ہر روز افطاری کے وقت پاکیزہ جب دُعا کے لئیے ہاتھ اُٹھاتی تو روز اس کے ذہن میں ایک ہی بات گردش کرتی کہ پہلے وہ مُراد کے ساتھ اپنی خوشی مانگا کرتی تھی اور اب وہ مُراد کے بغیر اپنی خوشی مانگتی تھی۔ اب یہ سب روز کا معمول بن گیا تھا کہ مُراد پاکیزہ کو روز کال کرتا اور پاکیزہ روز اسے سمجھاتی کہ اسے اب یقین نہیں رہا کسی پہ۔ وہ کال نہ کیا کرے۔لیکن ایک بات بہت واضح تھی کہ پاکیزہ کی بے رُخی میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ پاکیزہ کے دل کو ایک اطمینان سا آنے لگا تھا لیکن مُراد کی خلِش اُسے بہت شدت سے محسوس ہوتی تھی۔
پاکیزہ کو اب یونیورسٹی میں بھی تین سال گزر چکے تھے اور آخری سال شروع ہو چکا تھا۔ اُن دنوں اس کی کلاس کو ایک فائنل پروجیکٹ ملنا تھا جس میں اچھے نمبر لینا بہت ضروری تھا کیونکہ اس کا اثر اس کی ڈگری پہ ہو سکتا تھا۔
سب کلاس میں بیٹھے پروفیسر کا انتظار کر رہے تھے۔ کچھ دیر بعد پروفیسر صاحب کلاس میں داخل ہوئے۔
“گُڈ مورننگ سٹوڈنٹس”
“گُڈ مورننگ سَر” سب طلباء بہت تر و تازہ انداز میں بولے۔
“آج میں پروجیکٹ کے لئیے تم سب کی گروپنگ کروں گا اور ہر گروپ میں صرف دو ہی سٹوڈنٹس ہوں گے۔ اگر آپ سب کوپریٹ کریں گے تو پروجیکٹ اچھا بن جائے گا۔
اب پروفیسر صاحب نے سب کے نام لے کر اُن کے گروپ بنانا شروع کر دئیے۔ کچھ لمحوں بعد پروفیسر صاحب نے پاکیزہ کا نام لیا تا کہ اس کے ساتھ بھی کسی کا گروپ بنا سکیں۔
“مِس پاکیزہ دانش۔۔۔ آپ۔۔ آپ اپنا پروجیکٹ ارزانش عالمگیر کے ساتھ کمپلیٹ کریں گی”
“لیکن سَر۔۔” پاکیزہ یہ سُنتے ہی ڈری ہوئی سی فوراً بولی تھی لیکن پروفیسر صاحب بات کاٹتے ہوئے بولنے لگے “آپ ارزانش کے ساتھ ہی پروجیکٹ مکمل کریں گی۔ مجھے پتا ہے کہ آپ کونفِڈنٹ نہیں ہیں اسی لئیے ارزانش آپکی کافی ہیلپ کر دے گا”
پاکیزہ یہ سُن کر خاموش ہو گئی۔ ارزانش پاکیزہ کی طرف دیکھنے لگا۔ جب پاکیزہ کی نظر ارزانش پر پڑی تو ارزانش تاثرات بدل کر اُسے چِڑاتے ہوئے ہنسنے لگا اور پاکیزہ غصّے میں آگئی۔ پروفیسر صاحب کے جاتے ہی ارزنش پاکیزہ کے پاس گیا اور کہنے لگا “تو پارٹنر! کب سے کام شروع کریں پھر؟”
پاکیزہ نے تیز نظروں سے اسکی طرف دیکھا۔ “پہلے تو یہ پارٹنر کہنا بند کریں آپ مجھے”
“ہائے اتنی ظالم نظروں سے مت دیکھا کرو” ارزانش نے اپنا ہاتھ دل پہ رکھتے ہوئے کہا تھا۔
“اگر آپ یہ سب کریں گے تو میں سچ میں اس بار آپکی کمپلین کر دوں گی”
“ایک تو غصّے میں بڑی جلدی آ جاتی ہیں۔ اب بچے کی جان لیں گی کیا”
“سَر کو بتانے کے بعد اس سب کی ضرورت نہیں پڑے گی” پاکیزہ سخت لہجے میں بول رہی تھی۔
“اچھا اتنا سیریس مت ہوں۔ اب نہیں کرتا مزاق”
