اس ہوٹل کی بیٹھک بازی پر ہم میں سے ہر ایک کی اپنے والدین کے ہاتھوں گوشمالی ہو چکی تھی۔ میری باری سب سے آخر میں آئی۔ پاپا نے گزرتے ہوئے اس ہوٹل کے سامنے میری گاڑی دیکھ لی تھی۔
’’تمہیں شرم نہیں آتی۔ وہ کوئی بیٹھنے کی جگہ ہے۔ تم کسی اچھے ریستوران میں، اچھے ہوٹل میں اپنے دوستوں کے ساتھ جا سکتے ہو۔ بھلا یہ کوئی ہوٹل ہے کوئٹہ جدہ ہوٹل!‘‘
’’پاپا۔۔۔ وہ کچھ دوست۔۔۔۔ ‘‘ میں نے کہنے کی کوشش کی تھی۔
’’کہیں اور بھی جمع ہو سکتے ہو، پی سی چلے جاؤ، شیرٹن ہے، میریٹ ہے، یا اتنے اچھے اچھے ریستوران ہیں آس پاس۔ کہیں بھی بیٹھک بازی کر سکتے ہو۔ تمہیں وہاں دیکھ کر میں شرمندہ ہو رہا ہوں‘‘۔
میں نے دوستوں کو پانی روداد سنائی تو صابر بھائی کہنے لگے، ’’تو آج سے ’کوئٹہ جدہ ہوٹل ‘ نہیں، ’پی سی‘ ہے‘‘۔
سب نے زوردار قہقہہ لگایا۔
’’ہاں بھی ۔ آج سے یہ پی سی ہے‘‘۔
صابر بھائی ہم لوگوں میں سب سے سنئیر تھے، تقریباً پینتیس چالیس سال عمر رہی ہوگی لیکن چھڑے چھانٹ تھے۔ ایک پرائیویٹ فرم میں ملازمت کرتے تھے اور شام کے بعد دیر تک ہمارے ساتھ ہی وقت گزارتے تھے، ہمارے ’فلاحی کاموں‘ میں ہاتھ بٹاتے تھے اور بہت صائب مشورے بھی دیتے تھے جنہیں ہم اکثر رد کر دیا کرتے تھے۔
گل خان نے اسٹیل کے گلاس اور دھلے ہوئے پلاسٹک کے جگ میں پانی لاکر ہمارے سامنے رکھ دیا۔ پھر ایک اخبار لاکر چارپائی پر بچھا دیا۔ ہم حسب معمول چائے پراٹھے کا انتظار کرنے لگے۔
صابر بھائی اس روز دیر سے آئے۔
’’یار میں کھانا کھا کر آرہا ہوں۔۔۔۔ لیکن خیر، چائے پراٹھا تو چل ہی جائے گا‘‘۔
چائے پراٹھے کے تئیں ہمارا بھی یہی رویہ تھا، چاہے کسی دعوت سے ہی کیوں نہ آرہے ہوں، چائے پراٹھا تو چل ہی جاتا تھا۔
’’یار صابر بھائی ، لالہ کو پٹاؤ نا، گل خان کو پڑھنے لکھنے پر لگا دے۔ ہم میں سے ہر ایک اسے وقت دینے کے لیے تیار ہے، چاہے تو ہم اسے سکول میں بھی داخل کرا سکتے ہیں‘‘۔
’’ہر دو چار دن کے بعد تمہاری فلاحی رگ پھڑک اٹھتی ہے۔تمہیں معلوم ہے لالہ راضی نہیں ہوگا۔ وقت ضائع کرنے سے کیا فائدہ۔ اس کی جگہ کسی اور لڑکے کورکھے گا تو اسے تنخواہ دینی پڑے گی، کھانا پینا دینا پڑے گا۔ یہ تو اس کا بیٹاہے، خود کام کرنے کے لائق نہیں رہے گا تو یہ گل خان اس کی جگہ لے لے گا او راس کی جگہ گل خان کا چھوٹا گل خان کام کے قابل ہو چکا ہو گا۔یہ سائیکل اسی طرح چلتا رہے گا بھائی، تم اپنی فلاحی رگ کو قابو میں رکھو‘‘۔
‘‘کوشش کرلینے میں کیا حرج ہے صابر بھائی۔ لالہ سے بات تو کرو‘‘۔
’’تم سب کوشش کر چکے ہو نا۔۔۔۔ لالہ نے ہنسنے کے علاوہ کبھی کوئی جواب دیا؟‘‘
