ہائیسم دودھ کا گلاس کمرے میں لے کر داخل ہوا تو ترتیل ایل ای ڈی پر فودیل کا شو ریپیٹ میں ” جواب چائیے ” بڑے انہماک سے دیکھ رہی تھی ۔ساتھ ساتھ لیز کا بڑا پیکٹ اپنے اختتام کو پہنچنے والا تھا ۔۔
ہائیسم نے دودھ اور تیل کی بوتل سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر ریمورٹ سے ایچ بی او چینل لگا دیا ۔ترتیل نے چونک کر ہائیسم کو دیکھا جو دودھ کا گلاس اس کی طرف بڑھا رہا تھا ۔
” ریمورٹ دیں میں نے بھائی کا شو دیکھنا ہے ۔۔”
ماتھے پر بل ڈالے ہائیسم سے ریمورٹ چھیننے کو آگی بڑھی اس کی حرکت ترتیل کو بہت گراں گزری تھی ۔
” یہ دودھ ختم کرو ۔اور اگر اس بندر کا شو دیکھنا ہوتا ہے تو میری آفس ٹائیم میں دیکھا کرو ۔”
سر جھٹک کر سنجیدگی سے بولا ۔ترتیل نے گھور کر اس کو دیکھا ۔۔
” آپ شاید بھول رہے ہیں ۔بھائی آپ کے کزن ہونے کے ساتھ ساتھ بہنوئی اور سالے بھی ہیں ۔۔”
انداز وارن کرنے والا تھا ۔۔ہائیسم نے بلیک نائیٹ سوٹ میں ترتیل کی ادا پر اسے اوپر سے نیچے تک فرصت سے دیکھا ۔۔ترتیل کبھرا کر مووی دیکھنے لگی ۔
” یہ بات تو سچ کہی تم نے ایک نمبر کا سالہ ہے تمہارا بھائی ۔۔”
مصنوعی مسکراہٹ سے کہ کر بیڈ پر اس کے قریب لیٹ گیا ۔۔
” آپ نے بھائی کو ابھی گالی دی ۔۔ہائیسم آپ گالیاں بھی دیتے ہیں؟؟ وہ بھی میرے بھائی کو ؟؟”
بے یقینی سے پوچھا ۔۔ہائیسم نے مسکراہٹ دبا کر کندھے اچکائے ۔۔
” ہاں بالکل دیتا ہوں ۔۔خاص کر تمہارے بھائی کو وہ ہے ہی اس قابل ۔۔”
اس کے مطئین انداز پر ترتیل تاسف اور غصے سے دیکھنے لگی ۔۔
” چلو اب دودھ پیو ۔۔کافی رات ہو گئی ہے ۔۔صبح تمہیں کالج بھی جانا ہے ۔پھر اٹھا نہیں جائے گا ۔”
خفگی سے اس کے ہاتھ سے دودھ پی کر لیٹ گئی ۔ہائیسم کو اس کی ناراضگی پر خوشگوار حیرت ہوئی ۔۔
شاید وہ بدل رہی تھی ۔۔آہستہ آہستہ جلیس کو بھول رہی تھی ۔۔
” یہ کیا کر رہے ہیں آپ ۔مجھے سونا ہے ۔ہائیسم ”
اس کی کاروائی پر ترتیل کنگ سی مذاحمت کرنے لگی جو ہاتھ میں تیل کی بوتل پکڑے اس کے نائیٹ سوٹ کا گاون اتار رہا تھا ۔۔
” میں نے کل تمہارے ڈاکٹر کو فون کیا تھا ۔۔اس نے کہا زور رات کو میڈیسن کے ساتھ زیتون کے تیل کی مساج بھی کرنی ہے تمہارے بازو پر اور مجھے پتا ہے شادی ہے پہلے تم بالکل بھی نجمہ سے مالش نہیں کرواتی تھی ۔۔اگر کرواتی تو بازو کی اتنی بری حالت نہیں ہوتی ۔۔”
