوستی کے متعلق سب کچھ بتانا پلیز!
(خط بے حد طویل تھا۔انجبین نے خط کا صرف ایک حصہ ہی ابھی پڑھ کر سنایا تھا۔ اس سے آگے نہ اس میں سنانے کی جرات تھی اور نہ زیان میں سننے کا حوصلہ۔)
زیان یہ جملے سن کر جیسے شرمندگی کے باعث زمین میں گڑھ گیا تھا۔ وہ اپنی بیوی سے سچائی چھپانے میں ناکام رہا تھا۔۔ اس نے تو کبھی یہ ظاہر ہونے نہیں دیا تھا لیکن مہجبین کو سب علم تھا۔۔”انسان کبھی چھپانا بہت کچھ چاہتا ہے زبان سے، مگر نظر سب عیاں کر دیتی ہے”۔۔ وہ یہ سب جانتے ہوئے بھی زیان سے پیار کرتی تھی۔ اس کی زندگی میں خوشیاں بھرتی رہی۔۔
انجبین نے اپنے آنسوؤں کو بہنے سے نہیں روکا! وہ مہجبین کے مزید قریب ہو کر بیٹھ گئی۔ اس نے زیان کا ہاتھ مہجبین کے ہاتھوں میں دیا۔
انجبین: کاش تم دیکھتی جبین! کاش! یہ دیکھ لو کہ زیان تمھیں کس قدر چاہتے ہیں۔ تم نے ان کی آنکھوں میں مجھے دیکھا تھا پگلی، مگر ان کے وہ آنسوں نہ دیکھ پائی جو تمھاری خاطر بہتے ہیں۔
معاف کرنا جبین! میں تیری بیٹی کے لیے کبھی اچھی ماں نہیں بن سکوں گی۔ میں تم سے تمھارا شوہر نہیں چھین سکتی۔ زیان کے دل میں کبھی اگر میں تھی بھی! تو یقین جانو اب میرے لیے وہاں کوئی جگہ باقی نہیں ہے۔
“بس اِک شخص ہی کُل کائنات ہو جیسے
نظر نہ آۓ تو دن میں بھی رات ہو جیسے
میرے لبوں پہ تبسم موجزن ہے اب تک
کہ دل کا ٹوٹنا چھوٹی سی بات ہو جیسے”
میں جانتی ہوں تم یہ سب سن رہی ہو۔۔۔
انجبین رو رہی تھی وہ بے اختیار اپنی دوست کا ہاتھ چوم لیتی کبھی اس کی آنکھوں سے بہنے والے ان آنسوؤں کو اپنے ہاتھ سے صاف کرنے لگتی۔
“پلیز ایک دوست کی گزارش سن لو۔ پلیز اپنے زیان اور دعا کو اپنی جدائی کا صدمہ مت دو۔۔
میں نے زیان سے شاید ویسا پیار کبھی نہ کیا جیسا عشق تم نے ان سے کیا ہے۔
میں ان کے قابل نہیں ہوں پلیز لوٹ آو”۔۔
۔۔۔۔
انجبین کے منہ سے بمشکل یہ فکرے ادا ہوئے ہی تھے کہ وہ بھاگتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔ زیان نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
انجبین کے جاتے ہی ڈاکٹر حیدر کمرے میں داخل ہوئے اور انہوں نے مشینوں میں ہونے والی غیر معمولی حرکت کو محسوس کر لیا تھا اندر آتے ہی وہ تیزی سے صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے آگے بڑھے تھے۔
زیان کے چہرے پہ ہوائیاں اڑنے لگی تھیں! وہ گھبراہٹ کا شکار ہو گیا تھا۔ ایک بار پھر سے یہ سب ہو رہا تھا۔
•———-• •———-•
خلوص دل سے مانگی گئی دعائیں قبولیت کا شرف حاصل کیا کرتی ہیں! دعا تو تقدیریں بدلنے کا کام کرتی ہیں، ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ زیان اب بھی خالی ہاتھ رہ جاتا۔ اس کی رضا میں راضی رہنے والے زیان کو کیونکر محروم رکھا جاتا نوازشات سے۔ اس نے تو اپنی چاہت کو “رب” کی چاہت اس کی پسند کے آگے قربان کر دیا تھا۔ انعام نہ دیا جائے وہ ایسا دربار ہی نہیں۔ اس کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں!۔۔۔
