عروہ بڑی حویلی آچکی تھی اب سب ٹھیک لگنے لگا تھا سب کا رویہ ۔۔۔حویلی میں ولیمے کی تیاریاں عروج پر تھیں۔۔۔! خاور شاہ آج وقت سے پہلے گھر آچکے تھے۔۔۔زاور بھی گھر آکر فریش ہونے کے لیے کمرے کی جانب چل دیا۔۔۔کیونکہ پھر سب نظروں کو عالیان مرزا کا راہ تکنا تھا۔۔!
عروہ نے کاٹن نیٹ کا پرپل رنگ کا سوٹ پہنا ہوا تھا جس کے دامن پر اون کی کڑھائی کے بڑے بڑے سے پھول بنے ہوئے تھے۔۔۔۔بالوں کو کیچر میں قید کیے۔۔۔کانوں میں ہلکے سے میچنگ ٹاپس پہنے ۔۔۔اور پاوں میں نازک سی سڑپ والی چپل پہنے پیاری لگ رہی تھی۔۔۔وہ زاور کے لیے کافی بنا کر کمرے میں آگئی۔۔۔جہاں زاور شاہ لیپ ٹاپ کھولے کسی کام میں مصروف تھا۔۔۔عروہ کے اندر آتے ہی اس نے لیپ ٹاپ کو بند کر کے سائیڈ پر رکھ دیا۔۔۔!
“مجھے اچھا لگتا ہے تمہارا خود کو میرے لیے مصروف رکھنا۔۔۔” زاورشاہ نے کافی کا کپ تھامتے ہوئے کہا ۔
“اور آپ کی قدر میرے دل میں بڑھا دیتا ہے ۔۔آپکا مجھے نظروں میں رکھنا۔۔” عروہ نے ذومعنی بات کر کے واقعی زاورشاہ کے چہرے پر ہنسی لا دی تھی۔۔۔!
“تمہیں نظروں میں رکھنا ۔۔۔عادت ہو چلی ہے ۔۔”زاورشاہ نے کافی کا سیپ لیتے ہوئے نارمل انداز میں جواب دیا-
“بعض عادتیں بڑی جان لیوا بن جایا کرتیں ہیں زاور “عروہ نے زاورشاہ کی طرف دیکھتے جواب دیا-
“جان لیوا عادتیں بڑی خطرناک ہوتی ہیں۔۔۔اور خطروں کا میں شوقین ہوں” زاورشاہ نے تو بات کو ختم کردیا تھا-
****************************
عالیان گھر آچکا تھا امرینہ بیگم بہت خوش تھیں۔۔۔سب رات کے کھانے کے لیے ڈائیننگ ٹیبل پر بیٹھے تھے خاور شاہ مرکزی کرسی پر سب سے نمایاں تھے ۔۔۔ساتھ ہی امرینہ بیگم اور ان کے ساتھ کیپٹن عالیان مرزا برجمان تھا۔۔۔امرینہ بیگم کے سامنے ہی زاور شاہ بیٹھا تھا جو بابا جانی کے ساتھ کل ہونے والی ولیمے کی تقریب کو ڈسکس کررہے تھے۔۔۔!
بابا جانی آپکی بہو نظر نہیں آرہی ۔۔۔کہاں چھپا کر رکھا ہے آپ نے اس کو۔۔۔” عالیان نے مسکراتے ہوئے پوچھا-
اسلام و علیکم ۔۔۔عروہ نے زاور کے ساتھ والی کرسی پر ہاتھ رکھ کر سب کو سلام کیا ۔۔۔
جہاں سب نے اس کو جواب دیا۔۔۔پر عالیان پر سکتہ طاری ہوگیا۔۔! عروہ نے عالیان کی طرف دیکھا جو اس وقت شاک کی کیفیت میں تھا۔۔۔!
