ﺑﺎﻧﺪﮪ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﮯ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﺧﯿﺎﻝ…
ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﻣﯿﻢ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮتے
ﺑﮯ ﺳﺒﺐ ﺍﻟﺠﮭﻨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﮯ ہو
ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ
…………………….
وہ صبح فجر کے ٹائم اٹھی ۔ تو نماز پڑھ کے وہ روم سے نکلی اس کا کمرہ سیڑھیوں کے دائیں جانب تھا وہ نیچے ائی تو سعدیہ امی تسبیح اٹھائے ورد کر رہی تھی سعدیہ کو دیکھ ارشیا کو اسکی ماں یاد ائی وہ بھی ایسے ہی صبح فھر کے بعد بیٹھی ہوتی تھی ۔۔۔۔اپنی بہو کو دیکھ کر وہ مسکرائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام و علیکم امی ۔ ریڈ کلر کا سادہ سوٹ پہنے وہ بہت اچھی لگ رہی تھی خوبصورت تو وہ بہت تھی بس ارشیا خودسے یہ بات کبھی نہیں مانتی تھی یہ سب اس کی بھابھی کا کمال تھا نہ عقل ہے نہ شکل ہے یہ جملہ ہر وقت سنتی تھی اور کہیں نہ کہیں اسے بھی یہی لگانا شروع ہو گیا
سعدیہ نے اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں بھرتے وعلیکم السلام میرا بچہ ۔ جیتی رہو خوش رہو ۔۔او بیٹھو میرے پاس
ارشیاہ بھی ان کے پاس بیٹھ گئی ۔ سعدیہ اسے دیکھتی رہی ۔۔۔۔ ارشیا ان کو ایسا دیکھتا پاکر کیا ہوا امی ۔ ؟؟
سعدیہ نے فورا اپنی آنکھ سے آنسو صاف کرتے ہمیشہ اللہ سے دعا مانگتی تھی اپنے بچے کی خوشیوں کے لیے ۔۔۔۔ الللہ نے سن لی ۔ تمہاری شکل میں۔۔۔ دعا قبول کی ہے میری ۔ تمہاری ماں سے وعدہ کیا ہے میں نے کہ تمہیں ان کی کمی محسوس نہیں ہونے دوں گئی ۔ بیٹی بنا کر رکھوں گئی تمہیں اسکا پیار سے ہاتھ پکڑتے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اشعر بیٹا ہے میرا پر تم خود کو اس سے کم مت سمجھنا اشعر تھوڑا سنجیدہ مزاج کا ہے پر میں جانتی ہوں میرا بیٹا کبھی کسی کی تکلیف کی وجہ نہیں بنے گا ۔ وہ تمہیں بہت خوش رکھے گا ۔
ارشیا انکی اتنی محبت اور اپنائیت دیکھ کر جہاں مسکرا دی۔۔۔۔ وہی وہ دل میں اشعر کے رات والے رویہ کے بارے میں سوچتی رہی کتنا مان تھا اسکی ماں کو اس پے ۔ اب اسے یہ مان ہمیشہ قائم رکھنا تھا ۔ اشعر کے لیے نہیں ۔ ایک ماں کے لیے ۔۔۔ ایک ماں کا مان کیسے ٹوٹنے دیتی ۔ یہ ارشیا کو منظور نہیں تھا ۔۔۔۔۔
وہ اٹھ کر کھڑی ہوئی ۔۔۔ اپ ناشتے میں کیا لیتی ہیں امی ؟؟؟ ارشیا نے بات کو بدلا ۔۔۔
ابھی اشعر اٹھتا ہے پھر وہ بنا دے گا ۔ تم بھی بیٹھو میرے پاس ۔۔۔اسے اپنے پاس ہی بیٹھنے کا اشارہ کرتے ۔
میں بھی تو بیٹی ہوں اپکی میں بنا لیتی ہوں ۔ ۔۔۔
نہیں نہیں بیٹا ابھی کل ہی تو آئی ہو تم ۔ کچھ دن ارام کرو پھر۔۔۔۔۔
ارشیا نے فورا بیٹھتے سعدیہ امی کا ہاتھ پکڑا۔۔۔۔ ۔۔۔۔اپنی ماں کے لیے بنا رہی ہوں پھر میں کل کا انتظار کیوں کروں ۔ اس نے مسکراتے ہوئے سعدیہ کو کہا تو
ٹھیک ہے بیٹا ۔ کچن کا اور ناشتہ کا پوچھ کے وہ چلی گئی
