پھر راجا گھوڑے پر سوار اپنے لشکر میں آ، ڈیرے داخل ہو اور سب کو بلا، دربار کر، اس کی برہ کی باتیں کہنے لگا، پھر ساری مجلس کے لوگ بھی اپنا اپنا سر دھننے لگے، اور برہ کا دکھ ان سب پر غالب ہوا۔
پھر راجا نے کہا: “تم سب کوئی اس احوال کو سنو کہ اس زمانے میں ایسی دوستی نہیں ہوتی۔ ان کی تو پریت دونوں جگ نے ہی جانی اور سالہا سال تک رہے گی یہ کہانی۔ کل جگ میں وہی نہیں مرتے جنھوں نے اپنی دیہی برہ کی آگ سے جلائی”۔
جب یہ بات کہہ چکا تو دیوان کو بلا کر کہا: “کوئی اب ایسی بات کرو جس سے ہمیشہ دنیا میں یہ کتھا رہے اور کام سین کے پاس ایسے وکیل کو پان دے کر رخصت کرو جو ذات کا اشراف، خوبصورت، عقل و دانش میں ایک دھیر اور سورما، زبان آور، پنڈت، سبھا چاتر، ڈھیٹ ہوئے”۔
دیوان نے ایسا ہی آدمی تلاش کر کے حاضر کیا۔ تب راجا نے فرمایا “کام سین راجا کو ہماری طرف سے یہ پیغام جا کر دو کہ گاؤں زمین جو کچھ ہم سے مانگو سو تو دیں گے پر کام کندلا کو بھجوادو۔ بہتر یہ ہے کہ ہماری تمھاری آپس میں دوستی رہے۔ نہیں تو لڑائی کی تیاری کرو۔ میں اسے لڑ کر لوں گا”۔
غرض سری پت راؤ جو ذات کا رگھوبنسی دوت بڑا چاتر تھا اس نے جب یہ سب کچھ سنا حضور سے رخصت ہو کر چلا۔ کتنی ایک دیر میں راجا کام سین کی ڈیوڑھی پر آن پہنچا، تب عرض بیگی نے یہ حضور میں جا کر عرض کیا کہ راجا بیر بکرما جیت کا وکیل حاضر ہے؟
کہا: جلدی سے اس دوت کو لاؤ۔
یہ کہہ کر وہیں چار آدمی اس کے پیشوا لینے کو بھیجے۔
جب وہ حضور میں آیا تو راجا نے پوچھا کہ تیرا کیا نام ہے؟ اور کس راجا کا بھیجا آیا ہے؟
تب وکیل نے یہ عرض کی کہ راجا بیر بکرما جیت سا کے بندھ تمھاری سرحد میں آ اترا ہے اور مجھ کو یہ پیغام دے کر آپ کے پاس بھیجا ہے کہ ہم مادھونل برہمن کے واسطے دیس چھوڑ پردیس میں آئے ہیں۔ گاؤں زمین جو کچھ مانگو سو دیویں۔ پر کام کندلا کو بھجوا دو۔
تب راجا کام سین نے خفا ہو کر کہا: کوئی ایسی بات بھی دربار میں کہتا ہے؟ جو میں کام کندلا کو بھجوا دوں تو سب راجوں میں بدنام ہوں۔ یہی سب دیس دیس کے راجا کہیں گے کہ ڈانڈ دے کر اپنا دیس بچایا۔ جب تک میرے دم میں دم ہے تب تک کام کندلا کو نہ دوں گا۔ اگر اسی وقت تیرا راجا لڑائی کے واسطے چڑھ آوے تو میں بھی لڑنے کو حاضر ہوں۔
پھر وکیل نے عرض کی: “اے راجا! تھوڑی سی بات کو کیوں بڑھاتا ہے؟ یہ دیس پتی راجوں کا راجا اتنی دور سے اس کے واسطے آیا ہے۔ یہ وہ ساکا بند راجا بکرما جیت ہے جس کو سارے دیس کے راجا سیس نوائے ڈانڈ دیتے ہیں۔ اور یہ ایسا بڑا راجا ہے جس کے پرتاپ سے آدمی، دیو، دیوتا کانپتے ہیں۔ اُس کے ہاتھیوں اور گھوڑوں کے دَل کا جب شمار نہیں پھر آدمیوں کا کیا حساب ہے۔ جس وقت کہ وہ کوچ کرتا ہے آسمان پر گرد چھا جاتی ہے کہ نظر نہیں آتا ہے۔ پر جنھیں خدا نے بڑا کیا ہے وے راہ میں قدم سمجھ کر رکھتے ہیں اور دشمن سے بھی نیو کر چلتے، بات بھی کہتے ہیں تو نرمی سے”۔
یہ سن کر راجا غصے ہو، تیوری چڑھا، آنکھیں بدل، وکیل سے کہنے لگا کہ “میرا نام کام سین ہے۔ میں سوا خدا کے کسو سے نہیں ڈرتا۔ اٹھ! یہاں سے جا! اور اپنے راجا سے کہہ کہ اسی وقت چڑھ آوے”۔
تب دوت نے کہا کہ “اے راجا! اٹھ اور اور لڑائی کا مستعد ہو۔ جو سور ہیں وے شیر کے میدان میں گونجیں گے اور جو ہرن سے ہیں وے بھاگ جاویں گے”۔
پھر وہاں سے اٹھ اپنے راجا کے پاس آ عرض کی کہ “میں نے اسے بہت سمجھایا پر وہ نہ سمجھا۔ سوائے لڑائی کے اور بات نہیں کہتا”۔
تب بکرما جیت بھی طیش سے کہنے لگا: “دیکھوں یہ میرے آگے سے کہاں جاتا ہے۔ اب ہماری فوج کے سوار پیادے تیار ہوں۔ کالے بادل سے ہاتھی جنگی کنپٹا مستی سے پٹکتے ہیں اور متوالے سے جھومتے ہیں، مانند پہاڑ کے ان کو آگے رکھو کہ ان کے چلنے سے زمین ہلے اور دسوں دسا راجا کانپیں۔ بھورے اور پیلے بیل ایسے رتوں میں جوتو جو چھوٹنے سے مانند شیر کے لگیں”۔
یہ سن دیوان نے بموجب حکم تیار کیے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...