)اباجی(
گلابوں کی مہک تھی یا کسی کی یاد کی خوشبو
ابھی تک روح میں مہکار کا احساس باقی ہے
باپ بیٹے کے مابین اوّلین تعارف کاکوئی واقعہ بیان کرنااس لحاظ سے بے معنی سی بات ہے کہ یہ تعارف توخون کے اجزا میں سے ڈھونڈ نکالنا بھی مشکل ہے۔ صدیوں پہلے ہم اپنے آباؤ اجداد کے لہو میں موجزن تھے۔ اپنی پیدائش سے پہلے میں اباجی کے لہو میں رواں تھا تو اباجی اپنی وفات کے بعد بھی میرے دل میں دھڑک رہے ہیں۔ اس کے باوجود شعوری سطح پراباجی سے میرا پہلا معانقہ اس وقت ہواجب میری عمر تقریباً تین سال تھی۔ یہ واقعہ آج بھی میرے شعور میں ایک ہیُولے کی طرح موجود ہے۔ یوں تو ہر انسان اپنے بچپن میں فطرت سے بہت قریب ہوتاہے لیکن مجھے بچپن میں فطرت سے کچھ زیادہ ہی پیارتھا۔ چنانچہ جیسے ہی موقعہ ملتا الاسٹک والی نیکر اور ٹچ بٹنوں والی شرٹ اتار کر فطری لباس پہن لیتا۔ ایسا ایک موقعہ مجھے اُس وقت ملا جب امی جی سامنے والے گھر کی بُوازیبو کے ہاں گئیں اور میں فطری لباس پہنے گھر سے نکل کھڑاہوا۔ رحیم یارخاں کے محلہ قاضیاںسے (موجودہ)جدید بازار تک کئی پیچ دار رستوں سے نجانے میں کس طرح گزرتاچلاگیا۔ اباجی وہاں اپنے ایک دوست ممتاز صاحب کی دوکان پر کھڑے تھے۔ میں جاکر ”ابوا“کہتے ہوئے ان کی ٹانگوں سے لپٹ گیا۔ انہوں نے سمجھا کسی کا بچہ ہے جو خوامخواہ ان سے چمٹ گیاہے۔ چنانچہ میرے معانقہ کے جواب میں انہوں نے میری طرف دیکھے بغیر مجھے اپنے سے الگ کرکے پرے کردیا۔ میں پھر ”ابوا“ کہتے ہوئے ان کی ٹانگوں سے چمٹ گیا۔ اس بار پھر انہوں نے دیکھے بغیر مجھے پرے دھکیل دیا اور میں اپنے حواس درست کئے بغیر تیسری بار پھر ”ابوا“ کہہ کر ان کی ٹانگوں سے معانقہ کرنے لگا۔ لیکن اب اس سے پہلے کہ اباجی مجھے پھر پرے دھکیلتے ممتاز صاحب کی نظر مجھ پر پڑگئی۔ انہوں نے حیران ہوتے ہوئے اباجی سے کہا: قریشی صاحب!یہ تو حیدر ہے۔ اب جو اَباجی نے پلٹ کردیکھاتو میری میلی کچیلی، ننگ دھڑنگ حالت ہی میں مجھے اٹھالیا۔ پھر سب کچھ بھول بھال کر گھر کی طرف چل دیئے۔ راستہ بھر باربار مجھے خود سے لپٹاتے اور چومتے جاتے۔ گھر پہنچے تو وہاں میری گمشدگی پر کہرام برپاتھا، یہ اباجی سے گویا شعوری سطح پر میرا پہلا تعارف تھا۔