۔ سعدیہ اسے جاتا دیکھتی رہی ۔ کتنی خوش تھی وہ ۔۔۔۔۔
ارشیا ناشتہ بناتے ہوئے سوچ رہی تھی کتنا سکون ہے اس گھر میں ۔ رات والا کوئی شور نہیں سب کہاں ہو گئے
اشعر کے سارے کنزن ،راشتے دار ۔ وہ اپنا اور امی کا ناشتہ ٹرے میں لگا چکی تھی ٹرے لے کر جاتے ہوئے امی نے ناشتہ کیا ہو گا یا نہیں ۔ یہ سوچ اسے ایک دم اداس کر گئی ۔ پر وقت نے اسے بہت اچھا اداکار بنا دیا تھا اداس ہوتے بھی مسکرانے کا ہنر اب ارشیا کی نیچر میں شامل ہو گیا تھا وہ اندر سعدیہ کے پاس اگئی مل کر ناشتہ کیا ۔ سعدیہ امی اس سے ناشتہ کے دوران خوب باتیں کرتی رہی سب بتاتی رہی وہ بھی سنتی رہی ۔۔۔ اشعر بھی فریش ہو کر امی کے روم میں اگیا ۔ اسنے اکر ماں کو سلام کیا ارشیا تب برتن اٹھا رہی تھی ۔ پر اس نے ارشیا کو ایسے اگنور کیا جیسے وہ وہاں ہے ہی نہیں
امی میں جا رہا ہوں شام کو ولیمہ ہے تو ایک دفعہ سارے انتظام دیکھ اوں ۔ ۔ ٹھیک ہے بیٹا ناشتہ کر کے تو جاوں ۔ میری بیٹی نے بنایا ہے وہ کچھ اور کہنے لگی تھی کہ اشعر کھڑا ہو گیا نہیں امی پہلے ہی ہوٹل والوں کے فون پر فون ارہے ہیں میں راستے میں کچھ کھا لوں گا ۔ میں چلتا ہوں ۔۔۔۔ کہتا ماں کے سر پر بوسہ دیا اور کمرے سے باہر نکل گیا ۔
ارشیا جو برتن اٹھا رہی تھی برتن جمع کر کے امی میں اتی ہوں کہہ کر چلی گئی ۔ برتن دھو کر کچن کا سلب صاف کرکے وہ دوبارہ سعدیہ کے پاس اگئی ۔
دن میں کچھ عورتیں ائی اسے دیکھنے ان سب سے ملتے پھر شام کے لیے پالر سے تیار ہوتے پورا دن نکل گیا ۔
وہ پالر سے سیدھا ہوٹل ائی اشعر کی ساری کزنز بھی ساتھ تھیں وہ سارے ارشیا سے باتیں کرتے رہے ۔
ان سب کی نیچر بہت فرینڈلی تھی ۔ اشعر کے سارے رشتہ دار کافی امیر تھے یہ وہ جان گئی تھی پر کسی میں غرور کی ایک جھلک تک نظر نہ اتی ۔۔۔۔وہ سب صرف شادی کے لیے کراچی ائے تھے ورنہ وہ سب اسلام اباد کے رہنے والے تھے ۔صرف اشعر اور سعدیہ امی کراچی سب رشتے داروں سے دور تھے ۔۔۔۔۔
ہوٹل پہنچ کر اشعر نے ہی اسے ریسیو کیا ۔۔۔۔ اور اکھٹے چل کر حال۔میں ائے ۔۔۔۔ وہ دونوں ہیپی کپل کی طرح مسکراتے سب سے مبارک باد وصول کرتے رہے ۔۔۔ دونوں ہی بہت اچھے اداکار تھے ۔ سب کو یہ ظاہر کر رہے تھے کہ وہ کتنا خوش ہیں اس شادی سے پر سچائی تو ان دونوں کے علاوہ شاید ہی کوئی جانتا ہو ۔۔۔۔۔
دونوں کو دیکھ کر سب نےان کی جوڑی کی تعریف کی نئی زندگی کے لیے دعائیں دی ۔۔۔
وہی جب ارشیا کی فیملی ائی تو اشعر کے سب رشتہ داروں نے بہت ہی اچھے سے ویلکم کیا انکا ۔۔۔۔ ارشیا بھی سب سے ملی ۔
ثمرہ ارشیا کے پاس ائی ۔ ہائے اتنا بڑا ہوٹل ہے اتنی اچھی ڈیکوریشن پورے حال۔کو ایک ہی نظر۔میں دیکھتے ۔ یہ سارا خرچہ خود کیا ہے اشعر نے ۔ ارشیا کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ۔۔۔لگتا تو نہیں ہے کہ وہ اتنا امیر ہو گا ۔۔۔ اوپر سے نیچے ارشیا کے ڈریس اور جیولری کو دیکھتے
۔۔۔