رات مہجبین کی اضطرابی کیفیت تھی۔ جیسے اسے کچھ کہنا ہے اس کے اندر عجیب سی ہلچل جاری تھی۔ ڈاکٹرز نے مہجبین کو آئی-سی-یو میں منتقل کر دیا تھا ایک بار پھر سے۔ وہ کسی بھی طرح کا رسک لینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ایسے ہی زیان کسی کوتاہی کا روادار نہیں ہونا چاہتا تھا۔
زیان آج بھی نہایت تھکا ہارا دفتر آگیا تھا تھا۔ وہ آتے ہوئے اپنی بیٹی کو چوم کر آرہا تھا، اسے اپنی گود میں اٹھا کر اس سے کھیل کر آیا تھا۔ اس کی تھکن اپنی بیٹی کو اٹھانے سے کچھ کم ہو گئی تھی۔۔ عید آنے کو تھی! مگر مہجبین کے بنا عید کی خوشیاں ماند پڑنے سے سب گھر والے بے حد اداس تھے۔ کلثوم آنٹی کی تو آنکھیں خشک ہونے کا نام ہی نہ لیتی تھیں۔ وہ اپنے گھر میں رہ رہی تھیں۔ انہیں زیان کی امی اسکی بہن سب اپنے گھر لے جانا چاہتے تھے مگر وہ یہ بھی نہیں کر سکتی تھیں۔ ہماری مائیں ہوتی ہی ایسی ہیں جن کو بیٹی کے سسرال رکنا مشکل لگتا ہے۔ چاہے وہ بیٹی کا سسرال بیگانہ ہو یا اپنے سگے بہن بھائیوں میں سے کسی کا گھر۔ ان کے نہ آنے سے زیان کی مشکلات میں مزید اضافے کا امکان تھا۔ لیکن زیان ایک کم گو اور پریشانیوں کو اپنے اندر جذب کرنے والا شخص تھا اس لیے اس نے کبھی شکایت نہ کی تھی۔ وہ جانتا تھا ان کے لیے یہ سب کرنا آسان نہیں ہے۔
زیان ابھی کام کرنے کے لیے فائلز کو بس دیکھے جا رہا تھا۔ کہ اس کے فون کی گھنٹی بج اٹھی۔
زیان: جی کون؟
فون کی دوسری جانب سے سنائی دینے والی آواز نے چونکا دینے والی تھی۔ زیان کو اپنے کانوں اپنی سماعتوں پہ یقین نہ آیا۔ وہ جلدی سے کھڑا ہو کر فون کو حیرانی سے دیکھنے لگا۔ فون کی دوسری جانب سے سنائی دینے والی آواز!
“مہجبین” کی تھی۔ اسے ہوش آگیا تھا۔ اللّٰه تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق زیان کو وہ دے دیا تھا۔ جس کی زیان کو چاہت تھی!۔۔۔ وہ اس کمحے اتنا خوش تھا کہ اس کی آنکھیں اشکوں سے لبریز ہو گئی تھی۔ وہ کہنا چاہتا تھا! وہ اپنی مہجبین کو پکارنا چاہتا تھا مگر اس کے منہ سے ایک بھی جملہ ادا کر پانا از حد مشکل کام تھا۔۔
فون کی دوسری جانب بھی حال کچھ ایسا ہی تھا۔ آنسوؤں سے بھیگا چہرہ لیے مہجبین ہنسی کو روکتے ہوئے بولنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس کی خوشی کا اندازہ کون کر سکتا تھا۔ وہ کن لفظوں میں اس خدا کا شکر ادا کرتی کیسے کرتی وہ بات اس پیار کرنے والے شوہر سے۔ جس نے رو رو کر دعاؤں میں مہجبین کو مانگا تھا وہ اس کے آگے کیا بولتی۔ فون کی دونوں اطراف ہنسی، سسکیوں اور آنسوں کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ اظہارِ تشکر کے لیے ان دونوں کے پاس الفاظ کی شدید کمی تھی۔
“تو تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے”
وہ نعمت لوٹا دی گئی تھی۔ زیان کو نواز دیا گیا تھا! اس کا صبر اس کا راضی با رضا ہونا اس کی تمام مشکلات کے خاتمے کا باعث بنا تھا۔ وہ یہ بات جانتا تھا۔ اسے خوب معلوم تھا کہ وہ اس ذات کے کرم کے علاوہ اس کے ساتھ کے بغیر کچھ کرنے کے قابل نہیں ہے۔۔۔ زیان فون بند کر کے جلد از جلد مہجبین کے پاس پہنچ جانا چاہتا تھا۔
