وقت کا کام ہے گزرنا ۔مگر تکلیف وہ واحد کیفیت ہے جس میں لمحات تھم جاتے ہیں۔ برف کی سل لگنے لگ جاتے ہیں ۔ نوشین کو بھی یوں لگتا ایک تکلیف دہ دن گزارنا ہزار صدیوں جیسا تھا۔وہ خود ساختہ جنگ سے ہارنے سی لگی تھی۔پھر بھی اپنے موقف پر ڈٹی تھی۔ان ماں بیٹوں سے جنگ کرتی پھر تنہائی میں خود سے کرتی۔ان دنوں بچوں کو بھی گھر کا ماحول خوب گھٹا گھٹا لگتا ۔ان کی شوخیاں ،ان کی شرارتیں کہیں کھو سی گئیں تھی۔ یہ سب نوشی کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ اس مسلسل ٹینشن نے اس کے اعصاب پہ گہرا اثر ڈالا تھا وہ تھکنے لگی تھی۔ اور صرف وہ ہی کیا اظہر بھی اس چوہے بلی کے کھیل سے تنگ آ گیا تھا۔ اس کے دوست کے بیٹے کی برتھ ڈے تھی اسے بھی انوائیٹ کیا گیا تھا ۔ اسے یہ موقع غنیمت لگا ۔ وہ اس مسئلے کو اب حل کرنا چاہتا تھا ۔اسی نیت سے وہ جلد گھر آیا تھا۔ راستے سے موتیے کے پھولوں کے گجرے لیے نوشی کو گجرے بہت پسند تھے ۔وہ جانتا تھا ۔نوشی گجرے دیکھ کے سارے شکوے بھول جائے گی ۔
گھر میں داخل ہوتے ہی حسب معمول وہ اماں کے پاس گیا دونوں بچے وہیں بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے ۔ اماں بیڈ پہ نیم دراز آنکھیں بند کیے تسبیح کے دانے گھما رہیں تھیں ۔
“اسلام علیکم اماں ! کیسی طبعیت ہے آپ کی ؟” بیگ وہیں زمین پہ رکھ کے وہ ان کے پائوں دباتے ہوئے گویا ہوا ۔
” آج جلدی آ گئے تم ؟ طبیعت تو ٹھیک ہے تمھاری ؟” پریشانی سے اٹے ستے ہوئے چہرے کے ساتھ انہوں نے گھبرا کے آنکھیں کھولتے ہوئے اس کا حال پوچھا تو وہ اپنی ماں کی اس درجہ محبت پہ مسکرا دیا۔
“میں بالکل ٹھیک ہوں اماں جان ! اور جو کچھ بگڑ چکا ہے اسے آج ٹھیک کرنے کے ارادے سے جلدی گھر آیا ہوں۔ویسے بھی آفاق کے بیٹے کی سالگرہ ہے اس نے مجھے اور نوشی کو انوائیٹ کیا ہے ۔ ” دعوت کے بارے میں بتاتے ہوئے وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں ماں کو سب کچھ ٹھیک ہو جانے کی تسلی دیتا اپنے کمرے میں آ گیا ۔زبیدہ بیگم بھی مطمئن ہو کے مسکرا دیں ۔
وہ جب کمرے میں داخل ہوا نوشی بیڈ پہ دروازے کی طرف پشت کیے دھلے کپڑوں کا ڈھیر پھیلائے انہیں طے کرنے میں مصروف تھی ۔ دماغ پراگندہ سوچوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا ۔ اظہر نے قریب پہنچ کر بائیاں ہاتھ اس کی آنکھوں پہ رکھا ۔جبکہ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی پہ گجرے رکھ کے اس کے سامنے کر دیئے۔
