وہ پاکستان آچکی تھی اور آتے ہی علی کا کیس اس نے سنبھال لیا تھا علی کی حالت دیکھ کے اس کا دل کٹ رہا تھا وہ اسے جلد سے جلد صحت یاب دیکھنا چاہتی تھی
ڈاکٹرز واقعی سست روی سے کام کررہے تھےکہ انہیں دیکھ کے یشل کو غصہ ہی آرہا تھاسب سے پہلے تو اس نے ان کی طبیعت صاف کی بھڑاس تو نکالنی تھی نا اب جیسے بھی جہاں بھی نکلتی
اف یہ محبت کے ستائے ہوئے لوگ
اپنا غصہ ہمیشہ ادھر ادھر نکالتے ہیں
ڈاکٹرز نے جہسے ہی دیکھا کہ باہر کی اسپشلسٹ آئی ہے ان کے کام میں تیزی آگئی اب علی کی کئیر سہی طرح سے ہورہی تھی
علی آئی سی یو میں تھا گو کپ اس کی حالت اب بھی خطرے میں تھی پر اب ڈاکٹر پرامید تھے
لیلٰی تو بامشکل آدھا گھنٹہ ہاسپٹل رکی اور پھر گھر چلی گئی بقول اس کہ
” ہاسپٹل کی بو سے میرا دل خراب ہوتا ہے اور پیشنٹس کو دیکھ کر مجھے وامیٹنگ ہوتی ہے” کسی نے اسے روکا بھی نہیں نہ وہ رکی
“یشل بیٹا علی ٹھیک تو ہو جائے گا نا” وہ آئی سی یو سے نکلی تو وہ بولیں
” اللٰہ نے چاہا تو بہت جلد علی ٹھیک ہوجائیں گے آنٹی آپ فکر نہ کریں اور کچھ دیر گھرہو آئیں”
” میں بھی امی کو یہ ہی کہہ رہی ہوں پر امی مان ہی نہیں رہی ہیں” شفق بولیں
” آنٹی آپی ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ گھر چلی جائیں حیدر ہے نا یہاں” اس نے حیدر کو دیکھا جو ابھی ابھی گھر سے آیا
جی امی آپ لوگ چلی جائیں” وہ بھی بولا تو شفق اور وہ طلی گئیں
علی کا وجود پٹیوں میں جکڑا ہوا تھا اسے ابھی تک ہوش نہیں آیا تھا وہ علی کو اس طرح دیکھتی تو اسے بے حد تکلیف ہوتی وہ اپنی پوری جان لگا کے بھی اسے ٹھیک کرنا چاہتی تھی۔
———
دنیا میں پاؤں گیلے کیے بنا سمندر تو پار کیا جا سکتا ہے پر ۔۔۔۔۔آنکھیں گیلی کیے بنا محبت کو پار نہیں کیا جا سکتا بھلے پھر وہ محبت آللٰہ ہو ہو یا انسان سے
وہ علی سے بے انہاحبت کرتی تھی وہ اکثر سوچتی کہ اتنی شدید تر محبت اسے کیوں کر ہوئی۔۔۔۔ کاش یہ محبت علی کو اس سے ہوتی
کیا ہے یہ محبت جو اسے علی سے باندھے ہوئے ہے کہ علی سے دور جانا اس کے لیے موت کے برابر ہے کہ بے دھیانی میں بھی اسے ہی سوچے جاتی ہے کہ بارش کی پہلی بوند, سورج کی کرنیں, ہوائیں, چاند راتیں کہ جب وہ دونوں بیٹھ کے ساری رات بات کیا کرتے تھے سب یاد دلاتی تھی
محبت کیا ہو تم آخر؟
بتاؤ نا
کسی مستانے کی مستی ہو؟
کسی صوفی کا سجدہ ہو؟
کسی زاہد کا تقوٰی ہو کسی بھلے کے گھنگرو ہو؟
کسی مفتی کا فتوٰی ہو؟
کوئی الجھن ہو تم یا کوئی سلجھی ہوئی شے ہو؟
محبت کیا ہو تم آخر؟
وہ سوچ کے رہ گئی۔
———
” آپی علی اب کیسا ہے؟” شہلا گھر آئیں تو لیلٰی نے پوچھا
” تمہیں فرصت مل گئی اسے پوچھنے کی”
” مجھ سے ہاسپٹل کے چکر نہیں لگتے پلیز” وہ چڑی
تو فون تو کیا جا سکتا ہے نا؟”
