وہ گہری نیند میں تھی جب اس کا موبائل بج اٹھا اس نے تکیہ کان کے اوپر رکھ کر سونے کی کوشش کی مگر اگلا بھی قسم کہا کر بیٹھا تھا فون بار بار کرنے کا اس نے مندی مندی آنکھوں سے موبائل کے اسکرین کو دیکھا جہاں ہٹلر کالنگ تھی اس نے فون کاٹ کر سائیڈ پر رکھا اب کی بار میسج ٹیون بجی نیند تو اس کی اڑ چکی تھی اس نے ہاتھ بڑھا کر موبائل کو دیکھا جہاں ہٹلر کا میسج تھا
“تم نے ایک منٹ میں فون ریسیو نا کیا تو آگے پانچ منٹ میں میں تمہارے گھر میں پایا جاؤ گا ” اس نے بےزاری سے موبائل کو گھورا
“ہیلو ” پری نے بھاڑ کھانے والے انداز میں کہا
“کسی ہوں وائفی” لگاوٹ میں پوچھا گیا
“کیا چاہتے ہیں آپ ”
“تمہیں ”
پری کا اپنا سر پیٹنے کا دل کیا
“مسٹر بےہودہ باتوں سے پرہیز کریں تو اچھا ہو گا” اس نے چبا کر کہا
“میں نے کوئی بےہودہ بات نہیں کی تمہیں چاہتا ہوں بس تمہیں ” اس نے مزا لے کر کہا
“مطلب کی بات کریں”
“میرے تو سارے مطلب تم سے شروع ہو کر تم پر ختم ہوتے ہیں ”
وہ ہر بات کا الٹا جواب دے رہا تھا پری نے موبائل کان سے ہٹا کر گھورا
“آپ نے یہ سب فضول باتیں کرنے کے لیے اتنی رات کو فون کیا ہے ” وہ اکتا کر بولی
“نہیں خیر یہ خوبصورت باتیں تو پوری عمر ہی کرتا رہوں گا مگر اس وقت جس بات کے لیے فون کیا ہے وہی بات کر لیتا ہوں” آخر میں اس کی آواز سنجیدہ ہوئی
“تم جاب کرنا چاہتی ہوں”
“ہاں ” محتضر سا جواب دیا
“کیوں کرنا چاہتی ہوں کس چیز کی کمی ہے تمہیں ” اس نے غصے سے کہا
“سکون کی پیسوں کی آخر کب تک ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھی رہوں گی مجھے اب خود کچھ کرنا ہے اپنے لیے”
“کیوں میں مر گیا ہوں کیا ” اس نے ایک ایک لفظ چبا کر کہا
“فضول بولنے کی ضرورت نہیں ہے میں آپ کی زمیداری نہیں ہوں ” اس نے آرام سے کہا
“تو کس کی زمیداری ہوں نکاح مجھ سے ہوا ہے تو زمیداری بھی میری ہی ہوں نا ” اس نے غصہ قابو کر کے کہا
“زبردستی کا نکاح ” اس نے بھی چبا کر کہا
“تم کوئی جاب نہیں کروں گی سنا تم نے”
“میں کروں گی روک سکتے ہوں تو روک کر دکھا دے ” اس نے بھی ہڈرھرمی سے کہا
“تو ٹھیک ہے پریشے شاہ زر صاحبہ محبت کی زباں آپ کو سمجھ نہیں آتی تو اب آپ کے ساتھ دوسرے طریقے سے پیش آنا ہی پڑے گا ” اس نے غصے سے کہ کر فون کاٹ دیا
“بہت آئے مجھ پر رعب ڈالنے والے دیکھ لوں گی میں بھی ” اس نے خود کو تسلی دی شاہ زر کے انداز سے وہ ڈر تو گئی تھی مگر اسے خود کو مضبوط ثابت کرنا تھا اب وہ مزید اس سے ڈر کر نہیں جینا چاہتی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بس اِک شخص ہی کُل کائنات ہو جیسے
نظر نہ آۓ تو دن میں بھی رات ہو جیسے
میرے لبوں پہ تبسم موجزن ہے اب تک
کہ دل کا ٹوٹنا چھوٹی سی بات ہو جیسے
شبِ فراق مجھے آج یوں ڈراتی ہے
تیرے بغیر میری پہلی رات ہو جیسے
اُسکی یاد کی یہ بھی تو ایک کرامت ہے
ہزار میل پہ ہو کے بھی ساتھ ہو جیسے
تیرا سلوک مجھے روز زخم تازە دے
کسی کو پہلی محبت میں مات ہو جیسے
ہمارے دل کو کوئی مانگنے نہ آیا محسن
کسی غریب کی بیٹی کا ہاتھ ہو جیسے
شاہ زر کروٹ کروٹ بدل رہا تھا مگر نیند کمبخت تھی کے آج اس پر مہربان ہونے سے انکاری تھی وہ آنکھیں بند کرتا تو پری کا خوبصورت چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے آ جاتا “پلیز پری مت ستاؤ مجھے میری نیندیں چڑا کر خود سکون سے سو رہی ہوں گی تم اور مجھ آلو کے پھٹے کو دیکھوں میں تمہاری یادوں میں اتنا گھو گیا ہوں کہ مجھے نیند تو کیا سکون بھی نہیں مل رہا ” اس نے اٹھ کر جھنجھلا کر کہا نیند تو آ نہیں رہی اٹھ کر ٹیرس پر آیا جہاں پر سرد ہواؤں نے اس کا استقبال کیا محبت بھی انسان کو کیا سے کیا بنا دیتا ہے آج شاہ زر کو احساس ہوا کہ پری اس کے لیے کیا ہے یہ دوری اس پر عذاب بن کر گزر رہی تھی مگر وہ کچھ بھی نہیں کر پا رہا تھا پری کا رویہ اس کی سمجھ سے باہر تھا پہلے وہ خود اس کے پیچھے پاگلوں کی طرح پڑی تھی اور اب جب وہ اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس کے لیے لوٹ کر آیا تو پری اس سے میلوں کی دوری پر کھڑی تھی وقت نے انہیں کس موڑ پر لا کر کھڑا کر دیا تھا وہ سمجھنے سے قاسر تھا مگر اسے اپنی محبت کو منوانا تھا پری کے دل میں وہ سوئی ہوئی محبت جگانی تھی اس کا اعتبار خود پر بہال کرنا تھا ابھی اسے بہت انتظار کرنا تھا صبر سے استقامت سے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“پری بیٹا آرام سے بیٹھ کر ناشتہ کروں” مما نے اسے خالی دودھ کا گلاس پیتے دیکھ کر ڈانٹا
