“پھوپھو…”
باری فاطمہ کو دیکھ کر خوشی سے چلایا۔ شلوار قمیض پہنے وہ اپنے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا ہوا اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔
آپ کہاں تھیں؟”
“باری میری جان !”
فاطمہ نے آگے بڑھ کر عبدالباری کو گود میں اٹھا لیا۔ اسے پیار کرتے ہوۓ اسکی آنکھیں بھیگ گئیں۔ آج اتنے ماہ بعد اس نے باری کو اپنی آغوش میں لیا تھا۔
“پھوپھو نے بھی آپکو بہت یاد کیا۔”
“آپ کہاں چلی گئیں تھی؟” باری کا ننھا ذہن اسی سوال پر اٹکا تھا۔ ” آپ مجھے نظر نہیں آتی تھی میں اتنا روتا تھا…اتنا زیادہ…”
باری نے دونوں ہاتھ پھیلا کر بتایا۔ فاطمہ اسے لے کر اپنے بستر کی طرف چل دی صبح جب اسکی واپسی ہوئی تو باری اسکول گیا ہوا تھا اور اب وہ تیار ہو کر اسکے پاس آگیا تھا۔
“میں بھی بہت روتی تھی۔” فاطمہ کا چہرہ مرجھا گیا مگر کچھ ہی دیر بعد اسکے چہرے کی رونق واپس لوٹ آئی۔ ” میں شہر پڑھنے چلی گئی تھی۔”
“شہر؟ وہ کیا ہوتا ہے؟”
“شہر؟” فاطمہ سوچ میں ڈوب گئی وہ مناسب الفاظ ڈھونڈ رہی تھی اور باری پورے وجود کے ساتھ اپنی پھوپھو کا منتظر تھا۔
“شہر مطلب حویلی کے باہر…اس گاؤں سے دور بہت دور ایک الگ دنیا ہے۔ اس دنیا کے لوگ ہمارے جیسے نہیں ہیں۔” فاطمہ کے چہرے پر دکھ و تکلیف کے اثرات نمایاں تھے۔
“شہر جانے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ زندگی کہتے کسے ہیں اور زندہ دلی کس چیز کا نام ہیں وہاں کے لوگ انکی باتیں اور انکی سوچ! کچھ بھی تو ہم جیسا نہیں ہے۔”
فاطمہ اپنی ہی رو ہی میں بولتی جا رہی تھی یہ سمجھے بغیر کہ اسکے سامنے بیٹھا باری اب باتوں کو یاد رکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وہ اب وہ باری نہیں رہا جو اسکی باتیں سنے اور کہانی کے ہر موڑ پر تالی بجا کر اسکی حوصلہ افزائی کرے۔ اب تو وہ باتیں سن کر اپنے ذہن میں اٹھنے والے سوالوں کو زبان تک لے آتا تھا۔
“تمھیں یاد ہے میں تمھیں کہانی سنایا کرتی تھی کہ ایک شہزادی تھی جو سب کچھ چھوڑ کے چلی جاتی ہے دور آسمان میں اپنا نیا گھر بناتی ہے۔”
باری نے جلدی سے گردن ہلا کر فاطمہ کو جواب دیا۔
” شہر میرے لیے آسمان ہے مگر میں اس شہزادی کی طرح زمین پر واپس نہیں آؤں گی۔ میرا یہاں دم گھٹتا ہے!”
