ربنواز صاحب کی بات پر علی سبحان نے ایک جھٹکے سے سر اٹھایا تھا۔
وہ اسی کو دیکھ رہے تھے
چچا آپ
آپ یہ کیا؟
میں کیسے
علی کو کوئی بات سجھائی نہیں دے رہی تھی اسکی زبان گنگ تھی۔
ٹھٹکی تو وہ بھی تھی لیکن بروقت دیوار کو تھامنے کی وجہ سے گرنے سے بچ گئی تھی ۔
اسکا منہ حیرت اور دکھ کے ملے جلے تاثرات سے کھلا ہوا تھا۔
لیکن اسے اپنا آپ سنبھالنا پڑا کیونکہ علی سبحان کے جواب کی منتظر تھی۔
ربنواز صاحب نے علی کا کندھا تھپتھپایا
تم نے کہا شاہو تمیں ذمہ داری سونپ کر گیا تھا؟
ایسا ہی ہے نا؟
انہوں نے بات کے بیچ میں رک کر علی سبحان سے تصیح چاہی
جواباً وہ صرف سر ہلا سکا
تو میسی پتر سنبھال اپنی ذمہ داری اب میرے ساہ آخر پر ہیں اس بوڑھے بت میں اور ہمت نہیں زمہداریاں سنبھالنے کی
بابا باہر کوئی بے آواز چیخا تھا
نانا چچا ایسی باتیں نا کریں خدا واسطے
ایسا نا کہیں پلیز علی سبحان نے انکے ہاتھ تھام لیے تھے
پھر نا مت کریں پتر اوئے
میری زلیخا کو اپنا نام دے دے
نا نا بابا اتنا ہلکا نا کریں مجھے پلیز بابا
باہر دروازے کی اوٹ میں کھڑی زلیخا جیسے کرلائی تھی۔
بیٹیاں ہلکی نہیں ہوتیں بابا ماں باپ کا رویہ انہیں ہلکا اور بھارا بناتا ہے مجھے اس شخص کے سامنے ہلکا مت کریں پلیز بابا اسکا دل چیخ چیخ کر دہائی دے رہا تھا۔۔۔
میرا زلی خان لاکھوں میں ایک ہے ایسی بیٹی مقدر والوں کو ملتی ہے علی
زلی جس کسی کی زندگی میں جائے گی اسے جنت بنا دے گی
اس بار ربنواز صاحب کے لہجے کی شکستگی پر زلیخا کی گھٹی گھٹی چیخ نکلی تھی انکے لہجے میں ایک فکر مند محبت کرنے والے باپ کی سی بے قراری تھی
اسے اپنی کچھ دیر پہلے والی سوچ پر ندامت ہوئی ۔
علی سبحان نے ربنواز صاحب کے ہاتھ چوم کر آنکھوں سے لگائے
پھر گویا ہوا
بابا.واقع زلیخا جیسا کوئی نہیں وہ ایک اچھی لڑکی ہے بے شک جس کسی کی زندگی میں جائے گی روشنیاں بکھیر دے گی
مگر وہ جس کسی میں نہیں ہو سکتا بابا جان
ربنواز صاحب کے ہاتھ ڈھیلے پڑے تھے ۔۔
وہ اور بھی کوئی بات کررہا تھا لیکن زلیخا کو اپنی کم مائیگی کے احساس نے کچھ سننے نا دیا وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے واپس اہنے کمرے کی طرف بڑھ گئی
————————–
علی سبحان کے جواب پر اسے کچھ محسوس نہیں ہوا تھا لیکن وہ اندر کہیں جو انا تھی وہ تڑپ اٹھی تھی۔۔
کہا تھا نا مجھے خوشیاں نہیں چاہئے؟
میرے لیے آپ اماں اور احمد ہی خوشیوں کا باعث ہیں
پھر کیوں بابا کیوں اتنا ہلکا کردیا مجھے ؟
میں اس شخص کے سامنے کیسے جاؤں گی ؟
وہ روتے ہوئے خیالوں میں ربنواز صاھب سے مخاطب تھی .