” فون۔۔۔۔۔ آپی یہاں سب غم کی تصویر بنے ہیں کوفت ہورہی ہے مجھے یہاں۔۔۔۔۔ اب فون کروں گی تو پہلے تو وہ اپنے دکھڑے روئیں گی پھر اس کی طبیعت بتائیں گی اس سے اچھا ہے نا ہی کرو”
” تمہیں پتا ہے اس کی طبیعت کتنی خراب ہے”
“آپ کو بڑی فکر ہورہی ہے اس کی”
” فکر اس کی نہیں تمہاری ہے اگر کل کو اسے کچھ ہوگیا تو تم پہ کیا بیتے گی اور اگر اللٰہ نہ کرے اسے کوئی بیماری ہوگئی تو”
” پہلی بات تو یہ آپی کہ میں انیسویں دہائی کی عورت نہیں ہوں جو اس کے مرنے پہ بین ڈالے گی یا صدمے سے چور ہوگی۔۔۔۔۔ دوسری بات یہ کہ اگر اسے کوئی اور بیماری ہو گی تو تب کی تب سوچیں گے”
“تمہیں پتا ہے وہاں یشل آئی ہوئی ہے نا سنبھالا ہوا ہے اس نے علی کو”
” تو کیا ڈاکٹرز کا اور کیا کام ہوتا ہے سنبھالنے دیں اسے۔۔۔۔۔وہ علی کے گھروالوں کے دلوں میں اپنا امیج بنائے رکھنا چاہتی ہے تو خوشی سے رکھے اس سے کیا ہوتا ہے۔۔۔ علی تو بدگمان ہی ہے نااس سے تو بس پھر مجھے کوئی فکر نہیں”
کہہ کر وہ چلی گئی شہلہ نے اپنا سر پیٹ لیا
———
علی کی حالت اب خطرے سے باہر تھی پر اس کی بیک بون شدید متاثر تھی ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ شاید ہی وہ اب چل پائے اور اگر چلنا شروع بھی ہوا تو اس کے لیے بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہے علی کے پھر سے اپنے پیروں پہ کھڑے ہونے کے چانسز ہیں تو پر بہت کم۔۔۔۔۔
اور کچھ مساج وغیرہ بتائے تھے جو کہ صرف ایک وائف ہی کرسکتی تھی سب یہ سن کے بہت غمگین تھے اور پریشان بھی اب کیا کریں۔۔۔۔۔
” آنٹی آپ لیلٰی اور علی کی شادی کردیں تاکہ لیلٰی اس کی صحیح طریقے سے کئیر کر سکے” یشل نے یہ مشورہ کس دل سے دیا تھا یہ بس وہی جانتی تھی
” شہلہ ہمیں لگتا ہے اب لیلٰی اور علی کی شادی کردینی چاہیے علی کو ضرورت بھی ہے” وہ بولیں شہلہ بوکھلائی
“جی امی۔۔ پر پہلے لیلٰی سے پوچھ لیں”
” ہممم۔۔۔۔ٹھیک کہہ رہی ہو” انہوں نے کہا
” اففففف لیلٰی تو ہتھے سے اکھڑ جائے گی یہ سن کے” انہیں فکر ہوئی
———
علی کو آئی سی یو سے روم میں شفٹ کردیا ھیا تھا سب ادھر ہی موجود تھے علی کے ہوش میں آنے کے بعد وہ صرف ایک بار علی کے سامنے آئی تھی اس کے بعد سے علی کی نظریں اسے ڈھونڈ رہی تھیں
” لیلٰی بیٹا جو ڈاکٹرز نے بتایا وہ تو تمہیں پتا ہی ہوگا” امی نے خود ہی بات شروع کی کہ اچھا ہے یہ بات دونوں کے سامنے ہی ہو جائے شہلہ نے پہلو بدلا ان کی چھٹی حس بار بار کچھ غلط ہونے کا سائرن دے رہی تھی کیونکہ لیلٰی حد سے زیادہ منہ پھٹ تھی
” اگر اس نے غلطی سے کچھ غلط۔۔۔۔۔ نہیں نہیں” انہوں نے جھرجھری لی
” امی یہ باتیں تو گھر جا کے بھی کرسکتے ہیں” وہ بولیں
” بالکل۔۔۔۔۔ پر ابھی بات کرنا مناسب رہے گا کیونکہ ابھی یہ دونوں ہی آمنے سامنے ہیں دونوں کی رائے بھی معلوم ہو جائے گی” انہوں نے کہا پھر لیلٰی کی طرف متوجہ ہوئیں