ترتیل سانس روکے اس کے سامنے سلیولیس شرٹ میں بیٹھی اس کی بات سن رہی تھی جو اب بوتل کا ڈھکن کھول چکا تھا ۔۔
” میں ہرگز بھی یہ نہیں کروانے والی ۔کبھی بھی نہیں ۔آپ پتا نہیں کون سی غلط فہمی میں یہ اوئیل اٹھا لائے ہیں۔۔”
وہ تو بدک کر بیڈ سے اٹھی اور دوڑ کر کمرے کے دروازے تک پہنچی ۔۔ ارادہ اپنے پہلے والے کمرے میں جا کر خود کو لوک کرنے کا تھا ۔۔
” واپس آو تالی ۔۔نہیں تو میں بہت برا پیش آو گا ۔اور مالش تو تمہارے فرشتے بھی مجھ سے کروائیں گے ۔۔”
اس کے روعب سے بولنے پر بھی کوئی اثر نا ہوا ۔۔
” تم ایسے نہیں مانو گی ۔۔نرمی راس ہی نہیں ہے ۔۔ہو تو اپنے خبیث بھائی کی بہن نا ۔ادھر آو زرا ۔۔”
بیڈ سے اٹھ کر دونوں بازو میں اس کو اٹھا کر واپس بیڈ پر گود میں اپنے آگے بیٹھایا ۔۔ساتھ ہی اس کی ٹانگوں پر اپنی دونوں ٹانگیں رکھ کر پوری طرح اپنے شکنجے میں قید کیا ۔۔
” ہائیسم پلیز مجھے نہیں کروانی ۔۔پلیزز چھوڑیں ۔۔میں آپ کی ہر بات مانوں گی ۔مگر یہ نہیں کروانی ۔مجھے بہت دور ہوتا ہے ۔آپ کو سمجھ کیوں نہیں آرہا ۔ایک بار ڈاکٹر نے کی تھی تکلیف سے میرے بازو پر نیل پڑ گئے تھے چھوڑیں ۔۔”
اس کے بری طرح اپنی گود میں مچلتے ہوئے رو کر انکشاف کرنے سے ہائیسم چونکا
” تالی یہاں دیکھو میری طرف یہ کب کی بات ہے تم نے گھر میں کسی کو بتایا کیوں نہیں ۔کیا اس لیے تم مساج کرونے سے ڈرتی ہو ۔۔اور کون سے ڈاکٹر کے پاس فودیل لے کر گیا تھا تمہیں ۔۔”
اس کے ہچکیاں بھرتے وجود کو اپنی نرم گرفت میں بھر کر پیار سے پوچھا ۔۔
” میں کس کو بتاتی ۔بھائی سے یہ بات کہتے ہوئے مجھے بہت شرم محسوس ہوتی تھی ۔۔اور چھوٹی ماما تب روفہ کو یاد کرکے ہر وقت روتی رہتی تھیں ۔نا تو میری ماما ہیں نا کوئی بہن تو کس کو بتاتی ۔۔”
نم پلکوں سے شکوہ کرتے پھر سے رو دی ۔ہائیسم کو اس پر بیک وقت ترس اور پیار آیا
” نا میری پیاری سی جان رونا نہیں ۔۔اب میں ہوں نا تمہارے پاس ۔اب سے تم اپنی ہر بات مجھ سے شئیر کرو گی ۔آپنے سارے دن کی باتیں کالج کی باتیں ۔چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی ہر ایک بات اوکے ۔”
ہنوز گود میں لیے اس کا چہرہ اپنی طرف موڑ کر آنسو صاف کرکے بولا ۔۔ترتیل پرسوچ انداز میں اس کو دیکھنے لگی
” اچھا ٹھیک ہے مگر مجھے پھر بھی یہ مساج نہیں کروانی ۔میں آپ کی بات تب مانو گی جب آپ میری مانو گے ۔”
