آنے والے چند برسوں میں الہیٰ بخش رنگ کا بہت اچھا کاریگر بن گیا مگر اس کے ذہن سے یہ خیال نہیں نکلا کہ ابا کے نزدیک اس کی حیثیت بس قربانی کے جانور جتنی ہے- یہاں تک کہ وہ واقعہ پیش آگیا- پہلے تو اسے لگا کہ ابا کی دعا قبول ہو گئی ہے لیکن بہرحال وہ بچ گیا- زند رہا، البتہ سر سے پیشانی کے وسط تک زخم کا وہ بدنما نشان اسے ہمیشہ اس واقعے کی یاد دلاتا اور بے وقعتی کا احساس جگاتا رہا-
اس واقعے کے بعد اس نے باپ سے کہا ” ابا ۔۔۔۔ میں کراچی جانا چاہتا ہوں-”
“تیری مرضی بیٹے” پیر بخش نے مختصراٰ کہا- وہ جانتا تھا کہ بیٹا ٹھیک کہہ رہا ہے- ہزارے میں روز گار کی بڑی فکر تھی کیونکہ روزگار تھا ہی نہیں- زیادہ تر لوگ اس سلسلے میں باہر جاتے تھے- کچھ ملک کے بڑے شہروں میں اور کچھ ملک سے باہر- اجازت دینے کے سوا وہ کیا کر سکتا تھا-
مگر الہیٰ بخش کا مسئلہ روزگار نہیں تھا- وہ تو باپ کے عشق سے گھبرا کر بھاگ رہا تھا- وہ رنگ و روغن کا بہت اچھا کاریگر بن چکا تھا- کام بھی ٹھیک ٹھاک مل جاتا تھا، اس لئے کہ وہ ایماندار بھی تھا- یہ الگ بات کہ ایبٹ آباد میں وہ ایمانداری ہی اس کے لئے جان لیوا ثابت ہوتے ہوتے رہ گئی لیکن اس دن کے بعد سے وہ باپ کے عشق سے خوفزدہ ہو گیا- موت کو جس کی وہ آرزو کرنے لگا تھا، اس نے بہت قریب سے دیکھ لیا تھا اور وہ اسے اچھی نہیں لگی تھی- اس کے لئے فرار ہونے میں ہی عافیت تھی-
کراچی کے لئے روانہ ہوتے وقت الہیٰ بخش ملنگ والے درخت کے پاس سے گزرا تو اس نے سر گھما کر اسے دیکھا- ملنگ سر جھکائے، سینے پر ہاتھ باندھے کھڑا تھا- اس سے پہلے کہ الہیٰ بخش سلام کرتا، ملنگ نے خود سے سلام کیا-
یہ پہلا موقع تھا کہ الہیٰ بخش خود ملنگ کی طرف متوجہ ہوا تھا- اس سے پہلے تین چار بار ملنگ نے خود اسے بلایا اور اس سے باتیں کی تھیں اور ہر بار الہیٰ بخش کسی آزمائش یا جذباتی خلفشار میں تھا- ملنگ نے ہمیشہ اس کی تسلی اس کی دلجوئی کی تھی- الہیٰ بخش کو اس کی باتیں اچھی لگتی تھیں ۔۔۔۔ دلچسپ پیرائے اور اشاریت کی وجہ سے، مگر اسے غصہ بھی آتا تھا- ملنگ ابا جیسی باتیں کرتا تھا، بلکہ وہ اور آگے کی چیز تھا-
الہیٰ بخش نے سلام کا جواب دیا- ملنگ نے کہا “آخری بار غریب خانے پر نہیں آئیں گے سرکار؟”
الہیٰ بخش درخت کے نیچے جا کر بیٹھ گیا- ملنگ اسی طرح کھڑا رہا- “ہاں بابا، میں کراچی جا رہا ہوں” الہیٰ بخش نے کہا-
“سب اوپر سے ہے سرکار” ملنگ نے آسمان کی طرف اشارہ کیا- “سوہنے رب کی عنایت ہے سرکار، دیکھیں، ایک منزل کے دوراستے ہوتے ہیں- ایک چھوٹا دوسرا لمبا- چھوٹے راستے پر کانٹے ہوتے ہیں، دشواریاں ہوتی ہیں، بڑی کٹھنائیاں آتی ہیں- دوسرا راستہ لمبا پر آسان ہوتا ہے- اس میں سایہ دار درخت ہوتے ہیں، آپ خوش نصیب ہیں- رب نے آپ کا راستہ آسان کر دیا- پر یاد رکھئے گا، منزل وہی ہے، آپ کو سفر مبارک ہو-”
“گھر سے دور جانے کی مبارک باد دے رہے ہو؟” الہیٰ بخش نے شکایت کی-
“نہیں سرکار- یہ ترقی کی مبارکباد ہے- اسکول سے کالج میں جانے کی مبارک باد ہے-”
“تم مجھے بہت یاد آؤ گے بابا-”
“نہیں سرکار- آپ مجھے بھول جائیں گے- میں سکول ماسٹر تھا- میری ڈیوٹی ختم- اب آپ کو کالج کا پروفیسر ملے گا- تعلیم نہیں چھوٹے گی- اب آپ جائیں- الودع سرکار-” ملنگ کا کمال یہ تھا کہ اس کی باتیں سمجھ نہیں نہیں آتی تھیں پھر بھی الہیٰ بخش کے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا تھا- اس وقت بھی یہی ہوا- وہ تازہ دم ہوگیا-
الہیٰ بخش باپ کے عشق سے کوفزدہ ہو کر بھاگا تھا لیکن عشق نے کراچی میں بھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑا- کراچی آئے ہوئے ایک سال بھی نہیں ہوا تھا کہ وہ خود عشق میں مبتلا ہو گیا- مگر وہ عشق باپ کے عشق سے بالکل مختلف تھا-
الہیٰ بخش کو کراچی بہت پسند آیا، اس لئے کہ وہاں نام و نسب سے کسی کا کام نہیں چلتا تھا- وہاں آدمی کی شناخت اس کے کام، اس کے ہنر سے ہوتی تھی- زندگی میں پہلی بار اسے یہ خوشگوار احساس ہوا کہ اس کی اپنی بھی ایک شناخت ہے اور وہ اس شناخت سے بالکل مختلف ہے جو اس پر تھوپ دی گئی تھی- کراچی میں وہ جلاہوں کی اولاد ہونے کی وجہ سے جلاہا نہیں رہا تھا- وہ الہیٰ بخش تھا ۔۔۔ رنگ ساز الہیٰ بخش-
کراچی میں اسے دو مقام بہت زیادہ پسند آئے- ایک فیڈرل بی ایریا کے واٹر پمپ کی چورنگی اور دوسرا طارق روڈ پر کیفے لبرٹی کی چورنگی- اس کا بس چلتا تو وہ دونوں مقامات اپنا لیتا لیکن یہ ممکن نہیں تھا- اسے دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا- بہت سوچ بچار کے بعد اس نے کیفے لبرٹی کی چورنگی کے حق میں فیصلہ کیا- ایک وجہ یہ تھی کہ وہ بڑے لوگوں کا علاقہ تھا- دوسری یہ کہ وہاں رونق بہت ہوتی تھی- وہ علاقہ اسے بھا گیا-
بعد میں زندگی بھر وہ یہی سوچتا رہا کہ اگر وہ کیفے لبرٹی کے بجائے واٹر پمپ پر بیٹھتا تو اس کی زندگی کتنی مختلف ہوتی- نہ وہ مبتلائے عشق ہوتا اور نہ اس کی زندگی نذر عشق ہوتی- اس کی سمجھ میں یہ بات بھی آ گئی کہ معمولی سے، غیر اہم سے فیصلے زندگی پر کتنے بھرپور طریقے سے اثر انداز ہوتے ہیں- اس نے یہ بھی سمجھ لیا کہ فیصلے کا اختیار تو آدمی کو ہوتا ہے لیکن فیصلہ اپنی تقدیر کے مطابق ہی کرتا ہے- فیصلہ وہ کرتا ہے لیکن مرضی اوپر والے کی ہوتی ہے-