“یہ دیکھو میں تمھارے لیے کیا لایا ہوں ” نرم لہجے میں کہتے ہوئے اظہر نے اس کی آنکھوں سے ہاتھ ہٹا دیا اور اس کے مقابل بیٹھ گیا۔۔نوشین نے جیسے ہی آنکھیں کھولیں سامنے موتیے کے پھولوں کے گجرے دیکھ کے اس کی آنکھوں میں ستارے سے چمکنے لگے ۔پیلے رنگ کے سادہ کاٹن کے سوٹ میں اس کی رنگت بھی پیلی پڑھ رہی تھی ۔وہ ایک لمحے کو شرمندہ ہوا ۔اگر نوشی اتنے دن سے غلط بات پہ ڈٹی تھی تو اظہر بھی جلد غصے میں دیوانہ ہو جاتا تھا ۔
“ہائے کتنے پیارے ہیں نا ؟ پتا ہے مجھے شروع سے یہ موتیے کے گجرے بہت پسند ہیں ۔میری سب دوستوں،بہنوں کو گلاب کے اور گیندے کے پھولوں کے گجرے پسند تھے ۔مگر مجھے صرف یہ” بچوں جیسے اشتیاق سے بتاتے ہوئے ۔وہ ایک لمحے کو یہ بھول ہی گئی تھی کہ ان کے درمیان کیا کلیش چل رہا ہے ۔ دفعتاً اظہر کی مسکراہٹ پہ نظر پڑی تو اس کے ہونٹ سمٹ گئے ۔وہ گجرے پہننے لگی تھی جب اظہر نے ٹوک دیا ۔
“ابھی مت پہنو ریڈی ہو کے پہننا ۔آج آفاق کے بیٹے کی سالگرہ ہے ۔اس نے مجھے اور تمھیں انوائیٹ کیا ہے ۔جلدی سے ریڈی ہو جائو اور میرے کپڑے بھی ریڈی کر دو میں فریش ہو کے آتا ہوں ۔پھر چلتے ہیں ۔”وہ مگن سا یہ کہہ کے جانے لگا جب نوشی کے جملے نے اس کے پائوں جکڑ لیے ۔
“میں تیار ہو جائوں گی مگر تم نے جو کپڑے پہننے ہوں جا کے خالہ کو دے آئو وہ پریس کر دیں ۔ سپاٹ لہجے میں گجرے سائیڈ ٹیبل پہ ڈالتے وہ کپڑوں کی طرف متوجہ ہو گئی تو اظہر کے ماتھے پہ بل پڑ گئے ۔
“تمھاری سوئی ابھی بھی وہیں اٹکی ہوئی ہے ۔ وہ اس عمر میں ہزار بیماریاں جھیلیں یا ہم سب کی خدمتیں کرتی پھریں ۔تمھیں خدا کا خوف ہے یا نہیں ؟” ایک لمحے میں وہ غصے سے بھر چکا تھا ۔نوشی نے کوئی توجہ نہیں دی جب کہ زبیدہ خاتون اظہر کے چیخنے پہ گھبرا کر ان کے کمرے میں آ گئیں ۔
“تم لوگ پھر لڑنے لگ گئے ۔خدا کے لیے قابو پائو اپنی ان بچکانہ حرکتوں پہ بچے کتنے سہم جاتے ہیں ۔میں کتنی پریشان ہو جاتی ہوں تم لوگوں کو کچھ احساس ہے کہ نہیں ؟” اظہر کو دھکا دے کے بیڈروم چیئر پہ بٹھاتے ہوئے وہ ساتھ والی چیئر پہ بیٹھ گئیں۔
“اماں میں کیا کروں میں معاملات کو جتنا سلجھانے کی کوشش کرتا ہوں یہ مجھ سے اتنا ہی الجھتی ہے ۔” خشمگیں نگاہوں سے اسے گھورتے وہ زبیدہ خاتون سے مخاطب ہوا۔
“میں کچھ نہیں الجھاتی میری ڈیمانڈ آج بھی بالکل واضح ہے ۔جیسے میں اپنے بچوں کے کام کرتی ہوں ویسے خالہ کو بھی آپ کے کام کرنے ہوں گے ۔میں آپ کی نوکر نہیں ہوں۔” مگن سے انداز میں کام کرتے ہوئے وہ جیسے اس ماحول میں ہی نہیں تھی ۔ اظہر غصے کے عالم میں کچھ سخت کہنے ہی والا تھا جب زبیدہ خاتون نے اسے اشارے سے منع کیا۔
” میں نے تمھیں کہا تھا کسی کام والی کا انتظام کرو کیا تم نے ؟” تنبیہی لہجہ اپناتے ہوئے زبیدہ خاتون نے اظہر سے پوچھا ۔
“کام والیاں درختوں پہ نہیں اگتیں اماں جی ! نا ہی لوگ بلا ضرورت رکھتے ہیں ۔اور مسئلہ اگر صرف میرے کام کا ہے تو میں شادی کر لیتا ہوں ۔مسئلہ بخوبی حل ہو جائے گا ” ۔بات کا جواب وہ ماں کو دے رہا تھا مگر سنا کسے رہا تھا نوشی اچھی طرح جانتی تھی۔
