بادبان کے ستون سے سہارا لے کر وہ خاموش بیٹھ گیا اور ایک ہی سمت ٹکٹکی لگائے دیکھتا رہا۔ میں یہ سوچ کر کہ اس طرح اگر میں خود بھی خاموش رہا تو یقیناً پاگل ہو جاؤں گا، ملاح سے اس کا وہ مچھلیاں پکڑنے والا ہارپون لے کر جہاز کے دوسرے سرے پر پہنچ گیا۔ ہارپون کے ساتھ ملاح نے ایک رسی بھی باندھ دی تھی تاکہ نیزہ سمندر میں پھینکنے کے بعد واپس کھینچا جا سکے۔ میں نے عقل مندی یہ کی کہ وہ رسی اپنی کمر کے گرد باندھ لی۔ دل میں یہ سوچا کہ بڑی مچھلی ہی کا شکار کروں گا۔ اگر مچھلی اتفاق سے وزنی ہوئی اور اس نے رسی کھینچنی چاہی تو ہاتھوں کے بجائے میں اپنے جسم کا زور لگا کر اسے جہاز پر کھینچ لوں گا۔ بظاہر ترکیب بہت عمدہ تھی اور اس میں کوئی خدشہ بھی نہیں تھا۔ اس لئے میں نیزہ تان کر جہاز کے کونے پر کھڑا ہو گیا اور نیلے سمندر میں جھانکنے کی کوشش کرنے لگا۔ چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کو میں جان بوجھ کر نظر انداز کر دیتا تھا۔ میری نظر تو صرف بڑی مچھلیوں پر تھی۔ کچھ ہی دیر بعد مجھے ایک بڑی مچھلی کا سر نظر آیا، پوری طاقت سے میں نے ہارپون اس کی طرف پھینکا۔ خوش قسمتی سے میں نے رسی کمر سے باندھ رکھی تھی۔ کی تھی عقل مندی مگر ثابت ہوئی بے وقوفی۔ مچھلی نے تڑپ کر زور سے ایک جھٹکا مارا اور اس جھٹکے کی وجہ سے میں لہراتا ہوا سمندر میں جا گرا۔ گرتے گرتے بھی میں نے چلا کر مدد کے لئے آواز دی۔ اور پھر اس کے بعد معلوم نہیں کیا ہوا کیوں کہ پانی میں گرتے ہی میرے اوسان جواب دے گئے تھے، جب یہ اوسان بحال ہوئے اور مجھے ہوش آیا تو میں نے دیکھا کہ میں سمندر کے سینے پر بڑی تیز رفتاری سے بہتا ہوا چلا جا رہا ہوں۔ مچھلی مجھے کھینچ رہی ہے اور میں ایک تیز رفتار اسٹیمر کی مانند اس کے پیچھے لگا ہوا ہوں، پانی کے چھپاکے اڑ رہے ہیں اور میری آنکھیں کھاری پانی کی وجہ سے جلنے لگیں ہیں۔ بڑی مشکل سے آنکھیں کھول کر میں نے گردن موڑ کر پیچھے کی طرف دیکھا۔ ہائے کیا بتاؤں کہ دل کی کیا حالت ہوئی۔ میں نے دیکھا کہ ہمارے بادبانی جہاز کا دور دور بھی پتہ نہیں تھا۔!