ارشیا نے ثمرہ کو دیکھا کیا جواب دیتی اس کا ۔ وہ کچھ کہتی کے ثمرہ فورا اسکے رشتے داروں نے ہی اسکی مدد کی ہو گی ورنہ ایک نارمل جاب والا کیا اتنا کر سکتا۔۔ساتھ ہی اپنی گردن پھر سے گھما کر پورے حال اور لوگوںکو دیکھتی رہی ۔۔۔
ارشیا خاموش رہی ۔ اس ڈریس کے مہنگے ہونے یا نہ ہونے سے اسے کوئی مطلب نہیں تھا اہم تھا تو اسکے لیے سعدیہ امی کے جذبات اور اپنائیت ۔۔ جہنوں نے اپنی بہو کے لیے یہ خود خریدہ تھا ۔۔۔ کوئی فرق نہیں پڑتاتھا اسے اشعر کے امیر یا غریب ہونے سے کیونکہ اب وہ اسکی قسمت تھا ۔۔۔
۔۔دوسروں کو نند بھابھی کا پیار دیکھانے کے لیے ثمرہ نے اسکے مہندی والے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیتے یہاں جو اسے پتہ چل جائے تمہارے کارناموں کا تو کتنی بدنامی ہو اشعر کی سب کے سامنے ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ارشیا کی طرف دیکھتے ساتھ ہی افسردہ شکل بنائی جیسے اسے بہت ہمدردی ہو ارشیا سے ۔۔۔۔۔
ارشیا نے اپنی بھابھی کو دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسنے یہ سوچ کرشادی کی تھی کہ ان سب کی زندگیوں سے دور جا کر وہ اسے سکون سے رہنے دیں گئے اس غلطی کی سزا اسے مزید نہیں ملے گی جو اسنے کی ہی نہیں ۔۔۔ پر اس الزام نے اسکا پیچھا کہاں تک کرنا تھا وہ نہیں جانتی تھی ۔
ارشیا کا کوئی جواب نہ پاکر فکر نہیں کرو ہم میں سے کوئی نہیں بتائے گا ۔۔اور تو اور ۔۔۔ تم شکر کرو تمہارا بھائی اگیا کتنی مشکل سے لے کرائی ہوں ورنہ لوگوں کو کیا جواب دیتی تم ۔۔ مسکراتے ہوئے احسان جتایا ۔۔
ارشیا نے ثمرہ کے پیچھے کچھ ہی فاصلے پر کھڑے اشعر کو دیکھا ۔ اشعر سامنے کھڑے شخص کی بات سن رہا تھا اسنے سامنے ارشیا کو دیکھتا پایا تو منہ دوسری طرف کر لیا ۔۔
ارشیا بھی اداسی سے اسے ہی دیکھتے دل میں اشعر اتنا دور مت جاو مجھ سے کہ جب تم واپس لوٹ کراوں تو میں ہی تمہیں نہ ملوں۔۔۔۔۔
ارشیا نے بھابھی کو دیکھا اتنا میں کسی نے اسکو پیچھے سے پکڑ کر پکارا ۔۔۔۔۔ آپی ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرے دن صبح وہ اٹھی تو بہت سکون تھا اس سکون کو دیکھ کے اسے کسی گڑ بڑ کا احساس ہوا پر ہر جگہ دیکھا لیکن پلوشہ کہیں نہ تھی ۔ وہ اٹھی اور فریش ہوئی ۔ تیار ہوتے وقت وہ بار بار اپنے کپڑوں اور جوتوں کو دیکھتی رہی ۔ پر سب کچھ ٹھیک تھا ۔ وہ باہر ائی واش روم سے تو پلوشہ بھی جوگنگ سے واپس اچکی تھی وہ جوس پی رہی تھی اسے دیکھتے ارشیا کو پھر سے خطرے کی گھنٹی سنائی دی اسنے اپنے اپنے اپکو پھر سے ایک دفعہ ائینے میں دیکھا پرسب ٹھیک تھا ۔ مسکراتے دل میں شکر کرتے کہ شاید پلوشہ کو اج اس پررحم اگیا ہو گا ۔۔۔۔ اس لیے ارام سے اپنا ناشتہ کیا ۔۔۔۔۔ اپنے کچھ اور کام کر کے وہ جلدی ہوسٹل سے نکلی پر یہ اس کی غلط فہمی تھی کہ پلوشہ اسے چھوڑ دے گی ۔۔۔
وہ سڑک پر ائی تو اسے فورا ہی ٹیکسی بھی مل گئی دل۔میں سوچتے ارے واہ لگتا اج میرا لکی دن ہے ۔۔۔ وہ ٹیکسی میں بیٹھ گئی آفس پہنچتے ہی ٹیکسی سے اتر کر اس نے کرایہ دینے کے لیے ہاتھ بیگ میں ڈالا تو اس کی انکھیں کھول گئیں ۔ اس نے اچھلتے ہاتھ باہر نکالا تو بیگ گر گیا اور بیگ سے پانی بہنے لگا