کراچی میں محنت کے بازار جا بجا لگتے ہیں-ہر علاقے کا اپنا ایک بازار محنت ہے- کیفے لبرٹی کے آگے کی سمت بالکل مقابل جیولرز کی ایک دکان ہے، اس کے سامنے والے فٹ پاتھ پر بھی ایسا ہی ایک بازار ہے- علاقے مین کسی کو کسی بھی نوح کی کسی خدمت کی ضرورت ہو تو وہ اس بازار کا رخ کرتا ہے- اس بازار میں ہر طرح کی محنت انسانی دکانوں میں، انسانی شو کیس میں یوں سجی ہوتی ہے کہ تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی- بس جاؤ اور خرید لو- فٹ پاتھ پر سجی ہوئی یہ انسانی دکانیں اپنے شو کیس سمیت بمشکل دو فٹ جگہ گھیرتی ہیں- کہییں کوئی بیلچا، کدال یا پھاوڑا نظر آئے تو سمجھ لیں کہ وہاں مزدور دستیاب ہے- پینٹ کے ڈبے پر برش اور رنگوں کارڈ نظر آئے تو وہ رنگ و روغن والا ہے- خالی کنستر پر کوچی رکھی ہو تو جونا کرنے والا ہے- پلمبنگ کے اوزار پلمبر کا پتا دیتے ہیں- کوئی شخص کرنی اور فرش بنانے والا تختہ لئے بیٹھا ہو تو وہ راج مستری ہے اور جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو، بس ایک لمبا سا میلا سا کپڑا کندھے پر ہو تو سمجھ لیں وہ بوجھ ڈھونے والا مزدور ہے- یہ وہ مقام ہے جہاں انسان کی شناخت اس کے شجرہ نسب سے نہیں اس کے اوزاروں سے، اس کے ہنر سے ہوتی ہے-
الہیٰ بخش کو یہی بات پسند آئی تھی اس نے پینٹ کا ایک خالی ڈبہ، کلر کارڈ اور اپنے برش لئے اور اس فٹ پاتھ پر محنت کا انسانی شو کیس بن گیا- ڈیڑھ دو فٹ جگہ میں وہ بھی سج بن کر بیٹھ گیا- یہ پہلا موقع تھا کہ وہ زندگی سے خوش تھا- جلد ہی زندگی معمولات کی ڈگری پر چل پڑی- ایبٹ آباد سے وہ سات لڑکوں کے ساتھ آیا تھا- ان آٹھوں نے مل کر اعظم بستی میں ایک مکان کرائے پر لے لیا تھا، کرایہ سو روپے تھا- بجلی کا بل ملا کر ہر ایک کو زیادہ سے زیادہ بیس روپے دینے ہوتے تھے- گھر سے وہ لوگ زیادہ پیسے نہیں لائے تھے- انہوں نے چارپائیاں خریدیں- موسم ایسا تھا کہ فی الحال بستر کی ضرورت نہیں تھی، کھانا وہ باہر کھاتے تھے- لہٰذہ برتنوں کاجھمیلا بھی نہیں تھا- زندگی آسانی سے شروع ہو گئی- پھر سب سے اچھی بات یہ تھی کہ سب کو فوراٰ ہی روزگار بھی مل گیا-
الہیٰ بخش کے لئے یہ تجربہ بھی انوکھا تھا کہ وہ پردیس میں تھا- لیکن ایک منٹ کے لئے بھی اسے کوئی پریشانی نہیں ہوئی تھی- یہاں تک کہ وہ فٹ پاتھ پر آ کر بیٹھا تو پہلے ہی دن اسے کام مل گیا- کام بھی ایسا کہ چار دن اسے کام کے سوا کسی بات کا ہوش نہیں رہا- وہ تو اسے بعد میں معلوم ہوا کہ بعض اوقات کئی کئی دن خالی بیٹھے بھی گزر جاتے ہیں- پہلی بار اس نے جس کے ہاں کام کیاتھا وہ اس کے کام سے اتنا خوش ہوا کہ اسے دس روپے انعام بھی دیا- اس آغاز کے بعد کبھی یہ نوبت نہ آئی کہ اس کی جیب خالی رہی ہو- ابتدا میں الہیٰ بخش کو اپنا شہر بہ یاد آیا- وہ ہمیشہ سوچتا کہ ایبٹ آباد جیسا خوبصورت اور سر سبز علاقہ دنیا میں کہیں نہیں ہو گا- ایسے سادہ اور پر امن لوگ کہیں ہو ہی نہیں سکتے- اور ایسا موسم اور آب و ہوا کہیں بھی نہیں ملے گی- بات ٹھیک ہی تھی لیکن اسے اندازہ نہیں ہوا کہ کراچی کس طرح اس کے دل میں گھر کر رہا ہے- وہ تو ایک دن اچانک اسے احساس ہوا کہ اسے کراچی سے محبت ہو گئی ہے- اس نے دل ٹٹولا تو پتا چلا کہ اس محبت نے اس کے دل کی گہرائی میں جڑیں پکڑی ہیں- غور کیا تو ثابت ہوا کہ کراچی اس محبت کا مستحق ہے-
الہیٰ بخش کراچی سے متعلق سوچتا تو اس کا وجود احساس شکر گزاری سے سرشار ہو جاتا- اس کے ذہن میں غریب پرور شہر، برکتوں کا شہر خدا کی رحمتوں کا مرکز جیسے عنوان گونجنے لگتے- کراچی کے لوگ بہت اچھے تھے- فراخ دل، محبت کرنے والے اور پر سکون- الہیٰ بخش ایسے کتنے ہی لوگوں سے مل چکا تھا جو بغیر ٹکٹ کے ریل میں چھپتے چھپاتے سفر کرتے کراچی پہنچے تھے اور ان کی جیبیں خالی تھیں- ان کا کہنا تھا کہ اس ے باوجود انہیں کبھی بھوکا نہیں سونا پڑا تھا- کسی کو ریل سے باہر آتے ہی روزگار مل گیا تھا اور کسی کو شہر پہنچ کر- روزگار کی فراوانی تھی- کھانے پینے کا بھی یہ تھا کہ ایک روپے میں بھی پیٹ کی آگ بجھائی جا سکتی تھی- سونے کا ٹھکانہ میسر نہ ہوتا تو لوگ پارکوں، باغیچوں میں بھی سو لیتے تھے- کھلا آسمان انہیں تحفظ فراہمکرتا تھا- اب ایسے شہر سے کوئی محبت کئے بغیر رہ سکتا ہے؟ یہی وجہ تھی کہ کراچی سے چلے جانے کے بعد بھی کراچی کے مہمان اس شہر سے محبت کرتے تھے، اسے یاد رکھتے تھے- آج بھی دیکھ لیں، ملک کے ہر بڑے چھوٹے شہر میں، بلکہ چھوٹے چھوٹے قصبوں تکمیں کراچی کے نام کی کوئی دکان، کوئی ہوٹل ضورو ملے گا- جو ایک بار کراچی رہ گیا، اس نے اس شہر کے نام کو اپنی خوش بختی کی علامت ضرور سمجھا-
سو کراچی آتے ہی الہیٰ بخش محبت سے آشنا ہو گیا، ورنہ وہ تو عشق اور محبت سے خوف زدہ تھا-
الہیٰ بخش نے انگریزی زبان کا یہ مقولہ سنا بھی نہیں تھا کہ صبح سویرے رزق کی تلاش میں نکلنے والے پرندے کو کھانے کے لئے سب سے زیادہ کیڑے ملتے ہیں مگر وہ تھا بہت سویرے اٹھنے والا پرندہ اور سویرے اٹھ کر گھر میں وقت ضائع کرنے کا قائل نہیں تھا- گھر میں دل لگانے کا کوئی سامان تھا بھی نہیں، چنانچہ وہ تیار ہو کر باہر نکلتا، ہوٹل میں ناشتہ کرتا، اور محنت کا بازار لگنے سے پہلے ہی بازار پہنچ جاتا- وہاں اس کے لئے طمانیت ہی طمانیت تھی- ڈیڑھ دو فٹ کی جگی اسے ملکیت کااحساس دلاتی تھی- یہ احساس ہوتا کہ وہ صاحب جائیداد ہے- وہ اکیلا اپنے ٹھکانے پر آبیٹھتا- پینٹ کے خالی ڈبے رکھ کر وہ اپنی دکان سجاتا- پھر پاؤں پھیلا کر بیٹھا وہ گرد و پیش کی ویرانی دیکھتا رہتا-
یہ بات سمجھ میں آنے والی نہیں تھی کہ اکیلا زردار خان اسے کمر پر اٹھا کر نیچے اتارے گا ،،،،،،
مزدوروں نے مل کر الماری زردار خان کی کمر پہر رکھ دی- ایک چادر کو بل دے کر الماری کے درمیانی حصے سے گزار کر زردار خان نے اپنے پیٹ پر چادر کو گرہ لگا دی- پھر وہ چل پڑا- تمام مزدوروں کے چہروں پر خوچی سنسنا رہی تھی- ان میں سے دو زردار کے آگے تھے اور باقی اس کے پیچھے چل رہے تھے- کسی کے ہاتھ میں کوئی سامان نہیں تھا- شاید اس لئے کہ انہیں یقین نہیں تھا کہ زردار الماری کو نیچے پہنچا سکے گا- کسی بھی وقت اسے ہنگامی طور پر مدد کی ضرورت پڑسکتی تھی- اور وہ سب اس کے لئے تیار تھے- الہیٰ بخش کو قاسم کی مزدور کی نظر کا قائل ہونا پڑا-
