جگن ناتھ آزاد
کیوں مری آنکھ سے آنسو ہیں رواں
وہ مراکیا لگتا تھا
نہ مرا بھائی نہ رشتے کا عزیز
نہ ملاقات تھی ہر روز کی اُس سے
اُس کو جس رنگ میں دیکھا وہ بھلا لگتا تھا
کیوں مری آنکھ سے آنسو ہیں رواں
وہ مرا کیا لگتا تھا
کیوں مرے دل پہ ہے اک بوجھ سا اس وقت آزاد
جنس نایاب کوئی جیسے گنوا بیٹھا ہوں
لوگ کہتے ہیں شرافت میں وہ لاثانی تھا
اور انساں بھی ہیں جن میں اسی خوبی کی فراوانی ہے
لوگ کہتے ہیں وہ سچّا تھا کھرا تھا دل کا
اور انساں بھی ہیں سچّے بھی کھرے بھی دل کے
لوگ کہتے ہیں سخنور تھا وہ تھا نثر نگار
اس کا تھامشرق و مغرب کے ادیبوں میں شمار
لیکن اس دور میں
شاعر ہو کہ ہو نثر نگار
جس میں ہواسکی کمی کون سا ایسا ہے دیار
کس لئے اُس کا تبسم مجھے یاد آتا ہے
مسکراتا ہوا چہرہ اس کا
بات کیا ہے کہ مری آنکھوں سے ہٹتا ہی نہیں
اس کے چہرے سے حسیں تر چہرے
دیکھے ہوں گے مری آنکھوں نے نہ جانے کتنے
مگر اس وقت کوئی یاد نہیں
فقط اس وقت وہی چہرہ مرے سامنے ہے
کیا وہ یاد آتا ہے لہجے کی حلادت کے سبب
اپنے بہتے ہوئے دریائے محبت کے سبب
یہ محاسن مگر اوروں میں بھی اکثر ہوں گے
بات کیا ہے کہ تصور اس کا
چشم مشتاق سے ہٹتا ہی نہیں
اتنی باتوں میں کوئی بات یہ مانا نہ سہی
پھر بھی کوئی بات تو ہے
جو سمجھ میں میری آئی ہی نہیں
اور میں سوچتا ہوں
کیوں مری آنکھ سے آنسو ہیں رواں
کیوں مرے دل پہ ہے اک بوجھ سا اس وقت آزادؔ
جنس نایاب کوئی جیسے گنوا بیٹھاہوں