عبد اللہ کو ایک صحت مند نومولُود کی شکل میں دین محمد کریانہ فروش کے گھر بھیجا گیا۔ جب وہ بڑا ہوا اور اس نے سوچا کہ آیا اس ساری کاروائی میں اس کا کوئی عمل دخل تھا تو اسے کچھ یاد نہ آیا۔ مذہبی تاویلات بہرحال تھیں جو معاشرتی اثرات کے زیر اثر بہت مقبول اور کائیناتی سچ کا درجہ رکھتی تھیں۔ عبد اللہ دین محمد کی اکلوتی اولاد تھا۔ اسے اپنے باپ کے دین محمد کریانہ سٹور سے کبھی کوئی خاص دلچسپی نہ رہی۔
دین محمد کی دکان قصبہ میں موجود اسی نوعیت کے دیگر دو سٹورز سے زیادہ چلتی تھی کیونکہ اس کی ایمانداری مشہور تھی۔ چیزیں تھوک میں بوریوں یا ٹین کنستر میں بند آتیں اور کریانہ کے گاہکوں کو دوکاندار چھوٹے بڑے ترازو سے تول کر اور بعض اوقات محض قیافے سے آنک کر دے دیتے۔ دین محمد جیسے کھلے دل والے دکاندار ترازو کو تھوڑا سودے کی سمت جھکا چھوڑتے، بلکہ اوپر سے چٹکی بھر اور ڈال دیتے جو اُن کے خیال میں ان کی گاہکی میں برکت کا سبب بنتا۔
سودا عموماً اخبار یا ردی میں بکی پرانی درسی کتب کے پیلے پڑتے کاغذ کا پُڑا بنا کر گاہک کے حوالے کر دیا جاتا۔ پلاسٹک شاپر نامی ماحولیاتی عذاب کا زیادہ رواج نہیں پڑا تھا۔ سادہ سا زمانہ تھا اور بھلے لوگ۔ عدم دلچسپی کے باوجود عبد اللہ کو والد کے ساتھ کریانہ سٹور ہی سنبھالنا پڑا کیونکہ وہ ساتویں جماعت میں تین بار فیل ہوا۔ ماسٹر اقبال کا خیال تھا کہ اسے کم از کم اتنا تو پڑھ لکھ لینا چاہیے جو دوکان کا حساب کتاب باسہولت تحریر کرنے کے قابل بنا دے لیکن اس ضمن میں نہ دین محمد کی نصیحت اور مار پیٹ کسی کام آئی اور نہ ماسٹر اقبال کی۔ عبد اللہ نے نہ پڑھنا تھا اور نہ پڑھا، بس دین محمد کا مددگار بن گیا۔
زمانہ بہت تیزی سے بدلا۔ قصبہ شہر کی صورت اختیار کرنے لگا۔ نئے سٹور کھلنے لگے۔ وہ لوگ کاروبار میں آ گئے جن کا کسی نے کبھی نام بھی نہیں سنا تھا۔ پرانے قصبہ والے بڑھاپے کو پہنچنے لگے۔ نئی نسل کو نہ دین محمد کی مسلمہ دیانتداری کا کوئی لحاظ رہ گیا نہ اُس رواداری کی کوئی فکر جس نے اُن کے بزرگوں کو دین محمد سے خلوص اور اپنائیت کے بندھن میں باندھ رکھا تھا۔ عبد اللہ کے خاندان میں اتفاق سے یا قدرت کی کسی نیرنگی کے طفیل کئی پشتوں سے ایک ہی بچے کی روائت چلی آ رہی تھی۔ عبد اللہ کی اماں سارے محلے میں تائی سکینہ کے نام سے جانی جاتی تھی اور بہت بھلی عورت تھی۔ سکینہ کی خواہش تھی کہ عبد اللہ کے زیادہ بچے ہوں اور اکلوتے کی رسم ختم ہو۔ اس مقصد کے پیش نظر اس نے اپنے میکے سے ایک سگھڑ سی، پانچویں پاس لڑکی شکیلہ، اس کے لیے ڈھونڈھ نکالی۔ عبد اللہ کی اوائل عمر ہی میں شادی کر کے زیادہ بچوں کی امید باندھ لی گئی کہ بندہ کا کام تو تدبیر کرنا ہی ہے نا۔