’’یار آپ بات کرو صابر بھائی، آپ بڑے ڈھنگ سے بات کرتے ہو‘‘۔
صابر بھائی کوئی جواب دینے ہی والے تھے کہ ایک شخص آکر کھڑا ہو گیا۔
’’لو بھئی تمہاری فلاحی رگ کو تسکین دینے والا آگیا‘‘۔
وہ شخص اچھا خاصا صحت مند تھا، کپڑے بھی صاف ستھرے تھے لیکن چہرے سے نقاہت کا اظہار ہو رہا تھا۔
’’صاحب، دودن سے کچھ نہیں کھایا، بیوی بچے بھی بھوکے ہیں، کچھ مدد کر دیجئے‘‘۔
میں نے صابر بھائی کی طرف دیکھا۔۔۔ وہ معنی خیز انداز میں مسکرا دئیے۔
’’کوئی بات نہیں۔ آپ سامنے والی کرسی پر بیٹھ جائیے، چائے پراٹھا کھائیے اور گھر والوں کے لیے بھی لے جائیے، ٹھیک ہے؟‘‘
صابر بھائی انگریزی میں بولے، ’’اسے تمہار آفر قبول نہیں ہوگی‘‘۔
’’کیوں؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔
’’دیکھ لینا‘‘۔
وہ شخص وہیں کھڑا رہا۔
’’صاحب ، آپ کی مہربانی ۔ مگر پیسے ہی دے دو صاحب‘‘۔
’’یار تم دو دن سے بھوکے ہونا؟ پہلے کھانا کھاؤ، پھر آگے کی بات کریں گے‘‘۔
’’نہیں صاحب، آپ پیسے ہی دے دو، کچھ راشن گھر لے جاؤں گا۔ اللہ آپ کو بہت دے گا‘‘۔
صابر بھائی مسکراتے رہے۔
صابر بھائی ہماری طلبا برادری کے نہیں تھے۔ یونیورسٹی سے واپسی پر میں نے انہیں لفٹ دی تھی او ر راستے بھر بڑی پر لطف باتیں ہوئی تھیں۔وہ اسی کوئٹہ جدہ ہوٹل کے پاس اتر گئے تھے اور بڑے اصرار کے ساتھ مجھے بھی ہوٹل میں لے گئے تھے۔ انہوں نے چائے پراٹھے کا آرڈر دیا تھا اور بڑے معنی خیز انداز میں مسکرائے تھے۔
’’ایک بار یہاں کا چائے پراٹھا کھا لو تو یہیں کے ہو کے رہ جاؤ گے‘‘۔
میں گاڑی سے ٹشو پیپر کاڈبہ لے آیا تھا اور تیل یا گھی سے چپڑے ہوئے پراٹھے کو کئی ٹشو پیر سے خشک کیا تھا۔چائے پراٹھا واقعی مزا دے گیا تھا۔
صابر بھائی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ یہیں ملا کریں گے۔ میں نے راشد اور عرفان کو بھی یہاں کا راستہ دکھا دیا اور اب ہم چار افراد کی بیٹھک ہمارا معمول بن گیا تھا۔
ایک دن صابر نے کہا، ’’یار اس لالہ کو ہمارا۔۔۔ بلکہ تم لوگوں کا احسان مند ہونا چاہیے اور ہمارا چائے پراٹھا فری ہونا چاہیے‘‘۔
’’کیوں صابر بھائی۔۔۔۔ فری کیوں؟‘‘ راشد نے پوچھا۔
’’تم نے غور نہیں کیا، جب سے تم لوگوں کی چمکتی ہوئی کاریں اس ہوٹل کے سامنے کھڑی ہونے لگی ہیں، اس کے کسٹمر ز کی تعداد میں بہت اضافہ ہوگیا ہے‘‘۔
’’یہ کیا وجہ ہوئی، کسٹمرز کی تعداد بڑھنے کی‘‘ ۔ عرفان نے کہا۔
