(مطبوعہ ’’برگِ آوارہ‘‘ حیدرآباد)
باقیؔ صدیقی
غزل کو غزل کی روایات کے ساتھ برتنے میں باقی صدیقی کو بڑی کامیابی حاصل تھی اور یکایک اُن کے انداز نے لوگوں کو متاثر کیا تھا۔
اور اب سننے میں آیا کہ وہ بھی جولائی ۱۹۷۴ء میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔
باقیؔ صدیقی کا اسم مبارک محمد افضل تھا اور وہ راولپنڈی میں ۲۰ دسمبر ۱۹۰۹ء کو پیدا ہوئے تھے۔ ایک ہی مختصر وقفہ میں ایک کالی چٹان کے پیچھے تینوں چہرے (ناصرؔ کاظمی، باقیؔ صدیقی اور یوسف ظفرؔ) چھپ گئے اور ان کی آوازوں کی بازگشت آج بھی وادی وادی صحرا صحرا لہو لہان گھوم رہی ہے۔
دھیمے دھیمے لہجے میں ابھرتی ہوئی کسک اور نہ کہہ کر بہت کچھ کہے جانے والی زبان سے باقیؔ صدیقی نے غزل کو بہت سوز و گداز بخشا تھا۔ باقیؔ صدیقی کی غزلیں یکایک ایسے پھیل گئیں جیسے ایک جگہ پر جمع عاشقانہ خطوط ہوا کے زور سے بکھر گئے ہوں اور پھر کاغذوں سے خون ٹپکنے لگا۔ ٹپ ٹپ۔
خیالات کی نرمی اور سادہ گفتگو میں مومن کا انداز چھپانے والی باقیؔ صدیقی۔ ترقی پسندی والی غزلوں سے بہت دور تھے وہ اردو کے سرمایہ کو آتش دان میں ڈالنے کی بجائے اس کے نشاۃ ثانیہ میں مصروف رہے اور بالآخر ان کا زندگی سے رشتہ ٹوٹ گیا۔ کچھ اشعار دیکھیے:
زمانہ گم، زمیں گم، آسماں گم
خیال دوست میں سارا جہاں گم
منزل کے رہے نہ رہ گزر کے
اللہ رے حادثے سفر کے
دل کے لیے حیات کا پیغام بن گئیں
بے تابیاں سمٹ کے ترا نام بن گئیں
…
کون سے راستے پہ چل نکلے
جس نے دیکھا اسی نے سمجھایا
اب بتائیے۔ ایسی غزلیں اور ایسے اشعار والا کہاں ملے گا۔ ماضی بڑا پیار کرنے والا ہوتا ہے۔ حال کو اپنے آغوش میں کھینچ لیتا ہے۔ لیکن حال کا کیا ہو گا؟ وہ کب تک ماضی کی یاد میں بیٹھا رہے گا۔۔۔!!!
٭٭٭