“بہتر ہوگا آپ کے لئیے”
“فرینڈز؟” ارزانش نے ہاتھ پاکیزہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
“نیور ایون تھنک اِٹ اگین(Never even think it again)”
پاکیزہ نے یہ کہتے ہوئے اپنا بیگ پکڑا اور ارزانش کی دائیں جانب سے راستہ بناتے ہوئے چلی گئی۔
ارزانش کا دوست ارباب یہ سب دیکھ رہا تھا۔ پاکیزہ کے جانے کے بعد وہ ارزانش کے پاس آکر کہنے لگا “یار یہ لڑکی پاگل لگتی ہے۔ تو کیسے اس کے ساتھ اپنا پروجیکٹ کمپلیٹ کرے گا؟”
“ایسے نہیں کہتے کسی کو۔ وہ پاگل نہیں ریسرو ہیں بس۔ اور تو فکر نہ کر۔ پروجیکٹ تو میں بنا ہی لوں گا۔” ارزانش نے اپنا بازو ارباب کے کندھے پر رکھتے ہوئے کہا۔
“چلو دیکھتے ہیں کہ کیسے اس لڑکی کے ساتھ تو پروجیکٹ کمپلیٹ کرتا ہے”
پاکیزہ وہاں سے جاتے ہی سوچ میں پڑ گئی کہ اب وہ کیا کرے گی۔ اُس نے اپنی کالج کی سہیلی اقراء کو میسج کیا جس سے اکثر وہ بات کر لیا کرتی تھی۔
“ایک پروبلم ہے۔ سَر نے میرا گروپ ایک عجیب لڑکے کے ساتھ بنا دیا ہے جس کو مزاق کے علاوہ کچھ نہیں کرنا آتا”
اقراء نے میسج دیکھتے ہی ریپلائی کیا “کیسا گروپ”
“وہ فائنل پروجیکٹ بنانے کے لئیے سَر نے گروپ بنائے تو بس اسی کی بات کر رہی ہوں”
“ہاں تو بس اسے مجبوری سمجھ لو اور زیادہ بولے تو اِگنور کر دیا کرنا۔بس پروجیکٹ بننے تک برداشت کر لو اسے”
“بہت مشکل ہے یار۔ پتا نہیں کیا عجیب عجیب باتیں کرتا رہتا ہے”
“تو تم اسکی عجیب باتوں کو اِگنور کر دینا جیسے تم نے کچھ سُنا ہی نہ ہو”
“اچھا ٹھیک ہے۔ کوشش کروں گی۔ ویسے مشورے کے لئیے تھینک یو”
“مینشن نوٹ”
اگلے دن سے پاکیزہ اور ارزانش نے پروجیکٹ پر کام کرنا شروع کر دیا۔ پہلے پہل تو بہت مشکل تھا سب پاکیزہ کے لئیے۔ پھر آہستہ آہستہ اسے سمجھ آنے لگی کہ ارزانش دل کا بُرا نہیں ہے۔ اب وہ اُسے تھوڑا برداشت کرنے لگی تھی۔ ارزانش نے پاکیزہ کو اپنا نمبر دے دیا تھا تا کہ جب بھی ضرورت پڑے وہ اسے میسج یا کال کر سکے لیکن پاکیزہ میں بہت جِھجک تھی۔ ارزانش زیادہ وقت اپنے دوستوں کے ساتھ ہی گزارتا تھا اسی لئیے مجبوراً پاکیزہ کو بھی ارزانش کو بُلانے کے لئیے میسج کرنا پڑا۔
“Hey”
“کون؟”
“پاکیزہ”
“وہ میں نے یہ کہنے کے لئیے میسج کیا کہ آپ اب آجائیں تا کہ تھوڑا سا پروجیکٹ پر کونسنٹریٹ کر لیں”
ابھی پاکیزہ نے دوسرا میسج سینڈ ہی کیا تھا کہ ارزانش اس کے پاس آگیا۔
“آپ۔۔ اتنی جلدی۔۔ ابھی تو میسج کیا تھا آپکو”
“جب آپکا نام دیکھا تو سمجھ گیا تھا کہ کیا کہنا ہوگا”
پاکیزہ کو ارزانش کا ایسے عجیب سا برتاؤ کبھی کبھی بہت حیران کر دیتا تھا۔
“اب ایسے کیا دیکھ رہی ہیں؟” ارزانش نے پاکیزہ کی آنکھوں کے آگے چُٹکی بجاتے ہوئے کہا۔