“یہ بچوں والا گھر ہے خالہ! اور میں کسی کام والی پہ اعتماد نہیں کر سکتی ۔اپنے بیٹے کے کام تو آپ کو خود ہی کرنے ہوں گے ۔البتہ اظہر اگر دوسری شادی کرنا چاہیں تو مجھے چنداں اعتراض نہیں ۔”کپڑے طے ہو چکے تھے ۔وہ تہہ شدہ بنڈل اٹھا کر الماری کی طرف چل دی۔دونوں ماں بیٹے نے اب کی بار اسے یوں دیکھا جیسے اس کے سر پہ سینگ اگ گئے ہوں۔
“سارا قصور آپ کا ہے خالہ ! اکلوتے بیٹے کو یوں ہتھیلی کا چھالا بنا کے رکھا کہ اس کو زندگی کی ترتیب بھی بھول گئی ۔جانتی ہیں جب یہ مجھے فخر سے بتاتے ہیں کہ آپ شدید بیماری کی حالت میں بھی ان کی ہر فرمائش پوری کرتی رہی ہیں ۔تو مجھے شدید غصّہ آتا تھا۔کیونکہ میں نے ہمیشہ آپ کو اپنی ماں سمجھا ۔کوئی اتنا بے حس کیسے ہو سکتا ہے کہ شدید بیماری میں بھی ماں جیسے مقدس رشتے کا خیال نا رکھ سکے ۔” الماری کو ساتھ رکھے فالتو کپڑے سے صاف کرتے ہوئے وہ اب کپڑے ترتیب سے رکھ رہی تھی۔ اظہر شرمندہ سا ہو گیا۔ زبیدہ خاتون ٹھنڈی سانس بھر کے رہ گئیں ۔
“تم نہیں سمجھ سکتی نوشی پتر شادی کے سات سال تک میں بے اولاد رہی کیا کیا طعنے نہیں برداشت کیے میں نے کس کس انداز میں مجھے میری محرومی کا احساس نہیں دیلایا گیا۔ہزار منتوں مرادوں کے بعد خدا نے میرے صبر کے انعام کی صورت مجھے اظہر بخشا تھا ۔ویسے بھی میں اسے اپنی بیماری کے بارے میں بتاتی ہی نہیں تھی ۔میرا اکلوتا بیٹا بڑھاپے کا سہارا ۔میں کیسے نا لاڈ اٹھاتی اس کے۔”
“آپ کے لاڈ پیار کی ہی وجہ سے ان کی زات میں کئی خامیاں کسی خود رو پودے کی طرح آگ آئیں یہ حد سے زیادہ جذباتی ہیں، ہر ضد منوانے کی لت نے انہیں بے حد غصے والا بنا دیا ہے۔ہم سے بے حد محبت کرنے کے باوجود انہیں ہمارا احساس نہیں اور ان کی یہ سب عادتیں بچوں میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ کیا آپ جانتی ہیں احساس کے بنا انسان کو کن دو چیزوں سے تشبیہ دی جاتی ہے؟” آخری بنڈل اٹھاتے ہوئے وہ پھر الماری کی طرف چل دی ۔ اظہر کو لگا اس کے بدن میں لہو کا ایک قطرہ نہیں ۔نوشی نے آج اس کے سامنے آئینہ لا رکھا تھا ۔زبیدہ خاتون سر جھکا گئیں ۔کہتیں بھی تو کیا ۔نوشی وہ سچ کہہ رہی تھی جس سے انہوں نے ہمیشہ نظریں چرائی تھیں ۔
“احساس کے بنا انسان جانور یا مشین سے تشبیہ دیا جاتا ہے ۔احساس ہی تو ہے جو انسان کو اشرف المخلوقات کے درجے پہ فائز کرتا ہے ۔” تھک کر بیڈ پہ بیٹھتے ہوئے وہ بات مکمل کر گئی ۔اظہر اٹھ کے جا چکا تھا ۔زبیدہ خاتون اس کے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے نم آنکھوں سے اپنے کمرے کی طرف چل دیں ۔