“تو میں کیا کروں گا؟” باری فاطمہ کے جانے کا سن کر پریشان ہو گیا۔
“جب میں پڑھ جاؤں گی تو جاب کروں گی اپنا گھر بناؤں گی پھر میں اپنے باری کو ہمیشہ کے لیے اپنے ساتھ لے جاؤں گی۔” فاطمہ نے اپنی زندگی کی فیصلہ کر لیا تھا۔
” میری دوست کہتی ہے کہ فاطمہ تمہارا دل تو مردہ ہو چکا ہے۔ اس میں تو زندہ رہنے کی کوئی خواہش ہی باقی نہیں! وہ نہیں جانتی میں بھی زندہ رہنا چاہتی ہوں ہر انسان کی طرح میری بھی خواہشات ہیں۔ میں بھی روز کہیں دور دل کی گہرایوں میں چھپے خواب نکال کر دیکھتی ہوں حسرت سے سوچتی ہوں کہ کاش کبھی ایسی نیند آئے جس سے اٹھنے کے بعد میرے سب خوابوں کی تعبیر میرے سرہانے پڑی ہو۔”
فاطمہ کی سوچ اسے بہت دور لے گئی تھی ذہن کے پردے پر ایک تصویر بننے لگی تھی اسکے سب خوابوں کی تعبیر ایک وجود کی شکل دھار چکی تھی۔
” میں جانتی ہوں اگر میں نے ان خوابوں کو دیکھنے کی جرات کر لی تو میری آنکھیں میرے وجود سے نکال کر دور پھینک دی جائیں گی اور کبھی جو میرے وجود نے بڑھ کر انہیں سینے سے لگانا چاہا تو اس وجود کو ختم کرنے میں دیر نہیں لگائی جائے گی۔”
“کون ختم کرے گا؟” باری جو بہت غور سے سب سن رہا تھا اس کی سمجھ میں یہی آیا تھا۔
” یہ سب مجھے مارنا چاہتے ہیں میرے اندر زندہ انسان کو…یہ سب … ”
فاطمہ ضبط کی انتہاؤں پر تھی۔ اس کی سسکیاں کمرے میں گونجنے لگی اتنے ماہ اسکے اندر جو غبار جمع تھا وہ نکل رہا تھا۔
“میں کسی کو مارنے نہیں دوں گا باری اب بڑا ہو گیا ہے میں ہمیشہ آپکو بچاؤں گا۔ آپکو کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا…”
باری چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اسکے کو تھامے خود بھی رو رہا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا اسکی پھوپھو کو کیا ہو گیا ہے۔وہ نہیں جانتا تھا خواہشات کی تکمیل کے لیے فاطمہ نے جو راستہ چنا تھا اسکا انجام بہت بھیانک تھا۔ اپنوں سے بغاوت کر کے وہ کیا حاصل کرنا چاہتی تھی وہ نہیں جانتی تھی۔
************
ﮐﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﮬﻮ ﺟﻮ ﺗﺴﻠﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺣُﺮﻭﻑ ﺩﮮ ﮐﺮ
ﺭﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺘﯽﺍﺫﯾﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﻏﺮُﻭﺭ ﺗﻮﮌے
باری نے بڑا سا دلان پار کیا ہی تھا کہ صغیر ہمدانی سے اسکا سامنا ہو گیا وہ باپ کو مکمل طور پر نظر انداز کرتا ہوا پاس سے گزرنا چاہتا تھا مگر یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ اس حویلی میں اسکی کوئی خواہش پوری ہو جاتی۔
“عبدالباری!”
صغیر ہمدانی نے اسے پکارا تو وہ بھی دل کو کڑا کرتا انکی طرف متوجہ ہوا۔
“کبھی باپ کو بھی شکل دکھا دیا کرو تمھیں دیکھے بغیر سالوں گزر جاتے ہیں۔”