“واقعی قسمت جب مہربان ہوتی ہے تب بھی انسان اپنا اختیار کھو بیٹھتا اور اور جب بے رحم ہوتی ہے تب بھی”
عالیان کا دل کرچیوں کی مانند ٹوٹ رہا تھا۔۔۔کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا اس نے اس وجود کو ۔۔۔اور اسکو پایا بھی تو کہاں اپنے گھر کی دہلیز پر۔۔۔کتنی بے تابی سے دعائیں مانگیں تھی اس نے پر دعاوں میں ہم صرف اس شخص کو چاہتے ہیں کہ وہ مل جائے بس۔۔۔کاش اسکو کسی اور کی قسمت سے دور رکھنے کی دعائیں مانگی جائیں کہ ۔۔۔وہ جہاں ہو جیسا ہو ۔۔۔بس اس پر کسی کا اختیار اور حق نہ ہو ابھی۔۔۔”
کیا ہوا بیٹا کھانا نہیں کھا رہے۔۔؟” خاور شاہ نے فورا نوٹ کرلیا ۔ کچھ نہیں بابا جانی سر درد کر رہا ہے تھکاوٹ کی وجہ سے۔۔۔”عالیان کو کوئی بہانہ بھی نا سوجھا۔
بیٹا پھر کھانا کھا کر آپ آرام کرو صبح تو کرنے والے بہت سے کام ہیں ۔۔۔رات کو ولیمے کی تقریب بھی ہے “خاور شاہ نے کہا ۔
**********************
عالیان کمرے میں آگیا تکلیف سے آنکھیں سرخ ہورہی تھیں “واقعی من چاہے انسان کو کسی اور کے ساتھ دیکھنا ضبط کی آخری حد ہوتی ہے ” اور عالیان مرزا اس وقت واقعی ضبط کے بندھ کو بمشکل باندھے ہوئے تھا-
(عالیان نے عروہ کو پہلی مرتبہ مری میں مال روڈ کی سڑکوں پر دیکھا تھا۔۔۔بچوں کی ٹرپ کے ساتھ عالیان نے اسکا ہر قدم پر پیچھا کیا تھا۔۔۔واش روم میں عروہ کا شک درست واقعی کوئی اسکے تعاقب میں تھا وہ تھا عالیان مرزا جسکو اسکا بچوں کے ساتھ چلنا ہر چیز کو آنکھ بھر کر روشن آنکھوں سے دیکھنا کچھ تھا جس نے عالیان مرزا کو اس جانب کھینچا تھا )
******************************
آج رات بڑی حویلی روشنیوں سے جگمگا رہی تھی بڑے بڑے فانوس ۔۔۔فواروں سے نکلتا پانی جو رات کی روشنی میں ہیروں کی مانند چمک رہا تھا۔۔۔مہمان جوق در جوق آرہے تھے زاورشاہ نے آج نیوی بلیو رنگ کا تھری پیس سوٹ پہن کر ہر ایک کو مات دے دی تھی۔۔۔۔قدآور سراپا مضبوط ہاتھ بازو پر بندھی گولڈن گھڑی ۔۔۔خوشبوؤں سے لبریز تھا ہر ایک آنکھ رشک سے دیکھ رہی تھی۔۔۔
************************
عروہ نے لائٹ فیروزی رنگ کی میکسی پہنی ہوئی تھی جس پر لائٹ گولڈن رنگ کا کام تھا ۔۔نفیس سا کام جو گھیرے اور گلے پر گوٹے کی مانند دلکش رہا تھا ایک بازو کی کلائی پر زاورشاہ والے کنگن پہنے۔۔۔دوسرے پر چوڑا سیٹ پہنے۔۔۔دونوں ہاتھوں کی انگلیوں میں نفیس سی ڈائمنڈ رنگز۔۔۔کانوں میں بڑے سے وائٹ گولڈ کے بندے اور گلے میں ایک نیکلس گردن ساتھ جڑا تھا اور اسکے نیچے موتیوں والا ہار ۔۔۔ماتھے پر لگی بندیا ۔۔۔بالوں کی دو تین لٹوں کو کرل کر کے گالوں پر ڈالے گئے تھے ۔۔۔۔وہ کوئی اپسرا لگ رہی تھی۔۔۔
جب وہ زاورشاہ کی ہمراہی میں آکر بیٹھی تو واقعی وہ دونوں مکمل لگ رہے تھے۔۔۔ایک دوسرے کے ساتھ نے انکو پورا کردیا تھا۔۔۔
******************
وہ رات عالیان کے لیے تکلیف سے بھرپور تھی اس نے سپیکرز کو فل والیم میں کردیا ۔۔شاید وہ اپنے اندر اٹھنے والے شور کو دبانا چاہتا تھا۔۔۔!
