ہینڈز آپ یو آر انڈر اریسٹ۔ وہ چونکا تھا ۔ ایک لڑکی کی رعب دار آواز اس کے کانوں میں پڑی ۔ اپنی کنپٹی پر پستول کی نال محسوس ہوئی۔ زالان نے فورا اپنے آنسو صاف کیئے اور چہرہ پیچھے موڑا ۔ سیاہ چغے میں مسکراتی آنکھوں کے ساتھ وہ گولڈن گن اس کی کنپٹی پر رکھ کر کھڑی تھی ۔
کیا ہوگا اگر میں تمہیں یہیں خاموشی سے اس گن سے اڑادوں ؟ ارسا نے اس کا جائزہ لیتے ہوئے کہا
میں آپ کا شکر گزار رہوں گا ۔ پتا نہیں اس نے یہ بات کس دل سے کہی تھی ۔ ارسا نے چونک کر اسے دیکھا ۔
اتنی مایوسی زالان حیدر ۔ دھیمے لہجے میں کہتے ہوئے اس نے اپنی گن اس کی کنپٹی سے ہٹائی ۔ اور گن کو اپنے دائیں طرف رکھتے ہوئے سیڑھیوں پر بیٹھ گئی ۔ ہڈ کو کمر پر گرادیا ۔
آپ کو گارڈز کے بغیر نہیں آنا چاہیے تھا ارسا ۔ وہ آپ کی حفاظت کے لیئے ہیں ۔ ارسا نے تھیکی نظروں سے اسے دیکھا ۔
سلیمان ہمدانی چیف جسٹس آف پاکستان کو گارڈز کے بیچ میں گولی مار دی گئی۔ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا گولی ان کے سر میں لگی تھی ۔ موت تو موت ہے زالان ۔ کسی وقت کسی کو بھی آسکتی ہے ۔ موت سے تو بزدل ڈرتے ہیں ۔ اس نے اپنا چہرہ زالان کی طرف موڑا تھا ۔ زالان نے سر جھکایا ۔
رہی بات گارڈز کی تو یہ چند پیسوں سے خرید لیئے جاتے ہیں ۔ اگر میں کہوں کہ میرے ساتھ جتنے بھی گارڈز ہوتے ہیں وہ سب خریدے جا چکے ہیں تو زالان اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے ۔ ان کے سامنے کوئی مجھے مار کر چلا جائے گا ور یہ خاموشی سے میری لاش میرے گھر والوں کو دے آئیں گے بس ۔ آج وہ بہت تلخ لگ رہی تھی ۔
اگر کوئی اور انہیں خرید سکتا ہے تو ارسا آپ بھی تو انہیں خرید سکتی ہیں نا ۔ زالان نے سر اٹھا کر اس سے پوچھا۔
یہ فانی لوگ ہیں زالان ۔ اللہ کی مخلوق ہیں مجھے کوئی حق نہیں ہے انہیں خریدنے کا ۔ جانتے ہو جب یہ چند پیسوں کے عوض اپنا ضمیر بیچنے کے لیئے تیار ہوتے ہیں تو اس وقت ان کی ہتھیلیوں پر صرف ان کا ضمیر نہیں ہوتا ۔ انہیں خریدنے والے کا ضمیر بھی ہوتا ہے جو بک جاتا ہے ۔ اور بے ضمیر لوگ اچھے نہیں ہوتے ۔ زالان نے اثبات میں سر ہلایا ۔
چلو اب شاباش شروع ہو جاؤ طوطے کی طرح۔ کون ہو ؟ جیل کیوں گئے ؟ مجھے ملک سے جانے کا بکواس مشورہ دے کر پھانسی پر کیوں چڑھنا چاہتے ہو؟ اس نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
زالان نے خاموشی سے اس کی آنکھوں کو دیکھا ۔ جو چمک رہی تھیں ۔