ایک لمبے عرصے کے بعد انہوں نے اپنے جوان بیٹے کو دیکھا تو انکی محبت جوش مارنے لگی۔ انکے لہجے میں جتنی محبت تھی سامنے والے کے انداز میں اتنی ہی بیزاری تھی۔
“آپ نے کسی کو شکل دکھانے کے قابل ہی کہاں چھوڑا ہے۔ میں جتنی دعائیں مانگتا ہوں کہ اللّه میرا سامنا آپ سے نہ کروائیں مگر نہیں اللّه کو نہ جانے میرا صبر آزمانے میں اتنا لطف کیوں آتا ہے کیوں بار بار آپکا سامنا کروا کر اللّه میرے زخم ہرے کر دیتے ہیں۔ میں جتنا آپ سے دور بھاگتا ہوں آپ اتنا ہی میرے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ کیا چاہتے ہیں آپ یہ جو میں چند دن کے لئے آتا ہوں کیا میں یہ بھی نہ آیا کروں؟”
ہر بار کی طرح باپ کے اسکی طرف بڑھائے ہوئے ایک قدم کے بدلے وہ چار قدم دور ہو گیا تھا۔ محبت بھرے لہجے پر عبدالباری پنجے جھاڑ کر انکے پیچھے پڑ گیا تھا اور سامنے کھڑے صغیر ہمدانی یہی تو چاہتے تھے جلی کھٹی سنانے کے لئے ہی سہی مگر عبدالباری نے انہیں مخاطب تو کیا۔
“میں نے کب کہا ہے تم نہ آو؟ میں تو چاہتا ہوں کہ تم یہی رہو حویلی میں بیٹا یہ تمہارا ہی گھر ہے۔”
“مت کہیں مجھے بیٹا!” عبدالباری نے زہرخندہ لہجے میں کہا۔”آپکا بیٹا آج سے اٹھارہ سال پہلے ہی مر گیا تھا جب آپ نے اپنے ہاتھوں کو خون سے رنگا تھا میں اسی دن مر گیا تھا آپ نے اپنی بہن کو نہیں مجھے قتل کیا ہے سمجھے آپ!” ضبط کے مارے عبدالباری کا چہرہ سرخ پر گیا۔ اسکے اندر کی آگ پھر بھڑک اٹھی تھی۔
“تمھیں یقین ہے کہ تمہارا باپ اپنی سگی بہن کو قتل کر سکتا ہے؟”
“تو چلیں ابھی چلتے ہیں بابا سائیں کے پاس اور انکے سامنے کھڑے ہو کر کہیں کہ آپ نے پھوپھو کا قتل نہیں کیا۔” اس نے تمسخرانہ انداز میں کہا۔ “پھوپھو کو لے آئیں گھر! کب تک اپنے گناہوں سے بچتے پھریں گے؟”
“نہیں کیا ہے اس نے کوئی قتل!” بابا سائیں مردان خانے سے برآمد ہوۓ تھے۔
“ایک نا شد دو شد!” عبدالباری بلند آواز میں بڑبرایا۔
“میرے بیٹے نے اس حویلی کی عزت بچائی ہے۔ ورنہ جس کم ذات کا تم سوگ مناتے پھر رہے ہو اس نے تو عزت کی دھجیاں اڑا کے رکھ دی تھیں۔ میں پوچھتا ہوں کون سا گناہ کر دیا ہے ہم باپ بیٹے نے جو تمہارے الزامات ہی ختم نہیں ہو رہے۔ یہ جو تم اڑتے پھر رہے ہو نا، عبدالباری صغیر ہمدانی!” بابا سائیں نے اسکا نام پکارا تو اس نے انکی طرف دیکھا۔ کالے ڈھیلے ڈھالے لباس میں ہاتھ میں لاٹھی پکڑے وہ اسکی طرف بڑھے۔” اس نام کے بغیر تمہاری قیمت ایک پیسے کی بھی نہیں ہے۔ آج جو چند کتابیں تم پڑھ کر ہمارے سامنے کھڑے ہو نا؟ یہ بھی ہماری بدولت ہے ہمارے بغیر تمہاری حثیت ہی کیا ہے؟ آج اگر ہم اپنا ہاتھ ہٹا لیں تو تمہارے مزاج ٹھکانے لگ جایئں گے۔”
“آپ کس عزت کی بات کر رہے ہیں؟ وہ عزت جو آپ نے معصوم جانوں کے خون سے خریدی ہے۔” عبدالباری نے اپنی سرخ انگارہ آنکھیں بابا سائیں کے جھریوں زدہ چہرے پر گاڑ دیں۔