“کچھ نہیں”
“ویسے آج تو مجھے کچھ بانٹنا چایئے”
“کیوں”
“آخر آپ نے میسج کر ہی دیا مجھے”
“ہاں وہ دن کم رہ گئے ہیں بس اسی لئیے سوچا کمپلیٹ کر لیں۔”
ان کو پروجیکٹ بنانے کے لئیے دو ہفتے ملے تھے اور آٹھ دن گزر چکے تھے۔ اگلے دن پاکیزہ ابھی یونیورسٹی سے آکر نقاب اور عبایا اُتار کر بیٹھی ہی تھی کہ دروازے کی گھنٹی بجی۔
پاکیزہ اُٹھ کر دروازہ کھولنے کے لئیے گئی۔
“کون؟”
دوسری طرف گہری خاموشی تھی ۔
پاکیزہ نے دوسری دفع پوچھا لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔ دروازے کی گھنٹی دوبارہ بجی۔ پاکیزہ نے دروازہ کھول دیا۔ سامنے ارزانش کھڑا تھا۔ پاکیزہ اسے اپنے گھر میں دیکھ کر چونک سی گئی۔ ارزانش پاکیزہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے دیکھے جا رہا تھا اور ساکن سا ہو گیا تھا۔ پاکیزہ نے اپنی نظریں جھکا لیں۔
“آپ۔۔ یہاں۔۔”
“آپ۔۔ میں۔۔ پاکیزہ۔۔ ” ارزانش اب اپنے ہواس میں نہیں تھا۔ وہ بوکھلایا ہوا سا بول رہا تھا۔
“آپ یہاں پہ کیا کر رہے ہیں؟ آپ مجھے فولو کر رہے تھے کیا؟ ایسی کوئی پرمِشن نہیں دی تھی میں نے آپکو”
“نہیں۔۔۔ وہ۔۔ میں آپ کو فولو نہیں کر رہا تھا۔ آپکی بُکس رہ گئی تھیں تو میں نے سوچا دے دوں۔ آپ کو ضرورت ہوگی” ارزانش اپنے ہواس بحال کرتے ہوئے بولا۔
“لیکن۔۔ آپکو میرے گھر کا ایڈریس دیا کس نے؟”
“وہ میں نے لاریب سے پوچھا تھا تو اُس نے بتایا مجھے”
“ویسے اس کو بتانا نہیں چاہئیے تھا”
“آپ۔۔ پاکیزہ ہی ہیں نا”
“اس سے آپ کو مطلب نہیں ہونا چاہئیے۔ اب جا سکتے ہیں آپ” پاکیزہ ارزانش کے ہاتھوں سے کتابیں پکڑتے ہوئے بولی۔
اتنے مں پاکیزہ کی امی آگئیں۔ “کون ہے پاکیزہ؟”
“ماما۔۔ وہ۔۔”
“السلام علیکم آنٹی” ارزانش نے پاکیزہ کی امی کو دیکھتے ہی سلام کیا۔
“وعلیکم السلام بیٹا”
“ماما یہ میرے کلاس فیلو ہیں اور ان کے ساتھ ہی میں اپنا پروجیکٹ کمپلیٹ کر رہی ہوں” پاکیزہ اپنی امی کی سوالیہ نظریں دیکھ کر ارزانش سے متعارف کروانے لگی۔
“باہر کیوں کھڑے ہو۔ اندر آجاؤ بیٹا۔”
نہیں ماما بس وہ جا رہے ہیں۔ انکو کہیں جانا ہے اسی لئیے جلدی میں ہیں”
ارزانش یہ سُن کر پاکیزہ کے قریب آکر آہستہ آواز میں کہنے لگا “جھوٹ بھی بول لیتی ہیں آپ”
پاکیزہ نے ارزانش کو غصّے بھری نگاہوں سے دیکھا۔
“کچھ نہیں ہوتا۔ کچھ دیر بیٹھ جاؤ۔ کھانا کھا کر چلے جانا۔”
“نہیں آنٹی نیکسٹ ٹائم ضرور آؤں گا۔ ابھی نہیں گیا تو آپکی بیٹی اور زیادہ غصّے سے دیکھے گی مجھے”
پاکیزہ کی امی ہنسنے لگیں اور ارزانش خدا حافظ کہہ کر چلا گیا۔