’’اتنی سی بات نہیں سمجھتے تم لوگ۔ لوگ اتنی چمکتی کاریں یہاں کھڑی دیکھتے ہیں، پھر اس کوئٹہ جدہ ہوٹل کو دیکھتے ہیں، سوچنے ہوں گے ضرور کوئی خاص بات ہوگی اس ہوٹل میں۔ تجربے کی خاطر ہی سہی وہ ایک بار ضرور یہاں کا چائے پراٹھا کھاتے ہوں گے۔ اب تو کچھ اور کاریں بھی یہاں کھڑی ہونے لگی ہیں، خواتین بھی کار میں بیٹھ کر چائے پراٹھے کے آرڈر دینے لگی ہیں۔ میں یہاں کا بہت پرانا گاہک ہوں، آٹھ دس افراد سے زیاد ہ کبھی ایک وقت میں یہاں نہیں ہوتے تھے، اب کرسیاں اور چارپائیاں کم پڑ جاتی ہیں‘‘۔
’’خبر، لیکن ہمیں فری چائے پراٹھا نہیں کھانا‘‘۔
’’یار ایک بات بتاؤ۔ تم لوگ بڑے گھرانے کے افراد ہو، یونیورسٹی میں پڑھتے ہو، یہاں اتنا وقت ضائع کرتے ہو تو تمہارے والدین تمہیں کچھ نہیں کہتے؟‘‘
’’ہمارے والدین کو اس پر کوئی اعتراض نہیں کہ ہم اپنا وقت یوں برباد کرتے ہیں کیونکہ ہمارے رزلٹ بہت اچھے آتے ہیں۔ ہم نے کبھی انہیں مایوس نہیں کیا۔ انہیں یہ بھی یقین ہے کہ ہم بری عادتوں میں نہیں ہیں۔ بس انہیں اعتراض ہے تو اس بات پر کہ ہم اس کوئٹہ جدہ ہوٹل میں کیوں بیٹھتے ہیں؟‘‘ عرفان نے کہا
’’ایک بار انہیں بھی اس کوئٹہ جدہ ہوٹل کا چائے پراٹھا کھلا دو‘‘۔ صابر بھائی نے کہا تو سب نے ایک ساتھ قہقہہ لگایا۔ لیکن اچانک ہمارے قہقہے میں بریک لگ گیا۔
ایک مجہول سا شخص، شیو بڑھی ہوئی، سر کے بال میل سے اٹے ہوئے، کپڑے کچھ پھٹے ہوئے اور میلے چکٹ۔۔۔۔ہمارے سامنے کھڑا تھا۔
’’صاحب فقیر نہیں ہوں۔۔۔۔ میں بھیک نہیں مانگتا۔۔۔ آج کل کوئی کام نہیں ہے میرے پاس، میں ہر طرح کا کام کرنے کے لیے تیار ہوں، کوئی کام کرالیجئے، پھر جو مرضی ہو دے دیجئے گا‘‘۔
’’کیا کام کرسکتے ہو تم۔ ہم تمہیں کام دلوا دیں گے‘‘۔ راشد نے کہا۔
’’سیدھے سیدھے بتاؤ میاں تمہیں کیا چاہیے‘‘۔ صابر بھائی بول پڑے۔
’’ارے صابر بھائی غریب۔۔۔‘‘ میں نے کہنا چاہا تو انہوں نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر مجھے خاموش کر دیا۔
’’بولو کیا چاہیے۔ کسی تقریر کی ضرور ت نہیں‘‘۔ صابر بھائی نے اس سے کہا۔
اس نے ادھر ادھر دیکھا، ایک نظر ہم سبھوں پر ڈالی، پھر صابر بھائی سے مخاطب ہوا۔
’’صاحب، میں گھربار والا آدمی ہوں، میرے بیوی بچے ہیں۔ آپ راشن دلا دیجئے‘‘۔
عرفان کھڑا ہو گیا۔
’’آؤ میرے ساتھ ‘‘۔
قبل اس کے ہم کچھ کہتے عرفان اس کا بازو پکڑ کر قریب کے ایک راشن شاپ میں گھس گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ نکلا تو اس شخص کے سر پر ایک کارٹن تھا جو خاصا بھاری لگ رہا تھا۔ اسے رخصت کر کے وہ ہماری طرف آگیا۔
’’اسے مہینے بھر کاراشن دلا دیا ہے‘‘۔ عرفان نے کہا۔
’’اس نیکی میں ہمار کتنا حصہ ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ارے کچھ نہیں یار۔۔۔ بس ایک بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے‘‘۔
’’کون سی بات عرفان ؟‘‘ راشد نے پوچھا۔