ہائیسم نے گہری سانس بھری ۔۔وہ واقعی ایک ڈرپورک سی خودترسی کا شکار لڑکی تھی ۔۔وہ روفہ نا تھی جو ہر بات تحمل اور برداشت سے سہہ جائے ۔۔
” آئی پرامس سویٹی ۔۔بالکل بھی درد نہیں ہو گا ۔۔اگر زرا سا بھی درد ہوا تو آئیندہ کبھی بھی نہیں کرو گا ۔ایک دفعہ کروا کر دیکھ لو ۔اب دوبارہ رونا نہیں ورنہ مار کھاو گی مجھ سے ۔ یہ بہت ضروری ہے اگر کرواو گی نہیں تو ٹھیک کیسے ہوگی ۔پتا ہے مساج کروانے سے تمہارا بازو ففٹی پرسنٹ موو کرسکتا ہے ۔۔”
اس کی فیزو تھیراپیسٹ کو سبق سکھانے کا سوچ کر نرمی سے کہا۔۔
باتوں میں بہلا کر ہائیسم نے اس کا سر اپنے کندھے سے لگایا ۔۔ہاتھ میں تھوڑا سا اولیو آئیل نکال کر اس کو گود میں بٹھائے ہی پوری دائیں بازو پر کندھے سے لے کر ہاتھ تک نرمی اور آہستہ سے مساج شروع کی ۔۔
اپنے کندھے سے لے کر ہاتھ تک اوپر سے نیچے جاتے ہائیسم کے ہاتھ کے لمس سے ترتیل کی دھڑکن میں تیزی آئی ۔۔
وہ اتنی نرمی سے اس کے بازو کو چھو رہا تھا جس سے ترتیل کو سکون کے ساتھ غنودگی محسوس ہونے لگی ۔اپنے سر کو مزید ہائیسم کے سینے میں چھپا کر آنکھیں بند کر لیں ۔۔
” آپ مجھ سے میرے کاموں سے ایک دن اکتا جاو گے ہائیسم ۔۔جس طرح جلیس نے مجھے ٹھکرا دیا ۔ایک دن آپ بھی میرے وجود کو بوجھ سمجھ کر چھوڑ دو گے ۔۔مجھے پتا ہے ۔سارے مرد ایسے ہی ہوتے ہیں ۔کوئی بھی عیب شدہ عورت کو ساری زندگی برداشت نہیں کرسکتا ۔۔”
نیند سے بوجھل آواز میں بڑبڑاہٹ کرتی ہائیسم کو تڑپا گئی ۔۔ اس نے نیچے جھک کر اپنے سینے میں چھپے اس کے سر کو دیکھا جہاں وہ اب پوری طرح سے غافل ہو چکی تھی ۔۔
” چھوڑ ہی تو نہیں سکتا تمہیں ۔اپنی انیس سالہ محبت کو کیسے چھوڑ دوں ۔تمہیں کیا معلوم میرے دل کے ٹکڑے تمہیں پانے کے لیے میں نے کتنی منتیں مانگی تھیں ۔۔دن رات اٹھتے بیٹھتے تمہارے خیالوں سے محبت کی ہے ۔خوابوں میں تمہارے وجود سے آنکھیں ٹھنڈی کیں ہیں ۔جس دن تمہیں چھوڑنے کا خیال بھی آگیا نا اس دن ہائیسم عالم یقینا اپنا دماغی توازن کھو دے گا ۔۔میں جلیس نہیں ہوں ہائیسم ہوں جس کی گٹھی میں وفا شامل ہے ۔۔یہ وقت تم پر ثابت کردے گا ۔۔”
آہستہ سے اس کے وجود کو بیڈ پر لٹا کر سلیوو کور اس کی بازو پر چڑھا کر کمبل اوڑھا دیا ۔ساتھ ہی اس کے کالے چھوٹے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگا ۔۔
