“ایک نئی زندگی مبارک ہو۔۔۔اسحاق صاحب نے آنکھیں کھولتے ہوئے پرمسرت لہجے میں کہا۔۔۔”
“اللہ اپنی بات پر قائم رہتا ہے۔۔اس نے وعدہ کیا تھا کہ مجھ سے مانگو میں تمہیں عطا کرونگا۔۔۔ماہا نے اللہ سے نینا کے لیے ایمان مانگا تھا اس کو سیدھی راہ پر لانے کی دعا مانگی تھی اور آج اللہ نے اس کی دعا سن لی تھی۔۔ہر دعا کا مقرر وقت ہے اور وہ اسی وقت پر قبول ہوتی ہے۔۔کوئی بھی دعا اللہ رد نہیں کرتا بس انسان کو صحیح وقت کا انتظار کرنا چاہیے بےشک وہ دعاؤں کو قبول کرنے والا ہے۔۔”
“شکریہ۔۔۔وہ نم آنکھوں سے مسکرا رہی تھی۔۔”
“کلمہ پڑھتے ہوئے جو سکون اسے نصیب ہوا تھا نا اسے لگا یہ وہی سکون ہے جس کے لیے وہ اتنے سال ترستی آرہی تھی۔۔۔خوشی سے اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔۔۔اگر کوئی اس وقت اس سے پوچھتا کہ سکون کیسے پایا جاتا ہے تو یقیناً وہ کلمہ پڑھنے لگتی۔۔۔”
“میں نے کہا تھا نا تم سے کہ انسان کا سفر اللہ سے شروع ہے اور اللہ پر ہی ختم ہے۔۔دیکھو تمہارا سفر اللہ کی تلاش سے شروع تھا اور اسی پر آکر ختم ہوگیا۔۔۔یہ کلمہ اس بات کی گواہی ہے کہ تم نے اپنی منزل پالی۔۔۔ان گمراہیوں سے بھرے راستے سے ان اندھیروں بھری راہوں سے نکلنے کے لیے اللہ نے تمہیں نور جیسی روشنی سے نوازا ہے۔۔یہ نور تمہیں اندر ہے تمہارے دل میں تمہیں روح میں تمہارے ضمیر میں جو تمہیں اللہ کی طرف جانے کا راستہ دیکھاتا رہا ہے۔۔۔یہ سب اللہ کی مرضی سے ہوتا آرہا ہے۔۔۔اس لیے آج سے تمہارا نام نور ہے نور العین۔۔۔اسحاق صاحب نے مسکراتے ہوئے اس کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ پھیرا۔۔۔”
“نینا نم آنکھوں سے مسکرا دی۔۔۔اس کے پاس لفظ نہیں تھے وہ کن لفظوں میں اللہ کا شکر ادا کرے کن لفظوں میں اسحاق صاحب کا شکر ادا کریں اور کن لفظوں میں وہ اپنی کفیت کو بیان کریں۔۔۔جو احساس وہ محسوس کررہی تھی وہ احساس بہت ہی خوبصورت اور نایاب تھا۔۔۔”
“نینا اس وقت کہاں سے آرہی ہو تم۔۔کہاں گئی تھیں اور ساری پینٹنگز کہاں ہیں۔۔۔؟؟
“نور کے گھر واپس آتے ہی پوجا سوالوں کی برسات شروع کردی۔۔۔”
“جہاں انہیں ہونا چاہیے تھا۔۔۔نور کا چہرہ ہر تاثر سے پاک تھا۔۔۔”
“لیکن کہاں۔۔۔؟
“پوجا نے تعجب سے پوچھا۔۔۔”
“میں نے وہ اب پینٹنگز جلا دی ہیں۔۔۔نور اطمینان سے کہتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔۔”
“کی۔۔کیا مطلب۔۔جلا دی۔۔تمہارس دماغ تو ٹھیک ہے نا کیا ہوتا جارہا ہے تمہیں۔۔۔پوجا صدمے کی حالت میں بولتی ہوئی اس کے پیچھے کمرے میں آگئی۔۔۔”