کیا ہوا ؟ اس کی خاموشی محسوس کر کر ارسا نے کہا ۔
کچھ نہیں ۔ زالان نے نفی میں سر ہلایا۔ اور اسے سب بتانا شروع کیا ۔
بڑا دشوار ہوتا ہے
ذرا سا فیصلہ کرنا
کہ جیون کی کہانی کو
بیان بے زبانی کو
کہاں سے یاد رکھنا ہے
کہاں سے بھول جانا ہے
کسے کتنا بتانا ہے
کس سے کتنا چھپانا ہے
کہاں رو رو کے ہنسنا ہے
کہاں ہنس ہنس کے رونا ہے
کہاں آواز دینی ہے
کہاں خاموش رہنا ہے
کہاں رستہ بدلنا ہے
کہاں سے لوٹ جانا ہے
بڑا دشوار ہوتا ہے ۔۔۔۔۔
وہ نظریں اپنے جاگرز پر مقید کیئے سب بتا رہا تھا ۔ ڈر تھا کہ اگر اس نے اپنی نظریں اس کی آنکھوں میں گاڑھیں تو وہ بولنا بھول جائے گا ۔ جبکہ ارسا اپنی ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھے اسے دیکھتے ہوئے اسے سن رہی تھی ۔ کبھی اس کی کسی بات پر مسکرا دیتی ۔ کبھی بور ہونے کے سے انداز میں جمائیاں لیتی ۔ اس کی تمام حرکتوں کو نوٹ کرتے ہوئے وہ اپنا ماضی اسے کسی کہانی کی طرح سنا رہا تھا ۔ چاند مسکراتے ہوئے انہیں دیکھ رہا تھا ۔ وقت دھیرے دھیرے گزر رہا تھا ۔ سیاہ لباس میں وہ دونوں اندھیرے کا حصہ لگ رہے تھے لیکن ان پر پڑتی چاند کی روشنی انہیں اندھیرے میں نمایاں کر رہی تھی ۔
چیف جسٹس کے بعد انصاف مہم کی لیڈر آپ ہیں ۔ انٹیلیجنس کے آرڈرز آچکے ہیں ۔ انہوں نے ۔۔۔۔۔وہ رکا تھا ۔
انہوں نے آپ کو مارنے کا کہا ہے ۔ اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا ۔ ارسا نے دوبارہ جمائی لی اور پاس پڑی پسٹل اسے پکڑائی۔ زالان نے خفگی سے اسے دیکھا ۔
میں آپ کو مارنا نہیں چاہتا ارسا ۔ اسی لیئے میں چاہتا ہوں کہ آپ یہاں سے چلی جائیں کچھ وقت کے لیئے جب تک یہ معاملہ حل نہیں ہوتا ۔ میں زندگی میں پہلی مرتبہ اپنے کمانڈرز کے آرڈرز کے خلاف جارہا ہوں ۔ لیکن پتا نہیں کیوں میں آپ کو نہیں مار سکتا ۔ حالانکہ میں نے اب تک ہزاروں قتل کیئے ہیں ۔ ناجانے کتنے دشمنوں کی جانیں لیں ہیں ۔ لیکن آپ میری دشمن نہیں ہیں ۔ آپ میری ہم وطن ہیں ۔ آپ میری بات سمجھ رہی ہیں نا ۔ ارسا نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا ۔
اس مہربانی کی وجہ ؟ سادہ سا سوال آیا ۔
وجہ ۔۔۔۔۔ وہ مسکرایا۔
وجہ شاید آپ ۔پھر اس نے نفی میں سر ہلایا۔
نہیں وجہ آپ کی آنکھیں ہیں ۔ یہ بالکل فاطمہ جیسی ہیں ۔ اس نے نظریں چرائیں تھیں ۔
او اچھا ۔ سمجھ گئی۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