پاکیزہ کی امی کُھلی اور مثبت ذہنیت کی مالک تھیں اسی لئیے ان کو ارزانش کا گھر آنا بالکل بُرا نہیں لگا تھا۔ بلکہ وہ تو خود چاہتی تھیں کہ پاکیزہ کا دھیان کسی اور طرف جائے تا کہ اس کے چہرے پہ مُسکراہٹ آسکے۔ انہوں نے ارزانش کو دیکھا تو وہ اُن کو اچھا لڑکا لگا۔
اب ارزانش کا پاکیزہ کے گھر آنا جانا زیادہ ہو گیا تھا کیونکہ ارزانش کی خوش اخلاقی نے پاکیزہ کے گھر والوں اور خاص طور پر اس کی امی کو بہت متاثر کیا تھا اور اس کی امی ارزانش کو اپنا بیٹا ماننے لگی تھیں۔
اسی طرح دو ہفتے بھی گزر گئے اور پاکیزہ اور ارزانش کا پروجیکٹ بھی مکمل ہو گیا۔ اب بس اُس پروجیکٹ کو پروفیسر صاحب کو دکھانا باقی رہ گیا تھا۔
سب طلباء نے اپنے اپنے پروجیکٹ پیش کئیے۔ پروفیسر صاحب کو سب کے پروجیکٹ پسند آئے لیکن ایک پروجیکٹ ان کو سب سے زیادہ پسند آیا۔
“مجھے بالکل اُمید نہیں تھی لیکن مِس پاکیزہ دانش اور مِسٹر ارزانش عالمگیر کا پروجیکٹ سب سے اچھا بنا ہے۔ ویل ڈَن” پروفیسر صاحب نے بہت خوشی کے ساتھ یہ بات کہی تھی۔ اُن کے پروجیکٹ کی تعریف کے ساتھ ساتھ اس کو بیسٹ پروجیکٹ کا ٹائٹل بھی دیا گیا۔ ارزانش اور پاکیزہ کے چہرے کِھل اُٹھے تھے اور ارزنش پاکیزہ کی طرف ایسے دیکھ رہا تھا جیسے اسے فتح نصیب ہوئی ہو۔ ارباب ارزانش کو کہنی مار کر کہنے لگا “آخر تو نے پروجیکٹ بنا ہی لیا”
“بس دیکھ لے۔ تیرا دوست ہے ہی بہت ٹیلنٹڈ۔” ارزانش کے چہرے پر ایک پُر اطمینان مُسکراہٹ تھی۔
________
پاکیزہ اُس دن بہت خوش تھی۔ پروفیسر صاحب کے جانے کے بعد ارزانش پاکیزہ کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا اور پاکیزہ کے ساتھ بیٹھی لاریب سے مخاطب ہو کر کہنے لگا۔ “ویسے لاریب اپنی دوست کو کہو کہ اب تھینک یو کی ضرورت نہیں۔ یہ تو میرا فرض تھا” وہ کہکہا لگا کر بولا تھا۔
پاکیزہ نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور خاموش بیٹھی رہی۔
“چلو کوئی نہیں۔ کبھی تو تمہاری دوست ہمیں اچھا سمجھ ہی لے گی”
لاریب ارزانش کی باتوں پہ مُسکرائے جا رہی تھی۔ پاکیزہ نے گھر جاتے ہی اپنی امی کو بتایا۔ پاکیزہ کو خوش دیکھ کر اس کی امی بھی بہت خوش تھیں۔ پاکیزہ کی امی نے اسے ارزانش کا شکریہ ادا کرنے کا کہا۔ کچھ دیر بعد پاکیزہ نے ارزانش کو میسج کیا “تھینک یو فور یور ہیلپ”
ابھی پاکیزہ نے میسج کیا ہی تھا کہ تین سے چار سیکنڈ کے اندر اندر ارزانش کا ریپلائی آگیا “تو آپ نے تھینکس کہہ ہی دیا آخر”
“آپ ڈیسرو(Deserve) کرتے ہیں اسی لئیے کہا”
“واہ! فائنلی کچھ تو ایڈمِٹ کیا آپ نے”
“بولتے بہت ہیں آپ”
“ہاہاہاہا۔ اچھا اب تو فرینڈ بن جائیں”
“نہیں مجھے نہیں پسند فرینڈز بنانا”
“دیکھیں یہ آفر محدود مُدت کے لئیے ہے۔ اب پلیز مان جائیں نا”
