بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو‘ کے ابتدائی دو اشعار ایک سادہ سے منظر فطرت پر مشتمل ڈرامائی کیفیت تمہید موضوع کے طور پر پیدا کرتے ہیں:
ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا
اس دشت سے بہتر ہے نہ دلی نہ بخارا
جس سمت میں چاہے صفت سیل رواں چل
وادی یہ ہماری ہے وہ صحرا بھی ہمارا
بلوچ کے کردار کی نسبت سے یہ ایک موزوں تصویر ہے اور بلوچ کی نصیحت کے لیے موثر تمہید ہے جو اگلے ہی شعر سے شروع ہو جاتی ہے ابتدائی دو اشعار ہیں:
غیرت ہے بڑٰ چیز جہان تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاج سردارا
حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہنر کر
کہتے ہیں کہ شیشہ کو بنا سکتے ہیں خارا
بالکل سیدھے سادے انداز میں ایک تجربہ کار بلوچ اپنے بیٹے کو جو نصیحت کرتا ہے وہ اس کی تہذیب اور معاشرت کے فطری اخلاق کے مطابق ہے اور جن لفظوں میں نصیحت کرتا ہے‘ وہ اس کے معاشرتی اخلاق کے ساتھ ساتھ اس کے فطری ماحول کی سادگی آزادی‘ سختی اور کشادگی کے اشارات و کنایات سے معمور ہیں۔ اس طرح فکری تدریس فطری تمثیل کے ساتھ ہے۔ بہرحال بلوچ اپنی سادگی کے باوجود قدرت کا شاگرد ہے اور مظاہر حیات کو بڑی تاریکی سے دیکھتا ہے اور بڑی صفائی سے بیان کر سکتا ہے اس کے خیال کی باریکی اور اظہار کی صفائی کیسی شاعرانہ نکتہ سنجی کر سکتی ہے۔ اس کا نمونہ ملاحظہ کیجیے:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
محروم رہا دولت دریا سے وہ غواص
کرتا نہیں جو صحبت ساحل سے کنارا
دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا
دنیا کو ہے پھر معرکہ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا
اللہ کو پامردی مومن پہ بھروسا
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
تقدیر امم کیا ہے؟ کوئی کہہ نہیں سکتا
مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارا
اخلاص عمل مانگ نیا گان کہن سے
شاہاں چہ عجب گربنو ازند گدارا
یقینا ان اشعار میں مومن کی فراست کے نکات ہیں مگر ان کا فنی جواز بلکہ ضرورت یہ ہے کہ ایک مسلمان بلوچ کے ملفوظات ہیں جس کے لیے ایمان سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں اور دین سے بڑھ کر کوئی اثاثہ نہیں‘ لہٰذا وہ بالکل اپنے کردار کے مطابق وہی کہتا ہے کہ جو اس کے ذہن و قلب میں فطری طور پر ہے‘ بلاشبہ بلوچ کے کلام میں ماحول اور دور کے سیاسی اشارات بھی ہیں لیکن ان کے بارے میں اس مرد حر کا انداز فکر اور انداز گفتگو اس کے معلوم و معروف تاریخٰ کردار کے ساتھ بالکل ہم آہنگ ہے بہرحال بلوچ کے افکار میں اقبال کے افکار کا سراغ بھی اگر لگایا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اقبال کو نہ صڑف یہ کہ بلوچ کے ساتھ ہمدردی ہے بلکہ اس کے نقطہ نظر کے ساتھ ان کی مکمل موافقت ہے ۔ اس طرح بلوچ کا پورا کردار شاعر کے تخیل کے ایک عنصر کی علامت بن جاتا ہے اور ایک نتیجہ خیز فن کاری کا وسیلہ ثابت ہوتا ہے اس سلسلے میں یہ انکشاف کرنے کی شاید ضرورت نہ ہو کہ اقبال کی اپنی شخصیت بطور ایک امر واقع کے بلوچ سے بہت زیادہ مشابہ ہے بلوچ میں اقبال کے لالہ صحرا اور شاہیں دونوں کے محاسن مجتمع ہیںــ:
اے باد بیا بانی مجھ کو بھی عنایت ہو
خاموشی و دل سوزی سرمستی و رعنائی!
(لالہ صحرا)
ہوائے بیاباں سے ہوتی ہے کاری
جوانمرد کی ضربت غازیانہ
یہ پورپ یہ پچھم‘ چکوروں کی دنیا
مرا نیلگوں آسماں بے کرانہ
(شاہیں)
تصویر و مصور
تصویر و مصور کا تمثیلی مکالمہ خودی کے موضوع پر ہے جس میں تصویر مخلوق بالخصوص انسان کی علامت یہ اور مصور خالق یا خدا تصویر کہتی ہے:
کہا تصویر نے تصویر گر سے
نمائش ہے مری تیرے ہنر سے
ولیکن کس قدر نامنصفی ہے
کہ تو پوشیدہ ہو میری نظر سے
اس سوال میں سادگی اور باریکی کا عجب امتیاز ہے تصویر مصور کو دیکھنا چاہتی ہے یہ اس کی سادگی صریحاً و بداہتہً ہے ۔ مگر اس تمنائے دیدار میں ایک باریکی خیال بھی ظاہر ہے ۔ جو آگے چل کر نمایاں ہو جائے گی‘ مصور جواب دیتا ہے:
گراں ہے چشم بینا دیدہ ور پر
جہاں بینی سے کیا گزری شرر پر
نظر در دو غم و سوز تب و تاب
تو اے ناداں قناعت کر خبر پر
یہ جواب گرچہ آنکھیں کھولنے والا ہے اور دیدار سے مایوس بھی کرنے والا‘ لیکن ابھی تصویر کی تسلی نہیں ہوتی بلکہ اس کا تجسس کچھ اور بڑھ جاتا ہے اور وہ خبر پر قناعت کرنے کی بجائے اس پر سخت تنقید کرتی ہے:
خبر عقل و خرد کی ناتوانی
نظر‘ دل کی حیات جاودانی
نہیں ہے اس زمانے کی تگ و تاز
سزاوار حدیث لن ترانی
مصور کا جواب حقیقت افروز گرہ کشا اور فکر انگیز ہے:
تو ہے میرے کمالات ہنر سے
نہ ہو نومید اپنے نقش گر سے
مرے دیدار کی ہے اک یہی شرط
کہ تو پنہاں نہ ہو اپنی نظر سے
اس طرح ارادہ اور لن ترانی کا تاریخی معرکہ ایک فیصلہ کن جواب پر ختم ہوتا ہے ۔ اور معلوم ہوتاہے کہ اپنے نفس کا عرفان ہی رب کا عرفان ہے ۔ اس لیے کہ مخلوق اگر اپنی حقیقت پہچان لے تو خالق کی حقیقت پہچان میں سب سے بڑی رکاوٹ دور ہو جائے گی اور خو د فراموشی کا وہ پردہ اٹھ جائے گا کہ جو یاد خدا میں حائل ہے لہٰذا خود شناسی ہی حد شناسی ہے اور تصویر و مصور کے درمیان فاصلہ ایک چشم بصیرت کے سوا کچھ بھی نہیں‘ جو اگر پیدا ہو جائے تو جلوہ مصور تصویر کی نگاہوں کے سامنے بلکہ ان کے اندر ہی ہے اور اگر نہ پیدا ہوا تو پردہ ہی پردہ ہے۔ شناخت کا یہ تصور خودی کے موضوع پر مبنی ہے جس کی باریکیوں اور نزاکتوں کو شاعر نے ایک مختصر سے تمثیلی مکالمے میں سمیٹنے اور کھولنے کی کوشش کی ہے۔ اس موضوع کے فکری مضمرات سے قطع نظر‘ زیر نظر تمثیلی نظم کے فنی مضمرات بالکل واضح ہیں۔ بہت ہی اختصار اور سادگی کے ساتھ شاعر نے اپنے تخیل کی ایک تمثیل پیش کی ہے جس کا ایک ایک لفظ چنا ہوا اور ایک ایک فقرہ نپا تلا ہے۔ جبکہ مصرعے اوراشعار اپنے سیاق و سباق میں چستی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں‘ لفظوں کی لطافت اور ترکیبوں کی نفاست طرز اقبال کی فصاحت و بلاغت کی حامل ہے:
تصویر گر‘ نامنصفی‘ چشم بینا‘ دیدہ ور‘ جہاں بینی‘ دردو غم‘ و سوز و تب و تاب‘ حیات جاودانی ‘ تگ و تاز ‘ سزاوار حدیث لن ترانی کمالات ہنر۔
عالم برزخ
’’عالم برزخ‘‘ کی تمثیل حریت و انسانیت کے مرکب موضوع پر ہے۔ اس میں چارکردار ہیں مردہ قبر صدائے غیب‘ زمین‘ ان کے مکالمات بہت ہی مختصر ہیں اور واقعات محدود‘ لیکن تصورات و اشارات بے حد وسیع و رفیع و عمیق ‘مردہ اپنی قبر سے سوال کرتا ہے:
کیا شے ہے ؟ کس امروز کا فردا ہے قیامت؟
اے میرے شبستان کہن! کیا ہے قیامت؟
امروز فردا اور قیامت کے خاص تصورات کے ساتھ شبستان کہن کی ترکیب بھی مخصوص اسلوب سخن کی غماز ہے۔ قبر سے جواب ملتا ہے۔
اے مردہ صد سالہ تجھے کیا نہیں معلوم
ہر موت کا پوشیدہ تقاضا ہے قیامت!