“مما آپ جانتی ہے مجھے جلدی ہے آج میرا پہلا دن ہے اور میں بلکل لیٹ نہیں ہونا چاہتی ” وہ کہ کر اٹھی مما کو گال پر پیار کیا پھر بیگ اٹھا کر بھاگنے لگی
“کیسے جاؤ گی پری گاڑی تو خراب ہے ”
“لوکل ٹرانسپورٹ سے مما آخر کو وہ کس مرض کی دوا ہے ” اس نے بات چٹکیوں میں آڑائی “پری بیٹا تم آج سے پہلے کبھی بھی اپنی گاڑی کے سوا باہر نہیں گئی ” مما نے فکرمندی سے کہا
“مما آج سے پہلے میری زندگی میں ایسا وقت بھی نہیں آیا تھا اس لیے اب مجھے وہ سب کرنا ہے جو آج سے پہلے میں نے سوچا بھی نہیں تھا ” اس نے مسکرا کر کہا
مما نے تاسف سے اسے دیکھا “بیٹا مجھے معاف کر دینا ” انہوں نے آہستگی سے کہا
“مما آپ میری دنیا ہے پھر کبھی مجھ سے معافی مانگنے کا سوچا بھی نا تو میں بہت ناراض ہو گئی مائیں بھی کبھی بچوں سے معافی مانگتی ہے کیا ” اس نے مما کے گلے میں ہاتھ ڈال کر ان کے گال کے ساتھ اپنے گال ٹچ کیے مما نے پیار سے اسے دیکھا وہ انہیں خدا خافظ کہ کر چلی گئی ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کھڑی گاڑی کا انتظار کر رہی تھی کہ بلک مرسیڈیز آ کے اس کے سامنے کھڑی ہو گئی اس نے نظر اٹھا کر دیکھا ہٹلر فرنٹ دور کھول کر باہر آیا آنکھوں پر سٹائلش سن گلاسز لگائے بلک شلوار قمیض میں ملبوس بال ماتھے پر پڑے ہوئے تھے ایک ہاتھ میں سٹائلش سی گھڑی بندی ہوئی تھی قمیض کے دونوں بازوؤں اوپر کو فولڈ کیے وہ کسی سلطنت کا شہزادہ لگ رہا تھا
پری نے پرپل شاٹ شرٹ کے ساتھ سگریٹ ٹراؤزر پہنا ہوا تھا دوپٹا مفلر کے سٹائل میں ڈالا ہوا تھا بالوں کو پونی ٹیل میں باندھا ہوا تھا سفید پاؤں میں نازک سی چپل پہنی ہوئی تھی آج وہ معمول سے ہٹ کر اچھی لگ رہی تھی شاہ زر نے تفسیلی جائزہ لیا اس کے ماتھے پر شکن پڑے ناگواری سے پری کو دیکھا
“یہ اتنا تیار ہو کر بن سوار کر کہا جا رہی ہوں تم ” اس نے چبا کر کہا
“آپ سے مطلب ” وہ بھی اسی کے انداز میں بولی
“راستے میں تماشا بنانے سے بہتر ہے گاڑی میں بیٹھوں ” اس پاس کھڑے لوگ ان کی طرف عجیب نظروں سے دیکھنے لگے
“مجھے آپ کے ساتھ کہی نہیں جانا آپ جائے یہاں سے میرا تماشا آپ بنا رہے ہیں ” اس نے بےزاری سے کہا
“پری ایک بار کی بکواس تمہاری سمجھ میں کیوں نہیں آتی خود بیٹھنا پسند کروں گی یا ان سب کے سامنے اٹھا کر لے کر جاؤ” اس نے آگے بڑھ کر سنجیدگی سے کہا
پاس کھڑا لڑکا جب سے ان دونوں کو دیکھ کر رہا تھا آگے بڑھا ” کیا بات ہے بھائی صاحب کیوں لڑکی کو تنگ کر رہے ہوں شرم نہیں آتی راہ چلتے ماں بہنوں کو تنگ کرتے ہوئے ” اس لڑکے نے شاہ زر کے سامنے آ کر کہا
شاہ زر نے پہلے اسے پھر پیچھے کھڑی پری کو غصے سے گھورا
“تم کون ہوتے ہوں میرے معاملے میں بولنے والے ہاں ” شاہ زر نے آگے بڑھ کر اسے گریباں سے پکڑا پری کے رہے سہے اوسطان حطا ہو گئے اس پاس کے کچھ لوگ بھی اردگرد جمع ہو گئے پری نے آگے بڑھ کر شاہ زر کا ہاتھ اس لڑکے کے گریبان سے ہٹایا
“بھائی صاحب آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے یہ شوہر ہے میرے میں زرہ ناراض ہو کر گھر سے نکال گئی تھی نا تو وہ کیا ہے نا غصہ ان کی ناک پڑ رہتا ہے آپ پلیز مانیڈ مت کیجئے گا یہ تھوڑے سر پھرے سے ہے ” پری نے کمال معصومیت سے کہا
“آپ کی ہی ہمت ہے بہن اسے بداخلاق بندے کے ساتھ رہنے کی ” اس لڑکے نے ہمدردی میں کہا شاہ زر نے غصے سے اسے دیکھا آگے بڑھ ہی رہا تھا کی پری نے شاہ زر کو ہاتھ سے پکڑ کر گاڑی کی طرف کھینچا تھوڑا پاس ہوئی
“خدا کے لیے شاہ زر صاحب یہ آپ کا گھر نہیں ہے راستہ ہے یہاں اپنا اور میرا تماشا نہ بنائیں چلے گاڑی میں” اس نے غصے سے کہا
“ہاں تم جو ابھی تک وہاں کھڑی مذاکرات کر رہی تھی تب تو تمہارے شوہر کا راستہ تھا نا ” اس نے غصے سے مڑ کر اسے دیکھا