ٹیکسی ڈرائیور نے بھی بیگ کو دیکھا تو اسنے نیچے بیٹھتے بیگ کو اٹھایا تو کچے گندے انڈوں سے جو ٹوٹے ہوئے تھے اس کا سارا کچھ خراب کر گئے تھے اور جو بو تھی وہ اس سے خود بھی نہ برداشت ہو رہی تھی ۔ اس نے بہت مشکل۔سے ہاتھ ڈال کر والٹ نکالا گیلے بدبودار نوٹ کو ڈرائیور کی طرف بڑھایا
ڈرائیور نے اسے حیرانی سے اس بدبودار نوٹ کو دیکھا پر کرایہ تھا چھوڑ تھوڑی دیتا اسنے اپنی ٹیکسی سے ایک کپڑا نکالتےاس کپڑے سے نوٹ پکڑ لیا ۔ اور چلتا بنا ۔
ارشیا نے بیگ کو دیکھا۔۔۔۔وہ بیگ پھینک بھی نہیں سکتی تھی ایک ہی تو بیگ تھا اسکے پاس ۔۔۔۔ اور اندر بھی نہیں لےجا سکتی تھی ۔۔۔ اندر لے جاتی تو بدبو سے سب کو پتہ چل جاتا ۔ دوسرے دن ہی اس کا مذاق پکا تھا ۔ اسنے سارے انڈے والا لیکوڈ باہر نکال کر چیزیں ایک شوپر میں ڈالی اور پوری پرفیوم کی بوتل چھڑک دی ۔ جس سے تھوڑی بد بو کاور ہو گئی ۔
پر مشکلیں ابھی اور بھی ہیں ۔۔
ارشیا لفٹ کی طرف ائی پر کل جہاں وہ تھی اج وہاں اسکا دشمن کھڑا تھا لفٹ کے اندر۔
وہ بھاگی لفٹ بند ہونے والی تھی روکو۔۔۔۔۔۔ پر اشعر نے اسے دیکھا بھاگتے ۔ تو فورا بولا جانی دشمن پارٹ ٹو چڑھ کر او اج سیڑھیاں پتہ لگے تمہیں لفٹ کا دروازہ بند ہونے تک وہ بولتا رہا ۔ ارشیا کے اتنے بھاگنے کا کوئی فائدہ نہ ہوا دروازہ بند ہو گیا ۔ اب اسے سڑھیاں ہی چڑھنا تھا ۔ اشعر نے بدلا لے لیا تھا ۔ کل کا ۔ بس ارشیا نے جان بوجھ کر نہیں کیا تھا پر اشعر نے اج جان بوجھ کر لفٹ نہیں روکی تھی
کسی نے صحیح کہا ایک مشکل۔میں بندہ دوسری مشکل۔بھول جاتا ۔ وہ سڑھیاں چڑھتے بیگ کو اور پلوشہ کو تو بھول ہی گئی ۔ پر الللہ الللہ کر کے سیڑھیاں پار کر ہی لیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
پلوشہ اور اسکی شاید اس لیے بھی نہیں بنتی تھی دونوں ایک دوسرے سے الگ تھیں پلوشہ جہاں صبح جلدی اٹھتی واک کرتی ڈائٹ کا خیال رکھتی نماز پڑھتی وہی ارشیا واک سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ماشاءاللہ سے وہ تھی ہی سست قوم۔۔۔۔۔اور ڈائٹ ۔۔۔ ارشیا سے کوئی پوچھے تو وہ فوراً بولے یہ کیا ہوتا ۔۔۔۔ اسے جوملتا جنک فوڈ فاسٹ فوڈ وہ کچھ بھی کھا کر گزرا کر لیتی اور نماز ماشاءاللہ سے کبھی پڑھتی اور کبھی نہ پڑھتی۔۔۔ جلدی اٹھنا ارشیا جلدی اٹھتی افس اگر اٹھ بجےجانا ہوتا تو ارشیا ادھ گھنٹہ پہلے ہی اٹھے گی یا اس سے بھی لیٹ ۔۔۔۔
پورا دن گزر گیا ۔ اسے اشعر نامی بلا کا سامنا نہ۔کرنا پڑا ۔پر وقتا فوقتاً وہ اشعر کو سلواتے ضرور سناتی رہی ۔۔۔۔
۔ وہ سمجھ گئی تھی اشعر اور پلوشہ دونوں ہی وبالے جان اسکے لیے
پورا دن اسے اپنے بیگ کی فکر ہوتی رہی۔ افس ختم ہوا تو وہ گھر کے لیے نکلنے لگی صبح اس نے بیگ کی باہر والی پوکٹ میں والٹ رکھا تھا والٹ نکالنے کے لیے اسنے زیپ کھولی ۔ تو اسے ساتھ رومال نظر ایا ۔ اسنے رمال نکالتے ارے یہ۔یہاں تھا صبح کتنا ڈھونڈ اسے میں نے ۔ اتنے میں لفٹ کھولی وہ اندر اگئی پروہ اکیلی نہیں تھی اشعر نامی بلا بھی پہلے سے لفٹ میں تھی اسے صبح والا قصہ یاد ایا ۔۔۔اسنے اشعر کو غصے سے دیکھا پر نہ وہ بولا نہ یہ ۔۔۔ ارشیا نے لفٹ کا بٹن دبایا
