بقائے ذات کے اِک دورِ لازوال میں ہوں
مجھے نہ چھیڑ ، کہ میں لمحۂ وصال میں ہوں
مقدروں میں ِتری زینتِ بیاض کہاں؟
یہی بہت ہے کہ شیرازۂ خیال میں ہوں
سبک روی کا تصور ، نہ رنگِ سست روی
مثالِ موجِ رواں مست اپنے حال میں ہوں
خراج دے کے گزرتے ہیں نفرتوں کے ہجوم
پلا ہوا میں محبت کے ماہ و سال میں ہوں
کنارِ فرشِ سخن ، بھیڑ استعاروں کی
بہ کشتِ رمزِ ْہنر ، لہجۂ کمال میں ہوں
ترا خیال مجھے جب سے چھو کے گزرا ہے
میں تب سے رقص کناں دھڑکنوں کی تال میں ہوں
وہ چال ڈھال میں مثلِ غزال ہے اور میں
کسی غریب کے سرمایۂ زوال میں ہوں
مری فنا ہے ِترے حسن کی بقا کا جواز
مَیں بن کے وجہِ کشش تیرے خدو خال میں ہوں
کھلی فضا کا تصنع مجھے گوارہ نہیں
میں روم روم ِتری سادگی کے جال میں ہوں
مری شکست ہے طاہر عدیم فتح مری
میں ہنس رہا ہوں اگرچہ بہت ملال میں ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...