صبح پانچ بجے کا وقت ہے جب زرین کی آنکھ کھلی شاید کوئی باہر کا دروازہ بجا رہا تھا سارے ملازم تو چھ بجے تک آتے تھے یہ کون تھا جو اس وقت آیا تھا شاید تیمور خان۔ ۔۔۔ وہ اپنے برابر میں سوئے ہوئے اسماعیل خان پر نظر ڈال کر چادر اپنے گرد لپیٹتی ہوئی کمرے سے باہر نکلی۔ ۔۔ سب ہی اپنے کمروں میں سو رہے تھے ہال کو عبور کرکے وہ باہر کا دروازہ کھولنے کے لیے نکلی
“کون”
سامنے کھڑے انجان چہرے کو دیکھ کر زرین اُس کو پہچان نہیں پائی تبھی اُس سے پوچھنے لگی
“ضیغم جتوئی”
ضیغم اور شمروز جتوئی دونوں رات ہی میں حویلی پہنچے تھے۔۔۔ ان دونوں نے حویلی میں اپنے آنے کا مقصد نہیں بتایا تھا۔۔۔ شمشیر جتوئی فیروز جتوئی اور کشمالا،، ان دونوں کو دیکھ کر بہت خوش تھے مگر ساری رات ضیغم کی بے چینی میں گزری۔۔۔ روشانے کا چہرہ بار بار اس کی نظروں میں گھوم رہا تھا اس لیے وہ انجام سوچے بناء صبح کا انتظار کیے بناء یہاں چلا آیا
“کیا کرنے آئے ہو یہاں، تمہیں معلوم ہے تمہارا یہاں آنا تمہارے ساتھ ساتھ روشی کو بھی خطرے میں ڈال سکتا ہے، خدا کا واسطہ ہے یہاں سے چلے جاؤ”
زرین اُس کو پہچان گئی تھی شمشیر جتوئی کا پوتا جو رباب کے مرنے سے پہلے یہاں آیا تھا،، وہی جس نے موبائل پر اِس سے بات کی تھی۔۔۔ زرین ضیغم کو یہاں دیکھ کر گھبراتی ہوئی بولی
“میرا یہاں آنا روشی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے یا پھر وہ ابھی بھی خطرے میں ہے۔۔۔۔ چاچو نے مجھے بتایا تھا تیمور خان نے اس کے ساتھ برا برتاؤ کیا ہے، مجھے روشی سے ملنا ہے۔۔۔ اُسے دیکھ کر اُس سے بات کر کے ہی میں یہاں سے واپس جاؤں گا”
ضیغم خود بھی زرین کو پہچان گیا تھا وہ فیصلہ کُن انداز میں بولا اور اس کی بات سن کر زرین پریشان ہوگئی
“تم ہوش کے ناخن لو خدارا،،، جانتے بھی ہو کیا کہہ رہے ہو۔۔۔ آج شام نکاح ہے تیمور اور روشی کا۔۔۔ بچپن سے پسند کرتے ہیں وہ دونوں ایک دوسرے کو۔۔۔ تیمور نے اگر اس پر غُصہ کیا ہے تو اپنا حق سمجھ کر،،، بات کو زیادہ مت بڑھاؤ تمہیں اللہ کا واسطہ ہے۔۔۔ یہاں سے چلے جاؤ۔۔۔ اگر کسی نے تمہیں یہاں دیکھ لیا تو پھر کچھ بھی اچھا نہیں ہوگا۔۔۔ یہ تم خود بھی جانتے ہو چلے جاؤ یہاں سے خدارا”
زرین ڈرتی ہوئی جلدی جلدی بول رہی تھی اسے ڈر تھا یہاں کوئی آ نہ جائے اگر تیمور خان کو ضیغم کی یہاں موجودگی کا علم ہوجاتا تو غضب ہی ہو جاتا۔۔۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ دونوں خاندانوں میں ایک بار پھر لڑائی کا آغاز شروع ہو۔۔۔ اِس لیے اُس نے ساری باتیں سچ بولنے کے ساتھ ساتھ تیمور اور روشنی کی بچپن کی پسندیدگی کا جھوٹ بولا