میری بے بسی اور بد نصیبی کا تصور کیجئے۔ اچھے اچھوں کا پتّا ایسے مقام پر پانی ہو جاتا ہے۔ مگر خطروں کی چکی میں پس کر اب میں ہیرہ بن چکا تھا، اس لئے اس وقت بھی میں نے اپنے حواس قائم رکھے۔ خدا سے صرف یہ دعا مانگتا رہا کہ مچھلی سمندر کی تہہ میں نہ بیٹھ جائے اوپر ہی اوپر تیرتی رہے۔ یہ دعا میں نے یوں مانگی تھی کہ اگر خدانخواستہ مچھلی تہہ میں جانے کی کوشش کرتی تو میں کسی بھی صورت سے نہیں بچ سکتا تھا۔ لیکن اگر وہ پانی کے اوپر ہی تیرتی رہتی تو میرے بچاؤ کی کچھ نہ کچھ صورت ضرور تھی۔ اور وہ صورت صرف یہ تھی کہ میں نے جلدی سے اپنی کمر میں لٹکا ہوا چاقو میان سے نکال لیا اور اندازے سے اپنی کمر سے بندھی ہوئی رسی کو کاٹنا شروع کر دیا۔ رسی پانی سے بھیگ کر سخت ہو گئی تھی، ہزار کوشش کے باوجود بھی وہ نہ کٹ سکی میرا ہاتھ شل ہو گیا تھا۔ آنکھیں بند تھیں، مگر میں کوشش کئے جا رہا تھا۔ جتنی بار بھی میں نے کوشش کی ناکامی ہی کا مونہہ دیکھا۔ میں نے سوچ لیا کہ بس اب موت یقینی ہے، سوائے خدا کی ذات کے اور کون ہے جو اس وقت میری مدد کرے گا؟ اپنے دردناک انجام کو یاد کر کے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے، آنکھوں میں آنسو آ گئے اور میں نے ہمت ہار کر خود کو تقدیر کے سپرد کر دیا۔
مگر تقدیر کھڑی ہنس رہی تھی۔ خدا کو منظور تھا کہ میں زندہ رہوں۔ چوں کہ مچھلی کے سر میں نیزہ گڑا ہوا تھا اس لئے تکلیف کی وجہ سے وہ تیزی سے بھاگ رہی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد میں نے اندازہ لگا لیا کہ مچھلی کی قوت بھی آہستہ آہستہ ختم ہوتی جا رہی تھی۔ تیزی سے بھاگنے کی بجائے اب وہ بہت سست رفتاری سے آگے بھاگ رہی تھی۔ اور یہ رفتار بھی برابر کم ہوتی جا رہی تھی، کم ہوتے ہوتے رفتار آخر کار بالکل نہیں کے برابر رہ گئی۔ اب میں سمندر کی سطح پر بالکل چت لیٹا ہوا تھا۔ میں نے سوچا کہ بھاگ دوڑ تو ختم ہو چکی ہے۔ لہذا اطمینان سے چاقو کی دھار رسی پر آزمائی جائے۔ اور پھر ایسا کرتے ہی جلد ہی میں اس عجیب بندھن سے آزاد ہو گیا۔ آزاد ہوتے ہی میں نے تیرنا شروع کر دیا اور تیرتے تیرتے میں نے گلا پھاڑ پھاڑ کر پانچ چھ بار جان کو پکارا، مگر جان کا کہیں پتہ ہوتا تو جواب ملتا۔ جہاز کے بادبان بھی دور دور تک دکھائی نہ دیتے تھے۔ آزاد ہونے کے بعد بھی میں بے بس و لاچار تھا۔ کیوں کہ اتنے بڑے سمندر میں آخر میں کب تک تیر سکتا تھا۔ پھر بھی جان بچانا فرض تھا۔ ذرا سی ہمت و کوشش سے یہ جان بچ سکتی تھی۔ لہذا ہمت کر کے میں نے آہستہ آہستہ تیرنا شروع کر دیا کچھ معلوم نہ تھا کہ کدھر جا رہا ہوں۔ نہ سمت کا پتہ تھا نہ رخ کا۔ بس ہاتھ پاؤں مارنے سے غرض تھی۔ شام ہو رہی تھی اور جوں جوں سورج دم توڑ رہا تھا، میری سانسیں بھی جواب دیتی جا رہی تھیں اور جب چاروں سمت گہرا اندھیرا چھا گیا تو میرا دل بھی اندر ہی اندر ڈوب گیا حالت یہ تھی کہ میں دھاڑیں مار مار کر روتا جاتا تھا اور تیرتا جاتا تھا۔ خدا جانے کب تک یہ حالت رہی۔ ہاتھ پاؤں اب اکڑ گئے تھے۔ جسم کی طاقت ختم ہو گئی تھی۔ رہی سہی ہمت نے جواب دے دیا تھا میرے بازو شل ہو گئے تھے اور میں ڈوبنے کے قریب ہی تھا کہ اچانک میرا جسم کسی سخت چیز سے ٹکرایا۔ بند ہوتی ہوئی آنکھوں کو زور لگا کر کھولا اور غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ میں کسی جزیرے کے کنارے سے ٹکرا گیا ہوں۔ زمین۔۔۔۔! بجلی کی سی تیزی کے ساتھ یہ لفظ میرے دماغ سے ٹکرایا اور میرے سوئے ہوئے اعضا میں اس نے یکایک چستی پیدا کر دی میں نے گھبرا کر کنارے کو پکڑنا چاہا مگر ہاتھ پھسل گیا، جتنی بار میں نے کوشش کی ہاتھ پھسل پھسل گیا۔ خدا جانے یہ کیسی زمین تھی جس کے کنارے اس قدر چکنے تھے! ڈوبتے کو تنکے کا سہارا میں نے سوچا، اب جب کہ یہ چکنی زمین مجھے مل گئی ہے تو کیا میں اس زمین پر قدم نہ رکھ سکوں گا۔ نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ جب خدا نے مجھے ایک موقع دیا ہے تو اس سے فائدہ اٹھانا بے حد ضروری ہے۔ یہ سوچتے ہی میں نے ایک آخری زوردار کوشش اور کی اور پھر اس کوشش میں کام یاب بھی ہو گیا۔ زمین پر قدم رکھتے ہی میں نے آگے دوڑنا شروع کر دیا۔ ڈر یہ تھا کہ کہیں یہ زمین کھو نہ جائے، مگر بھاگتے بھاگتے دس پندرہ مرتبہ پھسلا اور گر پڑا۔ زمین بے حد چکنی تھی، اس لئے میں نے اٹھ کر آہستہ آہستہ قدم جما کر چلنا شروع کر دیا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ اس زمین پر نہ کوئی درخت تھا اور نہ چٹانیں اور نہ ہی کہیں مٹی نظر آتی تھی۔ خدا جانے یہ کیسی زمین تھی؟
چاند آہستہ آہستہ بلند ہو رہا تھا۔ اور اس کی ہلکی روشنی میں زمین اب مجھے پوری طرح نظر آ رہی تھی بالکل سیدھی اور سپاٹ زمین، جو مشکل سے دو فرلانگ مربع ہو گی یا پھر اسے ایک چھوٹا سا ٹاپو کہہ لیجئے۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ کہیں یہ وہی ڈوبنے ابھرنے والا جزیرہ نہ ہو! مگر فوراً ہی یہ خیال ذہن سے صاف ہو گیا۔ کیونکہ جیسا کہ مجھے معلوم تھا، وہ جزیرہ تو پورے کا پورا سمندر میں غرق ہو گا۔ اور صرف چودھویں رات کو سمندر میں سے نمودار ہو گا۔ یہ سوچ کر میں آرام سے زمین پر بیٹھ گیا۔ تھکن بری طرح سوار تھی، جان اور جیک سے بچھڑنے کا غم بھی تھا، اس لئے ہوا نے جب لوریاں دیں تو میری آنکھیں بند ہو گئیں اور پھر مجھے دنیا و جہاں کی کوئی خبر نہ رہی۔
جب میری آنکھ کھلی تو سورج کافی اوپر چڑھ چکا تھا۔۔۔ میں گھبرا کا جلدی سے اٹھ بیٹھا۔ پیاس بے حد لگ رہی تھی، اس لئے مجبوراً میں نے کنارے پر جا کر سمندر کے کھاری پانی کا صرف ایک گھونٹ پیا۔ کھارا پن تو محسوس ہوا مگر حلق تر ہو گیا۔ اس کے بعد میں جہاں بیٹھا تھا پھر وہیں واپس آ گیا۔ واپس آتے آتے بھی ایک دو بار پھسلا۔ زمین کو غور سے دیکھا تو پتہ چلا کہ گہرے سرمئی رنگ کی عجیب سی چکنی اور سپاٹ زمین ہے نہ کہیں سے اونچی نہ نیچی۔ نہ کوئی گڑھا نہ کوئی کنکر! خدا جانے میں کون سے غیر آباد جزیرے میں آ گیا تھا۔ ایسے جزیرے میں جہاں نہ گھاس تھی نہ مٹی۔ عجیب سی لیس دار زمین تھی، اگر قدم جما کر اور سنبھل کر نہ چلتا تو دھڑام سے چاروں شانے چت!