شکیلہ بہت اچھی بیوی اور بہو ثابت ہوئی۔ دین محمد کی بے وقت موت کے بعد عبد اللہ نے بڑی منت سے دکان چلانے کی سرتوڑ کوشش کی۔ شادی کے بعد اس نے اپنی بڑھتی ہوئی ذمہ داری کا ادراک کر کے دن رات ایک کر دیا لیکن سب کچھ انسان کے بس میں ہے نہیں۔ اگر محنت ہی کامیابی کی ضمانت ہو تو بہت سے تاجور خاک بسر اور خاک نشیں بخت آور بن جائیں۔ قدرت کے کارخانے کے بہت سے راز خفیہ ہیں۔ بہت سی ہونی انہونیوں کو ہم جب سمجھ نہیں پاتے تو قدرت کے نہ سمجھ میں آنے والے نظام اور مشیت و مقدر کے زمرے میں ڈال دیتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی عبد اللہ کے ساتھ ہوا۔ وہ اپنے روائتی سٹور کی بھُربھری چٹان کو جدید جنرل سٹورز کے منہ زور سیلاب کے سامنے قائم رکھ سکنے کی بھرپور کوشش کر رہا تھا کہ ایک نئی افتاد آ پڑی۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر حکومت نے اس، سب تحصیل، کو مکمل تحصیل کا درجہ دے دیا۔ سرکاری دفاتر، اور ہسپتال پہلے سے بڑے تعمیر کیے گئے۔ اکثر سرکاری عمارتوں کی توسیع ہو گئی۔ کچہری کی رونق اور رقبہ دوچند ہو گئے۔ قصبہ شہر بن گیا اور گاڑیوں موٹر سائیکلوں کا سیلاب اُمڈ آیا۔ تانگے غائب ہو گئے اور ان کی جگہ بدنما، بے ڈھنگی اور پرشور چنگچیوں نے لے لی۔ شہر کی اکہری سڑکیں، جن کے کچے کناروں پر کبھی کمیٹی کی لال رنگی گاڑیاں صبح ہی صبح چھڑکاؤکرتی تھیں تو کچی مٹی کی مہک دیسی گلاب اور چنبیلی کی خوشبو سے مل کر کمپنی باغ میں سیر کرتے سحر خیز مرد و زَن کے نتھنوں میں گھس گھس جاتی تھی خالی ہی نہ ہو پاتیں کہ چھڑکاؤ کی نوبت آئے۔ دھول مٹی اور ڈیزل پٹرول کے دھویں کا آمیزہ صبح شام ہوا پر سوار لوگوں کے نظام تنفس کا وہ حال کرتا کہ وہ چنگچی کے سائلنسر بنے پھرتے۔ طرح طرح کی بیماریاں عام ہوتی چلی گئیں۔
مین بازار کے چوک سے، جہاں عبد اللہ کا سٹور تھا، گزرنا محال ہو گیا۔ ٹریفک کے مریل سپاہیوں کی سرتوڑ کوشش کے باوجود سارا دن چوک اور چاروں سڑکوں پر ٹریفک بند رہنے لگی۔ گاہکوں کا چوک کی دوکانوں تک آنا دوبھر ہوا تو پرانے اور وضع دار گاہکوں نے بھی قدیم شہر کے تنگ گلیوں والے میں بازار کی نسبت آسان رسائی والے نئے سٹورز پر قناعت کر لی۔ پرانے گاہکوں کو نئے اور کشادہ لیکن جدے دیت کی رعونت اور خشکی لیے جنرل سٹورز سے خریداری میں وہ مزہ بالکل نہیں آتا تھا جو عبد اللہ کی پرانی دوکان کی پٹ سن کی بوریوں میں رکھی مختلف اشیاء کی خوشبو سونگھتے سودا بندھو اتے آیا کرتا تھا لیکن ان کے بوسیدہ جسم بھیڑ بھاڑ کی مار کھانے کے قابل بھی تو نہیں تھے۔