یہ اس لیے بھی ضروری تھا کیونکہ ضیغم کا یہاں روشانے کے لئے چلے آنا کوئی معمولی بات ہرگز نہیں تھی
جبکہ زرین کے منہ سے تیمور اور روشانے کے نکاح کی خبر سن کر ضیغم ایک پل کے لئے خاموش ہو گیا تھا۔ ۔۔ وہ دونوں ہی ایک دوسرے کو بچپن سے چاہتے تھے، اِس بات کے سنتے ہی ضیغم کو اپنے اندر کچھ ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا وہ بنا کوئی دوسری بات کیے وہاں سے چلا گیا
جبکہ وہ یہاں پر سوچ کر آیا تھا اگر روشانے نے اس کے ساتھ چلنے کی ایک بار بھی حامی بھری تو وہ اسماعیل خان اور تیمور خان سے تو کیا اپنے گھر والوں سے بھی اس کے لیے لڑ جائے گا۔۔۔ اپنی گاڑی میں واپسی کا سفر وہ بہت تیزی سے کر رہا تھا یہی سوچتے ہوئے کہ شام تک وہ شمروز جتوئی کے ساتھ شہر کے لئے روانہ ہو جائے گا۔۔۔ جس کے لیے وہ یہاں پہنچا تھا وہ آج کسی اور کی ہو جائے گی، تو اب روشانے سے بات کرنے کا کیا جواز بنتا تھا
****
“معلوم نہیں خان،، بس صبح کے وقت میری اِن گنہاہگار آنکھوں نے شمشیر جتوئی کے پوتے کی گاڑی، آپ کی حویلی کے پاس دیکھی،، چادر میں لپٹی ہوئی بی بی جی کو اس سے بات کرکے واپس حویلی کے اندر جاتے دیکھا۔۔۔ معلوم نہیں چھوٹی بی بی تھیں یا بڑی بی بی میں اندازہ نہیں لگایا اگر میں جھوٹ بولوں تو خدا کی مار مجھ پر پڑے”
دوپہر میں جب تیمور خان حویلی آیا تو اُس کے وفادار نے تیمور خان کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے اپنی آنکھوں دیکھا حال تیمور خان کو بتایا جسے سن کر تیمور خان نے جبڑے بھینچے اور قہر برساتی نظروں سے روشانے کے کمرے کا بند دروازہ دیکھا مگر روشانے سے وہ ساری معلومات رات میں اپنے کمرے میں لے گا جب وہ اس کی بیوی بن چکی ہوگی۔۔ لیکن اس وقت اسے ضیغم جتوئی سے حویلی آنے کا مقصد پوچھنا تھا۔۔۔ تیمور خان اپنی پسٹل لے کر گھر سے نکل گیا
****
“آج شام نکاح ہے تیمور اور روشی کا بچپن سے پسند کرتے ہیں وہ دونوں ایک دوسرے کو”
بار بار انہی لفظوں کی تکرار اس کے دماغ پر ہتھوڑے برسا رہی تھی۔۔۔ وہ اپنے کمرے کی بالکونی میں کھڑا سگریٹ سُلگاتا ہوا اندر ہی اندر خود بھی سُلگ رہا تھا زرین کے یہ دو جملے صبح سے ہی اس کے کانوں میں باز گشت کر رہے تھے جو سے اندر ہی اندر جلا کر راکھ کیے دے رہے تھے۔۔۔ آہٹ کی آواز پر اُس نے مڑ کر دیکھا