جہاز میں ایک آرام یہ تو تھا کہ میں کوئی بھی چیز آگ پر بھون کر کھا سکتا تھا۔ مگر اس جزیرے پر نہ تو لکڑی تھی نہ آگ۔ پھر بھلا بھوک کس طرح مٹ سکتی تھی؟ پیٹ کی دوزخ کو تو بھرنا ضروری تھا۔ اس لئے جزیرے پر پڑی ہوئی چند مچھلیوں کو میں نے کچا کھانے کی کوشش کی۔ مشکل سے صرف ایک لقمہ کھایا ہو گا کہ متلی ہونے لگی اس لئے مچھلیاں وہیں پھینک دیں۔ طبیعت بڑی گھبرا رہی تھی۔ کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کروں۔ جس طرف نظر اٹھا کر دیکھتا تھا پانی ہی پانی دکھائی دیتا تھا۔ سوچ رہا تھا کہ آخر کس طرح اس مصیبت سے نجات حاصل کروں گا؟ جگہ ایسی تھی کہ آس پاس دوسرا کوئی جزیرہ بھی نظر نہ آتا تھا اور یہ جزیرہ جس پر میں اس وقت کھڑا ہوا تھا، میرے خیال میں شاید دینا کا سب سے عجیب اور حیرت انگیز جزیرہ تھا۔ میں نے بہت سے مقامات پر چٹانیں دیکھی ہیں مگر یہ چٹانیں یا ٹاپو تو ان سب سے بالکل جدا تھیں! اس کے بارے میں آپ پہلے ہی پڑھ چکے ہیں۔ بہرحال سب کچھ خدا پر چھوڑ کر میں آرام سے زمین پر بیٹھ گیا۔ دل میں سوچ لیا کہ اگر میرا آخری وقت آ گیا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے مرنے سے نہیں روک سکتی اور اگر مجھے زندہ رہنا ہی ہے تو پھر آگ کے شعلوں میں بھی میرا بال بیکا نہیں ہو سکتا۔ خاموشی سے بیٹھ کر میں سمندر کے ہلکورے لیتے ہوئے پانی کو دیکھنے لگا۔ لہریں جدا جدا ہو کر آپس میں پھر مل جاتی تھیں۔ دل نے یہ دیکھ کر خواہش کی کہ کاش میں بھی دوبارہ اپنے ساتھیوں سے مل جاؤں۔! لہروں پر نظر جما کر میں نے سامنے اس مقام کو دیکھنا شروع کیا جہاں سمندر آسمان سے مل رہا تھا اور پھر اس جگہ کو دیکھتے ہی میرے جسم میں اچانک خوشی کی ایک تھرتھری سی پیدا ہو گئی۔ خون میں جوش پیدا ہو گیا اور میں جلدی سے کھڑا ہو کر آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اس چیز کو دیکھنے لگا۔ نظر نے کہا وہم ہے مگر دل نے گواہی دی کہ جو کچھ دیکھ رہا ہوں وہ حقیقت ہے واقعی بہت دور کے فاصلے پر مجھے کسی جہاز کے مستول نظر آ رہے تھے۔ اور وہ مستول آہستہ آہستہ لمبے ہوتے جا رہے تھے۔ اس بات سے میں سمجھ گیا کہ جہاز میری ہی طرف آ رہا ہے۔ مستولوں کے بعد اس کے بادبان دکھائی دینے لگے۔ جغرافیہ کی کتابوں میں آپ نے یہ پڑھا ہی ہو گا کہ سمندر میں دور سے نظر آنے والے جہازوں کے سب سے پہلے مستول ہی نظر آتے ہیں۔ دراصل زمین گول ہونے کا یہ سب سے بڑا ثبوت ہے جوجغرافیہ داں ہمیں دیتے ہیں۔ یہ اندازہ لگا کر کہ جہاز اسی طرف آ رہا ہے، میرا دل خوشی سے بھر گیا۔ خوش کے مارے میں عجیب عجیب حرکتیں کرنے لگا۔ اچھل اچھل کر دیکھا۔ کبھی جزیرے میں اس طرف سے اس طرف تک بھاگا، ہاتھ ہلائے اور زور زور سے مدد کے لئے چلایا اور پھر جہاز جلد ہی مجھے پورا نظر آنے لگا۔ یہ دیکھ کر میری خوشی دوگنی ہو گئی اور نہ جانے کیسے مجھ سے وہ حرکت سر زد ہو گئی، کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے، مگر کیا کروں، جب تک میں وہ بات آپ کو نہ بتاؤں گا تب تک آپ میری بےتابی اور بےچینی کا اندازہ لگا ہی نہیں سکتے۔۔۔ یہ سوچ کر کہ جہاز والوں کی نگاہ مجھ پر پڑ جائے میں نے جلدی سے اپنی پھٹی ہوئی پتلون اتار ڈالی (قمیض تو پہلے ہی سے غائب تھی) اس بات کا بھی خیال نہیں کیا کہ میں اس وقت بالکل ننگا ہوں، کیسی شرم اور کیسی حیاء! جان پر بن رہی تھی اس لئے پتلون ہاتھ میں پکڑ کر میں نے اسے زور زور سے ہلانا شروع کر دیا۔ جزیرے کے اس سرے سے اس سرے تک پتلون کو ہاتھ میں لہراتا ہوا بالکل ننگا بھاگنے لگا۔ میری یہ بات پڑھ کر ہو سکتا ہے کہ آپ کو ہنسی آئے، لیکن میری حالت کا تصور کیجئے اور انصاف سے کہئے کہ کیا میں ایسا کرنے میں حق بجانب نہیں تھا؟
میری خوشی کا کچھ مت پوچھئے، جب میں نے یہ دیکھا کہ جہاز کے بادبانوں کا رخ پلٹا جا رہا ہے تاکہ جہاز جلد سے جلد مجھ تک پہنچ سکے۔ جوں جوں جہاز میری طرف آ رہا تھا، مجھ میں جوش بھرتا جا رہا تھا۔ دل میں سوچ رہا تھا کہ خدا جانے یہ کون لوگ ہیں؟ ویسے جہاز تو بالکل ہمارے جہاز جیسا ہے۔ خدا کرے وہی ہو! پندرہ منٹ بعد جہاز اتنا قریب آ چکا تھا کہ میں اس پر کھڑے ہوئے لوگوں کو ہلتا ہوا دیکھ رہا تھا۔ فوراً ہی مجھے خیال آیا کہ میں ننگا ہوں۔ جلدی سے میں نے پھٹی ہوئی پتلون پہنی اور بے تابی سے ان لوگوں کو دیکھنے لگا۔ جہاز جب ایک فرلانگ کے فاصلے پر آ گیا تو میں جان اور جیک کو ڈیک پر بڑی بے چینی سے اپنی طرف دیکھتے ہوئے پایا۔ ان دونوں کو دوبارہ پا کر پہلے تو خوشی کے مارے میری چیخیں نکل گئیں اور پھر دل میں اچانک ایسا جذبہ پیدا ہوا کہ میں دھاڑیں مار مار کر رونے لگا روتا جاتا تھا اور ان دونوں کو دیکھتا جاتا تھا۔ جہاز اب اتنے قریب آ چکا تھا کہ میں نے جان کو بلند آواز میں یہ کہتے سنا۔
“روؤ مت فیروز! ہم آ گئے ہیں۔”
مگر میرا رونا بند نہیں ہوا۔ شاید یہ خوشی کا حد سے بڑھ جانا تھا جو میرے آنسو تھمنے کا نام ہی نہ لیتے تھے۔ میری نظروں کے سامنے جہاز نے لنگر ڈالا اور ملاح نے حفاظتی کشتی سمندر میں اتاری اور پھر اس کشتی میں جان اور جیک دونوں سوار ہو کر میری طرف آنے لگے۔ مگر میری وہی حالت تھی کہ لگاتار روئے جا رہا تھا۔ جیسے ہی کشتی جزیرے کے کنارے پر لگی جان فوراً اس میں سے چھلانگ لگا کر جزیرے پر آ گیا اور پھر دوڑ کر اس نے مجھے اپنے سینے سے لگا لیا۔ ساتھ ہی اس نے بھی بری طرح رونا شروع کر دیا۔ کچھ دیر بعد جیک بھی میرے قریب آ کر کھڑا ہو گیا اور میرا شانہ تھپتھپا کر بولا “اب مت روؤ فیروز! خدا کا شکر ہے کہ تم ہمیں مل گئے۔ ورنہ ہم تو سمجھ بیٹھے تھے کہ تم سے کبھی ملاقات نہیں ہو گی۔”
جان نے اسی طرح روتے ہوئے کہا “فیروز! میرے بیٹے، تہمارے کھو جانے کے بعد تمہاری قدر معلوم ہوئی۔ کیا بتاؤں کہ میں کتنا بے چین رہا ہوں، بیٹے آج مالک اور نوکر میں سے امتیاز مٹ گیا۔ تم پارٹی میں ملازم بن کر شامل ہوئے تھے۔ لیکن تم نے میرے دل میں اتنا گھر کر لیا ہے کہ میں تم سے جدا ہو کر ایک پل بھی سکون سے نہیں رہ سکتا۔ میرے بچے تمہیں دوبارہ پا کر ایسا لگتا ہے جیسے میری کھوئی ہوئی دولت مجھے مل گئی ہے۔۔۔ تمہارے کھو جانے کے بعد تو زندگی مجھ پر حرام ہو گئی تھی فیروز!”