“معصوم نہیں تھی وہ! جو لڑکیاں اپنے باپ کی عزتوں کے جنازے نکالا کرتی ہیں وہ معصوم نہیں ہوتییں۔”
“اور جو باپ بھائی بیٹیوں کی خوشیوں کے جنازے نکالتے ہیں اپنی جھوٹی شان قائم رکھنے کے لئے کسی کا بسا بسایا گھر اجاڑ دیتے ہیں۔ اپنی ناک اونچی رکھنے کی خاطر بیٹیوں کے سر کاٹ دیتے ہیں۔ انکے بارے میں آپکا کیا خیال ہے بابا سائیں؟ کیا قصور تھا ان کا؟ محبت ہی تو کرتی تھیں۔ محبت اتنا بڑا جرم تو نہ تھا کہ انہیں سزائے موت سنا دی جاتی! اگر آپ اس وقت یک طرفہ سوچ کو ایک سائیڈ پر رکھ کر سوچتے جس دوراہے پر آپ نے انہیں لا کھڑا کیا تھا انہیں انتہائی قدم اٹھانے پر آپ نے مجبور کیا۔ یہ کیسے اصول ہیں؟ جو ایک لڑکی سے اسکی خوشیاں چھین لیتے ہیں اور اگر وہ اپنا حق مانگ لے تو؟ تو کیا اس سے جینے کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے واہ بابا سائیں واہ!” عبدالباری نے دونوں ہاتھوں سے تالی بجائی۔ پھر بابا سائیں کی طرف اشارہ کیا۔”میں آج اپنی پھوپھو کے گناہ گنواتا ہوں۔”
“گھر سے بھاگ گئی تھیں؟ تو مجبور بھی تو آپ نے کیا تھا۔”
“چھپ کر نکاح کر لیا تھا؟ آپ نے یہ قدم اٹھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں چھوڑا تھا۔ آپ نے انکی منگنی کر دی۔ ٹھیک کیا وہ بھی خوش تھیں وہ بدکردار اس وقت ہوتیں جب وہ کسی کے نام کے ساتھ منسوب رہتے ہوئے کسی اور کا خیال دل میں لاتی۔ جس کے نام سے پھوپھو منسوب تھیں وہ مر گیا اس میں بھی انکا ہی قصور تھا چلیں یہ بات بھی مان لیتے ہیں پھر اس کی سزا میں وہ ساری عمر ایک ہی نام پر بیٹھی رہتیں؟ دنیا کی کونسی کتاب میں یہ قانون لکھا ہے؟”
“عبدالباری زبان سنبھال کر بات کرو! یہ مت بھولو کہ سامنے بابا سائیں کھڑے ہیں۔” صغیر ہمدانی نے اپنی اولاد کی طرف تاسف بھری نظروں سے دیکھا۔ اگر انہیں ذرا سی بھی بھنک پڑتی کہ بابا سائیں یہاں آجائیں گے تو وہ کبھی بھی عبدالباری کو مخاطب نہ کرتے وہ جانتے تھے عبدالباری کے اندر اٹھارہ سال سے ایک آگ جل رہی ہے اور آج انہوں نے اس آگ کو بھڑکا دیا تھا۔
“بابا سائیں؟ ہونہہ!” عبدالباری کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ تھی۔” میں ان کا لحاظ کروں؟ جن کو لحاظ کا مطلب بھی نہیں آتا”
“تمہاری نظر میں جو اس کم ذات نے کیا وہ ٹھیک تھا؟” بابا سائیں اسکے مقابل کھڑے اس سے پوچھ رہے تھے۔
“بلکل ٹھیک کیا تھا!” عبدالباری نے انکی آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔ پھر اپنے باپ کی طرف دیکھا۔ “یہ جو میں کبھی حویلی کا چکر لگا لیتا ہوں نا؟ کوشش کیا کریں کہ آپ لوگوں سے میرا سامنا نہ ہو۔ جب جب میں آپ کو دیکھتا ہوں میرا خون کھولنے لگتا ہے۔ کہ میں ایک قاتل کا بیٹا ہوں۔ میرا تعلق ایسے خاندان سے ہے جن کے ہاتھ کسی معصوم کے خون سے رنگے ہوۓ ہیں۔”
