اجی صاحب برگد کا کیسا تعارف۔۔ ۔ کہ حرفِ عام میں اس چھتنار کا تعارف تو اس کا گھنا سایہ، پھیلاؤ، پراسراریت اور اس کی بزرگی ہے۔ حرفِ خاص میں برگد کا تعارف مقصود ہو تو جاوید انور صاحب کے افسانوں کے مجموعے ’’برگد‘‘ کا مطالعہ کیجیے۔ آپ کو یوں محسوس ہو گا گویا برگد کے نیچے نشست لگائے کسی microcosm نما حیرت کدے میں مقیّد ہیں اور اس قید سے آزاد بھی نہیں ہونا چاہتے۔ میری طرح شاید ہی کوئی ہو گا جس کے حلق سے یہ حقیقت با آسانی اتر سکے گی کہ یہ جاوید انور صاحب کی اوّلین ادبی کاوش ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ اس کے حرف حرف اور سطر سطر میں برسوں کی ریاضت اور گلے میں پکّے ہوئے سُر بولتے ہیں!
افسانہ ’’برگد‘‘ کسی طلسم کدے سے کم نہیں۔ مسحورکن بیانیہ، تشبیہات و استعارات کا ایک رنگین میلہ ہے بلکہ بحیثیت مصور برملا کہوں گا کہ یہ دیہی اور قدرتی منظر کشی کی حامل ایک کلاسیک پینٹنگ ہے جس میں عظیم برطانوی مصور ٹرنر اور جان کانسٹیبل، فرانسیسی مصور کلاڈ مونیٹ، امریکی مصور تھامس کول اور ہمارے استاد اللہ بخش کے برش سٹروکس کی مہارت اور لطافت ہے۔ ’’برگد‘‘ میں نظمیہ رفعت بھی بدرجۂ اتم موجود ہے اور اس میں ورڈزورتھ، جان کلیئر، ولیم بلیک جبکہ نثر میں ہارڈی، ایلیٹ اور سب سے بڑھ کر احمد ندیم قاسمی کا سا ذائقہ موجود ہے۔ ’’برگد‘‘ میں جاوید انور صاحب نے جس کمال مہارت سے گاماں میراثن اور اچھو کا نقشہ کھینچا ہے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دونوں زندہ جاوید مجسّم بن کر گویا عین سامنے آن کھڑے ہوں۔ اسلوب اس قدر جاندار ہے کہ گاماں کی تیکھی سلونی ناک پر دمکتے چاندی کے کوکے کی چمک واقعی آنکھوں میں پڑتی محسوس ہوتی ہے، اس کے ناگن جیسے بل کھاتے لمبے بال، بِنا دیکھ ریکھ کبھی چوٹی میں گندھے، کبھی کھلے جہاں جھولتے‘ پر نظر واقعی نہیں ٹکتی، لال سائیں کے اِک تارے کی کَسی ہوئی تار پر انگلی رکھتے ہی واقعی سر بکھر جاتے ہیں، اس کے سفید دانتوں کی نورانی لکیر کی چمک واقعی آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے، وقت کا بدمست، بے پرواہ اور منہ زور دریا واقعی قاری کے عین سامنے دائیں بائیں کاندھے مارتا گزرتا صاف دکھائی دیتا ہے!
جاوید انور صاحب پنجاب کے گاؤں کی زرخیز مٹی سے اُگے ہیں سو اِن کی تحریر اور منظر کشی میں پنجابی زبان کی تاثیرو ذائقہ جتنا کوٹ کوٹ کر بھرا ہے، اتنا ہی سواد بھی بھرا ہے :
’’اس دن پتہ نہیں کیا غضب ہوا کہ مٹی اڑاتی لال آندھی چاروں طرف سے چڑھ دوڑی۔ وا ورولے (گرد باد) سلگتی گرم دوپہر کی ساری گرمی چوس کر زمین سے اٹھتے تو گھمن گھیریاں کھاتے آسمان تک پہنچتے۔ گندم کی کٹی فصل کی ناڑیاں، پرانے اخبار، پوھلی کے کٹے زرد خاردار جھاڑ، خشک پتے اور ٹہنیاں، کپڑوں کی غلیظ بوسیدہ دھجیاں اور چیل کوؤں کے مُردار پَر، جو بھی راستے میں آیا واورولوں نے پکڑا اور چکریاں دے کر آسمان پر چڑھا دیا۔ ہوا کا غصہ کم ہوا تو کثیف، مٹ میلے وسیاہی مائل بادل چاروں اور سے پہنچے اور گاؤں بھاگل پور پر چھا گئے ۔‘‘
اور پھر زمانہ بدلنے کے بعد ’’برگد‘‘ کے بکنے کا سفر اس قدر تکلیف دہ ہے کہ قاری کو اپنی آنکھوں سے خون رِستا صاف محسوس ہوتا ہے!