اباجی وضع دار انسان تھے۔ روایات سے محبت رکھتے تھے مگر زمانے کے ارتقاکی سچائی کو مانتے تھے۔ ۰۶۹۱ءتک پھندنے والی رومی ٹوپی پہنتے رہے۔ اس ٹوپی کو ترکی ٹوپی بھی کہتے تھے۔ پھر کلاہ کے ساتھ لنگی باندھنی شروع کی اور جناح کیپ بھی استعمال کرتے رہے۔ آج اباجی کی ساری زندگی کی طرف نظر دوڑاتاہوں تو مجھے ان کے اندر بیک وقت ایک دراوڑ، ایک آریا اور ایک عرب بیٹھا نظر آتاہے۔ ان کی زندگی کے ابتدائی ایام میں دراوڑ حاوی رہا۔ عالم شباب میں نواب بھاولپور تک رسائی حاصل کرکے انہیں بھاول نگر محکمہ پولیس میں محرر لگوایاگیاجب سارا سامان باندھ کر روانہ ہونے کا وقت آیا تو داداجی نے دبی زبان سے کہا: بیٹا!۔۔توپھر جارہے ہو؟۔۔ اچھا جاؤ ، ویسے دل نہیں کرتا کہ جاؤ۔
اباجی نے فوراً کہا:دل تو میرا بھی نہیں کرتاکہ جاؤں، اس لئے نہیں جاتا۔۔ یہ کہہ کر بندھاہواسامان کھول ڈالا۔
۔۔۔۔اباجی نے یہ قصہ بڑے مزے لے کر ہمیں سنایاتھااور پھر کہا تھا: بھئی ہم سرائیکی لوگ تو اپنے شہر کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچ کرہی پردیسی ہوجاتے تھے۔ یہ واقعہ تقسیم برصغیر سے پہلے کاہے۔ اگر ان پر ان کے اندرکا دراوڑ حاوی نہ ہوتاتو وہ کم از کم ایس پی کی حیثیت سے ریٹائر ہوتے۔۔ بعد میں جب خراب حالات باربار حملہ آور ہونے لگے تو یوں لگا جیسے دراوڑ مغلوب ہوگیاہے اور اباجی کے اندر کا آریا فاتح ہوگیاہے۔ رحیم یارخاں والا گھر فروخت کیا گیاتو اباجی کے چہرے پر کوئی کرب نہیں تھا۔میں تب صرف دس برس کا تھا مگر وہ گھر آج بھی نہ صرف میرے نہاں خانۂ دل میں آباد ہے بلکہ مجھے جب بھی رحیم یار خاں جانے کا موقعہ ملتاہے، اس گھر کو دیکھنے کے لئے ضرور جاتاہوں اور وہاں دیر تک بچپن کی یادوں میں گھرارہتاہوں۔ خانپور والا گھر فروخت ہواتو اباجی کے چہرے پر کوئی اداسی نہ تھی۔ یوں ان کے اندر کا آریافتح یاب ہوگیا۔ مگر دراوڑ مغلوب کہاں ہوا؟ اس نے بیوی بچوں کو دھرتی کا متبادل بنالیا، ایک معمولی سی مدت کے علاوہ بیوی بچوں کو خود سے کبھی جدانہیں ہونے دیا۔
۔۔۔۔۔اندرکے آریااور دراوڑ کی کشمکش سے بے نیاز ایک عرب درویش ہمیشہ اباجی کے اندر موجود رہا۔یہ درویش خواب بین، دعاگو اور صاحبِ کشف و کرامت تھا۔ عرب درویش کاکمال یہ تھاکہ نیل آرمسٹرانگ سے دس سال پہلے اس نے چاند کی سرزمین پر قدم رکھ دیا تھا۔ اباجی نے ۹۵۹۱ءمیں خواب دیکھا کہ وہ چاند کی سرزمین پر اترے ہوئے ہیں۔ وہاں کے پہاڑ دیکھنے میں ایسے لگتے ہیں جیسے راکھ کے ہوں اور پاؤں رکھتے ہی راکھ میں دھنس جائیں گے۔ لیکن اباجی پہاڑ پر پاؤں رکھتے ہیں تو وہ پتھر کے ہی ہوتے ہیں۔
