عبداللہ جاوید(کینیڈا)
نومبر کی ایک خنک اور خاصی روشن رات میں نہ جانے کیوں اور کیسے سندھ کے میروں کے شہر خیر پور میرس پہنچ گیا ۔ یہ شہر تالپور خانوادے کے میروں کی ریاست کا پایہ تخت رہا اور ریاست کے خاتمے کے بعدکمشنری آگئی لیکن یہ شہر چھوٹا ہی رہا ۔چھوٹے شہروں کی مانند جلد سو جانے والا شہر۔ اس شہر میں میں نے اپنی زندگی کے قریباًدس برس گزارے تھے ۔ آدھی رات کا سمے تھا ۔ خیال سا ہے کہ میں ٹانگے سے پنج گولہ چو ک میں اترا ۔ چوک کی جامع مسجد سو رہی تھی۔اس سے لگاہوا سینما بھی رات کے آخری شو کے بعد انگڑائیاں لے رہاتھا۔ سینما کے ساتھ جڑاہوا ہوٹل خرّاٹے لے رہاتھا ۔ اور اس کے ساتھ ہی پرائمری اسکول کے بڑے آہنی پھاٹک پر بڑاسا تالا لگاہوا تھا ۔ پھاٹک کے قر یب د یوار سے لپٹا ہوا ایک لڑکا سو رہا تھا ۔ وہ ایک پھٹی پرانی چادر اوڑھے ہوئے تھا ۔ اس کے پاس ایک کتا نیم بیدار ایک ایسے آسن میں لیٹا تھا جو لیٹنے اور بیٹھنے کی درمیانی حالت ہو سکتی تھی۔ ٹانگہ اسٹینڈ میں جو چوک سے تھوڑے فاصلے پر تھا دو گھوڑے بیٹھے اور ایک کھڑاتھا ۔ دو ٹانگے گھوڑوں کے بغیراگلا حصّہ اوپر اٹھائے اور پچھلا زمین پرٹکائے کھڑے تھے ۔گھوڑوں کے ہنہنانے کی آوازیں طویل طویل وقفوں سے بلند ہورہی تھیں ۔ میں چوک کے بیچوں بیچ پانچ روشن قمقموں کی تیز روشنی کے نیچے کھڑا تھا مگر آسمان پر روشن چاند سے بھی یکسر غافل نہ تھا۔ میں اپنے اکناف کی ایک ایک چیز سے واقف ہوتا جاتا تھا۔میں یہ تک جانتاتھا کہ اس ماحول میں کتنی بلّیاں کس کس حالت یا مصروفیت میں ہیں ۔ میں نے یہ بھی دیکھ لیاتھاکہ کسی گلی سے دو عورتیں آکر کھڑی تھیں ۔ ان کے ساتھ جو ملازم نما آدمی آیا تھا شاید ٹیکسی کی تلاش میں اِدھر اُدھر دوڑ رہاتھا ۔قرینِ قیاس یہی تھاکہ دونوں عورتیں کسی کی اوطاق میں اجتماعی دل بہلاوے کا فرض بھگتا کر اب قریب کے بڑے شہر سکھر کے بازارِحسن لوٹائی جانے کی منتظر تھیں ۔ سچ پوچھئے تو میں خود بھی یہ نہیں جانتاتھا کہ میں چوک کے بیچوں بیچ کھڑا کیا کررہا تھا۔ اچانک میری نظر اس پر پڑ ی وہ تیزی سے اس گلی میں داخل ہو رہاتھاجہاں اس کا کلینک تھا۔ جیسے ہی میں نے اسے دیکھا میری ٹانگیں آپ ہی آپ متحرک ہو گئیں اوردوسرے ہی لمحے میرا پورا وجوداس کے پیچھے تھا۔ میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔( وہ قد میں مجھ سے ٹھگنا تھا) اور حیران ہو کر رہ گیا میں نے محسوس کیا کہ اتنی رات گئے ، اپنا ئیت کے اس مظاہرے پر وہ نہ تو چونکا اورنہ ہی میری جانب پلٹا۔آخر مجھ کو ہی اس کے سامنے آنا پڑا ۔۔میں اس کی راہ میں حائل ہوااور بے تکلفی، خوشی اور محبّت کے ملے جلے لہجے میں اسے آواز دی۔