’’میں نے اسے دکاندار کے سامنے لے جا کر کھڑا کر دیا اور کہا کہ یہ شخص جو بھی مانگے اسے دے دیں۔ دکاندار نے مسکر ا کر اس کی طرف دیکھا اور ایک کارٹن اس کی طرف بڑھا دیا۔ مجھ سے کہا کہ چار پانچ افرا د کے خاندان کے لیے یہ ایک مہینے کا راشن ہے۔ میں نے بھی سوچا کہ چلو مجھے زیادہ دیر وہاں نہیں کھڑے رہنا پڑا۔ لیکن یا ردکاندار کی معنی خیز مسکراہٹ اور بنے بنائے کارٹن کی بات مجھے الجھا رہی ہے‘‘۔
صابر بھائی مسکرائے۔۔۔ وہی معنی خیز مسکراہٹ۔
’’کیا ہوا صابر بھائی۔۔۔۔ ہم سے پھر کوئی غلطی ہوگئی؟‘‘
’’اگر فلاحی کام کرنے کا ایسا ہی شوق ہے تو کوئی ڈھنگ کا کام کرو، سلیقے سے کرو‘‘۔
’’صابر بھائی۔ ہمارے والدین ضرور دولت مند ہیں، لیکن یہ چھوٹا موٹا کام تو ہم لوگ اپنے جیب خرچ سے کرتے ہیں۔ ہمارے پاس کوئی بڑا فنڈ نہیں ہے‘‘۔ میں نے کہا۔
’’میں جانتا ہوں۔ لیکن جن لوگوں پر تم اپنی مہربانیاں نچھاور کررہے ہو یہ اس کے حقدار نہیں ہیں۔ تمہاری ان کمزوریوں سے یہ حوصلہ پاتے ہیں اور تم لوگ ہی سبب ہو ان کی تعداد میں اضافے کے ‘‘۔ صابر بھائی بولے۔
’’صابر بھائی آپ تو ہم پر فرد جرم عائد کر رہے ہیں‘‘۔ میں نے کہا۔
’’بالکل فرد جرم عائد کررہا ہوں۔ دراصل تم لوگ جس طبقے سے تعلق رکھتے ہو وہاں اس طرح کے مناظر سامنے نہیں آتے ہوں گے۔ یہ جو مڈل کلاس یا متوسط طبقہ ہے نا، اس میں اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ کوئی فلاحی کام کر سکے۔اس طبقے کے فرد کسی کو ایک وقت کھانا کھلا کر یا دس بیس روپے دے کر سمجھتے ہیں کہ انہوں نے کوئی فلاحی کام کر دکھایا، کسی نیکی کے کام میں ہاتھ بٹایا۔ اور اس طرح یہ ان لوگوں کی حوصلہ افز ائی کرتے ہیں جو کچھ نہیں کرنا چاہتے، رونی صورت بنا کر کے لوگوں کے دلوں میں نرم گوشہ پیدا کرتے ہیں اور اپنا الو سیدھا کرتے ہیں‘‘۔
’’یا ر صابر بھائی ۔ اتنے سخت دل تونہ بنو‘‘۔ میں نے ان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
’’تم لوگ ایسی باتوں کو نہیں سمجھ سکتے۔ ایسے لوگوں کی پہنچ تم لوگوں تک نہیں ہے۔ تم نے زیادہ سے زیادہ ٹریفک سگنل پر بھیک مانگنے والوں کو دیکھا ہوگا، دس بیس روپے بھی انہیں دے دئیے ہوں گے، لیکن ایسے لوگوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی ہی جارہی ہے اور اس کے ذمہ دار یہ متوسط طبقے والے لوگ ہیں‘‘۔
’’لیکن ہم لوگوں کا شمار تو ان میں نہیں ہوتا‘‘۔ راشد نے کہا۔
’’اس پی سی میں بیٹھنے سے پہلے تم لوگوں کا سابقہ اس طرح کے لوگوں سے پڑا تھا؟‘‘
صابر بھائی نے ہم تینوں کی طرف باری باری دیکھا۔ پھر ہم نے بھی ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