زردار خان کو کسی کی مدد کی ضرورت نہ پڑی- درمیان میں وہ کہیں ایک سانس کے لئے بھی نہیں رکا- الماری اس نے نیچے اتاری اور پیشانی سے پسینہ پونچھنے کے بعد ﷽گیر کسی توقف کے زینوں کی طرف چل دیا- اب مزدوروں کے چہروں پر خوشی کے ساتھ اعتماد بھی تھا- وہ صحیع معنوں میں کھل اٹھے تھے-
اس کے ساتھ ہی کامکی گہما گہمی شروع ہو گئی- جسموں میں جیسے بجلیاں بھر گئیں- الہیٰ بخش کو اپنی بے مصرفی کا احساس ستا رہا تھا- تمام مزدور خاموشی سے کام میں لگ گئے تھے- کوئی سستی نہیں دکھا رہا تھا- کانچ کے برتنوں والے ڈبوں کی طرف کسی نے دھیان نہیں دیا تھا- وہ شاید قاسم کی ذمہ داری تھی- قاسم ایک کارٹن لے کر چلا گیا تو الہیٰ بخش نے ادھر ادھر دیکھا اور ایک ۔۔۔ نشست والے ایک صوفے کو ہلا جلا کر دیکھا- وہ زیادہ بھاری نہیں تھا- اس نے اسے اٹھا کر کندھے پر رکھا اور چل دیا-
الہیٰ بخش ایک جان دار پہاڑی جوان تھا لیکن صوفے کو اٹھا کر نیچے لے جانے میں اس کی سانس اکھڑ گئی- جسم سے پسینہ جیسے ابل پڑا تھا- پہلی بار اس کی سمجھ میں آیا کہ قاسم ٹھیک کہہ رہا تھا- یہ کام واقعی آدمی کو اندر سے چاٹ لیتا ہو گا-
نیچے قاسم نے اسے صوفے کے ساتھ لڑکھڑاتے دیکھا تو صوفہ اتار نے میں اس کی مدد کی اور بولا “بیٹا، میں تمہیں بوجھ اٹھانے کے لئے تو نہیں لایا ہوں، خبردار جو کسی چیز کو ہاتھ لگایا-”
“لیکن چاچا، خالی رہنا مجھے برا لگ رہا ہے-” الہیٰ بخش نے ہانپتے ہوئے کہا-
“کوئی ضرورت نہیں، تو تو مہمان ہے ہمارا”-
“نہیں چاچا، کچھ نہ کرنے سے اچھا ہے کہ میں چلا جاؤں”
قاسم کچھ دیر سوچتا رہا پھر سر ہلاتے ہوئے بولا “تو ٹھیک ہے، تو میرے ساتھ برتنوں والے ڈبے اتروا دے- یہ نازک کام ہے، احتیاط سے کرنا ہو گا-”
پورا سامان نیچے اتارنے میں دو گھنٹے لگے- پہلے صوفے کے بعد الہیٰ بخش نے کسی بھاری چیز کو ہاتھ نہیں لگایا تھا- وہ جانتا تھا کہ بھاری بوجھ بھی اٹھا سکتا ہے لیکن بھاری سامان ان کے ساتھ سیڑھیاں چڑھنا اور اترنا کسی اور ہی دنیا کا کام لگتا تھا-
سامان کو ٹرک میں لدوانے میں قاسم کی مہارت سامنے آئی- جتنا سامان اس نے ٹرک پر لدوایا، الہیٰ بخش کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ ممکن ہے- یہ سردار کا تجربہ تھا کہ کون سی چیز پہلے رکھی جائے اور کون سی چیز بعد میں- ٹرک میں موجود جگہ کو کیسے بہتر سے طور پر استعمال کیا جائے-
وہ ٹرک میں بیٹھ کر ناظم آباد چلے- الہیٰ بخش اس وقت تک بری بری طرح تھک چکا تھا- یعنی وہ بوجھ اٹھانے کا کام نہیں کر سکتا تھا- مزدور تھکے ضرور تھے لیکن ٹرک میں بیٹھ کر ایک دوسرے کو چھیڑتے ستاتے، تھکن ان کے چہرے سے دھلتی لگ رہی تھی- ایسا نہ ہوتا تو وہ مزدور بھی نہ ہوتے شاید- کیونکہ اب انہیں زیادہ سخت مرحلہ در پیش تھا- انہیں سامان چوتھی منزل پر چڑھانا تھا-
ٹرک کے سفر کے دوران الہیٰ بخش نے جو دیکھا، سیکھا، سمجھا اور جاانا، وہ عمر بھر اس کے ساتھ رہا- یہ بات اس پر واضح ہو گئی کہ طبقاتی تقسیم ایک بہت بڑی حقیقت ہے- کہیں خاندان، برداری اور نام و نسب کی اونچ نیچ ہے تو کہیں حیثیت کا تفاوت ہے- وہاں ایبٹ آباد میں وہ چکر تھا، اور یہاں کراچی میں ایک صاحب طبقہ دس روپے کمانے کے لئے ہر روز ایسا بوجھ ڈھوتا جس سے بوجھ ڈھونے والے جانور بھی گھبرا جائیں اور کچھ عرصے کے بعد وہ خون تھوکتا زندگی کی پھسلنی سے موت کی طرف پھسل جاتا-
یہ سب سوچ کر الہیٰ بخش پر تھر تھری چڑھنے لگی- یہ زندگی ہے- اتنے لوگوں کے لئے اتنی مختلف!
زرداد الماری اس بار بھی بغیر رکے اوپر چوتھی منزل کے فلیٹ تک لے گیا تھا- ایک اچھی بات یہ تھی کہ اس بلڈنگ میں زینے کے موڑ پر سامان اتارنے کے لئے ترکیبیں لڑانی پڑی تھیں- انہیں کام سے فارغ ہوتے ہوتے چھ بج گئے- صاحب بہت خوش تھا- کسی چیز کو معمولی سی خراش بھی نہیں آئی تھی- کوئی برتن نہیں ٹوٹا تھا “آپ سب چیک کر لیں صاحب!” قاسم نے اس سے کہا- “ہمارا کام ختم ہو گیا ہے”
“چیک کرنے کی ضرورت نہیں- میں بہت خوش ہوں تم لوگوں سے-” صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا “میں بھی تمہیں خوش کردوں گا”
تھوڑی دیر بعد چائے اور بسکٹوں اور سموسوں سے ان کی تواضع کی- پھر اس نے دس روپے کے آٹھ نوٹ قاسم کی طرف بڑھائے “یہ ہے تم لوگوں کی مزدوری-” اس نے کہا پھر اس نے سو کا ایک نوٹ دیتے ہوئے کہا “یہ ہے مجھے خوش کرنے کا انعام ۔۔۔۔ تم آٹھوں کے لئے”
وہ صاحب کا شکریہ ادا کر کے، اسے سلام کر کے نیچے آگئے- سب بہت خوش تھے- ان کے حساب سے انہیں ڈھائی دن کی دہاڑی ایک ہی دن میں مل گئی تھی- اچانک رحیمو کو خیال آیا کہ کھانا نہیں کھایا گیا ہے اور بھوک لگ رہی ہے عاقل نے بھی تائید کی-
“نہیں بھئی، یہ کھانے کا تو وقت نہیں-” قاسم نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا “اس وقت کھا لو گے تو رات کو میرے گھر پر کیا کھاؤ گے-”
بات معقول تھی- “استاد کھانا کس وقت ملے گا”
“آٹھ بجے تیار ہو گا کھانا، میں کہہ کر آیا ہوں- قاسم نے کہا “چلو کسی ہوٹل میں چلتے ہیں، جسے زیادہ بھوک لگی ہو وہ کچھ بسکٹ سموسے کھا لے”
وہ سب ایک ریسٹورنٹ میں چلے گئے- رحیمو اور عاقل کے سوا کسی نے سموسے نہیں کھائے- قاسم نے مزدوری کی رقم تقسیم کی- اس نے بائیس روپے الہیٰ بخش کی طرف بڑھائے تو وہ حیران رہ گیا- “یہ کیا چاچا؟”
“یہ تمہارا حصہ ہے-”
“لیکن چاچا، میں تو مہمان ہوں- تمہارے ساتھ ایک دن گزارنے کے لئے آیا تھا-” الہیٰ بخش نے احتجاج کیا-
“یہ تو تمہیں لینا پڑے گا- صاحب نے آٹھ آدمیوں کی مزدوری دی ہے-”
“سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ۔۔۔ بیکار بات مت کرو-”