جب ایک نحیف سا ہاتھ اسکے کندھے پر رکا اماں تھیں
اماں میں بھاری پڑی گئی تھی بابا ڈر گئے پر اماں مجھے ہششش چپ
اس سے پہلے کہ وہ بات مکمل کرتی اماں، نے اسے چپ کرواتے اپنے ساتھ لگا لیا تھا
کملی ہوئی ہے جھلی ہوئی ہے
ایسا سوچا بھی کیوں زلی؟
تجھ میں احمد خان میں تو انکی جان بسی ہے
بیٹیاں بھاری نہیں ہوتیں زلیخا انکے نصیب بھاری ہوتے ہیں دنیا کا کوئی بھی باپ بیٹی سے نہیں ڈرتا اسکے نصیبوں سے ڈرتا ہے ۔۔
لیکن اماں؟
لیکن ویکن کر کے گناہگار نا ہوجائیں زلی پتر تیرے بابا نے جو بھی کہا جو بھی کیا کچھ سوچ کر ہی کیا ہوگا اپنے بابا سے بدگمان نا ہو بچے اور انکی بات کا مان رکھ
ایسے ہوتے ہیں سچے اور مخلص ہمسفر جو اپنے شریک حیات کی ذات کے تمام پہلوؤں سے آگاہی رکھتے ہیں
جو پیٹھ پیچھے کچھ نا جانتے ہوئے بھی انکی ڈھال بنتے ہیں
جیسے اماں نے کچھ بھی نا جانتے ہوئے زلیخا کو ربنواز صاحب سے بدگمان ہونے سے باز رکھا تھا
اماں اسے پیار سے پچکارتے ہوئے کہ رہی تھیں جبکہ وہ کسی نئی سوچ کے زیر اثر انکی بات غائب دماغی سے سن رہی تھی
——————
اماں کافی دیر اسے سمجھاتی رہیں پھر احمد کے ناشتے کا کہہ کر اٹھ گئیں وہ خود جانا چاہتی تھی مگر اماں نے اسے آرام کرنے کا کہا اور خود باہر نکل گئیں تھیں
وہ کچھ دیر لیٹی رہی پھر اٹھ کر دیوار پر لگی شاہنواز کی تصویر سے مخاطب ہوئی؟
کیا تھے آپ پہلا ہی سوال بڑاچبھتا ہوا تھا؟
بدلے میں تصویر میں موجود ہیارا سا بندہ پیارا سامسکرایا تھا۔
کیا چاہتے تھے آپ؟
تصویر ہنوز مسکراتی رہی
زلیخا کو مسکراتی تصویر تپا رہی تھی اس نے اتنے سالوں اس تصویر کو نظر بھر کر بھی نہیں دیکھا تھا لیکن آج
آج جب دیکھا تو اسے لگا جیسے وہ روشن آنکھیں وہ مسکراہٹ اسکے اندر تک اتر رہی ہوں۔
ایک بات کان کھول کر سن لیں آپ دنیا والوں کے لیے چاہے جو بھی ہوں بہادر شہید جنگجو جو بھی لیکن میرے لیے ایک بزدل انسان تھے آپ؟
جو مرد عورت کو بیچ منجدھار میں چھوڑ جائے اسے کون بہادر کہتا ہے؟
اور کوئی بھی عورت کسی بزدل انسان سے محبت نہیں کرتی سنا آپ نے؟
میں نے بھی نہیں کی آپ سے محبت بلکل نہیں کی؟
تو پھر جو تم پیچھلے آٹھ سالوں سے اسکی قبر پر دیے جلاتی پھول چڑھاتی آرہی ہو اسکا کیا؟
اسکے اندر سے کوئی بولا تھا۔
احسان چکا رہی ہوں جب انہوں نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا تھا تو میں کیسے اکیلا چھوڑ دیتی؟ میں نے انکی بات کا انکی خواہش کا پاس رکھا تھا آئی سمجھ کوئی محبت نہیں ہوئی تھی۔
چند دن ہی تو رکے تھے وہ میرے پاس مجھے میرے وجود کو سرائے سمجھ کر کوئی بھلا چند دن رکنے والوں سے بھی کوئی دل لگاتا ہے
دل لگانے کے لیے بعض اوقات لمحے ہی کافی ہوتے ہیں چند دن تو بہت بڑی بات ہے۔
اسکے اندر کی آوزیں بڑی عجیب سی تھیں چند لمحوں کی کوئی یاد چھیڑتی ہوئی سیں
ہاہاہاہا سو تو اب؟ تصویر اسے خود سے الجھتے دیکھ کر ہنسی تھی۔
اب اجازت چاہتی ہوں؟ رہائی چاہتی ہوں اس بے نام بے اعتبار تعلق سے جینا چاہتی ہوں
وہ اپنی ہی دھن میں بول گئی
اجازت ہے
رہا کیا
اعتبار کیا.