قیامت ایک معروف الاہیاتی تصور ہے جو ادیان میں پایا جاتا ہے۔ لیکن شاعر اسے ایک سامنے کی حقیقت بنا کر پیش کرتا ہے جو فلسفیانہ طور پر معنی خیز ہونے کے باوجود ایک سادہ سی قدرتی چیز معلوم ہوتی ہے اس لیے کہ قیامت کو کوئی مانے یا نہ مانے‘ موت تو ایک تسلیم شدہ امر ہے اور زندگی کی طرح شخص کو گویا ذاتی تجربہ یا مشاہدہ ہے چنانچہ شاعر قیامت کو اسی موت کا پوشیدہ تقاضا‘ بزباں قبر قرار دے کر اسے بھی موت ہی کی طرح تسلیم شدہ حقیقت کی شکل دیتا ہے خیال کی یہ ندرت وجدت اقبال کی خاص دقیقہ سنجی ہے ۔ مردہ موت اور قیامت کے متعلق اپنا موقف بیان کرتا ہے:
جس موت کا پوشیدہ تقاضا ہے قیامت
اس موت کے پھندے میں گرفتار نہیں میں
ہر چند کہ ہوں مردہ صد سالہ و لیکن
ظلمت کدہ خاک سے بے زار نہیں میں
ہو روح پھر اک بار سوار بدن زار
ایسی ہے قیامت تو خریدار نہیں میں
ظلمت کدہ خاک کی ترکیب کلید معنی ہے اور اسی سے متعلق روح کا سوار بدن زار ہونا ہے۔ مردہ ظلمت کدہ خاک کو روح کے سوار بدن زارہونے پر اس حد تک ترجیح دیتا ہے کہ ایک بار پھر روح کے ہم رشتہ جسم ہونے کے خوف سے وہ قیامت تک کا انکار یا اس سے اعراض کرتا ہے‘ روحانی وجود یا وجود روح سے اس مردے کی اتنی شدید بے زاری کیوں ہے؟ اس راز کو کھولنے کے لیے صدائے غیب آتی ہے‘ جس سے روح جسم کی بھیانک حقیقت آشکار ہوتی ہے:
نے نصیب مارو کثر دم نے نصیب دام دد
ہے فقط محکوم قوموں کے لیے مرگ ابد
بانگ سرافیل ان کو زندہ کر سکتی نہیں
روح سے تھا زندگی میں بھی تہی جن کا جد
مر کے جی اٹھنا فقط آزاد مردوں کا ہے مقام
گرچہ ہر ذی روح کی منزل ہے آغوش لحد
تخلیق و تراکیب خاص اقبال کے ہیں مصرع اول کی فارسیت کے بعد مصرع ثانی میں محکوم قوموں کے لیے مرگ ابد کا خیال شاعر کا معروف خیال ہے اور بانگ اسرافیل سے روح سے تھا زندگی میں بھی تہی جن کا جسد‘ تک تیسرے اور چوتھے مصرعے کے الفاظ و خیالات‘ پھر پانچویں اورچھٹے مصرعوں میں ہر ذی روح کی منزل آغوش لحد ہونے کے باوجود آزاد مردوں کے مر کے جی اٹھنے کا تصور پیکر غلامی کے خلاف اور آزادی کے لیے اقبال کے مشہور جذبات اور ان کے اظہار کے لیے مخصوص سلیقے ہیں۔یہ محض ایک فرد کی موت کا معاملہ نہیں بلکہ پوری قوم کی موت و حیات قوم کی موت و حیات کی علامت بن گئی ہے پھر قیامت آخرت کی حیات ثانی ہونے کے علاوہ دنیا کی نشاۃ ثانیہ کی علامت بھی ہو جاتی ہے۔ چنانچہ قبر بھی اس سیاق و سباق میں زوال کی علامت قرار پاتی ہے لیکن قبر کا مجسمہ زوال بھی غلامی کے زوال سے متنفر ہے:
آہ ظالم! تو جہاں میں بندہ محکوم تھا؟
میں نہ سمجھی تھی کہ ہے کیوں خاک میری سوز ناک
تری میت سے مری تاریکیاں تاریک تر
تیر میت سے زمیں کا پردہ ناموس چاک
الحذر محکوم کی میت سے سو بار الحذر
اے سرافیل! اے خدائے کائنات اے جان پاک
قبر کی یہ فریاد غلامی کے خلاف ایک عبرت ناک احتجاج ہے ۔ الحذر اقبال کا خاص نعرہ احتجاج ہے بندہ محکوم کی میت کی ظلمت سے قبر کی تاریکیوں کا تاریک تر ہونا اور اس میت کی شرم ناکی سے زمین کا پردہ ناموس چاک ہونا بھی شاعر کا خاص طرز فکر و اسلوب سخن ہے۔ غلامی کی یہ شدید مذمت جس انقلاب آزادی کا تقاضا کرتی ہے۔ اس کے لیے صور قیامت ہی کی ضڑورت ہے تاکہ مشرق بالخصوص ہندوستان کے غلام معاشرے کی تشکیل جدید ہو خواہ اس کے لیے پرانا محکوم معاشرہ بالکل مسمار ہی کیوں نہ ہو جائے۔ اس لییے کہ مکمل تخریب کے بغیر تعمیر ممکن نہیں۔ لہٰذا صدائے غیب ایک بار پھر بلند ہوتی ہے:
گرچہ برہم ہے قیامت سے نظام ہست و بود
ہیں اسی آشوب سے بے پردہ اسرار وجود
زلزلے سے کوہ و در اڑتے ہیں مانند سحاب
زلزلے سے وادیوں میں تازہ چشموں کی نمود
ہر نئی تعمیر کو لازم ہے تخریب تمام
ہے اسی میں مشکل زندگانی کی کشود
بنیادی و کلی انقلاب کی بہ یک وقت پرہول و پر بہار تصویر ہے‘ ایک طرف زلزلہ قیامت سے کوہ در اڑتے ہیں مانند سحاب اور دوسری طرف اسی زلزلے سے وادیوں میں تازہ چشموں کی نمود ہے صرف دو پیکر تخریب و تعمیر دونوں کی پر اثر نقاشی کر دیتے ہیں۔ یقینا یہ ایک استاد انہ ہنر مندی اور فن کارانہ چابک دستی ہے اس پیکر تراشی سے قیامت اپنی تمام ہولناکیوں کے باوجود ایک خوش آیند منظر پیش کرتی ہے اور یہی مطلوب انقلاب احوال کا نقشہ ہے جس کے حسن و فیض کی آئینہ بندی ایک بار پھر غور کیجیے فقط یہ چند الفاظ کرتے ہیں:
زلزلے سے وادیوں میں تازہ چشموں کی نمود
وادیوں میں تازہ چشموں کی نمود‘ اپنے سیاق و سباق کے اندر پیکر سے بڑھ کر ایک علامت کے مفہو م کی حامل بن جاتی ہے۔ اوراس کے تاثر سے ہم سماج کی وادیوں میں آزادی کی تازہ بہ تازہ برکتوں کو چشموں کی طرح بہتے ہوئے دیکھنے لگتے ہیں۔
اس عالم میں زمین پکار اٹھتی ہے :
آہ یہ مرگ دوام آہ یہ رزم حیات
ختم بھی ہو گی کبھی کشمکش کائنات
عقل کو ملتی نہیں اپنے بتوں سے نجات
عارف و عامی تمام بندہ آلات و منات
خوار ہوا کس قدر آدم یزداں صفات
قلب و نظر پر گراں ایسے جہاں کا ثبات
کیوں نہیں ہوتی سحر حضرت انسان کی رات