•———-• •———-•
After 2 months.After 2 months.After2 months
•———-• •———-•
زیان کاشف کا نمبر تو ملا دیں پلیز! میں انجبین کو صبح سے فون کیے جا رہی ہوں تو وہ اٹھا ہی نہیں رہی ہے۔
مسلسل نمبر بھی بند جا رہا اس کا۔
مہجبین اپنے اور دعا کے کپڑوں کا بیگ تیار کر رہی تھی۔ وہ لوگ گھر تبدیل جو کر رہے تھے۔ پیکنگ بھی اسی سلسلے میں تھی۔ زیان تو جیسے اس خاندان کو بھول ہی گیا تھا۔ سرکاری نوکری مل جانے کہ وجہ سے اس نے وہ پرائیویٹ نوکری چھوڑ دی تھی۔ اس کے بعد سے اس کا کاشف یا دفتر کے کسی اور کولیگ سے کوئی رابتہ نہیں ہوا تھا۔ خوشیاں بھی تو برسات کی طرح برسنے لگی تھیں اس خاندان پہ۔ مہجبین کا ہوش میں آنا! نئی زندگی کا مل جانا
زیان کی نوکری، اور نیا گھر۔
مہجبین کا اپنے بابا سے رویہ نرم پر جانا اور اس خاندان کا پھر سے ایک ہونے کی طرف آنا۔۔۔۔ مہجبین کے بڑے بھائی بہنوں کا ماں سے ملنے کے لیے آنا۔ اتنی زیادہ خوشی میں جیسے انجبین کا ہونا نہ ہونا فراموش ہی ہوگیا تھا۔
زیان نے کال ملانے کے بجائے مشورہ دیا کہ کیوں نہ ہم جا کر انکو سرپرائز دیں۔ مہجبین کو بھی یہ آئیڈیا اچھا لگا تھا وہ تو اس بارے میں سوچ کر ہی جھوم اٹھی تھی کہ وہ انجبین سے ملنے جا رہی ہے۔ خلاف معمول آج مہجبین کی تیاری میں بھی زیادہ وقت نہیں لگا اور اگلے آدھ گھنٹے میں وہ دعا کو گود میں لیے زیان کے ساتھ گاڑی میں تھی، جبکہ گاڑی سست رفتار میں چلی جا رہی تھی ٹریفک کے ہجوم میں۔ مہجبین بچوں کی طرح بار بار یہ سوال دوہرا رہی تھی ” زیان بتائیں نا!
وہ مجھے دیکھ کر خوش ہو گی نا؟” زیان اسکی خوشی کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا اور مسلسل ہاں میں سر ہلا رہا تھا۔۔۔ مہجبین سوال کر کے رکتی تو دعا کے ننھے منے سے ہاتھوں کو چوم کر اس سے کہتی ” خالہ سے بلکل بھی بات مت کرنا! ہم تو ناراض ہیں. ہے نا دعا؟”..
•———-• •———-•
مہجبین کی آواز اس کی حلق میں اٹک سی گئی تھی، اس کے کانوں میں یاسمین آنٹی کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ گردش کر رہے تھے۔
“تم میری بیٹی کی قاتل ہو!
تم قاتل کی بیٹی ہو”
قتل کس کا ہوا تھا یاسمین آنٹی کیوں اسے قاتل کہے جا رہی تھیں۔ وہ تو سب لوگ سامنے ہی موجود تھے۔ پھر قتل کیسا! اور یہ چانٹا انہوں نے کیوں مارا تھا۔ آنٹی کو مجھے دیکھ کر خوشی کیوں نہیں ہوئی۔۔۔ مہجبین چکرا کر رہ گئی۔ اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ انکل نے آنٹی کو ایسا کرنے سے روکا کیوں نہیں۔۔ زیان دعا کو ہاتھوں میں اٹھائے مہجبین کے پاس کھڑا تھا وہ بھی ایک لمحے کو جیسے سکتے میں آگیا تھا، اس کی سوچنے سمجھنے کی طاقت وہ سب جیسے ایک دم سے گم ہو کر رہ گیا۔ اسکی زبان گنگ تھی۔
مہجبین: انجبین کہاں ہے؟ اسے بلا دیں پلیز!
“انجبین کا نام بھی مت لو تم! تمھاری وجہ سے وہ ہمیں چھوڑ کر چلی گئی ہے۔”
انجبین کی امی نے گرجدار آواز میں کہا تو مہجبین کانپ کر رہ گئی، اس کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا۔۔”کدھر چلی گئی وہ!”