بٹن دبا کر اسنے ہاتھ میں پکڑے رومال سے اپنا منہ صاف کیا جس کی باکل ضرورت نہیں تھی پر جب مشکل۔انی ہو تو پھر کیا ضرورت, کیا وجہ۔
اشعر نے اسے دیکھاتو ہنس دیا ۔ وہ ادھر ادھر دیکھ کر اپنی ہنسی کنٹرول کرنے کی ناکام کوششش کرتا رہا ارشیا نے اسے غصے سے گھور کر دیکھاتو سوری سوری ۔
ارشیا نے بیگ دوسری طرف کر لیا اسے لگا شاید بیگ سے بدبوارہی شاید اسلیے۔۔۔۔
پربدبو انے پر وہ ہنس کیوں رہا ۔ پھرخود ہی سوچتے یہ تو ویسے ہی دماغ سے پیدل ہے ۔
لفٹ کھولی۔ وہ باہر نکلی اشعر نہیں ۔ وہ تھوڑا اگے چلی تو ۔
او ڈرائکولہ کی بہن۔ارشیا روکی اور موڑ کر اسے دیکھا کیونکہ وہی اسے ایسے ناموں سے پکار سکتاتھا ۔۔۔۔۔
تم پے لال رنگ بہت سوٹ کرتا ۔۔۔اشعر نے سنجیدہ ہوتے کہا
ارشیا اسے غصے سے دیکھا کر ایسا ری ایکشن دیا جیسے کہہ رہی ہو اسے اسکے کمپلینٹ کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔ پر بولی کچھ نہیں خود ہی دل میں سوچتے یہ کلر بلائنڈ ہے کیا کیونکہ اسنے تو بلیو پہنا وا تھا ۔
اشعر اسےخاموش غصے سے دیکھتے۔۔۔ تم پاگل ہو کیا؟؟؟
ارشیا نہیں باکل نہیں ۔۔۔۔ ارشیا کے فورا جواب پے اشعر کا جاندار قہقہہ بلند ہوا ۔۔۔۔ ارشیا اسے ایسے ہنستا دیکھ یہ تو سچ میں پاگل لگ رہا ۔۔۔۔۔ کس پاگل سے پنگا لے لیا ارشیا ۔۔۔۔
اشعراپنی ہنسی پر کنٹرول کرتے مجھے پتہ ہےتم بہت بڑی افت ہو پر اپنے منہ پے یہ۔لال رنگ لگا کر کیا سب کو بتا رہی ہو کہ میرے پاس مت انا میں بہت بڑا خطرہ ہوں ۔ ۔۔۔۔ ویسے اچھی سوچ ہے تمہاری ۔۔۔۔۔داد ملنی چاہیے تمہیں۔۔۔۔۔۔۔ ہنستے ہوئے ڈرائکولہ کی بہن ۔۔۔۔۔ کہتا باہر کی طرف چل پڑا ۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارشیا نے اشعر کی بات سمجھتے چہرے پے ہاتھ لگا کر اپنا ہاتھ دیکھا تو لال رنگ کو اپنی انگلیوں پر پایا ۔۔۔ تو سمجھ گئی وہکیوں ہنسا رہا تھا اور یہ کون کرسکتا۔
ارشیا کیا کرتی کہاں دھوتی دوبارا اوپر جاتی واش روم سے دھوتی اتنا کون کرتا اسنے دوپٹہ جو اسنے گلے میں ڈالا وا تھا اسکو کھولا اور نقاب کرکے پوراکور کرلیا صرف آنکھیں نظرارہی تھی اسکی ۔۔۔۔۔۔
افس سے نکل کر ٹیکسی میں بیٹھتے سوچا
پردہ بھی کرنا تھا اسنے زندگی میں تو ایسے کرنا تھا ۔ پلوشہ پر اسے بہت غصہ ایا پر وہ کچھ کر نہیں سکتی تھی ۔۔۔ کرتی بھی کیا اسنے پہلے ہی اسکا جینا حرام کیا وا تھا جو اگر ارشیا کچھ کرتی تو پتہ نہیں پلوشہ بدلے میں کیاکیا کرتی۔ اسنے ڈرائیور کو اپنے ہوسٹل کا پتہ بتایا اور خاموش ہو کر بیٹھ گئی تو ٹیکسی والامسکراتا ہوا بولا
جی اپی ۔۔۔۔۔۔۔