یہ سوال اقبال کے دست ہنر کا کمال ہے ۔ اور اس کے محرک ایک زرخیز تصور کا نشان ہے ۔مردہ و قبر کے درمیان ایک ایمائی مکالمہ غلامی و آزادی کے موضوع پر ہو رہا تھا اور صدائے غیب دونوں تصورات کی کش مکش کا حل ایک قیامت خیز انقلاب کامل کی شکل میں تجویز کر رہی تھی۔ لیکن روح زمین جو اپنی بساط پر غلامی و آزادی کے مسلسل معرکے سے عاجز آ چکی ہے اور اپنی سطح پر رونما ہونے والے تاریخ کے نشیب و فراز سے بے نیا ز ہو چکی ہے انقلاب آزادی سے بھی زیادہ بنیادی‘ ایک آفاقی نقطہ اٹھاتی ہے جو پورے عالم انسانیت کے تمام تصورات و اقدامات کے لیے ہمہ گیر ہے دنیا میں غلامی و آزادی سے بھی بڑھ کر مرگ دوام اور رزم حیات کی ایک کش مکش کائنات چل رہی ہے۔ اس لیے کہ عقل نے انسان اور انسانیت کی حاکمیت کے ایک سے ایک مشرکانہ فلسفے تراشے ہیں جو مختلف زمانوں ملکوں اور قوموں میں بتوں کی طرح پوجے جاتے ہیں اور ایک زمانے قوم اور ملک کے سبھی افراد کیا عارف اور کیا عامی اپنے اپنے لات و منات کی پرستش میں غلاموں کی طرح لگے ہوئے ہیں جس کا بھیانک نتیجہ یہ ہے کہ آدم یزداں صفات اپنے ہی تصورات کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہو کر رہ گیا ہے خواہ وہ اپنے خیال میں آزاد ہو یا دنیا کی نظر میں غلام یہ انسان کے لیے انسان کی بندگی و غلامی روح زمین پر سب سے بڑا بوجھ ہے چنانچہ وہ عصر حاضر کی تمام اقوام اور ممالک میں شرک کے ہمہ دم بڑھتے ہوئے رجحان اور غلبے سے پریشان ہے اور ایسے جہاں کا ثبات جس میں انسانیت کی یہ عام رسوائی ہو رہی ہے‘ اس کے قلب و نظر پر گراں ہے‘ اسی سرگرانی کا شدید احساس ہے جو کہ زمین کی زبان حال سے سوال کرتا ہے:
کیوں نہیں ہوتی سحر حضرت انسان کی رات
یہ بڑابلیغ مصرع ہے جس پر تمثیل کا خاتمہ پوری نظم کے مفہوم میں توسیع کر کے موضوع کی تکمیل اس کی ایک نئی اور مرکزی جہت کے انکشاف سے کرتا ہے ‘ زمین کے بیان کا یہ انداز ‘ عالم برزخ‘ میں روحوں کے مشاعرے کو روح انسانیت کا ایک مکالمہ بنا دیتا ہے ۔ جس کے مطالب سے عصر حاضر کی برزخیت سے دنیا کی اعرافیت تک کی تہیں کھلتی ہیں حضرت انسان کی رات بہت طویل ہے اور تخلیق آدم کے وقت ہی سے شروع ہو گئی ہے ۔ جبکہ اس کا ایک مختصر نمونہ دور جدید میں قلب و نظر کی تاریکیاں ہیں جن میں سب سے ہول ناک غلامی کی وہ تاریکی ہے جو ہر قوم و ملک کے جسم ور وح پر مختلف ادوار میں طاری ہو رہی ہے ۔ اور اس محیط تاریکی سے نکلنے اور روشنی میں نے کا صرف ایک راستہ دنیا کے سامنے ہے۔ توحید جو انسان کو ہر قسم کی غلامی سے نجات دلانے کی واحد ضمانت ہے اور اسی کے ذریعے شرافت انسانی کا مستقل قیام ممکن ہے اور اسی کے وسیلے سے انسان برزخی زندگی کی کش مکش سے رہا ہو کر حیات جاوید کے فردوس نور میں داخل ہو سکتا ہے۔
نظم کی تحریک ظاہر ہے کہ ہندوستان کی غلامی اور مشرقی کی خواری سے ہوتی ہے‘ مگر اس مقصد کے لیے جو فنی تمثیل وضع کی جاتی ہے وہ نوع انسان کی غلامی اور بنی آدم کی خواری پر ختم ہوتی ہے ‘ چنانچہ اس غلامی و خواری سے رستگاری کا جو نسخہ تجویز کیا جاتا ہے وہ ایک ایسے قیامت خیز انقلاب عام کا ہے جس کے نتیجے ہے عام حریت اور احترام آدمی کا قیام پوری کائنات میں ہو جائے گا‘ وہ وہی نکتہ ہے جو شعاع امید میں رونما ہوا تھا:
فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر
اور اس سے بہت قبل شمع اور شاعر میں نمودار ہوا تھا:
شب گریزاں ہو گی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمہ توحید سے
فن کی یہ دبازت اور فکر کی یہ وسعت اقبال کے نظام شاعری کا امتیازی نشان ہے ۔ بہرحال ارمغان حجاز کی بیشتر نظموں میں فن کی استواری اور فکر کی ہمواری کے باوصف کچھ خشکی کا احساس ہوتا ہے اور اقبال کے اسلوب سخن کی عام شگفتگی میں کمی محسوس ہوتی ہے‘ جب کہ ضرب کلیم میں اشعار کے گہرے تفلسف اور دقت بیان کے باوجود اظہار خیال کی شادابی و شادمانی برقرار ہے‘ ممکن ہے کہ ارمغان حجاز کی خشکی‘ کچھ ہیبت تمثیل کے سبب ہو جو اس مجموعہ کے عام اور غالب انداز سخن ہے اس لیے کہ تمثیل میں مواقع و اشخاص کے مطابق طرز بیان دخیتار کیا جاتا ہے ۔ اور فنی توجہ شاعری سے زیادہ ڈرامائیت پر دی جاتی ہے۔ اس صورت حال سے تمثیل اور نظم یا ڈرامہ اور شاعری کا فرق بحیثیت اصناف ادب معلوم ہو جاتا ہے۔ تمثیلی نظم یا نظم میں تمثیل شاعری میں حائل نہیں جبکہ ڈرامہ نگاری کم از کم جا بہ جا حائل ہو سکتی ہے۔ یہ شاعری کے لیے اچھا ہوا کہ اقبال کے کلام میں بے پناہ ڈرامائیت کے باوجود مستقل اور باضابطہ ڈرامہ نگاری کی کوشش بہت ہی کم ہے اور اس کا سارا زور فن ڈراما کے بجائے شاعری کی ہئیت سازی پر ہے۔ اسی لیے خاص شاعری میں فنی طور پر اقبال کا کوئی مد مقابل دنیائے ادب میں نہیں۔
ابلیس کی مجلس شوریٰ
اس تناظر میں ارمغان حجاز کی سب سے اہم اور اس طرح اقبال کی آخری بڑی نظم ابلیس کی مجلس شوریٰ کا تنقیدی مطالعہ بہت دلچسپ ہو گا۔ یہ ایک تمثیل ہے جیسی اقبال کی کوئی دوسری اردو نظم نہیں ہے حالانکہ شمع اور شاعر خضر راہ‘ اور جبریل و ابلیس نیز لینن خدا کے حضور میں یا شعاع امید کے مکالموں کے علاوہ ڈرامائی عناصر بہتیری چھوٹی بڑی نظموں میں موجود ہیں۔ خواہ وہ فرشتوں کا گیت اور فرمان خدا ہو یا فرشتے آدم کو جنت سے رخصت کرتے ہیں اور روح ارضی کا استقبال کرتی ہے۔ یا دعا‘ اور مسجد قرطبہ‘ یا ارمغان حجاز کی چند چھوٹی نظمیں۔ لیکن ان میں کوئی بھی متنوع کرداروں کا کوئی مباحثہ اوسط پیمانے پر پیش کر کے ڈراما کی ہئیت بندی نہیں کرتی اور کہا جا سکتا ہے کہ اقبال کی دوسری ارد و نظمیں تمثیلی نظمیں Dramatic Poems ہیں جبکہ ابلیس کی مجلس شوریٰ منظوم Poetic Dramaہے۔
