میرا مختصر سا تاثراتی مضمون”مشاعرہ میںریما کی نظامت اور ندا فاضلی کا احتجاج“روزنامہ صبح ایبٹ آباد ،روزنامہ”آج“پشاوراور روزنامہ دنیا لاہورمیں شائع ہو چکا ہے۔۱۹جولائی ۲۰۱۳ءکو روزنامہ دنیا میں اس کی اشاعت کے معاً بعد مجھے ندا فاضلی صاحب کی ای میل ملی۔پہلے تو وضاحت کے طور پر ان کی ای میل یہاں درج کر رہا ہوں۔
”حیدر صاحب ! آداب
مجھے افسوس ہے کہ آپ نے صرف ایک جھوٹی خبر پر یقین کیااور آرٹیکل لکھ دیا۔Orlandoمیں ایسا کچھ نہیں ہوا۔میں مشاعرے میں آخر تک بیٹھا رہا۔اور تقریباً ساڑھے چار بجے کلام بھی سنایا۔اور اپنا لٹریری ایوارڈ ۲۰۱۳ءبھی حاصل کیا۔ظاہر ہے ایوارڈ مشاعرے کے ختم ہونے کے بعد ہی دیا جاتا ہے۔ندا فاضلی“
آج ۱۹جولائی ہی کو میرے استفسار پر اپنی دوسری ای میل میں ندا فاضلی نے یہ وضاحت کی ہے کہ وہ اسٹیج پر بیٹھے تھے۔کافی دیر سے واش روم جانے کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔جب وہ اس غرض کے لیے جانے لگے تو عین اسی وقت ریما کی انٹری ہوئی ۔جبکہ ندا فاضلی واش روم سے ہو کر پھر اسٹیج پر آکر بیٹھ گئے اور آخر دم تک بیٹھے رہے۔یہ مشاعرہ صبح ساڑھے چار بجے کے بعد تک جاری رہا۔
مجھے خوشی ہے کہ ندا فاضلی نے کافی وضاحت کر دی۔میرامضمون ملک کے سب سے بڑے اخبار میں چھپنے والی خبر کی بنیاد پر لکھا گیا تھا۔اصلاََ تو اتنے بڑے قومی اخبارکی اس نوعیت کی خبروں میں کسی جھوٹ کا گمان ہی نہیں ہوتا اور ہونا بھی نہیں چاہیے۔غلط خبر چھپ گئی تھی توندا فاضلی یا مشاعرہ کے منتظمین فوری طور پر تردید کر دیتے تب بھی صورتِ حال از خود واضح ہو جاتی۔۱۲جولائی کو یہ خبر شائع ہوئی اور ۱۵ جولائی تک جب کسی طرف سے کوئی تردید نہ آئی تو تب میں نے اپنے تاثرات لکھنا ضروری سمجھا۔اگر ندا فاضلی صاحب کی وضاحت کے مطابق ایسا کچھ نہیں ہوا تھا تو پھر بہت افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا قومی اخبار کہلانے والا ادارہ ایک غلط خبر چھاپنے کا مرتکب ہوا۔جس نمائندہ نے یہ خبر بھیجی،اس سے لازمی طور پر جواب طلبی ہونا چاہیے کہ کیوں جھوٹی خبر بھیجی۔
موقعہ ملا ہے اور بات چلی ہے تو اسی اخبارکے لندن آفس سے متعلق ایک تازہ اور ذاتی نوعیت کی خبر بھی لگے ہاتھوں بیان کیے دیتا ہوں۔حالیہ دنوں میں مجھے میری ادبی زندگی کی ایک ایسی خبر ملی ہے جو میرے نزدیک اب تک کی میری ادبی زندگی کی سب سے بڑی خبر اور کامیابی ہے۔(خبر یہاں نہیں بتارہا)۔ وہ اعزاز جیسا بھی ہے اس کی ایک اہمیت یہ ہے کہ ابھی تک یورپ میں بلکہ شاید امریکہ و کینیڈا میںمقیم اردو شاعروں اورادیبوں میں سے کسی کو نہیں ملا۔سب سے پہلے یہ عزت میرے حصہ میں آئی ہے۔ برمنگھم سے ڈاکٹر رضیہ اسماعیل نے وہ خبر اپنے طورپر مذکورہ اخبار کے متعلقہ صحافی کو بھیجی۔خبر شائع نہ ہونے پر مذکورہ صحافی نے ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کو بتایا کہ ادبی صفحہ کے انچارج کا کہنا ہے کہ اس(حیدر قریشی) شاعر اور ادیب کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور اس قسم کے اعزازہر کسی کو ملتے رہتے ہیں۔اس پر ڈاکٹر رضیہ اسماعیل خاصی برہم تھیں اور اخبار مذکور کے ادبی صفحہ کے انچارج (۱)کے بارے میں اخبار کے پاکستان میں مالک کو شدید شکایت کرنا چاہ رہی تھیں۔تب میں نے ان سے کہا کہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہمارے بہت سارے بڑے اداروں میں بہت ہی چھوٹے ذہن کے لوگ مسلط ہو گئے ہیں۔سو کس کس کی شکایت کرتی پھریں گی کہ یہ تو اب ہمارا قومی المیہ بن کر رہ گیا ہے ۔چھوڑیں ایسے لوگوں کو ان کے حال میں خوش رہنے دیں۔
اب ندا فاضلی اور ریما والے مشاعرہ کی خبرکی حقیقت سامنے آئی ہے تو مجھے مناسب لگا کہ خود سے متعلق تازہ ترین قصہ بھی ساتھ ہی بیان کر دوں ۔شاید مذکورہ اخبار کے مالک و مختار ان ساری باتوں کا کچھ نوٹس لے لیں،ورنہ میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے۔
میں روزنامہ صبح ایبٹ آباد کے ادب نامہ،روزنامہ آج کے ادب سرائے اور سب سے بڑھ کر روزنامہ دنیا کا شکر گزار ہوں جنہوں نے میرے تاثرات شائع کیے اوروہ تاثرات اتنے موثر ہوئے کہ ”دنیا“میں چھپتے ہی ندا فاضلی کی طرف سے چند گھنٹوں میں وضاحت آگئی اور مجھے ۹۱جولائی کو ہی یہ وضاحت نامہ لکھنے کی توفیق مل گئی۔امید ہے یہ وضاحت چھپنے سے ندافاضلی بھی مطمئن ہوجائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
مطبوعہ روزنامہ دنیا لاہور۔۲۵جولائی ۲۰۱۳
”ادب نامہ“روزنامہ صبح ایبٹ آباد۔۵۲جولائی ۲۰۱۳ء
۱یہ انچارج موصوف ارشد لطیف نامی لندن کے شاعرہیں۔اور معمولی سی خبر یہ تھی کہ انڈیا کی ایک یونیورسٹی سے حیدر قریشی کے ادبی کام پر ہونے والا پی ایچ ڈی کا مقالہ منظور کرلیا گیا ہے۔
(ح۔ق)