“تو توڑ لو سارے رشتے؟” بابا سائیں بھی جانتے تھے کہ انکے پوتے کی دکھتی رگ کونسی ہے۔ ” کیوں آتے ہو یہاں؟”
“اماں سائیں کے لئے اگر انکا وجود نہ ہوتا تو شاید میں کبھی حویلی میں قدم بھی نہ رکھتا۔ اور یہ جو آپ کہتے پھر رہے ہیں نا؟ میرے نام کے بغیر تمہاری حثیت ایک پیسے کی بھی نہیں۔ تو جناب پوچھیں اپنے بیٹے سے جو پیسے میری تعلیم پر خرچ ہوا ہے میں نے انہیں پیسہ واپس کرنا بھی شروع کر دیا ہے۔”
عبدالباری نے طائرانہ نگاہ دونوں پر ڈالی اور وہاں سے چلا گیا۔
“تم سے بالشت بھر کا لڑکا سنبھالا نہیں جا رہا؟”
بابا سائیں نے ملامت بھری نظروں سے اپنی بڑی اولاد کو دیکھا۔ صغیر صاحب نے لمبا سانس خارج کیا۔ وہ جانتے تھے عبدالباری بھی بابا سائیں کا ہی پوتا ہے انکی طرح اس نے بھی سر جھکانا نہیں سیکھا۔
***************
حنایہ کمرے میں اندھیرا کیے بیٹھی تھی۔ گھپ اندھیرے میں وہ آنکھیں پوری طرح کھولے کسی غیر مرئی نقطے کو گھورنے میں مصروف تھی۔
“اماں سائیں کے لئے! اگر اماں سائیں کا وجود نہ ہوتا تو میں کبھی بھی اس حویلی میں قدم نہ رکھتا۔”
وہ جو کل زہرہ بی (ماں) کے کہنے پر باری سے معافی مانگنے گئی تھی مگر باری کی بات نے اسکے قدم وہیں منجمند کر دئیے۔ کتنی دیر وہ وہیں کھڑی سوچتی رہی کیا باری صرف اماں سائیں کے لئے یہاں آتے ہیں؟ میں انکے لئے بالکل بھی اہمیت نہیں رکھتی۔ جب سے اسے معلوم ہوا تھا کہ اسکی شادی باری سے ہونے والی ہے اس کی سوچوں نے نیا رخ لے لیا تھا۔
“کیا ہو گیا ہے مجھے؟”
حنایہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور ہاتھوں میں اپنا سر گرا دیا۔
“عجیب عجیب سی سوچیں کیوں آرہی ہیں؟”
حنایہ نے اپنے بالوں کو دونوں مٹھیوں میں جکڑا۔کل سے سوچ سوچ کر اسکا سر پھٹ رہا تھا۔ مگر اسکی سوچیں تھیں کہ بڑھتی جا رہی تھیں اس نے آج سے پہلے باری کو سوچا تو تھا مگر اب وہ باری کے ساتھ خود کو بھی سوچ رہی تھی۔ اگر باری اسے چھوڑ کر چلا گیا تو؟ وہ کیا کرے گی۔ اسکے دل و دماغ میں ایک ڈر سا بیٹھ گیا تھا۔
“نہیں باری ایسے تھوڑی نا ہیں؟ وہ تو بہت اچھے ہیں۔ مگر باری مجھ سےناراض ہیں اور میں نے باری کے ساتھ کتنی بدتمیزی بھی کی تھی۔” حنایہ کو اب اپنی غلطی کا احساس ہو رہا تھا۔
“اکیلے بیٹھی کیا پاگلوں کی طرح بڑبڑا رہی ہو؟”
زینیہ نے کمرے کی لائٹس جلاتے ہی کہا تو حنایہ نے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپا لیا۔ پھر کچھ دیر بعد اس نے اپنی بہن کو دیکھا۔
“کچھ نہیں آپی! بس یوں ہی…”
“حنایہ تمھیں معلوم ہے ماما کتنی ناراض ہیں تم سے؟ اور تم یہاں کتنے سکون سے بیٹھی ہوئی ہو۔”
زینیہ نے اسکے پاس بیٹھتے ہوۓ کہا تو وہ سوچ میں پڑ گئی یہ تو حنایہ ہی جانتی تھی کہ وہ اس وقت کتنے سکون میں ہے۔
“بھائی سے تم نے معافی مانگی تھی؟”