’’یار صابر بھائی، آپ کی یہ بات تو ٹھیک ہے ۔ یہی اس طرح کے تجربے ہوئے ہیں‘‘۔ عرفان نے کہا۔
’’چلو تم بتاؤ، تم دکاندار کے روئیے کے بارے میں کچھ کہہ رہے تھے‘‘۔
’’میں تو پہلی بار اس دکان میں گیا تھا صابر بھائی۔ اس شخص کے ساتھ دیکھ کر وہ بڑے عجیب انداز سے مسکرایا تھا‘‘۔
’’اور اس نے ایک کارٹن میں ایک مہینے کا راشن رکھ کر تمہارے حوالے کر دیا‘‘۔ صابر بھائی نے پوچھا۔
’’نہیں، ایسا نہیں ہوا۔ میں نے اس شخض سے کہا کہ اپنی ضرورت کے مطابق دکاندار کو سامان لکھوادے۔ اس نے دکاندار سے کہا کہ مہینے بھر کا راشن دے دو اور دکاندار نے ایک بنا بنایا کارٹن اسے کے حوالے کر دیا‘‘۔
’’تم نے یا اس شخض نے کارٹن کھول کر دیکھا کہ اس میں کیا ہے؟‘‘
’’نہیں، میں نے تو نہیں دیکھا۔۔۔ بلکہ اس نے بھی نہیں دیکھا‘‘۔
ہم سب تجسس بھری نظروں سے صابر بھائی کو دیکھ رہے تھے۔ صابر بھائی نے کچھ دیر سوچا، پھر اٹھ کھڑے ہوئے۔
’’ آؤ ۔۔۔۔اس دکاندار سے ملتے ہیں‘‘۔
’’اب چھوڑو نا صابر بھائی۔۔۔۔ اس سے مل کر کیا کریں گے‘‘۔
’’تم آؤ تو سہی‘‘۔ وہ پی سی سے باہر نکل چکے تھے۔
مجبوراً ہم ان کے ساتھ ہو لیے۔
دکاندار نے ہم سب کی طرف دیکھا، پھر مجھے دیکھ کر مسکرایا۔
’’کیا ہوا صاحب۔۔۔ خیر تو ہے؟ ابھی تو آپ گئے تھے اس بندے کو سامان دلا کر‘‘۔
صابر بھائی نے ہم تینوں کو ایک طرف کر دیا او ر دکاندار کے سامنے تن کر کھڑے ہو گئے۔
’’سچ بتاؤ سیٹھ معاملہ کیا ہے۔ کون تھا وہ شخص اور تم کیوں اس کے لیے کارٹن تیار رکھتے ہو؟‘‘
اس وقت دکا ن میں کوئی گاہک نہیں تھا۔ اس کا ایک کارندہ وزن کرکے سامان کے پیکٹ تیار کرتا جارہا تھا۔ وہ بھی دکاندار کے قریب آکر کھڑا ہو گیا۔
دکاندار نے عرفان کی طرف دیکھ کر کہا، ’’میں تو ان صاحب کے ساتھ اسے دیکھ کر پہلے ہی کھٹک گیا تھا۔ اس طرح کے نوجوان لوگ تو اس جیسوں کے جھانسے میں کبھی نہیں آتے۔ یہ پتہ نہیں کس طرح پھنس گئے‘‘۔
’’تو وہ کوئی ضرورت مند نہیں تھا؟‘‘ عرفان نے پوچھا۔
’’ارے صاحب، اس کا پیشہ ہی یہی ہے۔ ہر دو چار دن کے بعد وہ کسی کو پھانس لیتا ہے اور میں یہ کارٹن اس کے حوالے کر دیتا ہوں‘‘۔
’’دوسرے دن وہ یہ کارٹن واپس لے آتا ہوگا؟‘‘ صابر بھائی نے پوچھا۔
’’جی ہاں‘‘۔
’’اور وہ تم سے اس کے نقد پیسے لے جاتا ہوگا؟‘‘
’’ہاں جی۔ ایسا ہی ہوتا ہے‘‘۔
’’عرفان تم نے کتنے پیسے دیئے تھے سامان کے؟‘‘ صابر بھائی نے عرفان سے پوچھا۔
’’چار ہزار روپے دئیے تھے‘‘۔عرفان بولا۔
’’تو سیٹھ صاحب جب وہ سامان واپس کرتا ہے تو آپ اسے کتنے پیسے نقد دیتے ہیں؟‘‘
ارے چھوڑئیے نا جناب، میری تو دکانداری ہے، اسے رہنے دیجئے‘‘۔
