سکرین کو دیکھتے ہوئے اُسکی نظریں بازل کی برہنہ کلائی پر پڑی تو پاؤں تلے سے زمین کھسک گئی جیسے اُسے آسمان کی بلندیوں سے زمین پر پٹھک دیا گیا
بازل اُسکی نظریں اپنی کلائی اور محسوس کرتا نظریں جُھکا گیا وقت ہاتھ سے نکل چکا تھا
"مایا بچوں والی حرکتیں مت کرو ۔۔۔۔مجھے بولنے کا موقعہ تو دو ”
بھاگتی ہوئی کمرے میں جب بازل بھی اُسکے پیچھے تیز تیز قدم اُٹھاتا ہُوا داخل ہوا
انایہ کو اشارے سے ہی جانے کا بول چُکا تھا اور وہ دبئے قدموں سے اُنکے گھر سے نکل چُکی تھی
تھوڑی دیر پہلے ہی وہ لوگ ہوٹل سے گھر آ چکے تھے اور اِس بات پر مایا نے کوئی عتراض نہیں کیا تھا کیوں کہ نور اور بازل کی سیکیورٹی پروبلم زیادہ تھے لیکن یہاں آتے ہی بازل کے آفس سے کوئی لڑکی آگئی جس کے ساتھ ایک گھنٹے سے بیٹھا کوئی کھیچڑی بنا رہا تھا
لیکن چند منٹ پہلے جو تصویر مایا لیپ ٹاپ کی سکرین پر دیکھی تھی وہ ساری گٹھلیاں سلجھا گئی تھی
"بازل۔۔۔۔۔جو بھی ہو تم مجھ سے دور رہو”
اُسکا نام لیتی ہوئی اٹکی اور اُسے اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر حلق کے بل چلائی
"مایا کُچھ بھی سوچنے سے پہلے مجھے سن تو لو”
انتہائی نرم لہجے میں بولتے ہوئے منت بھری آواز میں کہا لیکن اگلی طرف غُصہ سوا نیزے پر تھا
"تم سمجھتے کیاہو خود کو ۔۔۔۔۔۔۔میری زندگی کتنی بار برباد کرو گے تم ۔۔۔کب کب توڑو گے مجھے ۔۔۔۔۔کیوں ہر بار تم آجاتے ہو میری زندگی میں ۔۔۔۔۔۔دیکھو منت کرتی ہوں میں چھوڑ دو میرا پیچھا ۔۔۔۔۔۔۔یہ ایک مرتبہ مار دو مجھے”
بولتے ہوئے اُسکے آگے ہاتھ جوڑ گئی اُسکے الفاظ رو رہے آنکھوں میں سُرخ ڈورے نمائے تھے
یہ وہ مایا نہیں تھی جو بس اکڑ اور انا کے پیچھے بھاگتی تھی یہ بہت کمزور تھی جس لہجے اُسکے دل کی طرح بری طرح ٹوٹ چکا تھا
"مایا ”
اُسکا لہجہ بھی نم ہورہاتھا
"مت پکارا مجھے ۔۔۔مر گئی تھی مایا آج سے چھ سال پہلے تم خود مار کر گئے تھے ”
کہتی ہوئی آگے بڑھنے لگی تو کلائی بازل کے ہاتھ میں آگئی
"مایا پلیز ”
اُسکے لہجے میں۔ اُسکی انکھوں میں التجاء تھی گہرا دُکھ تھا ۔۔۔۔۔دُودکار جانے کا خوف ۔۔۔۔یہ بازل شاہ نہیں تھا جو سب کو زیر کرنے جانتا تھا یہ کوئی مجبور سا انسان تھا ۔۔۔جس کی آنکھیں اپنا درد بیان کر رہے تھیں
"میں بھی روئی تھی گھڑگڑی تھی تمہارے سامنے ۔۔۔۔۔تم نے سنی تھی کیا میری ”
ایک جملے میں اُسکے لا جواب بے بس کرگئی تھی
وہ لڑکی کمزور لڑکیوں کی طرح نہیں تھی وہ رولانے جانتی تھی