لیکن یہ بات جہاں اقبال کی دوسری نظموں کے مقابلے میں فنی و ہئیتی طور پر ابلیس کی مجلس شوریٰ کے امتیاز کی ہے وہیں اقبال کی تمثیلی نظم نگاری کے اس امتیاز کی بھی ہے جو دوسرے خاص کر دوسری زبانوں کے شعرا تمثیلی نظم نگاری کے مقابلے میں ہے اقبال کی شاعری منظوم تمثیل نگاری Versa Dramaکی نہیں‘ جس طرح مثال کے طور پر شیکسپئر کی ہے اقبال اور شیکسپئیر کے درمیان بحیثیت فن کار سب سے اہم فرق یہی ہے کہ شیکسپئیر اصلاً ایک ڈرامہ نگار ہے جس نے نظم میں ڈرامہ نگاری کی ہے جبکہ اقبال حقیقتا ً ایک شاعر ہیں جنہوںنے ڈرامائی عناصر سے بھی فنی طور پر کام لیا ہے۔ اسی لیے اقبال کی کثیر التعداد نظموں کو تمثیلی نظم Dramatic Poemsکا حامل تو کہا جا سکتا ہے مگر منظوم تمثیلی Poetic or Verse Dramaنہیںکہا جا سکتا جبکہ شیکسپئیر اسی منظوم تمثیل کا ماہر ہے اور اس کا بیشتر سرمایہ شاعری ڈراموں کے اندر بکھرے ہوئے نغمات پر مشتمل ہے جن میں چند سونٹوں Sonnets یعنی ایک قسم کے معتزلانہ قطعات کا معمولی سا اضافہ کیا جاتا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ ابلیس کی مجلس شوری ایک قسم کا ڈرامہ ہونے کے باوجود ڈرامے کی مروجہ ہئیت کے لوازم… ابواب و مناظر… سے خالی ہے بس ایک ہی باب (ایکٹ) اور ایک ہی منظر (سین) میں مختلف کرداروں کے مکالمے ختم ہو جاتے ہیں گویا مباحثہ Discussion ہی اس ڈرامے کا عمل Actionہے کہہ سکتے ہیں کہ اس طرح زیر نظر تخلیق ایک بابی نیز یک منظری ہے اور جہاں تک مباحثے کے عمل بننے کا تعلق ہے یہ کیفیت عصر حاضر کے سب سے بڑے ڈرامہ نگار جارج برنارڈ شا کے ڈراموں میں بھی بالعموم موجود ہے۔ میرا خیال ہے کہ ڈرامائیت کے تمام عناصر کے باوصف ابلیس کی مجلس شوریٰ کو بھی اگر مستقل و باضابطہ ڈراما (تمثیل) کہنے کی بجائے ڈرامائی نظم (تمثیلی نظم) کہا جائے تو بہتر ہو گا اس لیے کہ اس طرح کا اس کا مطالعہ بحیثیت شاعری کرنا زیادہ مفید ہو گا اور یہ بات اقبال کے خاص نظام فن کے بھی مطابق ہو گی۔
اس فنی تشریح کے مطابق ابلیس کی مجلس شوریٰ کو اقبال کی اردو نظموں میں مستقل اور مکمل ڈرامہ کی تکنیک کے قریب ترین ایک شاندار تمثیلی نظم Dramatic Poemقرار دینا تنقیدی طور پر مناسب ترین بات ہو گی ۔ اس موقف سے زیر نظر نظم کا مطالعہ کرنے سے واضح ہو گا کہ یہ تخلیق ارمغان حجاز کی دیگر تخلیقات کے برخلاف شاعری کا ویسا ہی شگفتہ و شاداب نمونہ ے جیسا کہ ہم ضرب کلیم کی متعدد اور بال جبریل کی اکثر نظموں میں پاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آخر تک اقبال کے دست ہنر کی گرفت اپنے فن پر مستحکم تھی اوروہ دقیق سے دقیق نیز ہنگامی موضو ع کو اپنی فن کاری کی کیمیا سے لطیف و نفیس شاعری میں ڈھال سکتے تھے۔
نظم ابلیس کے خطاب سے شروع ہوتی ہے:
یہ عناصر کا پرانا کھیل! یہ دنیائے دوں
ساکنان عرش اعظم کی تمنائوں کا خوں!
اس کی بربادی پہ آج آمادہ ہے وہ کارساز
جس نے اس کا نام رکھا تھا جہان کا دنوں
میں نے دکھلایا فرنگی کو ملوکیت کا خواب
میں نے توڑا مسجد و دیر و کلیسا کا فسوں
میں نے ناداروں کو سکھایا سبق تقدیر کا
میں نے منعم کر دیا سرمایہ داری کا جنوں
کون کر سکتا ہے اس کی آتش سوزاں کو سرد
جس کے ہنگاموں میں ہوا ابلیس کا سوز دروں
جس کی شاخیں ہوں ہماری آبیاری سے بلند
کون کر سکتا ہے اس نخل کہن کو سرنگوں
یہ خطاب ابلیس کی شخصیت اور کردار کا موثر اظہار ہے۔ اور اپنے الفاظ کے رنگ و آہنگ سے وہ فطری طور پر کائنات کی ایک ایسی قوت کی حیثیت سے نمودار ہوتا ہے جو عرصہ حیات میں اپنے عامل شر ہونے پر نازاں ہے۔ اور اپنی تخریبی طاقت کے نشے میں چور ہے ۔ لیکن وہ خدائے کارساز کی برتری کو چیلنج نہیں کرتا بلکہ اپنے حریف آدم کی اولاد پر خدا ہی کے غضب کا اعلان کرتا ہے۔ اس سلسلے میں جہاں اس کی دشمنی انسان کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے وہیں خدا کے ساتھ ایک قسم کی ہمدردی بھی ظاہر ہوتی ہے۔ انداز گفتگو کی اس منطق سے خلافت آدم کے معاملے میں منصوبہ تخلیق پر ابلیس کے ازلی اعتراض کا اظاہر ہوتاہے اسی لیے وہ زبان کھولتے ہی دنیائے دوں کو محض عناصر کا پرانا کھیل قرار دیتا ہے اور بہت خوش ہے کہ وہ خدا و ملائکہ نے دنیائے انسانیت سے جو توقعات ابلیس کے خیال کے برخلاف قائم کی تھیں وہ ختم ہو چکی ہیں یا ہو رہی ہیں۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آدم زاد کی نسبتی برباد ہونے والی ہے۔ اس بربادی کو ابلیس اپنا کارنامہ تصور کرتا ہے۔ اس لیے کہ اپنے خیال میں تبالی کے اسباب اس کے ہی مہیا کیے ہوئے ہیں اور وہ عصر حاضر میں خاطر خواہ نتائج پیدا کر رہے ہیں۔ چنانچہ دور جدید میں پھیلائے اپنے فتنوں کا ذکر کرتے ہوئے ابلیس‘ ملوکیت‘ لادینی اور سرمایہ داری کو بنیادی اسباب تباہی کے طور پر پیش کرتا ہے اور بڑے شاعرانہ انداز میں دعویٰ کرتا ہے کہ جس تمدن کے ہنگاموں میں ابلیس کا سوز دروں ہو اس کی آتش سوزاں کو سرد نہیں کیا جا سکتا۔ جب کہ یہ تمدن زمانہ حاضر کی ہوائوں میں بہت زیادہ برگ و بار لانے کے باوجود ایک نخل کہن ہے جسے شیطانی قوتوں نے صدیوں کی آبیاری سے شاداب کیا ہے۔
ابلیس کا یہ تصور ملٹن کے تصور سے مختلف ہے۔ اقبال کے ابلیس میں جہاں اس کی مکتبرانہ شان و شوکت طاقتوری اور رنگینی ہے وہیں اس کا ثبوت شر ہونا بھی واضح ہے۔ اور ا س قوت کا انسان کے مقابلے میں استعمال کیا جانا بھی معلوم ہے جب کہ ملٹن کا ابلیس خدا کا حریف بننے کی کوشش کرتا ہے اور ملکوتی قوتوں کے مقابلے میںانپی شہ زوری دکھاتا ہے چنانچہ ایک انتہائی کریہہ و مہیب شکل میں نمودار ہوتا ہے۔ اگر ابلیس کی ان دو تصویروں کا تجزیہ کیاجائے تو یہ آسانی سے واضھ ہو جائے گا کہ اقبال کی تصویر حقیقی مستند اور متوازن ہے جبکہ ملٹن کی تصویر فرضی ناقابل اعتبار اور غیر معتدل ہے۔ اسی لیے ملٹن کے ابلیس میں ڈرامہ نگاری زیادہ اور شاعری کم ہے لیکن اقبال کا ابلیس زیادہ شاعرانہ اور کم ڈرامائی ہے۔ ملٹن نے اپنے ڈرامائی ابوالہول کو زیادہ سے زیادہ موثر بنانے کے لیے مسیحی روایا ت کی حدود میں ایک موثر شاعرانہ شخصیت کی تعمیر کی۔ تمام مذاہب نے ابلیس کو خدا کا باغی قرار دیا ہے مگر ملٹن نے اسے خدا کا حریف بنا دیا ہے ۔ اس طرح واقعہ یہ ہے کہ ابلیس کی بجائے ایک دوسرے خدا کی تخلیق کی اقبال نے یہ غلطی نہیں کی کہ انہوںنے صرف ایک باغی خدا لیکن حریف انسان کی تصویر کشی کی فکر کے اس فرق نے فن کا فرق بھی پیدا کیا۔ جو اصناف شاعری کے اختلاف میں رونما ہوا۔ اقبال نے ڈرامائیت کے باوجود تمثیلی نظم کی شاعری کی اور ملٹن نے نظم کی ہئیت کے باوصف ایک ڈراما لکھا۔
