ڈاکٹر رشید امجد(راولپنڈی)
سالگرہ کا کیک کاٹتے ہوئے دفعتہ اسے یاد آیا کہ پچھلی رات ٹیکسی سے اترتے ہوئے وہ خود کو پچھلی سیٹ پر بھول آیا ہے۔اس کی بیوی اور تینوں بچے ہیپی برتھ ڈے ٹویوکہتے تالیاں بجا رہے تھے اور وہ چھری ہاتھ میں پکڑے بوکھلائی نظروں سے انہیں دیکھے جا رہا تھا ۔تالیاں بجاتے بجاتے اس کی بیوی کو دفعتہ اس کی بوکھلاہٹ کا احساس ہوا تو اس نے پوچھا۔۔۔’’کیا بات ہے؟ تم ٹھیک تو ہونا؟‘‘
وہ منہ کھولے بٹ بٹ دیکھتا رہا۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ اب بچے بھی متوجہ ہوگئے۔
’’اس نے بغیر کیک کاٹے چھری میز پررکھ دی اور کرسی پر بیٹھ گیا۔
’’کیا بات ہے؟ کیا ہوا؟‘‘ بیوی اس کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی ’’خیریت تو ہے نا ۔۔تم ٹھیک توہو نا؟‘‘
وہ ایک لمحہ خالی نظروں سے اسے دیکھتا رہا پھر بولا۔۔۔ ’’کل رات میں خود کو ٹیکسی میں بھول آیا ہوں‘‘
بیوی نے لمحہ بھر کے لیے حیرت سے دیکھا لیکن اگلے ہی لمحہ جھنجلاہٹ اس کے سارے چہرے پر رینگنے لگی ۔ ’’ کیا ؟ ‘‘
’’ہاں ‘‘ وہ رک رک کر کہنے لگا’’ٹیکسی جب گلی کی نکڑ پر رکی تو بے خیالی میں ،میں خود کو پچھلی سیٹ پر ہی بھول گیا‘‘
بیوی نے سر پر ہاتھ مارا اور بولی ۔۔۔’’یہ کون ہے ؟‘‘
’’ارے واقعی یہ کون ہے؟‘‘ اس نے اپنے آپ کو اور پھربچوں کو دیکھا جو حیرت سے منہ کھولے ان کی باتیں سن
ر ہے تھے۔
’’واقعی یہ کون ہے؟‘‘
لمحہ بھر خاموشی رہی پھر بولا۔’’ہو سکتا ہے یہ وہی ٹیکسی ڈرائیور ہو جس کی ٹیکسی میں گھر آرہا تھا یا پھر کوئی اور ۔ کوئی بھی‘‘
’’تمہارا تو دماغ چل گیا ہے‘‘بیوی غصہ سے بولی۔۔۔ ’’اٹھو کیک کا ٹو بچوں کو بھی پریشان کر دیا ہے‘‘
’’نہیں یہ میں نہیں ہو ں‘‘ وہ آہستہ سے بڑ بڑایا
’’تو پھر یہ کون ہے؟‘‘ اس نے اپنے آپ سے پوچھا۔۔’’اس کے وجود میں یہ کون ہے۔‘‘
’’اٹھو کیک کاٹو‘‘ بیوی نے ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھایا۔۔۔’’دیکھو بچے پریشان ہو رہے ہیں۔‘‘
اس نے ویران نظروں سے بچوں کو دیکھاجو منہ کھولے اسے دیکھ رہے تھے۔
’’تو ان کو بھی معلوم نہیں کہ یہ میں نہیں ہوں۔ عجیب بات ہے یہ میری خوشبو بھی نہیں پہچانتے ۔بالکل اپنی ماں کی طرح ہیں اور یہ عورت یہ جان کر بھی کہ یہ میں نہیں ہوں کیک کاٹنے کی ضد کئے جا رہی ہے۔‘‘
وہ بے دلی سے اٹھا اور کیک کاٹنے لگا۔
بچوں اور بیوی نے ہیپی برتھ ڈے ٹو یو کا کورس شروع کیا لیکن اب ان کی آواز میں پہلے کی سی کھنک نہیں تھی۔
کیک کاٹتے ہوئے وہ مسلسل سوچتا رہا کہ وہ کہاں اپنے آپ کو بھولا تھا۔
ٹیکسی مورس تھی اور ڈرائیور چھوٹے قد کا جس نے کالی جیکٹ پہنی ہوئی تھی۔وہ پچھلی نشست پر بیٹھاتھا۔اس کے اترنے کے بعد شاید ڈرائیور کی نظر پچھلی نشست پر پڑی ہو اور اسے معلوم ہو گیا ہو کہ وہ وہیں رہ گیا ہے یا کیا معلوم ڈرائیور نے مڑ کر دیکھا ہی نہیں اور اسی طرح ٹیکسی بند کر دی ہو۔۔۔یا۔۔۔؟؟
ساری رات اسی بے چینی میں گزری بار بار خیال آتا کہ کیا معلوم ڈرائیور نے مڑ کر دیکھا ہی نہ ہو اور وہ اسی طرح پچھلی نشست پر ہی پڑا ہو ،پھر خیال آیا کہ شاید ڈرائیور نے مڑ کر دیکھ لیا ہو لیکن کس لیے؟ یہ بھی ہو سکتا ہے ڈرائیور نے غیر اہم سمجھ کر کہیں پھینک دیا ہو اور وہ ابھی تک کسی ویران سڑک کے کنارے پڑا ہو۔سردی اور ویرانی اس کے بدن پر رینگنے لگیں اس نے کروٹ بدل کرگہری نیند سوتی بیوی کو دیکھا ۔۔’’یہ عورت کتنی عجیب ہے یہ جان کر بھی کہ یہ وہ نہیں ہے کتنے اطمینان سے سوئی ہوئی ہے۔۔ کتنے ہی برس بیت گئے لیکن اس عورت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اسی طرح بالکل اسی طرح اس کے خوابوں اور خیالوں سے بالکل مختلف۔‘‘