قاسم نے اس کی بات کاٹ دی- “تمہارا حصہ لے کر ہم گناہگار بنیں گے کیا”
اس پر سب پیچھے پڑ گئے- یوں الہیٰ بخش کو وہ پیسے لینے ہی پڑے- لیکن اسے بہت شرمندگی ہو رہی تھی-
ہوٹل سے باہر آ کے قاسم نے کہا- “یہ الہیٰ بخش اور زرداد میرے ساتھ جا رہے ہیں- تم لوگ آٹھ بجے تک میرے گھر پہنچ جانا-”
باقی سب لوگ چلے گئے- قاسم الہیٰ بخش اور زرداد کو لے کر بس اسٹاپ کی طرف چل پڑا- اس وقت صدر جانے والی بسوں میں رش نہیں تھا- انہوں نے مزے سے بیٹھ کر سفر کیا- نمائش کے اسٹاپ پر وہ اتر گئے- “میں جیکب لائن میں رہتا ہوں- یہاں سے زیادہ قریب پڑتا ہے میرا گھر-” قاسم نے وضاحت کی-
سڑک پر کوئی پانچ منٹ چلنے کے بعد وہ کچے پکے مکانوں کے علاقے میں پہنچ گئے- اب وہ تنگ گلیوں میں چل رہے تھے جہاں دونوں طرف مکان ہی مکان تھے- زیادہ تر مکان ایسے تھے کہ ان مین ٹاٹ کے پردے ہی دروازے کا کام کرتے تھے- ایسے ہی ایک دروازے پر انہیں ٹھہرا کر قاسم ٹاٹ کا پردہ ہٹا کے اندر چلا گیا- چند لمحوں بعد اس نے انہیں آواز دی-“آجاؤ” وہ پردہ ہٹا کے اندر چلے گئے-
دروازے سے داخل ہوتے ہی چھوٹا سا صحن تھا- صحن کے پار دو کمرے تھے- ایک کچا کمرا تھا اور دوسرا پکا- پکے کمرے کی چھت ٹین کی چادر کی تھی- سائیڈ میں باورچی خانہ اور غسل خانہ تھا- صحن کے اس طرف والے حصے میں بیت الخلا تھا- درمیان میں ایک ٹنکی رکھی تھی-
قاسم نے درمیان میں پڑا پردہ کھینچ کر گویا پردے کا اہتمام کر دیا- اس طرف تین چار چارپائیاں پڑی تھیں- تکئے بھی رکھے تھے- قاسم نے اشارہ کرتے ہوئے کہا “بیٹھ جاؤ اور تھکن ہو رہی ہے تو پاؤں پھیلا لو- یہ تمہارا اپنا گھر ہے-”
الہیٰ بخش اور زرداد بیٹھ گئے- کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں، پھر قاسم زرداز کو بوجھ اٹھانے کے رموز سمجھانے لگا- الہیٰ بخش توجہ سے سنتا رہا- وہ سوچ رہا تھا، کون جانے یہ باتیں بھی کام ہی آ جائیں- وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا- وہ لوگ تو اس وقت چونکے جب باہر سے کسی نے قاسم کو آواز دی “استاد”
“لو یہ لوگ بھی آگئے-” قاسم نے کہا پھر دروازے کی طرف منہ کر کے پکارا- “آ جاؤ یارو!”
ٹاٹ کا پردہ اٹھا اور سب سے پہلے مشتاق اندر آیا- وہ کسی چیز کو کھینچ رہا تھا- دوسری طرف سے رحیموں اس چیز کو دھکیل رہا تھا- قاسم اور وہ دونوں اٹھ کھڑے ہوئے- اتنی دیر میں وہ لوگ اندر آ گئے تھے-
قاسم، الہیٰ بخش اور زرداد کی آنکھیں پھیل گئیں- وہ لوگ ایک ٹھیلا لائے تھے اور وہ بہت خوبصورت ٹھیلا تھا- ٹھیلے کو دیکھ کر قاسم کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا- وہ آگے بڑھا اور ٹھیلے کو چھو کر دیکھنے لگا، جیسے وہ کوئی غیر حقیقی چیز ہو-
“کیا دیکھ رہے ہو استاد، یہ تمہارا ہی ہے-” نثار نے کہا-
“نئی زندگی مبارک ہو استاد!” رحیمو بولا-
قاسم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے- وہ ٹھیلے پر ہاتھ پھیرتا رہا- پھر رندھی ہوئی آواز میں بولا- “میں تم لوگوں کی اس محبت کا شکریہ کیسے ادا کروں ۔۔۔۔ ”
“اس کی ضرورت نہیں استاد-” نثار نے اس کی بات کاٹ دی- قاسم کے بعد وہ سب سے سینئر تھا- بس اللہ تمہیں اس ٹھیلے سے بہت رزق دے- یہ دعا قبول ہو گئی تو سمجھو ہمیں محبت کا صلہ مل گیا-”
دوسرے مزدوروں کی آنکھیں بھی چمکنے لگیں-“اتنی محبت کا حق دار تو نہیں تھا یارو-” قاسم منمنایا-
“تم تو اس سے زیادہ محبت کے قابل ہو استاد- پر ہم سب غریب لوگ ہیں-” نثار بولا- “بس اب یہ ڈراما ختم کرو اور کھانا کھلواؤ- عباس نے ماحول کو بدلنے کی کوشش کی لیکن قاسم تو کسی اور ہی دنیا میں کھویا ہوا تھا- وہ ٹھیلے پر یاتھ پھیر رہا تھا لیکن اس کی آنکھیں دیوار کے پار، دور کہیں بہت دور دیکھتی محسوس ہو رہی تھیں- پھر اس نے سحرزدگی کی سی کیفیت میں ٹھیلے کو دھکیل کر آگے بڑھایا اور بے ساختہ آواز لگائی “آلو، بھنڈی، بینگن، توری لے لو، سبزی والا ۔۔۔۔ ” اپنی آواز نے خود اسے بھی چونکا دیا- وہ خجالت میں ادھر ادھر دیکھنے لگا- اس کے ہونٹوں پر بے حد معصوم مسکراہٹ تھی-
“لاؤ استاد، ایک سیر آلو بینگن!” عباس نے شوخی سے کہا- “لیکن پکے ہوئے چاہیئں ۔۔۔۔ روٹی کے ساتھ ”
قاسم کو احساس ہو گیا کہ ان لوگوں کو بہت بھوک لگ رہی ہوگی-” آج آلو گوشت ملے گا بیٹے” اس نے شرمندگی سے کہا “ارے تم لوگ بیٹھو نا”-
وہ سب بیٹھ گئے- قاسم پردہ ہٹا کر اندر چلا گیا- تھوڑی دیر بعد وہ ہاتھ کی بنی ہوئی دو میزیں اٹھا لایا- وہ اس نے چارپائیوں کے درمیان رکھ دیں- “تم لوگ ہاتھ دھو لو- میں کھانا لا رہا ہوں-”
کھانے میں آلو گوشت اور چنے کی بریانی تھی- وہ سب کھانے پر ٹوٹ پڑے- الہیٰ بخش کو پردے کی اوٹ سے چھانکتی ہوئی آنکھیں نظر آرہی تھیں- وہ ٹھیلے کو دیکھ رہی تھیں اور آوازوں سے ان کو خوشی کا اندازہ ہو رہا تھا- الہیٰ بخش کو اس لمحے ان مزدوروں پر ٹوٹ کر پیار آیا- انہوں نے اس گھرانے کو کتنی بڑی خوشی دی تھی- برتن اٹھانے کے لئے قاسم کا وہ بیٹا آیا جس کا اس نے الہیٰ بخش سے تذکرہ کیا تھا- دیکھنے میں وہ دس سال کا بھی نہیں لگتا تھا- کھانے کے بعد گپ شپ ہوتی رہی- اس دوران ان لوگوں نے چائے پی- پھر قاسم نے ان سے پوچھا “اب کیا ارادہ ہے؟”
“یہ تو ہمیں تم سے پوچھنا ہے استاد-” نثار نے کہا ” یہ تو معلوم ہو گیا کہ تم سبزی فروشی کا کام کرو گے-”
“ہاں! تو اب پوچھنا کیا ہے-”
“صبح منڈی جاؤ گے؟”
“ہاں-” قاسم نے اثبات میں سر ہلایا-
“کس وقت جاؤ گے؟”
صبح چار بجے جانا ہو گا-”
“تو پھر استاد ہم بھی یہاں سے ٹلنے والے تو نہیں-” نثار نے کہا- اس پر قاسم نے حیرت سے دیکھا- اور پھر دوسروں کو جن کے سر تائید میں ہل رہے تھے- “ہم تمہارے ساتھ منڈی چلیں گے-” نثار نے مزید کہا- “ہمارا رکنا مسئلہ ہو تو اور بات ہے- ہم چلے جائیں گے اور صبح چار بجے آ جائیں گے”
