ریان حق جانتا تھا اس کا مزاج وہ اگر ٹھان چکی تھی تو وہ گاڑی کے سامنے سے نہیں ہٹ سکتی تھی تبھی اسے گاڑی سے نکل کر باہر آنا پڑا تھا۔
’’کیا حرکت ہے؟‘‘ وہ برہم ہوا تھا۔
’’مجھے بات کرنا ہے؟‘‘ ایلیاہ میر نے مدعا بیان کیا۔
’’کیا بات؟ اوہ! ٹینا نے بتایا تھا تم جاب چھوڑ کر جانا چاہتی ہو؟‘‘ وہ اپنے طور پر اخذ کرتا ہوا بولا۔
’’ٹینا کی کہی گئی ہر بات پر اتنا ہی اعتبار کرتے ہو؟‘‘ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔
ریان حق اسے کچھ دیر خاموشی سے دیکھتا رہا تھا پھر اسے شانوں سے تھام لیا۔
’’مرد کی سب سے بڑی بے وقوفی پتا ہے کیا ہوتی ہے؟ وہ حسن کے غلط سلط کہے جانے پر اعتبار کرتا ہے‘ اس سے آگے دیکھتا ہے نہ سمجھتا ہے۔ میں نے تمہاری آنکھوں میں دیکھا تو اس سے آگے نہیں دیکھ سکا۔ اس چہرے سے آگے دیکھنے کی سکت ہی نہیں رہی۔ بس یہیں پر الجھ گیا اور یہیں پر شاید غلطی بھی کردی۔ میں نہیں جانتا تھا تم یہاں رہنے کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہو‘ تم پائول سے شادی کررہی ہو؟ چلو کسی طرح تمہاری پرابلمز کا حل تو نکلا‘ اب تمہیں جگہ جگہ خوار نہیں ہونا پڑے گا۔‘‘ اس کے شانوں پر اس کی گرفت سخت تھی۔ اس کی انگلیوں کا دبائو اسے اپنے گوشت کے اندر پیوست ہوتا محسوس ہوا۔ وہ اس شخص کے سامنے کھڑی تھی جس کے باعث اس کے دل نے دھڑکنا سیکھا تھا۔ اس شخص کی کھری کھری سن رہی تھی‘ جس کو اس نے خوابوں میں جگہ دی تھی مگر وہ کچھ نہیں سمجھ رہا تھا‘ کچھ نہیں دیکھ رہا تھا۔ تیز بارش میں وہ ساکت اس کے سامنے کھڑی تھی پھر یک دم اس نے ریان حق کے ہاتھوں کو اپنے شانوں سے ہٹادیا تھا اور پورے اعتماد سے اس کی نظروں میں دیکھتے ہوئے بولی تھی۔
’’میں غلط نہیں ہوں‘ نہ ہی لالچی ہوں۔ میں پیسوں یا دولت کے پیچھے کبھی نہیں رہی۔ اب میری سمجھ میں آرہا ہے اس روز تم مجھ سے کیوں پوچھ رہے تھے کہ ایک لڑکی کیا چاہتی ہے‘ میرا جواب سننا چاہو گے؟ میرا خواب آج بھی وہی ہے‘ محبت‘ عزت اور تحفظ۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں‘ جانتے ہو میں نے منگنی کی انگوٹھی اپنے منگیتر کے منہ پر کیوں ماری؟ کیونکہ وہ مجھے یہ تینوں چیزیں نہیں دے سکتا تھا کیونکہ میں نے اپنی ماں کو ان تین چیزوں کے لیے اپنی زندگی میں سسکتے‘ تڑپتے دیکھا ہے‘ میں اپنی ماں کی زندگی جینا نہیں چاہتی تھی۔ وہ کیکٹس کا پھول کہتا تھا مجھے‘ اس کے لیے میں دلچسپی کا باعث نہیں تھی اور میرے لیے وہ اہم نہیں تھا۔ میری ماں ان لوگوں کی وجہ سے اس دنیا سے گئی‘ میں ان لوگوں کو کوئی رعایت نہیں دے سکتی۔ میں نے انتھک محنت کی راہ چن لی کیونکہ مجھے خود پر بھروسا تھا‘ میں نے پوری جان لگادی کیونکہ میں اپنوں کے لیے سب کچھ کرنا چاہتی تھی ‘ جو شخص کسی سے پیار کرتا ہو وہ ان سب باتوں کو سمجھ نہیں سکتا۔ یہاں مزید دو سال ٹھہرنے کی خواہش میرا حق ہے۔ میں نے اس کے لیے یہاں کا سفر کیا ہے‘ اس سے مجھے کوئی روک نہیں سکتا نہ مجھے لالچی کہہ سکتا ہے۔ ہوں گے آپ کہیں کے پرنس مگر میرے لیے میرا وقار‘ میری عزت میرے تشخص سے بڑھ کر اور کچھ نہیں۔ اگر مجھے آپ سے محبت بھی ہوتی ہے تو میں آپ کو اس الزام کے لیے معاف نہیں کرتی۔ مجھے آپ سے بات کرنے کا شوق نہیں تھا مگر میں خود پر لگائے گئے الزام کی صفائی دینے کے لیے آپ کی گاڑی کے سامنے آئی‘ اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں تو سمجھتے رہیں‘ میں پائول سے شادی کروں یا کسی اور سے آپ کو اس سے فرق نہیں پڑنا چاہیے۔ ایک ملازم تو ہوں نا میں آپ کی پھر کس نے حق دیا آپ کو یہ سب سوچنے کا‘ میرے لیے آپ ایک انتہائی بند عقل کے آدمی ہیں‘ جس کی خود کی کوئی سوچ ہے نہ سمجھ بوجھ۔ آپ کو لگتا ہے میں آپ کے پیچھے ہوں‘ آپ پر فریفتہ ہوں‘ محبت ہوگئی ہے آپ سے؟ دولت ہتھیانا چاہتی ہوں آپ کی؟ آ… آپ اگر مفت میں بھی ملیں تو بھی آپ کو قبول نہ کروں‘ چھوڑ رہی ہوں میں آپ کی جاب‘ نہیں کرنا ایسے شخص کے ہاں جاب جسے دوسرے کے بارے میں غلط سلط باتیں سوچنے کا خبط ہو۔‘‘ وہ پلٹنے لگی تھی‘ جب یک دم رک کر دوبارہ مڑی تھی۔
’’سچ کہوں؟ آپ کوئی اچھی مشرقی لڑکی ڈی زرو بھی نہیں کرتے کیوں کہ آپ خود اس لڑکی کو پانے کے گٹس نہیں رکھتے۔ میں فضول میں متاثر ہورہی تھی آپ سے‘ آپ کی اچھائی سے۔ کچھ دیر اور یہاں رہتی تو شاید محبت بھی ہو ہی جاتی‘ تھینک گاڈ! آنکھیں کھل گئیں‘ اگر کہہ دیتی کہ محبت ہوچکی ہے تو شاید آپ اسے بھی کوئی ٹرک سمجھ لیتے‘ جس بندے کی اپنی کوئی عقل سمجھ بوجھ نہ ہو‘ اس سے کوئی کیا توقع کرسکتا ہے؟‘‘ وہ پلٹ کر وہاں سے جانے لگی تھی کہ یک دم ریان حق نے اسے کلائی سے پکڑ کر ایک جھٹکے سے اپنی سمت کھینچا ‘ انداز جارحانہ تھا۔ وہ اس کے سینے سے آن ٹکرائی تھی۔ دونوں بارش میں بُری طرح بھیگ رہے تھے مگر دونوں ہی کو اس بات کی مطلق پروا نہیں تھی۔ ایلیاہ میر نے سر اٹھا کر اپنے سامنے کھڑے شخص کو دیکھا تھا‘ نگاہ ان آنکھوں سے ملی تھی‘ وہ دونوں آنکھیں اس کے چہرے پر ٹکی تھیں۔ ایلیاہ میر کی روح فنا ہوچکی تھی۔ پوری جان میں ایک قیامت برپا ہوئی تھی۔ ان آنکھوں کے سامنے وہ ہارنا نہیں چاہتی تھی‘ شکست نہیں چاہتی تھی‘ تبھی وہ اس کی سمت سے اپنی آنکھیں ہٹاگئی۔
’’بہت رعایت دی تمہیں بہت مراعات دیں‘ اس گھر میں لایا‘ کیوں…؟‘‘ وہ سخت لہجے میں کہہ رہا تھا‘ وہ آنکھیں اس پر گڑی تھیں۔’’میں چاہتا ہوں تم زندگی کا خلاصہ خود کرو ایلیاہ میر‘ خود گوشوارہ بنائو‘ مجھے اپنے نفع نقصان کی پروا نہیں‘ شاید تمہیں اس سے فرق پڑتا ہو‘ اپنا حاصل جمع کرو اور بتائو کہاں میں غلط ہوں اور کہاں تم؟ مگر یہ سب کرنے سے سچ تبدیل نہیں ہوگا‘ ٹینا پر یقین نہ کرنا حماقت ہوگی‘ وہ جھوٹ نہیں بولتی‘ اگر اس نے کہا کہ تم لالچی ہو تو ہو‘ مجھے پہلے ہی دن اس کا احساس ہوجانا چاہیے تھا۔‘‘ وہ مدہم مگر سخت لہجے میں بولا تھا۔ ایلیاہ میر کی آنکھیں بھرنے لگیں مگر ریان حق کو اس کی پروا نہ تھی‘ ایک جھٹکے سے اس سے اسے چھوڑا تھا اور وہاں سے چلا گیا۔ ایلیاہ میر کس جگہ ہاری تھی۔