’’ کس چکر میں ہوڈاکٹر ۔۔۔ اتنی رات گئے وہ بھی اکیلے ۔۔۔؟‘‘ ڈاکٹر نے مجھ سے آنکھیں نہیں ملائیں ۔ سر جھکائے کھڑا رہا۔ وہ خاموش نہ تھا منہ ہی میں بڑبڑارہاتھا۔
’’ میں بھاگا دوڑی کرتے کرتے تنگ آگیا ہوں ۔ تھک کر چور ہورہا ہوں لیکن نتیجہ کچھ نہیں!۔۔۔۔۔‘‘ ا س کی بڑبڑاتی آواز کو سمجھنے میں بڑی دقّت پیش آ رہی تھی لیکن مجھے اس سے بات کرنی تھی ۔ میں نے فیصلہ کر لیاتھا کہ رات کا باقی حصّہ اسکے ساتھ گزارونگا۔ میں چاہتاتھا کہ وہ مجھے اپنے گھر چلنے کے لئے کہے (اس شہر میں کوئی ایسا ہوٹل کبھی قائم نہ ہوسکا جس میں مجھ سا سفید پوش قیام کرسکے )۔ میں نے اس سے بات کرنے کی کوشش کی۔ یہ پوچھنا تو میرا اخلاقی فرض بن گیاتھا کہ اس سے اس کی بھا گ دو ڑ کا سبب معلوم کروں لیکن میرے سوال کرنے پر کہ اسے کیا پریشانی لاحق ہے اور وہ کیوں بھا گا دوڑی میں لگاہے ۔۔۔ بڑبڑانے کے اندازمیں اس نے اپنے پورے فقرے کو ایک بار پھر دہرایا لیکن اس اضافے کے ساتھ ۔
’’میرے گھر میں بجلی نہیں ہے ۔۔ پانی نہیں ہے ۔۔ دفتر دفتر دوڑتا ہوں شہر کے کونے کونے میں اعلان کرتا پھرتا ہوں ۔ لیکن نتیجہ کچھ نہیں !‘‘چونکہ اس نے اپنے گھرکی بات کی تھی۔میں نے موقع غنیمت جان کر اس کو اپنا گھر دکھانے کی بات کر ڈالی ۔
’’میں دیکھتا ہوں ڈاکٹر تمہارے گھر میں پانی ، بجلی کیوں نہیں ہے ۔۔۔ چلو تمہارے گھر چلتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کرمیں اس کے سامنے سے ہٹ گیا۔ وہ میرے آگے آگے تیز تیز چلنے لگا۔ لیکن اس نے مجھ سے اب تک آنکھیں نہیں ملائی تھیں۔ اس دوران میں نے اس کو اس کے پورے نام سے بھی مخا طب کیاتھا۔وہ مجھ سے آگے آگے تیز تیز چل رہا تھا۔ دو تین پیچدار گلیوں کو پار کرکے وہ اپنے کلینک کے سامنے پہنچ گیا ۔۔ کلینک کے عین سامنے پہنچ کروہ رک گیا ۔ اس نے پہلی بار اپنی جھکی ہوئی نظریں تھوڑی سی اوپر اٹھائیں اور اوپر لگے ہوئے بورڈ کو دیکھا۔لکھا ہوا تھا ’’ ہیلدی لائف کلینک ‘‘ پھر اس نے ایک نظر اپنی نام کی تختی پر ڈالی ۔۔۔ خیرپور میرس سے جو خبریں ملتی آئی تھیں ان کے مطابق اس کی بیوی نے کسی نا تجربے کار ڈاکٹر کو واجبی تنخواہ پر ملازم رکھ لیا تھا ۔ کام تو پرانا کمپاؤنڈر ہی نمٹا رہا تھا۔ کلینک کے سامنے تھوڑی دیر رک کر ڈاکٹر آگے بڑھ گیا لیکن اس نے وہ گلی نہیں لی جو اس کے گھر کی طرف جاتی تھی(میں اسکے گھر سے واقف تھا) اس نے بڑ بڑانا بند نہیں کیاتھا ۔ وہ اپنے گھرسے مختلف راستوں پر چلتا ہوا ایک مکان کے سامنے رک گیا ۔مکان بند تھا ۔ دروازے پر تالا پڑاتھااوپر’’ برائے فروخت ‘‘ کا بورڈآویزاں تھا۔ ڈاکٹر میری طرف منہ کرکے کھڑاہوگیا لیکن اس کی ٹھوڑی جھکی ہوئی تھی ۔کھڑے رہنے کا انداز ایساتھا کہ جیسے مجھے رخصت کر رہا ہو ۔ میں اس کی اس رکھائی اور ڈھٹائی سے گنگ ہوکر رہ گیا ۔ میری سمجھ میں نہیں آرہاتھا کس قسم کے ردِّ عمل کااظہار کروں۔۔۔؟ میں اس کے سامنے ڈٹ گیا ۔
’’ ڈاکٹر ۔۔۔ میں اس طرح نہیں ٹلنے کا۔۔۔آپ اچّھی طرح جانتے ہیں میں سات سمندر پارسے یہاں محض آپ کا دیدار کرنے نہیں آیا۔۔۔آپ خود سمجھ گئے ہونگے کہ میں ہم تینوں کے مشترکہ دوست ارباب بن عبدالباقی کی موت کے بارے میں سچائی جاننا چاہتا ہوں ‘‘ اس کی ٹھوڑی جھکی رہی لیکن اس کے جسم پر لرزہ سا طاری ہوگیا ۔
’’ آپ نے ڈاکٹرصاحب کی موت کو ’ ہائی بلڈ پریشر اور کارڈیوویسکولرفیلیئرقرار دیا اور اس کی لاش خود ہی اس کے بھا ئی کے پاس حیدرآباد (سندھ) پہنچا آئے ۔۔۔۔۔ بولتے بولتے رک کر میں نے اس کو دیکھا اس توقع سے کہ وہ کچھ جواب دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کچھ جواب نہیں دیا ۔
’’ اس کے بھائی نے ہمارے حیدرآباد کے دوستوں کو رو رو کر یہ حقیقت بتائی کہ ارباب کے بدن سے دو گولیاں برآمد ہو ئیں ۔۔۔۔‘‘
آپ نے ایسا کیوں کیا۔۔۔؟ اپنے عظیم پیشے کے بنیادی اصولوں سے انحراف کیا ۔ آ پ نے دوستی کے رشتے کا بھی لحاظ نہیں کیا محض اس سبب سے کہ قاتل آپ کے فرقے سے تعلق رکھتاتھا اور آپ کا یعنی ہمارا عزیز دوست ارباب بن عبدالبا قی کسی اقلیتی فرقے سے تھا۔‘‘ میری اس قدر لمبی لتاڑ سے وہ متاثر ہوا تھا ۔اس کا بدن شدّت سے کانپا ۔ ۔۔ میں نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے ایک کچوکا اور دیا۔۔۔’’ تم کتنے چالاک نکلے ڈاکٹر ۔۔۔۔کتنی صفائی سے تم نے اپنے آدمی کو سزاسے بچالیا ۔۔۔قاتل کوبھی بچالیااور خود بھی بچ گئے ۔۔۔۔۔‘‘ میں آپ سے تم پر آگیاتھا ۔۔۔۔۔کچھ دیر بعد میں نے ڈاکٹر پر حقارت کی نظر ڈالی اور بولا۔