“ایسی کوئی بات نہیں- بس تم لوگوں کو تکلیف ہو گی-” قاسم نے شرمندگی سے کہا- “آور پھر اس کی ضرورت کیا ہے-”
“ضرورت تو ہے-” مشتاق بولا-
“اور ہم لوگوں کی تکلیف کی فکر مت کرو-” رحیمو نے کہا- “ہم تو رات جگا کریں گے- چار بجے تک تاش کی پارٹی جمے گی یہاں-”
“پر تم لوگوں کو صبح کام پر ۔۔۔۔ ”
“صبح اتوار ہے استاد’ نثار بولا ” یہ بتاؤ تاش کی دو گڈیاں ہیں تمہارے پاس-”
“ہاں، ہیں تو ۔۔۔۔۔۔ لیکن یارو، منڈی چلنے کی ضرورت نہیں”
“تم اس بات کو چھوڑو استاد، تاش لے آؤ-” رحیمو نے فیصلہ کن لہجے میں کہا-
قاسم اندر گیا اور تاش کی دو گڈیاں لے آیا- دو پارٹیوں میں تقسیم ہوئے اور ترپ چال کھیلنے لگے- الہیٰ بخش، قاسم نثار اور رحیمو کے ساتھ تھا- وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا- اندر بچے تو شائد سو گئے تھے لیکن قاسم کی بیوی نہیں سوئی تھی- اسی کی بدولت ان لوگوں کو چائے ملتی رہی-
پھر اچانک عاقل کو خیال آیا- “اب بس کریں استاد- میرا خیال ہے وقت ہو گیا ہے-” قاسم اور نثار نے آسمان کی طرف دیکھا- وہاں ابھی رات کا اندھیرا تھا- “ہاں وقت ہو گیا ہے-” نثار نے سر ہلاتے ہوئے کہا-
“تم لوگ ہاتھ منہ دھو لو- پھر چلتے ہین-” قاسم نے کہا-
پندرہ منٹ بعد وہ سب باہر بکل آئے- باہر لگتا تھا، پوری کائنات سو رہی ہے- وہ سنسان سڑک پر بے فکری سے دندناتے ہوئے چلتے رہے- الہیٰ بخش نثار کے ساتھ قدم ملا کر چلنے لگا- قاسم سب سے آگے تھا- اس کے ساتھ زرداد چل رہا تھا-
“نثار بھائی1” اچانک الہیٰ بخش نے سرگوشی میں کہا- “اب تم لوگ چاچا قاسم کو سبزی فروٹ دلاؤ گے نا؟”
نثار نے سر گھما کر اسے دیکھا “ہاں بخشے!” اس نے آہستہ سے جواب دیا-
الہیٰ بخش نے جیب سے تیس روپے نکال کر ہاتھ میں رکھ لئے تھے- وہ اس نے نثار کی طرف بڑھائے- “میں بھی تمہارے ساتھ شامل ہونا چاہتا ہوں نثار بھائی”
نثار نے اس کے ہاتھ کو دیکھا لیکن پیسے لینے کے لئے ہاتھ نہیں بڑھایا “اس کی ضرورت نہیں بخشے- ہمارے پاس ضرورت سے زیادہ پیسے ہیں- ہم سب بہت عرصے سے اس موقع کے لئے رقم بچا رہے تھے-”
‘یہ بات نہیں نثار بھائی! میں تمہارے ساتھ شریک ہونا چاہتا ہوں- قاسم چاچا سے میرا بھی تعلق ہے-”
“نہیں بخشے ضرورت ہوتی تو میں ضرور لے لیتا-”
“تم میرا دل توڑ رہے ہو- صرف اس لئے کہ میں تم میں سے نہیں ہوں-” الہیٰ بخش نے دل گرفتگی سے کہا-
“یہ بات نہیں بخشے-‘ نثار نے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا- “پر تو بھی تو مزدور ہے اور مزدور کا ہاتھ عام طور پر تنگ ہی رہتا ہے-”
“یہ تو وہی پیسے ہیں جو مجھے صرف تمہارے ساتھ ہونے کی وجہ سے ملے ہیں- ان پر تو میرا حق ہی نہیں تھا- تم لوگوں نے زبردستی مجھے دے دیئے- اب تم انہیں قبول نہ کر کے مجھے احساس دلا رہے ہو کہ میں بد رنگ ہوں-”
“تو پاگل ہو گیا ہے- دیکھ بھائی تو بھی مزدور ہے اور ہم بھی- یہ بڑا رشتہ ہوتا ہے- ہمارے دکھ سکھ ایک سے ہیں- مگر میری جان، یہ معاملہ برادری کا ۔۔۔۔۔۔ ” نثار کہتے کہتے رکا “برادری کا بھی نہیں، ٹولی کا معاملہ ہے یہ-”
“ٹھیک ہے نثار بھائی” الہیٰ بخش نے اداس لہجے میں کہا “آئندہ میں اپنی حد میں رہوں گا-”
نثار چند لمحے اسے دیکھتا رہا۔ پھر اس نے ہاتھ بڑھا دیا- “لا، پیسے دے اور اب منہ مت لٹکا-” اس نے الہیٰ بخش سے نوٹ لے کر گنے- وہ تیس روپے تھے، نثار جانتا تھا ککہ گزشتہ روز کی مزدوری میں حصہ بائیس روپے بنا تھا- یعنی آٹھ روپے الہیٰ بخش نے اپنی جیب سے ملائے تھے جبکہ پچھلے روز اس نے کام بھی نہیں کیا- پورا دن بلکہ اب تک انہی لوگوں کے ساتھ لگا رہا تھا-
نثار کا دل دکھنے لگا لیکن اب وہ الہیٰ بخش سے حجت بھی نہیں کر سکتا تھا- اس نے خاموشی سے پیسے جیب میں رکھ لئے-
وہ سب سبزی منڈی کی طرف چلتے رہے-
منڈی دیکھ کر الہیٰ بخش حیران رہ گیا- وہاں ایسی گہما گہمی، ایسا ہجوم تھا جیسے دن نکل چکا ہو- قاسم اپنے تھوڑے تھوڑے کر کے بچائے ہوئے پیسے لایا تھا اور اسی حساب سے مال خریدنا چاہتا تھا- نثار نے جو اسے پھلوں کی کئی پیٹیاں سبزی کے علاوہ دلائیں تو وہ حٰران رہ گیا- اس کی آنکھیں پھر بھیگ گئیں “اس سب کی ضرورت نہیں تھی یارو! وہ ٹھیلا ہی بہت تھا” وہ بڑبڑایا-
“بے کار باتیں مت کرو استاد!” رحیمو بولا-
واپسی کے سفر میں وہ لدے پھندے تھے اور بہت خوش تھے، جیسے وہ سب ہی کوئی نیا کام شروع کر رہے ہوں- گھر پہنچ کر انہیں نے ٹھیلا لدوانے میں قاسم کی مدد کی- سب بہت خوش تھے- ہر شخص بساط بھر مشورے دے رہا تھا- سبزیاں اور پھل لگ گئے تو ٹھیلا اور خوبصورت لگنے لگا-
اس دوران سورج نکل آیا تھا- قاسم نے انہیں ناشتہ کرایا- سب نے ڈٹ کر چائے میں پاپے بھگو کر کھائے- پھر چلنے کا وقت آگیا- قاسم کو ٹھیلا لے کر نکلنا تھا- اس کی نئی زندگی کا آغاز ہو رہا تھا-
“استاد، ہمیں اجازت دو-” نثار نے کہا- ” ہم اب چلتے ہیں- تم بھی بسم اللہ کرو- اللہ تمہیں کامیاب کرے-”
قاسم ممنونیت بھری بھیگی آنکھوں سے ایک ایک کو تکتا رہا- اس کے ہونٹ لرز رہے تھے، اسے احساس تھا کہ شکریہ بہت چھوٹا لفظ ہے- عباس نے بھرے ہوئے ٹھیلے کو ہلکے سے دھکیلا
“واہ استاد! یہ تو پھول ہو رہا ہے، تمہارے تو مزے آ گئے-” اس نے شوخ لہجے میں کہا- اس پر سب کھلکھلا کر ہنس دیئے-
———————————-٭—————————————
وہ دن اور رات الہیٰ بخش کبھی نہیں بھولا، ج اس نے مزدوروں کے ساتھ گزارا تھا- اس نے ان سے بہت کچھ سیکھا تھا- زندگی کو بہت قریب سے دیکھا اور سمجھا تھا- سب سے بڑی بات یہ کہ اس نے ایک دوسرے کے لئے ان کی محبت دیکھی تھی-