پری نے جلدی سے اسے ڈائیونگ سیٹ پر دھکیلا خود گھوم کر فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی لوگوں کا جمکھٹا بھی ادھر ادھر بکھر گیا وہ لڑکا بھی اپنا سا منہ لے کر وہاں سے چلا گیا پری نے شاہ زر کو مکمل نظر انداز کیا شاہ زر بھی کچھ بولے بنا گاڑی سٹاٹ کر چکا تھا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ زر ایک نظر روٹھی اپنی محبوب بیوی کو دیکھا اس کا سارا غصہ اڑ گیا تھا اب چہرے پر دھیمی سی مسکان تھی شاہ زر نے پری کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا پری نے کھا جانی والی نظروں سے اسے گھورا مگر وہ اپنے ہی خیالوں میں مگن آگے دیکھ کر گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا
“یہ کیا بدتمیزی ہے آپ کب سے بدتمیزی پر بدتمیزی کئے جا رہے ہیں”وہ ناراضگی سے گویا ہوئی
“میں نے ابھی بدتمیزی کی ہی کب ہے پریشے شاہ زر صاحبہ” شاہ زر نے ایک نظر اسے دیکھ کر کہا
“میرا ہاتھ پکڑ رکھا ہے آپ نے اور آپ کی رہے ہیں آپ نے کوئی بدتمیزی نہیں کی”
“لوں جی بیوی کا ہاتھ پکڑنا کب سے بدتمیزی کے زرمے میں شمار ہونے لگا ” اس نے مسکرا کر کہا شاہ زر نے اس کے غصّے سے لال پیلے ہوتے چہرے کو پیار سے دیکھا پھر اس کا ہاتھ چھوڑ دیا پری نے جلدی سے اپنے دونوں ہاتھ باندھ دیے اس کی اس حرکت پر شاہ زر نے اپنا قہقہہ بہت مشکل سے روکا
“یہ آپ کہا جا رہے ہیں مجھے دیر ہو رہی ہے میرا سکول اس راستے میں نہیں پڑتا”
“تو تمہارے سکول جا کون رہا ہے ابھی تو ہم جا کر سب سے پہلے اچھا سا ناشتہ کریں گے مجھے پتا ہے تم جب بھی فاسٹ ٹائم کچھ بھی کرنے جا رہی ہوں کھانے پینے کا ہوش تمہیں رہتا نہیں اس لیے میں نے بھی کچھ نہیں کھایا سوچا آج ہسبنڈ وائف مل کر ناشتہ کرتے ہیں ”
پری نے خیران نظروں سے شاہ زر کو دیکھا اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ شاہ زر کو اس کے مطالق ہر بات کیسے پتا ہے اتنا غور تو اس نے بھی کبھی نہیں کیا تھا
“اتنے پیار سے مت دیکھوں نظر لگا لوں گی مجھے ” شاہ زر نے شرارت سے کہا
“خوش فہمیاں تو چیک کرے اپنی بہت ہی کوئی توپ چیز ہے نا آپ جو آپ کو نظر لگاؤ گی میں اور مجھے کہی نہیں جانا آپ کے ساتھ مجھے سکول ڈاپ کر دے ”
“تم کوئی جاب واب نہیں کروں گی رات بھی کہا تھا اب بھی کہ رہا ہوں اس لیے فضول میں میرا دماغ خراب مت کروں ” شاہ زر نے رح موڑ کر سخت لہجے میں کہا
“میں مزید کسی پر بوجھ نہیں بنا چاہتی”
“کسی سے کیا مراد ہے تمہاری میں شوہر ہوں تمہارا زندہ ہوں ابھی مر نہیں گیا جو تم در در کی ٹھوکریں کھاتی پھروں ” شاہ زر نے گاڑی ایک ریسٹورنٹ کے سامنے کھڑی کی
“میں اس رشتے کو نہیں مانتی ” پری نے تلخی سے کہا
“کل تک تو تم ہی مری جا رہی تھی اس رشتے کو نھبانے کے لیے مجھ سے پیار کرنے کا تمہیں ہی شوق تھا نا اب تم ہی بھکتوں گی نا وہاں مزید رہتی نا میرے قریب آنے کی کوشش کرتی نا آج تم اور میں یہاں ہوتے ” شاہ زر نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا
“ہاں تب میں پاگل تھی میری غلطی تھی جو میں نے آپ جیسے بےحس انسان سے محبت کی اب میں اپنی غلطی سدھرنا چاہتی ہوں نہیں رہنا مجھے آپ کے ساتھ” وہ چلا کر بولی “چلو اترو نیچے پہلے جا کر اچھا سا ناشتہ کرتے ہیں پھر اس کے بعد شاپنگ کرتے گے لنچ کے بعد شام کو مووی دیکھنے جائے گے رات کو کنڈل نائٹ ڈینر کرے گے اس کے بعد تمہیں تمہارے گھر چھوڑ آؤ گا ” شاہ زر نے ایسے خوش گوار انداز میں کہا جیسے یہ سب ان دنوں نے مل کر بہت محبت سے پلین کیا تھا
“واٹ ” پری نے آنکھیں پھاڑ کر غصے سے کہا
“آپ کو لگتا ہے میں پورا دن آپ کے ساتھ گزاروں گی یہ خام خیالی دل سے نکال دے میں آپ کے ساتھ ایک لمحہ نہیں روکنا چاہتی کہا آپ پورے دن کی بات کر رہے ہیں”
“تم سے مشورہ یا تمہاری رائے پوچھی کب ہے میں نے اور تم اچھے سے جانتی ہوں مجھے زبردستی کرنی کی عادت ہے خاص کر تمہارے معاملے میں ” شاہ زر نے ہڈرھرمی سے اعتراف کیاپری کے بہت شور مچانے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا شاہ زر نے زبردستی اسے بہت ساری شاپنگ کروائی اپنی پسند کی پھر ایسکریم پالر لے آیا
“کون سی ایسکریم کھاؤ گی پری ” اس نے بہت محنت سے پوچھا
“مجھے کوئی ایسکریم نہیں کھانی آپ نے ہی شاید کہا تھا کہ میں آئندہ نہیں کھاؤ گی تو آج یہ مہربانی کرنے کی ضرورت نہیں ہے ” اس نے تلخی سے کہا کیا کیا یاد نا آیاتھا اپنی وہ بےعزت جو شاہ زر نے ہر ایک قدم پر اس کی کی تھی کتنا اذیت دے چکا تھا وہ شخص اسے اور آج سب کچھ کر کے بھی انجان بنا اس کے پرانے زخم تازہ کرنے پر تلا ہوا تھا