“ٹھیک ہوں میں اور دماغ بھی اب ٹھیک ہوچکا ہے جبھی ایسا کیا ہے اور بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے۔۔۔اس کے اطمینان میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آیا تھا۔۔”
“مگر کیوں۔۔۔؟
“پوجا نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے پوچھا۔۔۔”
“اگر میں ایسا نہیں کرتی تو ایک دن اس آگ میں وہ نہیں میں ہوتی۔۔اور میں ایسا ہرگز نہیں چاہتی۔۔۔نور نے رک کر اسے دیکھا۔۔۔”
“کیا بہکی بہکی باتیں کررہی ہو تم۔۔۔پوجا قدرے حیرانی سے بولی۔۔۔”
“تم نہیں سمجھو گی ابھی صبر رکھو آہستہ آہستہ سب سمجھ آجائے گا۔۔۔نور کھڑکی کے پاس جا کر کھڑی ہوگئی۔۔”
“کچھ پل پوجا اسے یونہی بےیقینی کے عالم میں دیکھتی رہی اور پھر کمرے سے نکل گئی۔۔۔”
“اگلے دن وہ دونوں یونیورسٹی سے ساتھ واپس آرہے تھے جب نین نے اسے مخاطب کیا۔۔۔۔”
“مجھے خوشی ہوئی کہ تم نے اپنے دل کی سنی اور صحیح راستے کا انتخاب کیا۔۔۔نین نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔”
“ہمم لیکن مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔نور بولی۔۔۔”
“کس سے اور کیوں۔۔.؟
“نین نے رک کر قدرے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔۔۔”
“ڈیڈ سے، اگر انہیں علم ہوا اس بات کا تو نجانے وہ کیسا ری ایکٹ کریں گے۔۔۔نور پریشانی سے بولی۔۔”
“نور تم نے اللہ کے اپنا سب قربان کیا ہے اور اللہ تمہاری اس قربانی کو رائیگاں نہیں جانے دے گا بس تم قائم رہنا اسلام پر۔۔اللہ تمہارے ساتھ ہے تمہیں کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں اور اللہ کے سوا کسی کا خوف اپنے سے میں مت رکھنا۔۔تمہیں یاد ہے حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا واقعہ کس طرح ان پر ظلم ڈھائے گئے تھے مگر وہ قائم رہے اور آج ان کا کیا رتبہ ہے یہ بھی تم جانتی ہوں اسی طرح بی بی آسیہ اللہ پر ایمان لائیں تو فرعون نے ان پر بہت ظلم کیا مگر وہ ظلم برداشت کرتی رہیں فرعون نے طرح طرح کے ظلم کیے انہوں شدید تکلیف پہنچائی انہیں مگر وہ قائم رہیں اور اللہ کی نظر سرخرو ہوگئی۔۔۔تمہیں بھی بس قائم رہنا ہے اللہ پر اس کے رسول پر اس کے کلمے۔۔۔یہ بات ذہن میں رکھنا کہ اللہ تمہاری قربانی کو کچھی رائیگاں نہیں جانے دے گا تم جب اس سے مدد چاہو گی وہ کرے گا۔۔۔ذوالقرنین رسںانیت سے بولا۔۔”
“نور خاموشی سے سر ہلانے لگی۔۔۔”
“انکل پتہ نہیں اسے کیا ہوا ہے مجھے تو سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔۔۔آپ جانتے ہیں اس نے اپنی پینٹگز تک جلا دی ہیں۔۔پوجا پریشانی سے بولی۔۔۔”