سجدہ تیرا کر نہ سکوں۔۔۔تو بندگی کیا بندگی۔۔۔
تیرے بنا جینا پڑے۔۔۔تو زندگی کیا زندگی۔۔۔۔
کیا رنگ لایا دل کا لگانا۔۔۔کیا رنگ لایا دل کا لگانا۔۔۔
گونجے ہوا میں۔۔۔۔بچھڑے دلاں دیاں دوہایاں۔۔۔۔
بڑی لمبیاں سی جدائیاں۔۔۔۔
عالیان کی آنکھوں میں آنسوؤں کا جہان آباد تھا۔۔۔!
تیرے نشاں یادوں میں ہیں۔۔۔تو کیوں نہیں تقدیر میں۔۔۔
نادان دل ہے ڈھونڈتا۔۔۔قربت تیری تصویر میں۔۔۔۔
ممکن نہیں ہے تجھ کو بھولانا ۔۔۔۔۔
ممکن نہیں ہے تجھ کو بھولانا ۔۔۔۔۔
دیکھے خدایا ۔۔۔دو عشقاں دیاں تباہیاں ۔۔۔
بڑی لمبیاں سی جدائیاں ۔۔۔۔
اب واقعی کچھ نہیں تھا عالیان کی قسمت میں۔۔۔!
********************
تُم
وه پہلی لڑکی ہو
جس کو دیکھ کے
دُهوپ کا ہر اِک ٹکڑا
بادل ہو سکتا ہے
چاند کسی شب
پُورا پاگل ہو سکتا ہے ۔۔
زاور شاہ نے عروہ کا ہاتھ تھام کر آہستہ سے اسکے کان میں رس گھولا تھا۔۔۔
عالیان نے خود کو سنبھال لیا تھا۔۔۔کیونکہ عروہ اب اسکے بھائی کی عزت تھی۔۔۔اس گھر کی بڑی بہو تھی۔۔اور وہ جانتا تھا اسکا ہر قدم پر خوش رہنا اور ان دونوں کو ساتھ رہنا لازمی تھا۔۔۔!
پر وانیہ ضیاء آنے والے وقت کے لیے بہت خطرناک ارادے باندھ رہی تھی۔۔۔طوفان کے آنے سے پہلے کی خاموشی تھی۔۔۔جو زاورشاہ نظرانداز کرچکا تھا۔۔۔!
*********************
عروہ اور زاور شاہ کی شادی کو ایک مہینہ ہو نے والا تھا۔۔۔وہ دونوں خوش تھے ایک دوسرے کی ہمراہی میں ۔۔اور اپنی زندگی میں آنے والے نئے وجود کے لیے بھی۔۔۔جس نے عروہ کے قدم اور بھی اس گھر میں مضبوط کردیے تھے۔۔۔زاورشاہ خوش تھا بہت خوش ۔۔اسکی خوشی اسکی ہر ادا سے جھلکتی تھی۔۔۔!
خاور شاہ اور امرینہ بیگم بھی عروہ کا خاص خیال رکھ رہے تھے۔۔۔کیونکہ بات ہی خوشی کی تھی۔۔۔!