لیکن تم نے مجھے بتایا نہیں کہ تمہارے جانے کے بعد فاطمہ کا کیا ہوا ۔ اس نے سنجیدگی سے پوچھا ۔ کوئی اور ہوتا تو اسے اب تک زالان پر رحم آچکا ہوتا لیکن وہ ارسا ہاشم تھی ۔ جسے ظالم ملکہ یونہی نہیں کہا جاتا تھا ۔
دس سال بعد میں اسے لینے گیا تھا لیکن وہ وہاں نہیں تھی ۔ وہ چلی گئی تھی ۔ نجانے کہاں ۔ اس نے دھیمے لہجے میں کہا تھا ۔
ارسا نے خاموشی سے اسے دیکھا ۔ کچھ وقت اسے یونہی دیکھنے کے بعد وہ مسکرائی تھی ۔ اس کی چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ تھی ۔
فاطمہ کو جانا تھا زالان ۔ اس نے سامنے دیکھتے ہوئے کہا ۔ زالان نے حیرت سے اسے دیکھا ۔ پھر اس نے ایک ہاتھ سے اپنے نقاب کو نیچے کر کر ٹھوڑی پر ٹکایا تھا ۔ زالان کو جھٹکا لگا تھا ۔ وہ سامنے دیکھ رہی تھی جس کی وجہ سے اس کا آدھا چہرہ نظر آرہا تھا ۔
کیونکہ اگر وہ نا جاتی تو دنیا کسی ارسا ہاشم کو نا جان پاتی ۔ اس نے اپنا چہرہ زالان کی طرف کیا تھا ۔ زالان ساکت ہوا تھا ۔ وقت تھم گیا تھا ۔ کہا جاتا ہے انسان جتنا بھی بدل جائے اس کی ناک ہمیشہ پہلے جیسی ہی ہوتی ہے ۔ لیکن وہ بالکل نہیں بدلی تھی ۔ وہی بڑی بڑی آنکھیں ، کھڑی ناک ، سفید رنگت ۔ وہ لڑکی اس کی بہن تھی جس کے لیئے وہ دن رات تڑپا تھا ۔
فاطمہ ۔ اس نے سرگوشی کی تھی ۔
میں نے کہا تھا نا زالان کہ اگر مجھے کبھی اپنی شناخت بدلنے کا موقع ملا تو میں ارسا بن کر دنیا کی نظروں میں آؤں گی ۔ اور جب میرے ماں باپ کے بعد میرا بھائی بھی مجھے اس دنیا سے لڑنے کے لیئے اکیلا چھوڑ گیا تو میرے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا ۔ زالان کسی ٹرانس کی کیفیت میں اسے دیکھ رہا تھا ۔
تمہارے جانے کے بعد میں نے سات دن تمہارا انتظار کیا ۔ یہ سات دن مجھے سات صدیوں کی طرح لگے تھے ۔ لیکن پھر میں نے خود کو خود ہی سنبھالا تھا ۔ اگر تمہارے پاس تمہارا مقصد تھا تو میرے آگے بھی دنیا تھی ۔ اسی لیئے میں وہاں سے نکل گئی تھی ۔ اور دیکھو آج میں کہاں ہوں ۔ ہزاروں مجرموں کو سزائیں دے کر میں نے اپنا انتقام لے لیا ۔ میں بہت خوش ہوں اپنی اس زندگی سے ۔ زالان کی آنکھوں میں نمی آئی تھی ۔
میں نے نا صرف بہت سے مجرموں کو سزا دی ہے بلکہ بہت سے جرائم کو ختم بھی کیا ہے ۔ اور جب تک سانسوں کی یہ ڈور چل رہی ہے میں کبھی کسی پر ظلم نہیں ہونے دوں گی کیونکہ میں جانتی ہوں کہ درد کیا ہوتا ہے ۔ تم واحد سہارا تھے میرا اور تم ہی مجھے چھوڑ گئے تھے ۔ ایسے کوئی کرتا ہے کیا؟ وہ بول رہی تھی اس کے آنسو آنکھوں سے تیزی سے گر رہے تھے ۔