ابلیس کی مجلس شوری ابلیس کے موضوع پر اقبال کے تصورات فکر اور تجربات فن کا نقطہ عروج ہے یوں تو ابلیس کے حوالے جا بہ جا کلام اقبال میں پائے جاتے ہیں۔ اور یہ کردار شاعر کے نظام فن میں ایک علامت بن گیا ہے لیکن اس سلسلے میں دو نظمیں خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں ایک با ل جبریل میں جبریل و ابلیس دوسری ضرب کلیم میں تقدیر گرچہ آخری نظم کے خاتمے پر ماخوذ از محی الدین ابن عربی درج ہے مگر ابلیس و یزداں کا یہ مکالمہ فکر اقبال کے مطابق اور شاعر کے فن کا ایک نمونہ ہے یہ دونوں نظمیں بہرحال تمثیلی مکالموں کی شکل میں ہیں اور ان کے مطالعے سے بھی محسوس ہوتا ہے کہ اقبال کے زہن میں ابلیس کا ایک ڈرامائی ہیولا تھا۔ اس کے باوجود سوال کیا جا سکتا ہے۔ انہوںنے ملٹن کی طرح ابلیس پر ایک مستقل و مکمل ڈرامہ کیوںنہ لکھا؟ جواب کا تجسس کرنے سے یہ نکتہ دریافت ہو سکتا ہے کہ ابلیس چونکہ واقعہ تخلیق آدم میں بالکل ڈرامائی طور پر نمودار ہو تا ہے اور اسی اندا زمیں خدائے کائنات کے سوال و جواب کرتا ہے۔ لہٰذا جب کبھی اس کی شخصیت نگاہ تصور کے سامنے آتی ہے تو تمثیلی مکالمہ کرتی ہوئی۔ چنانچہ اقبال نے ابلیس کی ا س ڈرامائیت کو اس کی ہر کردار نگاری میں ملحوظ رکھا ہے ۔ گرچہ اس پر ڈرامہ لکھنے کے بجائے شاعری کی ہے اور تمثیلی نظم نگاری کی حد تک گئے ہیں اس لیے کہ ڈرامہ نگاری ان کا پسندیدہ وسیلہ اظہار نہ تھا اور شاید ابلیس کی ڈرامہ نگاری میں ملٹن کی بے اعتدالیوں بلکہ فکری کم راہیوں سے انہوںنے عبرت بھی حاصل ک ہو گی یہ تنقیدی نکتہ بہت زیادہ محتاج توجہ ہے کہ ملٹن ابلیس کو ایک شاندار ڈرامے کا کردار بنا کر کسی حد تک مجبور ہو گیا کہ یونانی ڈرامہ نگاری کے نمونے پر کردار نگاری میں صنمیات کی پیروی کرے اور اساطیر و خرافات کے مطابق انسانو ں یا شیطانوں کی کردار نگاری کے لیے دیوتائوں کی تخلیق کرے)۔
بہرحال ابلیس کا خطاب ایک پس منظر میں ہوا ہے اور وہ ہے عصر حاضر میں ابلیسی نظام کا فروغ نیز مستقبل میں اس کا استحکام۔ ابلیس کے پہلے خطاب سے محسوس ہوتا ہے کہ اپنی نقطہ عروج پر پہنچ کر نظام ابلیسی کے سامنے کچھ مسائل پیدا ہو گئے ہیں اور اس کی استواری کے متعلق بعض حل طلب سوالات در پیش ہیں‘ جن کو ایجنڈا بنا کر ہ ابلیس کی مجلس شوریٰ منعقد ہوتی ہے اور صدر مجلس کا خطاب اس شوریٰ کا افتتاح ہے ۔ بلاشبہ اس آغاز مشاورت میں ابلیس اپنے نظام کے بارے میں اتنا پراعتماد ہے کہ اس کے انداز گفتو میں ادعاپیدا ہو گیا ہے لیکن یہ ادعائی کیفیت ہی کسی اندرونی اضطراب کسی پیچیدگی احوال کی غماز ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی پوشیدہ اندیشے یا مجرم ضمیر کی کمزوری کے سبب ابلیس ایک طرف اپنی خود اعمادی کا مظاہرہ کرنا چاہتا ہے اور دوسری طرف اپنی ذریات کا اعتماد بحا ل کرنا چاہتا ہے۔
چنانچہ ابلیس کے سوال کے جواب میں اس کا پہلا مشیر تقریر کرتا ہے:
س میں کیا شک ہے کہ محکم ہے ابلیسی نظام
پختہ تر اس سے ہوئے خوئے غلامی میں عوام
ہے ازل سے ان غریبوں کے مقدر میں سجود
ان کی فطرت کا تقاضا ہے نماز بے قیام
آرزو اول تو پیدا ہو نہیںسکتی کہیں
ہو کہیں پیدا تو مر جاتی ہے یا رہتی ہے خام
یہ ہماری سعی پیہم کی کرامت ہے کہ آج
صوفی و ملا ملوکیت کے بندے ہیں تمام
طبع مشرق کے لیے موزوں یہی افیون تھی
ورنہ قوالی سے کچھ کمتر نہیں علم کلام
ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا
کند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغ بے نیام
کس کی نومیدی پہ حجت ہے یہ فرمان جدید
ہے جہاد اس دور میں مرد مسلمان پر حرام
گرچہ پہلا مشیر ابلیس کی تائید اور اس کے دعوے کی توثیق کرتا ہے مگر ابلیسی نظام کی جو تعریف وہ کرتا ہے اسی سے کہ وہ خرابیاں اور کمزوریاں واضح ہو جاتی ہیں جو آیندہ اس کے تزلزل اور شکست کا باعث ہو سکتی ہیں‘ اس لیے کہ معلوم ہو جاتا ہے اس لیے کہ معلوم ہو جاتا ہے کہ ابلیسی نظام کی نہ تو کوئی اپنی مستقل طاقت ہے نہ اس کا کوئی مثبت کردار ہے‘ بلکہ اس کا سارا اعتماد و انحصار انسان کی کمزوریوں پر ہے جن کا ہی استعمال کر کے وہ دنیائے انسانیت کی تخریب کرتا ہے ابلیس نے عصر حاضر کے انسانی نظام میں ملوکیت لادینی اور سرمایہ داری کی خرابیوں کا ذکر کیا تھا اور یہ بھی اشارہ کر دیا تھا کہ فرنگی یا مغربی تمدن کے ان عناصر کا تسلط اس لیے کہ کہ مغرب کے لادین اور سرمایہ دارانہ سامراج کے شکار جو لوگ ہیں انہیں ابلیس نے تقدیر پرستی کا سبق سکھا کر غلامی و ناداری پر رضا مند رہنے کے لیے آمادہ کر لیا گیا ہے ۔ چنانچہ پہلا مشیر ابلیسی نظام کی سب سے بڑی خصوصیت و برکت یہی بتاتا ہے کہ اس کے نفاذ اور غلبے سے عوام و خوئے غلامی‘ میں پختہ تر ہو گئے ہیں یعنی مغربی نظام ہی ابلیسی نظام ہے۔ اس لیے کہ وہ محکوم عوام الناس کو تقدیر پرست بنا کر انہیںزندگی و آزادی سے نامید کر دیتا ہے اور اس ابلیسی قنوطیت کے نتیجے میں لوگ محکومی و غلامی کو اپنا مقصد تصور کرنے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ آرزوئے حیات سے محروم ہو جاتے ہیں۔ پہلے مشیر کے خطاب میں اشارات کا رخ مشرق بالخصوص مسلما نوں کی طرف ہے۔ اس لیے کہ عصر حاضر میں مغرب کے ہاتھوں ابلیسی نظام کے فروغ و تسلط سے قبل وہی عالم انسانیت کے نگہبان تھے۔ لیکن اب تقدیر پرستی اور زوال پسندی نے انہیں لادین سرمایہ دارانہ ملوکیت کا ایسا پختہ غلام بنا دیا ہے کہ وہ ایک تباہ کن نظام باطن کے خلاف جہاد کا تصور تک ترک کر چکے ہیں اور ان کے درمیان دین کے نام پر صرف چند رسوم عبادت باقی رہ گئی ہیں۔ گویا ملوکیت طبع مشرق کے لیے افیون ثابت ہوئی ہے اور اس ے نشے نے مشرق میں ملت اسلامیہ کے قویٰ مفلوج کر دیے ہیں۔