جاؤ جی لو اپنی زندگی تصویر نے مسکراتی آنکھوں سے کہا تھا
لیکن اس جھلی کو تصویر کا یوں اجازت دینا بھی بلکل نہیں بھایا تھا۔
———————
انکے ہاتھ ڈھیلے پڑے جنہیں علی سبحان نے دوبارہ مضبوطی سے پکڑ لیا
بابا. زلیخا بہت اچھی ہے میں چاہو بھی تو اسکا نصیب نہیں بن سکتا کیونکہ اسکے نصیب کو مکمل ہونا چاہئے۔
ربنواز صاحب نے ناسمجھی سے اسے دیکھا
بابا میں نامکمل ہوں زلیخا کا جوڑ کسی مکمل شخص کے ساتھ جڑنا چاہئے اور اگر اللہ نے چاہا تو ایسا ہی ہوگا اسے کوئی مکمل انسان ملے گا وہ افسردگی سے کہتے انکے پاوؤن میں بیٹھ گیا اور سر انکے گٹنے پر رکھ دیا۔
ربنواز صاحب حیرت سے گنگ اسے دیکھ رہے تھے انہیں ایک لمحہ لگا تھا یہ بات جاننے میں کہ علی سبحان اس وقت شدید قسم کے احساس کمتری اور خود ترسی کا شکار ہے ۔
لیکن پھر سنبھل کر بولے مکمل خدا کی ذات ہوتی ہے علی ہم انسانوں میں، کہیں نا کہیں کوئی نا کوئی کمی کوتاہی ضرور ہوتی ہے۔
کہیں کسی کی روح تار تار ہوتی تو کہیں کسی کے جذبے پیوند لگے ہوتے ہیں۔
کوئی اھساسات سے عاری ہوتا ہے تو کسی میں زندگی اپنی آخری سانسیں لے رہی ہوتی ہے
یہ جسمانی کمیاں تو کچھ بھی نہیں ہوتیں یار
وہ دوستانہ انداز میں کہتے اسکے سر میں ہاتھ چلانے لگے۔
ہم انسان بڑے جھلے ہوتے ہیں علی سبحان خان جسمانی کمزوریوں پر تو واویلا کرتے ہیں مگر روحانی کمزوریوں کو نظر انداز کردیتے ہیں ۔
ہم یہ نہیں سوچتے کہ خدا کے حضور آدھا جسم تو قابل قبول ہے لیکن ادھوری روح بلکل بھی نہیں
ربنواز صاحب اسکا سرسہلاتے سمجھا رہے تھے وہ سمجھ رہا تھا یا نہیں، لیکن اسے سکون آنے لگا اور اسکی آنکھیں بند ہونے لگی تھیں۔
تیری روح مکمل ہے میرے بچے تو ہی میری زلیخا کا نصیب ہے علی یہ بات شاہو آٹھ سال پہلے ہی جان گیا تھا
اسے لگ رہا تھا برسوں، کی پیاسی روح بابا کی باتوں سے سیراب ہوئی جارہی ہے یا جیسے اسکی روح مکمل ہوئی جارہی ہے ۔۔
مکمل نیند میں ڈوبتے ایک احساس اس پر حاوی تھا مکمل ہوچکنے کا احساس زلیخا کے قابل ہونے کا احساس
جسمانی نقص بہت پیچھے رہ گیا تھا کیونکہ اب بات روحوں تک آپہنچی تھی۔
علی ربنواز صاحب کے گٹنے پر سر رکھے سکون سے سو گیا تھا
وہ آرام سے اٹھے علی کا سر صوفے سے ٹکایا اور اسے چادر اوڑھا کر باہر نکلی گئے
انکا رخ قبرستان کی طرف تھا آج انکا دل کافی دنوں بعد اپنے بیٹے سے ملنے کا چاہا تھا.