اپنا ہینڈ کاری لیے اُسے ساخت کرتی جا چُکی تھی اور وہ آگے بڑھ کر روک بھی نہیں سکا
•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°°•°•°•
"سر آپکا بل پہلے ہی جمع کروا جہ چُکا ہے”
کاؤنٹر کے سامنے بیٹھے حجاب والی لڑکی نے مہذب انداز میں کہا
"تالش بھائی نہ کروا ہے؟ ”
دامل نے تجسس سے پوچھا کیونکہ تھوڑی دیر پہلے ہی ڈاکٹر نے چالیس لاکھ کا انتظام کرنے کو کہا تھا ابھی دوست سے لے کر آرہا تھا
"نہیں سر کوئی اور تھا مہر ابراہیم کا بل وہی پے کر کے گیا ”
لڑکی سامنے پڑے لیپ ٹاپ پر انگلیاں چلاتی ہوئی مصروف انداز میں بولی
"آپ دیکھا سکتیں ہیں کیا اُنکی فوٹیج”
اُسکے لیپ ٹاپ پر دیکھتا ہوا پریشاں سا بولا تو لڑکی نے ریکاڈر پلائے کردیا جس میں کوئی ہیڈ والا آدمی بلیک تھری پیس میں مبلوس تھا منہ پر ماسک لگا رکھا تھا
"اگر دوبارہ آئیں تو مجھ سے ملنا کا کہیے گا ”
کہتا اپنا سر کھجاتے ہُوا واپس موڑا
"سر یہ آپکے لیے ہے”
ایک لفافہ نکال کر اُسکی طرف بڑھایا جسے تجسس کے مارے وہیں کھولنا پڑا
"شُکریہ ہر چیز کے لیے”
خالی سفید فام پر نیچے پانچ الفاظ کا جملہ تحریر تھا
•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•
ریلنگ چیئر پر بیٹھا سر پیچھے کی طرف گرائے سوچوں میں مگن تھا آنکھوں میں ہلکی سی جو دل میں اُٹھنے والے طوفان پیش خیمہ تھی
کیسے بتاتا وہ مایا کو اُسکے لیے اُسکی جان عزت اپنی محبت سے کہیں زیادہ تھی ۔۔۔۔۔۔مایا اُسکی زندگی کا وہ سرمایہ تھی جسے کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتا تھا
اُسے زندگی کی طرف لانے والی اُسے خوشیوں سے متعارف کروانے والی کوئی اور ہستی نہیں وہی تھی ۔۔۔۔
نہ چاہتے ہوئے وہ اُسے خود سے دور کر گیا تھا نہ چاہتے ہوئے اُسکی وجہ سے مایا کی آنکھوں سے درد کے دریا بہہ تھے
چھ سال پہلے
"تمہارا گھر نہیں ہے کیا”
مایا نے یونیورسٹی جاتے وقت کئی مرتبہ نوٹ کیا تھا کے وہ لڑکا سڑک پر نظریں جُھکا کر بیٹھا ہوتا تھا
دیکھنے سے کافی معزز گھرانے سے لگتا تھا آنکھیں ہلکی سی براؤن ہلکی ہلکی سی ڈارھی جو بلا شبہ اُسکے چہرے پر بہت پیاری لگتی تھی براؤن انکھوں میں لال ڈورے اکثر نمایاں ہوتے تھے قمیض شلوار میں ہی ہوتا تھا جو بلکل صاف سھتری ہوتی
یہ ساری صورتِ حال دیکھ نہیں لگتا تھا کے وہ پاگل یہ پھر کوئی لوفر ہے جو یونی کو جانے والے راستے پر بیٹھ کر لڑکیوں کو تارٹا ہے
"لڑکی اپنے کام سے کام رکھو”