اگر ان ارشادات کا مطالعہ و تجزیہ ابلیس کی آٖاقی شخصیت کی روشنی میں کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اپنے تمام فخر و ناز اور غرور تکبر کے باوجود ابلیس بڑی بودی سیرت کا حامل ہے۔ درحقیقت یہ خود ابلیس ہے جو اپنی نافرمانی و سرکشی کے نتیجے میں خدا کی رحمت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مایوس ہو کر مشیت الٰہی کے مقابلے میں سپر انداز و تقدیر پرست ہو گیا ہے جیسا کہ ضرب کلیم کی نظم تقدیر سے معلوم ہوتا ہے کہ جس میں ابلیس کی پستی فطرت کی طرف اشارہ ہے۔ چنانچہ اب رد عمل اور مایوسی میں ابلیس اپنی پستی فطرت کا عکس انسان کے اندر دیکھنا یا اتارنا چاہتا ہے یہ ابلیس کے متعلق بنیادی طور پر قرٓان کا نقطہ نظر ہے جسے اقبال نے اختیار کی اہے جو لو گ ابلیس کی اس حقیقت سے واقف ہیں‘ ان کے ذہن میں پہلے مشیر کی پوری تقریر پر ایک عبرت انگیز طنز Ironyبن جاتی ہے۔ جس کی فکری بلاغت ایک دل کش فنی لطافت رکھتی ہے۔ یہ اردو قارئین کے نقطہ نظر سے ایک قسم کا تمثیلی طنز Dramatic Irony ہے مشیر تو ابلیس کی مدح رک رہا ہے مگر اس کے سامعین اس میں قدح کا پہلو بھی دیکھ رہے ہیں جس کی کوئی خبر قصیدہ خواں کو نہیں ہے ڈرامائی لحاظ سے یہ بڑی دلچسپ صورت ہے۔ اس صورت حال میں ایک شعر موضوع نظم سے بڑا لطیف و عمیق تعلق رکھتا یہ اور اس کا مفہوم شروع سے آخر تک نظم کے ارتقائے خیال میں ایک مرکزی رول ادا کرتا ہے:
آرزو اول تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں
ہو کہیں پیدا تو مر جاتی ہے یا رہتی ہے خام
لفظ آرزو کا استعمال اقبال نے زیر نظر نظم کے علاوہ متعدد اہم نظموں میں اور اہم مواقع پر اس اہتمام کے ساتھ کیا ہے کہ اقبال کا ایک خاص لفظ اور ان کے مخصوص تصور کی خیال انگیز علامت بن گیا ہے۔ اقبال کے پیام میں جو رجائیت اور ان کی شاععری میں جو نشاط فن ہے اس کی حسین ترین ترجمانی لفظ آرزو سے ہوتی ہے۔ مسجد قرطبہ کی تمہید میں جو دعا ہے ا س میں آرزو کا لفظ اور تصور متعدد بار استعمال کیا گیا ہے ۔ ایک شعر میں راہ محبت کا واحد مستقبل رفیق آرزو کو قرار دیا گیا ہے۔ دوسرے شعر میں دست دعا جس ہستی کے سامنے پھیلایا گیا ہے اسے واحد آرزو اور اس حیثیت سے مقصود جستجو بتاتے ہوئے اس کی عنایت سے زندگی میں سوز و تب و درود و داغ‘ کا اقرار کیا گیا ہے‘ پھر دعا کے آخری شعر میں فلسفہ و شعر کو ایسا حرف تمنا کہا گیا ہے جسے محبوب کے روبرو کہنا ممکن نہ ہو۔ واقعہ یہ ہے کہ خواہ مسجد قرطبہ کا عشق ہو یا اسی عنوان کی نظم کا ذوق و شوق سبھی کو ایک بسیط و محیط آرزو سے تعبیر کیا جا سکتاہے۔ مختصر یہ کہ یہ آرزو زندہ رہنے کے لیے زندگی میںآگے بڑھنے اور کچھ کر دکھانے کایاک فطری جذبہ ہے جو ہر قسم کی تعمیر و ترقی اور کمال و کامیابی کا محرک اصلی ہے۔ لہٰذا مشیر اول کا یہ بیان کہ عصر حاضر میں ابلیسی نظام کی محکمی نے محکوم قوموں یا دنیائے انسانیت سے بڑے حصے میں آرزو ہی کو فنا کر دیا ہے ۔ وقت کا سب سے بڑ ا المیہ اور زندگی کے ساتھ سب سے سنگین حادثہ ہے۔ فنی نقطہ نظر سے غور کرنے کی بات ہے کہ پہلے مشیر نے ابلیس کی تائید میں دور حاضر میں مشرق اور ملت اسلامیہ کا جو نقشہ کھینچا ہے اس کا مرکزی نقطہ آرزو کا فقدان ہے۔ اور ابلیسی مغربی نظام کی شکار اقوام کی ساری تباہی و خرابی کا سبب یہی ہے۔ احوال و مسائل کی یہ تعبیر ہی بے حد شاعرانہ ہے جس سے سیاست کی گرہیں بھی محبت کی زلفوں کی طرح تابدار نظر آنے لگتی ہیں اور حقائق کی ساری رنگینی ایک عمیق شعریت کی لطافت میں ڈوب جاتی ہے۔
لفظ آرزو کے خیال آفریں استعمال کے علاوہ اقبال کی فن کاری کے دو اور نکات پہلے مشیر کے خطاب میں مضمر ہیں۔ جبریل و ابلیس نے کہا تھا :
جس کی نومیدی سے ہو سوز درون کائنات
اس کے حق میں تقنطو! اچھا ہے لا تقنطو
اور پہلے مشیر کا زیر بحث خطاب اس شعر پر ختم ہوتا ہے:
کس کی نومیدی پہ حجت ہے یہ فرمان جدید
ہے جہاد اس دور میں مرد مسلماں پر حرام
اس طرح ابلیس کی ازلی نومیدی کا سای عصر حاضر کے ابلیسی نظام کی بدولت ملت اسلامیہ کی نومیدی پر پڑ رہا ہے ۔ اور اس کی عکس فگنی میں فرمان جدید کی ترکیب قاری کے نقطہ نظر سے مشیر ابلیس کے بیان کو ایک تمثیلی طنز بنا دیتی ہے‘ اس لیے کہ فرمان قدیم تو ابلیس کی نومیدی پر حجت تھا مگر فرمان جدید ابلیس کے شکار کی نومیدی پر حجت بن رہا ہے یعنی کس کی نومیدی اور کس کے سر؟ غور کیاجائے تو جس طرح آرزو نشاط فکر وفن کی ایک علامت ہے ‘ اسی طرح نومیدی بھی فکر و فن کے تعکدر کی علامت ہے اور لطیفہ یہ ہے کہ روز ازل انسان کو رجائیت عطا کی گئی تھی‘ جبکہ ابلیس کو قنوطیت ملی تھی‘ لیکن اب قنوطی رجائی کو قنوطی بنا رہا ہے اس طرح پوری نظم ہی ایک زبردست طنزیہ شاہکار بنتی نظر آتی ہے۔
اب دیکھیے کہ پہلا مشیر ابلیس تو ملوکیت کو طبع مشرق کے لیے موزوں افیون قرار دیتا ہے جبکہ باخبر قارئین کو معلوم ہے کہ اشتراکی نظریے کے مطابق مذہب ایک افیون ہے لیکن ابلیس کے خطاب میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ شیطان نے دعویٰ کیا ہے :