Rain Makers اورRain Breakers کے چند قصے تو اب پڑھنے کو ملے ہیں۔ مگر اباجی کی ”وِل پاور“ اور ”ارتکاز“ کا کرشمہ تو ہم نے خود دیکھا تھا۔اباجی اور امی جی میں ”بزرگی“ کے مسئلہ پر مذاق چلتارہتاتھا۔ اباجی نے کہا: اگر میں اللہ میاں سے دعاکرکے اسی وقت بارش کروادوں تو میری بزرگی کو مان لوگی؟۔۔ رحیم یارخاں میں گرمیو ں کی چلچلاتی دھوپ میں بادلوں کا دور دور تک نشان نہیں تھا۔ اس لئے امی جی نے للکارتے ہوئے شرط منظور کرلی۔ اباجی مکان کی چھت پر چڑھ گئے۔ تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد جب چھت سے نیچے آئے، چاروں جانب سے گھنگھور گھٹائیں امڈی چلی آرہی تھیں۔ موسلادھار بارش شروع ہوگئی۔ لیکن امی جی نے اباجی کی بزرگی کو نہیں مانناتھا، نہیں مانیں۔
۔۔۔۔۔مریضوں پردم کرنا اور کسی کی خاص غرض کے لئے خصوصی دعاکرنا ان کی روحانیت یاوِل پاورکا عام سا کرشمہ تھا۔میری ایک بہن زبیدہ کو جب بھی بخارہوااور دوا سے فرق نہیں پڑا، اباجی نے اسے بھینچ کر گلے سے لگایااور وہ ٹھیک ہوگئی۔ میرے نزدیک ایسے متعدد واقعات کے باوجود اباجی کی سب بڑی کرامت یہ تھی کہ انہوں نے دکھوں سے بھری ہوئی زندگی کو ہنسی خوشی گزارلیا۔ کلاتھ مرچنٹ سے ٹیلرماسٹر تک کاتکلیف دہ سفر طے کیا۔ پھر شوگرمل میں نوکری کرلی اور مجھے بھی شوگرمل میں جھونک دیا۔ حئی سنز شوگر ملز خانپور کے جنرل منیجر عزیز حسےن کی بیگم بڑی نیک دل خاتون تھیں(اگر ابھی تک زندہ ہیں تو اللہ انہیں مزید زندگی عطا کرے) اباجی کا بے حد احترام کرتی تھیں۔ اپنے بہت سے خانگی معاملات اباجی کو بتاکر ”دعا‘ ‘اور ”دوا“ دونوں کے لئے کہتیں۔ بیگم عزیز حسین کی نیکی کے سبب مجھے پندرہ(سولہ) برس کی عمر میں شوگرمل میں مزدوری مل گئی۔ میں نے اپنی زندگی کے بے حد قیمتی انیس سال اس شوگر مل میں بربادکئے۔ بیگم عزیز حسین کی نےک نیتی اور نیکی کے باوجود مجھے شدت سے احساس ہوتاہے کہ انہوں نے میرے لئے نیکی نہ کی ہوتی تو میں زیادہ بہتر حالت میں ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔ شوگر مل کی ملازمت کے حوالے سے ہی یاد آیا کہ ملز انتظامیہ کے مزدور دشمن روےے کے باعث مجھے ٹریڈیونین سرگرمیوں میں حصہ لیناپڑا۔ ملز میں تصادم ہوا۔ بعض اہم افسروں کی ٹھیک ٹھاک پٹائی ہوئی۔ مقدمات بنے۔ اسی دوران مجھے بارباردھمکیوں کے ساتھ خوشنما آفرز بھی ہوئیں مگر میں جوش جوانی اور بغاوت کی دُھن میں ہرآفر کو ٹھکراتاچلاگیا۔ ایک مرحلے پر اباجی سے بھی کہا گیاکہ مجھے مفاہمت کے لئے راضی کریں۔ اباجی نے مجھے بتایاکہ مجھے اس طرح کہاگیاہے مگر تم جو فیصلہ اپنے طورپر کرناچاہو، وہی کرو۔ میں نے کہا کہ اگر آپ مفاہمت کا حکم دیتے ہیں تو میں تیارہوں۔ مگرانہوں نے کہا میں ایسا کوئی حکم نہیں دوں گا۔ تم خود فیصلہ کروگے اور جو بھی فیصلہ کروگے وہی درست ہوگا۔ چنانچہ میں نے مفاہمت کی بجائے بغاوت کا فیصلہ کیا۔ اس واقعہ سے میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتاہوں کہ اباجی اپنی وضع داری کی روایت پر تو قائم تھے مگر میرے باغیانہ روےے کو وہ بدلتے ہوئے سیاسی اور سماجی حالات کا لازمی تقاضا سمجھتے تھے۔ اسی لئے مجھے اس سے روکنے کے بجائے انہوں نے بالواسطہ میری حوصلہ افزائی کی۔ جب ہماری یونین کو معطل کرادیاگیا تب ہم سے ملنے والے ہر مزدور سے بازپرس کی جاتی تھی مگر اباجی کی اپنی شخصیت اتنی مضبوط تھی کہ نہ صرف انہیں ملز انتظامیہ کی طرف سے تنگ نہیں کیاگیا بلکہ ان کا اسی طرح احترام کیاجاتارہا جیسا میری بغاوت سے پہلے ہوتاتھا۔
اباجی بتاتے تھے کہ ہمارے خاندان میں کئی پشتوں سے بیٹوں کی کمی چلی آرہی تھی۔ ایک بزرگ کے ہاں دو بیٹے ہوئے۔ ان بیٹوں میں سے ایک کے ہاں اولاد نہ ہوئی اور دوسرے کے ہاں پھر دوبیٹے ہوئے۔ ان میں سے بھی ایک کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی اور دوسرے کے ہا ں پھر دو بیٹے ہوئے۔ میاں میرمحمد کے ہاں تین بیٹے پیداہوئے۔ میاں سعید بے اولاد رہے۔ میاں غوث محمد کے ہاں ایک بیٹا ہوامگر اگلے مرحلے میں ان کی نسل بھی ختم ہوگئی۔ میاں اللہ رکھاکے ہاں دوبیٹے ہوئے، باباجی اور اباجی۔۔ باباجی کے ہاں اولاد نہ ہوئی اور اباجی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
اباجی نے دو شادیاں کیں۔پہلی بیوی عزیز بی بی نے اس ا لزام کی بنیاد پر عدالت کے ذریعے طلاق لی کہ یہ شخص اولاد پیداکرنے کے قابل نہیں۔ پھر اباجی کی شادی ہماری امی جی سے ہوئی اور یکے بعد دیگرے دس بچے پیداہوئے۔ پانچ بیٹے، پانچ بیٹیاں۔۔ عزیز بی بی نے دوسری جگہ شادی کرلی مگر اولاد سے محروم رہی۔
ایک دفعہ بواحیات خاتوں ہماری چھوٹی بہن بے بی کو لے کر ایک رشتہ دار کے یہاں گئیں۔ وہیں اباجی کی پہلی بیوی آگئی۔ بے بی کو دیکھتے ہی چونکی۔ اس کے استفسار پر بواحیات خاتوں نے بتایاکہ قریشی غلام سرور کی بیٹی ہے۔ اسی وقت بے بی کو گود میں لے کرپیارکرنے لگی ۔ اباجی کی اولاد کی تفصیل پوچھی۔ بواحیات خاتوں نے تفصیل بتادی۔ سن کر سارے بچوں کو درازی عمر کی دعائیں دینے لگی اور پھر حسرت سے کہنے لگی مجھے میری زیادتی کی سزا مل گئی ہے۔۔ چند دنوں کے بعد اباجی کی پہلی بیوی کی طرف سے کھانے کی چند اشیاءکا تحفہ ہمارے گھر آیا۔ مگراباجی نے ساری چیزیں تلف کرادیں۔ کسی کو چکھنے نہیں دیں ان کا خیال تھاکہ ان اشیاءپر کوئی منفی قسم کا دَم کیاگیاہے۔۔ پہلی بیوی کی بے وفائی کے بعد اباجی کی امی جی سے شادی ہوئی تو دونوں کی عمروں میں بارہ سال سے زائد کا فرق تھا مگر اس بُعد نے محبت میں اضافہ کیا۔ اباجی اور امی جی کی محبت اور خوشگوار ازدواجی زندگی سارے خاندان کے لئے آج بھی ایک مثال ہے۔ ایک وقت تھاکہ ہمارے عزیزوں میں اباجی کاگھر سب سے زیادہ خوش حال تھا، پھر وہ وقت آیاکہ اباجی کا گھر انتہائی غربت کاشکار ہوگیا۔ بے حد قریب رہنے والے عزیز دور ہوگئے مگر اباجی کے مزاج میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اباجی بے حد قناعت پسند تھے مگر انہوں نے ہمیں کبھی قناعت کا درس نہیں دیا۔ دراصل وہ اس لئے سارے دکھ خوشی خوشی برداشت کر رہے تھے کہ پچھلی کئی پشتوں سے ”پل صراط“ پر چلتے ہوئے ان کے خاندان کو پانچ بیٹوں کو سنبھالا مل گیاتھا۔ حالانکہ یہ پانچوں بیٹے ان کے کسی کام نہ آسکے۔ نہ کوئی خدمت کرنے کا اہل ہوسکانہ کوئی خدمت کرسکا۔ ان کی اپنی ساری زندگی ہی مشقت کرتے گزر گئی۔۔۔۔۔اباجی کو کبھی کبھی غصہ بھی آتا اور یہ غصہ عام طورپر گھر کے گھڑوں اور برتنوں پر اترتاتھا۔ لیکن جب شام کو اباجی گھر آتے،ان کے ایک ہاتھ میں نیاگھڑا اور دوسرے ہاتھ میں گلاب کے پھولوں کے ہار ہوتے اور جھگڑاختم۔
۱۹۵۰ءمیں اباجی اچانک بیمار ہوئے تھے۔ اس علالت میں عجیب و غریب قسم کے دورے پڑتے تھے۔ باباجی کے بیان کے مطابق اباجی کو چارچارپانچ پانچ کڑیل جوانوں نے دبایاہوتاتھا مگر اباجی اس طرح اٹھ بیٹھتے کہ انہیں دبانے والے لڑھکتے ہوئے اِدھر اُدھر جاپڑتے۔ اباجی نے اس سلسلہ میں جو احوال سنایا، اس کے مطابق ان کے اوپر ایک بہت بڑا فانوس نصب تھا، حالانکہ تب ہمارے گھر میں بجلی ہی نہیںآئی تھی۔ اس فانوس سے سبز رنگ کی روشنی نکلتی تھی جو آنکھوں کو خیرہ کرتی تھی۔ اسی روشنی کے ذریعے ان کی بہت سے بزرگوں سے ملاقات ہوئی۔اباجی کے بقول ایک مرحلے پر انہیں خود علم ہوگیاتھاکہ ان کی جان نکل رہی ہے۔ ٹانگوں سے بالکل جان نکل چکی تھی مگر پھر انہیں دنیا میں مزید(۳۶سال) جینے کی اجازت مل گئی ۔ اباجی کی زندگی کی یہ سنگین بیماری، جس کے باعث سارے عزیز ان کی زندگی سے مایوس ہوچکے تھے حقیقتاً کوئی بیماری تھی یاکوئی روحانی تجربہ تھا،میں اس بارے میں تو کوئی حتمی بات نہیں کرسکتاتاہم بعد میں ان کی زندگی میں خواب بینی، دم درود اور کشوف کاجو سلسلہ نظرآتاہے وہ اسی تجربے سے ہی مربوط محسوس ہوتاہے۔ واللہ اعلم!