یاسمین: جہاں سے لوٹ کر کوئی بھی نہیں آسکتا وہاں چلی گئی ہے۔ نہ وہ تمھے دیکھنے کے لیے نہ جاتی اور نہ میری بیٹی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہمیں چھوڑ کر جاتی۔ انجبین کی امی بین ڈال رہی تھیں وہ رو رہی تھیں۔ وہ مہجبین کو بار بار قاتل اور قاتل کی بیٹی کہے جا رہی تھیں۔ فاریہ نے بمشکل ماں کو سہارا دیا اور کمرے میں لے گئی۔
“نہ وہ تمھے دیکھنے کے لیے نہ جاتی اور نہ میری بیٹی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہمیں چھوڑ کر جاتی۔”
مہجبین جیسے کسی سحر کے زیر اثر یہ جملے دوھرا نے لگی تھی۔ اس کا جسم شل ہو رہا تھا اور سر میں ٹیسیں اٹھنے لگی تھیں۔ وہ گر جاتی اگر زیان بروقت اسکو اپنی بانہوں کے حصار میں نہ لے لیتا۔
کاشف مہجبین کے لیے پانی لے آیا، وہ لنگڑا کر چل رہا تھا! اس کی کلائی پہ پٹی بندھی ہوئی تھی اور چہرے پہ بھی خراشیں تھی۔
خضر انکل: بیٹا میں آپ سے معاف چاہتا ہوں! آپکی آنٹی اس وقت اپنے ہواس کو قابو نہیں کر پا رہیں اس لیے وہ یہ سب کہ رہی ہیں۔ ان کے لہجے کی نرمی آج بھی اسی طرح قائم تھی۔ شائستگی اور نفاست کے ساتھ انکا نرم رویہ مہجبین اور زیان دونوں کے لیے ہی کچھ سکون کا باعث بن سکتا تھا۔
مہجبین بس خالی نگاہوں سے دیکھے جا رہی تھی۔ آنکھوں میں کوئی سوال باقی نہیں تھا، وہ چلی گئی تھی اسے چھوڑ کر۔ “ہم دم تھی نا وہ! میرے ہمقدم رہا کرتی تھی وہ!!! بے وفا نکلی” مہجبین نے دعا کا ماتھا چوم لیا اور اسے اپنے آپ میں چھپا لیا۔۔ نہ وہ تمھے دیکھنے کے لیے نہ جاتی اور نہ میری بیٹی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہمیں چھوڑ کر جاتی۔” یہ جملہ مہجبین کی زبان سے بنا کسی وجہ کے خود بخود ادا ہونے لگے تھے۔
زیان: یہ سب کیا ہے کاشف مجھے تو سمجھ میں نہیں آرہا؟ زیان کے سوال میں تشویش بھی تھی اور الجھن بھی۔
خضر انکل وضو کرنے جا چکے تھے۔ ظہر کی نماز کا وقت ہو رہا تھا۔ اور مہجبین کی سوچیں الجھتی چلی جا رہی تھیں۔ وہ کاشف کے جواب سے بے نیاز اپنی ہی سوچوں میں کھوئی ہوئی تھی۔
کاشف کی آواز شددت غم کے باعث رندھی ہوئی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے ہاتھ بھی کانپ رہے تھے۔ اس کی آنکھیں خشک ہی نہیں ہو پاتی تھیں۔ وہ ابھی کم عمر ہی تو تھا۔ ٹین ایج لڑکا اور اتنا بڑا حادثہ اپنی آنکھوں سے دیکھنا وہ بھی بلکل اکیلے۔۔۔
کاشف— ( میں تراویح پڑھ کر واپس آیا تو گاڑی کے پاس وہاب کھڑا تھا اور وہ جھکا ہوا تھا شیشے کے اوپر، وہ آپی کو باہر نکالنے کی کوشش کر رہا تھا وہ شیشہ توڑنے کی دھمکی بھی دے رہا تھا۔۔۔۔ آپی ڈر نہیں رہی تھی اس سے۔۔ میں نے جا کر پہلے نرمی سے پیچھے ہٹ جانے کو کہا! لیکن وہ پیچھے نہیں ہٹ رہا تھا۔ آس پاس لوگ گزرتے چلے جا رہے تھے کسی نے وہاں رکنے کی زہمت گوارا نہیں کی۔
وہاب نے آپی کو گالی دی!