میں نے دکھلایا فرنگی کو ملوکیت کا خواب
میں نے توڑا مسجد و دیر و کلیسا کا فسوں
اس طرح ہیبت ابلیس کی دین ہے ۔ اور اہل مشرق مذہب کی افیون کی بجائے ملوکیت کی افیون کے شکار ہیں پہلے مشیر کے بہ قول:
یہ ہماری سعی پیہم کی کرامت ہے کہ آج
صوفی و ملا ملوکیت کے بندے ہیں تمام
موجودہ زمانے کے سیاسی مباحث کے ایک مشہور فقرے کا یہ انعکاس کلام اقبال کے فنی اشارات کی ایک پر لطف مثال ہے ۔ اقبال کی شاعری میں رمزو ایما کے بکثرت استعمال کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ عصر حاضر کے منسائل سیوسائل فن پیدا کرتے ہیں اور ان وسائل کا استعمال اپنے خالص مقاصد و مطالب کے لیے بڑے بڑے لطیف انداز میں کرتے ہیں چنانچہ ان کے کلام کا ایک ایک اشارہ یاکنایہ یا استعارہ وسیع و پیچیدہ عصری مباحث کو آئینے کی طرح روشن کر دیتا ہے۔ اس سلسلے میں کلام کا یہ نشتر بھی قابل دید ہے کہ ملوکیت و لامذہبیت کو عملاً ایک دوسرے کے مترادف بنا کر ملوکیت کو افیون قرار دیا گیا ہے جس کا مفہوم یہ ہوا کہ افیون مذہب نہیں۔ لامذہبیت ہے ۔ اور یہ مغربی تصور حیات کی دین ہے جس کا ایک ہی مظہر اشتراکی مخالفوں کو ایک تیکھا جواب دے دیا۔ یہ فکر کی موثر فنی تجسیم ہے۔
ابلیس کی مجلس شوریٰ کا پورا فنی منصوبہ ہی تمام اہل مغرب اور ان کے مختلف نظریات پر ایک کاری طنز کرتا ہے۔ اس طنز کی بنیادیں کلام اقبال میں دور تک پھیلی ہوئی ہیں ابلیس کی عرض داشت (بال جبریل میں) پہلی نظم میں اہل مغرب کو ابلیس کے سیاسی فرزند‘ فرض کر کے ان کے نام ابلیس کا یہ فرمان جاری کرایا گیا ہے کہ وہ اہل مشرق کو ان کے دینی و اخلاقی روایات سے بے گانہ کر کے ان کی تباہی کا سامان کریں دوسری نظم میں مغربی نظام اقدار کے تحت ابھرنے والے ارباب سیاست کو جمہور کے ابلیس قرار دیا گیا ہے اسی تناظر میں ابلیس کی مجلس شوریٰ کے دوسرے مشیر کا یہ سوال ابلیس کے مشیروں کے درمیان حالات حاضرہ پر ایک دلچسپ اور خیال انگیز تبصرے کا آغاز کرتا ہے۔
خیر ہے سلطانی جمہور کا غوغا کہ شر؟
تو جہاں کے تازہ فتنوں سے نہیں ہے باخبر
پہلا مشیر ایک بصیر ت افروز اور عبرت انگیز جواب دیتا ہے:
ہوں مگر میری جہاں بینی بتاتی ہے مجھے
جو ملوکیت کا اک پردہ ہو کیا اس سے خطر
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس وہ خود نگر
کاروبار شہریاری کی حقیقت اور ہے
یہ وجود میر و سلطان پر نہیں ہے منحصر
مجلس ملت ہو یا پرویز کا دربار ہو
ہے وہ سلطان غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر
تو نے دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر
جمہوریت ے بارے میں اس قسم کے خیالات اقبال نے متعدد مواقع پر ظاہر کیے ہیں اور اپنی دلیلیں بھی پیش کی ہیں۔ خاص کر خضر راہ کے باب سلطنت میں جس کے مطابق جمہوری قبا میں دیو استبداد ہی پائے کوب ہے اور مغرب کا جمہوری نظا م ایک ساز کہن ہے جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری اس کے علاوہ ضرب کلیم میں جمہوریت کے عنوان سے جو نظم ہے ا سکے مطابق یہ ایک ایسا طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو بنا کرتے ہیں تولا نہیںکرتے۔ لہٰذا اقبال مغربی جمہوریت کو ملوکیت کا اک پردہ سمجھتے ہیں۔ اس لیے کہ مغرب کے جمہوری نظام میں بظاہر حریت و اخوت و مساوات کا جو بھی دعویٰ ہو بباطن یہ عوام الناس کے مقابلے میں محض چند ہشیار ظالموں کی ہلاکت خیز چنگیزی بلکہ اس سے بھی بدتر ہے ا س تصور اظہار کے لیے شاہی کو جمہوری لباس پہنانے کاروبار شہریاری کی حقیقت کچھ اور ہونے غیر کی کھیتی پہ سلطان کی نظر اور اندروں چنگیز سے تاریک تر‘ کی تصویریں استعمال کی گئی ہیں۔ یہ سب نکات نقوش مقرر کے مافی الضمیر کو سامع کے سامنے اچھی طرح روشمن کر دیتے ہیں۔ ایک تمثیل میں ترسیل کی یہ کامیابی کا یک کمال فن ہے۔
پہلے مشیر کا جواب ارکان مجلس کے لیے اطمینا ن بخش ثابت ہوتا ہے جبکہ قاری کے لیے یہ اپنی حدود میں اور اپنے موقع و محل کے لحاظ سے مسرت انگیز ہونے کے ساتھ ساتھ بصیرت افروز بھی ہے ۔ یہ تاثر فکر و فن کی ہم آہنگی کے سبب ہے۔ یہ ہم آہنگی کس طرح سیاست کو شاعری بناتی ہے۔ اس لیے مثال کے طور پر ایک مصرعے کا تجزیہ کر کے دیکھیے:
مجلس ملت ہو یا پرویز کا دربار ہو
مجلس ملت اسمبلی کا ترجمہ ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں پرویز کا دربار ہے۔ دونوں الفاظ کا تعلق ایران سے ہے اور دونوں فارسی زبان کے اصطلاحی الفاظ ہیں مجلس ملت جدید دور کا ادارہ اقتدار ہے۔ اور پرویز کا دربار دور قدیم کا۔ پرویز کاعلم یا لقب تاریخی کے ساتھ ساتھ داستانی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ اور شیریں کے تعلق سے تو وہ ایک شاعرانہ علامت ہی ہے اسی طرح دوسرے مصرعے میں سلطان کا لفظ پہلے مصرعے میں پرویز کی قدامت کی تائید کرتا ہے۔ پرویز سلطان کی یہ قدامت قدیم شہنشاہیت کے پیکر کو اس کے تمام جاہ و جلال اور جبر و ستم کے ساتھ نگاہوں کے سامنے لے آتی ہے اس طرح سیاق و سباق ک یاعتبا ر سے چند معمولی الفاظ کا خصوصی انتخاب اورمخصوص اسعتمال ہی شعریت کے خیال آفریں تاثرات ابھارتا ہے۔ یہ لفظوں کو پیکروں میں تبدیل کرنے کا کیمیائی و فنی عمل ہے‘ جس کے پختہ نمونے زیر نظم نظر میں بکثرت موجود ہیں ۔
اب تیسرا مشیر ایک نئے فتنے کا ذکر کرتا ہے:
روح سلطانی رہے تو باقی تو پھر کیا اضطراب
ہے مگر کیا اس یہودی کی شرارت کا جواب؟
وہ کلیم بے تجلی وہ مسیح بے صلیب!
نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب
کیا بتائوں کیا ہے کافر کی نگاہ پردہ سوز!