” لیلٰی بیٹا دیکھو تم دونوں کی منگنی ہوگئی ہے شادی بھی ہوجائے گی تو کیا یہ سہی نہیں ہے کہ ابھی تم دونوں کی شادی کردی جائے علی کی کئیر بھی ہو جائے گی ڈاکٹرز نے کچھ مساج بتائیں ہیں جو صرف ایک بیوی ہی کرسکتی ہے تم۔۔۔۔۔”
لیلٰی کے تو سر پہ لگی اور تلوؤں پہ بجھی
” ایک منٹ” اس نے ان کی بات کاٹی ” اس کا مطلب آپ مجھے اپنے معذور بیٹے کی خدمت کے لیے لے کے جا رہی ہیں”
” اللٰہ نے کرے بیٹا اللٰہ نے چاہا تو وہ بہت جلد ٹھیک ہو جائے گا” وہ بولیں علی اسے دکھ سے اسے دیکھ کر رہ گیا
” کب تک۔۔۔۔؟ کب تک ٹھیک ہو گا یہ” وہ علی کی طرف اشارہ کرکے بولی
” دس سال۔۔ پندرہ سال۔۔۔۔۔ یہ بھی کم ہیں اس کے ٹھیک ہونے کے لیے۔۔۔۔ مجھے معلوم ہے اس کی حالت اور میں جانتے بوجھتے اپنی عمر اس کی خدمتیں کر کے گنوا دوں” اس کے لہجے میں کاٹ تھی
” لیلٰی بس کرو خاموش ہو جاؤ” شہلا بولیں
” آپ کو کیوں اتنا دکھ ہو رہا ہے جو مجھے چپ کروا رہی ہیں آپ۔۔۔۔ آپ کو تو خود اس دن کا ڈر تھا” وہ بولی تو شہلہ سب کے سامنے شرمندہ ہوگئی
” آنٹی آپ یای یشل کو بولیں کہ کرلے اس معذورسے شادی۔۔۔۔۔ بڑا شوق ہے نا اسے خدمت خلق کآ پہلے بھی اسی نے سنبھالا ہے نا اس کو تو اب بھی سنبھال لے گی”
” لیلٰی بس۔۔۔۔۔” شہلہ اسے چپ کروانا چاہتی تھیں پر وہ تو کسی کے کنٹرول میں کہاں آنے والی تھی
” آپی آپ نے ناحق مجھے علی میں انوالو کیا فضول اس کے چکر میں یشل کو ہٹایا رستے سے مجھے کیا پتا تھا کہ یہ دن۔۔۔۔۔” ایک دم لیلٰی کی زبان کو بریک لگا
اس کی بات پہ سب چونکے
” کیا مطلب تمہارا لیلٰی؟” حیدر اس کے سر پہ پہنچ گیا لیلٰی کی سانس رکی
” کچھ نہیں میں تو بس۔۔۔۔۔” لیلٰی اٹکی
” کیا میں تو بس بولو” وہ غصے سے چیخا شک تو اسے کب سے تھا اس پہ پر آج کنفرم لگ رہا تھا
” وہ۔۔۔۔۔” اس نے شہلہ کو دیکھا جو اپنی جگہ چور سی بنی ہوئی تھی
علی خاموش تھا پر اس کی دماغ اس ایک بات پہ مفلوج ہونے لگا تھا
” حیدر لیلٰی بس کرو ہاسپٹل میں تماشا نہیں کرو گھر جا کے بات کرتے ہیں” عمر بولے
” نہیں بھائی۔۔۔۔۔ یہ آج یہاں سے جائے گی تو سب کلئیر کر کے جائے گی” وہ بہت غصے میں تھا
” بولو” وہ پھر چیخا تو لیلٰی نے سب بتادیا اور شہلہ تو جیسے زمین میں گڑھ گئیں
امی آگے بڑھیں اور کھینچ کے ایک تھپڑ اسے مارا
” میرے گھر میں رہ لر میرے ہی بچوں کی زندگیوں سے کھیل کھیلا تم نے۔۔۔۔ اور وہ بھی اتنا گھناؤنا کھیل۔۔۔۔۔ شرم آئی تمہیں یہ سب کرتے ہوئے بھول گئی تھیں کیا کہ تم بھی ایک لڑکی ہو” امی بہت غصے میں تھیں اور علی وہ تو دکھ اور تکلیف کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر چکا تھا کتنا غلط کیا اس نے یشل کے ساتھ۔۔ پر اس نے ایک شکوہ بھی منہ سے نہیں نکالا