کس جگہ دل نے ڈبویا تھا
شکستِ پائی بھی تھی تو کس جگہ
وہ وہاں مزید رکنا نہیں چاہتی تھی تبھی سامان پیک کیا اور واپس ایسٹ لندن آگئی تھی۔ نمرہ کے دل اور کمرے دونوں میں اس کے لیے جگہ تھی‘ ایک ہفتے کی کوشش کے بعد اسے ایک ریسٹورنٹ میں
جاب مل گئی تھی تو وہ ایک شیئرنگ روم میں دوسری جگہ شفٹ ہوگئی تھی‘ اندر ایک گہرا سکوت تھا اور وہ اس سکوت کو توڑنے کی کوشش بھی نہیں کررہی تھی۔ زندگی کو ایک توازن دینے کی کوشش میں وہ ایک مشین بن گئی تھی‘ پلٹ کر ریان حق کی طرف نہیں دیکھا تھا۔
عزت‘ محبت اور تحفظ… اس کی ترجیحات میں عزت اول نمبر پر آگئی تھی۔ محبت کو اس نے ثانوی قرار دیا تھا‘ شاید محبت کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی‘ ان دنوں وہ ممی کو بہت یاد کررہی تھی‘ کئی بار ان کو یاد کرکے آنکھیں بھیگ چکی تھیں‘ وہ روکر خود کو کمزور کرنا نہیں چاہتی تھی مگر سمجھ نہیں آتا تھا کیوں وہ خود پر کنٹرول نہیں کرپارہی تھی۔
’’تم نے بتایا نہیں اچانک سے ریان حق کی جاب کیوں چھوڑ دی؟‘‘وہ اس بات کا کوئی جواب نہیں دے سکی تھی‘ نمرہ نے اسے بغور دیکھا تھا۔
’’کیا ہوا؟ تمہاری آنکھیں ایسے ویران کیوں لگ رہی ہیں؟‘‘ اس نے سر نفی میں ہلایا اور وہاں سے نکل آئی تھی۔ زندگی میں بھیانک ترین لمحہ تب لگتا ہے جب کوئی آپ کا یقین نہ کررہا ہو اور تب کوئی آپ کو انتہائی ارزاں جان رہا ہو‘ اسے قلق اس بات کا نہیں تھا کہ اسے رد کیا گیا تھا۔ کسی اور اس کی جگہ اپنا لیا گیا تھا یا کسی کے کہنے پر اس کی بے عزتی کی گئی تھی‘ اس نے تمام چیزوں کو اپنے اندر کہیں مار دیا تھا۔ کسی بات کا احساس وہ اپنے اندر باقی نہیں رکھنا چاہتی تھی۔ اس شخص سے ملنا‘ بات کرنا‘ محبت ہونا‘ شاید اس کی غلطی تھی اور وہ غلطیوں کو زندگی پر طاری یا حاوی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ اپنی ماں جیسی زندگی نہیں گزارنا چاہتی تھی۔ جو محبت کو فوقیت دیتی رہی تھی اور جس کی خود کی زندگی محبت سے خالی رہی تھی۔ بے حس لوگوں کے درمیان رہنے سے کہیں بہتر تھا وہ تنہا رہتی۔ سکون سے رہتی۔
وہ ریسٹورنٹ میں جاب ختم کرکے گھر کے لیے آرہی تھی جب اسے میسج آیا تھا کہ شاید کل یونیورسٹی میں اس کا سرٹیفکیٹ مل جائے گا‘ جس کے لیے اسے ال فورڈ جانا تھا۔ وہ اپنے ہی دھیان میں چل رہی تھی جب گاڑی کی ہیڈ لائٹس سے اس کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ اس نے آنکھوں پر ہاتھ رکھا‘ گاڑی اس کے قریب آن رکی تھی اور گاڑی سے جو شخص نکلا تھا اسے دیکھ کر اسے کوئی حیرت نہیں ہوئی تھی۔ وہ چپ چاپ ریان حق کو دیکھتی رہی تھی‘ وہ گاڑی سے نکل کر اس کے سامنے آن رکا۔
’’تم بتائے بغیر چلی آئیں‘ اپنی سیلری بھی نہیں لی‘ میں کسی کا حق غصب کرنا مناسب نہیں خیال کرتا۔ یہ رہے تمہارے پیسے۔‘‘ اس کی سمت ایک لفافہ بڑھایا تھا۔ جسے وہ کچھ لمحوں تک خاموشی سے دیکھتی رہی تھی پھر آہستگی سے ہاتھ بڑھا کر وہ لفافہ تھام لیا تھا۔