***********************
مجھے زاورشاہ اور عروہ کی پل پل کی خبر چاہیے ” وانیہ ضیاء اپنے قریبی ملازموں کو سخت ہدایت دے رہی تھی۔۔!
اپنی محبتوں میں نہ جانے کیوں انسان اتنا خود غرض ہو جاتا ہے ۔۔کہ نفرتیں پھر اسکا ذہن کالا کر دیتی ہیں۔۔اور یہ کالک کسی اور کی زندگی میں بھر کر انسان کو لگتا ہے ۔۔۔وہ جیت جائے گا۔۔۔سکون پائے گا۔۔۔پر ایسا ممکن کہاں ہوتا ہے ۔۔؟
وانیہ بھی زاورشاہ کی زندگی کو رات کے اندھیروں میں ڈھال دینے والی تھی۔۔۔اپنی نفرت کی آگ کو وہ بجھا پانے کی بجائے اسکو جھلسا دینے والی تھی کسی کی خوشیوں کو اور کسی کے وجود کو۔۔۔۔!
********************
زاور شاہ کو کسی کام کے سلسلے میں خاور شاہ نے شہر سے باہر جانے کی ہدایت کی تھی اس نے صبح جانا تھا۔۔۔رات کو کمرے میں آکر اس نے عروہ کو بتایا۔۔
کہ اسکو دو دن لگ جائے گے۔۔!
“اپنا خیال رکھنا کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو ماما سے بلاجھجک مانگ لینا۔۔”زاورشاہ نے روایتی سا جملہ بولا جو عروہ کو آدھا ہی لگا۔۔!
بعض لوگوں کی زندگی آپ کے لیے اہم ہوتی ہے، ان کے بغیر رہا جا سکتا ہے اور بعض لوگ آپ کی زندگی ہوتے ہیں، ان کے بغیر صرف مرا جا سکتا ہے۔۔۔” زاورشاہ نے اظہار کیا تھا ۔۔۔اور عروہ تمہارے بغیر میں صرف اب مر سکتا ہوں” عروہ کا دل کانپ گیا تھا-
کتنی چاہت چھپائے بیٹھى ہوں، یہ نہ سوچو کہ مجھ کو پیار نہیں
تم جو آئے ہو میری دنیا میں_______اب کسی کا بھی انتظار نہیں
عروہ کے الفاظ نے جان ڈال دی تھی زاورشاہ کے وجود میں۔۔۔
*******************
زاور صبح صبح ہی نکلنے کی تیاری کرنے لگا تھا۔۔۔عروہ کو جاتے ہوئے آنکھیں بھر کے دیکھ کر گیا تھا۔۔۔نظروں نے نظروں کو ایک دوسرے کے محفوظ رہنے کی دعا کی تھی۔۔۔
عروہ کا دل نہ جانے کیوں ڈر رہا تھا۔۔۔کسی انہونی کے ہونے کا اندیشہ ہو جیسے۔۔۔پر وہ اپنے آنسوؤں سے زاور کے کام کو مشکل نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔
اس لیے کمرے میں آکر خوب روئی۔۔۔وہ وضو کرکے آئی اور قرآن کی تلاوت کرنے لگی۔۔۔دل کے سکون کے لیے۔۔۔اپنے زاورشاہ کی حفاظت کے لیے۔۔۔اپنے آنے والے بچے کی امان مانگ رہی تھی۔۔۔کچھ تھا جو ہونے جارہا تھا بہت غلط۔۔۔۔!