وقت بہت طاقت ور اور من موجی ہے۔ جب بدلتا ہے تو اس کی سفاک بے نیازی سے جو بھی تہہ و بالاہو یہ پرواہ ہی نہیں کرتا۔ عبد اللہ کریانہ سٹور سے روح نچڑتی چلی گئی۔ عبد اللہ کو باپ بھی یاد آتا اور ماں بھی۔ باپ کے سفید بالوں بھرے سینے کی وسعت بڑھاپے تک عبد اللہ کے آلام و مصائب کو خود میں سمونے سمیٹنے کی اہلیت رکھتی تھی۔ اور ماں۔ وہ بے چاری تو عبد اللہ کی جلد شادی کر کے بھی پوتا پوتی کو ترستی مر گئی۔ شکیلہ نے سٹور کی آمدن میں کمی ہونے کے باوجود اپنے سگھڑ پن سے گھر کا بھرم بنائے رکھا۔ انہی بڑھتی ہوئی پریشانیوں میں قدرت نے شکیلہ کو امید کی کرن بخشی تو دونوں اپنی نیم تاریک زندگیوں میں روشنی کے منتظر ہو گئے۔ دن گنتے گنتے وہ وقت آپہنچا کہ جس کے وہ شدت سے منتظر تھے۔ بے وقت ضرورت آ پڑی تو ہسپتال پہنچنے کا انتظام ہونے سے پہلے ہی پڑوس میں رہتی مڈوائف نے جو محلے میں اچھا خاصہ میٹر نٹی ہوم چلاتی تھی مشکل آسان کر دی۔
شاہد کو ایک چیختے چلاتے بچے کی شکل میں عبد اللہ کے گھر پیدا کر دیا گیا۔ بچہ بظاہر صحت مند تھا لیکن جوں جوں وہ بڑا ہوتا گیا اس کے دیکھنے کے انداز اور رد عمل سے یہ شک پختہ ہوتا گیا کہ شاہد عام بچوں سے قدرے مختلف ہے۔ جب یہ شک یقین میں بدل گیا تو عبد اللہ اور شکیلہ ایک شام روتے بسورتے شاہد کو لے کر بچوں کے بڑے ڈاکٹر کے پرائیویٹ کلینک میں پہنچ گئے۔ ڈاکٹر نے معائنہ کے بعد اُن کے شک کی تصدیق کی۔ بیج سے نکلتے نازک پودے کو ذرا سا بھی مسل دیا جائے تو وہ فطری نمو سے محروم ہو جاتا ہے۔ کچھ ایسا سلوک شاہد کے ساتھ اس مڈوائف نے کیا جو اس کے دنیا میں آنے کو مددگار بنی۔ شاہد کے ساتھ کچھ ایسا ہو گیا کہ اس کے دماغ کے کسی خاص حصے کو آکسیجن کی کمی نے متاثر کر دیا۔ مسلا ہوا پودا بچ تو گیا لیکن کمی مستقل رہ گئی۔ شاہد کو لگا روگ عبد اللہ اور شکیلہ کی جان کا روگ بن گیا۔ شاہد ان کی واحد اولاد ہی رہا اور اکلوتے کی رسم ادھورے پر جا پہنچی۔ اب شاہد کی پرورش دونوں کی زندگی ٹھہری۔ بچے کے بڑا ہونے کے ساتھ ہی ساتھ مسائل بڑھتے چلے گئے۔ اس کی ذہنی حالت ایسی تھی کہ نہ خود کھا سکتا نہ پہن سکتا۔ پاخانہ پیشاب کروانا صفائی کرنا، کپڑے بدلنا، منہ سے بہتی جھاگ سنبھالنا۔ سب شکیلہ کی ذمہ داری بن گئے۔ گھر کے کام کے علاوہ یہ مشقت شکیلہ کی کمر توڑ کر رکھ دیتی۔ عبد اللہ دوکان بھی چلاتا اور موقعہ ملتے ہی گھر بھاگا آتا کہ شکیلہ کا ہاتھ بٹائے۔ اگر کبھی شاہد سو جاتا اور دونوں کو وقت ملتا تو انہیں سمجھ نہ آتا کہ آپس میں کیا بات کریں۔ کتنی ہی بار ہوا کہ ایک دوسرے سے چمٹے رویا کیے۔
قیامت پر قیامت تب آئی جب بقول ڈاکٹر مسلسل مشقت، فکر، اپنی خوراک اور آرام سے پہلو تہی نے شکیلہ کو فشار خون اور ذیابیطس کا مرض لاحق کر دیا۔ اپنے آپ سے لاپرواہی، دواؤں کے استعمال میں بے قاعدگی نے صورت حال بد تر کر دی۔ ذیابیطس نے حسب توقع دیگر اعضائے رئیسہ کو متاثر کرنا شروع کیا اور بلند فشار خون نے ایک کمزور دماغی شریان پھاڑ کر شکیلہ کی مشکل آسان کر دی۔