“کتنی فرمابردار بیوی ہوں تم میری شوہر کا ہر حکم یاد ہے تمہیں یہ تو بہت اچھی بات ہوئی نا ” اس نے مزاق اڑایا پری نے گھوری سے نوازا شاہ زر نے اس کی پسند جانے بغیر ہی آڈر دے دیا وہ جانتا تھا اس وقت پری کو چھیڑنا ٹھیک نہیں تھا ابھی پری کو وہ تلخ ماضی بھولنے کے لیے وقت درکار تھا مگر وہ اپنے دل کا کیا کرتا جو اسے دیکھے بنا چین سے رہنے نہیں دیتا تھا اس نے گہری سانس لے کر خود کو خالات کے حوالے کر دیا
رات وہ دیر سے لوٹے تھے شاہ زر کی زندگی کا یہ دن یادگار دن تھا اس نے آج زندگی میں پہلی بار زندگی کو اس انداز میں گزارا تھا سارے خوف سارے ڈر دل سے نکال کر وہ بس ان لمحوں کو جینا چاہتا تھا رات لیٹ آنے کی وجہ سے اسے کلثوم بیگم نے یہی روک دیا تھا کتنے دنوں بعد وہ اپنے کمرے میں آیا تھا ہر چیز ویسی ہی پڑی تھی جیسے وہ چھوڑ کر گیا تھا اس نے آگے بڑھ کر اپنی ایک ایک چیز کو چھوا یہ سب کتابیں اس کی زندگی کی ساتھی رہی تھی یہ کمرہ اسکے درد میں اس کا بہترین پنا گاہ ثابت ہوا تھا
صبح آٹھ کر نیچے آیا وہاں کلثوم بیگم اگلی بیٹھی اخبار پڑھ رہی تھی “اٹھ گئے بیٹا رات ٹھیک سے سوئے تھے نا” انہوں نے فکرمندی سے پوچھا شاہ زر کو ان پر ٹوٹ کر پیار آیا اس عورت نے شاہ زر کو چھپ کر ہی سہی پر دل سے چاہا تھا خیال رکھا تھا اس کی ہر بدتمیزی کو سہا تھا “جی چاچی ایک دم مست نیند آئی تھی آخر کو کل پورا دن آپ کی اس چڑیل بیٹی کو برداشت کیا تھا تھک تو جانا ہی تھا ” اس نے شرارت سے کہا کلثوم بیگم ہنس دی ” ویسے کہا ہے آپ کی بیٹی صاحبہ بہت خاموشی ہے ” اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائیں
“آج اس پر واک کرنے کا دورا آیا تھا اس لیے نکلی ہوئی ہے صبح سے ”
” پھر تو میرا بھی جانا بنتا ہے کافی دنوں سے بہت ست ہوا ہوں تھوڑی تازہ ہوا لے کر آتا ہوں” شاہ زر نے معصومیت سے کہا
“ہاں ہاں جاؤ جاؤ شوق سے ” کلثوم بیگم نے اس کی شرارت پر ہنس کر کہا وہ بھی باہر نکل آیا یہ دل بھی کتنا ظالم ہوتا ہے کل پورا دن س کے ساتھ گزار کر بھی اس کی ایک جھلک دیکھنے کو بےقرار ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ قریبی پارک میں آیا اکا دکا لوگ تھے کوئی بھاگ رہا تھا کوئی ایکسرسائز میں مگن تھا دور سے پری بھاگ کر س کی طرف آ رہی تھی اس نے حیرانی سے اسے بھاگتے ہوئے دیکھا
اس نے پاس آکر شاہ زر کا بازوں زور سے پکڑ لیا اور اس کے پاس ہوئی
“شاہ زر کتا ۔۔۔۔” پری نے پھولی سانس سے کہا
شاہ زر کرنٹ کھا کر اس کی طرف مڑا
“واٹ کیا کہا تم نے ” اس نے بے یقینی سے پوچھا
“شاہ زر کتا ” پری نے پھر سے اپنے الفاظ دھرائے اور شاہ زر کے اور قریب ہو گئی
“واٹ نان سینس کیا اول فول بولے جا رہی ہوں تم نے مجھے کتا کہا ” وہ ڈھارا
“نہ۔۔ نہیں آپ کو نہیں وہ وہاں کتا تھا آپ کیا سمجھے میں آپ کو ۔۔۔ ” پری نے دیکھا اب کتا اسکا پیچا نہیں کر رہا تو وہ شاہ زر کا بازوں چھوڑ کر پیچھے ہٹی” ہاہاہا آپ بھی نا ” وہ ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہی تھی شاہ زر نے اسے مسکراتے ہوئے پہلی بار اتنے غور سے دیکھا تھا وہ اس پر ہنس رہی تھی مگر شاہ زر کو برا نہیں لگ رہا تھا وہ ہستی ہوئی کوئی ریاست کی شہزادی لگ رہی تھی اس نے لائٹ بلو قمیضیں کے ساتھ وائٹ ٹراؤزر پہنا تھا بالوں کو چوٹی میں قید کر رکھا تھا اس کے باوجود سلکی بال چھوڑے سے نکل کر اس کے چہرے پر بکھرے پڑے تھے شاہ زر اسے بہت پیار سے دیکھے جا رہا تھا پری کو احساس ہوا تو اس کی ہنسی کو بریک لگی شاہ زر بھی ہوش کی دنیا میں واپس لوٹا
“پری وہ پیچھے دیکھوں کتا ایسی طرف آ رہا ہے” پری جو ابھی ابھی ریلکس ہو کر کھڑی تھی ایک دم سے شاہ زر کا بازوں پکڑ کر چلائی “بچاؤ بچاؤ ”
“ہاہاہا بس اتنا ہی تھا بہت آئی میرا مذاق اڑانے والی ” اب شاہ زر کی باری تھی وہ زور زور سے ہنس رہا تھا پری نے غصے میں اس کے بازوؤں پر مکا بنا کر مارا
“باڑ میں جائے آپ آپ کی یہ ہنسی ” وہ تیش میں آ کر بولی شاہ زر نے بہت مشکل سے اپنی ہنسی کو کنٹرول کیا پری اس کو چھوڑ کر جانے لگی
“پری ” پری نے چونک کر پیچھے دیکھا ناجانے شاہ زر کے لہجے میں ایسا کیا تھا جس نے پری کو چونکنے پر مجبور کر دیا تھا اس نے سوالیہ نظروں سے شاہ زر کو دیکھا جو بہت محبت سے اسے ہی دیکھ رہا تھا دھیرے دھیرے چلتے ہوئے اس کے قریب آیا
“میں آج لاہور جا رہا ہوں”