“فورس نہ کریں”
“ماما کی خاطر ہی مان جائیں نا۔ میں زیادہ بولوں گا بھی نہیں اور تنگ بھی نہیں کروں گا”
“اچھا ٹھیک ہے لیکن دور ہی رہئیے گا”
“کہتی ہیں تو نظر ہی نہ آؤں”
“نہیں اب ایسا بھی نہیں کہا میں نے” پاکیزہ کا چہرہ بہت دنوں بعد کِھلکِھلا اُٹھا تھا۔
وہ سارا دن بہت اچھے سے گزرا۔ رات ہوتے ہی مُراد کی کال آنے لگی۔ پاکیزہ نے کال ریسیو کر لی اور اس بار بہت خوش مزاجی سے بولی تھی۔
“السلام علیکم”
“وعلیکم السلام! کیسی ہو؟”
“میں بالکل ٹھیک۔ آپ کیسے ہیں؟”
“میں بھی ٹھیک۔ خیر ہے؟ آج بہت خوش لگ رہی ہو”
“جی خیر ہی ہے۔ کبھی کبھی انسان کو خوش بھی رہ لینا چاہئیے۔ بس اسی لئیے خوش ہوں”
“اچھی بات ہے۔ لیکن مجھے تو تم نے اُداس ہی چھوڑ دیا ہے”
“میں نے؟ مُراد میں نے تو کچھ نہیں کیا اب”
“اتنا کچھ کر کے بھی کہہ رہی ہو کہ کچھ نہیں کیا تم نے۔”
“کِیا کیا ہے آخر میں نے؟”
“تم واپس کیوں نہیں آجاتی پاکیزہ؟”
“اب ایسا نہیں ہو سکتا مُراد”
“لیکن کیوں؟ تمہیں کبھی پیار نہیں تھا کیا مجھ سے؟”
“یہ بات آپ اب بھی مجھ سے پوچھ رہے ہیں؟ آپکو نظر نہیں آیا کبھی میرا پیار؟”
“تو اب کہاں گیا؟ کہاں گیا تمہارا پیار؟”
“میں کہتی تھی نا مُراد کہ اگر کوئی ایک دفع میرے دل سے اُتر جائے تو وہ مجھ سے بہت دور ہو جاتا ہے۔ آپ میرے دل سے اُتر گئے ہیں مُراد” اب پاکیزہ کی آنکھوں میں نمی آنے لگی تھی۔
“لیکن ایسا کیسے ہو گیا پاکیزہ؟ مُراد تمہارے دل سے کیسے اُتر سکتا ہے؟”
“مجھے خود نہیں معلوم کہ یہ کیسے ہو گیا لیکن یہی سچ ہے”
“اگر تم نے کبھی پیار کیا تھا تو تمہیں اسکا واسطہ۔ مجھے چھوڑ کر مت جاؤ”
“یہ سب مت کہیں پلیز”
“تو اور کیا کروں یار؟ اب مجھ سے کوئی میرا حال نہیں پوچھتا۔ کوئی مجھے نہیں کہتا کہ ٹائم پہ میڈیسنز کھا لینا۔ کوئی میرا خیال نہیں رکھتا۔ کوئی رات کو سونے سے پہلے مجھ سے یہ نہیں پوچھتا کہ دودھ پِیا یا نہیں”
یہ سب باتیں سُن کر پاکیزہ بہت افسُردہ ہو گئی تھی اور اس کے اندر جذبات کا ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا تھا جو اس کی خود کی ذات سے بغاوت کرنے کے لئیے تیار تھا۔
“پتا ہے جب کوئی ہماری زندگی میں آتا ہے تو ہم اس کو بھول سے جاتے ہیں۔ سوچتے ہیں یہ تو ہمارے پاس ہی ہے۔ اس نے کہاں جانا ہے۔ اس کی ناقدری کرتے ہیں۔ لیکن جب وہ دور چلا جاتا ہے تو پہلے پہل ہماری زندگی معمول کے مطابق چلتی رہتی ہے لیکن بعد میں ہم اُداس ہو جاتے ہیں۔ اُس کے واپس آنے کی دُعائیں کرتے ہیں۔ اس انسان کی قدر اس کے جانے کے بعد ہوتی ہے ہمیں۔ لیکن تب تک تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ وہ دور جا چکا ہوتا ہے۔ بہت دور!”