’’تم نے شادی نہیں کی‘ پائول تمہارے ساتھ دکھائی نہیں دے رہا؟‘‘ وہ طنز کرنا اپنا حق سمجھتا تھا‘ وہ غصے سے اسے گھورنے لگی تھی۔
’’میں پائول سے شادی کروں یا کسی اور سے‘ آپ کو اس سے مطلب؟‘‘ وہ اپنے ازلی ایٹی ٹیوڈ سے بولی تھی‘ وہ جانے کیوں مسکرا دیا تھا۔
’’تمہیں ستاروں پر چلنے کا بہت شوق ہے نا؟ کہکشائوں پر پائوں دھرنا خواب اولین ہے؟ اس کے لیے تم کانٹوں سے دامن چھڑانا چاہتی ہو؟ اور اس کے لیے تم ہر انتہائی قدم اٹھا سکتی ہو؟ تمہاری آنکھوں کی لگن بتاتی ہے‘ اندر کہیں بہت ویرانی ہے۔ ان کہکشائوں کی روشنی تمہاری ان آنکھوں میں کیوں نہیں‘ ستارے قدموں میں ہیں تو اندر اتنی تاریکی کیوں ہے؟ کس بات کا قلق ہے یہ؟ کیا نہیں ملا جس کا ملال ستار ہا ہے؟ کس بات کی لگن سانسوں میں ارتعاش کا باعث ہے؟ کس بات کا تلاطم ان دھڑکنوں میں ہے؟ ہم سر راہ اس کا خلاصہ نہیں کرسکتے‘ اہم باتوں کو سر راہ ڈسکس نہیں کیا جاسکتا؟‘‘ وہ بہت اطمینان سے کہتا ہوا مسکرادیا تھا۔ کیسا بے حس شخص واقع ہوا تھا جسے ذرا بھی ملال نہیں تھا کہ وہ کسی کے دل کو زک پہنچا چکا ہے‘ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں دنیا میں‘ وہ ابھی سوچ ہی رہی تھی جب ریان حق اس کا ہاتھ تھام کر اسے گاڑی کے پاس لے آیا‘ وہ ایک پل کو حیران رہ گئی تھی۔ یہ کیا کررہا تھا وہ؟ کیوں؟ اس کی اجازت کے بنا؟ یہ شخص کیوں سمجھتا تھا کہ اسے ہر جائز و ناجائز کرنے کا اختیار ہے اور وہ ہر طرح کا رویہ واجب رکھ سکتا ہے۔
’’آپ…‘‘ اس نے سخت سست کہنے کے لیے منہ کھولنا چاہا تھا ریان حق نے اس کے لبوں پر ہاتھ رکھ دیا‘ وہ ساکت سی اس کی سمت تکنے لگی۔
’’مجھے شور سے الجھن ہوتی ہے‘ فی الحال کوئی بات مت کرو۔‘‘ وہ حتمی اندازمیں کہہ کر گاڑی آگے بھگانے لگا‘ ایلیاہ میر چپ چاپ اسے تکنے لگی تھی۔
’’ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟‘‘ اسے اپنی سمت دیکھتا پاکر وہ بولا۔ وہ اس کی سمت سے اپنی نظریں ہٹاگئی تھی۔ وہ نظریں صاف کہہ رہی تھیں کہ انہیں گلہ ہے اور با ت کرنا نہیں چاہتیں۔ ریان حق نے اسے بولنے پر نہیں اکسایا تھا۔ گاڑی ریان حق کے گھر کے سامنے رکی تھی تو وہ چونکی۔
’’یہاں کیوں لے آئے آپ مجھے؟‘‘وہ چونکی۔
’’ضروری بات کرنا ہے‘ ضروری باتیں سڑکوں پر کھڑے ہوکر سرِ راہ نہیں ہوتیں‘ اترو۔‘‘ اسے گاڑی سے اترنے کا کہہ کر وہ ڈور کھول کر باہر نکلا تھا۔
’’اتنی رات میں کسی بات کا احساس ہے آپ کو؟ کل مجھ کیمپس جانا ہے۔ ڈگری کلیکٹ کرنا ہے اور…‘‘
’’اوہ! تو تم اب بھی اپنی ڈگری کا انتظار کررہی ہو؟ مجھے لگا تم نے پائول سے شادی کرلی ہوگی اور تمام پرابلمز کا حل ڈھونڈ لیا ہوگا۔ مگر تمہاری سوئی تو وہیں اٹکی ہوئی ہے۔‘‘ ریان حق کا انداز اسے تلملا گیا تھا۔