ترتیل کی پلک پر ایک آنسو ابھی تک اٹکا ہوا تھا ۔۔ہائیسم نے آہستہ سے آنکھ کی نمی کو ہونٹوں سے چن لیا ۔۔
اس کے بے جان بازو کو سہلاتے سہلاتے ایل ای ڈی آف کرکے خود بھی لیٹ گیا ۔۔
دوپہر کے بارے بجے کا وقت تھا جب فودیل گھر داخل ہوا ۔۔اس وقت کوئی بھی گھر نہیں ہوتا تھا ۔عالم اور ہائیسم آفس ہوتے تھے ۔فضا اپنے این جی او میں جبکہ روفہ اور ترتیل اپنے کالج یونی میں ہوتی تھیں ۔۔جلیس اور ہدا ویسے ہی ابھی تک واپس نہیں آئے تھے ۔۔
اس رات کے واقعے کے بعد رافہ اور فودیل میں بالکل ہی بات چیت بند تھی ۔ہم کلام تو وہ پہلے بھی نہیں ہوتے تھے صرف فویل ہی روفہ پر طنز کرتا تھا مگر اب فودیل نے طنز کرنا بھی چھوڑ دیا تھا ۔۔
ایک کمرے کی چھت تلے دو وجود اجنبیوں کی طرح ایک دوسرے سے بےگانہ دن رات گزار رہے تھے ۔روفہ نے اپنی طرف سے ایک کوشش کر کے دیکھ لی تھی مگر اب وہ مر کر بھی دوبارہ پیش قدمی کرنے نہیں والی تھی ۔
فودیل صبح ہی صبح چلا جاتا کبھی رات گئے واپس آتا تو کبھی آتا ہی نہیں اس کا رویہ کسی سے بھی چھپا ہوا نہیں تھا مگر روفہ کے کہنے پر عالم اور ہائیسم فل حال چپ تھے ۔۔ابھی تک روفہ سمیت سب ہی فودیل کے حوالے سے اپنی برداشت آزما رہے تھے ۔۔
پورا گھر خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا بس دو چار ملازم اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے ۔آج کل الیکش کی سپیشل ٹرانس میشن کرنے کی وجہ سے وہ مصروف ہوگیا تھا ۔مگر صبح ہی سے اس کا کام میں زرا بھی دل نہیں لگ رہا تھا ۔اس لیے گھر ہی آگیا ۔۔
” نجمہ نجمہ پانی لاو ۔۔۔”
تھوڑی دیر بعد نجمہ پانی لے کر حاضر ہوئی ۔۔
” گھر میں تو اس وقت کوئی نہیں ہوگا ۔خیر کھانا لگا دو بھوک لگ رہی ہے مجھے ۔۔”
فودیل کی بات پر نجمہ کو پسینہ آیا جبکہ فودیل لاونج میں کوئی ٹاک شو لگا کر اپنے سر کے پیچھے باندھی چھوٹی سی پونی کو کس کر بڑی بڑی مونچھیں سنوارنے لگا ۔اپنے حلیے کی وجہ سے وہ کافی روعب دار لگتا تھا ۔
” کیا ہوا ۔میرے سر پر کیوں کھڑی ہو ۔۔کچھ کہا ہے میں نے جاکر کھانا لگاو ۔۔”
” سر جی وہ اس وقت تو کوئی بھی گھر نہیں ہوتا اس لیے میں نے کچھ نہیں بنایا ۔۔”
اس کے جھڑکنے پر نجمہ منمنائی ۔۔۔
” چلو جی ۔۔۔کچھ تو ہو گا گھر میں ۔۔اگر نہیں بھی ہے تو سینڈوچ ہی بنا دو بی بی ۔۔اب جاو یہاں کھڑی مت رہو ۔۔”