اب ہم تینوں آگے بڑھے اور سیٹھ کی طرف جھک گئے۔ وہ کچھ گھبرا گیا۔
’’بتادو سیٹھ، کتنے پیسے تم اسے دیتے ہو؟‘‘ صابر بھائی نے پوچھا۔
’’جی ۔۔۔تین ہزار‘‘۔ وہ سر جھکا کر بولا۔
’’بات سمجھ میں آگئی تم لوگوں کے یا ابھی کچھ اور پوچھنا ہے؟ ‘‘ صابر بھائی نے ہم سبھوں کی طرف دیکھ کر کہا۔
’’یار اس نے چیٹنگ کی ہمارے ساتھ ‘‘۔ عرفان منمنایا۔
’’تو ٹھیک ہے، ایسا کرتے ہیں، کل اسے پکڑتے ہیں اور اچھی طرح دھلائی کرتے ہیں‘‘۔ راشد نے اپنی رائے دی ۔
صابر بھائی مسکرائے، ’’اس سے کیا ہوگا؟‘‘
’’اتنی سادگی سے ہم دھوکا نہیں کھا سکتے صابر بھائی‘‘۔ میں نے کہا۔
ہم لوگ پی سی واپس آگئے۔
اگلے روز کچھ جلدی ہی ہم لوگ وہاں جمع ہو گئے اور چارپائی پر بیٹھنے کی بجائے کرسی سنبھال کر ایسے رخ کر کے بیٹھ گئے کہ دکان پر نظر رہے۔
ہمیں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ کارٹن اٹھائے وہ شخص دکان میں داخل ہو رہا تھا۔ ہم سب تیزی سے اس کی طرف بڑھے۔ عرفان نے آگے بڑھ کر اسے گریبان سے پکڑ لیا اور کھینچتا ہوا باہر لے آیا۔ ہم سب اس پر لات اور گھونسے برساتے رہے۔ اس نے اپنا بچاؤ کرتے ہوئے پوچھا۔
’’کیا ہوا، کیوں آپ غریب پر ظلم کررہے ہیں؟‘‘
’’غریب؟ کمینے، ہمیں دھوکا دیتا ہے، گھر کے لیے راشن لے کر اسے بیچ دیتا ہے، تجھے تو ہم پولیس کے حوالے کریں گے‘‘۔
’’ہاں جی ٹھیک ہے ، پولیس کے حوالے کر دو‘‘۔ وہ کھڑا ہو گیا۔
’’ابے تجھے ڈر نہیں لگتا جیل جاسے سے ؟ پولیس تیرا کچومر نکال دے گی‘‘۔
’’کیوں نکال دے گی کچومر؟ بھیک ہی تو مانگتا ہوں۔ بھیک مانگنا کوئی جرم ہے کیا!‘‘
ہم تینوں ہاتھ جھاڑ کر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔
صابر بھائی مسکرائے، ’’چلو۔ اس نے بتادیا نا کہ بھیک مانگنا کوئی جرم نہیں ہے!‘‘
کسی سے کچھ بولا نہیں جارہا تھا۔ ہم صابر بھائی کے پیچھے پی سی لوٹ آئے۔
ہمارا آخری سمسٹر تھا او ر امتحانات کے دن قریب آرہے تھے۔ پی سی کی بیٹھک تو رہتی تھی لیکن بس تھوڑی دیر کے لیے وہاں بھی ہم اپنی تیاریوں کی ہی زیر بحث لاتے۔ صابر بھائی سے ملاقات ہو جاتی ، وہ اپنے دفتر سے سیدھے یہیں آ جاتے تھے، چائے پراٹھا کھاتے اور ہماری گفتگو کو بڑے انہماک سے سنتے۔ پھر ایک دن ایسا ہی واقعہ ہوگیا جس پر صابر بھائی معنی خیز انداز میں مسکرایا کرتے تھے۔
وہ نوجوان صاف ستھرے لباس میں تھا، بڑے مہذب انداز میں ہم سے پانچ منٹ بات کرنے کی اجازت مانگی۔ صابر بھائی مسکرا دئیے۔