“تو ”
” بس تمہیں دیکھنا چاہتا تھا ناجانے پھر جب لوٹ کر آؤ” شاہ زر نے ٹوٹے ہوئے لہجے میں کہا پری پری کے دل زور سے ڈھرکا مگر آنا کی دیوار پر سے ان کے درمیان آ گئی تھی “اچھا کب جا رہے ہے جلدی سے بتائیں ” اس نے خوشی سے پوچھا شاہ زر کو دکھ ہوا پری اس کے جانے سے اتنا خوش ہو رہی تھی
“کیوں تم مجھے سی آف کرنے آؤ گی ”
“نہیں میں ابھی جا کر دس شکرانے کے نوافل ادا کروں گی آپ سے کچھ دنوں کے لیے میری جان چھوٹ رہی ہے نہ ” اس نے سراسری انداز میں کہا شاہ زر کے دل کو کچھ ہوا وہ خود پر ضبط کئے کھڑا رہا چہرے پر مسکراہٹ تھی مگر پری جانتی تھی اس کی آنکھوں میں گہرا درد ہے بلکل ویسا درد جیسا پری کی آنکھوں میں ہوا کرتا تھا پری کو خوش ہوانا چاہیے تھا اس شخص کو اپنے سامنے ہارتے دیکھ کر جس نے بہت اکڑ سے کہا تھا کے میں تمہیں اتنا تڑپاو گا کہ تم مجھ سے محبت کی بھیک مانگوں گی مگر تمہیں میری محبت نصیب نہیں ہو گی آج وہی شخص اس کے سامنے اپنا سب کچھ ہار گیا تھا پھر بھی پری خوش نہیں تھی شاہ زر کو تکلیف میں دیکھ کر وہ کیسے خوش رہ سکتی تھی وہ اتنی آسانی سے اس کے سامنے ہارنا نہیں چاہتی تھی ابھی تو بہت سے حساب برابر کرنے تھے
“پھر تو میں دعا کروں گا پری کہ میں کبھی بھی لوٹ کر نا آسکوں میرے نا ہونے سے تمہیں خوشی ملتی ہے نا ” شاہ زر نے ٹوٹے دل کے ساتھ کہا پری نے نظر اٹھا کر دیکھا کیا کچھ نہیں تھا اس کی آنکھوں میں وہ نظریں چرا گئی وہ ان آنکھوں میں کھونا نہیں چاہتی تھی “ہاں اگر کبھی لوٹ کر آیا تو میری خواہش ہے تم مجھے ہمارے گھر میں میرا انتظار کرتی ہوئی ملوں ۔۔ یہ دل بھی نا کبھی کبھی بچہ بن جاتا ہے جانتا بھی ہے یہ ناممکن ہے پھر بھی ضد کرنے لگتا ہے ” اس نے ہارے ہوئے لہجے میں کہا پری کا دل کیا وہ اسے روک لے ناجانے دے اس کا دل کہ رہا تھا اب کے وہ گیا تو اسے تلاش کرتی رہ جاؤ گی مگر زبان اور الفاظ اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے وہ گنگی کھڑی تھی چاہ کر بھی کچھ کہ نہیں پا رہی تھی
“اگر میں لوٹ کر نا آیا تمہیں اجازت ہے تم جیسے چاہوں زندگی گزارنا مگر میرے لوٹ آنے پر مجھے اپنا لینا پری ” وہ کہ کر آگے بڑھا پری کو کندھے سے تھاما قریب ہو کر اس کے ماتھے سے اپنا ماتھا ٹکرایا پھر اس کے ماتھے پر بھوسہ دیا اسے دھیرے سے خود سے الگ کیا لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہ پری کی نظروں سے اوجھل ہو گیا پری اسے جاتا دیکھ رہی تھی مگر اس میں ہمت نہیں تھی کہ وہ ایک آواز دے کر اسے روک لے وہ وہی کھاس پر بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی “میں ہار گئی شاہ میں ہار گئی آپ کی محبت میں مجھے تو آپ سے تب محبت تھی جب آپ کو مجھ سے بےحد نفرت تھی تو مجھے آپ سے اب کیسے محبت نہیں ہو گئی جب آپ کو مجھ سے اتنی محبت ہو گئی ہے میں ہار گئی شاہ میری خاموشی میں چھپی راضامندی کو آپ کیوں نہیں جان پائے مت جائے مجھے چھوڑ کر آپ کی پری آپ کے بنا مر جائے گی” وہ رو رہی تھی اس کا دل کر رہا تھا وہ چغ چغ کر ساری دنیا کو بتائیں وہ شاہ زر سے ہار گئی تھی وہ اب وہ نہیں لڑنا چاہتی اس سے اس پاس کے لوگ اسے ہمدردی سے دیکھ کر جا رہے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دو دن سے بلائی بلائی پھیر رہی تھی کسی کام میں دل نہیں لگ رہا تھا پورا پورا دن کمرے میں بند رہتی یا پھر مما کے پاس آکر بیٹھ جاتی ہر پانچ منٹ بعد موبائل چیک کرتی کہ شاید شاہ زر کا کوئی میسج آیا ہو شاہ زر وہاں جا کر پری کو بھول بیٹھا تھا پری کا کہی بار دل کیا وہ خود اسے فون کر کے واپس آنے کو کہے مگر یہ آنا بھی نا وہ دل کے بجائے دماغ کی سن رہی تھی ابھی بھی لان میں بیٹھی آنکھیں بند کیے پاؤں دوسری کرسی پر رکھے گہری سوچ میں گم تھی اس کا موبائل بجا اس نے ایک دن سے آنکھیں کھولیں نمبر کسی باہر ملک کا تھا اس نے اکتائے ہوئے فون اٹھایا
“ییلو ”
“اسلام علیکم پیاری سی خوبصورت سی پری ستان کی شہزادی ”
“کون بات کر رہا ہے” پری نے خیرانی سے پوچھا
“ہائے بےوفا لڑکی مجھے بھول گئی تم کتنی بے مروت لڑکی ہوں ” انداز میں شکوہ تھا
“ویٹ ا منٹ آپ صنم بات کر رہی ہوں نا ” دماغ پر زور دے کر اس نے آواز پہنچانے کی کوشش کی جس میں وہ کامیاب بھی ہو گئی تھی
