نیچے بڑی سی فوج کھڑی نظر آئی مگر ان کہ انداز سے صاف واضع تھا کہ وہ لوگ بھی مردہ ہیں سب ہی کی حالت ایسی تھی
کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں انہوں نے ان لوگوں کو ٹیبل کی کرسیوں پر پٹخا سب ہی گرتے ہی کھانسنے لگے تھے
اور اس زور سے پھینکنے پر سب کی ہی کراہیں اس حویلی میں گونجنے لگی تھیں
“آپ کیوں ایسا کررہی ہیں پلیز ہمیں جانے دیں اماں؟”…. یشفہ نے منت بھرے لہجہ میں کہا
“خبردار،خبردار جو مجھے اماں کہا اس الفاظ سے مجھے چڑ ہونے لگی ہے”… وہ چیخ کر بولی
“کیوں اماں آپکے ساتھ کیا ہوا ہے آپ جو اب تک ادھر رہ رہی ہیں”؟…. یشفہ نے بامشکل پوچھا
“بتاتی ہوں سنا چاہتے ہو”؟….وہ سوالیہ نظروں سے سب کو دیکھنے لگیں سب نے ہی خوف سے سر اثبات میں ہلایا
تھا “میرا بیٹا پولیس میں تھا ایک ایمانداز اور بہادر پولیس والا اس کہ بہت سے دشمن تھے اس لئے وہ مجھے اور اپنی بیٹی کو شہر سے دور اس ویرانہ میں لے آیا
تاکہ ہم لوگ محفوظ رہیں مگر اس کہ دشمنوں نے ہمیں ادھر بھی ڈھونڈ لیا ایک رات وہ لوگ اس حویلی میں آئے بارشوں کا وقت تھا”……
______________________
ناک ناک کسی کے دروازہ کھٹکھٹانے پر ہاجرہ بی بی اور رملا حیرت ذدہ ہوگئیں کام کی وجہ سے اصفر صاحب گھر پر نہ تھے
“دادی دروازہ مت کھولیں ہمیں ڈر لگ رہا ہے”… رملا سہم کر ان سے لگ کر بولی
“ارے بچے میں ہوں نہ کچھ نہیں ہوگا”… وہ اُسے تھپکی دیتے ہوئے بولیں اور اُسے دور کرتیں دروازہ کھولا
“السلام علیکم آنٹی!!!! وہ دراصل باہر سخت بارش ہے اور ہمارا یہاں سے جانا محال ہے ہم چار دوستوں کو آپ تھوڑی دیر کہ لئے پناہ دے دیں”… وہ لڑکا شکل سے آوارہ لگ رہا تھا
“ہاں بیٹا آؤ”… وہ تھوڑا جھجھک کر سائیڈ پر ہوگئیں وہ چاروں آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کرتے اندر داخل ہوگئے اور سب ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھ گئے رملا کو ناجانے کیوں ان سے وحشت ہورہی تھی
“ارے یہ کون ہے؟”…. ایک لڑکا تھوڑی دیر ادھر اُدھر کی باتوں کہ بعد رملا کر دیکھ کر حیرت سے پوچھنے لگا
“میری پوتی ہے”…. وہ خوش ہوکر بولیں
“ہے مگر اب نہیں رہے گی بڑھیا”… وہ معنی خیزی سے بولے
“کک۔۔۔کیا مطلب ہے؟”…. وہ گھبرائیں اس لڑکے نے اشارہ کیا تو اس میں سے ایک لڑکی نے اُس نازک کلی کو دبوچا تھا
وہ اس افتاد پر سہم کر سسکنے لگی تھی ہاجرہ بی بی اُسے پکڑنے کے لئے بڑھیں مگر ان کے نحیف وجود کو اس جوان لڑکی نے کس کر پکڑ لیا