محبت! ۔۔۔۔۔۔ بس اسی بات پر وہ جھنجلانے لگتا- کیا مصیبت ہے- جس چیز سے بھاگ کر وہ کراچی آیا ہے- وہ یہاں بھی موجود ہے- اسے یاد آیا، ایک بار اس کے باپ نے کہا تھا- “محبت تو سبھی کرتے ہیں بیٹے ۔۔۔ اور جو لوگ خود سے نہیں کرتے، انہیں محبت کرنی پڑ جاتی ہے- اچھا یہی ہے کہ محبت کی عادت ڈال لے- اس سے اللہ بھی خوش رہتا ہے اور اپنا آپ بھی- اور جو آدمی محبت کرنا نہیں چاہتا، وہ بہت نقصان میں رہتا ہے- جب وہ محبت پر مجبور ہوتا ہے تو بہت بے بس ہوتا ہے- بہت تکالیف اٹھاتا ہے وہ، مزدوروں نے اس پر ثابت کر دیا تھا کہ وہ سب ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں- شاید وہ محبت ان کی ضرورت تھی- ان کا روزگار، ان کے مفادات، ان کے دکھ سکھ جو مشترک تھے- پھر بھی وہ تھی تو محبت ہی، ورنہ انہیں قاسم کے لئے اتنا کچھ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، اس سے کوئی غرض نہیں تھی- پھر انہوں نے یہ سب کچھ کیوں کیا – محبت! ۔۔۔۔۔۔ ہاں وہ محبت ہی تھی- الہیٰ بخش کو اعتراف کرنا پڑا-
قاسم کے سبزی فروٹ کے لئے پیسے تو اس نے بھی ملائے تھے- تو کیا یہ محبت تھی- ہر گز نہیں- انسیت- نہیں یہ بھی نہیں- تو پھر کیوں؟ بہت غور کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ وہ اس کی خودداری، اس کی انا کا معاملہ تھا- اسے مزدوری کئے بغیر اجرت دی گئی تھی- جو اصرار کی وجہ سے اسے لینی پڑی تھی- وہ اس کے سوا اور کیا کر سکتا تھا کہ کسی بھی بہانے سے اس میں مزید اپنی رقم ملا کر انہیں لوٹا دے اور بہانہ موجود تھا-
الہیٰ بخش کو مایوسی ہوئی، کیا وہ محبت کی اہلیت ہی نہیں رکھتا- اس نے یاد کرنے کی کوشش کی کہ کبھی اس نے کسی سے محبت کی ہو- لیکن نہیں- اسے تو شاید ماں باپ سے بھی محبت نہیں- کراچی آنے کے بعد اس نے ابا کو صرف ایک خط لکھا تھا اور گھر کے لوگ اسے کبھی یاد بھی نہیں آتے تھے- وہ یہاں خوش تھا-
اس دن کے بعد سے محبت الہیٰ بخش کے سر پر سوار ہو گئی- صبح سویرے اپنے ٹھکانے پر آ کر بیٹھتا تو گرد و پیش کی ویرانی اور تنہائی میں وہ محبت اور عشق کے بارے میں سوچتا رہتا- اسے باپ کی باتیں یاد آتیں- گرد و پیش میں زدگی بیدار ہوتی تو وہ چونکتا اور اس بات پر غور کرتا کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی محبت کے بارے میں کیوں سوچتا رہتا ہے- اس سے بہتر ہے کہ وہ محبت ہی کر لے-
در حقیقت وہ خوفزدہ تھا- باپ کی بات کے حوالے سے اسے خوف آتا تھا- کیا محبت نہ کرنے کی سزا میں اسے ایسی محبت ہو گی جو اسے مجبور و بے بس کر کے رکھ دے گی – وہ یہ سوچتا اور لرز جاتا- وہ عشق اور محبت سے گھبرا کر ہی تو گھر چھوڑ کر بھاگا تھا-
لیکن اسے اندازہ نہیں تھا کہ اسے پردیس میں محبت ہو گی،جس کے سامنے وہ بے بس ہو جائے گا اور یہ محبت کے خلاف مزاحمت کا رد عمل ہو گا-
وہ یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ اب وہ وقت آ پہنچا ہے!
————————————–٭————————————–
ملنگ نے ٹھیک ہی کہا تھا- الہیٰ بخش اسے بھول گیا تھا لیکن پھر ایک روز کالج کا پروفیسر آگیا- اور اس نے اسے ملنگ کی یاد دلا دی-
صبح سویرے آ کر سنسان فٹ پاتھ پر بیٹھنے والا الہیٰ بخش جو زندگی کے بارے میں سوچا کرتا تھا، اس صبح مضطرب تھا- اور اس کی سمجھ میں اضطراب کی وجہ بھی نہیں آ رہی تھی- وہ اٹھ کر ادھر ادھر ٹہلتا رہا- گردو پیش میں زندگی سوئی ہوئی تھی- کہیں کوئی بھی نہیں تھا-
ٹہلتے ہوئے واپس آنے کے لئے پلٹا تو وہ سکی سے ٹکرا گیا- پیوند لگا سفید کرتا پاجامہ پہنے ہوئے وہ شخص پہلی نظر میں اسے بھکاری لگا- اس کے بال بہت بڑھے ہوئے تھے- کندھوں تک آ رہے تھے- بڑی بڑی سرخ آنکھیں تھیں- سب سے بڑی بات یہ کہ اس کی عمر کا اندازہ لگانا نا ممکن تھا، بلکہ وہ یہ بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ بوڑھا ہے یا نوجوان- جوان ہے یا ادھیڑ عمر- ایک پل میں اسے اس کی آنکھوں سے خوف آنے لگا-
“دیکھ کے چل-” اس شخص نے اسے ڈانٹا “آدمی کو اپنی راہ کا تو پتا ہونا چاہئے کہ چل کہاں رہا ہے”-
الہیٰ بخش نے سمجھ لیا کہ وہ شخص بھکاری نہیں ہے- “معاف کیجیئے بابا جی” اس نے معذرت کی-
“بھگوڑوں کو معافی نہیں ملتی اندھے-” اس شخص نے گرج کر کہا “بھاگنا تھا تو آنکھیں بھی کھلی رکھی ہوتیں- بھاگتے بھاگتے بیچ بازار میں آ بیٹھا- یہاں تو کوئی بھی جھولی میں وہ چیز ڈال دے گا، جس سے تو بھاگ رہا ہے-”
الہیٰ بخش سہم گیا- کچھ کچھ سمجھ میں آ رہا تھا کہ بات ٹھیک ہے- “پر میں تو بھگوڑا نہیں ہوں بابا-” اس نے ڈرتے ڈرتے کہا-
“بھاگتے بھاگتے پردیس آ گیا پھر بھی کہتا ہے، بھگوڑا نہیں ہوں-”
اب الہیٰ بخش کی سمجھ میں بات پوری طرح آنے لگی- وہ کوئی مجذوب تھا- “یہاں میں محفوظ ہوں باباجی-”
“جن کے پیروں میں بھنور باندھ دیئے گئے ہوں، وہ ڈوبنے سے نہیں بچتے- تجھے بھی ڈوبنا ہے- ڈوب کر رہےے گا-”
“پھر میں کیا کروں بابا؟” الہیٰ بخش نے بے بسی سے پوچھا-
“دیکھا کر کہ قدموں کے نیچے کون سا راستہ ہے-” مجذوب نے نرم لہجے میں کہا- “دیکھے گا تو منہ کے بل نہیں گرے گا- راستہ بدلنے کا تجھے اختیار نہیں- نظر نیچی رکھنے میں عافیت ہے- نظر اٹھانا مت- اٹھا لے تو خاموشی سے ڈوب جانا- شکایت نہ کرنا-” مجذوب اپنے راستے پر چل دیا- مگر دو قدم بڑھنے کے بعد پلٹا- “بس نظر جھکائے رکھ” اس نے کہا- “لیکن یہ تجھ سے ہو گا نہیں”-
اب الہیٰ بخش جیسے سحر زدہ ہو چکا تھا- اس نے پوچھا “آپ کون ہیں بابا؟”
“عاشق ہوں، پروفیسر ہوں، ایکٹر ہوں، تجھے کیا-” مجذوب نے کچھ ایسی کیفیت میں کہا کہ ہر لفظ کی ضرب الہیٰ بخش کو اپنے دل پر پڑتی ہوئی محسوس ہوئی- خواہ مخواہ ۔۔۔۔۔۔ بے بات اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے- “تو اپنی دیکھ!” مجذوب اپنی کہے جا رہا تھا- “اور سوچ کہ تیری فکر اوروں کو کیوں ہے1 پچھلے کو بھول گیا نا!”