“شکر ہے لڑکی تم نے مجھے پہنچان دیا ورنہ میں نے بیڈ سے کود کر اپنی جان دے دینی تھی ” اس نے شوخی سے جواب دیا پری ہنس دی صنم ایک بہت اچھی لڑکی تھی اتنا سب کچھ کہنے کے باوجود وہ پری سے ناراض نہیں ہوئی تھی
“ہاہاہا ایسا کیسے ہوسکتا ہے صنم کے میں آپ کو بھول جاؤ ہاں بس کچھ مصروفیات کی بنا پر میں آپ سے رابطہ نہیں کر پائی ”
“ہاں شاہ زر نے بتایا تھا کہ تمہارے پاپا کا انتقال ہوگیا ہے اس وجہ سے تم کافی ڈسٹرب تھی بس مجھے بھی ٹائم نہیں ملا کہ میں تم سے بات کر سکوں”
“اور کیا بتایا آپ کو شاہ زر نے ” پری کو لگا شاہ زر نے صنم کو ساری حقیقت بتا دی ہو گئ
“یہی کے اس نے تمہیں گھر سے جانے کو کہا تھا اور تم اس بات کو لے کر ناراض ہو وہ اب تم لوگوں کے ساتھ اس گھر میں نہیں رہنا چاہتا جہاں اس کی تلخ یادیں وابستہ ہے اس لیے وہ تمہیں یہاں سے لے جانا چاہتا ہے ایک نئی زندگی شروع کرنا چاہتا ہے مگر تم مان نہیں رہی ہوں ” صنم نے تفصیل سے جواب دیا تو شاہ زر نے صنم کو بھی اس حقیقت کا نہیں بتایا کیا تھا وہ شخص اتنا عظیم کیوں تھا وہ اس نے پری کی حقیقت کسی کو نہیں بتائی نا دانیال صاحب کی اس نے دانیال کا معاملہ اللّٰہ پر چھوڑ دیا تھا وہ پرانے زخم تازہ کر کے پری اور کلثوم بیگم کو اذیت نہیں دینا چاہتا تھا خاندان والوں کی باتوں سے بچانا چاہتا تھا وہ ان لوگوں کو پری ایک دم پر سکون ہو گئی
“تو آپ نے اپنے دوست کی وکالت کرنے کے لیے فون کیا ہے مجھے” اس نے ہنس کر اسے چھڑا
“یہی سمجھ لوں ہاہاہا وہ اتنا اداس اداس تھا مجھ سے رہا نہیں گیا میں نے سوچا زرہ پری کی کلاس لے لوں ” اس نے شریر لہجے میں کہا
“اچھا تو لے میری کلاس نا” پری نے بھی شرارت سے جواب دیا
“پری جو کچھ ہوا اچھا یا برا ہو چکا اب تم شاہ زر کو کیوں سزا دے رہی ہوں وہ تو بہت اکیلا ہے اس نے تم سے اپنے دل کی بات کی اور تم نے اسے اگنور کیا کیوں کیا تم نے یہ سب جب کے تم تو شاہ زر کو پسند کرتی ہوں پھر یہ سب” صنم نے سنجیدگی سے پوچھا
“صنم میں آپ کی بات کو مانتی ہوں شاہ بہت اکیلے ہیں پر ہماری زندگی میں اتنا کچھ کو گیا کہ مجھے رشتوں پر یقین نہیں رہا ایسے ایسے رشتے بےنقاب ہوئے ہیں میرے سامنے کے شاہ زر کا اظہار اتنی جلدی ہضم نہیں ہو پا رہا اپ سوچ بھی نہیں سکتی کے کتنا گھٹن وقت گزارا ہے میں نے میں تو یہ سوچ سوچ کر اپ سیٹ رہی ہوں کہ شاہ نے اتنے سال یہ ازیت کیسی جھیلی ہوں گئی”
پری نے دکھ سے کہا وہ ان تکلیف دہ لمحوں کو یاد نہیں کرنا چاہتی تھی کسی خواب کی طرح بھول جانا چاہتی تھی مگر یہ سب اس کے احتیار میں نہیں تھا
“صنم جب تمہیں احساس ہے تو پلیز اسے ٹوٹنے سے بجا لوں یہ نا ہو کہی دیر ہو جائے اب اور مت آزماؤ نا خود کو نہ اس کی محبت کو محبت میں میں اور تم نہیں ہوتا محبت میں تو صرف ہم ہوتا ہے تم دونوں ایک دوسرے کے لیے بنے ہو بس آنا کی جنگ میں اپنا نقصان مت کرو ” صنم نے مخلص دوست کی طرح اچھا مشورہ دیا وہ ان دونوں کو خوش اور آباد دیکھنا چاہتی تھی
“میں آج ہی شاہ کو فون کر کے واپس آنے کا کہو گئی ”
“یہ ہوئی نا بات اور ایک اور اچھی خبر دینی تھی میری منگنی ہو گئی ہے شادی تمہارے اور شاہ زر کے آنے پر ہی کروں گی اب یہ تم دنوں پر ہے کہ اور کتنا ناراض رہنا ہے اور میری شادی ڈیلے کرنی ہے”
“ہائے سچی صنم کب ہوئی کون ہے وہ خوش نصیب ” پری نے خوشی سے چلا کر پوچھا
“آہستہ لڑکی یہی کا رہنے والا ہے ماں باپ اس کے پاکستانی ہے مجھ پر مکمل طور پر لٹو ہو چکا تھا تو میں نے سوچھا اور بے چارے کو ترسانے کے بجائے شادی کر ہی لوں” اس نے شرارت سے کہا
“چلے انشاء اللہ میں اور شاہ ضرور آئے گے ”
ادھر ادھر کی کچھ باتیں کرنے کے بعد اس نے فون بند کیا وہ اپنے ہٹلر کو فون کر کے واپس بلانے کے بارے میں سوچا جو بھی تھا وہ شاہ زر سے محبت کرتی تھی اور محبت میں آنا نہیں ہوتی اس نے تو بچپن سے محبت پائی تھی شاہ زر کے پاس تو ایسا کوئی رشتہ ہی نہیں تھا اب جب ایک ایسا رشتہ اسے نصیب ہو ہی گیا تھا تو پری اسے اور آزمانہ نہیں چاہتی تھی شاہ زر کے خیال سے ہی اس کے چہرے پر مسکراہٹ دور گئی ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“مما مما کہا ہے آپ ” پری چہکتی آواز سے مما کو پکار رہی تھی اس کی آواز سے خوشی جھلک رہی تھی
“میں کچن میں ہوں پری ” مما نے کچن سے ہی آواز دی وہ بھاگ کر وہاں گئی مما کے گلے میں بازؤں ڈال کر مما کے گال پر پیار کیا مما نے پیار سے پری کو دیکھا
