(Last Updated On: )
حفیظ انجم(کریم نگر)
بن سنور کر مکان سے نکلے
سانپ،بچھو بھی شان سے نکلے
گولہ بارود اور مشین گنیں
سب ترے سائبان سے نکلے
سونا چاندی کے ان گنت سکّے
اب ترے پائیدان سے نکلے
اک پرندے کو مارنے کے لیے
تیر کتنے کمان سے نکلے
کتنے کردار جھومتے، گاتے
اک تری داستان سے نکلے
خود شکاری شکار ہونے کو
اپنی اپنی مچان سے نکلے
گھپ اندھیروں میں گیان پلتا ہے
یہ اندھیرے بھی گیان سے نکلے
کچھ نہ کچھ جھوٹ موٹ ہی کہئے
کچھ نہ کچھ تو زبان سے نکلے
سارا جنگل ہی جل گیا انجمؔ
کتنے شعلے چٹان سے نکلے