بڑا دشوار ہوتا ہے کسی کو یوں بھلا دینا
کہ جب وہ جزب ہوجاۓ رگوں میں خون کی مانند۔۔
تُرکی کی یہ حسین صبح!
سردی کے اس موسم میں جہاں سورج کا نام و نشان نہ تھا وہ جھیل کے کنارے بیٹھی آنکھوں پر سٹیلش سے گلاسس لگاۓ ہاتھ میں چائے کا مگ پکڑے لیپ ٹاپ پر جھکی کچھ کرنے میں مصروف تھی
فون کے بجنے پر اس نے سر اٹھا کر کال کرنے والے کا نام پڑھ کر کال اٹھا کے کان سے لگایا تھا
ہیلو ۔۔۔۔ ایک لگ سی آواز تھی ۔۔۔۔۔روح میں سما جانے والی
کہاں ہو آفس نہیں آئی آج ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظر آ رہی ہوں ۔۔۔نہیں نہ تو اسکا مطلب یہی ہے کی نہیں آئی ۔۔۔۔ بیزاری سے جواب دیتی وہ اپنا لیپ ٹاپ بند کر رہی تھی
ماہی ۔۔۔ سامنے والی لڑکی نے حیرت سے اسکا بیزار پانا دیکھا تھا
ماہین ۔۔۔ نام ہے میرا آئندہ اس ہی نام سے بلانا اور پلیز اب مجھے ڈسٹرب نہیں کرنا ۔۔۔ بائے سرد پن سے کہتی وہ کال کاٹ چکی تھی
گلاسس کو ٹھیک کرتی وہ اپنی چیزیں سمیٹ کے اٹھی تھی ویسے بھی اسکا موڈ خراب ہو چکا تھا
تھوڑی اگے چلی تھی کے اسے لگا کوئی اسے دیکھ رہا ہے
موڑ کر آس پاس کا جایزا لیا مگر اسے اپنے علاوہ کوئی نہیں دیکھا تھا ۔۔۔۔۔۔وہ پھر سے چلنے لگ گئی تھی
میری بھیگی بھیگی سی پلکوں پے رہ گے
جیسے میرے سپنے بکھر کے
جلے من تیرا بھی کس کے ملن کو
انامیکا تو بھی ترسے۔۔
ماہی آواز کے انے سے ایک دم پلٹی مگر کوئی نہیں تھا ۔۔
اسے یہاں رہتے آٹھ ماہ ہو چکے تھے
مگر آج تک ایسا نہ ہوا تھا
پانچ منٹ کی واک کے بعد وہ بیلڈنگ میں . انٹر ہوئی سیڑیاں چڑھتے وہ اپنے فلیٹ کے سامنے آ روکی کارڈ سے دور کو انلاک کرکے اندر آئی ٹیبل پر اپنا سامان رکھ کے پالٹی ہی تھی
کے بیل کی آواز آئی بیزاری سے جاکے دروازہ کھولا تو سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کے ماہی تھم گئی تھی
جھلیا عشق کمانا اوکھا
کسی نوں یار بنانا اوکھا
پیار پیار ہر کوئی بولے
کر کے پیار نبھانا اوکھا
ہر کوئی دکھاں تے ہنس لیندا اے
کسی دا درد ونڈانا اوکھا
جھلیا عشق کمانا اوکھا
کسی نوں یار بنانا اوکھا
اھممممم ۔۔۔ اندر نہیں بلاؤ گی حسان گلہ کہنکھارتے ہوئے بولا
آئیں۔۔۔۔ ماہی اپنا سكارف سہی کرتی ہوئی بولی
ڈھانپ رھی تھی وہ خود کو آنچل سے بار بار
بھلا رات چھپا سکتی ھے کبھی چاند کا حسن
کیسی ہو ۔۔۔حسان صوفے پر بیٹھتا ہوا بولا
میں ٹھیک ۔۔۔۔۔۔ ماہی دیوار سے ٹیک لگاتی ہوئی بولی
کمزور ہو گئی ہو بہت ۔۔۔۔۔۔۔
موم ڈیڈ کیسے ہیں ۔۔۔۔۔،۔
الحمداللہ بلکل ٹھیک ہیں ۔۔۔۔۔ یاد کرتے ہیں تمہیں ۔۔۔۔
کیا لیں گے ۔۔۔۔۔ ماہی مسکراتی ہوئی بولی
تمہارے ہاتھ کی کوفی ۔۔۔۔۔ وہ دونوں ایسے بات کر رہے تھے جیسے بہت اچھے دوست ہوں
اوکے ۔۔۔۔۔ ماہی کہتی کیچن میں چلی گئی تھی ۔۔۔۔۔۔
تم کیا حوا پر چلتی ہو حسان فریج میں جھانکتے ہوئے بولا
نہیں چاۓ پر چلتی ہوں ۔۔۔ماہی کندھے اوچکا کر بولی
تم کھانا نہیں کھاتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حسان آنکھیں بڑی کر کے بولا
مجھے کچھ بنانا نہیں آتا ۔اور اکیلی ہوں تو اگر کبھی دل کرتا ہے تو منگوا لیتی ہوں ۔۔۔۔۔مگر زیادہ چاۓ ہی پیتی ہوں ۔۔۔۔۔ماہی حسان کو کوفی پکڑاتی ہوئی بولی
اور علی بھائی ثوبیہ نور صمد بھائی حیا سر حذیفہ کیسے ہیں ۔۔۔۔۔
سب سہی ہیں ۔۔۔۔۔
اور آج کل کیا کر رہی ہو ۔۔۔۔۔۔
میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب اور آپ ۔ ماہی بالكاونی میں لگے رولینگ جھولے پر بیٹھتی ہوئی بولی ۔۔۔۔
میں شادی کی تیاری کر رہا ہوں ۔۔۔۔۔ حسان کوفی کا سیپ لیتے ہوئے آرام سے بولا ۔۔۔۔۔۔۔۔
کس کی شادی کی ۔۔ماہی شاید بات سمجھیں نہیں تھی
اپنی اور کس کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حسان ماہی کے چہرے کے تاثرات نوٹ کرتا ہوا بولا
ماہی کو لگا تھا اسے سانس نہیں آئیے گا اسکے ذہن میں بس ایک بات گھوم رہی تھی کیا علی نے وہ باکس نہیں دیا تھا حسان کو ۔۔۔۔
کہاں کھو گئیں ۔۔۔۔ حسان ماہی کے سامنے چٹکی بجاتا ہوا بولا ۔۔۔۔۔
کہیں نہیں ۔۔۔۔ آپ بتایں کب ہے شادی کس سے کر رھے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ماہی خود پر کنٹرول کرتی ہوئی بولی اسے لگا تھا حسان اس کے لیا آیا ہے مگر؟ ؟!!!!
دو دن بعد۔۔۔۔ حسان ماہی کو بولا
اچھا۔۔۔ ماہی مسکراتی ہوئی بولی ۔۔۔۔۔۔
ھممممم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری شادی پر بھی نہیں آو گی ۔۔ حسان کافی کا مگ سامنے ٹیبل پر رکھتا ہوا بولا
اپنے بلایا ہی نہیں ۔۔۔۔۔
******