’’میرا نام عبدالوحید ہے۔ میں آئل ریفائنری میں کام کرتا تھا، والد بیمار پڑے اور بستر سے جالگے۔ سرکاری اسپتال میں داخل کرایا لیکن انہوں نے بھی کچھ دنوں کے بعد اسپتال سے ریلیز کر دیا۔ کہنے لگے گھر پر ہی دیکھ بھال کیجئے۔ اور دواؤں کے اتنی بڑی لسٹ پکڑا دی کہ پابندی سے اسے استعمال کیجئے۔ ایک بوڑھی والد ہ ہیں گھر میں جنہیں پوری طرح دکھائی نہیں دیتا۔ مجھے ہی تیمار داری بھی کرنی پڑتی ہے۔ ملازمت سے غیر حاضر رہنے کی وجہ سے چارج شیٹ ہوئی اور پھر نکال دیا گیا۔ ایک ہفتے کی دوائیں چھ ہزار روپے کی آتی ہیں۔ یہ نسخہ ہے۔ آپ لوگ میری کچھ مدد کر سکتے ہیں؟‘‘
ہم سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ صابر بھائی نے نسخہ لے کر دیکھا ، ہم سب نے بھی دیکھا۔
ہم سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ صابر بھائی نے نسخہ لے کر دیکھا، ہم سب نے بھی دیکھا۔
عبدالحمید۔۔۔۔ عمر ۷۸ سال اور پھر صفحے کے دونوں طرف دواؤں کے نام اور طریقہ استعمال۔
ہم نے صابر بھائی کی طرف دیکھا، وہ خلاف معمول مسکرائے نہیں۔ عبدالوحید کا جائز ہ لیتے رہے۔
’’کہاں رہتے ہو عبدالوحید؟‘‘ انہوں نے نوجوان سے پوچھا۔
’’موسیٰ کالونی میں، پتہ نہیں آپ لوگوں نے اس کالونی کا نام بھی سنا ہے یا نہیں‘‘۔
صابر بھائی کی پیشانی پر شکنیں پڑ گئیں۔
’’یا ر اتنی دور سے یہاں آئے ہو مدد مانگنے!‘‘ انہوں نے استفسار کیا۔ ’’جی ہاں۔ آپ جانتے ہیں قریب ہی بڑے لوگوں کی ہاؤسنگ سوسائٹی ہے، یہاں آپ لوگوں کی گاڑیاں کھڑی تھیں تو خیال آیا آپ لوگ اسی ہاؤسنگ سوسائٹی کے رہنے والے ہوں گے۔ اس لیے میں نے سوچا کہ آپ لوگوں سے۔۔۔ ‘‘ اس کی آواز گلے میں پھنسنے لگی او ر آنکھیں نمناک ہو گئیں۔
’’یار حوصلہ رکھو۔۔۔ دیکھو ایک ہفتے کی دواؤں کا انتظام تو میں کر دوں گا لیکن ۔۔۔‘‘
صابر بھائی نے ہاتھ اٹھا کر اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔
’’تم لوگوں کے پاس کچھ وقت ہے؟‘‘
’’کیوں؟ کیا کرنا ہے صابر بھائی‘‘۔
’’چلو بھائی عبدالوحید۔ تمہارے والد صاحب کو دیکھنے چلتے ہیں‘‘
صابر بھائی اب بھی عبدالوحید کو غور سے دیکھ رہے تھے لیکن اس کا چہرہ ویسا ہی غمناک تھا۔
ہم سب ایک ہی گاڑی میں بیٹھ گئے۔ عبدالوحید راستہ بتا رہا تھا۔ تقریباً چالیس پینتالیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد اس نے ایک جگہ گاڑی روکنے کے لیے کہا۔
’’گاڑی اندر نہیں جاسکے گی۔ پیدل چلنا ہوگا‘‘۔
پتلی پتلی دو تین گلیوں سے گزر کر وہ ایک دروازے کے سامنے کھڑا ہو گیا جس پر تالہ لگا ہوا تھا۔ گلی میں پتلی پتلی نالیاں تھیں جن میں غلاظت ابل رہی تھی۔
وہ ہمیں رکنے کا اشارہ کر کے اندر چلا گیا۔ چند لمحوں بعد وہ باہر آیا
’’والدہ پردہ کرتی ہیں، اس لیے۔۔۔‘‘
کمرہ تاریک تھا لیکن ایک چارپائی پر کوئی لیٹا ہوا دیکھاجاسکتا تھا۔