———————-
اسے تصویر کا یوں اجازت دینا بھی بلکل نہیں بھایا تھا۔
جبھی آنسو صاف کرتے سرد لہجے میں بولی مجھے تمہاری اجازت درکار نہیں ہے آئی سمجھ اب میں اپنی زندگی اپنی مرضی سے جیوں گی اپنے بچے کو سب سے دور لے جاؤں گی ۔
——————–
شہر خاموشاں میں بھینی بھینی اگر بتیوں کی خوشبو کے علاوہ مکمل سکوت چھایا تھا۔
لیکن پھر بھی ایک شور تھا جو ہر سو برپا تھا لگتا تھا زندگی کے ستموں اور بے وفائی سے تھک چکے لوگ آپس میں گھٹ جوڑ کیے بیٹھے ہوں اور ایک دوجے کی تنہائی دور کرنے کو دلاسہ دے رہے ہوں
ایسے میں ربنواز صاحب شاہنواز کی قبر پر فاتحہ پڑھ کر بڑے رازدارانہ انداز میں بولے تھے
شاہ پتر ایک بات بتاؤں تجھے
وہ جو شاہ تھا اب شہر خاموشاں کا باسی تھا شاید سن سکتا تھا لیکن اسکا جواب دینا ناممکن تھا
کبھی کبھی زندگی میں ایسا مقام بھی آتا ہے جب ہمیں بہت سے اپنوں کو دکھوں کی اذیت سے اکیلے پن کی وحشت سے بچانے کے لیے کسی دوسرے کی یا کبھی اپنی ذات پر کوئی بے ضرر سا جھوٹ باندھنا پڑتا ہے۔
انکی آواز رندھ گئی تھی
اسی لیے میں نے زلی سے جھوٹ بولا پتر
علی سبحان سے جھوٹ بولا کہ میں سب کچھ جانتا ہوں
ایک آنسو انکے دائیں گال پر بہا تھا۔
میں نے تمہارے حوالے سے بھی جھوٹ بولا کہ تم نے مجھے سب کچھ بتادیا تھا۔۔۔
اب وہ بے آواز رونے لگے تھے
ہمیں بعض اوقات اپنی محبوب ہستیوں کو خوش دیکھنے کے لیے وقتی طور پر خود کو دکھی کرنا پڑتا ہے شاہ
کیونکہ ہمارا زرا سا دکھی ہونا کسی کے لیے نئی زندگی کی نوید لاتا ہے
اسی لیے پتر
اسی لیے میں نے خود کو دکھی کرلیا تیری اماں کو دکھی کر لیا تو نے بھی تو ایسا ہی چاہا تھا نا؟
میں نہیں جانتا جو تصویروں میں تھا کتنا سچ تھا کتنا جھوٹ میں صرف یہ جانتا ہوں میری زلی کل بھی معصوم تھی اور آج بھی معصوم ہے تم نے خود کو علی کو زلیخا کو وہ سزا دی جس کا حقدار تم میں سے کوئی بھی نہیں تھا شاہ
تو خود کو دکھ دے کر علی سبحان اور زلیخا کو خوشیاں دینا چاہتا تھا نا؟
پھر دیکھ لے شاہ تیرے بابا نے تیری انکہی بات کا پاس رکھا
اب سب ٹھیک ہوجائے گا
زلی کی زندگی میں خوشیاں آئیں گی احمد کو باپ کا پیار بھی ملے گا تیرا میسی بلوچ بھی زندگی کی طرف لوٹ آئے گا۔
بس اک گل سن
مجھے معاف کردئیں شاہ
میں تیرا دکھ سمجھ نہیں پایا پتر
مجھے
بس یار
اپنے بابا کو معاف کردئیں۔
