(Last Updated On: )
صوتی گونج۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ جو اپنے وجود کے لئے پریشان تھی، یکا یک ماحول صداؤں سے مرتعش ہو گیا۔۔ ۔۔ کہ ضرور بناؤں گا۔ زمین پر اپنا ایک نائب، جمیل پری زاد اپنی برتری کے لئے بے چین ہوئے۔۔ ۔۔ ۔۔ کیا آپ پیدا کریں گے زمین پر ایسے لوگوں کو جو فساد کریں گے اور خون ریزیاں کریں گے جب کہ ہمارے وجود کے سب موسم حمد و ثنا کے سر تال ہیں۔ اسم اعظم کی صدا گونجی کہ میں جانتا ہوں اس بات کو جس کو تم نہیں جانتے اور علم دے دیا اسم اعظم نے اپنے حکم سے اپنی تخلیق کو کل اسماء کا۔ اس طرح خاک وجود کے افق پر چھا گئی، لیکن خاک! خاک جو اس کی ماں تھی، خون آلود ہو رہی تھی۔ وسیع و عریض نیلے آسمان کو گدھوں نے اپنے مکروہ سیاہی مائل پروں سے ڈھک لیا تھا گو کہ زمین پر اندھیرا پھیل گیا تھا۔ اس کے باوجود اگی ہوئی سرخ فصلیں پھر بھی نظر آ رہی تھیں۔ خشک، زرد، ٹنڈ، منڈ شاخوں پر الو دیکھے گئے۔ جو اپنی خوفناک آوازوں سے ٹرٹرا رہے تھے۔ سرخ برہنہ شاخوں میں ہوا کے خنجر پیوست ہو گئے تھے۔ سائے سایوں سے ڈر کر پناہ گاہیں تلاش کر رہے تھے۔ جب اندھیرا مختصر ہوا اور گدھوں کی تعداد میں تقلیل ہوئی تو سورج کی کرنیں زمین پر کانپتی ہوئی دیکھی گئیں اور آسمانوں پر روشنی کے آثار نمایاں ہوئے اس و قت لوگ پناہ گاہوں سے نکل کر اپنی اپنی رہائش گاہوں کی طرف دوڑ رہے تھے۔ ان کے چہروں پر ہراس کی سطریں پڑھی جا سکتی تھی، جن کی روشنائی گہری تھی اور آنکھوں میں بیچارگی کی لکیریں دکھائی دے رہی تھیں۔ قینچی کی مانند تیز قدم سانپ کی طرح پھنکارتی ہوئی کالی سڑک پر چل رہے تھے۔۔ ۔۔ نہیں۔۔ ۔۔ ۔ نہیں دوڑ رہے تھے۔ ان قدموں کے درمیان دو قدم اس کے بھی تھے جس کی آنکھیں پتھر کی ہو گئی تھیں پھر بھی بیچارگی کی نمائندہ تھیں۔ چہرہ جو سیاہ ہو چکا تھا، مریم کی سی پاکیزگی پسینہ کی صورت ٹپک رہی تھی۔ وہ تیزی سے اس مختصر سفر کو طے کر رہی تھی۔ جس کا اختتام ہو نہیں پا رہا تھا بلکہ لا متناہی سلسلہ جاری تھا۔ بڑی کوشش کے بعد ہانپتی کانپتی وہ اپنوں میں پہنچی۔
پنچ جو پرمیشور ہیں۔ ایک دو فٹ اونچے مٹی کے چبوترے پر بیٹھے تھے۔ اسی لئے انہیں نیچے کی ہر شے چیونٹی نظر آ رہی تھی۔ چبوترے پر ایک پرانا برگد کا پیڑ لگا تھا۔ جس کے اوپر سورج ٹنگ رہا تھا۔ اس میں سے چھن چھن کر روشنی چبوترے پر گر رہی تھی۔ چبوترے کے چاروں طرف بیٹھے اور کھڑے آدمیوں کے سر پر کڑی دھوپ لدی تھی۔ جسے ناتواں لوگ اپنے سرکنڈوں جیسی ٹانگوں پر سنبھالے ہواؤں کی زد پر کھڑے تھے کہ ذرا بھی ہواؤں میں تیزی آئی تو وہ گر جائیں گے۔۔ ۔۔ ۔ یا ٹوٹ جائیں گے ان کو گرنے کا اتنا غم نہیں تھا چونکہ گرنا تو ان کا مقدر تھا خطرہ تو ٹوٹنے کا تھا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ پھر پنچ تو بھگوان کے سمان ہوتے ہیں اور بھگوان تو ایک ہوتا ہے اور یہ پانچ یعنی بھگوان سے زیادہ شکتی شالی۔۔ ۔۔ ۔ درگائیں ایک بیل گاڑی کی آڑ میں مکھیوں کی طرح بھنبھنا رہی تھیں۔۔ ۔۔ ۔۔ اپنے چہروں پر گھونگھٹ کاڑھے مگر اپنے سینے پر رکھے ہوئے کالے کالے نقطوں سے بے خبر، اور نوجوانوں کی آنکھوں کے خنجروں کی نوک پر غیر محفوظ۔۔ ۔۔ نہیں۔۔ ۔۔ ۔ نہیں۔۔ ۔۔ ۔ نہیں محفوظ غیروں کی ناپاک نظروں کے سائے سے بھی۔ جانکی اپنے گھونگھٹ کی آڑ سے پرمیشوروں کو جھانک رہی تھی یا جھانکنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی جو حقہ گڑ گڑا رہے تھے۔
’’چودہ دن کسی غیر مرد کے یہاں گزارنے سے بہتر تھا کہ وش پی لیا ہوتا‘‘ درمیان میں بیٹھا پنچ اپنی بلی جیسی مونچھوں پر لیموٗں رکھ رہا تھا۔
جانکی کے ہونٹ پھیل گئے۔ وہ بڑ بڑائی ’’ہوں غیر‘‘ ۔۔ ۔۔ وہ غیر اور اپنوں کا فرق سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔ ۔۔ ۔ میں۔۔ ۔۔ میں پاروتی ہوں۔۔ ۔۔ شکتی ہوں شنکر کی۔۔ ۔۔ ۔ خود شنکر نہیں ہوں۔۔ ۔۔ اور شنکر تو یہ لوگ بھی نہیں ہیں پھر کیوں یہ میرے سروناش پر تلے ہیں؟ وہ اپنی جگہ کسمسا کر رہ گئی۔
’’بھئی مرنا تو سب کو ہے۔‘‘ دائیں ہاتھ پر بیٹھے ہوئے پنچ نے تیر پھینکا۔
جانکی نے تیر کی کاٹ کو برداشت کیا۔ ’’ہاں‘‘ میرا قصور یہ ہے کہ میں موت سے ڈر گئی۔۔ ۔۔ ۔ کیوں ڈر گئی۔۔ ۔۔؟ کیوں نا نیل کنٹھ کی طرح زہر اپنے گلے میں انڈیل لیا۔۔ ۔۔ لیکن اگر موت شکتی پر قابض ہو جاتی تو۔۔ ۔۔ ۔۔؟ کیا کوئی موت سے نہیں ڈرتا؟ جب جھیر سا گر منتھن ہوا تو دیوتاؤں نے وش پینے سے کیوں انکار کر دیا؟‘‘
ْ ’’اس کا کیا ثبوت ہے کہ جانکی پوتر ہے؟‘‘ تیسرے نمبر کے پنچ نے کہا۔
’’پراس کا کیا ثبوت ہے کہ میں آپوتر ہوں‘‘ جانکی نے اپنے آپ سے کہا اور اس کے منہ میں کونین کی گولی آ گئی ہو، اس نے زمین پر حقارت سے تھوک دیا۔
پنچ پرمینشور کے فیصلے کے مطابق ’’جانکی کو پاکیزگی ثابت کرنے کیلے اگنی پریکشا دینی ہو گی۔‘‘
جانکی کو محسوس ہوا کہ دریودھن نے بھری سبھا میں دروپدی کو ننگا کر دیا ہو۔ وہ سوچتی ہے مردوں نے عورت کو جنم ہی سے دھو رو کیڑا میں ہارا ہوا دھن کی طرح استعمال کیا ہے۔ لیکن میرا مرد، میرا دیوتا، میرا راگھویندر گوتم رشی کیوں نہ ہوا جس کے شاپ سے اہلّیا کی طرح میں یہاں آنے سے پہلے پتھر کی طرح ہو جاتی، پھر میں بھگوان کی طرح، نہ بولتی، نہ سنتی، نہ محسوس کرتی اور نہ روتی اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