’’آخری گجرا‘‘ کے حرف حرف اور سطر سطر میں بظاہر پونے گنے کی ٹھنڈی میٹھی گنڈیریوں کی سی مٹھاس ہے۔ لیکن بین السطور ہمارے محنت کش طبقے کی روز مرہ زندگی سے جڑی درماندگیوں کی شدید کڑواہٹ ہے۔ محترم جاوید انور صاحب نے اس زندگی اور اس سے جڑے کرداروں کا نقشہ کچھ اس مہارت سے کھینچا ہے کہ یہ افسانہ کسی hyper realizm کے پیروکار، ایک مشّاق مصور کا شاہکار فن پارہ محسوس ہوتا ہے اور یہ تقریباً نا ممکن ہے کہ اس کو پڑھتے ہوئے قاری آنسوؤں کی ملاحت کا شکار نہ ہو۔ ’’آخری گجرا‘‘ میں لال گلاب اور سفید چمبیلی کی تازہ پتیوں کی ایسی بھینی بھینی مسحور کن خوشبو ہے جو مجھے یقین ہے کہ اسکو ایک بار پڑھنے کے بعد قاری کے ذہن سے کبھی محو یا معدوم نہیں ہو گی۔ یہ افسانہ نہیں، محترم جاوید انور کے مشاہداتی فن معراج اور پر کیف بیانیہ کی مدد سے تراشا ہوا ایک تاج محل ہے جس کا ذکر اردو کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ و جاوید رہے گا۔
افسانہ ’’نارسائی‘‘ پرانے ساز پر ایک بالکل نئی دھُن ہے جسے صرف جاوید انور صاحب جیسا موسیقار ہی ترتیب دے سکتا تھا۔ یہ افسانہ نہیں پرانی بیاض کے بوسیدہ صفحوں پر دھڑکتی ہوئی طویل نثری نظم ہے جسے کسی لازوال گیت کی طرح جتنی بار سنیں پہلی سماعت کا لطف انگڑائی لے کر نئے سرے سے بیدار ہو جاتا ہے اور نامعلوم وجوہات کی بِنا پر بے اختیار منیر نیازی کے شعری مجموعے کا عنوان ’’پہلی بات ہی آخری تھی‘‘ کا دھیان آتا ہے!
’’برگد‘‘ کی طرح ’’شیر‘‘ میں جاوید انور صاحب کے اندر کا ماہر Hyper realism portrait painter ایک بار پھر ایک ہی کینوس پر حسّو کے نقوش، اس کے گرد و پیش پر تعفن زندگی کے کچھار میں پڑے رہنے والے ’’شیروں‘‘ کی حقیقت پسندانہ تصویر کشی کرتے نظر آتا ہے!
’’بھٹی‘‘ کو بلا تامل احمد ندیم قاسمی کے سچے وارث کی کھری تحریر کہا جا سکتا ہے۔ اس کے اکثر جملے محمد علی ماشکی کے مشکیزہ کی طرح قاری کی پانچوں حِسّوں میں اتر کر ایسا مہمیز چھڑکاؤ کرتے ہیں کہ پڑھنے والے کی تسکین کا گویا ایک ایک مسام کھل جاتا ہے اور قرات کی زمین کا ایک ایک خشک حصہ سیراب ہو جاتا ہے :
’’محمد علی جب اپنے مشکیزے کا منہ گھڑوں کے منہ پر کھول کر پانی انڈیلتا تو دھارے سے مفرور پانی کے آوارہ قطرے یوں اچھل اچھل کر گھڑے میں داخل ہوتے جیسے موتی چمک کر، تھرک کر کسی غار میں گھستے چلے جا رہے ہوں!‘‘
مگر سچ تو یہ ہے کہ ’’بھٹی‘‘ لکھتے ہوئے جاوید انور صاحب نے آگ اور پانی، دو متضاد سماجی طبقات، سکھ اور دکھ کے درمیان ایک ایسی پر اثر اور پرسوز لکیر کھینچی ہے کہ آنے والے کئی برسوں تک لوگ انہیں ’’بھٹی‘‘ کا خالق کہہ کر یاد کریں گے!
