موسمیاتی تبدیلیوں سے ہماری پانی کی سپلائی کو ہونے والے خطرات صرف سیلاب اور قحط نہیں ہیں۔ ہمارے آبی ذخائر، تالاب، ٹینک اور جتنے بھی ذخیرہ کرنے کی جگہیں ہیں، وہ پانی کے قدرتی ذخیرہ کے مقابلے میں بہت ہی ننھی منی سی ہیں۔ پانی کے قدرتی ذخائر مفت ہیں اور انسانیت کا ان پر انحصار بہت زیادہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمین کے میٹھے پانی کا سب سے بڑا ذخیرہ برف کی صورت میں ہے۔ سردیوں میں برف کی ضخیم ہونے والی تہہ بہار میں پگھل کر پانی کو فصل اگانے کے لئے ٹھیک وقت پر مہیا کرتی ہے۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا واٹر مینجمنٹ سسٹم ہے۔ اور ڈیم کے ذخیرے کے برعکس اس کو بنانے پر نہ ہی کوئی لاگت آتی ہے اور نہ ہی کسی کو بے گھر ہونا پڑتا ہے۔ گلیشئیر اور سارا سال برف میں ڈھکی چوٹیاں بیش قیمت ہیں کیونکہ یہ گرمی کا تمام موسم پانی کی سپلائی جاری رکھتی ہیں۔ جس سال گرمیوں میں موسلا دھار پانی برسے تو اضافی پانی کو یہیں جما لیتی ہیں اور جس ساک خشک وقت آئے تو ان کے پگھلنے سے پانی جاری رہتا ہے۔
گلیشئیر پانی کا بچت اکاونٹ ہیں۔ اچھے وقتوں میں بچت برے وقتوں میں استعمال ہو جاتی ہے جب کسان کو اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ گلیشیولوجسٹ اس کو “مثبت ماس بیلنس” اور “منفی ماس بیلنس” کے سال کہتے ہیں اور یہ انسانیت کو ملنے والا تحفہ ہیں۔ گلیشئیر دریاوں کو اس وقت بھرا ہوا رکھتے ہیں جب باقی ہر شے خشک ہوتی ہے۔ یہ برے وقتوں میں کام آنے والا عظیم فنڈ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا کی آبادی کا بہت بڑا حصہ ایشیا کے چند علاقوں میں ہے۔ مغربی پاکستان، انڈیا، جنوبی چین جیسے علاقے انتہائی گنجان آباد ہیں۔ اس بڑی آبادی کو سپورٹ کرنے میں ایک اہم مشترک چیز یہاں پر بلند و بالا پہاڑی سلسلوں سے ہونے والی پانی کی نکاسی ہے۔ گریٹ ہمالین واٹرشیڈ اس کی اہم وجہ ہے۔ یہ وہ ہائیڈرولوجیکل سسٹم ہے جو ایشیا کے بیشتر دریاوں کے سارا سال جاری رہنے کی وجہ ہے۔ آج پوری دنیا کی پینتالیس فیصد آبادی کا انحصار اس واٹرشیڈ پر ہے۔ یہاں سے انیس بڑے دریا نکلتے ہیں جن میں سندھ، گنگا، جمنا براہم پترا، یارلنگ ژنگ پاوٗ، چناب جیسے بڑے دریا ہیں۔ اس قابلِ اعتبار دریائی نظام نے یہاں ابتدائی تہذیب سے لے کر آج کی بڑی آبادیاں ممکن کی ہیں۔ اور ان کی ایک اہم وجہ یہاں کے پہاڑوں پر جمی برف کی صورت میں پانی کے دیوہیکل کنٹینر ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر آپ خبریں پڑھتے ہیں تو آپ جانتے ہوں گے کہ دنیا کے کئی گلیشئیر اس وقت اچھی حالت میں نہیں۔ اوہائیو سٹیٹ یونیورسٹی کے لونی تھامپسن اور ان کی اہلیہ ایلن موسلی تھامپسن 1970 کی دہائی سے مختلف گلیشئیرز کی سٹڈی کر رہے ہیں۔ ان میں سے کئی پسپا ہو رہے ہیں۔ کوہِ ایلپس میں برف پر پھسلنے والی ریزورٹ میں سے کئی ہیں جو برف بچانے کے لئے منعکس کرنے والے کمبلوں سے برف کو ڈھک رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موسمیاتی برف پوش چوٹیاں، جو پورا سال برف سے نہیں ڈھکی ہوتیں، پانی کا کئی سالوں کا ذخیرہ تو نہیں کر سکتیں لیکن یہ بھی سٹوریج کے بہت اہم کنٹینر ہیں۔ یہ پانی کو اس وقت ریلیز کرتی ہیں جب کسانوں کو اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ ان مفت کنٹینرز کے بغیر پانی فصلوں کے سیزن سے پہلے ہی غیرمفید طریقے سے سمندر میں بہہ جائے۔
درجہ حرارت کا زیادہ ہونا اس فائدہ میں کمی لاتا ہے۔ گرمیوں میں لمبے دنوں میں زیادہ فوٹوسنتھیسز کا موقع زیادہ تر فصلوں کے لئے مفید ہے۔ اور گرم ترین وقت میں پانی کی دستیابی ہماری بھوک مٹانے کے لئے ضروری ہے۔ ضرورت سے پہلے دستیاب ہو جانے سے کسان فائدہ نہیں اٹھا پاتے۔ اور یہ سائیکل دنیا کی کئی جگہوں پر متاثر ہو جانے کا اندیشہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سکرپس انسٹی چیوٹ آف اوشنوگرافی کی اس بارے میں کی گئی تحقیق کا پالیسی سازوں نے نوٹس لیا ہے۔ اس کا ایک ریسپانس یہ ہے کہ زیادہ آبی ذخائر، نہریں اور انجینرنگ سکیمیں بنائی جائیں تا کہ پانی کی حرکت کو کنٹرول کیا جا سکے۔ چین مغربی سنکیانگ میں گلیشیر سے آنے والے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے 59 ذخائر کی تعمیر پر کام ہکر رہا ہے۔ امریکہ میں اضافی ایک ارب ڈالر پانی کے نئے پراجیکٹس کے تعمیر کے لئے مختص کئے گئے ہیں جن کا ایک چوتھائی کیلے فورنیا کے لئے ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یوں، ایک ٹیکنالوجی کی ایک نئی دوڑ کی ابتدا ہے جو برف کے ذخائر کی کمی کا مقابلہ کرنے کی ہے۔ تاہم اس میں نوٹ کرنے کا ایک بڑا اہم نکتہ ہے۔
انجینرنگ کے جتنے بھی کام کر لئے جائیں، یہ قدرتی ذخیرے کا متبادل نہیں ہیں۔
اگر موجودہ ذخائر کو چار گنا بھی کر دیا جائے، تب بھی قدرتی ذخیرے کو ہونے والے نقصان کا جو اندیشہ ہے، یہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اور اگر بالفرض ان کی کیپیسیٹی اتنی کر بھی دی جائے، تب بھی ایک اور بڑا فیکٹر ہے۔ ٹھوس برف کی صورت میں تبخیر نہیں ہوتی۔ جبکہ جھیل اور تالاب جیسے کھلے ذخائر میں ایک حصہ فضا میں چلا جاتا ہے۔
پہاڑوں سے سمندر کی طرف پانی کے فرار کی رفتار بڑھ رہی ہے۔ انجینرنگ کی تعمیرات سے اس مسئلے کی شدت میں کمی لانا ناگزیر ہے لیکن شاید کافی نہیں۔