{بڑا آدمی}
صبح وہ گھر سے نکلا۔ سورج ابھی افق کے پردے سے جھانک رہا تھا۔ صبح کی تازگی کے باعث اس کے خیال کی رعنائی اس کے جھریوں والے چہرے کی رعنائی کا روپ دھارنے لگی۔ کفایت شعاری کہہ لیں یا جیب کی گنجائش وہ سال بھر ایک ہی سوٹ پر گزارا کرتا تھا۔ تن پر ریشم کا کپڑا ہو یا کھدر کا اسے چنداں فرق نہیں پڑتا۔ لیکن دو دن پہلے اس نے گاؤں کے درزی سے نیا سوٹ سلوایاتھا۔ اسی لیے وہ گھاس پر پڑی شبنم سے پانچے بچا بچا کر چل رہا تھا۔ تانگے والے اڈّے پر اب تانگوں کی جگہ رکشوں نے لے لی تھی۔ یہاں سے ہر دو گھنٹے میں سواریوں سے لدا چنگچی رکشہ نکلتا تھا۔ اڈّے پر پہنچ کر وہ رکشے کا انتظار کرنے لگا۔ دل میں مسلسل بچپن کی یادوں کو تازہ کر رہا تھا۔۔
’’مجھے آج بھی یاد ہے اس زمانے میں یہاں تانگے ہوا کرتے تھے ۔ ہم سواریوں سے بھرے تانگے کے ساتھ لٹک جاتے تھے اور تانگے والا دور بھگا دیتا تب اسلم اسے کہتا تھا’ایک دن میں بڑا آدمی بن جاؤں گا پھر تیرا یہ تانگہ خرید لوں گا‘ میں اسلم کی باتیں سن کر ایسے ہاں میں ہاں ملاتا گویا مجھے یقین تھا کہ وہ سچ مچ بڑا آدمی بنے گا‘‘
رمّو اِرد گِرد کے ماحول سے بے خبر ہو کر ہنسنے لگا۔ کالو چرواہے کی آواز نے اس کے خیال کو منتشر کر دیا۔۔۔
’’کس سے باتیں کر رہے ہو رمّو بھاؤ؟‘‘
’’کسی سے نہیں ۔۔ یونہی۔۔‘‘ کالو نے بات ٹوکتے ہوئے ٹکڑا لگایا
’’خیر تو ہے؟آج بڑے خوش لگ رہے ہو۔۔ ‘‘
رمّو چھاتی چوڑی کر کے بیٹھ گیا
’’شہر جا رہا ہوں اپنے یار سے ملنے۔ شہر کا بہت بڑا آدمی بن گیا ہے وہ۔ اسی لیے تو نیا سوٹ پہنا ہے‘‘
کالو نے کہا۔
’’ہاں بھئی۔۔ وڈّے بندے تے ودّیاں گلّاں‘‘
رمّو کو اس کی باتیں کچھ بھلی نہیں لگیں
’’بس بس تُو جا، اپنے ڈنگر سمبھال۔۔ اور سُن۔۔ کسی اور سے اس بات کا ذکر نہ کرنا‘‘
رمّو کو یہ خوف بھی تھا کہ اگر چوہدری کو خبر مل گئی تو وہ رمّو کا حقّہ پانی بند کر دے گا۔
’’میں کسی کو نہیںبتاتا رمّو بھاؤ۔۔ خیر سے جاؤ‘‘
کالو نے اسے اعتماد میں لیتے ہوئے کہا۔ اڈّے کے دونوں جانب دھان اور گنے کے کھیت تھے۔ کچھ بچے کپڑے کے بنے ہوئے بستے سر پر دھرے دھان اور گنے کی درمیانی پگڈنڈی پر جا رہے تھے۔ان آدھے اھورے یونیفارم میں ملبوس بچوں کو دیکھ کر ایک بار پھر وہ یادِ رفتگاں کی گلیوں میں بھٹکنے لگا ۔جب وہ بھی انہی بچوں کی طرح اسلم کے ساتھ سکول جایا کرتا تھا۔ سکول سے واپسی پر کچے آم توڑتا، ٹیوب ویل میں نہاتا ، درختوں کی شاخوں پر اُلٹا لٹکتا۔پھرایک دن چوہدری کے حکم پر رمّوں کے ابّا نے اسے چوہدری کے ڈیرے پر کام پر لگادیا ۔پھر رمّّو چھُپ چھُپ کر سکول کے راستے میں اسلم کا انتظار کرتا۔۔ رکشے کی آواز سے اس کے خیالات کا تسلسل ایک بار پھر ٹوٹ گیا۔سورج اب پوری آب و تاب کے ساتھ اُبھر چکا تھا ۔اس کی ٹھنڈی اور میٹھی کرنوں میں ہلکی ہلکی گرمی کا احساس ہونے لگا ۔ کچھ سواریاں اکٹھی ہوچکی تھیں ۔ رکشہ والے نے سامان لوڈ کرنا شروع کر دیا ۔۔ رکشہ میں سوار باقی لوگ گپیں ہانکنے لگے لیکن وہ چپ سادھے ایک طرف ہو کر بیٹھا رہا،اگلی سیٹ پر بیٹھے ایک شخص نے کہا ۔۔