” سر جی وہ صبح روفہ باجی نے لزانیہ بنایا تھا اپنی دوستوں کی فرمائیش پر ۔۔وہ پڑا ہے اگر کہیں تو گرم کر دوں ۔۔”
نجمہ کے کہنے پر فودیل سیدھا ہو کر صوفے پر بیٹھا ۔بھوک سے تو برا حال تھا اور لزانیہ اسے پسند بھی تھا۔۔مگر روفہ کے ہاتھ کا بنا ہوا۔۔وہ سوچ میں پڑ گیا
” ہاں کر دو جلدی سے ۔۔”
سر جھٹک کر دوبارہ سے شو دیکھنے لگا ۔۔
” چلو شکر ہے اس میڈل کلاس کو کچھ تو آتا ہے مجھے تو لگا میڈم کو صرف سموسے ہی بنانے آتے ہیں ۔”
تمسخر سے سوچتے کانٹے چھری سے لزانیہ کھانے لگا ۔۔
شادی کو ایک ماہ دو دن ہو چکے تھے ۔۔اس دوران وہ اتنا تو سمجھ چکا تھا روفہ ایک کتابی کیڑا ہے ۔۔دن کے چوبیس گھنٹوں میں سے اٹھارہ گھنٹے وہ صرف پڑھتی تھی ۔۔جب صبح اٹھتا تو پڑھ رہی ہوتی رات کو واپس آتا تو کتابوں کو پھیلائے ہی سو رہی ہوتی ۔
موٹی موٹی کتابوں کا ڈھیڑ دیکھ کر فودیل کا دل ہی خراب ہونے لگتا ۔وہ تو صرف ایوریج سٹوڈنٹ رہا تھا ۔۔مگر وہ سمجھ نا پاتا بی اے میں آخر کون اتنی بھاری بھاری کتابیں پڑھتا ہے ۔۔
کھانا کھا کر اب تو نیند آنے لگی تھی تبھی کمرے میں سونے کی غرض سے سیڑھیاں چڑھنے لگا۔۔
جیسے ہی دروازہ کھولا سامنے ہی پورے فرش پر خون کی موٹی سی لکیر باتھ روم کی طرف جا رہی تھی ۔۔
فودیل حیرت اور پریشانی سے خون کی لکیر کے تعاقب میں باتھ روم میں دوڑ کر گیا۔۔کچھ پل کے لیے تو وہ ہڑبڑا ہی گیا تھا ۔
باتھ کا دروازہ پہلے ہی کھلا ہوا تھا اور سامنے ہی روفہ اپنا ہاتھ نلکے کے بہتے پانی کے نیچے کیے کھڑی تھی ۔اس وقت تو وہ یونی ہوتی تھی ۔فودیل اس کو دیکھ کر چونک گیا جس نے ایک نظر اس کو دیکھ کر دوبارہ اپنی نظریں ہاتھ پر جما دیں ۔۔
سفید سنک میں وہ باآسانی سے پانی کے ساتھ اس کے بہتے خون کو دیکھ رہا تھا ۔۔مگر وہ تو یوں سکون سے کھڑی تھی جیسے اس کی بجائے کسی اور کا ہاتھ کٹا ہو ۔۔
فودیل غور سے اس کے چہرے کو دیکھنے لگا ۔روفہ نے لب بھینج رکھے تھے جس سے اس کی تھوڑی کا خم مزید واضح ہو رہا تھا ۔۔فودیل نظروں کی گستاخی پر خود کو ڈپٹ کر دوبارہ اس کے ہاتھ کو دیکھنے لگا
” راستہ دیں ۔۔”
فودیل کو باتھ روم کے دروازے پر جم کر کھڑے دیکھ کر اس نے جھنجھلا کر کہا ۔۔وہ ایک دم پیچھے ہٹا ۔۔
” یہ کیسے ہوا تمہارے ہاتھ پر ۔۔اور تم تو اس وقت یونی ہوتی ہو۔کیا کسی سے لڑائی کرکے آئی ہو ۔”
وہ بے ساختہ ہی پوچھ بیٹھا