’’کُشتی‘‘ پڑھ کر منٹو اور کرشن چندر کا بے ساختہ خیال آتا ہے، ’’بھِڑ‘‘ نوجوان نسل کی تساہل پسندی پر ایک روایت پسند کا سخت مگر بے ساختہ سٹیٹمنٹ ہے، ’’ڈیبیٹ‘‘ خزاں میں کسی سنبل کے پرانے درخت کی سوکھی ٹہنیوں سے لپٹا رومانس ہے جو اپنے بچھڑے ہوئے سرخ پھولوں کو یاد کرتا ہے، ’’غرض‘‘ ایک پرانی پہیلی پھر سے بوجھنے کی غرض سے لکھا گیا جس کے مطابق محبت پا لینے سے پہلے کبھی نہاں کبھی فغاں ہے، پا لینے کے بعد مسلسل امتحان ہے، ’’شارقہ‘‘ حقیقت کی کڑی دھُوپ میں جلی ہوئی دھنک ہے، ’’رائگانی‘‘ کھڑے پانی کی خوش فہمی ہے جو خود کو میٹھے پانی کی سرسراتی ندی سمجھتا ہے، ’’نہ خدا ہی ملا۔۔ ۔‘‘ بلند درخت کی سب سے اُونچی نازک ٹہنی پر اُلجھی کٹی پتنگ کی بِپتا ہے، ’’پِیر شناس‘‘ ایک بامعنی طویل قہقہہ ہے جس کی اساس در اصل ایک کرخت چیخ ہے، ’’دلہن‘‘ غربت کے چہرے پر معصومیت اور حسرت کا خوبصورت ترین میک اپ ہے، ’’راجہ‘‘ کم ظرف معاشرے کے اصل بادشاہوں کی سِمفونی ہے، ’’جست‘‘ فلسفۂ حیات کے اسرار اور پورے علم کی ادھوری حکایت ہے، ’’جشن‘‘ علامتی شب دیگ ہے، ’’رُوئے سخن‘‘ علامتی soliloquy کے بھیس میں ہر خود ساختہ دانشور کے گال پر ایک زناٹے دار تھپڑ ہے، ’’راطوطا صاحب‘‘ خوش گمانوں کو دی گئی ایک بامعنی اور مؤثر صدا ہے، ’’آخری بار‘‘ زندگی کو بار بار دیا گیا آخری موقعہ یا پھر غلط دھوکہ ہے، ’’آسانیاں‘‘ وہ مشکلیں ہیں جو ہم انسانوں نے بہت محنت سے پال رکھی ہیں، ’’گھر‘‘ خوف کے زرد ریپر(wrapper) میں میاں بیوی کے خوبصورت رشتے و تعلق کی مسلمہ خوش ذائقہ کینڈی ہے اور ’’آخری رات‘‘ میں وہ پہلی بات پھر سے دہرائی گئی ہے جسے ہم بار بار بھول جاتے ہیں!
’’برگد‘‘ جاوید انور صاحب کی شاعرانہ آگہی، عمیق فلسفے، گھاگ مشاہدے، عارفانہ دانش، قلمی گرفت، pastoral اور rustic عشق کا شاخسانہ ہے، یہ سحر انگیز کھلے دیہی منظروں کا آستانہ ہے اور سب سے بڑھ کر یہ گہرے تفکّر اور ارتکاز کا دولت خانہ ہے۔ جاوید انور صاحب نے اردو کی کلاسیکی روایتوں کے ارتقاء کو جس قدر خوبی سے نبھایا ہے بالکل اسی طرح اپنے قلم سے اختراع کو بھی اتنا ہی لبھایا ہے۔ میں ہمیشہ سچ کہتا ہوں، سچ کے سوا کبھی کچھ نہیں کہتا۔۔ ۔ میں تو سحر انگیز ’’برگد‘‘ کی گھنی چھاؤں تلے بیٹھ کر جاوید انور صاحب کے جادوئی قلم پر دل سے ایمان لے آیا ہوں!!!
محمود ظفر اقبال ہاشمی
۱۵ مارچ ۲۰۱۷ء