’’انتہائی فضول درجے کے انسان ہیں آپ۔ دوسروں کی زندگی میں مداخلت کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں‘ جو کرتے ہیں اپنے طور پر کرتے ہیں اور اسے ہی مناسب خیال کرتے ہیں‘ جو کہتے ہیں وہی آپ کو صحیح لگتا ہے۔ آپ دوسروں کی زندگی میں مداخلت کرنا بند نہیں کرسکتے؟ امیر پیدا ہوگئے اس زمین پر پیدا ہوگئے تو پرمٹ مل گیا آپ کو کسی کو بھی ذلیل کرنے کا؟ میں قطعاً امپرسٹڈ نہیں ہوں آپ سے۔ آپ کی ان حرکتوں کے بعد تو قطعاً نہیں ۔ آپ مجھے مزید غصہ مت دلائیں ورنہ…‘‘ اس نے دھمکی دی تھی اور ریان حق نے اس کا ہاتھ تھام لیا تھا اور کچھ قریب آگیا تھا‘ اس کی آنکھوں میں مکمل توجہ سے دیکھا تھا۔
’’ورنہ…؟‘‘ وہ اس کی دھمکی سے آگے سننا چاہتا تھا۔ ایلیاہ میر اسے غصے سے گھور رہی تھی۔ جب ریان حق نے اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر اس کی آنکھوں کو بھینچ دیا۔
’’کبھی کبھی کھلی آنکھوں سے جو دکھائی نہیں دیتا بند آنکھوں سے دکھائی دیتا ہے۔ میں چاہتا ہوں تم میرے معاملے میں اپنی آنکھیں بند کرلو‘ سماعتوں کو تالے لگادو اور صرف دل کو محسوس کرنے کو تنہا چھوڑ دو۔ کبھی کبھی دل اپنی جانچ پڑتال خود جس ڈھنگ سے کرتا ہے اس میں فرد کوکچھ واسطہ نہیں ہوتا۔‘‘ اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھے وہ بولا تھا۔ ایلیاہ میر بند آنکھوں سے سننے پر مجبور تھی اور اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ وہ کیا کہہ رہا تھا اورکیونکر…!
’’میں چاہتا ہوں تم اپنی پوری عقل کو استعمال کرو۔ وہ جانو جو آج سے پہلے نہیں جانا یا پھر جانا بھی تو انجانا کردیا۔ میں نے اس سے قبل اپنی دونوں آنکھوں کو استعمال نہیں کیا تھا۔ تم نے موقع ہی نہیں دیا‘ چاہتا تھا تمہیں دونوں آنکھوں سے بغور دیکھوں‘ پوری عقل سے جانچوں اور دل سے پہچانوں ۔ میں چاہتا ہوں تم وقت کی رفتار کو کچھ دھیما کردو تاکہ سارے منظر یک دم سے نہ گزرنے پائیں اور ساری چیزیں متواتر دل پر اثر کرسکیں‘ مجھے وقت کو تھامنے کا شوق تھا مگر میں نہیں کر پایا۔ تمہارے مقابل عجیب شکست خوردہ رہا‘ تم نے میرے وقت کو مجھ سے چھینا اور مجھے اپنے آپ سے بیگانہ کردیا۔ بہت سے گلے ہیں تم سے اور سب سے لمحوں کا حساب لینا ہے مگر آج نہیں۔‘‘ وہ مدہم لہجے میں کہہ کر اس کی آنکھوں پر سے اپنا ہاتھ ہٹاگیا۔ ایلیاہ میر نے اس کی سمت دیکھا تھا‘ رات کی اس تاریکی میں ان آنکھوں میں کچھ بے چینی تیرتی واضح دکھائی دی تھی۔ کس بات کا احساس تھا یہ؟ اس کے اثر کا تسلسل ٹوٹا تھا جب اس کا سیل فون بجا تھا۔ دوسری طرف نداماسو تھیں
’’ایلیاہ کیسی ہو تم؟ تمنا کے لیے ایک اچھا پروپوزل آیاہے‘ میں ای میل کرتی ہوں تم لڑکے کو دیکھ کر فیصلہ کرو‘ کیا کرنا ہے؟ مجھے اور تمہارے انکل کو تو کافی معقول لگا ہے وہ۔ تمنا کی تعلیم ختم ہونے والی ہے اور شادی بھی ہوجائے تو تمہار ی ذمے داری کچھ تو کم ہوگی نا۔‘‘
’’لیکن ماسو ابھی؟ آپ جانتی ہیں میں یہاں کن حالات سے گزر رہی ہوں‘ اس میں تمنا کی شادی کیسے ہوگی؟ مناسب ہوگا ہم دو سال بعد ہی سوچیں اور…‘‘
’’ان باتوں کو چھوڑو تم… میں نے ایک اچھا لڑکا تمہارے لیے بھی دیکھا ہے‘ لڑکا انجینئر ہے‘ اچھا کماتا ہے تم کہو تو تصویر بھجوادوں؟‘‘ ندا ماسو نے ٹھان لی تھی تمنا کے ساتھ اس کی شادی بھی کروا کر رہیں گی۔ اس نے ریان حق کی سمت دیکھا تھا۔