آواز کافی بھری اور دلکش تھی سحر میں جکڑنے والی وہ بنا دیکھے بولا تھا جبکہ لکیریں ابھی زمین پر کھینچ رہا تھا
"تمہارے کام میں ٹانگ آڑای کب ہے۔۔۔پوچھا ہے”
مایا اُسکے برابر بیٹھا گی تو اُسکی لڑکی کی ہمت اُسے اُسکی طرف دیکھنے پر مجبور کر گئی
"میں بتانا پسند نہیں کرتا ”
ایک نظر چہرے پر ڈال کر نظریں پھر زمین پر مرکوز کرلیں
"کھانا وغیرہ کھاتے ہو؟؟”
مایا کا دل میں اُسے دیکھ کر کوئی بہت ہی رحم دل انسان آکر بس گیا تھا
"تم جاؤ اچھی لڑکیاں ایسے ہی ہر کسی سے بات نہیں کرتیں ”
اب تھوڑے نرم لہجہ میں بولا اُسے وہ معصوم سی لڑکی اچھی لگی تھی جو اپنا کام چھوڑ کر اُسے کھانے کا پوچھ رہی تھی
"اچھے لڑکے بھی تو یوں سڑکوں پر نہیں بیٹھتے ”
اپنی تھوڑی تلے ہاتھ رکھ کر تجسس سے پوچھا
"میں اچھا لڑکا نہیں ہوں”
الفاظ میں دُکھ کا سمندر پنہا تھا
"نہیں تم بہت اچھے لڑکے ہو ایسے کرو یہ چوکلیٹ کھا لو ”
اپنے بیگ سے ایک ڈائری ملک نکال کر اُسکے اگے رکھی
"میں کل اور تمہارے لیے بریانی بنا کر لوں گی لیکن وعدہ کرو تم اپنے گھر چلے جاؤ گے”
آج ہی تو اسلامیت کے سر نے اُسے اچھے انسان ہونے کی خصوصیات بتائیں تھی تو اس پر عمل بھی تو کرنا تھا
"لڑکی دفع ہوجاؤ یہاں سے ورنہ جان لے لوں گا میں تمہاری”
یکدم سے لال ڈورے واضح ہوئے چہرے کے تاثرات ایک پل میں بدل گئے
مایا ایک دم ڈر کے چار قدم پیچھے ہوئی
"بابا ۔۔۔۔۔۔نور مام ۔۔۔۔۔۔۔ بابا”
نور کی آواز پر پیسنے سے تر چہرے کے ساتھ ہوش کی دُنیا میں آیا تو نور اُسکی گود میں چڑھی اُسکے چہرے پر ہاتھ مار کر دنیا میں واپس لا رہی تھی
نور کو دیکھ کر ایک گہرا سانس خارج کیا
آنکھیں لال انگارا ہوئی پڑیں تھیں جبکہ ہلکی ہلکی داڑھی کے لوں کھڑے ہو چکے تھے
تلخ ماضی تھا اُسکا جو کئی کئی راتیں اُسے سونے نہیں دیتا تھا
"بابا ۔۔۔۔۔نور بابا”
اُسے پھر سے آنکھیں موندے دیکھ کر اپنے چھوٹے چھوٹے سے ہاتھ اُسکی گالوں پر لگا کر اُسے شاید تسلی دے رہی تھی کے وہ اُسکا بابا بھی ہے
"نور بابا تھک گئے ہیں بیٹا”
آنکھیں کھولے بغیر ہی مدھم آواز میں بولا
"مام بابا ۔۔۔۔مالا ۔۔۔۔۔پالی”(مایا پیاری ہے بابا)
اُسکا منہ چوم کر چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے تسلی دے رہی تھی
شاید پہلی بار اپنے باپ کو اتنے دُکھ میں دیکھ رہی تھی
"مام ہمیں چھوڑ کر چلیں گیں ہیں بیٹا ۔۔۔۔۔آپکے بابا بُرے ہیں نہ ۔۔۔۔ماما کے قابل نہیں ہیں”
اُسکی بائیں آنکھیں سے ایک آنسو ٹوٹ کر گرا جو ابھی بند تھی