’’اتنا اندھیرا کیوں کیا ہوا ہے عبدالوحید میاں۔ کس طرح دیکھ بھال کرتے ہو‘‘۔ صابر بھائی نے کہا۔
مجھے بڑی گھٹن کا احساس ہوا۔ عرفان اور راشد بھی اسی کیفیت سے دوچار تھے۔
’’روشنی میں ابا زیادہ ہی بے چین ہو جاتے ہیں‘‘۔ عبدالوحید نے کہا۔
’’چلیے صابر بھائی۔ باہر چلتے ہیں‘‘۔
’’نسخہ دینا عبدالوحید۔ ہم دوائیں لے آتے ہیں‘‘۔
’’چھوڑئیے صابر بھائی۔ عبدالوحید خود ہی دوائیں لے آئے گا‘‘۔ راشد نے جیب سے پیسے نکال کر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
میں نے اور عرفان نے بھی اپنی جیبیں خالی کر دیں۔
عبدالوحید ہمیں گاڑی تک چھوڑنے کے لیے آنے لگا تو ہم نے اسے منع کر دیا۔
’’کیا خیال ہے صابر بھائی، اس بار تو ہم بے وقوف نہیں بن رہے ہیں نا؟‘‘
’’یار کچھ کھٹک سی تو اب بھی دماغ میں ہے‘‘۔ وہ آہستہ سے بولے۔
تین چار دنوں کے بعد صابر بھائی پھر بولے ’’یار مریض کی عیادت کے لیے وقت نکالو، دیکھ آتے ہیں‘‘۔
ہم سب تیار ہوگئے۔
اس گھر میں اب بھی تالا لگا ہوا تھا۔ ہم نے ادھر ادھر نظر دوڑائی، تقریباً سناٹا ہی تھا۔ صابر بھائی نے پھر بھی دروازے پر دستک دے دی۔ کئی بار دستک دینے پر بھی کسی نے اندر سے کوئی آواز نہیں دی۔ کچھ دور پر چار پانچ افراد ایک چبوترے پر بیٹھے تاش کھیل رہے تھے۔ صابر بھائی ان کی طرف بڑھ گئے۔
’’بھائی۔ یہ لوگ کہاں چلے گئے، دروازے پر تالا پڑا ہوا ہے‘‘۔
’’ہاں جی۔ وہاں زیادہ تر تالا ہی پڑا ہوا ہوتا ہے‘‘۔ ایک صاحب پتوں پر سے نظریں ہٹائے بغیر بولے۔
’’ابھی تین چار دن پہلے تو ہم لوگ آئے تھے۔ عبدالوحید کے ساتھ‘‘۔
وہ سب ایک ساتھ ہنس پڑے۔
’’کون عبدالوحید جناب؟‘‘
’’وہی لڑکا جو اس گھر میں رہتاہے اپنی والدہ اور بیمار والد کے ساتھ
’’بیمار والد؟‘‘
ایک نے کہا اور پھر سب ہنس دئیے۔
’’ارے صاحب، تین دن پہلے ایک فلاحی ادارے کی میت گاڑی اس مردے کو لے گئی اور اس کے بعد وہ لڑکا بھی چلا گیا۔ کچھ دنوں بعد پھر کسی مردے کو لے کر آئے گا۔ ایک رات رکھے گا اور پھر میت گاڑی اسے لے کر چلی جائے گی۔
پتہ نہیں کہاں سے یہ لڑکا آن مرا ہے اس محلے میں۔۔‘‘
’’اور اس کی والدہ؟‘‘ صابر بھائی نے پوچھا۔
’’کیسی والدہ بڑے صاحب ۔ ہم نے تو آج تک کسی عورت کو اس گھر میں آتے جاتے نہیں دیکھا۔ وہ اکیلا ہی آتا جاتا ہے۔ کبھی کبھی کسی مردے کو اٹھا لاتا ہے اور دوسرے دن تدفین کے لیے لے جاتا ہے۔ یہاں کسی سے اس کا ملنا جلنا نہیں ہے۔ کسی سے بات نہیں کرتا‘‘۔
صابر بھائی کی پیشانی پر شکنیں تھیں۔ اس طرح کے معاملے میں پہلی بار ان کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ نہیں ابھری۔