بدچلن بولا۔ مجھے غصہ آگیا اور میں الجھے گیا اسے دھکے دیے۔ لڑنے لگا۔۔۔۔۔ زیان جو کافی دیر سے سب کچھ سن رہا تھا وہ اب بھی اس سب کی اصل وجہ نہیں جان سکا تھا۔ اس نے سوال کرنے کا سوچا ہی تھا کہ کاشف پھر سے بولنے لگا۔
وہ حق مہر میں دیے گئے پلاٹ کو واپس مانگ رہا تھا! اسے کاروبار میں نقصان ہوا تھا شاید اس کیلیے رقم کی ضرورت تھی۔ “کاشف کا لہجہ بے تاثر تھا اس کا چہرہ بھی جذبات سے عاری تھا اسی آنکھوں میں اداسی تھی۔”وہ یہ باتیں ایسے کر رہا تھا جیسے کمپیوٹر رائزیڈ روبوٹ اپنے مینوئل کے مطابق ہدایات دیتا جاتا ہے۔
میرے سے بحث کرتے ہوئے اس نے مجھے دھکا دیا۔ میں گر گیا۔ مجھے گرتے دیکھ کر آپی باہر نکل آئیں گاڑی سے۔ وہاب تب تک جنونی ہو چکا تھا! اس نے غصہ میں آکر مجھ پہ فائرنگ کر دی۔ وہ بنا دیکھے گولیاں چلا رہا تھا۔ وہ گولی میرے سینے میں لگتی! اگر آپی مجھے اٹھانے کو آگے نہ بڑھی ہوتی۔۔۔۔ گولی ریڑھ کی ہڈی میں لگی تھی۔ زیان بھائی میری بہن میرے ان ہاتھوں میں تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ کاشف کی آواز بند ہو گئی تھی وہ اپنا ماتھا پیٹ رہا تھا۔ کون تھا جو اسکے غم کا اندازہ کر سکتاتھا۔ کون جان سکتا تھا کہ وہ کس قرب سے گزر رہا ہے۔ وہ رو رہا تھا اور اپنے آپ کو لعنت ملامت کر رہا تھا۔ زیان اس کے قریب جانے کے لیے اٹھنے ہی والا تھا کہ مہجبین نے اسے روک دیا۔
وہ خود کاشف کے پاس گئی اور اس کی پیٹھ تھپکنے لگی۔ “کاشف میری کیا غلطی ہے؟”۔۔۔ یہی کہ وہ مجھے دیکھنے آئی تھی؟”
کاشف نے سر نفی میں ہلایا کہ ایسا نہیں ہے۔۔ وہ ایک ہی لمحہ میں چپ ہوگیا تھا اس نے مہجبین کو دیکھا اور اس کی گود میں سوئی ہوئی دعا کو دیکھا۔ “آپکی سہیلی کے قاتل کو سزا نہیں ہو سکتی وجہ صرف ایک ہے! اور وہ ہیں آپکے والد خاور خان” کاشف کے لہجے میں اس نام کے لیے بے حد نفرت تھی۔ اپنی ماں کے برعکس وہ مہجبین کو قصوروار نہیں سمجھتا تھا۔ آپکے فادر وہاب کے کاروباری شریک ہیں! پولیس ان کو کچھ کہتی نہیں ہے کہ وہ بہت بڑا نام ہیں اس شہر کا۔ اور آپ کی رگوں میں ان کا ہی خون ہے آپی۔۔۔۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی بہت سخت بات کہ گیا تھا۔ ایسی بات کہ جس نے مہجبین کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ وہ کانپ کر رہ گئی۔ اسے اپنی بہن سمجھنے والا کاشف آج اسے اس کے باپ کی بدنامی اور برے کردار کے باعث نفرت کرنے کو تھا۔ وہ بس اپنی بہن کی وجہ سے مہجبین کی عزت کر رہا تھا۔۔۔ مہجبین کے لیے آج کے دن کے یہ دو جملے ہی کافی تھے۔۔۔!!!