مردوں کے درمیان راگھویندر کھڑا سوچ رہا تھا اگر جانکی اگنی پریکشا میں اسپھل ہو گئی تو کیا ہو گا؟ وہ تو آگ میں جل کر جیون مکت ہو جائے گی۔۔ ۔۔ ۔ لیکن میں زندگی بھر اپنی ہی آگ میں جلوں گا۔ کیا میں جانکی کے بغیر زندہ رہ سکوں گا؟۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ وہ آگ جو جانکی کو جلا کر پاپن ثابت کرے گی، پاپن تو مر جائے گی کیوں کہ بھگوان کی طرح وہ پتھر نہیں ہے۔ لیکن کیا پاپ اس کائنات سے مٹ جائے گا؟۔۔ ۔۔ ۔ نہیں۔۔ ۔۔ ۔ نہیں۔۔ ۔۔ قتل کی روایت کا وہ سلسلہ راون پر ہی ختم نہیں ہو گیا بلکہ آج تک جاری ہے۔۔ ۔۔ راون ابھی مرا نہیں ہے؟ پھر اس فیصلہ اور سزا کا مطلب؟۔۔ ۔۔ ۔ پنچ پرمیشور اور یہ سنسار تسلیم کر لے کہ جانکی کی جان سلامت تو سب کچھ سلامت ہے، عزت و ذلت، احساس شرم و ندامت سب بے معنی ہو جائیں گے۔ وہ سوچتا ہے میں یدھشٹر کیوں نہ ہوا؟۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ مگر ایسا کیوں کر ہو سکتا ہے کہ انسان سوچے کہ انار کے پیڑ میں آم نکلیں، آدمی کے سر پر ایک پتھر کی سل رکھی ہے بس وہ اسی کے نیچے ہاتھ پاؤں مارتا رہتا ہے۔ نکل جانے کی ناکام کوشش ہی کہانی کو جنم دیتی ہے۔
فیصلے کے بعد لوگ اٹھنے لگے اور اپنے اپنے گھر آہستہ آہستہ واپس جانے لگے۔ دن سمٹ رہا تھا۔ سورج کی روشنی ہلکی ہو رہی تھی، دور مغرب میں شفق پھیل رہی تھی۔ آسمان پر پرندے قطار میں اڑ رہے تھے اور ایک پرندہ ڈار سے بچھڑ گیا تھا۔ جو پرندوں کے جھنڈ کو پکڑنے کی کوشش میں تیز رفتاری سے اڑنے کی تگ و دو کر رہا تھا۔ روگھویندر تنہا اس برگد کے درخت کے تنے سے لگا کھڑا تھا۔ سوچتا ہے اس اگنی پریکشا اور جانکی کی پاکیزگی کا کیا تعلق ہے؟ اور پھر کیا پاکیزگی اور ناپاکی میں صرف چودہ دن کا فرق ہے۔ چودہ دن گھر سے غائب رہی تو جانکی ناپاک ہو گئی۔۔ ۔۔ ۔ بہتر تھا مر گئی ہوتی۔۔ ۔۔ ۔ رہا میرے غم کرنے کا تو فرق ہی کیا پڑتا ہے؟ دنیا کے کاروبار میں کمی تھوڑی آتی۔ معمول کے مطابق سورج طلوع ہوتا۔ کاروبار زندگی بدستور چلتا۔ سورج غروب ہوتا لوگ سوتے، لوگ جاگتے۔۔ ۔۔ ۔۔ پنچ پرمیشور کے فیصلے سب میری طرح قبول کر تے؟ انسان کی شرافت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ ارجن کی طرح کرشن کے کہے ہوئے پر عمل کر لے اور اپنوں ہی کے خلاف بر سر پیکار ہو جائے اور میں نے بھی فیصلہ قبول کر لیا اپنی شرافت کی دلیل کے طور پر۔۔ ۔۔ کل جانکی وہی عروسی جوڑا پہنے گی جو میرے گھر پہن کر آئی تھی اور اگنی کو شاکچھی مان کر قسم کھائی تھی کہ اس دہلیز سے سفید جوڑا پہن کر ہی نکلوں گی۔ لیکن یہ کیسی بغاوت ہے۔ کیا ریت، روایت، پریت سب ہی کچھ بھول گئی؟ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اسے سب ہی کچھ دھندلا دھندلا دکھائی دینے لگا۔ اس نے آستین سے آنکھیں صاف کیں، اندھیرا پھیل چکا تھا۔ وہ برگد کی شاخ پکڑے کھڑا تھا اس نے اپنے آپ سے کہا ’’رفاقت اور فرقت میں صرف ایک رات کی تفاوت ہے۔ اس رات کے بعد، میں بالکل تنہا رہ جاؤں گا۔۔ ۔۔ ۔۔ جانکی ان کالے کالے بادلوں میں ڈوب جائے گی پھر اندھیرا اور سیاہ راتیں میرے حواس پر سوار رہیں گی۔ راتیں سانپ بن کرڈسیں گی۔ میری رگوں میں زہر گھولیں گی۔ وہی لوگ رہیں گے، پنچ پرمیشور رہیں گے، قریب بہنے والی ندی اسی طرح بہے گی۔ آموں کے پیڑوں پر بور آئے گا، فصلیں اگیں گی، سب کچھ یوں ہی باقی رہے گا۔‘‘ اس نے ایک نگاہ آسمان پر دوڑائی۔ رات بالکل ویسے ہی ہے جیسی چودہ دن پہلے تھی۔ جانکی بالکل ویسی ہے جیسی چودہ دن پہلے تھی۔ پھر تبدیلی کس بات میں آئی؟ ہاں جانکی کا قصور یہ ہے کہ اس نے جان بچائی۔ لیکن کیا جان بچانے کا مطلب اگنی پریکشا ہے؟ اس نے جھٹکے سے اس شاخ کو توڑ لیا جسے پکڑے کھڑا تھا اور پنچ پرمیشور کی جاہِ نشست پر پڑے پتھر پر اس زور سے ٹھوکر لگائی کہ وہ دو گز دور جا پڑا۔ پنجہ میں چوٹ لگنے سے وہ کرا اہ اٹھا اسے لگا جیسے پتھر نے پنچ پر میشوروں کی کمروں کو توڑ دیا ہو۔ بالکل اسی طرح جیسے دروپدی کے اپمان پر بھیم نے دریودھن کی جانگھ توڑ دیا تھا۔ اس کو سکون ہوا۔۔ ۔۔ ۔ رات کے اندھیرے میں ہر چیز صفر نظر آ رہی تھی اس نے سوچا زندگی میں بھی تو ہر چیر تقسیم ہو گئی ہے اور باقی صرف صفر ہی رہ گیا ہے حالانکہ گوتم بدھا کو گرہست سنسار تیاگ کرنے پر روشنی پراپت ہوئی تھی، مگر مجھے جیون تیاگ کرنے پر اندھیرا؟ چاروں طرف اندھیرا پھیل چکا تھا، ایک خوفناک پر اسرار اندھیرا۔
وہ آہستہ آہستہ قدموں سے گھر پہنچا۔ گھر میں چودہ دنوں سے چراغ نہیں جلا تھا۔ آج پندرہواں دن تھا۔ جبکہ چودہ دن بن باس کے بعد گھر میں چراغاں ہونا چاہئے تھا، مہا لکشمی کی پوجا ہونی چاہئے۔ اسے اچھی طرح یاد ہے۔ جانکی کے غائب ہونے سے پہلے اس رات آسمان پر پورا چاند تھا اور چکور اس کے گرد گھوم رہا تھا۔ اسے کیا معلوم تھا؟ کل سے چاند گھٹنے لگے گا اور رفتہ رفتہ گھٹتے گھٹتے بالکل غائب ہو جائے گا۔ نہیں۔۔ ۔۔ نہیں چاند پھر ابھرے گا۔ ہر شے ابھرنے کے لیے ڈوبتی ہے اور پنر جنم کا یہ سلسلہ دائروں کی طرح کائنات کے اس سمندرمیں پھیلتا رہتا ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ میرا چاند بھی ابھرے گا۔ مگر اس کی پہچان کیا ہو گی؟ چاند جب ڈوب کر ابھرتا ہے تو کتنا باریک ہوتا ہے! کتنا فرق ہوتا ہے ڈوبنے کے بعد ابھرنے میں! اس نے دائیں ہاتھ بچھی چارپائی پر نظر اٹھائی جو خالی تھی۔ جس رات جانکی غائب ہوئی تھی، اس رات گھر شمشان ہو گیا تھا۔ چاروں طرف خاموشی کے درمیان صرف میں تھا اکیلا، تنہا، ایک بھوت کی طرح۔ ہر شے مجھ ہی سے شروع ہو کر مجھ ہی پر ختم ہو رہی تھی اور اب چودہ دن بعد خط مستقیم کا وہ دوسرا نقطہ ملا بھی تو اس کی سمت خط منحنی کی طرح مڑ گئی۔ نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ موڑ دی گئی۔ میں نے کب انصاف مانگا تھا؟ پھر کیوں انصاف دیا جا رہا ہے؟ جانکی بری ہے بھلی ہے میرے لیے ہے پھر دنیا میں کون اچھا ہے؟ اور کون برا ہے؟ گناہوں کی صلیب آدم سے لے کر جانکی تک ہر ایک اپنے کاندھے پر لئے گھوم رہا ہے۔ پھر ہابیل اور قابیل جو ایک ہی پیٹ کے تھے عورت کی خاطر ایک نے دوسرے کو قتل کر دیا۔ اس کا علم انہوں نے دو کوؤں کی جنگ سے لیا۔ ایک کوا لہو لہان ہو کر مر گیا تو دوسرے نے پنجوں سے زمین کھود کر اسے دبا دیا۔ کوے نے بھی اتنا ہی کیا جتناس کو علم دیا گیا تھا۔ پھر قصور کس کا ہے سامنے بائیں جانب ایک کونے میں ایک کنکر کے نیچے کوکروچ پھڑ پھڑا رہا ہے۔ پھر جس گناہ کی پاداش میں وہ آگ میں جلے گی تو کیا جلنے سے اس کی عزت واپس آ جائے گی؟۔۔ ۔۔ نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ کتنے پاگل ہیں یہ لوگ، جان ہے تو عزت و ذلت ہے، ایمان ہے جہان ہے۔ اور گر جان نہیں تو ایمان کا کیا مطلب؟ پھر اس میں جان کا کیا قصور؟ قصور ان کا ہے جنہوں نے جانکی کا ایمان غصب کیا؟۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ نہیں اندر آج بھی اِندر ہے، دیوتاؤں کا راجہ۔ قصور تو اہلیّا ہی کا ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔؟
’’بے شک۔۔ ۔۔ ۔۔ بے شک‘‘ پنجرے میں قید طوطے نے کہا۔
راگھویندر کی نظر پنجرے پر گئی جو جھونپڑی میں لگے ڈنڈے پر لٹک رہا تھا اور طوطا ادھر سے ادھر ٹیں ٹیں مٹھو بیٹا۔۔ ۔۔ مٹھو بیٹا کر رہا تھا۔
’’ہاں تو ہی میرا ہمدرد ہے‘‘ اس نے کہا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ وہ یہ بھول گیا تھا، طوطا مٹھو بیٹا کے علاوہ کہہ کیا سکتا ہے؟ طوطا اتنا ہی جانتا ہے جتنا اس کو علم ہے، اتنے ہی اسماء جانتا ہے جتنے اس کو بتائے گئے ہیں، وہ مفاہیم اور معنی سے بے خبر ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ راگھویندر کی آنکھیں آنسوؤں میں ڈوب گئیں۔۔ ۔ سوچتا ہے کتنی عجیب سی بات ہے انسان جان بچا کر بھاگنا بھی چاہتا ہے، پھر بھی عزت و ایمان کو جان سے بڑا گردانتا ہے۔‘‘
’’بے شک۔۔ ۔۔ بے شک‘‘ طوطے نے سر ہلایا۔
’’ہاں۔۔ ۔۔ ۔ ہاں‘‘ راگھویندر نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
’’بے شک۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ بے شک۔۔ ۔۔ ۔۔ مٹھو بیٹا‘‘ طوطے نے اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔
کل سورج نکلے گا اس کی پہلی کرن جانکی کی موت کا پیغام ہو گی۔ اس کی آنکھوں سے زار و قطار آنسو بہہ رہے ہیں اور رات کی سیاہی آہستہ گھل گھل کر ہلکی ہو رہی ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں نیلے آسمان کا مشرقی ٹکڑا سرخ آلود ہو گیا۔ لوہے کے ایک تار پر جانکی نٹ کا تماشہ کرے گی۔ جائے مقتل پر تماش بین جمع ہو رہے تھے پنچ پرمیشور برگد کے نیچے حقہ گڑگڑا رہے تھے۔ ہونٹوں پر بے رحم ہنسی کے نقوش صاف دکھائی دے رہے تھے۔ دور کھڑی جانکی اس آگ کے منظر کو دیکھ رہی تھی جس کا وہ خود ایندھن بنے گی۔ چند لوگ اگنی کے چاروں طرف روایت کے مطابق لہک لہک کر ناچ رہے تھے اور اپنی مخصوص آوازوں میں مذہبی گیت گا رہے تھے جن کے الفاظ جاہ و جلال اور عبرت ناک معنی دے رہے تھے۔ آگ کے بلند شعلے آسمان کو چھو رہے تھے۔ آگ جلتی رہی۔۔ ۔۔ رقص ہوتا رہا۔۔ ۔۔ ڈھولک پر پڑنے والی ضرب تیز ہوتی رہی۔۔ ۔۔ اگنی پریکشا ہوتی رہی۔۔ ۔۔ ۔۔ ناچ۔۔ ۔۔ تھاپ۔۔ ۔۔ اگنی پریکشا۔۔ ۔۔ ۔۔ سپھلتا۔۔ ۔۔ کامیابی۔۔ ۔۔ ۔۔ کامرانی دیکھنے والوں نے تالیاں بجا دیں تماش بین خوش ہو گئے۔۔ ۔۔ ۔ پنچ پرمیشوروں کے چہرے اتر گئے جیسے مہابھارت میں کورووں کے جب بڑے بڑے ویر مارے گئے۔۔ ۔۔ اور یدھیشٹر کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی تھی ٹھیک اسی وقت بھیشم پتاما نے کہا یدھشٹر تمہاری وجے اس لئے ہوئی کہ ’’تیو دھرم تنو جے‘‘ (جہاں دھرم ہوتا ہے وہیں وجے ہوتی ہے) راگھویندر چونک گیا اس کی آنکھوں میں سپھلتا کے آنسو آ گئے۔۔ ۔۔ اس نے تیزی سے بڑھ کر جانکی کو باہوں میں بھر لیا، جانکی اس کی باہوں میں اس طرح گر گئی جیسے بھیشم پتاما شرشیا پر پڑے ہوں۔ راگھویندر جانکی کو لے کر گھر چلا گیا۔ برگد کا پیڑ سنسان ہو گیا، چبوترے کے سامنے نمرود کی لگائی ہوئی آگ ٹھنڈی ہو گئی، آسمان پر بادل شیر کی طرح دہاڑنے لگے، بجلی کڑکی، خوب بارش ہوئی، لوگ مست ہو گئے اہلیّا دوبارہ پتھر سے انسانی گوشت و پوست میں تبدیل ہو گئی۔ چاروں طرف خوشیوں کے سنکھ بجنے لگے۔
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
جانکی کا دو بارہ جنم ہوا جیسے انسان پرانے کپڑے تیاگ کر نئے کپڑے پہن لیتا ہے۔ ہر روز نیا دن آتا ہے، آنے لگا۔ زندگی پھر لوٹ آئی تھی جیسے یم راج نے ساوتری کی تپسیا سے خوش ہو کر ستیہ وان کو لوٹا دیا تھا۔ حالانکہ تماشہ ختم ہو گیا مگر زندگی کا تماشہ جاری تھا۔ کائنات کی اسٹیج پر۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ہر دن اس ڈرامہ کا نیا سین ہوتا ہے، ڈراپ ہوتا ہے اور اس طرح قبائے حیات شب و روز کی چھڑی پر لہٹ رہی تھی اچانک اس لباس پر سکڑن آ گئی جب بھری چوپال میں کلوا نے اپنی بیوی کو ڈانٹا تھا ’’بتا سالی ایک رات تو کہاں غائب رہی؟ یہ نہ سمجھنا کہ سب لوگ راگھویندر کی طرح عورت کے بھگت ہو گئے ہیں۔‘‘
راگھویندر کے پیروں تلے زمین نکل گئی، اس کے کانوں کی لوئیں جلنے لگیں، پیشانی پر بل پڑ گئے۔ چہرہ سرخ ہو گیا۔ مگر وہ کر کیا سکتا تھا۔ بے بسی کے عالم میں جب اس رات وہ گھر لوٹا۔۔ ۔۔ ۔۔ جانکی بے خبر سو رہی تھی۔ اس کا جی چاہا کہ وہ جانکی کو اس قدر مارے کہ چودہ دن کا بدلہ لے لے جو آسیب کی طرح اس کی زندگی سے چپک گئے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ یہ چودہ دن زندگی سے خارج کر دئیے جائیں؟۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ لیکن ایسا ہو نہیں سکتا۔۔ ۔۔ ۔۔ اس کا جی چاہا کہ جانکی کو اپنی زندگی سے نفی کر دے تو سب جھگڑا ہی ختم ہو جائے۔ پھر نہ کوئی زندگی کا حساب لے گا اور نہ ہی چودہ دن کی ضرب و تقسیم کرے گا۔ وہ آہستہ آہستہ جانکی کی طرف بڑھا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