’’ تم وہی ہونا۔۔۔ ڈاکٹر ۔۔۔جس کو ارباب بیحد عزیز رکھتا تھا۔ یوں بھی تم ہر کسی کے چہیتے تھے ۔ تمہاری مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ شہر کے ہر فلاحی ادارے نے تم کو اپنا مربّی اور سر پرست بنا رکھا تھا ۔۔۔ تم کو ہر تعصب سے ، ہر تنگ نظری سے بالاتر مانا جاتاتھا ۔ تم کو یاد ہے ۔ ہر رات کلینک بند کرنے سے پہلے تم میز کی دراز سے چھوٹا سا خرگوش باہر نکالتے تھے ۔ اس میں لگے ہوئے ایک نپل کو دباکر اس میں ہوا بھرتے ۔ وہ میز کی سطح پر چلتا ۔ پھر تم اسے اسی دراز میں رکھ دیتے ۔ یہ کلینک بند کر نے کا تمہارا ٹوٹکا تھا ۔ اس خرگوش کا اصل مقصد تو کسی روتے ہوئے مریض بچے کو بہلانا تھا۔ لیکن یہ جو تم اس کے ساتھ خود کھیلتے اور میں تمہاری چمکتی آنکھوں اور دمکتے چہرے کو دیکھتا تو سوچتا۔ ’’دنیا جہاں میں شاید ہی کوئی دوسرا آدمی اتنا معصوم دل ہوگا ۔۔‘‘ تمہیں اس حالت میں دیکھنے کے لئے اکثر میں تمہارے کلینک کو اپنے سامنے بند کرواتا ۔ ۔ ۔کہاں گیا وہ خرگوش ۔۔۔۔ تم نے اسے بھی مارڈالا ہو گا۔۔۔۔؟
اب کی مرتبہ میں نے پہلے سے بھی لمبی تقریر کی۔ ادھر میری بات ختم ہو ئی اُدھر ڈاکٹرنے دونوں بازو اوپر اٹھائے ، ٹھو ڑی اوپر کرکے شاید آسمان کی طرف دیکھا۔۔ پھر بازو نیچے کئے۔دونوں ہاتھ جوڑ لئے ۔ یوں محسوس ہوا جیسے وہ میرے آگے بھی ہاتھ جوڑ رہاہو ۔ جیسے وہ شدید عذاب سے گزر رہا ہو اور پھر اچانک میرے دیکھتے ہی دیکھتے تالا لگے ہوئے دروازے سے اس خالی مکان میں داخل ہو گیا۔ جس پر ’’برائے فروخت ‘‘ کی تختی لگی ہو ئی تھی ۔
میں کیا کرتا ۔۔ لوٹ جانے کے سوا لیکن واپسی کے دوران میں نے محسوس کیا کہ میرے کوٹ کی جیب میں کچھ ہے۔ جو پہلے نہیں تھا ۔ میں نے جیب میں ہاتھ ڈال کر ٹٹولا۔۔۔جیب میں ’’ کھلونا خرگوش ‘‘ آموجود ہوا تھا ۔ جس سے ڈاکٹر کلینک بند کرنے سے پہلے کھیلا کرتا تھا۔
پنج گولا چوک پر مجھے ایک ٹانگہ مل گیا اور میں ایک بار پھر اسٹیشن کی طرف جا رہا تھا ویٹنگ روم میں رات گزارنے لیکن سارا راستہ مجھے یہی لگا جیسے لمبے قد ، بھاری بدن ، چگی ڈاڑھی اور چھوٹی آنکھوں والا ارباب بن عبدالباقی میرے برابر بیٹھاہوامسکرارہاہو اور ’’جوائے را ئڈ ‘‘ (Joy ride)کے مزے لے رہا ہو ۔ اس کی یہ خصو صیت تھی کہ دن میں تپتی دھوپ میں بھی پیدل چلتا اور ساتھ میں کسی کو گھسیٹے پھرتا اور رات میں ٹانگے میں لدے بنا کہیں نہ جاتا اور ٹانگہ رائڈ۔۔جوائے رائڈ ۔۔کی رٹ لگائے رکھتامیں نے اس سے ڈاکٹر سے ملاقات کا ذکر کیا لیکن اسنے صرف اتنا ردِّ عمل ظاہر کیا کہ کچھ دیر کے لئے مسکرانا بندکرکے خاموش بیٹھ گیا۔۔بالکل خاموش۔۔