“نہیں بیٹا وہ مزاق کررہی ہوگی بس تم سے ورنہ تم تو جانتی ہو پینٹگز اس کا عشق ہے وہ انہیں کیسے جلا سکتی ہے۔۔۔ویشال صاحب ہولے سے مسکرائے۔۔”
“انکل پہلے مجھے بھی لگا تھا کہ وہ شاید مزاق کررہی ہے مگر ایسا نہیں ہے اس نے سچ میں ایسا کیا ہے اور دن بہ دن عجیب ہوتی جارہی ہے۔۔۔آج بھی میرے ساتھ یونیورسٹی سے واپس نہیں آئی ہے وہ نجانے کہاں ہوتی ہے کس کے ساتھ ہوتی ہے میرے تو کچھ سمجھ نہیں آتا۔۔یونیورسٹی سے واپس آکر وہ باہر چلی جاتی ہے اور آپ جانتے ہیں اس نے اسکارف اوڑھنا شروع کردیا تھا کچھ دن پہلے اور اب ! اب وہ چادر اوڑھنے لگی ہے۔۔نہ وہ اسٹائلش کپڑے پہنتی ہے نہ کچھ اور پتہ نہیں کیا ہوتا جارہا ہے۔۔پوجا تفصیل سے بولی۔۔”
“کب آتی ہے وہ۔۔۔؟
“ویشال صاحب اس بار سنجیدگی سے بولے۔۔۔”
“جب اس کا دل کرتا ہے۔۔۔پوجا نے شانے اچکائے۔۔۔”
“ڈیڈ آپ یہاں۔۔آپ کب آئے۔۔۔؟؟
“نور نے ویشال صاحب کو دیکھ کر قدرے حیرانی سے پوچھا۔۔۔”
“بس کچھ دیر پہلے ہی آیا ہوں۔۔۔کیسی ہو تم۔۔۔؟
“ویشال صاحب نے اس کی آواز پر سر اٹھا کر اسے دیکھا جو ایک کالے رنگ کی چادر کو اپنے گرد لپیٹے ہوئے تھی۔۔۔”
“میں بلکل ٹھیک ہوں آپ سنائیں آپ کیسے ہیں اور ماما کیسی ہیں۔۔وہ نہیں آئیں آپ کے ساتھ۔۔۔؟
“نور آگے بڑھتے ہوئے بولی۔۔۔”
“میں ٹھیک ہوں۔۔مگر تمہیں کیا ہوا ہے یہ کیا حالت بنا رکھی ہے تم نے اپنی۔۔وہ خفگی سے بولے۔۔۔”
“پہلے انہوں پوجا کی بات پر یقین نہیں آرہا تھا مگر جب خود انہوں نے اسے دیکھا تو حیران رہ گئے۔۔”
“میں بلکل ٹھیک ہوں ڈیڈ اور میری حالت کو کیا ہوا ہے۔۔۔نور ہولے سے ہنسی۔۔”
“نینا تمہیں کیا ہوا ہے بیٹا۔۔۔یہ کیا حلیہ بنایا ہوا ہے اور پوجا بتا رہی ہے کہ تم نے اپنی پینٹگز جلا دی ہیں۔۔۔کیا یہ سچ ہے۔۔۔؟
“وہ اب اسے پوچھ رہے تھے۔۔۔”
“جی سچ ہے۔۔۔نور نے اپنا بیگ صوفے پر رکھا۔۔”
“مگر کیوں۔۔۔۔؟
“انہوں نے تعجب سے پوچھا۔۔”
“یہ بھی آپ پوجا سے پوچھ لیں اس کا بتایا تھا میں نے۔۔۔نور نے پوجا کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔”
“میں تمہارے منہ سے سننا چاہتا ہوں۔۔ویشال صاحب سنجیدگی سے بولے۔۔۔”
“کیونکہ۔۔۔۔اللہ کو یہ کام پسند نہیں۔۔۔نور کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد بولی۔۔۔”
“کیا کہا تم نے پھر سے کہنا۔۔۔ویشال صاحب کو لگا انہوں نے غلط سنا ہے۔۔۔”
“اللہ کو پسند نہیں یہ کام اس لیے میں نے چھوڑ دیا۔۔۔نور اطمینان سے بولی۔۔۔”
“تمہیں اندازہ ہے کیا کہہ رہی ہو تم۔۔۔؟
“وہ ضبط کرتے ہوئے بولے۔۔۔”