۔۔۔۔میری پیدائش سے چند ماہ پہلے اباجی نے یکے بعد دیگر دوخواب دیکھے تھے۔ پہلا خواب یہ تھاکہ ایک بڑا اور گھنادرخت ہے جس کی شاخیں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اباجی اس درخت کے اوپر عین درمیان میں کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ خواب سن کر اباجی کے ایک دوست روشن دین صاحب نے کہا کہ آپ کے ہاں بیٹا پیدا ہوگاجو
دوسرا خواب یہ تھاکہ لمبے لمبے قد والے بہت سارے لوگ ہیں جو اپنے ہاتھ بلند کرکے ”حیدر۔۔حیدر“ کے نعرے لگارہے ہیں۔ ان دونوں خوابوں کے چند ماہ بعد میری پیدائش ہوئی۔ اباجی نے اپنے مرشد کو خط لکھا کہ بیٹے کا نام تجویز فرمادیں۔ مرشد کو اباجی کے خواب کا علم نہیں تھا۔ انہوں نے مجھے حیدربنادیا۔ مگر اباجی کے دونوں خوابوں کی تعبیر کا ابھی تو دور دور تک کوئی نشان نہیں ملتا۔ شاید حسن اتفاق تھاکہ میں پیداہوگیا اور حیدر نام رکھاگیا۔
میں بچپن میں شرارتیں بہت کرتا تھا۔ دوسروں کو ڈرانے میں مزہ آتا تھا۔ اسی وجہ سے بچپن میں اباجی سے بڑی مارکھائی۔ سب سے زیادہ ماربھی میں نے کھائی اور اباجی کی توجہ بھی سب سے زیادہ مجھے ملی۔ یہ اباجی کی ذاتی توجہ ہی تھی جس کے باعث اسکول میں داخلہ کے وقت مجھے کچی، پکی کی بجائے براہ راست دوسری جماعت میں داخل کرلیاگیا۔شادی کے بعد بھی ایک دفعہ اباجی سے تھپڑ کھایا۔ یوں تو والدین کی محبت ساری اولاد کے لئے یکساں ہوتی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ اباجی کو آپی سے اور مجھ سے سب سے زیادہ پیارتھا۔ زبیدہ کے لئے فکر مندی زیادہ رہی جبکہ اعجاز سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے لاڈلارہا۔
موسیقی سے اباجی کو رغبت نہیں تھی لیکن اسے شجرِ ممنوعہ بھی نہیں سمجھتے تھے۔ ایک پراناگانا ”ڈاچی والیا موڑ مہاروے“ سن کر کہتے یہ تمہارے دادا کو بہت پسند تھا۔ اباجی کو حضرت خواجہ غلام فریدؒ کی کافیاں پسندتھیں۔عام طورپر تحت اللفظ کے ساتھ پڑھتے۔ کبھی کبھار اپنے آپ میں گنگنابھی لیتے۔ عنایت حسین بھٹی کی آواز میں خواجہ صاحب کی کافی ”ساکوں سجناں دے ملن دی تانگ اے“ سن کر جھوم سے اٹھتے۔ انھی کی وجہ سے ہی شاید مجھے لوک گیتوں اور صوفیانہ شاعری سے دلچسپی ہوئی۔ ایک ہلکی سی مسکراہٹ عموماً اباجی کے چہرے پر رہتی تھی۔ جملے باز نہیں تھے مگر اچھے جملے پر دل کھول کر داد دیتے تھے۔ ہنسی کی کسی بات پر اگر کھل کر ہنستے تو اتنا ہنستے کہ آنکھوں سے آنسو نکل آتے۔ ان کی اس کیفیت پر میراجی کاشعریادآگیاہے:
نہیں گر یہ و خنداں میں فرق کچھ بھی جو ہنستا گیا دل تو روتا گیا دل