ربنواز صاحب کافی دیر شاہنواز کی قبر پر راز ونیاز کرتے رہے تھے پھر جب واپس لوٹے تو انکا عزم مزید پختہ تھا۔
—————————
چار دن بعد ربنواز صاحب نے گھر کچھ رشتہ داروں کو بلا کر اپنا مدعا بیان کیا ۔
آنیوالے جمعہ کو علی سبحان اور زلیخا کا نکاح رکھا دیا گیا۔
گزرے چار دنوں میں علی سبحان نے احمد کو کافی حد تک خود سے مانوس کرلیا تھا لیکن اس نے زلیخا کی ایک جھلک بھی نہیں پائی تھی۔
اگرچہ ربنواز صاحب کےسمجھانے پر وہ کافی سنبھل گیا تھا لیکن کہیں کہیں ایک ڈر تھا ایک احساس کمتری اب بھی اس پر حائل تھی اب بھی وہ صبح سویرے پیچھلے صحن میں بیٹھا آنے والے وقت کے بارے سوچ رہا تھا جب احمد اسے آوازیں دیتا بھاگتا ہوا پاس آیا تھا
علی چاچو
علی سبحان کے منہ سے بے اختیار نکلا
جی کرے علی چاچو
اور پل بھر کو ساکت ہوگیا پھر آنکھوں میں، نمی تو ہونٹوں پر مسکراہٹ در آئی
شاہو تو تو چلا گیا
لیکن پھر بھی نہیں گیا تو ہر جگہ ہے یار
کیونکہ تو ہمارے دل میں ہے
وہ تصور میں شاہنواز سے مخاطب تھا جب احمد ایک بار پھر سے بولا
علی چاچو یہ آپکا ہے؟
اسکے ہاتھ میں علی کا ماوتھ آرگن تھا
جو رات سامان سیٹ کرتے اسکے بیگ سے نکلا تھا پھر تقریباً آٹھ سالوں بعد علی سبحان نے اسے میں اپنی سانسیں پھونکی تھی لیکن اگلے ہی لمحے جگہ اور ماحول کا سوچتے وہ رک گیا اور آرگن وہیں ٹیبل پر رکھ دیا تھا
اس نے ہنستے اثبات میں سر ہلایا
آپکو بجانا آتا ہے؟
یہ کیسے بجتا ہے؟
مجھے بھی سکھادیں نا؟
احمد نے ایک ہی سانس میں کئی سوال کر ڈالے
علی بس مسکراتی ہوئی نظروں سے اسے دیکھتا رہا پھر بولا
اوکے سب کریں گے لیکن پھر کبھی
علی چاچو آپکو پتا ہے آپ دنیا کہ سب سے اچھے چاچو ہیں
اور ایک بات بتاؤں وہ رازداری کے سے انداز میں بولا
علی نے اسی کے انداز میں سر ہلایا
بابا اور اماں نے کہا کہ اب آپ میرے پاپا بن جاو گے مجھے کوئی مسلہ تو نہیں؟؟
تو میں نے پتا ہے کیا کہا؟؟؟
علی سبحان نے بس ابرو سے اشارہ کیا
کیا کہا؟
میں نے کہا مجھے کوئی اعتراض نہیں اگر تو وہ مجھے یہ بجانا سکھادیں تو
ہاہاہا احمد شاہنواز خان آپ بہت پہنچی ہوئی چیز ہیں احمد کہ بات پر وہ کھل کر ہنسا تھا کافی عرصے بعد ہنسا تھا یہ جانے بغیر کے اسے کوئی یوں ہنستے دیکھ رہا ہے
——————————-
وہ اتنے دن سے چپ تھی زیادہ وقت کمرے میں رہتی تھی اسکا ذہن مختلف سوچوں کہ آماجگاہ بنا ہوا تھا ۔