جان نے جب بہت تسلی دی تب کہیں جا کر میرے آنسو تھمے۔ اسی کشتی میں بیٹھ کر ہم دوبارہ جہاز میں پہنچے اور وہاں جا کر میں نے ان سب کو اپنی کہانی سنائی۔ پوری داستان سن کر وہ بھی حیرت زدہ رہ گئے۔ ملاح نے کچھ مچھلیاں بھونیں جنہیں کھا کر میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور پھر دوبارہ باتیں ہونے لگیں۔ جیک نے ایک بڑی عجیب بات کہی۔
“جہاں تک مجھے یاد ہے تم جہاز کی مخالفت سمت گرے تھے اور اس لحاظ سے جہاز کے پیچھے ہی پیچھے پانی میں بہتے چلے گئے تھے۔ ہمارا جہاز اگر شمال کی طرف جا رہا تھا تو تم جنوب کی طرف۔ پھر آخر تم ہم سے پہلے اس مقام پر کیسے پہنچ گئے جہاں اب ملے ہو!”
“یہ تو میں نہیں جانتا۔ خدا معلوم کیا بات ہے؟”
“ہاں یہ واقعی اچنبھے کی بات ہے جیک۔” جان نے سوچتے ہوئے کہا۔
“خیر اسے چھوڑو، میرے خیال میں اب ہم اس جزیرے کو کھود کر پینے کا پانی ضرور نکال لیں اور اپنے ڈرامز میں بھر لیں۔ یہ رات اس جزیرے پر بسر کر کے ہم کل صبح پھر روانہ ہو جائیں گے۔ تم یہیں ٹھیرو۔ میں اور جیک ملاح کو لے جزیرے پر جاتے ہیں اور وہاں زمین کھودنا شروع کر دیتے ہیں۔” میں نے ضد کی “اب میں اکیلا نہیں رہوں گا، مجھے ڈر لگتا ہے اب تو میں آپ کے ساتھ ہی رہوں گا۔ اس لئے میں بھی ساتھ چلوں گا۔” میری یہ بات سن کر جان مسکرایا اور پھر مجھے ساتھ لے کر دوبارہ جزیرے پر گیا۔
جزیرے پر پہنچنے کے بعد وہ بھی تعجب میں رہ گیا۔ ایک دو مرتبہ پھسل کر گرا بھی اور پھر اٹھ گیا۔ چند قدم چلنے کے بعد وہ کہنے لگا۔
“یہ کیسی عجیب زمین ہے فیروز۔ چکنی، لیس دار اور بالکل سپاٹ، نہ کوئی گھاس نہ درخت، چلتے ہوئے قدم بھی پھسلنے لگتے ہیں۔ آخر، تم کس طرح اس پر چل پھر لئے۔؟”
“چلا کہاں جناب، پہلے پہلے تو میں بھی خوب گرا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے مخمل پر پھر رہا ہوں۔”
“ہاں مجھے بھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔ خیر ہمیں اس سے کیا لینا۔ دیکھنا یہ ہے کہ کھودنے پر اس میں پانی بھی نکلتا ہے یا نہیں؟”
ملاح نے اس کے اشارے پر زمین کھودنے کے لئے کدال زمین میں ماری مگر پھر اچانک ہم سب گھبرا کر پیچھے ہٹ گئے۔ زمین میں سے ایک فوارہ ابل پڑا مگر پانی کا نہیں، بلکہ گاڑھے گاڑھے خون کا فوارہ! خوف اور دہشت کے مارے میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے، کیوں کہ اب وہ جزیرہ آہستہ آہستہ ہل رہا تھا۔ خون کا فوارہ دوبارہ زمین پر گر کر سمندر میں جا کر مل رہا تھا اور سمندر کے آس پاس کے پانی کو سرخ کر رہا تھا۔ جزیرہ اب زور سے ہلنے لگا۔ جان نے یہ دیکھتے ہی زور سے چلا کر کہا۔ “تیزی سے کشتی کی طرف بھاگو۔”
ہم سر پر پاؤں رکھ کر بری طرح بھاگے۔ عقل کام نہ کرتی تھی کہ آخر یہ بلا کیا تھی؟