’’میں نے آپ سے کہا ہے نا ماسو! فی الحال میری شادی کے بارے میں مت سوچیں‘ جس لڑکے کو آپ نے قائل کیا ہے نا وہ صرف اس بات پر قائل ہوا ہوگا کہ میں یعنی لڑکی یہاں انگلینڈ میں ہوں‘ اسے نہیں معلوم کن حالات میں ہوں اور کتنی مشکلوں میں۔ مزید کسی اور کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی اور…‘‘ اس نے کہنے کا قصد کیا تھا‘ ریان حق نے اس کے ہاتھ سے سیل فون لے لیا۔ وہ حیرت سے تکنے لگی تھی مگر وہ بنا اس کی نظروں کی پروا کیے ندا ماسو سے بات کرنے لگا تھا۔
’’ندا ماسو! آپ کی بھانجی کافی ٹیڑھی لکیر ہیں‘ ان کے لیے کسی انجینئر کی نہیں دماغ کے ڈاکٹر کی ضرورت ہے۔ آپ کہیں تو میں یہاں نیوز پیپر میں ایک اشتہار لگوا دوں؟ کسی کی شامت تو آئی ہوگی ‘ کہتے ہیں گیڈر کی جب شامت آتی ہے تو شہر کا رخ کرتا ہے‘ کسی عقل کے اندھے کی شامت آئی ہوگی تو ضرور ایلیاہ میر سے رجوع کرے گا۔ کیوں ٹھیک ہے نا؟‘‘ وہ مسکراتے ہوئے بولا تھا‘ دوسری طرف ندا ماسو حیران ہوئیں‘ مگر کہنے والے نے اپنا تعارف کروانے کی بجائے یا اس کہے کی وضاحت دینے کی بجائے فون کاسلسلہ منقطع کردیا تھا۔
’’یہ کیا بدتمیزی ہے؟‘‘ وہ اسے گھورتی ہوئی بولی تھی۔ ’’کیا حق پہنچتا ہے آپ کو میری ماسو سے اس طرح سے بات کرنے کا؟وہ بھی میرے بارے میں؟‘‘ وہ سخت سست سنانے والی تھی جب ریان حق نے اس کے لبوں پر شہادت کی انگلی رکھ دی تھی اور پوری توجہ سے دیکھنے لگا تھا۔
’’اور کتنے چاہئیں؟‘‘ وہ پوچھنے لگا تھا‘ وہ بُری طرح چونکی تھی کچھ کہنا چاہا تھا مگر اس کی انگلی بدستور اس کے لبوں پر سختی سے جمی تھی سو وہ بول نہیں پائی۔
’’ایک مل گیا سو کافی نہیں ہے؟‘‘ وہ کس کی بات کررہا تھا؟ اور اتنی دھونس سے کیوں؟ سارا رعب وہ اسی پر کیوں جماتا تھا؟ ایلیاہ میر کو غصہ آنے لگا تھا‘ وہ اس کی نظروں کی سرخی دیکھ کر مسکرادیا تھا۔
’’ان آنکھوں میں غضب نہیں پیار زیادہ سوٹ کرے گا‘ تم اب نرمی اور محبت سے دیکھنے کی عادت ڈال لو۔‘‘ ایلیاہ میر نے اس کا ہاتھ اپنے لبوں سے ہٹایا تھا۔
’’یہ کیا بدتمیزی ہے؟ کیا بکواس کررہے ہیں آپ؟ دو پیسے ہیں جیب میں تو کوئی بھی بات کہہ سکتے ہیں؟ کسی پر بھی رعب جماسکتے ہیں؟ آپ کی حیثیت سے متاثر ہوجائوں گی‘ جرمن بلی سمجھ رکھا ہے مجھے؟‘‘ وہ گھورتے ہوئے بولی۔
’’اوں ہوں‘ جرمن بلی… جرمن بلی کا یہاں کام نہیں۔ اس کا قصہ تمام ہوا۔‘‘ وہ بہت رسانیت سے بولا تھا‘ وہ چونکی تھی۔
’’کیا مطلب؟‘‘ایلیاہ میر جاننے کی خواہاں ہوئی تھی۔
’’ٹینا کو لگتا تھا مجھے اس سے محبت نہیں ہے اور مجھے محبت تھی بھی نہیں‘ دو سالہ رفاقت میں میں نے اسے کبھی وہ تین لفظ نہیں کہے‘ کبھی وہ محسوس نہیں کیا جو دو دلوں میں ربط ہوتا ہے‘ ہم میں سب بہت سرد تھا اور بہت سرد مہری میں زمانے بیت رہے تھے شاید میں انہی زمانوں میں ایک سرد وجود بن جاتا جب تم مجھ سے ٹکرا گئیں۔ تم سے ملا تو حدت کا احساس ہوا‘ شدت کا احساس ہوا۔ مجھے قبول کرنے دو کہ تم وہ پہلی لڑکی ہو جس نے مجھے حیران کیا اور پریشان بھی۔ کئی دن تک الجھنوں میں رہا‘ خود اخذ نہ کرپایا کہ ایسا کیوں ہے اور تبھی ٹینا نے تمہیں راہ سے ہٹانے کی ٹھانی‘ بتایا کہ تم پائول کو پسند کرتی ہو‘ اس سے شادی کرنا چاہتی ہو اور میرے قریب اس لیے آئی ہو کہ میری دولت کو ہتھیا سکو ۔ تم مجھے بند دماغ کا آدمی کہہ سکتی ہو‘ جس پائول کو ٹینا چاہتی تھی اور جس سے تم کبھی ملی بھی نہیں تھیں اس سے تمہیں محبت کیسے ہوسکتی تھی؟ یا تم اس سے شادی کرنے کا کیسے ٹھان سکتی تھیں؟ یہ بات تب میری سمجھ میں نہیں آئی تھی؟ مگر تمہارے جانے کے بعد آئی جب ایک دن پائول سے ملاقات ہوئی۔ وہ گھر آیا تھا ٹینا سے ملنے۔ تبھی مجھے اس سے بات کرنے پر پتا چلا کہ وہ تو تمہارے نام سے بھی واقف نہیں۔ مجھے ٹینا سے یہ امید نہیں تھی مگر شاید وہ مجھے گنوانا نہیں چاہتی تھی‘ تم اس گھر میں تھیں۔ مجھ سے قریب تھیں یہ بات اسے فکر مند کررہی تھی بہرحال ایک کہانی کو ختم ہونا تھا سو تمام ہوئی۔ وہ گھر سے چلی گئی‘ اسے یہاں رکنے کا جواز نہیں دکھائی دیا اور مجھے بھی یہ مانتے ہی بنی کہ تم کیا ہو اور کیا اہمیت رکھتی ہو۔ شاید اب اگر میں کہوں کہ میں آج تمہیں اپنی پوری توجہ سے اور دونوں آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں تو تمہارا دل میرا سر پھوڑ دینے کو چاہے گا مگریہی سچ ہے۔‘‘ ریان حق نے کہہ کر اسے خود سے کچھ اور قریب کیا۔
وہ آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگی تھی‘ یہ کیسا اظہار تھا؟ اسے خود اپنی سماعتوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔قسمت اس پر مہربان ہورہی تھی‘ اس ڈھنگ سے ‘ وہ خود یقین کرنے کو تیار نہ تھی۔
’’میں ان دھڑکنوں کو تمہارے ساتھ جوڑنا چاہتا ہوں‘ تمہارے قدموں سے قدم ملا کر چلنا چاہتا ہوں‘ کیا تم اس کا موقع دو گی؟‘‘ ایلیاہ میر اسے جامد نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ریان حق نے اس کے چہرے پر آئے بالوں کی لٹ کو اس کے چہرے سے ہٹایا اور مدہم سرگوشی میں بولا۔
’’ایلیاہ میر! مجھے ایسی ہی لڑکی کی ضرورت تھی‘ جو مجھے اچھی طرح جانتی ہو اور جو مجھے اپنے ساتھ باندھ سکے‘ تم نے پہلے ہی دن اپنے اثر میں لیا اور سنگ جوڑ دیا ‘ مجھے دبی دبی دبو قسم کی لڑکیاں پسند نہیں‘ لڑکیوں میں حوصلہ ہونا چاہیے‘ اپنی ذات کو منوانے کا ڈھنگ ہونا چاہیے۔ اعتماد ہونا چاہیے اور تم میں وہ سب ہے۔ تم نے جس طرح مسٹر حیات کو اس رات روز دار پنچ مارا اس سے میں بہت زیادہ متاثر ہوا‘ تبھی مجھے لگا میں تمہارے ساتھ اندر سے کہیں جڑ رہا ہوں۔ میں نے شور نہیں مچایا‘ بس خاموشی سے اپنے اندر کی آواز کو سنا۔ اپنے اندر کے شور کو سمجھا اور جانا کہ دل کیا کہتا ہے اور اندر کی آواز کیا ہے‘ کوئی تم جیسی دلیر دھانسو قسم کی لڑکی ہی ہوسکتی تھی‘ جس کے ساتھ میں قدم سے قدم ملا کر چل سکتا تھا‘ میں تم سے ملنے سے پہلے خود نہیں جانتا تھا کہ میرے اندر کیا ہے یا میری خواہش کیا ہے‘ تم نے میرے نظریات کو بدلا‘ میری سوچ کو بدلا اور میرے دل کو جیتا‘ ایسی ہی ہوتی ہے نا محبت؟ دلیر‘ نڈر‘بے ریا‘ اور بے غرض اور مصائب کے باوجود بھی تھکنے والی نہ رکنے والی؟ تبھی میں نے تمہیں کیکٹس کا پھول کہا ۔ تم ویسی ہی تو ہو۔ اجلی اجلی‘ کھلی کھلی بہت سے مصائب کا ڈٹ کا سامنا کرتی‘ ایسی جیون ساتھی کون نہیں چاہے گا؟ اور کون ہوگا جو پاکر گنوادے گا؟ میں ان کم عقلوں اور نا فہم لوگوں کی فہرست میں نہیں شمار ہونا چاہتا تھا‘ تبھی میں نے لمحوں کو شمار کرنا ترک کیا اور تم تک کا سفر کیا۔
میں جانتا ہوں ان دھڑکنوں میںکیا ہے اوریہ دل کس باعث دھڑکتا ہے‘ اتنا احمق نہیں ہوں‘ قیاس آرائیوں پر یقین نہیں کرتا مگر محبت ایک یقین ہے‘ ربط ہے اور میں اپنے دل کو تمہارے دل سے جڑا ہوا محسوس کرتا ہوں اور میں جانتا ہوں تم بھی ایسا ہی محسوس کرتی ہو ‘ دادی اماں کی خواہش بھی یہی تھی میری دلہن دیسی ہو پکی مشرقی ہو‘ بچے آدھے تیتر آدھے بٹیر نہ ہوں۔ سو اب سب کی خواہشوں کے پورا ہونے کا وقت آگیا ہے۔‘‘ وہ مسکرایا تھا‘ وہ پلکیں جھکا گئی تھی‘ اس خاموشی میں ریان حق کے دل کی دھڑکنیں اسے بہت واضح سنا ئی دی تھیں‘ وہ ان دھڑکنوں کے معنی سمجھ سکتی تھی۔ ان دھڑکنوں میں چھپے راز جان سکتی تھی‘ لمحہ بھر کو اس نے آنکھیں موند لیں شاید یقین کرنے کے لیے کہ وہ بند آنکھوں سے بھی وہی دیکھ رہی ہے جو کھلی آنکھیں اسے دکھا رہی تھیں؟ لمحہ بھر کو وہ اس طرح کھڑی رہی تھی پھراپنی آنکھیں کھول کر اسے دیکھنے لگی تھی۔
’’بند آنکھوں سے کیا دکھائی دیا؟ وہی نا جو کھلی آنکھوں سے دکھائی دے رہا ہے؟‘‘ ریان حق نے پوچھا تھا‘ ایلیاہ میر نے چند لمحوں تک سوچا پھرہاتھ کاپنج بنا کر اس کی سمت بڑھایا تھا‘ جسے ریان حق نے ہاتھ بڑھا کر تھام لیا تھا‘اس کا ہاتھ اس کے ہاتھ کی گرفت میں آگیا تھا۔ ایلیاہ خاموشی سے دیکھنے لگی تھی پھرمسکرادی تھی‘ اس کے چہرے کو بغور تکتے ہوئے ریان حق بھی مسکرادیا۔
’’تمہاری مسکراہٹ بہت بھلی ہے‘ میںنے اس سے زیادہ خوب صورت مسکراہٹ نہیں دیکھی۔ تم کچھ نہ بھی کہو مگر میں جان سکتا ہوں تم خوش ہو اور میں تمام عمر اس مسکراہٹ کو برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کروں گا۔‘‘ وہ یک دم پریشان ہوئی۔
’’اس سفر میں اب تم تنہا نہیں ہو‘ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ جب بھی تم ایک قدم اٹھائوگی‘ تم دوسرا قدم میرا اپنے ہمراہ پائو گی‘ ہم مل کر ان ذمہ داریوں کو پورا کریں گے۔ تمنا کی شادی بھی ہوگی اور جامی‘ ثناء کی پڑھائی بھی‘ اب خوش؟‘‘ وہ مسکراتے ہوئے اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگا تھا۔ اب تعرض کی کیا وجہ نکلتی تھی؟ کوئی جواز نہیں بچا تھا انکار کرنے کا‘ سو اس نے اثبات میں سر ہلادیا تھا۔
ریان حق نے اس کے سر کے ساتھ اپنے سر کو جوڑا تھا تو وہ دھیمے سے مسکرادی تھی‘ آسمان پر بادلوں میں چھپا چاند ان دونوں کو دیکھ کر بادلوں کے سنگ آگے بہنے لگا تھا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...