“تیار نہیں ہوئے تم،، میں نے بتایا تو تھا شام میں ہمیں سردار اسماعیل خان سے ملنے جانا ہے ویسے تو میں نے اس سے موبائل پر بات کر لی ہے۔۔۔ اُس نے ٹھنڈے دماغ سے نہ صرف میری بات کو سنا بلکہ سمجھا بھی ہے کہ روشانے بے قصور ہے۔۔۔ وقت اور حالات کو دیکھتے ہوئے اُسے ہمارے پاس رُکنا پڑا۔ ۔۔۔ وہ بھلا آدمی ہے اپنے باپ سردار اکبر خان کی طرح،، اس لئے آرام سے میری بات سمجھ گیا”
شمروز جتوئی ضیغم کے کمرے میں آتا ہوں اُسے بتانے لگا۔۔۔ اور ساتھ ہی اُس کا دھواں دھواں سا چہرہ دیکھنے لگا
“اب جب سردار اسماعیل خان ساری بات سمجھ ہی گیا ہے تو اسے ملنے کی کیا ضرورت ہے۔۔۔ کیا واپس شہر جانے کا ارادہ نہیں ہے آج آپ کا”
ضیغم ہاتھ میں موجود سگریٹ کا ٹکڑا ایش ٹرے میں مسلتا ہوا شمروز جتوئی سے پوچھنے لگا
شمروز جتوئی نے ایک نظر سگریٹ کے ٹکڑوں سے بھرا ہوا ایش ٹرے دیکھا پھر اپنے سامنے کھڑے اجاڑ، ویران سے حالت میں اپنے بھتیجے کو
“موبائل پر تو صرف اسماعیل خان کی غلط فہمی دور کی ہے جبکہ اسماعیل خان کے پاس میں کسی خاص مقصد کے لئے جانا چاہتا ہوں،، بات تمہارے ہی فائدے کی ہوگی اگر تم ساتھ چلو گے تو اچھا ہوگا”
شمروز جتوئی ذو معنیٰ انداز میں بولا۔۔۔ وہ کل رات سے ہی ضیغم کی کیفیت دیکھ رہا تھا جو اسے پوری کہانی باآسانی سمجھا رہی تھی۔۔۔
اپنی بات مکمل کرکے وہ ضیغم کے چہرے پر آنے والی مسکراہٹ کا انتظار کرنے لگا۔۔۔ مگر ضیغم ابھی بھی خاموش کھڑا اسے ویسے ہی شمروز جتوئی کو دیکھ رہا تھا
“چند گھنٹوں بعد روشی کا اسماعیل خان کے بیٹے تیمور خان سے نکاح ہے چاچو۔۔۔ آپ کا وہاں پر کسی خاص مقصد کے لیے جانا اب صرف بے مقصد ثابت ہوگا۔۔۔ تھوڑی دیر ماں کے پاس بیٹھ کر آتا ہوں ورنہ جاتے وقت ہو شکوہ کرتیں ہیں کی میں انہیں ٹائم نہیں دیتا۔۔۔ اس کے بعد ہمیں واپسی کے لیے نکلنا چاہیے”
شاید اس کی دلی کیفیت سے شمروز جتوئی آگاہ ہوگیا تھا، اسلیے ضیغم روشانے اور تیمور خان کے نکاح کے بارے میں شمروز جتوئی کو آگاہ کرتا ہوا کشمالا کے کمرے میں چلا گیا۔۔۔ جبکہ روشانے کے نکاح کی خبر سن کر شمروز جتوئی ہکابکا رہ گیا
****
“شمروز نے بتایا کہ رباب کی بیٹی دو دن شہر میں تم لوگوں کے پاس رہی”
ضیغم کے کمرے میں آتے ہی کشمالا اس سے پوچھنے لگی شمروز جتوئی یہ بات فیروز جتوئی کو بتا رہا تھا تب کشمالا نے سنا
“جی”
ضیغم نے پہلے چونک کشمالا کو دیکھا پھر مختصر سا جواب دے کر صوفے پر کشمالا کے سامنے بیٹھ گیا