اب مُراد کی آواز پہلے سے بھی زیادہ دھیمی ہو گئی تھی۔ “مطلب اب تم واپس نہیں آؤ گی”
“چاہ کے بھی نہیں”
“لیکن میں تمہارا انتظار کروں گا۔ تب تک جب تک تم شادی نہیں کر لیتی کسی اور سے”
“آپ انتظار مت کیجئیے۔ اپنی لائف انجوائے کریں۔ کسی اور کو موقع دیں”
“ایسا نہیں ہو سکتا۔ تمہارے بغیر میں کبھی لائف انجوائے نہیں کر سکتا”
“کر سکتے ہیں آپ۔ جب اتنا عرصہ دور رہے تو یہ بھی کر سکتے ہیں آپ۔”
“ٹھیک ہے پاکیزہ۔ اب تنگ نہیں کروں گا لیکن یاد رکھنا کہ جو تم نے میرے ساتھ کیا وہ تمہارے ساتھ بھی ضرور ہوگا”
پاکیزہ یہ بات سُن کر سُن سی ہو گئی تھی اور اب اس کا سر درد سے پھٹنے لگا تھا۔
“کیا کہہ رہے ہیں؟ بد دُعا دے رہے ہیں آپ؟”
“بد دُعا نہیں۔ بس بتا رہا ہوں کہ یہ دنیا مقافاتِ عمل ہے”
“ایسا کیسے کہہ سکتے ہیں مُراد آپ؟”
یہ سُن کر مُراد نے کال کاٹ دی اور پاکیزہ ساکن سی ہو گئی۔ وہ سوچے جا رہی تھی کہ مُراد نے کیا کہا ہے اور آخر وہ ایسا کیسے کہہ سکتا ہے۔ اس کی خوشی کچھ ہی منٹ میں بالکل غائب ہو گئی تھی۔ کئی دن تک یہ بات پاکیزہ کو اندر ہی اندر زہر کی طرح گھولے جا رہی تھی۔ وہ کچھ دن تک یونیورسٹی بھی نہیں گئی۔ ارزانش نے پاکیزہ کو کافی میسج کئیے لیکن پاکیزہ نے کسی ایک بھی بات کا جواب نہیں دیا۔ چار دن گزر گئے تھے اور پاکیزہ کا کچھ پتہ نہیں تھا۔ آخر پانچویں دن ارزانش پاکیزہ کے گھر آگیا۔
“السلام علیکم انٹی جی”
“وعلیکم السلام! کیسے ہو بیٹا؟”
“اللہ کا شکر ہے آنٹی جی۔ آپ کیسی ہیں؟”
“میں بھی ٹھیک ہوں”
“آنٹی جی پاکیزہ کہاں ہے؟”
“وہ اپنے روم میں ہے اور اتنے دن سے کچھ کھا پی بھی نہیں رہی”
“آپ پلیز بُلا دیں پاکیزہ کو”
“ہاں بیٹا میں بلاتی ہوں اسے”
پاکیزہ کی امی اس کے کمرے میں گئیں تو پاکیزہ کہیں سوچوں میں گُم بیٹھی تھی۔ اس کے آگے ایک کتاب کھلی تھی جو شاید اس نے پڑھنے کی غرض سے کھولی تھی لیکن دل اس بات پہ متفق نہ ہوا تو وہ کہیں سوچوں میں غرق ہو گئی۔
“پاکیزہ! ارزانش آیا ہے نیچے۔ بُلا رہا ہے تمہیں”
“ماما مجھے نہیں ملنا کسی سے۔ آپ پلیز انہیں کہہ دیں کہ میں سو رہی ہوں۔” پاکیزہ چڑچڑی سی ہو کر بولی تھی۔
“یہ غلط بات ہے بیٹا۔ جا کر اس سے پوچھ تو لو کہ کیوں آیا ہے۔ شاید تم سے کوئی ضروری کام ہو۔”
“مجھ سےکیا کام ہو سکتا ہے کسی کو”