جس دن انکے نکاح کہ تاریخ رکھی گئی اسے لگا اسکے اندر سب ختم ہوا جارہا ہے کل رات اس نے سوچ لیا تھا وہ ایسا کبھی نہیں کرے گی وہ اپنے نام کے ساتھ شاہنواز کا نام ہٹنے نہیں دے گی اس سوچ کے تحت وہ ربنواز صاحب کے کمرے ۔میں چلی آئی
وہ کوئی حساب کرنے میں مگن تھے اسے دیکھ کر رجسٹر ایک سائیڈ پر رکھا
آؤ زلی آؤ پتر
انہوں نے اسکلے لیے اپنے پاس جگہ بنائی
بابا
وہ بات کرتے ہوئے اضطراب کا شکار تھی
جی بابا کی جان
انہوں نے بہت شفقت سے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا
بابا وہ میں
آپ ایسا کیسے کرسکتے ہیں بابا
میں شاہ کے بغیر کسی کا سوچ بھی نہیں سکتی بابا میں؟
اسکی بات مکمل نہیں ہوئی تھی جب ربنواز صاحب کی سنجیدہ سی آواز گونجی
کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ شاہ کے بارے کیوں سوچتی ہو زلی؟
اس عجیب سوال پر زلیخا نے سر اٹھا کر ربنواز صاحب کو دیکھا جیسے انکی ذہنی حالت پر شبہ کیے بیٹھی ہو
انہوں نے پھر سے سوال دھرایا
بابا وہ میرے شوہر تھے زلیخا کو جواب دینا پڑا اور
ربنواز صاحب نے ایک بار پھر اسے بیچ میں ٹوک دیا
شوہر تھا زلیخا علی کریم
وہ تمہارا شوہر تھا ہے نہیں اسکی موت کے ساتھ تمہارے اسکے سارے رشتے تعلق ختم ہوگئے اگر اب تم شاہ کے بارے سوچتی ہو تو علی کے بارے بھی سوچ سکتی ہو
زلیخا گنگ سی بے یقینی کی کیفیت میں انہیں دیکھ رہی تھی۔
میں سچ کہہ رہا ہوں زلی پتر شاہنواز کے مرنے کے بعد تمہارا اس سے کوئی تعلق نہیں رہا۔
تمہاری اماں اور میرا اب آخری سانسوں کا کھیل ہے کبھی سوچا کہ ہمارے بعد تمہارا کیا ہوگا؟
احمد خان کا کیا ہوگا
بابا ایسی باتیں تو زلیخا کچھ بولنا چاہتی تھی
لیکن وہ بولی جارہیے تھے
اسے ایک مضبوط چھت چاہئے باپ کا سایہ نا ملے تو اولاد کی پشت پناہی کرنے والا کوئی نہیں ہوتا
اور مجھے یقین ہے علی سبحان احمد خان کے لیے شاینواز سے اچھا باپ ثابت ہوگا
یہ بات کہتے انکے دل میں درد تو اٹھا تھا مگر اسوقت وہ کمزور نہیں پڑ سکتے تھے جبھی بات جاری رکھی
ہمارے مذہب میں بیوہ کی فوراً سے پہلے شادی کرنے کی تلقین کی گئی ہے
اگر مرنے والے کے ساتھ عورت کا کوئی رشتہ رہ چکا ہوتا تو مذہب ہمیں کبھی ایسا حکم نا دیتا
مجھے اب کسی آزامائش میں نا ڈالنا زلی اب کچھ بھی سہنا میرے بس کی بات نہیں ہے۔
وہ جو بات کرنے آئی تھی یہ سوچ کر آئی تھی کہ اپنا مقدمہ لڑ کر جیتے گی ربنواز صاحب نے پہلے ہی قدم پر اسے چت کر دیا تھا