الہیٰ بخش مجذوب کو جاتے دیکھتا رہا- وہ سوچ رہا تھا، یہ کون تھا ۔۔۔۔۔ اور وہ ملنگ ایبٹ آباد والا ۔۔۔۔ مجھ سے ان کا کیا تعلق ہے- یہ سوال ایبٹ آباد میں بھی اسے الجھاتا تھا- پھر وہ یہ سوچ کر پر سکون ہو جاتا تھا کہ وہ ابا کی باتیں سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا، اس لئے سزا کے طور پر زیادہ پیچیدہ باتیں کرنے والا اس پر تھوپ دیا گیا-
مگر کہاں سے؟ کس نے تھوپا ہے؟ اس کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا-
———————————–٭———————————–
الہیٰ بخش کو پہلی نظر میں عشق ہوا تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں- اس کا خمیر ہی عشق کی مٹی سے اٹھا تھا لیکن یہ عشق کہاں، کس جگہ، کس انداز میں ہوا، اس پر مزید حیرت کی جا سکتی ہے-
الہیٰ بخش کو ایک بڑا کام ملا تھا جو اس نے چار دن میں نمٹایا تھا، اجرت کے علاوہ انعام بھی ملا تھا لہذا جیب بھری تھی- وہ بے فکروں کی طرح مست بیٹھا تھا- صبح سے کام نہیں ملا تو اس کی اسے پروا بھی نہیں تھی- اس روز وہ کام کرنا چاہتا بھی نہیں تھا، البتہ کام مل جاتا تو وہ انکار بھی نہ کرتا- یہ مزدوری کے اصول کی بات ہے، ورنہ دل تو اس کا یہی چاہا تھا کہ اس روز گھر بیٹھ کر آرام کرے، چار دن کی تھکن اتارے لیکن اپنے کام میں نوکری سے زیادہ پابندی کرنا پڑتی ہے- الہیٰ بخش جانتا تھا کہ یہ آزادی کی قیمت ہے، اس لئے وہ معمول کے مطابق اپنا محنت کا شو کیس لگائے بیٹھا تھا-
شام ہو گئی تھی- طارق روڈ کی رونق اپنے شباب پر تھی- الہیٰ بخش کو یہ وقت بہت اچھا لگتا تھا- عام طور پر وہ اسی رونق کی خاطر دیر تک رکا رہتا تھا- کسی دن تھکن بہت زیادہ مجبور کرتی تو شام کو جلدی گھر چلا جاتا، ورنہ رات کا کھانا کھا کر ہی جاتا-
وہ اپنے معمول کے مطابق نظریں جھکائے بیٹھا تھا- نظریں وہ کم ہی اٹھاتا تھا- اچانک اسی جگہ جہاں اس کی نظریں جمی تھیں- ایک شاپنگ بیگ گرا اور اس طرح گرا کہ اس کی تمام چیزیں بکھر گئیں- کچھ کپڑے تھے، کچھ بال پن اور کچھ ایسی چیزیں جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھیں- ساتھ ہی ایک سریلی آواز سنائی دی “او مائی گاڈ”
الہیٰ بخش نے سر اٹھا کر دیکھا ۔۔۔۔۔ اور دیکھتے کا دیکھتا رہ گیا- وہ بےحد حسین لڑکی تھی- عمر اٹھارہ انیس کے لگ بھگ ہو گی- اس کا چہرہ کندن کی طرح دمکتا ہوا تھا- آنکھیں کٹوروں سی تھیں- نقوش ایسے تھے جیسے بڑی نزاکت اور نفاست سے تراشے گئے ہوں- بالائی ہونٹ کے اوپر پسینے کے قطرے یوں چمک رہے تھے جیسے صبح کے وقت گلاب پر شبنم، اور جسم جیسے سانچے میں تیار کیا گیا تھا- لڑکی کے ہونٹ یوں کھلے ہوئے تھے جیسے وہ ابھی تک پکار رہی ہو ۔۔۔۔ او مائی گاڈ!
الہیٰ بخش ٹکٹکی باندھے اسے دیکھتا رہا- اسے اس لڑکی کے سوا کچھ بھی یاد نہیں تھا- اسے یہ احساس بھی نہیں تھا کہ وہ رنگ کے ڈبے اور برش لگائے ایک فٹ پاتھ پر بیٹھا ہے- وہ زمان و مکاں سے ماورا ہو گیا تھا-
“اب دیکھ کیا رہی ہو، اٹھاؤ نا”
اس آواز نے الہیٰ بخش کو چونکا دیا- پہلی بار اسے احساس ہوا کہ لڑکی کے ساتھ کوئی اور بھی ہے، وہ ایک معمر خاتون تھیں- ان کے چہرے اور آنکھوں میں برہمی تھی- الہیٰ بخش کو احساس ہو گیا کہ وہ جس طرح لڑکی کو دیکھ رہا تھا، وہ لڑکی کی ماں نے دیکھ لیا ہے اور ظاہر ہے، اسے یہ بات اچھی نہیں لگی ہے-
الہیٰ بخش نے نظریں جھکا لیں- اب اس کے سامنے لڑکی کیبکھری ہوئی چیزیں تھیں- وہ شرمسار تھا کہ اس نے ایسی معییوب حرکت کی-
“ابھی سمیٹتی ہوں ممی” اس نے لڑکی کی سریلی آواز سنی-
اگلے ہی لمحے لڑکی جھکتے ہوئے خود اس کی نظروں کے فوکس میں آئی اور یوں آئی کہ اس کے دل کی دنیا زیروزبر ہو گئی- لڑکی کا آنچل ڈھلک گیا تھا- جیسے دہکتے ہوئے لفظوں کی کوئی کتاب کھل گئی تھی- وہ نظارہ الہیٰ بخش کے لئے بالکل نیا تھا- وہ اسے اچھا بھی نہیں لگا لیکن دل چاہا تھا کہ دیکھتا ہی رہے- اسے اپنے کانوں کی لویں انگارا ہوتی اور چہرہ تمتماتا ہوا محسوس ہوا- تپش سے گھبرا کر اس سے نظریں اٹھائیں تو سامنے لڑکی کی ماں شرر بار نگاہیں تھیں- وہ گھبرا کر سامنے دیکھنے لگا- اس لمحے اسے اپنا آپ بہت چھوٹا، بہت حقیر محسوس ہو رہا تھا-
جانے کب تک وہ یونہی سامنے دیکھتا رہا- اس کا دل چاہتا تھا کہ زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائے- نظریں ہٹیں تو اسے پتا چلا کہ وہ دونوں جانے کب کی جا چکی ہیں- اس نے اطمینان کی سانس لی اور نظریں جھکا دیں-
لیکن اس کا اطمینان وقتی ثابت ہوا- اس کی جھکی ہوئی نظروں کے سامنے لڑکی کا چہرہ ابھر آیا، اور وہ جیسے تصور نہیں، جیتا جاگتا، سانس لیتا چہرہ تھا کہ وہ بڑھائے اور چھو لے- اس نے سر جھٹکا تو لڑکی کی ماں کی شرر بار نگاہیں سامنے آ گئیں- اس نے گھبرا کر سر گھمایا تو وہ نظارہ سامنے آ گیا جس کی تپش وہ اب تک محسوس کر رہا تھا، اس نے اسے جھٹکنے کے لئے پلکیں جھپکیں تو لڑکی کا چہرہ سامنے تھا-
اب تو ان تینوں جھلکیوں کی آنکھ مچولی شروع ہو گئی – پھر ان میں سے شرر بار نگاہوں والی جھلک جیسے کسی خودکار طریقے سے خارج ہو گئی اور کچھ دیر بعد صرف لڑکی کا چہرہ رہ گیا جو نظروں کے سامنے سے ہٹنے کے لئے تیار نہیں تھا-
وہ اسی طرح بیٹھا رہا- پھر اس نے ایک راہ گیر سے وقت پوچھا- سن کر اسے یقین نہیں آیا کہ سوا آٹھ بج چکے ہیں لیکن یہ سچ تھا کہ رات ہو چکی تھی- الہیٰ بخش کو حیرت اس پر بھی تھی کہ اسے اب تک بھوک نہیں لگی- عام طور پو وہ آٹھ بجے کھانے سے فارغ ہو جاتا تھا اور یہ بات تو بالکل ہی نا قابل یقین تھی کہ اس نے اتنا وقت یونہی بیٹھے بیٹھے صرف وہ چہرہ دیکھتے گزار دیا ہے- ایسا تو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا، اس کے تصور میں تو کبھی ابا اور اماں کے چہرے بھی نہیں آئے تھے-