“آپ کی رگوں میں ان کا ہی خون ہے آپی”
“نہ وہ تمھے دیکھنے کے لیے نہ جاتی اور نہ میری بیٹی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہمیں چھوڑ کر جاتی۔”
مہجبین نے کاشف کو ایک نظر دیکھا اور شرمندگی سے سر جھکائے ہوئے باہر چلی آئی! وہ خالی ہاتھ تھی۔ وہ اپنی بیٹی کاشف کی گود میں ڈال آئی تھی۔ صرف اس لیے کے کاشف کو یہ احساس دلا سکے کے وہ اکیلا نہیں ہے۔اس جدو جہد میں مہجبین اسکے ساتھ ہے۔ وہ اپنی بیٹی تک قربان کر سکتی اپنی دوست کی خاطر اس کے چہرے کے تاثرات ایسے تھے جیسے سکول کالج جاتے ہوئے انجبین کے ہوا کرتے تھے۔۔۔۔ وہ اس قدر پر عزم پہلے کبھی نہ تھی۔
•———-• •———-•
خاور خان نے بیٹی کو اندر داخل ہوتے دیکھا تو اپنی نشست سے اٹھ کھڑے ہوئے، وہ ابھی ابھی آئے تھے اور اپنی نواسی کے لیے بہت سے کھلونے لے کر آئے تھے۔ دعا کے نانا نانی پہلی مرتبہ ایک ساتھ آئے تھے۔ اور ساتھ مہجبین کے بڑے بھائی زاہد بھی۔ وہ پہلی بار اپنی بھانجی کو دیکھنے کے لیے آئے تھے۔ وہ اپنے ابا کے ساتھ ہی بزنس میں شامل تھے۔وہ گزشتہ دو ماہ سے ملک سے باہر ہی تھے۔
خاور خان آگے بڑھے ہی تھے کہ مہجبین نے ہاتھ اٹھا کر انہیں وہیں رک جانے کو کہا۔ مہجبین کے اس بدلے ہوئے رویے کی وجہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ زیان دعا کے لیے اس کا فارمولہ ملک لینے چلا گیا تھا۔ زیان کی امی مہجبین کے اس انداز سے ششدر رہ گئی۔وہ کچھ سمجھ نہ سکیں تھی کہ آخر مہجبین نے ایسا کیوں کیا۔
مہجبین: امی یہ دعا کو پکڑ لیں پلیز!۔۔ مہجبین کی بات پہ اسکی امی نے بازو آگے کیے کے لاو دے دو۔۔۔ مہجبین نے ایسے انداز سے ماں کو دیکھا کہ ان کا اٹھا ہوا ہاتھ خود بخود نیچے آگیا۔ وہ مہجبین کو پہلی بار غصہ میں دیکھ رہی تھیں۔ مہجبین نے آگے بڑھ کر اپنی بیٹی کو ساس کی گود میں لٹا دیا۔ وہ ننھی پری کبھی ماں کو دیکھتی اور کبھی دادی کی طرف، اور پھر خود ہی مسکرانے لگتی تھی۔ اسے دادی کی آغوش میں آکر خوشی ملتی تھی۔۔ بلکل اپنے بابا کی طرح۔
اس سب کے دوران خاور خان کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔۔ وہ اپنی بیٹی کا یہ روپ پہلی مرتبہ دیکھ رہے تھے۔
مہجبین: کیوں ائے ہیں آپ لوگ؟ “سوال کا لہجہ دل چھلنی کر دینے والا تھا”۔
ماں: تم سے ملنے کو بیٹا۔ ” حیرت عروج پہ تھی”۔
مہجبین: جا سکتے ہیں آپ لوگ، مجھے ان لوگوں سے مل کر کوئی خوشی نہیں ہو گی جو کسی کی قبر پہ اپنے محل کی بنیاد رکھتے ہوں۔ “درشت لہجے کے ساتھ ساتھ آنکھوں میں بھی نفرت دیکھائی دے رہی تھی”۔
خاور خان: کیا کہ رہی ہو بیٹی تم!۔۔۔ خاور خان کی آواز اونچی ہو گئی تھی جیسے انکی چوری پکڑی گئ ہے۔۔
مہجبین نے گہری سانس لی اور اپنے باپ کو دیکھا، “مجھے کچھ سوال کرنے ہیں آپ سے”۔۔ لہجہ بتا رہا تھا معاملہ سنجیدہ ہے۔
مہجبین: آپ کیوں مجھے جیتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے؟ کیا قصور ہے میرا؟
خاور خان: کیا کہ رہی ہو جبین۔۔۔
مہجبین: مہجبین کہیے جبین کہنے کا حق صرف انکو ہے جن کو میں پیاری ہوں! اور یہ نام جس نے دیا اس نے اپنے مجرموں کو اسے استعمال کرنے کا حق نہیں دیا۔
خاور خان: یہ تم کیا کہے جا رہی ہو۔ اور کون نہیں جینے دیتا تمہیں بتاو بیٹی۔ زاہد نے بھی ہاں میں ہاں ملائی!