“کیا ضرورت تھی بھلا جوان جہاں لڑکی کو گھر میں رکھنے کی جبکہ رمشا اور بچے بھی گھر میں موجود نہیں تھے”
کشمالا منہ بنا کر بڑبڑائی
“ماں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جوان جہاں لڑکی کوئی غیر نہیں تھی دوسری بات یہ کہ چاچو نے اُس کو شوقیہ نہیں روکا تھا نہیں ہی وہ خوشی خوشی خود رُکی تھی۔۔۔۔ میرے خیال سے آپ کو سارے واقعے کی معلومات ہوگئی ہوگی اس لیے دوبارہ ساری بات کو دہرانا بالکل بے کار ہے”
جب اسکی ماں کو معلوم ہو سکتا ہے کہ روشانے وہاں رکی تو ایسا ممکن نہیں تھا کہ اُسکی ماں نے پوری بات معلوم نہ کی ہو تبھی ضیغم چڑتا ہوا بولا
“خوبصورت ہوگی اپنی ماں کے جیسی”
کشمالا ضیغم کو دیکھتی ہوئی تجّسس بھرے انداز میں اُس سے پوچھنے لگی ضیغم کشمالا کو دیکھنے لگا۔۔۔نہ جانے وہ کیا جاننا چاہ رہی تھی
“بالکل اپھو کی جیسی ہے، یہ شاید اُن سے بھی زیادہ خوبصورت”
روشانے کا چہرے ذہن میں لا کر وہ اعتراف کرتا ہوا بولا
“لچھن بھی پھر اپنی ماں کے جیسے ہوگے، ضیغم میں تجھے بتا رہی ہو۔ ۔۔۔
کشمالا بولنے ہی لگی تھی تب ایک دم ضیغم غصّے میں صوفے سے اُٹھا
“کیا چاہ رہی ہیں آپ، میں یہاں آپ کے پاس بیٹھو کہ نہیں۔۔۔ کسی کا کردار کیا ہے کسی کے لچھن کیا ہیں۔۔ آپ خود سے اندازے لگانا بند کردیں ماں۔۔۔ وہ کسی دوسرے کی عزت بننے والی ہے،، بخش دیں اُس کو”
ضیغم غُصّے میں کشمالا کو بولتا ہوا اُس کے کمرے سے نکل گیا
نہ جانے اُسے کیوں اتنا غُصہ آ گیا تھا یا پھر اُسے ڈر تھا اس کے دل کا چور شمروز جتوئی کے علاوہ کوئی اور بھی نہ پکڑ لے
جبکہ کشمالا کو اپنے بیٹے کو رباب کی بیٹی کی دفاع میں بولتا دیکھ کر خوف محسوس ہوا مگر جب اُس نے سنا کہ وہ لڑکی کسی اور کی عزت بننے جارہی ہے تب کشمالا کے اندر اطمینان اُتر گیا۔۔۔ اُس اندیکھی لڑکی سے کشمالا کو خوف اِس لیے لاحق ہو گیا تھا کیونکہ وہ رباب کی بیٹی تھی
****
آج اُسے ضیغم 18 سال پہلے والا ضیغم لگا۔۔۔۔ جیسے بچپن میں وہ رباب کے جانے پر اُفسردہ ہوگیا تھا اور کئی دنوں تک بیمار رہا تھا۔۔۔ بالکل آج ویسے ہی ضیغم کا چہرہ چیخ چیخ کر اُس کے بچپن والی حالت کی نشاندہی کر رہا تھا وہ ایک بار پھر ٹوٹ جاتا جیسے رباب کے جانے پر ٹوٹا تھا۔۔۔۔تب تو وہ بچہ تھا شمروز جتوئی نے اسے سنبھال لیا تھا مگر اب وہ ضیغم کو کیسے سنبھالتا۔۔۔ وہ ضیغم کی آنکھوں میں رباب کی بیٹی کے لیے پسندیدگی واضح طور پر دیکھ چکا تھا۔۔۔ جس طرح وہ رمشا اور اُسے رباب کی بیٹی کے بارے میں اپنی پہلی ملاقات بتا رہا تھا شمروز جتوئی ضیغم کے انداز پر تبھی چونک گیا تھا