ارشیا نے لفظ اپی سنتے سامنے دیکھا کیونکہ ٹیکسی والے کہاں اتنے تمیز سے بات کرتے ۔۔۔اسے ڈرئیوانگ سیٹ پر وہ کل والا لڑکا دیکھا ۔۔۔ ارشیا اسے دیکھتے ارے چھوٹے تم۔۔۔۔ٹیکسی ٹھیک ہو گئی تمہاری تھوڑا اگے ہو کر دیکھتے جیسے اسےوہ جگہ نظر ارہی ہو جہاں کل بائیک لگی تھی اور تم نے مجھے کیسے پہچانا ؟؟؟؟؟اسکا اشارہ اپنے نقاب کی طرف تھا ۔۔۔
جی اپی ٹھیک ہو گئی ۔کل ہی ٹھیک کروالی تھی۔میں نے ۔۔۔۔ دوسرے سوال کا جواب وہ گول کر گیا ۔۔۔۔۔۔شکریہ اپی
ارشیا نے اسے دیکھتے شکریہ کس لیے ؟؟
وہ کل اپ نے بولا نہ میرے لیے ۔ جب بائیک لگی ۔ چھ مہینے ہوگئے ہیں مجھے ٹیکسی چلاتے۔ بہت دفعہ ٹیکسی لگی پر کوئی پیسنجر ڈراہیور کے لیے نہیں بولتا سب مزے سے بیٹھے رہتے ۔۔۔۔۔ پر اپ پہلی تھی جو بولی۔۔۔
ارشیا اسے کچھ نہ کہا دل میں سوچا کاش اپنے لیے بھی بول پاتی ہر جگہ ۔۔۔
اس لڑکے نے ارشیا کو سوچتا دیکھا تو ۔۔ اپی اپ روز جاتی ہیں افس ۔۔۔
ہاں ۔۔۔۔ تم کیوں پوچھ رہے؟؟؟
اگر اپ کو روز ٹیکسی چاہیے ہو تو مجھے بتا دیں میں صبح اپکو چھوڑ اوں گا اور اس ٹائم میرا ٹائم ختم ہوتا میں اپ کو واپس چھوڑ کر ٹیکسی اپنے مالک کو دے دوں گا ۔ مجھے بھی ایک پرمننٹ پیسنجر مل جائے گا ۔ اسنے ہچکتے ہوئے اپنا موقف بتایا ۔۔۔
ارشیا کو اور کیا چاہیے تھا اوپر سے وہ لڑکا اپنے لب و لہجے سے لگتا بھی شریف تھا ۔ ارشیا کو صبح اور واپسی پر ٹیکسی کے لیے بھاگنے سے بھی چھٹکارا مل جاتا ارشیا نے اسے دیکھتے کرایے کا سوچتے ۔۔۔ ٹھیک ہے ۔ پھر تم مہینے کا کیا لو گئے میں پورے مہینے کے بعددوں گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔
جو اپکو ٹھیک لگے اپی ۔ کہتے وہ ہوسٹل پہنچا
ٹیکسی سے اترتے ٹھیک پے صبح اٹھ بجے تم یہاں ہو
اپنے نمبر دے دو کبھی ضرورت پڑ جاتی ۔ اس سے نمبر لیتے نام کیا ہے تمہارا
علی نام ہے میرا ۔۔۔
علی ارشیا نے نام دوہرایا ۔۔ہمممم۔ چھوٹے زیادہ اچھا ۔ ٹھیک ہے چھوٹے پھر صبح ملتے ۔۔۔ کہہ کر وہ چلی گئی ۔
اور علی بھی جی ٹھیک ہے اپی کہتا ٹیکسی موڑ ے چلا گیا ۔
چلو پورے دن میں ایک کام تو اچھا ہوا کہتے وہ کمرے کے اندر داخل ہوئی اسنے فورا اپنا دوپٹہ اتارا وہ بھول گئی تھی کہ اسنے نقاب اج کیوں کیا وا تھا ۔
پلوشہ روم سے باہر جا رہی تھی اسنے ارشیا کودیکھاتو نائس میک اپ کہتے باہر نکل گئی
ارشیا اسکی بات سمجھتے فورا واش روم بھاگی بہت کوششش کے بعد اسکا وہ کلر تھوڑا فیڈ ہوا اسنے واشروم سے چلاتے بیڑاغرق ہو تیراپلوشہ کیڑے پڑے تجھے منحوس ماری ۔۔۔ جیسے القابات سے نواز رہی تھی پر پلوشہ ہوتی تو سنتی۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احد ۔۔۔۔ کیسے ہو ۔۔۔ اسنے احد کو دیکھا جو اسے پکڑے ہوا تھا ۔ ارشیا بھی اسکےسامنے زمین پر بیٹھ گئی احد اسکے گلے لگ گیا ۔ اسے کے چہرے پر ہاتھ مارتے اپ بہت پیاری لگ رہی ہیں اپی باکل فیری جیسی ۔۔۔ جیسے اس سٹوری میں تھی ۔ اسے کسی سٹوری کا ہوا میں حوالہ دیتے ۔۔۔ارشیا بھی اس سٹوری کے حوالے کو سمجھتے اس کے گال پربوسہ دیا ۔۔۔۔ اچھا ۔۔۔ اپ بھی بہت پیارے لگ رہے ۔ باکل سٹوری کے شہزادے جیسے ۔۔۔۔علی بھائی کہاں ہیں اور اپ اتنا لیٹ کیوں ائے ؟؟؟