اباجی کی شخصیت کا جادو ایسا ہے کہ آج بھی رحیم یار خاں کے ان کے پرانے احباب سے ان کا ذکر کریں تو ان کی باتیں سناتے سناتے آبدیدہ ہو جاتے ہیں۔ رحیم یارخاں کے پرانے محلے سے جاکر پتہ کریں تو اباجی کا نام سنتے ہی ان کے چہروں پر محبت کی چمک آجاتی ہے۔ میں تقریباً دس سال کے بعد پہلی دفعہ پرانا مکان دیکھنے گیاتو نہ صرف اڑوس پڑوس کے سارے لوگ جمع ہوگئے بلکہ اتنی محبت سے اپنے گھروں میں لے گئے کہ میں ان محبتوں پر حیران رہ گیا۔ گھر کی لڑکیوں، عورتوں میں سے کسی نے پردہ نہ کیا، بوڑھیوں نے سرمنہ چوم لیا۔ یہ ساری محبتیں حقیقتاً اباجی کے وسےلے سے نصیب ہوئیں۔ شوگر مل میں آج بھی ان کی بات کی جائے تو کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ملے گا جو شرارتاً ہی ان کے کردار پر انگلی اٹھاسکے۔ دراصل اباجی صراط مستقیمی آدمی تھے۔ ایسا بننے کے لئے بڑی کٹھن رےاضت اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔مےں بھی صراط مستقےمی بننے کی کوشش کرتاہوں مگر زگ زیگ چلتاہوں کیونکہ مجھے احساس رہتاہے کہ لکیریں اپنے فقیروں کو کھاجاتی ہیں۔
شروع میں اباجی کے ساتھ تعلق میں احترام کے باعث ایک حجاب یا فاصلہ سا تھا مگر رفتہ رفتہ یہ حجاب کم ہوتاگیا۔ یکسر ختم تونہیں ہوامگر ہمارے درمیان اتنی بے تکلفی ضرور ہوگئی کہ انسانی زندگی کے بعض حسّاس موضوعات پر ہم اطمینان سے گفتگو کرلیتے تھے۔بعض مسائل میں انہوں نے میری رہنمائی بھی کی۔ میرے مقابلے میں اباجی اپنے پوتوں سے زیادہ بے تکلف تھے۔ زلفی، شازی، ٹیپوتینوں ان کے ساتھ فری تھے۔ اباجی ان کے ساتھ مختلف گیمز کھیلتے، مزے سے ہارتے اور پھر پوتوں کی بے تکلف ہوٹنگ سے لطف اندوز ہوتے۔ پہلے پہل جب میں نے شازی کو ہوٹنگ کرتے دیکھا تو اس کی بدتمیزی کو محسوس کرتے ہوئے اسے سختی سے ڈانٹامگراسی وقت اباجی کی جوابی ڈانٹ مجھے پڑی کہ جیسے کرتے ہیں کرنے دو۔۔ تو میں نے دادا،پوتوں کی بے تکلفی سے خود کو الگ کرلیا۔
علالت کی حالت میں اباجی باربارمجھے اور آپی کو یاد کرتے رہے یا پھر ٹیپو، مانو اورانس(چھوٹے پوتوں اور پوتی) کو یاد کرتے رہے۔ آپی نے کراچی میں کوئی خواب دیکھااور گھبراکر از خود اباجی کے پاس پہنچ گئی۔ اباجی نے آپی کو گلے سے لگالیا۔ دیر تک روتے رہے اور پھر کومے کی حالت میں چلے گئے۔ جب میں پہنچا کومے کی حالت میں تھے۔ باقی بہن بھائی بھی جمع ہونے لگے۔ شاہدہ، بے بی، اکبر، طاہر، اعجاز سب آگئے۔زبیدہ امریکہ میں تھی اس کا آنا ممکن نہ تھا۔ نوید نے پہنچنے میں تھوڑی دیر کردی۔۔ نوید آگیاتوپانچوںبےٹے باپ کے سرہانے کھڑے ہوگئے۔ باری باری سب نے سامنے آکر اپنا نام لیا۔ ہر آواز پر اباجی نے آنکھیں کھولیں اور ان کی آنکھوں میں غروب ہوتے ہوئے زندگی کے سورج نے ہر بیٹے، بیٹی اور عزیز کو خدا حافظ کہااور پھر وہ ہمیشہ کے لئے ہم سے جدا ہوگئے۔
اباجی کی وفات کے بعد ایک دوست نے تعزیتی خط میں لکھا کہ میں جب بھی خانپور میں قیام کے دنوں میں آپ کے گھر پر دستک دیتا۔ اگر آپ کے اباجی آتے اور میں ان سے آپ کا پوچھتاتو آپ کا نام سنتے ہی ان کی آنکھوں میں چمک سی پیدا ہوتی اور ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل جاتی ۔