شمروز جتوئی اُس کی پسند سے کیوں نہیں آگاہ ہوتا رباب کے بعد ضیغم اُسی سے اٹیچ ہو گیا تھا۔۔۔ اور کیا ہی اچھا ہوتا اگر رباب کی بیٹی ضیغم کی بیوی کے روپ میں حویلی میں آ جاتی۔۔۔ اس نے روشانے کو بھی تو ضیغم کے کمرے میں اُس کی تصویر کو دیکھتے ہوئے دیکھا تھا۔۔۔ شمروز جتوئی ڈرائیونگ کرتا ہوا ساری باتیں سوچنے لگا
وہ اس وقت سردار اسماعیل خان کی حویلی اس سے ملنے جا رہا تھا۔۔۔ سردار اسماعیل خان معقول انسان تھا وہ اس کی بات کو سمجھ جاتا۔۔۔ اگر نہ بھی سنجھتا تو وہ اس کے آگے منتیں کر لیتا۔۔۔ ضیغم اسکی اولاد کے جیسا تھا وہ اتنا تو ضیغم کے لیے کر سکتا تھا،،، اس طرح رشتے سے دونوں خاندان کے دشمنی ختم ہو جاتی جو کہ برسوں سے چلی آ رہی تھی۔۔۔ شمروز جتوئی کار ڈرائیو کر رہا تھا تب اُس کی گاڑی کے آگے تیمور خان کی گاڑی آ کر رکی اور تیمور خان اپنی گاڑی سے باہر نکل کر آیا
“یہ ہمارا علاقہ ہے یہاں کیا کر رہے ہو تم”
تیمور خان شمروز جتوئی سے پوچھتا ہوا اپنے ہاتھ میں موجود پسٹل کو دیکھنے لگا جو کہ اس نے اپنا روعب جھاڑنے کے لیے پکڑ رکھی تھی
“تمہارا باپ تمہارے ہی علاقے میں پایا جاتا ہے، اُسی سے ملنے جا رہا ہوں۔۔۔ سامنے سے اپنی گاڑی ہٹاؤ اور راستہ دو”
شمروز جتوئی تیمور خان کو دیکھتا ہوا بولا اس نے سچ ہی سنا تھا سردار اسمٰعیل خان کا بیٹا کافی بد تمیز طبیعت کا مالک تھا اور فی الحال وہ اس کے منہ لگنا نہیں چاہتا تھا اس لیے اُسے گاڑی ہٹانے کا بولا
“میرے باپ سے ملنے جا رہا ہے یا پھر اپنی بھانجی سے۔۔۔ اپنے بھتیجے کا کوئی پیغام تو نہیں پہنچانا اسے،،، صبح ہی تو ملاقات کر کے گیا ہے وہ کُتا۔۔۔ دل نہیں بھرا اس کا میری ہونے والی بیوی سے۔۔۔۔ جبکہ دو راتیں تو وہ اس کے ساتھ گزار بھی چکا ہے”
تیمور خان غُصے میں شمروز جتوئی کو دیکھتا ہوا بولا
اس کے الفاظ سن کر شمروز جتوئی کو شدید غُصہ آیا جس پر اُس نے تیمور خان کے منہ پر زور دار طمانچہ مارا۔۔۔ وہ کہیں سے بھی روشانے کے لائق نہیں تھا۔۔۔ شمروز جتوئی جبڑے بھینچ کر تیمور خان دیکھتا ہوا سوچنے لگا
لوگوں کے ہجوم میں اپنے منہ پر پڑنے والے طماچے پر، تیمور خان غُصے میں بنا سوچے سمجھے شمروز جتوئی کے اوپر فائر کرچکا تھا
*****
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...