مہجبین: میرے پیدا ہونے سے موت کے منہ میں چلے جانے تک آپ لوگوں نے مجھے یتیمی کی زندگی دی، میری خوشی میرا غم بس میرا تھا۔ خدا نے ایک دوست دی تھی، صرف ایک۔ جسے آپ نے چھین لیا ہے مجھ سے جناب خان خاناں خاور خان صاحب! ۔۔۔۔
مہجبین کی آواز اس کی حلق میں اٹکنے لگی تھی، اس کی آنکھیں آنسوؤں کو جذب کرتے کرتے تھک گئ تھی
خاور خان: میں نے قتل نہیں کیا کسی کو! ۔۔ ان لیے یہ سب کچھ چونکا دینے والا تھا۔۔۔میں نے کرپشن کی ہے میں نے بہت سے غلط کام کیے مگر قتل نہیں۔۔
مہجبین: آپ نے میری دوست انجبین کے قاتل کو پناہ دی ہے اسے سزا سے بچایا ہے آپ نے۔ جھوٹے ہو آپ! آپکا وجود آپکی نیت سب کچھ۔ مہجبین رو دی تھی، اسکی آواز اونچی ہوئے جا رہی تھی وہ قرب سے چیخ رہی تھی اس کی آنکھوں میں آنسوں نہیں تھے وہ اندر ہی اندر گھٹ کر رہ گئی تھی۔ اس کی آنکھوں سے آنسوں روٹھ گئے تھے۔ اسے سخت جلن ہونے لگی تھی۔
خاور خان کی آنکھوں میں آنسوں تھے، ندامت تھی، ان کا سر جھک گیا تھا۔
خدا کے قانون سے لڑتے لڑتے وہ آج اپنی ہی اولاد کے مقابل آگئے تھے۔ اس اولاد کے لیے جس کے لیے انسان یہ سب کرتا ہے۔ دولت کماتا ہے اپنی زندگی کے بہترین سال گنواتا ہے۔ مگر یہاں تو آزمائشیں آئی ہی نہیں تھی۔ یہ ہی تو راستہ تھا جو خاور خان نے چنا تھا۔ کاش وہ جانتے کہ اس کا انجام ایسا ہوگا، تو وہ آج سے بہت سال پہلے اس کام میں داخل ہی نہ ہوئے ہوتے، اس دلدل کے اندر دھنستے دھنستے وہ گردن تک اس میں جا چکے تھے۔
•———-• •———
زیان میری بھی کیا لائف ہے؟ آپ نے مجھے رو رو کر کیوں مانگا تھا خدا سے؟ یہ سب دیکھنے کو!۔۔۔۔ بتائیں بھی زیان چپ کیوں ہیں بولتے کیوں نہیں۔ مسلسل رونے کی وجہ سے مہجبین کی آنکھیں سوج گئی تھیں۔ وہ انجبین کو یاد کر کے رو رہی تھی۔ زندگی میں پیار اور دوستی سے قائم ہونے والے رشتے انمول ہوتے ہیں۔ مہجبین کو اگر پیار ملا تھا تو اسکی دوست لے لی گئی تھی۔ وہ دوست جس نے مہجبین کو زندگی دی تھی۔ وہ اسپتال میں آکر وہ جملے ادا نہ کرتی تو شاید مہجبین آج بھی قومہ میں ہوتی۔ یا مر چکی ہوتی۔ ایک دوست نے دوسری دوست کو زندگی کا تحفہ پیش کیا تھا۔ لیکن مہجبین اپنی دوست کے لیے کچھ بھی نہ کر سکی تھی۔ وہ اپنی دوست کی یاد میں رو رہی تھی۔ وہ رونا ہی انسان کا مقدر ہے، رونے سے ہی قرب حاصل ہوتا ہے۔
“آنسو قرب کا ثبوت ہیں،جب روح سے روح کا وصال ہوتا ہے تو آجاتے ہیں”۔ یہ قرب ہی تو تھا، یہ دوستی کا جزبہ ہی تھا جس نے نہ اولاد اور نہ ہی ماں باپ کی محبتوں کو آڑے آنے دیا۔
•———-• •———-•
زندگی کی حقیقت کو جان لینا کس قدر کٹھن ہے۔ زندگی کہاں سے شروع ہو کر کہاں اختتام پذیر ہو گی یہ بات کس کو معلوم ہونی۔ زندگی کی الجھنوں کو سلجھانے میں مصروف ہو کر انسان ایک سراب کے پیچھے دوڑے چلے جاتا ہے۔ دولت کی ہوس، لوگوں پہ حکمرانی کی خواہش کرتے لوگ اور انجام خالی ہاتھ۔۔