بہرحال وہ اٹھ گیا- یہ بات ابھی اس کی سمجھ میں نہیں آئی تھی کہ اسے محبت ہو گئی ہے-
بھوک نہیں تھی پھر بھی وہ ہوٹل چلا گیا- بھوک ہو نہ ہو، کھانا کھانا ضروری ہے، آدھی رات کو گھر میں بھوک لگی تو بڑا مسئلہ بن جائے گا- یہ سوچ کر وہ کھانا زہر مار کرنے کی کوشش کرتا رہا- لیکن چند لقموں سے زیادہ اس سے کھایا نہیں گیا- یہ بھی غیر معمولی بات تھی، ورنہ بھوک اسے ہمیشہ بہت اچھی لگتی تھی اور وہ کھانا بھی طبعیت سے کھاتا تھا- پھر یہ بے رغبتی کیوں- جبکہ اس کی کوئی ظاہری وجہ بھی نہیں تھی- پورا دن اس نے معمول کے مطابق گزارا تھا- دوپہر کا کھانا ہمیشہ کی طرح ساڑھے بارہ بجے کھاتا تھا- ہر روز اسے شام سات بجے بھوک لگنے لگی تھی اور آٹھ بجے وہ رات کا کھانا کھا لیتا تھا-
اسی الجھن میں وہ گھر پہنچ گیا- اسے احساس تھا کہ اس کی زندگی میں کوئی بن بلایا انقلاب آ چکا ہے- گھر میں رہنے والے ساتھیوں سے بھی اس نے اس روز کوئی گپ شپ نہیں کی- ان کے ساتھ تاش کے لئے بھی نہیں بیٹھا- بہانہ اس نے یہ کیا کہ تھکن کی وجہ سے نیند جلدی آ رہی ہے لیکن درحقیقت اس کی آنکھوں میں نیند کا نام و نشان بھی نہیں تھا وہاں تو بس ایک چہرہ جم کر بیٹھ گیا تھا-
وہ آنکھیں بند کئے لیٹا اس چہرے کو تکتا رہا-
اسے نیند بھی ہمیشہ بہت اچھی آتی تھی- گہری اور پر سکون نیند- ابا جب بھی اسے جگانے کو کوشش کرتے تو جھنجلا جاتے “یہ لڑکا کیسا بے خبر سوتا ہے” وہ اماں سے کہتے “کوئی آ کر اسے کاٹ بھی ڈالے تو اسے پتا نہیں چلے گا-”
“کیسی باتیں کرتے ہو!” اماں خفا ہو کر کہتیں “سوچ سمجھ کر منہ سے الفاظ نکالا کرو-”
“تو یہ اٹھتا کیوں ہیں-”
“بچپن ہی سے مدہوش سوتا ہے یہ تو-” اماں کہتیں- “اور یہ تو ایسا وقت پر سونے اور اٹھنے والا ہے کہ کانٹوں پر لیٹ کر بھی سو جائے-”
اور اب وہ مدہوش سونے والا، اپنے وقت پر کانٹوں پر بھی سو جانے والا الہیٰ بخش وقت گزر جانے کے بعد بھی جاگ رہا تھا- تاش کی محفل کب کی اٹھ چکی تھی- سب لوگ کب کے سو چکے تھے- رات کا مخصوص سکوت طاری تھا اور وہ کروٹیں بدلے جا رہا تھا- آنکھیں بند کرتا تو وہ چہرہ سامنے آ جاتا آنکھیں کھولتا تو بے چینی ہونے لگتی- وہ جھنجلاتا اپنے بال نوچنے کو، سر پیٹنے کو جی چاہتا- بس آنکھیں بند کرنے سے دل کو سکون ملتا تھا اور آنکھیں بند کرتے ہی وہ چہرہ! وقت بہت آہستہ آہستہ گزرتا رہا- رات کی سانسیں اکھڑتی گئیں- وہ مضحمل ہوئی گئی لیکن الہیٰ بخش کو نیند نہیں آئی- وہ آنکھیں کھولتا تو جلتا کڑھتا اور جھنجلاتا آنکھیں بند کرتا تو وہ چہرہ اسے پر سکون کر دیتا مگر پھر بے بسی کا احساس ستانے لگتا- اپنی خوشی سے جاگنے کی اور بات ہے لیکن یوں وہ کبھی نہیں جاگا تھا-
“یہ کیسی بے بسی ہے؟” وہ بڑبڑایا-
اسی لمحے فجر کی اذان شروع ہو گئی- یہ اس کے معمول کے مطابق اٹھنے کا وقت تھا لیکن وہ اٹھا نہیں “یہ کیسی بے بسی ہے” اس نے دہرایا-
“اللہ بہت بڑا ہے” موذن پکار رہا تھا-
“یہ کیسی بے بسی ہے؟” الہیٰ بخش بڑبڑا رہا تھا-
‘میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں- میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (ص) اللہ کے رسول ہیں-”
“میں سو کیوں نہیں سکتا- یہ کیسی بے بسی ہے؟”
“آؤ نماز کی طرف ۔ ۔ ۔ آؤ بھلائی کی طرف”
“یہ سب کیا ہے- میں اتنا بے بس کیوں ہو گیا ہوں؟”
“نماز نیند سے بہتر ہے”
“یہ کیسی بے بسی ہے؟”
موزن نے آخری بار اللہ کی کبریائی کا اور اس کے سوا کسی معبود کے نہ ہونے کا اعلان کیا- اس کے ساتھ ہی سکوت طاری ہو گیا جیسے پوری کائنات ساکت ہو گئی ہو- چند لمحوں کے اس سکوت نے الہیٰ بخش کو اس کے سوال کا جواب دے دیا- اس کے کانوں میں ابا کی آواز گونجی- “جو لوگ خود سے محبت نہیں کرتے، انہیں محبت کرنی پڑجاتی ہے- جو آدمی محبت کرنا نہیں چاہتا، وہ بہت نقصان میں رہتا ہے- جب وہ محبت ہر مجبور ہوتا ہے تو بہت بے بس ہوتا ہے، بہت دکھ اٹھاتا ہے وہ”
“تو یہ بے بسی اسی لئے ہے!” الہیٰ بخش نے خود سے کہا- اس لمحے اسے پوری طرح ادراک ہو گیا کہ اسے محبت ہو گئی ہے- محبت پہلی نظر میں اور ایک ایسی لڑکی سے جس کا وہ کسی طرح ہمسر نہیں ہے- وہ دولت مند گھرانے کی فیشن ایبل لڑکی تھی جبکہ وہ ایک دیہاتی مزدور تھا- اس نے سمجھ لیا کہ اسے باپ کی بات نہ ماننے کی، محبت کے سامنے سر تسلیم سر خم نہ کرنے کی سزا محبت ہی کی شکل میں دی گئی ہے- اب وہ بے بس اور مجبور رہے گا- نہ اپنی مرضی سے کھا سکے گا نہ اپنی مرضی سے سو سکے گا-
اچانک ہی اسے طمانیت کا احساس ہونے لگا- اس نے سوچا یہ تو بس چند روز کی سزا ہے- اب وہ لڑکی کہاں مل سکے گی- وہ تو شاید زندگی میں کبھینظر بھی نہ آئے- چند روز بعد وہ سب کچھ بھول جائے گا- بلکہ ممکن ہے، آج ہی ۔۔۔۔۔ ! لیکن کوئی نا معلوم حس اسے بتا رہی تھی کہ یہ معاملہ اتنا آسان نہیں-
وہ اٹھ کر بیٹھ گیا- بیت الخلا سے آنے کے بعد ٹنکی کے سامنے ہاتھ دھونے بیٹھا تو اسے احساس بھی نہیں ہوا کہ وہ وضو کر رہا ہے- احساس ہوا تو پہلے اسے حیرت ہوئی اور پھر پچھتاوا سر میں ڈنک مارنے لگا- وہ تو ہمیشہ اسی وقت جاگتا رہا ہے-پھر کیوں اسے نماز کا خیال نہیں آیا-
اس نے دروازہ کھولا اور باہر نکل آیا- اس کے قدم مسجد کی طرف اٹھ رہے تھے- محبت اسے نماز کی طرف لے جا رہی تھی-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...