عبد اللہ رات کو دوکان بند کر کے گھر واپس آیا تو کئی بار کھٹکھٹانے پر بھی گھر کا دروازہ نہ کھلا۔ پڑوسیوں کی مدد سے دروازہ توڑ کر گھر میں گھسے تو برآمدے کے ایک نیم تاریک کونے میں ننگی زمین پر آڑی ترچھی پڑی شکیلہ دنیا کے غموں سے آزادی کا جشن منا رہی تھی۔ عبد اللہ اپنا سر ماں کی ٹھنڈی چھاتیوں کے نرم سرہانے پر رکھے لیٹا ہنس رہا تھا۔
رونا دھونا، اڑوس پڑوس، عزیز رشتے داروں کا ہجوم، جنازہ، ختم، قُل اور۔۔۔۔ طویل روح فرسا سناٹا۔
اب عبد اللہ دوکان پر جا کر دوکان کھولے اورسودا بیچ کر اپنے اور شاہد کی روزی روٹی، دوا دارو کا بندوبست کرے یا شکیلہ بن کر گھر کی صفائی، جھاڑ پونچھ، چولہا چوکا کرنے کے علاوہ سارا دن شاہد کے پیچھے پیچھے پھر کر اس کے کھانے، پہننے، پاخانہ پیشاب، تھوک جھاگ کا خیال کرے۔
کہتے ہیں کہ عورت اور مرد زندگی کی گاڑی کے دوپہیے ہوتے ہیں۔ یہ گاڑی ایسی ہے کہ بعض صورتوں میں ایک پہیہ غائب ہو جانے سے رُکتی نہیں، ایک پہیے پر گھسٹتی رہتی ہے، لیکن بعض صورتوں میں دوسرا پہیہ بدلنے سے لشٹم پشٹم چل پڑتی ہے۔ پھر یہ ایسی گاڑی ہے کہ کبھی اس کے دونوں پہیے مل کر ایک پہیے کی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور وہ ایک پہیہ اسے روانی سے چلاتا چلا جاتا ہے۔ اس صورت میں آدھا پہیہ غائب ہو جانے سے باقی بچا آدھا پہیہ گاڑی گھسیٹنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔ شکیلہ اور عبد اللہ بھی گاڑی کے اکلوتے پہیے کی شکل اختیار کر چکے تھے۔ جب پہیہ ادھورا ہوا تو گاڑی بالکل رُک گئی۔ گھسٹنے سے بھی منکر ہو گئی۔
گاڑی کی بقاء کے لیے عزیز اقرباء اکٹھے ہوئے اور بہت مشوروں کے بعد ایک نیا پہیہ بنام ثریا مہیا کیا گیا کہ زندگی چلتی رہے۔ اس سبیل سے گاڑی چل تو نہ پائی ہاں گھسٹنے ضرور لگی اور یوں کچھ فاصلہ بمشکل طے کر کے پھر رُک گئی۔ ادھورے پہیے نے نئے پہیے کو نہ تو بطور اپنا آدھا تسلیم کیا اور نہ دوسرا۔ عبد اللہ کو محسوس ہوا کہ اُس کی زندگی کی گاڑی بس اُسی آدھے ادھورے یا دوسرے پہیے سے چل سکتی تھی جو اب تھا ہی نہیں۔
اُف! شکیلہ کیا گئی کہ زندگی کی ہر سبیل بھی ساتھ ہی چلی گئی۔ شکیلہ اور عبد اللہ کی گاڑی کا بوجھ بہت بھاری تھا۔ اتنا بھاری کہ کوئی دوسرا اُسے سہار ہی نہیں سکتا تھا۔ اپنوں کا بوجھ بھاری بھی ہو تو ہلکا محسوس ہوتا ہے اور پرایا معمولی بوجھ بھی بہت بھاری لگتا ہے۔ شاہد شکیلہ اور عبد اللہ کا اپنا بوجھ تھا۔ وہ اسے اٹھانے پر مائل بھی تھے اور مجبور بھی۔ موجودہ صورتحال میں تو بوجھ بھی معمولی بوجھ نہیں تھا بلکہ ایک پہاڑ تھا جسے سہار لینا، برداشت کرنا کسی بھی غیر کے لیے نا ممکن ثابت ہو گیا تھا۔ ثریا خودابھی اُس عمر میں تھی جب کچے خواب آنکھوں میں سمائے لڑکیاں شادی کے بعد کسی جادو نگری کا دروازہ کھولنے کی منتظر ہوتی ہیں۔ یہاں ادھیڑ عمر عبد اللہ کی سنجیدہ بلکہ غمزدہ اور ماتمی باقی ماندہ زندگی اور شاہد کی صورت دن رات کی بھیانک ذمہ داری ثریا کی منتظر تھی۔ ر خصتی کے وقت ثریا کی بیوہ ماں نے لاکھ خاندانی روایات، شرافت، نجابت اور وفا شعاری کے سبق پڑھائے مگر سب بے سُود۔ ثریا میں نہ عبد اللہ کو شکیلہ کی کوئی جھلک نظر آئی نہ شاہد کو ماں کا کوئی شائبہ محسوس ہوا۔ یہ بے کیف اور ملول زندگی بس چھ ماہ تک چل سکی۔
ثریا نے ایک دن عبد اللہ کی عدم موجودگی میں شاہد کو گھر میں اکیلا چھوڑا اور باہر کے دروازہ کو تالا لگا کر اپنا اٹیچی کیس اُٹھا، ماں کے گھر جا پہنچی۔ ثریا نے صاف صاف بتا دیا کہ چاہو تو مجھے زہر دے دو لیکن اب عبد اللہ کا میرے سامنے نام بھی نہ لینا۔ اُس نے یہاں تک کہہ دیا کہ طلاق یا خلع بھی ملے یا نہ ملے، چاہے باقی کی ساری زندگی ماں کے گھر پڑی پڑی سڑ جاؤں اب عبد اللہ کے ہاں نہیں جاؤں گی۔ یہ بوجھ اب مجھ سے نہیں اُٹھایا جاتا۔
عبد اللہ اور شاہد پھر اکیلے رہ گئے۔ عبد اللہ کے لئے ہر وقت شاہد کے ساتھ ساتھ رہنا، اُس کی غُوں غاں کا جواب دینا، اُس کے پاخانہ پیشاب کا خیال کرنا، کھانا پلانا، سُلانا نہلانا، کچھ بار نہ تھا۔ اُسے لگتا کہ شاہد اُس کے جسم اور روح کا حصّہ اور اُسی کی ہستی کا جزو ہے۔ اگر عبد اللہ کے پاس وسائل ہوتے تو وہ شاہد کے کھانے پینے، رہنے سہنے اور بہلانے پھسلانے میں باقی ماندہ زندگی گزار دیتا۔ مسئلہ تو یہ تھا کہ عبد اللہ کو گھر کا خرچ چلانے کے لیے کام بھی کرنا تھا۔ دونوں کو بھوک لگتی تھی۔ کپڑے چاہئیں تھے۔ گھر کی بجلی، گیس کے بل آتے تھے۔ دو جانوں کے لیے زندگی جو بھی مانگتی تھی عبد اللہ کو مہیا کرنا تھا۔ پس انداز نہ ہونے کے برابر تھا جو جلد ٹھکانے لگ گیا۔ یار، رشتہ داروں نے کچھ مدد امداد کی لیکن جلد ہاتھ کھینچ لیا۔ اب نوبت فاقوں تک پہنچ گئی۔ عبد اللہ کے لیے زندگی کے راستے بند ہوتے چلے جا رہے تھے۔
شاہد اپنی دیوانگی اور ذہنی پس ماندگی کے باوجود عبد اللہ کو بہت پیار کرتا۔ اُس کا سر چُومتا اور اُس کی چھاتی پر سر رکھ کر سوتا۔ کئی بار شاہد اپنی ماں کے پرانے کپڑے نکال لاتا اور انہیں اوڑھتا۔ یوں لگتا کہ کپڑوں سے آتی شکیلہ کی بچی کھچی خوشبو اُسے کسی اور دُنیا میں لے جاتی اور وہ آنکھیں بند کر کے مست ہو جاتا۔ عبد اللہ یہ دیکھ کر اور زیادہ دُکھی ہوتا اور اُس کی آنکھیں ڈبڈبا جاتیں۔ عبد اللہ کو زندگی نے اتنا اکیلا کر دیا کہ شاہد کے علاوہ کوئی اُس کا پرسانِ حال نہ رہ گیا۔