“یہ تو تم خود جا کر پوچھ لو”
“اچھا اچھا جاتی ہوں”
پاکیزہ نے اُٹھ کر دوپٹہ پکڑا۔ خود کو دوپٹے میں لپیٹ کر نیچے چلی گئی۔
“السلام علیکم” ارزانش پاکیزہ کو دیکھ کر کھڑا ہو گیا اور پرُجوش ہو کر بولا۔
پاکیزہ نے تھکی ہوئی آواز میں سلام کا جواب دیا
“وعلیکم السلام”
“آپ یونیورسٹی کیوں نہیں آرہیں؟”
“بس ایسے ہی دل نہیں کر رہا تھا۔ کوئی خاص وجہ نہیں ہے۔ کوئی کام تھا آپکو؟”
“نہیں وہ۔۔ آپ ایک ریگولر سٹوڈنٹ ہیں اور اچانک سے اتنے دن سے غائب ہیں۔ کسی میسج کا ریپلائی بھی نہیں کر رہیں۔ یہاں پاس سے گزر رہا تھا تو سوچا پوچھ لوں کہ طبیعت تو ٹھیک ہے نا”
“تھینک یو فور کَمِنگ بَٹ آپ اتنا سوچا مت کریں۔ میرا بس کبھی کبھی اپنی مرضی چلانے کا زیادہ دل کرتا ہے”
“آپکی شکل دیکھ کر تو ایسا نہیں لگتا” ارزانش منہ میں بڑبڑایا تھا۔
“کچھ کہا آپ نے؟”
“نہیں وہ میں کہہ رہا تھا کہ کبھی کبھی یا ہمیشہ ہی؟” ارزانش یہ کہہ کر پھر سے ایک دفع کِھلکِھلا کے ہنسا تھا۔<
“آپ نے پھر سے مذاق شروع کر دیا”
“سوری سوری بس ایسے ہی کہہ رہا تھا۔ سوچا شاید ہنس ہی پڑیں لیکن آپ کے چہرے کے تاثرات واقعی اپنی مرضی کے بڑے پَکّے ہیں۔”
اتنے میں پاکیزہ کا چھوٹا بھائی عبداللہ آگیا اور ارزانش اس کی طرف متوجہ ہو گیا۔
“کیسے ہو بَڈی(Buddy)”
ارزانش نے ہوا میں ہاتھ اُٹھاتے ہوئے کہا تھا۔
“میں ٹھیک ہوں۔ آپ کیسے ہیں بھائی؟” عبداللہ نے ارزانش کے ہاتھ پہ ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔”
“میں بالکل فِٹ دوست”
ارزانش اور عبداللہ ایسے بات کر رہے تھے جیسے وہ ایک دوسرے کو کئی سالوں سے جانتے ہوں۔ پاکیزہ یہ سب دیکھ کر چونک سی گئی تھی کیونکہ عبداللہ بہت ہی شرمیلا قسم کا بچا تھا اور بہت کم لوگوں سے ہی بات کیا کرتا تھا۔ ارزانش عبداللہ سے بات کر کے چلا گیا۔
“عبداللہ تم پہلے سے انہیں جانتے ہو کیا؟” پاکیزہ نے عبداللہ کے اس طرح بات کرنے کی وجہ جاننے کے لئیے پوچھا۔
“نہیں آپی بس اس دن گھر آئے تھے تب میرے فرینڈ بن گئے تھے”
“اچھا ٹھیک ہے لیکن ذیادہ فرینک ہونے کی ضرورت نہیں ہے”
“ٹھیک ہے آپی”