اب اس اے ایس پی کو پتا چلے گا کہ تکلیف کیا ہوتی ہے وہ بولا اور دوسرے لڑکے کو اشارہ کیا وہ فورا باہر بھاگا اور چند منٹ بعد آیا اس کے ہاتھ میں تیزاب کا کین تھا ہاجرہ بی بی کی آنکھیں پھیل گئیں
“پپ۔۔۔پلیز میری بچی کو چھوڑ دو مجھے مار لو”… وہ منت کرتے ہوئے بولیں
“تو ہمارے کسی کام کی نہیں بڑھیا تو اس کو دیکھ کر خود ہی مر جائیگی”… وہ نخوت سے بولا اور تیزاب اُس پر جھڑکنے لگا جس سے رملا تڑپ رہی تھی
“پلیز انکل مجھے چھوڑ دیں”…. وہ روتے ہوئے بولی مگر ان بے رحموں کو اس پر ترس نہ آیا اور ہاجرہ بی بی کی آنکھیں کے سامنے وہ جل کر تڑپ تڑپ کر مر گئی تھی
وہ لوگ بھاگ گئے تھے ہاجرہ بی وہیں بیٹھتی چیخ رہی تھیں اور پھر ان کا دل بند ہوگیا تھا اور ان کی لاش بھی رملا کے برابر میں گر گئی تھی
__________________
“اور آپکے بیٹے کا کیا ہوا”؟… یشفہ نے روتے ہوئے کہا
“وہ،وہ بھی مر گیا اور کسی نے بھی اُن ظالموں کو نہ پکڑا میرے بیٹے نے اپنے خاندان اور خود کی زندگی ان لوگوں کہ لئے قربان کردی
مگر ان لوگوں نے تھوڑی سی بھی کوشش نہ کی ہمیں انصاف دلانے کی ہمارے قاتلوں کو نیست و نابود کرنے کی لیکن میں نے خود اپنا انصاف کرلیا مار دیا
ان لوگوں کو بھی”…. سب انہیں افسوس سے دیکھ رہے تھے کیونکہ آنکھیں تو ان کی بھی نم تھیں
“مجھے اپنا انصاف خود کرنے آتا ہے اور میں تو زندہ بھی نہیں ہوں کہ مجھے سزا ہو ہاہاہاہا”
وہ نہایت خوفناک انداز میں بول رہی تھی سب ہی سہم گئے تھے
“ارے تم لوگوں کا کھانا تو رہ ہی گیا ایک منٹ” وہ ہنستے ہنستے رکیں اور کسی کو آواز دی سب ہی بدک کر کرسی سے جالگے
یہ تو وہ ہی لڑکی تھی جو ان کی پوتی کو مارنے میں شامل تھی
” تم لوگ سوچ رہے ہوگے یہ تو میری رقیب ہے یہ یہاں کیسے؟ ہیں نہ! ہیں نہ! ہاہاہاہا تم لوگوں کی سوچ جہاں ختم ہوتی ہے
وہاں میری شروع ہوتی دیکھو میں نے اِسی کو کام والی بنا دیا اب یہ میری غلام بن کر رہتی ہے”
وہ عجیب انداز میں مسکراتی ہوئی بولی اور بھی بہت سے لڑکیاں اور لڑکے اس کے ساتھ آئے جن کی حالت
بہت ابتر تھی کسی کی گردن آدھی کٹی ہوئی تھی اور لٹک رہی تھی
کسی کی آنکھیں غائب تھیں کسی کا پورا سر کسی کے ہاتھ کسی کہ پاؤں گویا ہر کسی کی کوئی نہ کوئی چیز نہ تھی
سب کی سانسیں رک گئی تھیں مگر وہ کچھ کر ہی نہیں پارہے تھے
بہت سی ڈیشز رکھی گئی جو ابھی تک ڈھکی ہوئیں تھیں
“تم لوگ جاؤ ایک ایک ڈش میں خود کھول کر ان کے سامنے رکھونگی آخر کو یہ میرے خاص مہمان ہیں ”