ہم نے اپ کے لیے گفٹ لیا نہ تو وہاں دیر لگ گئی بھائی کے پاس ہے گفٹ میں نے پسند کیا ہے فخریہ انداز میں بتاتے ۔۔۔۔ ۔
ارشیا اس کی معصومیت کو دیکھتے اچھا اپ نے پسند کیا پھر تو میں ضرور دیکھوں گئی ۔ ساتھ ہی اسکا ناک پکڑا ۔۔۔
اسلام وعلیکم اپی ۔۔۔۔۔
وعلیکم السلام کہتے ارشیا نے اواز کی سمت اوپر دیکھا
علی تھری پیس سوٹ پہنے اج بہت ہی ہینڈسم لگ رہا تھا ۔۔۔۔
کیسے ہو چھوٹے بہت اچھے لگ رہے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کھڑے ہو کر اسے دیکھتے ۔۔۔۔۔۔
بہت لیٹ ہو تم ویسے ۔۔۔۔۔۔میں سوچا شاید او ہی نہ ۔ اسنے احد کا ہاتھ پکڑے رکھا
یہ اپ اور اشعر بھائی کے لیے اسنے ایک گفٹ ارشیا کی طرف بڑھایا ۔ تو ارشیا نے اس کے ہاتھ سے لیتے ۔۔۔۔ بہت شکریہ چھوٹے ۔۔۔۔ اوں تمہیں سب سے ملواتی ہوں ۔
علی نے اپی رہنے دیں ۔
ارشیا نے اسے دیکھا وہ سمجھ سکتی تھی اسکی ہچکچاہٹ کو ۔
ارشیا نے اسے مسکرا کر دیکھا چھوٹے او ساتھ میرے ۔۔۔ کہتے وہ اور احد چل دیئے
ارشیا کا بہت دفعہ بھروسہ ٹوٹا تھا لیکن اسنے بھروسہ کرنا نہیں چھوڑا تھا لاکھ ناراضگی سہی پر اج بھی اسے اشعر پر بھروسہ تھا اسلیے اسنے علی اور احد کو ولیمے پے انوائیٹ کیا تھا ۔ وہ جانتی تھی اشعر کبھی علی اور احد کی انسلٹ نہیں کرے گا جو اس کا اپنا بھائی کرتا ۔۔۔۔۔۔ اس لیے اسنے مہندی اور برات پر ان کو نہیں بلایا تھا ۔۔۔۔بلا کر وہ مزید کوئی مسئلہ نہیں کھڑا کر سکتی تھی ۔۔۔۔۔
ارشیا نے علی اور احد کو سب سے پہلے سعدیہ امی سے ملوایا ۔ اشعر علی کو جانتا تھا ۔ کوئی علی اور احد کو ارشیا کا بھائی توکوئی اسکا کزن سمجھ رہا تھا ۔۔۔
احد کی کیوٹ کیوٹ حرکتیں دیکھ کر سب محظوظ ہوتے رہے ۔ ۔۔۔
۔ خیر خیریت سے فنکشن ختم ہوا اور وہ لوگ گھر اگئے ۔ ارشیا اپنے کمرے میں ائینے کے اگے بیٹھی جیولری اتار رہی تھی جب دروازہ نوک ہوا ۔ اسنے دروازہ کی سمت دیکھا تو اشعر کھڑا تھا
وہ بھی اپنی جگہ سے کھڑی ہو گئی ۔
مجھے کچھ بات کرنی ہے کہتے وہ اندر داخل ہوا ۔ ارشیا کوئی جواب نہ دے کر اسے دیکھتی رہی ۔۔۔
اشعر نے دوسری طرف دیکھتے ۔ میں کل جا رپا ہوں افس کے کام سے ۔ میں چاہتا ہوں اس رشتے کی سچائی صرف ہم تک رہے امی کو کبھی پتہ نہ چلے کہ ہمارے درمیان کیا ہے ۔ ان کے سامنے ہم۔ایک خوش حال۔میاں بیوی ہیں ۔۔۔ وہ۔روکا ارشیا کی ہاں یا نہ کے لیے جیسے اس کے لیے ارشیا کی راضمندگی اہم ہو
پر وہ۔کیا کہتی فیصلہ کیے جاتے تھے اسے تو صرف ان فیصلوں عمل کرنا ہوتا تھا ۔۔۔
ارشیا کو کچھ نہ بولتا پاکر وہ واپس موڑ گیا۔اگر تم اپنے گھر جانا چاہتی ہیں تو میں کل چھوڑ دوں گا ۔ کہتا اگے بڑھا
ارشیا نے نہیں میں امی کے پاس ہی رہوں گئی ۔ ۔۔۔
اشعر روکا پر موڑا نہیں ۔۔۔۔ جیسے تمہاری مرضی کہتے کمرے سے نکل۔گیا اور ارشیا بھی دوبارہ سے اپنے کام میں لگ گئی جو وہ۔پہلے کر رہی تھی ۔
