جاوید انور کے افسانوں میں زندگی مختلف سطحوں پر کروٹیں لیتی محسوس ہوتی ہے۔ یہ چھتنار برگد جیسی اونچی اور گھنی زندگی بھی ہے، جس کے گہرے سائے سے خوف اُمنڈتا ہے اور جسے کٹ کٹ کر آخر کار معدوم ہونا ہوتا ہے اور لاچاری کی جھونپڑیوں میں سسکتی کر لاتی زندگی بھی کہ جو کھوٹے پیسے کی طرح اپنی قدر کھو چکی ہے۔ یہ وہ گری پڑی زندگی بھی ہے کہ جس کی ضمانت کلائی پر بندھی گھڑی نہیں ہوا کرتی اور بچی ہوئی سوکھی روٹی، باس مارتے سالن اور پھٹی ہوئی شلوار جیسی بوسیدہ ہو جانے والی زندگی بھی، جس کے کلاوے سے کوئی نکلنا چاہے تو بھی نہیں نکل پاتا۔ زندگی کا ہر روپ ہر ہر سطح پر جاوید انور کا موضوع ہوا ہے۔ لطف یہ ہے کہ اس کتاب کے پہلے ’’برگد‘‘ سے لے کر آخری ’’آخری رات‘‘ تک ہم نارسائی کی مختلف جہتیں دیکھ رہے ہوں یا رائیگانی کی مختلف صورتیں، متن سے دور نہیں جاتے۔ دور جا ہی نہیں سکتے کہ جاوید انور کے قلم کا جادو کہیں تو لفظ لفظ کو بہشتی کی مشک سے بہتے پانی کے اچھلتے قطروں کی طرح تھرک تھرک کر چمکتے موتیوں جیسا بنا رہا ہوتا ہے اور کہیں متن کو اس غیر مرئی ہاتھ کا سا، جو پڑھنے والے کے دھیان کو ویران اُجڑی ہوئی حویلی جیسی زندگی سے نکال کر اپنے نرم نرم لمس کے طفیل بامعنی ارتفاع عطا کر دیتا ہے۔
جاوید انور کو اپنی بات کہانی میں ڈھال لینے اور اس کہانی کو سادہ واقعات کی کھتونی بنانے کی بجائے، لشٹم پشٹم گزرتی زندگی کی گہری علامت بنانے اور پھر اس علامت کو اپنے جادوئی بیانیے سے بھیدوں بھرا اَفسانہ بنا لینے کا ہنر آتا ہے۔ اگرچہ یہ جاوید انور کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ہے، مگر اِن کے افسانوں میں زبان و بیان کا جس خوبی سے استعمال ہوا ہے، جس چابکدستی سے سطروں کو قدرے سادہ مگر عمومی سطح سے بلند رکھ کر متن میں بُن لیا گیا ہے اور اپنی بات ہر حال میں کہہ ڈالنے کی بجائے اسے واقعات میں گوندھ کر جس طرح قاری کی حسوں پر پھوار کی صورت برسایا گیا ہے، یہ سب افسانہ نگار کے وسیع مطالعے اور زندگی کے گہرے مشاہدے کی خبر دیتا ہے اور پھر یہ ایسا قرینہ ہے کہ ایک عمر کی ریاضت کے بعد عطا ہوا کرتا ہے۔ ان افسانوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ قرینہ جاوید انور کو عطا ہوا ہے۔
محمد حمید شاہد
۲۸مارچ ۲۰۱۷