“جی مجھے اندازہ ہے۔۔۔اور میں اپنے پورے ہوش و حواس میں ہوں۔۔۔نور نے ہموار لہجے میں کہا۔۔۔”
“مجھے بتا سکتی ہو کس نے کہا تم سے یہ سب۔۔۔اور یہ کیا باتیں کررہی ہو تم نینا ۔۔۔اللہ کو نہیں پسند ! کیا مطلب ہے تمہاری اس بات کا زرا سمجھاؤ گی مجھے۔۔۔؟؟
“وہ اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے بولے۔۔۔”
“میری بات کا مطلب صاف ہے ڈیڈ اور اب میں نینا نہیں نور ہوں۔۔نورالعین۔۔۔وہ ہمت جما کرتے ہوئے بولی۔۔”
“واٹ۔۔۔؟
“ویشال صاحب بےیقینی کے عالم میں بولے۔۔۔”
“جی میں اسلام قبول کرچکی ہوں اور اب میرا نام نینا نہیں نور ہے۔۔۔نور ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی۔۔۔”
“چٹاخ۔خ۔خ۔خ۔۔۔۔
“ایک زور دار آواز کے ساتھ انہوں نے نور کے منہ تھپٹر مارا۔۔۔”
“نور گال پر ہاتھ رکھتی ہوئی ایک طرف جھک گئی۔۔۔بےاختیار اس کی آنکھوں سے آنسوں بہنے لگے۔۔۔”
“پوجا بےیقینی سے نور کو دیکھ رہی تھی۔۔۔”
“کیا بکواس کررہی ہو تم۔۔۔وہ مشتعل ہوئے۔۔۔”
“نور خاموشی سے آنسوں بہاتی ہوئی انہیں دیکھ رہی تھی۔۔جو غصے سے سرخ ہوچکے تھے۔۔۔”
“آج تک تم نے جو مانگا مجھ سے میں نے وہ تمہیں لا کر دیا۔دنیا کہ ہر چیز تمہارے قدموں میں ڈال دی۔۔اور تم نے یہ صلہ دیا میری محبت کا۔۔؟
“وہ غصے سے پاگل ہورہے تھے۔۔۔”
“ڈیڈ جس نے یہ دنیا بنائی ہے میں نے اس کا انتخاب کیا تو کیا غلط کیا۔۔؟
“نور آنسو صاف کرتے ہوئے بولی۔۔”
“تم غلط راہ پر نکل پڑی ہو۔۔۔لوٹ آؤ ابھی بھی وقت ہے۔۔۔اس بار وہ پہلے سے قدرے نرم لہجے میں بولے۔۔۔”
“غلط راہ پر تو پہلی تھی اب تو سیدھی اور صحیح راہ پر ہوں۔۔۔وہ نم آنکھوں سے مسکرائی تھی۔۔۔”
“یہ چادر اوڑھ کر اور پینٹگز جلا کر یہ سب بکواس کرکے تم کیا ثابت کرنا چاہتی ہو کہ تم صحیح ہو اور ہم غلط ہیں۔۔
ویشال صاحب نے غصے و غم کے عالم میں اسے دیکھا۔۔۔”
“ڈیڈ میں کچھ نہیں ثابت کرنا چاہتی ہوں۔۔اور آپ مجھے ایک بتائیں۔۔کہ اگر کوئی میرا جسم دیکھے اس پر فقرے کسے تو کیا آپ کو اچھا لگے گا۔۔۔؟
نہیں لگے گا اچھا تو پھر جس نے مجھے تخلیق کیا ہے جس نے بنایا ہے اسے کیسا لگتا ہوگا۔۔اس نے تو مجھے سات پردوں میں بنایا ہے ڈیڈ۔۔میں کیسے ان پردوں سے نکل سکتی ہوں۔۔اپنے ہی ہاتھوں سے کیسے اپنی ہی بربادی کا سامان پیدا کرسکتی ہوں۔۔ڈیڈ یہ ایک کالی چادر نہیں یہ ایک ڈھال ہے جو مجھے اس دنیا میں گھومتے درندوں سے اس دنیا میں گھومتے شیطانوں سے محفوظ رکھتی ہے۔۔جو لوگوں کی بری نظروں سے مجھے محفوظ رکھتی ہے۔۔کیا آپ مجھے محفوظ دیکھ کر خوش نہیں۔۔۔؟؟
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...