ایک رات سوچوں نے اُسے اتنا مغلوب کیا کہ رات بھر سو نہ سکا۔ فجر کی اذان کے قریب اُس کی آنکھ لگی۔ آنگن کی دھوپ نے جب اُسے جگا دیا تو اُس نے دیکھا کہ شاہد ویران باورچی خانہ میں گیس کے خالی سلنڈر سے جڑے سرد چولہے کے پاس پڑے دھونے والے برتن چاٹ چاٹ کر اپنی بھوک مٹانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اُسے وہ وقت یاد آ گیا جب شکیلہ صبح ہی صبح اُس کے لیے دیسی گھی کے پراٹھے تلا کرتی تھی۔ اُس کو بہت رونا آیا۔ کچھ سوچ کر وُہ اُٹھا اور شاہد کا ہاتھ پکڑ کر اُسے باورچی خانہ سے باہر لے آیا۔ اب اُسے زندگی نا ممکن دکھائی دی۔ اُس نے بہت سوچا کہ کوئی صورت زندگی کی گاڑی آگے دھکیلنے کی سُوجھ جائے لیکن اُمید کی کوئی کرن تک دکھائی نہ دی۔ اسے اپنا ذہن ماؤف ہوتا محسوس ہوا۔ دم گھٹنے لگا۔ سانس سینے میں اٹک گیا۔ وہ گھبرا کر اُٹھا۔ اس نے شاہد کو گلے لگا کر زور سے بھینچا جیسے خود میں جذب کر لینا چاہتا ہو۔ پھر آہستگی سے شاہد کی ایک ٹانگ گھٹنے کے قریب سے رسی کے ساتھ باندھی، اس کا دوسرا سرا بڑے کمرے کی دہلیز پر لگے آہنی کُنڈے کی ہک میں سے گزار کر زور سے باندھا اور کھینچ کر چیک کیا۔
پیچھے دیکھے بغیر عبد اللہ نے بیرونی دہلیز پار کر کے باہر کے دروازے کو زنجیر لگائی اور بھاگ پڑا۔ گرتا پڑتا بھاگتا بھاگتا وہ قبرستان پہنچا اور شاہد کی ماں کی قبر پر جا گرا۔ کچی بھُر بھری مٹی سے مُٹھیاں بھر کر اس نے تھوڑی تھوڑی کر کے مٹی دوبارہ قبر پر گرا دی۔ پھر وہ قبر پر لیٹ گیا۔ کافی دیر ایسے ہی پڑا رہا۔ اس کی زندگی کی گاڑی کا آدھا پہیہ اس سنسان اور خاموش نگری میں ہر چیز سے بے نیاز مٹی کے ساتھ مٹی ہو رہا تھا۔ اسے اپنا ذہن ماؤف اور جسم بے حس ہوتا محسوس ہوا۔ بہت سی ہمت جمع کر کے وہ ادھر سے اٹھا۔ قبر سے کچھ مٹی اٹھائی اور اپنے چہرے اور سر پر مل لی۔ ادھر سے بمشکل اٹھ کر اپنے باپ کی پرانی قبر کے پاس سے گزر کر وہ اپنی ماں کی قبر پر جا بیٹھا۔ اس نے اپنے دونوں ننگے ہاتھ اور کہنیوں تک گرد آلود بازو ماں کی قبر پر پھیلی لمبی نوکیلی جنگلی گھاس میں پوری قوت سے گھسیڑ دئیے جیسے وہ اس کی ماں کے مہربان جسم کی گداز نرماہٹ کو جا چھوئیں گے۔ قبر پر تقریباً نیم دراز ہوتے ہوئے اپنا جھاڑ جھنکاڑ سر اور سرکنڈے جیسے بے ترتیب دور نگے بالوں سے بھرا چہرہ آسمان کی طرف اٹھایا اور پوری کھلی، زردی مائل مردہ آنکھوں کے ساتھ آسمان کی طرف عجب خالی پن سے دیکھا۔ اس کا منہ پوراکھُل گیا، کنپٹی کی رگیں تن گئیں اور اس کے منہ سے ایک مہیب غیر انسانی دھاڑ نکلی جو سناٹے کو چیرتی جانے کہاں کہاں پہنچی،
“اما ا ا ا ا ا ا اںں ںں۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
٭٭٭