انہوں نے بات ہی مکا دی تھی
جب کرنے کو کوئی بات رہی نہیں وہ چپ چاپ اپنے کمرے میں لوٹ آئی اور چپ کرے آنکھیں ہند کرکے لیٹ گئی
—————————
وہ کوئی خوبصورت سر سبز سی وادی تھی جسکے آسمان کو سفید نارنجی بادلوں نے ڈھک رکھا تھا۔
وہ حیران پریشان سی آس پاس دیکھ رہی تھی
چہار سو پھیلے پرسکون سبزے میں اوپر سے دیکھنے پر ساری وادی میں خوش رنگ پھول بکھرے نظر آتے تھے جیسے پوری وادی کو رنگین پھولوں چادر اوڑھا دی گئی ہو ساتھ ہی کسی جھرنے کے بہتے پانی کی آواز ایسا لگتا تھا کوئی بہت ہی بڑا موسیکار اپنی موسیقی کی نئی دھنیں بجا رہا ہو
آتشی گلابی ارغوانی رنگوں کہ تتلیاں ایک سے دوسرے پھول پر اڑتے اسکا دل مچلا رہی تھیں پھر وہ پریشانی بھول بھال اپنا بنفشی اور فیروزی رنگوں سے مزین فراق دونوں ہاتھوں سے تھامے اتراتے ہوئے سہج سہج کر وادی میں اترنے لگی
انداز ایسا تھا جیسے کوئی شہزادی اپنی جاگیر کی سیر کرنے کو آئی ہو
ابھی وہ آدھی اترائی ہی اتری تھی کے جھرنے موسیکار کی دھنوں میں کسی جادوگر کی سریلی سی دھن کا اضافہ ہوا تھا
آواز روح کو اثیر کرتی سی تھی وہ بھی اثیر ہوئی آواز کے تعقب میں جھرنے کی طرف مڑ کر جانے لگی ۔
ارد گرد بھلائے خواب کی سی کیفیت میں آواز کہ سمت چلی جارہی تھی اسکے ایک جانب خوش رنگ وادی تھی تو دوسری جانب کھائی تھی ایک غلط قدم اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پستیوں میں دھکیل دیتا
لیکن اس امر کی طرف توجہ دیے بغیر وہ چکی جارہی تھی ۔
جبھی اچانک اسے ٹھوکر لگی تھی اس پہلے کے وہ منہ کے بل پستیوں میں گرتی کسی مسیحا نے ہاتھ بڑھا کر اسے تھام لیا تھا۔
اس نے گرنے کے خوف سے میچ چکی آنکھوں کو ہلکا سا کھول کر اپنے مسیحا کو دیکھنا چاہا ۔۔
لڑکیوں کو چلتے ہوئے ہمیشہ آنکھیں کھلی دماغ حاضر رکھنا چاہئے۔
بے قراری کسی بھی جذبے کی ہو ایک اچھی لڑکی کو زیب نہیں دیتی ایک اچھی لڑکی وہ ہوتی ہے جسے. اپنی زبان آنکھ دل دماغ کے ساتھ جذبات پر بھی مکمل اختیار ہو
کبھی ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ انکا بے معنی سا تھوڑا سا خود پر اختیار کھونا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے انہیں پستیوں ۔میں دھکیل دیتا ہے
زلیخا نے تپ کر اس بڑبولے مسیحا کو دیکھا جسکی زبان آری کی طرح چلتی تھی