***************************
کیا خبر پکی ہے ۔۔؟ وانیہ نے تصدیق کرنی چاہی۔۔
جی بیگم صاحبہ۔۔میں نے اپنی آنکھوں سے خود دیکھا ہے زاورشاہ کو جاتے اور ان کے گھر سے پکی خبر ملی ہے ۔۔”ملازم نے کہا۔
“ٹھیک ہے پھر باقی کی تیاری کے لیے تیار رہو۔۔”وانیہ نے حکم دے کر بڑی حویلی کی راہ لی۔
********************
بڑی حویلی میں اس وقت عروہ اور امرینہ بیگم کے علاوہ کوئی نہیں ہوتا تھا۔۔۔وانیہ یہ بات جانتی تھی۔
اس لیے اس نے گھر میں قدم رکھے۔۔۔جہاں امرینہ بیگم نے وانیہ کا کام اور بھی آسان کردیا تھا۔
اچھا ہوا وانیہ تم آگئ “امرینہ نے وانیہ کو دیکھتے ہی سکھ کی سانس لی۔ “بیٹا مجھے عروہ کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی۔۔۔اور مجھے آج عالیان کے ساتھ ۔۔اس کے دوست کی والدہ کی عیادت کرنے جانا تھا۔۔
اب عروہ کو ایسی حالات میں چھوڑ کر جانے کا دل نہیں مانتا۔۔” امرینہ بیگم نے اپنی مجبوری بتائی۔
“ماما جانی میں بلکل ٹھیک ہوں” آپ خواہ مخواہ فکر کررہی ہیں” عروہ نے تسلی دی-
وانیہ بیٹا میں جب تک آ نہ جاوں ۔۔تمہیں تب تک عروہ کے پاس رہنا ہے ۔۔” امرینہ بیگم نے حکم دیا-
“آپ بے فکر ہو کر جائیں میں تب تک رہوں گی جب تک آپ آ نہ جائیں ” وانیہ نے مسکراتے ہوئے کہا-
شکریہ بیٹا” امرینہ بیگم نے پیار کرتے ہوئے کہا-
************************
زاورشاہ نے یک دم بریک پر پاوں رکھا۔۔۔فون سے آنے والے الفاظ زاورشاہ کی ہمت آزما رہے تھے۔زاورشاہ کا دل دھڑکنوں پر قابو نہیں پا رہا تھا۔۔۔آنکھیں آنسوؤں سے اندھی ہونے لگی تھیں ۔۔۔!
کاش وہ بولنے والے کی زبان کاٹ دیتا ۔۔۔کاش اس نے عروہ کو اکیلا نہ چھوڑا ہوتا ۔۔۔!
“بیٹا عروہ کا دوپہر سے کچھ پتا نہیں چل رہا جانے وہ کہاں گئ ہے ۔۔” زاورشاہ واپس آجاو چھوڑ دو سب کچھ وہی۔
امرینہ بیگم نے روتے ہوئے کہا –
اور زاورشاہ کا سانس روکنا شروع ہوگیا-
رفتہ رفتہ ہر کمی پوری ہو جاتی ہے جو کمی پوری نہیں ہوتی وہ انسان کی
ہے ، انسان کو انسان گنوا دے تو تلاش کے باوجود ڈھونڈ نہیں پاتا۔
عروہ نے جب آنکھیں کھولیں تو سر بھاری ہو رہا تھا۔۔آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا رہا تھا۔۔۔وہ کہاں تھی۔۔۔کیسے آئی ۔۔۔کیا ہوا تھا اسکے ساتھ وہ چاہ کے بھی یاد نہیں کر پارہی تھی۔۔۔!
صبح سے شام ہو چلی تھی پر عروہ کا کچھ پتا نہ چل سکا۔۔۔آخر کون تھا جو لے گیا عروہ کو وہ بھی گھر کے اندر سے دماغ بھی کام کرنا چھوڑ رہا تھا۔۔۔سب ملازموں نے یہی کہا کہ بس وانیہ بی بی آئی تھیں ۔۔۔انہوں نے صرف انکو دیکھا تھا۔۔۔!
زاورشاہ کا ذہن غصے اور عروہ کی تکلیف سے معاوف ہوچکا تھا۔۔ عالیان نے بھی ہر جگہ چھان مار رہی تھی۔۔۔پر عروہ کا کہیں کوئی نام و نشان نہیں تھا۔۔۔!
*****************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...