لیکن تمہارے جانے کے بعد میں مضبوط ہوگئی ہوں ۔ میں نے اس ظالم دنیا میں جینے کا طریقہ سیکھ لیا ہے ۔ میں نا چاہتے ہوئے بھی بہت بدل گئی ہوں ۔ کیونکہ آپ کو بدلنا پڑتا ہے جب آپ کے اپنے آپ کو چھوڑ کر چلے جائیں ۔ لیکن قدرت مجھ پر مہربان ہے ۔ تمہارے بعد قدرت نے مجھے کچھ ایسے لوگوں سے ملایا جو واقعی میرے اپنے ہیں ۔ جو مجھے تمہاری طرح چھوڑ کر نہیں جائیں گے ۔ وہ رکی تھی ۔ اپنے ہاتھ کی پشت سے اپنے گال کو رگڑا ۔ زالان نے بھیگی آنکھوں سے اسے دیکھا تھا ۔ ایک آنسو اس کی آنکھ سے ٹوٹا تھا ۔
مجھے معاف کرسکتی ہو ؟ اس نے بمشکل کہا تھا ۔ ارسا نے سنجیدگی سے اسے دیکھا ۔
معافی مانگو گے ؟ سیدھا سا سوال آیا ۔
زالان نے اس کی بات پر اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے کان پکڑے تھے ۔ اس کی اس حرکت پر ارسا کھلکھلا کر ہنسی تھی ۔ اور آگے بڑھ کر اس کے کانوں سے اس کے ہاتھ ہٹائے تھے ۔
میری زندگی کے اصولوں میں سے ایک اصول یہ بھی ہے کہ جب کوئی آپ سے معافی مانگے تو اسے معاف کردو ۔ چاہے اس نے آپ کے ساتھ کتنا ہی برا کیوں نا کیا ہو ۔ مجھے وہ لوگ بہت برے لگتے ہیں جن کو اگر کوئی چھوڑ جائے تو وہ روتے ہیں ، دن رات اس کے لوٹنے کی دعائیں کرتے ہیں اور جب اللہ ان کی دعائیں سن لیتا ہے اور وہ شخص واپس آجاتا ہے تو وہ یہ کہ کر اسے معاف نہیں کرتے کہ اس نے میرے ساتھ بہت برا کیا ۔ اب یہ بھی تھوڑا تڑپے تاکہ اسے میرے درد کا اندازہ ہو ۔ مطلب سیریئسلی ؟ آپ نے اللہ تعالیٰ سے جو مانگا اللہ نے وہ آپ کو دیا تو آپ اسے ٹھکرا رہے ہو ۔ زالان نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا ۔
رہی بات تکلیف کی تو آپ اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دو ۔ آپ کو نہیں لگتا کہ وہ شخص آپ کے پاس لوٹ کر آیا اس کا مطلب کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے آپ کا بدلہ لے لیا ہے ۔ آپ کو چاہیئے کہ یہ سوچ کر اسے کھلے دل سے معاف کردیں اگر ۔۔۔۔
اگر وہ کان پکڑ کر معافی مانگے تو۔ اس نے شرارت سے کہا ۔
تو مسٹر زالان حیدر سب سے پہلے اللہ تعالیٰ ، اس کے بعد یہ چاند ستارے ، یہ ہوا ، یہ فضا زمین و آسماں پرچیز گواہ رہے گی کہ میں نے تمہیں دل سے معاف کیا ۔ اس نے بلند آواز میں چاند کو دیکھتے ہوئے کہا ۔ زالان نے بھی اپنی نگاہوں کا رخ چاند کی طرف کیا ۔ دونوں خاموشی سے چاند کو دیکھ رہے تھے ۔ کچھ دیر بعد ارسا نے پریشانی سے زالان کو دیکھا ۔