صبح ناشتہ کی میز پر بھی وہ چپ چپ تھا بچے ایک دوسرے سے سلائس چھین رہے تھے ۔بیوی نے چائے بنا کر پیالی آگے کی اور بولی۔۔’’کس سوچ میں ہو؟‘‘
وہ ایک لمحہ چپ رہا پھر بولا۔۔۔ ’’معلوم نہیں اب وہ ٹیکسی ملتی بھی ہے کہ نہیں ۔تھی تو مورس اور ڈرائیور۔۔۔‘
بیوی نے غصہ سے گھورا۔۔۔
’’تو تم ابھی تک اسی پاگل پن میں ہو۔یہ تمہیں کیا ہوتا جا رہا ہے۔کچھ عرصہ سے عجیب عجیب باتیں کرنے لگے ہو؟‘‘
ناشتہ کر کے اس نے بچوں کو سکول چھوڑا اور اسی جگہ آن کھڑا ہوا جہاں سے ٹیکسی پکڑی تھی۔ بس دھندلا دھندلا یاد تھا کہ مورس تھی اور ڈرائیور نے کالے رنگ کی جیکٹ پہن رکھی تھی لیکن فوراً ہی خیال آیا کہ شاید مورس نہیں سنی تھی یا نہیں یہ بھی نہیں ۔۔۔ شاید۔۔۔ اور ڈرائیور نے کالے رنگ ۔۔یا شاید نہیں ؟
ساری چیزیں عجب طرح دھندلا گئی تھیں اور ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہوئی جار ہی تھیں۔ بے خیالی اور دھندلائی آنکھوں سے ایک ایک ٹیکسی کو دیکھتا رہا ۔ کئی ٹیکسیوں پر شبہ بھی ہوا۔ دوڑ کر پہنچا کئی ڈرائیوروں سے پوچھا لیکن۔۔؟
دن کروٹ لے کر شام کی گود میں سو گیا لیکن وہ اسی طرح پاگلوں کی طرح ٹیکسیوں کے پیچھے بھاگتا رہا۔رات گئے گھر آیا تو بیوی بچے پریشانی سے اس کے منتظر تھے۔
’’اتنی دیر‘‘
’’ابو۔۔۔‘‘
’’ابو۔۔۔‘‘
تھکاوٹ بے چینی اور اداسی چاروں طرف منڈلا رہی تھیں۔
باربار خیال آتا کہ ابھی تک ٹیکسی کی پچھلی نشست پر ہی نہ پڑا ہو۔ دھند چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی اور چیزیں ایک دوسرے کی اوٹ میں چھپ گئی تھیں۔
’’یہ میں نہیں ہوں ‘‘ اس نے اپنے بدن پر ہاتھ پھیرا۔۔’یقینا‘‘ یہ میں نہیں ہوں لیکن کسی کو اس کا احساس نہیں بچوں کو بھی نہیں بیوی کو بھی نہیں ‘‘ ا س نے مُڑ کر دیکھا۔۔۔۔ کس مزے سے سو رہی ہے، یہ جان کر بھی کہ یہ وہ نہیں ہے‘‘
کروٹیں بدلتی رات چپکے سے صبح کے روشن بطن میں اتر گئی۔ اس کے اداس اترے ہوئے چہرے کو دیکھ کر بیوی نے پوچھا۔۔۔’’تو تم ابھی تک اسی چکر میں ہو‘‘
اس نے سر ہلایا لیکن کچھ کہا نہیں کہتا بھی کیا۔۔۔مکالمہ کے لیے دنوں طرف کے سیٹوں کی فری کیونسی ایک سی ہونا چاہیے ورنہ آواز کی بجائے شاں شاں ہی سنائی دیتی ہے۔۔۔
اس دن بھی وہ چوراہوں پر مختلف ٹیکسیوں کے پیچھے بھاگتا رہا ۔یہ ہو، شاید یہ۔۔۔
نہیں یہ نہیں۔۔۔ شاید وہ۔۔۔؟
اب اسے بالکل یاد نہیں آ رہا تھا کہ وہ ٹیکسی کس ماڈل اور مارکہ کی تھی مورس سنی ٹیوٹا یا ،ڈرائیور چھوٹے قد۔۔۔ نہیں لمبے قد شاید درمیانہ۔ جیکٹ کالی بھوری نیلی۔ یا۔۔کچھ یاد نہیں بس یاد ہے تو اتنا کہ پچھلی سیٹ پر وہ اپنے وجود کی ساری خوشبوؤں، تمناؤں اور خوابوں کے ساتھ اس لفافہ میں تھا۔ دفعتہ اسے خیال آیا کہ لفافہ پر پتہ تو تھا ۔شاید ڈرائیور نے اسے پوسٹ کر دیا ہو۔ یہ خیال آتے ہی خوشبوؤں ، تمناؤں اور خوابوں کے لذت بھر لمس اس کے سارے وجود پر پھیل گئے۔ لمبی لمبی غلافی آنکھوں، مسکراتے، سرخ ہونٹوں اورکھلے گلاب ایسے روشن چہرے کے ساتھ وہ لمحہ بھر کے لیے اس کی آنکھوں میں آئی۔۔ کیا معلوم خط اسے مل ہی گیا ہو اور اس وقت وہ اپنی آرام کرسی پر نیم دراز مزے مزے سے اسے پڑھ رہی ہو۔
لیکن کیامعلوم ؟
کوئی جواب بھی تو نہیں آیا۔۔۔!