رحیم یارخاں کے قریب ایک گاؤں ”بستی قندھاراسنگھ“(یاشایدبستی گندھارا سنگھ) کی ایک فیملی سے ہمارے رشتہ داروں جیسے تعلقات ہیں۔ اباجی کی وفات کے بعد خالہ فاطمہ وہاں سے تعزیت کے لئے آئیں تو انہوں نے بتایاکہ ان کے بھائی شاہ محمد صاحب پورے خاندان سمیت بھارتی پنجاب سے سیدھے اسی گاؤں میں آئے تھے۔ عید سے چند دن پہلے اباجی کی دکان پر گئے اور انہیں سونے کے کڑے دے کر کہنے لگے کہ اسے گروی رکھ کر ہمیں کپڑا اُدھار دے دیں تاکہ بچوں کی عید ہوجائے۔ اباجی ان کی پسند کے مطابق کپڑادیتے چلے گئے۔ جب ان کا مطلوبہ سارا کپڑا دے دیاتو اباجی نے سیف سے سو روپے کا نوٹ نکالا اور شاہ محمد صاحب سے کہایہ میری طرف سے آپ کے بچوں کے لئے عیدی ہے۔ سونے کے کڑے واپس لے جائےے اور کپڑوں کی رقم جب سہولت کے ساتھ دے سکیں، دے جائےے۔۔ کسی شناسائی کے بغیر اس سلوک پر شاہ محمد صاحب پہلے حیران ہوئے پھر آبدیدہ ہوگئے۔ نتیجتاً ان کے خاندان کے افراد سے آج بھی ایسا گہرا تعلق بناہواہے جو بعض رشتہ داروں کے ساتھ بھی نہیں ہے۔ البتہ خالہ فاطمہ کے اس انکشاف کے بعد مجھے یہ اندازہ ضرور ہوگیاکہ اباجی کا کپڑے کااچھا بھلاکاروبار زوال کا شکار کیوں ہوا۔
اباجی کی وفات کے بعد ہم نے ان کی میّت کو سرسے پیروں تک گلاب کے پھولوں سے بھردیاتھا اور پھولوں سمیت ہی دفن کیاتھا۔ وفات کے تیئسویں دن، رات کے نوبجے کے بعد اس کمرے کی کھڑکی سے گلاب کی خوشبوکی تیز لپٹیں اٹھنے لگیں جواباجی کاذاتی کمرہ تھا۔ یہ خوشبو پہلے امی جی نے محسوس کی اور مجھے کمرے میں بلایا۔ کمرے مےں داخل ہوتے ہی مجھے گلاب کی تیز خوشبو کا احساس ہوا۔ میں نے حیرت سے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے لمبے لمبے سانس لینے شروع کردیئے۔ میری ایک کزن خالدہ کے دیور شاہدحسین بھی اس وقت ہمارے گھر آئے ہوئے تھے۔ میں نے انہیں بھی کمرے میں بلالیا۔ انہوں نے بھی حیرانی کے ساتھ خوشبو کی موجودگی کی تصدیق کی۔ خوشبواتنی تیز تھی کہ باہر کی گلی میں بھی ہلکی ہلکی محسوس ہورہی تھی جبکہ کھڑکی سے تو خوشبوکاسیلاب امڈرہاتھا۔ ایک دن کے وقفے کے بعد دوپہر کو تقریباً ساڑھے بارہ بجے اسی کمرے میں پھر گلاب کے پھولوں کی تیز خوشبو پھیل گئی۔ اس خوشبو کو میں نے کمرے میں آکر محسوس کیا اور پھر آوازیں دے کر سارے افراد خانہ کو جمع کر لیا۔ سب نے ہی خوشبو کو محسو س کیا۔ چند منٹ کے بعد خوشبوغائب ہوتی چلی گئی۔ دونوں دفعہ خوشبو کا جانا ایسے لگاجیسے کوئی انسان آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے کمرے سے نکل رہاہو۔
باباجی نے مجھے کہاکہ اگر تم اس معاملے میں دوسروں سے بات نہ کرتے تو یہ خوشبو وقتاً فوقتاً تمہاری ماں کو اور تمہیں ملتی رہتی۔ شاید خوشبو سے بڑھ کر بھی کچھ رونما ہوجاتا۔ مگر تم نے اس کا بھید افشا کرکے خود کو اس سے محروم کرلیاہے۔ باباجی کی باتیں باباجی جانےں۔ لیکن یہ خوشبوکیاتھی؟۔۔ اتنی سی بات ہی سمجھ میںآتی ہے کہ اگر آنکھ خواب تخلیق کرسکتی ہے تو قوتِ شامہ بھی خوشبو تخلیق کرسکتی ہے۔ ٭٭٭