” گاڑی کے دروازے میں ہاتھ آگیا تھا ۔۔”
مختصر سا جواب دے کر اپنے بیگ سے رومال نکال کر اپنے ہاتھ پر رکھ کر زور سے دبانے لگی
” کیا تمہیں اتنی گہری چوٹ پر درد نہیں ہو رہا ۔ترتیل ہوتی تو اس وقت رو رو کر پورا گھر سر پر اٹھا لیتی ۔خیر میں بھی کس سے جذبات کی امید رکھ رہا ہوں روفہ عالم سے ۔جو پال پوس کر بڑا کرنے والے ماں باپ کے مرنے پر نا روئے وہ اپنی چوٹ پر کیا روئے گی ۔”
فودیل کے براہراست اس کی ذات پر چوٹ کرنے سے روفہ نے سرد نگاہوں سے اس کو دیکھا جو طنزیہ مسکراہٹ سے اس کو دیکھ رہا تھا ۔۔
” میں ترتیل نہیں ہوں ۔۔روفہ ہوں ۔۔جو نا آج تک کبھی روئی ہے اور نا کبھی روئی گی ”
اگر وہ چاہتی تو اپنی PBA effect کے بارے میں اس کو بتا سکتی تھی (ایسی سائیکلوجیکل بیماری جس میں انسان دماغی مرض کی وجہ سے اپنی منشا پر رونے سے محروم ہوتا ہے) ۔۔مگر ہمدری سمیٹنا اس کی فطرت کے خلاف تھا ۔۔
” ہاں جانتا ہوں میں ۔کس وقدر بے حس ہو تم ۔اور دیکھو کتنے فخر سے اپنی خوبی بتا رہی ہو مجھے ۔۔”
ناگواری سے کہہ کر صوفے پر بیٹھ گیا ۔۔روفہ نے اب کی بار اس کو جواب دینا ضروری نہیں سمجھا کیوں کے اس کے ہاتھ میں درد بڑھ گیا تھا
ہاتھ پر رکھا رومال خون سے بھیگ چکا تھا ۔اس کو اپنے ہاتھ سے ہٹا کر روئی رکھ کر بیڈ پر بیٹھ گئی ۔۔فودیل اس کی ایک ایک کاروائی پر نظر رکھے ہوئے تھا ۔۔تھوڑی ہی دیر بعد کمرے کا دروازے ناک ہوا روفہ کے اٹھنے سے پہلے ہی فودیل دروازہ کھول چکا تھا ۔۔
” ارے فودیل کیسے ہو بیٹا ؟”
ڈاکٹر ارشد جو کہ عالم کے دوست تھے فودیل کو گرم جوشی سے ملے ۔۔اور ساتھ ہی اندر کمرے میں داخل ہوگئے ۔
” انکل آپ یہاں خیریت تھی ؟”
ان کی آمد کے بارے میں تو وہ سمجھ ہی چکا تھا پھر بھی پوچھنے لگا
” ہاں بھئی آپ کی بیگم نے کال کرکے بلایا ہے ۔ہاتھ جو کٹوا لیا ہے ۔۔میں تو ہاسپیٹل سے اپنے کلینک جا رہا تھا جب روفہ بچے کا فون آیا ۔کہنے لگی انکل جلدی گھر آکر ہاتھ پر ٹانکے لگا دیں خون نہیں رک رہا ۔ڈرائیو مجھ سے ہو گا نہیں اور گھر پر کوئی ہاسپیٹل لے کر جانے والا نہیں تو میں بھی فٹا فٹ چلا آیا ۔۔”
فودیل ان کی باتیں سنتا روفہ کو دیکھنے لگا جو خاموشی سے اپنے ہاتھ پر ٹانکے لگتے ہوئے دیکھ رہی تھی ۔
ڈاکٹر کسی بھی پین کلر کے بغیر ٹانکے لگا رہا تھا فودیل اس کے درد برداشت کرنے کی ہمت پر سانس روکے دنگ سا اس کے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھے گیا