وہ قدم بڑھاتی ہوئی بولی منیبہ نے ان کہ پاؤں دیکھے تو یشفہ کو ہلایا جو آنکھیں بند کئے بس ورد کئے جا رہی تھی
یشفہ نے آرام آرام سے آنکھیں کھولیں
وہ سمجھی وہ بڑھیا ہے اس لئے اس کی چیخ نکلنے والی تھی
مگر اس کا ارادہ بھانپ کر منیبہ نے اپنا ہا تھ اس کے منہ پر رکھ
کر دوسرے ہاتھ کی شہادت کی انگلی اپنے ہونٹوں پر رکھ کر اُسے چپ رہنے کا اشارہ کیا
اور اس کا دھیان اس بڑھیا کہ پاؤں پر کروایا جس پر یشفہ نے روتے ہوئے اُسے دیکھا
اس بڑھیا کہ پاؤں الٹے تھے اور شدید جلے ہوئے تھے یشفہ نے بےبسی سے سر نفی میں ہلایا
“اچھا چلو ایک مزیدار سا گیم کھیلتے ہیں تم لوگوں کو بڑا مزہ آئیگا کیونکہ تم لوگ ٹہرے ایڈوینچر کہ شائقین تو گیم شروع کرتے ہیں”
” اور گیم کا رول کوئی کسی کی باری کہ درمیان نہیں بولے گا نہیں تو میں بہت برا پیش آؤنگی تو گیم میں ٹوئیسٹ یہ ہے کہ جس کہ پاس جو ڈش آئیگی”
” اس کی وہی چیز کاٹ کر اس کی ڈش میں ڈالی جائیگی اور پھر وہ ہماری غذا ٹھیک ہے کسی کو کوئی اعتراض تو نہیں ارے اعتراض کیوں ہوگا”
” ان کہ پاس کوئی چارا تھوڑی ہے” وہ مزے سے بولیں ان کی بات پر سب نے ہی تڑپ کر آنکھیں میچ لیں تھیں
“اوکے ڈن” انہوں نے مسکرا کر کہا وہ ایکدم بچی لگ رہی تھیں جیسے کوئی بچا کھلونے سے کھیلنے کی ضد کرتا ہے
مگر وہ انسان کہ اعضاء سے کھیلنے کی ضد کررہیں تھیں جو بہت کرب ناک تھی
وہ چلتی ہوئیں دانیال کہ قریب آئیں تھیں
“پہلے تمہارا کیا تم تیار ہو؟” وہ مصنوعی سوالیہ نگاہوں سے انہیں دیکھنے لگیں
“ایک”
“دو ”
“تین”
اور پھر دانیال کے پاس پڑی ہوئی ڈش اُٹھائی تھی جس پر کسی کی آنکھیں پڑی تھی اور دانیال نے یہ دیکھ کر منہ دوسری طرف کرلیا
یہ دیکھ کر اسے شدید گھن آئی تھی
“ابھی سے ڈر گئے ابھی تمہاری یہ چیز ڈن اب تمہاری یہ چیز ہی بنے گی” وہ ہنستے ہوئے تالیاں بجا کر بولیں ان کہ ہاتھ کے ناخن بہت بڑے تھے اور گوشت کہ ٹکڑے اس میں پیوست تھے
اب اس لڑکے کی باری وہ چہک کر بولیں اور بھاری قدموں سے چلتیں مزمل کے پاس آئیں
چلو اب تمہاری باری آئی ہے وہ اپنے نوکیلے دانت نکالتی بولیں
انہوں نے ڈش کا ڈھکن اُٹھایا تو اس میں کٹا ہوا ہاتھ پڑا ہوا تھا
“پپپ۔۔پلیز چھوڑدیں” وہ روتے ہوئے بولا
“اوئے مرد بن کیا بچوں کی طرح رو رہا ہے؟” وہ اس کے کندھے پر ہاتھ مارتی ہوئیں بولیں مزمل کو اس کے ناخن اپنے جسم میں گھستے ہوئے محسوس ہوئے
منیبہ اور یشفہ بہت بری طرح سے کانپ رہی تھیں ان کا بس چلتا تو وہ اُڑ جاتی مگر قسمت خراب تھی