“کیا بات ہے آج میری بیٹی بہت خوش دیکھائی دے رہی ہے ماشاءاللہ سے ” مما نے اس کے ہاتھ اپنے گلے سے ہٹا کر مڑ کر پیار سے اس کے چہرے پر تھپکی دی
“مما جلدی سے پیکنگ کریں آپ اور میں ہمارے نئے گھر میں ہمیشہ کے لیے جا رہے ہیں” اس نے مسکرا کر مما کو دیکھا
“تم سچ کہ رہی ہوں پری ” مما نے بےیقنی سے پوچھا
“ہاں مما میں بلکل سچ کہ رہی ہوں اب بہت رہ لی میں اپنے میکے میں اب مجھے اپنے اصلی گھر میں رہنا ہے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آپ کے اس نک چڑے داماد کے ساتھ ” اس نے شرارت سے مسکرا کر کہا
“ہاہاہا بدتمیز لڑکی شوہر کے لیے کوئی ایسا کہتا ہے ” مما نے اسے پیار سے ڈانٹا
“تو اور کیا میں اب شاہ زر کو معصوم اور بھولا بھلا تو کہنے سے رہی ” اس نے لاپرواہی سے کہ کر سامنے پڑے باسکٹ سے سیب اٹھا کر کہا انداز اب بھی مما کو تنگ کرنے والا تھا
“خیر یہ بتاؤ شاہ زر بیٹے سے بات کی تم نے کب آ رہا ہے وہ ”
“ابھی کہا ابھی تو وہ محاز سر کرنا باقی ہے آپ کے کھروس ہٹلر نک چڑے داماد کو ابھی فون کر کے خوش خبری سنانی ہے کہ مجھے اس پر ترس آ گیا ہے میں نے اپنا دل بڑا کر لیا ہے اس کھڑورس انسان کے لیے ” اس نے معصومیت سے جواب دیا مما نے گھورا
“بہت بدتمیز ہوتی جا رہی ہوں اب خبردار اگر میرے بیٹے کے خلاف کوئی بھی غلط بات کی تو ” مما نے مڑ کر مصنوعی خفگی سے کہا
“ہاہاہا اتنا تو بنتا ہے نا مما ” پری نے مما کو آنکھ ماری مما کی ہنسی نکل گئی
“اچھا جاؤ شاہ زر کو فون کروں اور اپنی پیکنگ بھی کروں تاکہ شاہ زر کے آنے سے پہلے ہی وہاں چلے جائے ”
“مما میں وہاں جا کر انہیں فون کرنا چاہتی ہوں وہ سن کر خوش ہو جائے گے ”
“ماشاءاللہ کیا اچھا پلین بنایا ہے میری بیٹی نے پھر تو ہمیں آج ہی جانا چاہیئے ” مما نے پیار سے اسے دیکھ کر کہا پری سر ہلا کر چلی گئی مما نے پیار سے اس کی پشت کو دیکھا ور دل سے شاہ زر اور پری کے لئے دعا کی آج پری اتنے دنوں بعد اتنی خوش دیکھائی دے رہی تھی مما نے دل ہی دل میں کہی بار ماشاءاللہ کہا کہی ان کی بیٹی کی خوشی کو ان کی ہی نظر نا لگ جائے ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ لوگ شاہ زر کے گھر آ گئے تھے پری بہت خوش تھی وہ گھر بہت خوبصورت تھا چاروں طرف سبزہ ہی سبزہ تھا درمیان میں گھر کی عمارت تھی جو اپنے اب وتاب سے کھڑی تھی اور بنانے والے کی ذوق کو داد دینے پر مجبور کر رہی تھی لان میں بڑا سا سویمنگ پول بنا تھا آگے بھر کر وہ اندار آئی لاؤنچ بھی بہت مہارت سے سجایا گیا تھا سٹائلش سے صوفے پڑے ہوئے تھے ساتھ کرسیاں تھی اس نے گھوم پھر کر سارا کمرہ دیکھا ایک کمرہ لاکٹ تھا اس نے ملازم سے چابی مانگی “میڈم وہ تو صاحب کے پاس ہے انہوں نے اس کمرے کو کھولنے سے سخت منا کیا ہے یہ ان کا کمرہ ہے نہ ” پری اس کی بات سن کر مسکرا دی ” آچھا تم جاؤ ”
“تو جناب میرے پیارے سے ہٹلر صاحب اب آپ کا نہیں بلکہ ہمارا روم آپ کے آنے کے بعد ہی دیکھنا نصیب ہو گا یہ بھی اچھا ہے میں اس روم میں آپ کے ساتھ داخل ہونا چاہتی تھی اس نے ساتھ والے کمرے میں اپنا سارا سامان رکھوایا پھر خود شاہ زر کو فون ملنے لگ گئی بل جا رہی تھی پری کا دل ڈھک ڈھک کر رہا تھا چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ تھی “ہیلو” شاہ زر نے فون اٹھا دیا تھا پری میں اب بات کرنے کی ہمت نہیں تھی
“اسلام علیکم میں پری بات کر رہی ہوں” اس نے روانی سے کہا
“پریشے شاہ زر صاحبہ آپ کا نمبر میرے پاس نا صرف سیف ہے بلکہ مجھے یاد بھی ہے تعارف کی ضرورت تو نہیں پڑھنی چاہیے آپ کو آخر کو میری ابھی تک کی اکلوتی بیوی ہے آپ ” اس نے شوہی سے کہا
“اب تک کی سے کیا مراد ہے آپ کا ” ایک دم غصے میں آکر بولی
“اب تک کی سے مراد ہے کہ میں نے سوچ لیا ہے کوئی دوسری دیکھ لوں پہلی تو میرے قابو میں آنے سے رہی ” انداز میں شرارت تھی “جان نا لے لوں اس دوسری کی بھی اور ساتھ آپ کی بھی ”
“ہائے جان تمہاری ہی ہے میری جان ”
“بس بس زیادہ فری ہونے کی ضرورت نہیں ہے” پری نے شرماتے ہوئے کہا
“پری تم شرما رہی ہوں کیا ” شاہ زر نے اسے چھڑا
“شرماتی ہے میری جوتی ”
“ہائے میری جان اب ایسے تو نہ کہوں صاف تمہاری آواز سے پتا چل رہا ہے تم شرما رہی ہوں ہائے کاش میں اس وقت اپنی جان کے پاس ہوتا ”