’’ٹیں۔۔ ۔۔ ٹیں۔۔ ۔۔ ۔ مٹھو بیٹے‘‘
وہ چونک گیا۔ جانکی کی آنکھیں کھل گئیں اس نے راگھویندر کو اپنے قریب کھڑا دیکھا۔
’’کیوں، کیا بات ہے؟‘‘ جانکی بستر پر لیٹی تھی۔
راگھویندر اپنی چارپائی پر آ کر بیٹھ گیا اور کچھ نہیں کہا۔ اس کا جی چاہا کہ کلوا کا سر توڑ دے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ مگر وہی ایسا بھی نہ کر سکا۔
’’دل چاہتا ہے کہ آگ لگا دوں اس انصاف کو، اخلاق کی دھجیاں اڑا دوں، سماجی قدروں کو توڑ دوں‘‘ اس نے تقریباً چیختے ہوئے کہا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ اس کی آواز جھونپڑی میں پھیل گئی۔
جانکی فوراً ہی بستر پر اٹھ کر بیٹھ گئی۔ ’’کیا ہوا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ میں نے کیا کیا؟‘‘ اس نے چونکتے ہوئے کہا۔
’’کچھ نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ کچھ نہیں۔‘‘
’’کچھ تو ہے‘‘ جانکی نے کہا
’’بے شک۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ بے شک‘‘ طوطے نے کہا۔
’’پچ پچ مٹھو بیٹے تم ابھی تک سوئے نہیں‘‘ جانکی نے کہا۔
’’بے شک۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ بے شک۔۔ ۔۔ ۔ مٹھو بیٹے ٹیں ٹیں۔۔ ۔۔ ۔۔ مٹھو بیٹے‘‘ طوطے نے کہا۔
راگھویندر کی نظر پنجرے کی سخ چوں پر گئی جو سنہری رنگ میں رنگے تھے۔ جس میں طوطا ادھر ادھر پھڑ پھڑا رہا تھا۔ اچانک بجلی کی سرعت کے ساتھ وہ چارپائی سے اٹھا اور پنجرے کا دروازہ کھولنے لگا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ جانکی پنجرے کی طرف دوڑی ’’ارے۔۔ ۔۔ رے۔۔ ۔۔ ۔ رے۔۔ ۔۔ ۔‘‘ طوطا آزاد ہو چکا تھا اور دور آسمان کی وسعت میں ڈوب گیا۔ جانکی کا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا۔ ’’یہ کیا کیا آپ نے؟‘‘
میں نے طوطے کو آزاد کر دیا۔ اب یہ رٹے ہوئے الفاظ نہیں بولے گا۔۔ ۔۔ ۔ اب یہ اپنے فطری انداز میں زندہ رہے گا، جہاں چاہے گا بیٹھے گا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ جہاں چاہے گا اڑے گا۔‘‘ جانکی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
راگھویندر نے جانکی کے آنسو پونچھے، اسے قریب کیا۔ ’’اس سے پہلے کہ کوئی دوسرا تم کو مجھ سے چھین لے، میں تم کو تم سے چھین لینا چاہتا ہوں۔‘‘
رنگ بدلتے آسمان تلے اندھیرے کا کالا رنگ پھیکا ہو رہا تھا اور نئی روشنی کے آثار نمایاں ہو رہے تھے۔
٭٭٭