اچھا سنو میں نے صبح تھوڑا سا ناشتہ کیا تھا ۔ دو بجے کافی پی تھی ۔ گھر آکر ہادیہ کے ساتھ بریانی کھائی تھی ۔ شام کو عبدالله کے ساتھ آئس کریم کھائی تھی ۔ لیکن میں نے ڈنر نہیں کیا اور اب مجھے بہت زیادہ بھوک لگ رہی ہے ۔ میری ٹمی میں گھوڑے ورلڈ کپ میچ کھیل رہے ہیں ۔ اور تمھاری پینٹ کی رائٹ پاکٹ میں پڑے ڈیری ملک کو دیکھ کر گھوڑوں کے ساتھ ساتھ ہاتھی بھی اس میچ میں شامل ہوگئے ہیں ۔ اب چوہے بلیوں کے شامل ہونے سے پہلے مجھے ڈیری ملک کھانا ہے ۔ وہ تیز تیز بولتی زالان کو حیرت میں ڈال گئی تھی ۔ زالان نے حیرت سے اسے دیکھا اور پھر اپنی پینٹ کی پاکٹ کو ۔ جہاں سے ڈیری ملک جھانک رہا تھا ۔ اس نے مسکراتے ہوۓ ایک ڈیری ملک اس کی طرف بڑھایا ۔ جسے ارسا نے نہیں تھاما اور نظروں سے اس کی پاکٹ کی طرف اشارہ کیا ۔ زالان نے لمبی سانس لی اور تمام چاکلیٹس اس کی طرف بڑھائیں ۔ جنہیں ارسا نے اشتیاق سے تھاما اور سائیڈ پر رکھ دیں ۔ ان میں سے دو ڈیری ملک کے ریپر اتارنے لگی ۔ زالان غور سے اس کی تمام حرکتوں کو دیکھ رہا تھا ۔
انسان جتنا بھی بڑا ہوجائے لیکن فری کی چیزوں کا اپنا ہی مزہ آتا ہے ۔ اور تاریخ گواہ ہے میں نے کبھی چاکلیٹس خود نہیں لیے ہمیشہ عبدالله ، زینب یا حدید سے ہی لیتی ہوں ۔ اس نے ہنستے ہوے کہا اور ایک چاکلیٹ زالان کی طرف بڑھایا ۔
اور اب ان ناموں میں میرے نام کو بھی شامل کردو پرنسس ۔ارسا نے آنکھیں چھوٹی کر کے اسے دیکھا ۔
پرنسس کسے کہا تم نے ؟ اس نے زالان کو گھورتے ہوۓ کہا ۔
تمہیں ۔
اوں ہوں ۔ ارسا نے نفی میں سر ہلایا ۔
کیا ہوا ؟ زالان نے پوچھا ۔
پرنسس نہیں میں کوئین ہوں ۔ کوئین ارسا ہاشم ۔ اس نے چاکلیٹ کی بائیٹ لیتے ہوۓ کہا ۔
لیکن لڑکیاں تو پرنسس بننا پسند کرتی ہیں ۔ زالان نے اس کے کندھے پر اپنا بازو پھیلایا تھا۔
بڑا تجربہ ہے لڑکیوں کی پسند کا ۔ ارسا نے اسے گھورا تھا ۔زالان کا قہقہ بلند ہوا ۔
میں دوسری لڑکیوں کی طرح نہیں ہوں۔ وہ اور میں کبھی ایک جیسی لڑکیاں نہیں ہوسکتیں ۔ کیونکہ وہ پرنسس ہیں ۔ معصوم ، رحمدل ، لوگوں کی باتوں میں آجانے والیں ، کمزور ، ہر وقت مسکرانے والیں ، جنہیں اس ظالم دنیا میں سروائیو کرنا نہیں آتا ، وہ لوگوں کی چالاکیوں کو نہیں سمجھ سکتیں ۔ ارسا نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ کہا ۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...