’’ارے بھائی۔۔ ۔ چلو بھی ۔۔ اب کیا دوپہر ہونے پر چلو گے ۔‘‘
رکشے والے نے بڑے دھیمے لہجے میں جواب دیا ۔
’’کیا کہتے ہو میاں ۔ابھی تو صبح ہوئی دوپہر کہاں سے آگئی ؟دو سواریاں آنی ہیں، بس آنے والی ہیں ۔پھر چلتے ہیں۔ ‘‘
پاس بیٹھے دوسرے شخص نے قدرے تلخ لہجے میں کہا ۔۔
’’اور کتنی سواریاں لادنی ہیں؟ رکشہ بھر گیا ،لالچ ختم نہ ہوا ۔چلنا ہے تو چلو بھیّا۔۔ ورنہ اُتار دو ‘‘
اس بار رکشے والے کا لہجہ بھی ذرا تلخ ہو گیا
رمّو نے رکشہ والے کی بات سے اتفاق کیا ۔ہاںہاں یہ صحیح کہہ رہا ہے ۔یہ شہر والے وقت کے پکے ہوتے ہیں ۔ذرا سی تاخیر ہوئی نہیں کہ کالج کے دروازے بند‘‘
اس سے پہلے کہ دوسرا شخص کچھ کہتا کھیتوں سے تین نوجوان نمودار ہوئے۔ ان کو دیکھ کر رمّو کو اپنی جوانی کے دن یاد آگئے۔ ان دنوں گائوں کے ہائی سکول کا صرف ایک طالب علم پاس ہوا ۔رمو بہت خوش تھا کیونکہ گائوں کا وہ پہلا دسویں پاس طالب علم رمو کا دوست اسلم تھا ۔اسلم کی ایک ہی خواہش تھی بڑا آدمی بننے کی اور رمو کی بھی صرف ایک خواہش تھی کہ اسلم کی خواہش پوری ہوجائے ۔اسلم کا رمو کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا ۔رمو نے اپنی بکریاں بیچ کر اس کا داخلہ کرایا سائیکل پہ روز اسے شہر چھوڑنے جاتا اور جب تک کلاس ختم نہ ہوتی کالج کے دروازے پر کھڑا رہتا ۔شہر داخل ہوتے ہی چوک پر رکشہ کی بریک لگ گئی ،رمو نے جیب سے پرچی نکالی پھر سوچنے لگا ،اب اس پتے پر کیسے پہنچوں ؟کس سے پوچھوں؟ کالج کے لڑکے بھی رکشے سے اتر آئے۔ ایک لڑکا رمو قریب آیا۔۔ بابا کیا بات ہے ؟پریشان کیوں کھڑے ہو ؟ ‘‘ رمو نے جلدی سے پرچی آگے بڑھائی ۔۔اس ۔۔پتے پر جانا ہے ۔اس لڑکے نے پرچی پکڑلی اور رمو کو ساتھ لے کر چل پڑا ۔سڑک کے دونوں جانب طرح طرح کی دوکانیں کنگن میں جڑے موتیوں کی طرح سج دھج کر ایک دوسرے کے پہلو پر سوار ہو رہی تھیں۔گاڑیوں کے ہارن اور آمند ورفت سے فضا شور آلودہ ہورہی تھی ۔سڑک عبور کرنے کے بعد وہ لڑکے اسے ایک تنگ گلی میں لے گئے پھر ایک چوک آگیا جہاں سے تین گلیاں نکلتی تھیں وہاں سے مشرق کی جانب ایک چوڑی گلی تھی جو آگے جا کر پھر ایک روڈ پر کھلتی تھی ۔اس روڈ کے دونوں جانب بڑی بڑی عمارتیں تھیں انہیں عمارتوں سے شانہ ملائے وہ عمارت بھی کھڑی تھی جس کے سامنے وہ لڑکا رمو کو لے کر گیا ۔عمارت کی خوبصورتی اور بلندی دیکھ کر رمو متحیّر ہوگیا ۔اس نے کپڑوں کو جھاڑا ،بال سیدھے کیے ،چہرے پر ہاتھ پھیرا پھر شیشے کے دروازے سے عمارت میں ،داخل ہو گیا ۔دروازے کے پاس ایک ہٹاکٹا چوکیدار کھڑا تھا۔اس نے رمضان کو روک لیا۔ ’’کون ہوتم ؟کہاں گھسے جارہے ہو ؟‘‘
رمو نے بڑی عاجزی سے جواب دیا
’’ میں رمضان ہوں جی۔۔ اسلم صاحب کے گائوں سے آیا ہوں‘‘
چوکیدار نے اسے سامنے پڑے ہوئے صوفے پر بیٹھنے کو کہا
’’یہاں بیٹھو میں صاحب کو خبر کرتا ہوں ‘‘