“اب اس لڑکی کی باری اس معصوم لڑکی کی بعد میں جو تم لوگوں کی منتیں کر رہی تھی”
“کہ واپس چلو مگر تم لوگوں نے اس کی نا سنی مجھے تبھی تم لوگوں پر زیادہ غصہ ہے کسی کی بات کو اہمیت ہی نہیں دیتے وہ بس گڑگڑاتی رہ جاتے ہیں اگر ابھی سن لیتے تو اپنی فضول جان جانے سے بچ جاتی”
وہ حقارت سے بولیں تو سب کو افسوس ہوا کاش وہ یشفہ کی بات مان لیتے تو آج وہ محفوظ ہوتے انہوں نے ساتھ ساتھ یشفہ کو بھی زبردستی لے لیا
اور اب ان کی جان تو جائیگی ہی جائیگی مگر یشفہ بھی نہیں بچے گی
منیبہ کی ڈش اُٹھائی گئی تو منیبہ کو شدید جھٹکا لگا تھا اس کہ ڈش میں پاؤں دیکھ کر اس نے دونوں ہاتھ منہ پر رکھے تھے
اور التجائی نظروں سے انہیں دیکھ رہی تھی
“ہاہاہاہا اب پتا چلا التجا کیا ہوتی ہے بے بسی کیا ہوتی ہے؟”
” یہی حالت اس وقت میری تھی مگر،مگر میں کچھ نہ کرسکی ”
وہ ہنستے ہنستے رونے لگیں اور پھر روتے روتے ہنسنے لگیں
“اب اس کی باری” وہ اپنے لمبے ناخن یشفہ کی جانب کرتی
ہوئیں بولیں جو آنکھیں بند کئے بس ورد کئے جارہی تھی
اپنی باری پر گھبرائی ضرور تھی مگر پھر مسکرائی تھی
اور اس کی مسکراہٹ میں کچھ تو ایسا تھا کہ اس بڑھیا کو حیرت ہوئی تھی
“لگتا ہے موت کو دیکھ کر تو پاگل ہوگئی ہے”
وہ اپنے خون سے لت پت دانت نکالتے ہوئے بولیں اور اس کی ڈش کا ڈھکن ہٹا دیا
اور سامنے کی چیز دیکھ کر قہقہہ لگا کر ہنسی تھی یشفہ کی آنکھیں پھیل گئیں وہاں کسی کا سر رکھا ہوا تھا
اور بڑھیا ہنس رہی تھی
“تیرا تو سب سے خطرناک آیا ہے لڑکی ”
انہوں نے ٹیبل پر پڑے بڑے سے چھرے کو اُٹھایا تھا
“پہلے کون قربانی دیگا؟” وہ چھرے کی دھار اپنی زبان سے تیز کرتے ہوئے
بولیں سب ہی ایک دوسرے کو گھور ریے تھے
“یشفہ” دانیال نے فورا کہا اور وہ تینوں ہی بے یقینی سے دانیال کو دیکھنے لگے جو اس وقت سفاک بنا ہوا تھا
“تم پاگل ہوگئے ہو دانیال یہ کیا کہہ رہے ہو؟” منیبہ نے غصہ سے کہا
“اےے لڑکی تجھے کہا تھا نہ کہ بیچ میں مت بولیو پھر کیسے بولا” وہ طیش سے چلتی اس کے پاس آئیں اور اس
کے بازو پر وار کیا
پھر دوسرے بازو پر
پھر اس کہ چہرے پر بھی وار کیا اس کی چیخیں گونجنے لگیں تھیں
اچھا تو نے کس کا نام لیا ان کی خون آلود آنکھیں دوبارہ سے سفید موتیا کہ مانند ہوگئیں تھیں
“یی۔۔یشش۔۔یشفہ” دانیال نے دوبارہ سے کہا
“یش۔۔فہ اوو اچھا” وہ یشفہ کا نام الگ الگ لیتی ہوئی بولیں۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...