ٹوٹا ہوا لہجہ بکھرا ہُوا حلیہ ۔۔ کسی مجنوں یہ دیوانے سے کم نہیں لگ رہا تھا
کافی دیر آنکھیں بند رکھیں تو نور کی طرف سے کوئی رسپونس نہیں آیا ہاں اُسکی گود میں ماجود ضرور تھی
آنکھیں کھول کر دیکھا تو ایک دم دل دہل گیا
اُسکی دو ڈھائی سال کی بیٹی اپنے باپ کا درد محسوس کر رہی تھی ۔۔۔بنا شور کیے اُسکی آنکھوں سے آنسو روایں تھے
سفید گال بلکل لال ہوچکے تھے اور اپنے ننھے سے ہاتھ آنکھوں پر رکھے رو رہی تھی
"نور ۔۔۔۔۔میرا شیر ”
آگے بڑھ کر اُسے سینے میں بھینچ لیا جبکہ کب عرصے سے روکے ہوئے سمندر کو بہنے کا بہانہ مل گیا
"نور بابا بست(نور بابا بیسٹ)
روتی ہوئی اُسے تسلی دے رہی تھی جبکہ اُسکے کندھے پر سر رکھے بازل کی بہتی آنکھیں چند سیکنڈ کے لیے مسکرائی
اللہ نے اُسے بیٹی جیسی نعمت سے نوازہ تھا وہ کیسے نہ شکر ہو سکتا تھا
"نور مام بی بست (نور کی مام بھی بیسٹ ہے)”
برابری کے سارے حقوق پورے کیے تھے اُسنے
•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•
آج چھ سال بعد انسان بدلہ جگہ وہی تھی
مایا سڑک کے کنارے گھٹنوں میں منہ دیے روۓ جارہی تھی
"پتہ ہے مایا بڑی خواہش ہے تمہیں روتا ہوا دیکھنے کی یار ”
اُسے نوین کا جملہ یاد آیا جب وہ کسی ملزم سے تشویش کر رہی تھی تو نوین اُسے تنگ کرنے کے غرض سے بولی تھی
"خُدایا میں ہی کیوں ۔۔۔سارے ہی امتحان مجھے سے کیوں ”
روتے ہوئے شکوہ کر گئی
"بازل تم کھیلے ہو مجھ سے میرے جذبات ۔۔۔میری خوشیوں سے ….. ”
روتے ہوئے با آواز بولی
اُسے وہ لمحہ یاد آیا جب وہ اُسے خود سے جدا کر رہا تھا
"مایا میں شادی نہیں کر سکتا ۔۔۔میں اپنی زندگی میں سے کس کو شامل نہیں کے سکتا ۔۔۔۔اور نہیں چاہتا تم میرے سہارا اپنی زندگی برباد کر لو ”
اُسکا کہا ہُوا ایک ایک لفظ اپنے بدن میں تیر کی طرح گھستا ہُوا محسوس ہو رہا تھا
کیا بازل کو اُس سے بڑھ کر بھی کوئی عزیز تھا یہ اُس سے بڑھ کر کوئی چاه سکتا تھا اُسے۔۔۔۔جو اُسے زندگی میں شامل کرنے کی بجائے کسی اور کو اپنا حقدار بنا لیے
یہی سوچیں اُسکا ذہن مفلوج کر رہی تھی اپنے پاس کُچھ گرنے کی آواز پر چونکی تو وہ سڑک جو پہلے گاڑیوں سے بھری ہوئی تھی وہاں کوئی زی روح نہیں تھا دور دور تک کچھ نظر نہیں آرہا تھا اندھیرا ہر سو پھیل چُکا تھا
دل میں ایک عجیب سے ڈر نے سراریت کی جس سے ٹانگیں تک کانپ گیں
•°•°•°•°•°•°•°•°•°•°•
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...