کچھ دن تک پاکیزہ بہت حد تک سنبھل گئی۔ مُراد کے کہے الفاظ اُسے ان دونوں کے رشتے کی بربادی کی آخری سیڑھی لگ رہے تھے جو مُراد پار کر چکا تھا۔ پاکیزہ کی دُعائیں کہیں نہ کہیں اپنا اثر دکھا رہی تھیں کیونکہ مُراد کو سمجھنا ناممکن تھا۔ وہ چاہتا کچھ تھا اور کرتا کچھ اور ہی تھا لیکن پاکیزہ ہر وقت یہی سوچتی تھی کہ شاید کہیں نہ کہیں سب اس کی وجہ سے ہی ہوا ہے۔ ہر بات پہ خود کو قصور وار ٹھہراتی تھی۔ اسے کبھی یہ بات سمجھ نہیں آئی تھی کہ مُراد اس سے پیار کرتا بھی تھا یا نہیں اور مُراد کے آخری الفاظ بھی پاکیزہ کے کانوں میں گونجتے رہتے تھے۔ یہ بات تو واضح تھی کہ اگر پاکیزہ مُراد کے ساتھ رہتی تو اس کی خواہشات اور اس کے جذبات کی بہت بُری موت واقع ہوتی۔ اس کے احساسات گُھٹن کے مارے اپنا دم توڑ دیتے۔
عید سے کچھ دن پہلے مِسںز دانش کے بار بار کہنے پر پاکیزہ ان کے ساتھ بازار چلی گئی۔ وہاں پہ کچھ خریداری کے بعد پاکیزہ جب اپنے لئیے کپڑے لینے لگی تو اس نے کالے رنگ کا جوڑا پسند کیا۔اچانک اس کا موبائل وائیبریٹ ہونے لگا۔ اس نے موبائل دیکھا تو ارزانش کا میسج تھا۔ پاکیزہ نے میسج پڑھنے کے لئیے موبائل کا کال کھولا اور میسج پڑھنے لگی جو کہ یہ تھا کہ “Killing someone on sacred day of Eid is not good ma’am”
پاکیزہ میسج پڑھ کر حیران سی ہو گئی اور اپنے ارد گرد دیکھنے لگی لیکن اسے ارزانش کہیں نظر نہیں آیا۔ اس نے اس میسج سے بے پرواہ ہو کر دوبارہ شاپنگ شروع کر دی۔
رمضان کا مہینہ گزر چکا تھا اور چاند رات پہ گھر میں سب لوگ عید کی وجہ سے بہت خوش تھے۔ لیکن پاکیزہ نے نہ تو ابھی تک مہندی لگوائی تھی اور نہ ہی وہ خوش نظر آ رہی تھی حالانکہ پاکیزہ کو مہندی لگوانا بہت پسند تھا۔ اُسے خود تو لگانی نہیں آتی تھی البتہ اپنی کسی سہیلی یا کزن سے لگوا لیا کرتی تھی اور عید کے علاوہ عام دنوں میں بھی اس کے ہاتھ مہندی سے رنگے نظر آتے تھے۔ پاکیزہ اپنے کمرے میں بیٹھی تھی کہ اس کی ملازمہ امبر اس کے کمرے میں آکر کہنے لگی “آپا آپ کو آپ کے بابا بُلا رہے ہیں”
“اس وقت؟ کیا کہنا ہے بابا جان نے؟”
“یہ تو مجھے نہیں پتا۔ انہوں نے کہا کہ آپکو بُلا دوں تو بس بُلانے آگئی”
“کہاں ہیں بابا اس وقت؟”
“سٹَڈی روم میں بیٹھے ہیں”
“ٹھیک ہے تم جاؤ میں آ رہی ہوں”
مِسٹر دانش بہت نرم مزاج آدمی تھے اور اپنی بیٹی سے بہت پیار کرتے تھے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...