“نہیں!” پست لہجے میں کہا۔
“اسی لئے منہ بنا کر یہاں پڑی ہوئی ہو۔” زینیہ نے اپنی جھلی سی بہن کے جھکے ہوۓ سر کو دیکھا۔ پھر اسکا چہرہ اوپر اٹھایا تو اسکی آنکھوں میں آنسودیکھ کر وہ پریشان ہو گئی۔”حنایہ! یہ بھی کوئی رونے کی بات ہے میری جان…”
“آپی باری مجھ سے ناراض ہیں۔” اس نے سوں سوں کرتے کہا اور اپنی آستین کو آنکھوں پر رگڑا۔
“کس نے کہا کہ بھائی تم سے ناراض ہیں؟”
“وہ مجھ سے مل کر نہیں گئے اور میں نے کتنی بدتمیزی بھی کی تھی۔”
“میری کملی وہ تم سے بالکل ناراض نہیں ہیں تمھیں معلوم ہے بھائی تمہارا گفٹ مجھے دے کر گئے ہیں۔”
زینیہ نے اسکے سامنے نفاست سے پیک شدہ باکس رکھا۔ حنایہ نے اسکا کملی کہنا نظرانداز کر دیا اور جلدی سے اسکے ہاتھ سے گفٹ پکڑلیا۔ “یہ باری نے دیا ہے؟” زینیہ نے مسکراتے ہوۓ اپنی کملی کو دیکھا۔ کملی ایسی ہی تھی چھوٹی سی بات کو ذہن پر سوار کر کے آنسو بہانے والی اور کسی ذرا سی بات پر خوشی سے جھوم اٹھنے والی! اور یہ تو سب ہی جانتے تھے کملی کے لئے بچپن سے ہی باری کیا اہمیت رکھتا تھا۔ اسکی ہر بات باری سے شروع اور باری پر ختم ہوتی تھی۔ “وہ واقعی مجھ سے ناراض نہیں ہیں نا؟”
“نہیں ہیں! بھلا بھائی تم سے کیسے ناراض ہو سکتے ہیں۔ جس سے انسان محبت کرتا ہے اس سے کبھی بھی ناراض نہیں ہو سکتا۔”
“محبت؟” حنایہ نے جھٹ سے سر اٹھایا اور اپنی بہن کو دیکھا۔ “کیا مطلب آپی؟ کیا باری مجھ سے…”
آنکھوں میں بے یقینی سموئے وہ اپنی بہن سے پوچھ رہی تھی۔ اور زینیہ کو احساس ہو گیا تھا کہ وہ کس کے سامنے کیا بول بیٹھی ہے۔ کملی جو محبت نام کے جذبے سے بھی نا آشنا تھی زینیہ کی بات نے اسکے دل کی دنیا بدل دی تھی۔
“وہ ہم سب تم سے محبت کرتے ہیں حنایہ! چلو جلدی سے کھولو بھی پتہ تو چلےاس میں ہے کیا؟”
زینیہ نے پہلو بدلہ تھا اور بات بدلنے کی کوشش کی تھی۔ وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہو گئی تھی۔
“یہ تو پتہ نہیں کیا ہے۔ کالا شیشہ؟” حنایہ نے منہ بنا کر کہا۔ اس نے بلیک کلر کا سمارٹ فون زینیہ کی طرف بڑھایا۔
“کملی یہ موبائل فون ہے سمجھی!”زینیہ نے اسے بتایا تو اس نے حیرانی سے اپنی بڑی بڑی آنکھیں مزید کھول لیں۔
“وہ جو باری اور بھائی کے پاس ہے۔ وہ جو…”حنایہ کے پاس موبائل کی وضاحت کے لئے الفاظ نہیں تھے۔
” ہاں یہ وہی ہے۔”
“آپ کو پتہ ہے یہ کام کیسے کرتا ہے میں نے دیکھا ہے باری اکثر اس پر یوں یوں کرتے ہیں۔ میں نے ایک دفع کہا تھا باری مجھے بھی موبائل دے دیں دیکھا آپی وہ کتنے اچھے ہیں میری ہر بات مانتے ہیں۔” حنایہ روانی سے بولتی جا رہی تھی جب کہ زینیہ سوچ میں پڑ گئی تھی۔ کیا باری بھائی کو تحفے میں موبائل دینا چاہیے تھا؟ اور حویلی میں سب کا کیا ری ایکشن ہو گا؟
***************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...