وہ لڑکی کیا تھی وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا ۔ڈھیٹ ،تحمل مزاج ،صابر یا پھر بےحس ۔۔جانے کیا تھی ۔جو بھی تھی فودیل کی سمجھ سے تو باہر ہی تھی
ڈاکٹر پٹی کرکے جاچکا تھا ۔درد کی وجہ سے اتنی ٹھنڈ میں بھی روفہ کے چہرے پر پسینہ آگیا ۔پین کلر کھا کر روفہ آہستہ سے بازو سر پر رکھے سو گئی بھوک تو اس کو بہت لگی تھی مگر درد کی وجہ سے کچھ کھانے کو دل ہی نہیں کر رہا تھا
رات کا جانے کون سا پہر تھا جب درد کے احساس سے روفہ کی آنکھ کھلی ۔نیند سے بھری آنکھوں کو بمشکل کھول کر روفہ نے اٹھنا چاہا مگر پھر بے سود ہو کر بیڈ پر گر پڑی تھوڑی دیر پہلے ہی وہ رات کا کھانا کھا کر سوئی تھی ۔سب گھر والے پریشان بھی ہوئے تھے مگر اس نے اپنے باتوں سےطمئین کرنے کی کوشش کی تھی جو کہ ناکام ہی ہوئی تھی
اس کے کروٹ پر کروٹ بدلنے سے فودیل کی آنکھ کھل گئی ۔۔روفہ کانپتے ہاتھ سے پین کلر کھا رہی تھی ۔۔فودیل کے دل میں جانے کیا آیا کہ وہ پریشان سا ہو کر بیڈ پر کھسک کر روفہ کی سائیڈ پر گیا ۔۔
” کیا بہت زیادہ درد ہو رہا ہے ۔۔اگر زیادہ ہو رہا ہے تو ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں ۔”
اس کے کہنے پر روفہ نے تعجب سے فودیل کو دیکھا ۔جو خود بھی اپنے الفاظ پر حیرت زدہ تھا ۔۔اس نے ہمدری میں کہا تھا یا تفکر میں وہ خود بھی جان نا سکا ۔
” نہیں اتنا زیادہ نہیں ہے تھوڑی دیر بعد خود ہی ٹھیک ہو جائے گا۔ ۔”
روفہ لاپرواہی سے کہہ لب بھینج کر لیٹ گئی ۔۔فودیل بے ساختے ہی اس کے نرم سے دراز براون بالوں میں انگلیاں چلانے لگا ۔جو اس کو نا پسند تھے ۔۔
” میں ٹھیک ہوں ۔آپ سو جائیں ۔”
سپاٹ لہجے میں بول کر کروٹ کے بل لیٹ گئی ۔۔اس کی انگلیوں کے لمس سے روفہ کو عجیب سا احساس ہوا ۔فودیل کے اس دن کے الفاظ پوری طرح کان میں گونجے تھے ۔
” نہیں تم ٹھیک نہیں ہو ۔مجھے پتا ہے تمہیں درد ہورہا ہے ۔۔چہرہ بھی سرخ ہو رہا ہے اور یہ دیکھو ہاتھ پر سوجن بھی ہوگئی ہے چلو ہوسپیٹل چلتے ہیں۔۔”
نرمی سے کہہ کر اس کا رخ اپنی طرف بدلا ۔۔روفہ کو اب حیرت کے ساتھ اس کے نرم انداز پر الجھن ہوئی ۔
” نہیں ”
یک حرفی جواب دے کر آنکھیں موند گئی ۔۔فودیل کی نظر دوپہر کی طرح پھر سے بھٹک کر اس کے تھوڑی کے خم پر جم گئی ۔۔