“یہ کیا جان جان لگا رکھا ہے آپ نے شرم تو آتی نہیں ہے آپ کو ” پری نے روب سے کہا دل اس کا ڈھک ڈھک کر رہا تھا شکر تھا کہ اس وقت شاہ زر اس کو دیکھ نہیں سکتا تھا شرم سے اس کے گال لال ہو رہے تھے خوشی اس کے چہرے سے جھلک رہی تھی
“ہاہاہا چلو نہیں کہتا تمہیں جان میری جان تم یہ بتاؤ آج میری یاد کیسے آ گئی میری جان کو ” شاہ زر کو اسے تنگ کرنے میں مزا آ رہا تھا
“اب اگر آپ نے مجھے ایک اور بار جان کہا نا تو میں نے فون بند کر دینا ہے ” اس نے روہنسی ہو کر کہا شاہ زر اسے کنفیوژن کر رہا تھا جس کام کے لیے اس نے فون کیا تھا وہ کہ نہیں پا رہی تھی
“تو اپنی جان کو جان نا کہو تو اپنے سامنے سے گزرتی اس حسین دوشیزہ کو جان کہو ”
“واٹ کہا ہے آپ اس وقت کون ہے آپ کے ساتھ ” پری نے چلا کر پوچھا
” ریلکس پری میں کہی بھی ایسی ویسی جگہ پر نہیں ہوں شاپنگ مال آیا ہوں ”
“وہاں کیا کر رہے ہیں آپ ”
“یار میں نے سوچا اگر کسی بھی وقت میری بیوی کا فون آ گیا اور اس نے مجھے واپس بولا لیا تو خالی ہاتھ تو واپس نہیں آ سکتا نا ” شاہ زر نے شرارت سے کہا پری ایک دم ہنس دی
“خوش فہمیاں تو دیکھیں جناب کی میں کیوں کر آپ کو واپس آنے کو کہو گئی اپنی مرضی سے گئے تھے اپنی مرضی سے واپس بھی آئے ” پری بت کرتے ہوئے کھڑکی کے پاس کھڑی ہو گئی شام کا وقت تھا سورج دھوب رہا تھا یہ منظر اسے ہمیشہ سے اداس کر لیتا تھا اس وقت بھی ایک لمحے کے لیے اس کا دل ڈھرکا
“شاہ زر آپ ابھی ایسی وقت واپس آ جائے پلیز ” اس نے در کر پیچھے ہٹ کر کہا نا جانے کیوں اس کا دل ڈوب سا گیا
“شاہ زر نے شاپنگ مال سے نکلتے ہوئے فون کو دیکھا جیسے اس نے جو سنا کچھ غلطی سن لیا
“کیا کہا تم نے مجھے سنائی نہیں دیا ” کچھ یاد آنے پر وہ سامان گاڑی میں رکھ کر واپس مڑا
“پلیز شاہ تنگ مت کریں واپس آ جائے اب میرا دل یہاں نہیں لگ رہا میں اس وقت ہمارے گھر میں ہوں اور آپ کا بہت بےصبری سے انتظار کر رہی ہوں اور مزید انتظار مت کروایں مجھے” پری نے بوجھل دل سے کہا وہ اس وقت شاہ زر کو بہت ما کر رہی تھی
“ایسے تو میں نہیں آنے والا ”
“مطلب”
“مطلب یہ کہ جس طرح میرے جانے پر دس شکرانے کے نوافل پڑھے تھے نا اب جب تک سو نوافل نہیں پڑھ لیتی میرے آنے کے لیے میں آنے والا نہیں ہوں ” شاہ زر نے اسے تنگ کیا
“وہ سب میں نے غصے میں کہا تھا میں تو آپ کو جانے بھی نا دیتی مگر اس وقت آنا بیچ میں آ گئی تھی پر اب میں اور مزید انتظار نہیں کرنا چاہتی بہت سی لیا آپ نے اب اور نہیں ” پری نے سنجیدگی سے جواب دیا
“چلو پھر ابھی اسی وقت کروں مجھ سے پیار کا اظہار میں ابھی کے ابھی اڑ کر آتا ہوں ” شاہ زر نے گفٹ پیک کروایا شاپنگ مال سے نکلا
“شاہ زر میں آپ سے سارے اظہار یہاں کر لوں گی نا ”
“نہیں میری جان ابھی تو پھر ابھی نہیں تو کبھی نہیں ” شاہ زر نے چھوٹے بچے کی طرح ضد کی
” شاہ اپ بھی نا خیر چلے کیا یاد رکھے گے شاہ میں آپ سے ۔۔۔۔” دوسری طرف زور سے کسی دھماکے کی آواز آئی پری کی بات درمیان میں ہی رہ گئی شاہ زر کی چغ پری کے کانوں میں گونجی
دھماکے کی آواز بہت زور سے آئی تھی پری کو اپنے آس پاس دھماکے ہوتے دیکھائی دیے “شاہ شاہ زر آپ ٹھیک تو ہے نا شاہ کچھ تو کہیے میرا دل بیٹھا جا رہا ہے شاہ۔۔۔۔۔” دوسری طرف رابطہ کٹ گیا تھا پری زور سے چلائی مگر دوسری طرف اب کوئی بھی نہیں تھا
“شاہ ۔۔۔۔ ” وہ چلا رہی تھی جب کوئی آواز نہیں آئی تو اس نے موبائل وہی پھینک کر باہر کی طرف دوڑ لگائی
“مما مما کہا ہے آپ مما ” وہ بھاگ رہی تھی بنا چپل کے اندھا دھند اسے کچھ سنائی دیکھائی نہیں دے رہا تھا مما نے کمرے سے نکل کر پری کی طرف ڈور لگائی پری کے پاؤں میں دوپٹا اٹک گیا وہ دھڑا سے منہ کے بل نیچے گری مما نے آگے بھر کر اسے سنبھالا پری کے ماتھے سے خون آ رہا تھا اس نے خود کو مما کے گرفت سے آزاد کرنا چاہا
“چھوڑے مجھے چھوڑے شاہ زر ۔۔۔مما ۔۔ شاہ زر ” وہ اٹھی پھر سے باہر کی طرف جانے لگی مما نے آگے بڑھ کر اسے کندھوں سے پکڑ کر زبردستی اپنی طرف کھینچا ۔۔۔۔۔۔۔
”
“روگ ہجر دا مار مکاؤ
سکھ دا کوئی ساتھ نہ اوئے
چارو پاسے دسن ہنیرے
دکھ لاندے نے دل وچ ڈیرے
دنیا وچھڑے نہیں پرواہ
دلدار نا وچھڑے
کسی دا یار نا وچھڑے”
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...