وہ دونوں ہی ایسے شو کر رہے تھے جیسے وہ۔اس فیصلے کے لیے پہلے سے ہی تیار تھے انہیں کوئی فرق نہ پڑتا ہو ۔۔۔۔ ایک دوسرے کے دور جانے سے ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن ہی اسنے جب امی کو بتایا اپنے جانے کے بارے میں وہ کافی خفا ہوئی پر اشعر جانتا تھا ان کو منانا اور ادھا سے زیادہ کام تو ارشیا نے کر دیا تھا اسکا ۔امی کو منانے میں ۔۔۔۔ ارشیا کے کہنے ہعد انہوں نے اشعر کو اجازت دے دی
۔۔۔۔۔
۔ اشعر نے جان بوجھ کر۔ جا رہا تھا وہ بس ارشیا سے دور رہ کر اسے تکلیف دینا چاہتا تھا ۔ اسے اس کے الفاظوں کی سزا دے رہا تھا ۔
الفاظ بہت گہرا اثر چھوڑ تے ہیں ۔۔۔۔
شادی کے دوسرے روز ہی ایک مہینے کے لیے جا رہا تھا ۔۔۔
ادھر ارشیا بھی مطمئن تھی اس فیصلے میں ۔ اشعر کا اس سے دور رہنا ہی ٹھیک تھا ورنہ وہ۔جان جاتا ارشیا کے ماضی کے بارے میں تو ارشیا سے وہ کوئی صفائی نہ۔مانگتا دوسرے دن ہی اسے طلاق دے دیتا ۔
کوئی مرد صفائی نہیں مانگتا مرد خود جیسا بھی ہو اسے عورت ہمیشہ ہر لحاظ سے پاک چاہیے ۔
اب اسے کسی کے سامنے دوبارا سے اپنی صفائی کی بھیگ نہیں مانگنی تھی ۔ کوئی اس کا یقین کرتا یا نہ۔کرتا اسے اب اس سب کی کوئی پرواہ نہیں تھی ۔
اشعر کا اس سے دور رہنا ہی ٹھیک تھا ۔۔۔۔اگر محبت بے وفائی کرے تو دکھ ہوتا ہے پر اگر اسی محبت کی انکھوں میں اپکے لیے بے اعتباری اور شک ہو تو وہ لمحہ انسان کو جیتے جی قبر کے اندر اتر دیتا ۔۔۔۔ اشعر کی انکھوں میں وہ اپنے لیے کم از کم یہ جذبات نہیں دیکھنا چاہتی تھی کبھی ۔۔۔۔
وہ سعدیہ۔کے ساتھ بہت خوش تھی جیسے وہ اپنی ماں نسرین کے ساتھ رہنے کے خواب دیکھتی تھی ویسے وہ سعدیہ۔امی کے ساتھ رہ رہی تھی ۔ سعدیہ کی بھی ارشیا سے بہت بننے لگی ۔ وہ ارشیا سے بہت پیار کرتی بس اشعر کو لے کراب اسے ارشیا کے لیے فکرتھی اسے اشعر کو شادی کے فورا بعد ایسے جانے کا فیصلہ غلط۔لگا پر اب کیا ہو سکتا تھا شاید یہی قسمت تھی ان کی ۔ ایک ہی رشتے میں ہوتے ہوئے الگ رہنا ۔
ارشیا بہت سی باتیں کرتی احد علی پلوشہ اپنے افس کی پر کبھی اپنی فیملی کی بات نہ کرتی اچھی یادیں ہوتی تو بتاتی کسی کو وہ ۔
سعدیہ کو بھی ارشیا کی عادت ہو گئی وہ پورا دن ایک دوسرے کےساتھ رہتی ۔ سعدیہ۔نےارشیا کو بہت دفعہ کہا کہ وہ مل کر اجائے اپنے گھر پر وہ ٹال دیتی جاتی بھی تو کس کے لیے کسی کواس کاانتظار نہیں تھا جسکوتھا اسنے خود اسے وہاں انےسے مانا کر دیا تھا اسکی اپنی ماں ۔ وہ اس سےکال کا پوچھتی تو وہ ہمشہ کہہ دیتی کہ بات ہوئی ہے ۔۔۔۔۔
بھائی تھا جو اس سے بات کرنا گوارہ نہ کرتا بھابھی جیسے یہ فکر تھی کہ کہیں وہ واپس اکر اپناحصہ نہ۔مانگ لے اسلیے اس سےکوئی رابطہ نہ رکھا ۔ ارشیا کی دوبھتیجے اور ایک بھتیجی تھی ۔ پر وہ ارشیا سے نفرت کرتے تھے ۔۔۔۔ ایسے میں ارشیا کی فیملی اب صرف کچھ بندوں پر مشتمل تھی علی احد سعدیہ امی اور اشعر ۔۔۔۔۔۔۔۔
………….
بے خبر ہوگئے ہیں کچھ لوگ ہم سے
ہماری ضرورت اب محسوس نہیں کرتے
کبھی بہت باتیں کیا کرتے تھے ہم سے
اب خیریت تک معلوم نہیں کرتے…😢😢
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...