بی ایس سی کے بعد اسلم ملک سے باہر چلا گیا تھا ۔ وہ ہر گز نہ جا پاتا اگر رمو اس کی مدد نہ کرتا ۔وہ نا امید ہو کر گھر بیٹھ گیا تھا ۔رمو نے اس کی ڈھارس بند ھائی ۔اپنی دو ایکڑ زمین بیچ دی اپنا سب کچھ ،سائیکل تک بیچ دی۔ تمام جمع پونجی لاکر اس کے ہاتھ پر دھر دی تھی۔
کافی دیر انتظار کے بعد رمضان چوکیدار کے پاس گیا
’’بھائی ۔۔ تم نے صاحب کو میرے آنے کی خبر تو کر دی ہے نا؟‘‘
ہاں ہاں۔۔ صاحب ابھی میٹنگ میں ہیں تم بیٹھو انتظار کرو‘‘
پھر ایک اپ ٹو ڈیٹ شخص اندر داخل ہوا۔ چوکیدار نے بڑی عاجزی سے اسے سلام کیا وہ شخص سیدھا آفس میں چلا گیا۔ اسی طرح یکے بعد دیگرے لوگ آتے جاتے رہے۔ ان میں سے کسی کو انتظار کے لیے نہ کہا گیا۔رمضان ایک بار پھر چوکیدار کے پاس گیا
’’بھائی پتا کر دو نا۔۔ اور کتنا انتظار کرنا پڑے گا‘‘
’او بھائی تم سے صبر نہیں ہوتا؟ کہا نا انتظار کر۔ صاحب جب فارغ ہوں گے بلا لیں گے‘‘
یونہی دن گزر گیا۔ شام نے دن کے اجالے کو اپنی آغوش میں چھپانے کے لیے اپنے کنارے وسیع کر دئیے۔ اس عمارت کے اندر ابھی بھی دن کا سا سما تھا۔ روشنیاں اندھیرے کو مات دے رہی تھیں۔ وہ گھڑی بھی آ گئی جس کا رمضان کو اتنے برسوں سے انتظار تھا۔ ایک دراز قد پر وقار شخص برآمد ہوا ۔ اس کے آگے پیچھے دو چار لوگ تھے جو غالباً اس کی وجاہت یا شاید اس کے مرتبے کے رعب کی وجہ سے اس کے آگے سر تسلیم خم تھے۔وہ باری باری ہر ایک سے مخاطب ہوتا اور لوگ اس کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ سر جھکا کر تسلیم کرتے۔
رمضان اٹھ کر کھڑا ہو گیا ۔ خوشی سے اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ اسے یقین تھا کہ اب اسلم اس کی طرف آئے گا اسے گلے لگا کر کہے گا دیکھ تیرا یار کتنا بڑا آدمی بن گیا۔ اس نے ایک با رپھر اپنے کپڑے جھاڑے ، بالوں کو ہاتھ سے سیدھا کیا۔ اسلم نے اپنی بات ختم کی ایک بار صوفے کے پاس کھڑے پسینے میں ڈوبے نحیف و نزاد شخص کو دیکھا، پھر نظر انداز کرتا ہوا باہر چلا گیا۔ رمضان نے سوچا شاید اس نے پہچانا نہیں۔وہ اس کے پیچھے بھاگا۔۔
’’اسلم بھائی۔۔ اسلم بھائی میں رمضان۔۔ تیرا بچپن کا یار۔۔ پہچانا مجھے؟ میں۔۔ میں رمضان۔۔‘‘
’’ارے یار کیا مصیبت ہے تو۔ دیکھا نہیں صاحب مصروف ہیں؟ اگر کوئی کام ہے تو کل آ جانا‘‘
چوکیدار نے اسے دھکیل کر پیچھے کیا۔
اس جگر خراش ملاقات کے بعد رمضان ذلت و اذیت کا مرقع بنا گھر لوٹ رہا تھا تو اسے بار بار اپنے بچوں کا خیال آ رہا تھا جو چوکھٹ پر کھڑے ابّا اور اسلم چاچا کا انتظار کر رہے تھے۔ اس نے اپنی سکت متجمع کر کے گھر کی طرف قدم بڑھانے کی کوشش کی لیکن اس کے قدم تو جیسے منجمد ہو گئے تھے۔ اندھیرا پوری طرح چھا چکا تھا جو بار بار رمضان کو اس کے گھر کی تیرگی یاد دلا رہا تھا۔ جب وہ گھر پہنچا تو حیران رہ گیا۔ اسلم اس کی ٹوٹی ہوئی چارپائی پر بیٹھا تھا ۔ اس کے میلے کچیلے بچے اسلم کے کندھوں پر سوار ہو کر اچھل رہے تھے اور وہ بچوں کو خوش کرنے کے لیے زور زور سے قہقہے لگا رہا تھا۔
٭٭٭