وہ بے اختیار اس پر جھکا اور تھوڑی کا خم نرمی سے چوم لیا ۔۔روفہ نے پٹ سے آنکھیں کھول کر اس کو دیکھا جس کی آنکھیں میں بہت الگ جذبات اور احساسات چمک رہے تھے
وہ بے حس و حرکت اس کو دیکھے گئی ۔۔فودیل آج پہلی بار اس کے اتنے قریب آیا تھا ۔۔دونوں میں فاصلے نا ہونے کے برابر تھا ۔۔روفہ کی دل کی دھڑکن وہ با آسانی سن سکتا تھا جس کی اپنی دھڑکن معمول سے تیز تھی ۔۔
” فودیل میں روفہ عالم ہوں ”
اس کے ایک جملے میں بہت سی باتیں بہت سے شکوے نپہاں تھے۔جیسے کہہ رہی ہو میں وہ ہی روفہ ہوں جس کو اس دن تم نے خود سے دور پھینک دیا تھا جس پر بات بات پر طنز کرتے ہو۔۔جس کو حد سے زیادہ ناپسند کرتے ہو۔۔
” ہاں تم روفہ ہو۔۔میری بیوی روفہ فودیل زکی ۔۔”
دلکش مسکراہٹ کے ساتھ کہتا اس کو بہت کچھ باور کروا گیا ۔۔روفہ کی مدہوش کن قربت میں فودیل ابھی کچھ بھی کہنا سننا نہیں چاہتا تھا ۔۔اس کی خوشبو بہت پاس سے محسوس کرنے کو دل بے لگام ہوا رہا تھا ۔
اس کی براون آنکھوں کو ہونٹوں سے چھوتے اپنے ہاتھ کی پشت سے اس کی گال کو سہلانے لگا ۔۔روفہ دم سادھے اس کے ہونٹوں کا لمس اب اپنی گال پر محسوس کر رہی تھی ناک گردن سینے اور پھر ہر ایک نقش پر ۔۔
وہ چاہتی تو اس کے ہاتھ جھٹک دیتی ۔۔خود کے وجود سے دور کرکے اس کے ہی کہے الفاظ اس کے منہ پر مارتی ۔۔مگر آج وہ اس زبردستی کے رشتے پر سمجھوتا کرکے اس نے فودیل کو دوسرا اور آخری موقع دے دیا ۔اس یقین کے ساتھ کہ دوریاں ختم ہوجانے پر قربت کی گرمائیش سے اس انسان کے دل پر جمی برف پگھل جائے گی ۔۔
دوسری جانب فودیل اس وقت عالم سے بدلہ ، روفہ سے ناپسندیدگی ، ترتیل کے متعلق تفکر ۔۔کچھ بھی سوچنا نہیں چاہتا تھا ۔یاد تھا تو بس اتنا اس کی باہوں میں موجود لڑکی اس پر پوری طرح سے حلال ہے ۔اس وجود کی نرمی کو محسوس کرنے کا اس کو پورا پورا حق حاصل ہے ۔۔تبھی سب کچھ بھلائے روفہ کو قید کیے اپنی ذات کو بھی بھول گیا ۔۔
روفہ نہیں جانتی تھی وہ کیوں اس کے قریب آیا ۔کسی جذبے کے زیر اثر ، اپنی ضرورت کے تحت، یا پھر اس کھوکھلے رشتے کو مضبوط کرنے کے لیے ۔۔
مگر اپنے بازو پر اس کے مضبوط ہاتھوں کی گرفت اس کا استحاق وہ پوری طرح سے محسوس کر رہی تھی ۔۔ہاتھ کا درد کہیں دور پیچھے چھوٹ گیا ۔۔یاد رہا تو بس فودیل کا نرمی اور حق سے خود میں سمیٹ کر اپنی قربت سے نوازنا ۔۔۔۔۔