وہ میجر شاینواز خان تھا ہلکے میٹھے موسموں جیسی ہنسی چہرے پر سجائے ایک آنکھ کا ابرو اٹھائے جیسے ساری دنیا فتح کر کے آیا ہو وہ مزید کچھ نہیں بولا بس اسے تھام کر سیدھا کھڑا کیا پھر اپنی پناہوں میں لیے اس پرخطر راستے پر چلنے لگا
سریلی جادوئی آواز کو وہ پل بھر کے لیے فراموش کرتے اس فاتح عالم کی ہمراہی میں چلنے لگی تھی
پھر کچھ ہی قدم چلنے کے بعد وہ مسکراتے ہوئے پلٹا زلیخا نے اچھنبے سے اسے دیکھا
اسنے ایک سائیڈ پر ہوکر اپنے پیچھے کا منظر واضح کیا
سریلی جادوئی آواز ایک بار پھر سے آنے لگی تھی
شاہنواز کے ایک سائیڈ پر ہوتے زلیخا نے دیکھا بہتے جھرنے کے کنارے کوئی سونے رنگوں کی پگڑی اور کالا چوغا پہنے بیٹھا ہے اور بڑے جذب سے ہاتھوں میں پکڑے آلے کو اپنی سانسیں سونپ رہا ہے ۔
وہ پل بھر کو بے اختیار ہو کر اسکی طرف بڑھی پھر دو قدموں پر ہی واپس پلٹی کیونکہ شاہنواز نے اسکا ہاتھ چھوڑ دیا تھا۔
اس نے پیچھے ہٹ کر شاہنواز کا ہاتھ تھامنا چاہا تھا لیکن وہ مسکرا کر نا میں سر ہلانے لگا
اور اسے پلٹنے کا اشارہ کرنے لگا
زلیخا بیچ میں کھڑی تھی اس سے کچھ قدم آگے وہ جادوگر تھا جو اپنی سانسوں سے جادو کرتا تھا
تو کچھ قدم پیچھے وہ فاتح عالم تھا جو اپنی بہتے جھرنوں جیسی ہنسی سے آدھی دنیا فتح کرتا تھا تو آدھی اس مہرباں شخص کی دائیں آنکھ کے ابرو لے اشارے پر مر مٹتی تھی۔
اس نے بہت چاہا بھی لیکن وہ آگے نا بڑھ پائی اور پیچھے مڑنے لگی تو اسے پتا چلا فاتح عالم تو اس سے بہت دور جاچکا ہے
اور مزید پیچھے ہٹتا ہی جارہا ہے
زلیخا نے بھری آنکھوں سے گھبرا کر اسے آواز دینی چاہی تھی
لیکن وہ مسکراتی آنکھوں سے اشارہ کر رہا تھا آگے جانے کا جہاں وہ جادوگر بیٹھا روحوں کو قید کرنے کا فن بڑے زور شور سے آزما رہا تھا
ایک جھٹکے سے اسکی آنکھ کھلی تھی اس نے منہ پر ہاتھ پھیرا سارا چہرہ پسینے میں ڈوبا ہوا تھا ۔۔
یہ کیسا خواب تھا شاہنواز مجھے کیوں لائے وہاں تک اس تک وہ کون تھا اور وہ آواز یہ تو وہی آواز تھی جو یونی ٹرپ
وہ خواب میں سنی آواز کے بارے سوچ رہی تھی جب اسے لگا وہ آواز خواب سے نکل کر یہاں انکے گھر کے صحن تک آگئی ہو
اسکا دل ڈر نے لگا پھر اس سے پہلے کہ وہ خواب اور حقیقت ۔میں فرق کر پاتی آواز آنی بند ہوگئی۔
—————————–
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...