خدا کی ذات پر بھروسہ کرنے والے لوگ جھک کر جیتے ہیں۔ جو لوگ جھکتے نہیں خدا انہیں زندگی میں کسی نا کسی موڑ پہ جھکا ہی دیتا ہے۔ وہ مال، عزت، دولت، اولاد، ہر طرح سے جھکانا جانتا ہے! جو نہیں جھکتے انکا غرور خاک میں ملا دیا جاتا انہیں بھی خاک کر دیا جاتا ہے۔ اس کی قدرد کے آگے انسان بے بس ہوتا ہے۔
“ہم میں سے کوئی بھی صحیح و سالم نہیں ہے، ہم سب کمہار کے کھلونے ہیں۔ اور ہر سمے ٹوٹتے پھوٹتے رہتے ہیں۔ اپنی مضبوطی پہ نازاں ہونے والے بھی ٹوٹ جایا کرتے ہیں”
یہی ٹوٹنے کا عمل ہی تو سب سے زیادہ عبرتناک ہوا کرتا ہے۔ جو جھکتا نہیں وہ کٹ جاتا ہے۔۔۔
زیان جھک چکا تھا اسے نواز دیا گیا تھا۔۔۔ جبکہ وہاب نے خدا کی ذات سے بڑھ کر اپنی قوت پہ بھروسہ کیا۔ توڑ دیا گیا۔ مٹی کا کھلونا کمہار نے اپنی مرضی سے توڑ ڈالا تھا، وہ جو سرکشی کرنے کو تھا۔
اس کا خود فریبی کا شکار ہونا اسے بھی شکار کر گیا تھا آج صبح اسے سولی چڑھا دیا گیا تھا۔ !…. اس فیصلے نے یاسمین آنٹی کے دل میں مہجبین کے لیے پیدا ہونے والی نفرت کی آگ کو ٹھنڈا کر دیا تھا۔
گزشتہ دو سے تین ماہ کے اندر اندر بہت سی زندگیوں کا نقشہ بدل دیا گیا تھا۔ کئ تخت و تاج تاراج ہو گئے تھے۔ بہت سے بت ٹوٹ گئے تھے۔
لوگوں کی زندگیوں کو جہنم بنا کر اپنی جنت تشکیل دینے والے ‘خاور خان’ اپنی بیٹی کی نظروں میں اپنے لیے نفرت دیکھ کر اس سب سے متنفر ہو گیا تھا۔
انہوں نے خود انجبین کے قتل کا مقدمہ دائر کروایا تھا، وہ اپنی بیٹی کو کچھ خو خوشی دینا چاہتے تھے۔
خاور خان نے ایک نفرت کی نگاہ سے بچنے کی خاطر اپنا روپیہ پیسہ گھر کاروبار سب چھوڑ دیا تھا! ٹیکس چور قبضہ مافیا اور نہ جانے کتنے ہی اس جیسے دوسرے جرائم کا سرپرست اپنی بیٹی کی نظروں میں اپنے لیے نفرت نہ دیکھے بس اسی خاطر اس نے اپنے آپ کو قانون کے آگے پیش کر دیا تھا!!!
انہیں دس سال قید کی سزا سنا دی گئی تھی
اسکی آنکھوں میں چمک تھی۔ وہ چمک جس کے ہونے سے کئی چہروں پہ رونق ہوا کرتی تھی۔ کئی زندگیاں جگمگاتی تھیں۔ وہ قبر کے بلکل قریب دو زانو ہو کر بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کی زندگی کا ایک بہت بڑا روگ مٹ گیا تھا۔ وہ اپنی سہیلی کے سامنے شرمندہ نہیں تھی۔ اس نے وہ سب کیا تھا جو وہ کر سکتی تھی۔ اس دوستی نبھائی تھی۔ وہ رو رہی تھی۔ اس کے ان آنسوؤں کی وجہ دوست سے بچھڑنا تھا؟ یا اس کے مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچا دینے کی خوشی۔
چھ ماہ کی دعا نور ماں کی گود میں بیٹھی اپنی خالہ کی قبر سے گرنے والی گلاب کی پتیوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر مسل رہی تھی۔ وہ اپنا ہاتھ مںنہ میں ڈالتی تھی تو مہجبین اسے روکا کرتی تھی کہ یہ اچھی بات نہیں اسے عادت ہو جائیگی۔ زیان نے دعا کو روکنا چاہا تو مہجبین نے زیان کو ایسا کرنے سے روک دیا۔
مہجبین: رہنے دیں زیان یہ اپنی خالہ سے پہلی مرتبہ ملی ہے نا! اسی سے مانگ کر کھا رہی ہے، دیکھیں کیسے یہ ہاتھ آگے کر رہی ہے!… مہجبین کی بھیگی آنکھوں کے ساتھ مسکراہٹ نے زیان کو بھی مجبور کر دیا مسکرانے پر۔۔۔
ختم شد
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...