گلٹ لفظ تو بہت چھوٹا تھا جو اسے ہورہا تھا وہ یشل سے بے حد شرمندہ تھا
اس نے یشل پہ اعتبار نہ کیا بلکہ اس پہ اپنے گھر والوں کو ترجیح دے دی پر اس کے گھر والوں نے اس کی ہی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا
اور اس لڑکی نے شکایت تو دور کی بات ایک شکوے بھری نظر تک نہ ڈالی اس پہ
بہت اندر تک جلا دیتی ہیں
وہ شکایتیں, جو کبھی بیاں نہیں ہوتیں۔۔۔۔۔۔
———-
سب لوگ گھر آگئے تھے کسی نے شہلہ سے کوئی بات نہ کی تھی امی کے کہبے پہ لیلٰی اسی وقت گھر چھوڑ کے چلی گئی تھی
رات کو جب عمر گھر آئے تو شہلہ جاگ رہی تھی وہ جلدی سے ان تک آئی
” عمر۔۔ عمر مجھے معاف۔۔۔۔۔” وہ بول بھی نہ پوئی تھی کہ عمر کا ایک بھاری ہاتھ اس کے گال پہ پڑا
” دفع ہو جاؤ یہاں سے تم تنہاری شکل بری لگ تہی ہے مجھے نفرت ہورہی ہے تم سے۔۔۔۔۔ اتر گئیں آج تم میرے دل سے”
” عمر ایک موقع دیں دیں ایک۔۔۔۔ میں آئیندہ کبھی ایسا نہیں کروں گی” وہ بری طرح رو رہی تھیں
” آئیندہ۔۔ آئیندہ کی نوبت چھوڑی ہے تم نے”
” عمر پلیز۔۔۔۔” اس نے ان کا بازو تھاما
” دفع ہو جاؤ یہاں سے سنا تم کل تم اس گھر میں نظر نہ آؤ سمجھیں” کہہ کر وہ باہر نکل گئے
——–
“ہمیں معاف کردو یشل بیٹاہم گنہگار ہیں تمہارے” امی روتے ہوئے بولیں
” نہیں آنٹی آپ کیوں معافی مانگ رہی ہیں آپ کی تو کوئی غلطی نہیں ہے”
” میرے گھر کے فرد نے ہی تمہیں تکلیف پہنچائی یشل میں کیسے گنہگار نہ ہوئی پھر میں شرمندہ ہوں بہت”
” آنٹی آپ میری ماں کی جگہ ہیں اور مائیں معافی مانگتی بالکل اچھی نہیں لگتیں۔۔۔۔۔” وہ بولی
” آنٹی پلیز روئیں نہیں اب تو سب ٹھیک ہوگیا ہے بس اللٰہ کا شکر ادا کریں” وہ بولی تو انہوں نے اس کا ماتھا چقم لیا اور اسے دعا دی
” یشل علی سے ناراض ہو تم؟” انہوں نے پوچھا
” بالکل بھی نہیں آنٹی آپ ایسا نہ سوچیں پلیز اچھا آجائیں آپ میرے ساتھ چلیں کچھ کھا لیں صبح سے کچھ نہیں کھایا آپ نے” وہ انہیں اپنے ساتھ لے گئی۔
———-
علی نے کچھ دنوں میں ڈسچارج ہو جانا تھا ہاسپٹل سے۔۔۔۔ اس کا کام ختم ہوگیا تھا وہ اب واپس جانے کی تیاری کرنی تھی
” یشل۔۔۔۔” یشل جو علی کی رپوٹس چیک کررہی تھی پلٹی
” جی آنٹی آئیں بیٹھیں نا” وہ بولی
” میں نے سنا ہے تم واپس جا رہی ہو؟”
” جی آنٹی علی بھی اب بلکل ٹھیک ہیں تو۔۔۔۔۔۔”
” یشل ایک اور احسان کرو گی ہم پہ؟”
” ارے آنٹی آپ حکم کریں احسان کس بات کا” وہ مسکرائی
“برا تو نہیں مانو گی۔۔۔۔؟؟؟ یہ تو نہیں سمجھو گی کہ میں خود غرض بن رہی ہوں یا اپنے بیٹے کا سوچ رہی ہوں”
” نہیں آنٹی آپ کہیں” وہ مسکرائی اور ان کے ہاتھ پہ زہاتھ رکھا
” یشل علی سے شادی کرلو” یشل کی مسکراہٹ سمٹی وہ انہیں دیکھتی رہ گئی جو اتنی آس سے اس سے پوچھ رہی تھیں وہ شاکڈ بیٹھی تھی
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...