مشرق و مغرب کی قوموں کے لیے روز حساب
اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا طبیعت کا فساد
توڑ دی بندوں نے آقائوں کے خیموں کی طناب
کلیم بے تجلی مسیح بے صلیب نیست پیغمبر و لیکن در بغل کتاب کافر کی نگاہ پردہ سوز‘ مشرق و مغرب کی قوموںکے لیے روز حساب توڑ دی بندوں نے آقائوں کے خیموں کی طناب… تصاویر کا ایک آئینہ خانہ ہے ! مشیر ابلیسی نظام کو لاحق ہونے والے ایک تازہ اندیشے کا ذکر کر رہا ہے۔ مگر اس کا تخیل اور طرز بیان دقیقہ سنجیوں اور پیکر تراشیوں سے معمور ہے۔ اس لیے کہ ابلیس کا مشیر ہونے کے باوجود وہ اقبال کا کردارہے جسے کچھ فلسفہ اور کچھ شاعری اپنے خالق سے ورثے میں ملی ہے۔ لیکن سب سے بڑھ کر وہ قصہ آدم کو اپنے لہو سے رنگین کرنے والے ابلیس کا شاگرد ہے اور پستی فطرت کے باوجود شوکت بیان ابلیس اور اس کی ذریات کے کبر و نخوت کے لیے ایک امتیازی اسلوب سخن بھی ہے بہرحال چند الفاظ میں نام لیے بغیر ماکس اور اس کی کتاب سرمایہ کی نہایت معنی خیز پر خیال اور پر اثر تصویر کشی کی ہے جس کا مفہوم اشارۃً و کنایۃً یہ ہے کہ اشتراکیت ملوکیت سے سرمایہ دارانہ جمہوریت تک تمام ان نظریات کے لیے ایک چیلنج ہے جو عوام الناس کا استحصال کرتے رہے ہیں اور اندیشہ ہے کہ کمیونزم دنیا میں ایک ایسا انقلاب برپا کر دے جو ابلیسی نظام کی نامرادیوں نابرابریوں غلامی اور برادر کشی کے لیے پیام فنا ہو زیر نظر اشعار کی گہری اور ہمہ گیر ایمائیت کی حد یہ ہے کہ مارکس کے ذریعے کمیونزم کی اشاعت کو اس یہودی کی شرارت کہا گیا ہے ۔ یہ ایک فقرہ یہودیوں کے تاریخی کردار کے علاوہ یہود و نصاریٰ کی چپقلش اور صدیوں تک نصاریٰ کے ہاتھوںیہودیوں کی ذلت اور یہودیوں کی طرف سے اس جبر و ستم کے رد عمل میں‘ جو ان پر روا رکھا گیا ‘ خفیہ منصوبہ بندیوں اور ریشہ دوانیوں پر بہترین تبصرہ ہے۔ یہ تبصرہ مسیحی نقطہ نظر پر مبنی ہے اس لیے کہ عصر حاضر میں ابلیسی نظام کے ستون مسیحی ہی ہیں اور انہی کے ذریعے قائم ہونے والے سرمایہ دارانہ سامراج کے لیے کمیونزم ایک چیلنج بن کر ابھر اہے۔
چوتھا مشیر فتنہ اشتراکیت کے توڑ پر اپنی مسرت کا اظہار کرتا ہے:
توڑ اس کا رومۃ الکبریٰ کے ایوانوں میں دیکھ
آل سیزر کو دکھایا ہم نے پھر سیزر کا خواب
کون بحر روم کی موجوں سے ہے لپٹا ہوا
گالد بالدچوں صنوبر‘ گاہ نالدچوں رباب
چار مصری یہ شاعری نیز تاریخ نگاری غضب کی ہے تخیل کو بہت دیر تک مصروف و معمور رکھنے کے لیے ایک مصرع گاہ بالدچوں صنوبر گاہ نالدچوں رباب۔ بھی کافی ہیں۔ پھر بحرروم کی موجیں ہیں ان سے کوئی لپٹا ہوا ہے آل سیز ر ہیںسیزر کا خواب ‘ جیسی چست موزوںاور پر خیال اور فکر انگیز شاعرانہ ترکیب ہے رومتہ الکبریٰ کے مشہور عالم ایوان شہنشاہیت ہیں۔ لیکن دور جدیدکی رومی سلطنت کے سودائے ملوکیت کو مشیران ابلیس کچھ زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ چنانچہ تیسرا مشیر پھر خطرہ اشتراکیت پر زور دیتا ہے:
میں تو اس کی عاقبت بینی کا کچھ قائل نہیں
جس نے افرنگی سیاست کو کیا یوں بے حجاب!
مغرب کی سیاست کی پردہ دری مارکس کے نظریہ اشتراکیت اور اس کے تحت تجزیہ تاریخ کا سب سے بڑا کمال نگاہ اقبال میں ہے‘ جس کی طرف شاعر نے اپنے متعدد اشعار میں واضح اشارات کیے ہیں اس شعر میں عاقبت بینی کا لفظ بہت معنی خیز ہے جس کے طنزیہ مضمرات بہت وسیع ہیں۔
مشیروں کا مکالمہ اپنے شباب پر ہے لہٰذ ا پانچواں مشیر عصر حاضر میں عالم انسانیت کا ایک مجموعی اور آخری جائزہ لیتا ہے ‘ تاکہ اس کے بعد ابلیس اپنا قول فیصل ارشاد کرے:
اے ترے سوز نفس سے کار عالم استوار
تو نے جب چاہا کیا ہر پردگی کو آشکار
آب و گل تیری حرارت سے جہان سوز و ساز
آبلہ جنت تری تعلیم سے دانائے کار
تجھ سے بڑھ کر فطرت آدم کا وہ محرم نہیں
سادہ دل بندوں میں جو مشہور ہے پروردگار
کام تھا جن کا فقط تقدیس و تسبیح و طواف
تیری غیرت سے ابد تک سرنگوں و شرمسار
گرچہ ہیں تیرے مرید افرنگ کے ساحر تمام
اب مجھے ان کی فراست پر نہیں ہے اعتبار
وہ یہودی فتنہ گروہ روح مزدک کا بروز
ہر قبا ہونے کو ہے اس کے جنوں سے تار تار
زاغ دشتی ہو رہا ہے ہمسر شاہین و چرغ
کتنی سرعت سے بدلتا ہے مزاج روزگار
چھا گئی آشفتہ ہو کر وسعت افلاک پر
جس کو نادانی سے ہم سمجھتے تھے اک مشت غبار
فتنہ فردا کی ہیبت کا یہ عالم ہے کہ آج
کانپتے ہیں کوہسار و مرغزار و جوئبار
میرے آقا وہ جہاں زیر و زبر ہونے کو ہے
جس جہاں کا ہے فقط تیری سیاست پر مدار
’’ابلہ جنت‘‘ ، ’’روح مزدک‘‘، ’’زاغ دشتی‘‘ ، ’’شاہین و چرغ‘‘، ’’مشت غبار‘‘ کی تلمیحات علامات اور استعارات کے علاوہ آب و گل تیری حرارت سے جہان سو ز و سازہر قبا ہونے کو ہے اس کے جنوں سے تار تار ‘ چھا گئی آشفتہ ہو کر وسعت افلاک پر‘‘ اور
فتنہ فردا کی ہیبت کا یہ عالم ہے کہ آج
کانپتے ہیں کوہسار و مرغزار و جوئبار
جیسی پر معنی اور خیال آفریں تصویریں تصور و احساس کی ایک دنیا آباد کرتی ہیں او رشاعرانہ مناظر کا ایک سماں باندھ دیتی ہیں‘ محولہ بالا شعر میں مستقبل کی ہولناکی کی جو حسین اور پر اثر تصویر کشی ہے۔ اس کے ساتھ انسان کی پرواز فکر کی یہ پیکر تراشی تخیل کے سامنے پوری تاریخ انسانی کا ایک جلوہ رنگیں پیش کرتی ہے:
چھا گئی آشفتہ ہو کر وسعت افلاک پر
جس کو نادانی سے ہم سمجھے تھے اک مشت غبار
اس شعر کا ایک ایک لفظ معنی خیز ہے۔ انسان کو شیطان اور اس کے ذریات نے اک مشت غبار سمجھا تھا۔ اور اسی بنا پر تخلیق آدم کے وقت ابلیس نے آدم کے آگے حکم خداوندی کے باوجود سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے اشارہ کر دیا تھا کہ انسان کے امکانات اور منصوبہ کائنات میں اس کے مقام و کردار کے متعلق خدا جو کچھ جانتا ہے اس کی خبر کسی کو نہیں۔ بہرحال صدیوں کی انسانی تاریخ ثابت کرتی ہے کہ اک مشت غبار کو حقیر سمجھنا ابلیس کی نادانی تھی۔ جس کا اعتراف خود ایک مشیر ابلیس کر رہا ہے‘ اس لیے کہ یہ مٹھی بھر دھول اپنے فکر و عمل سے آشفتہ ہو کر وسعت افلاک پر چھا گئی اس بیان میں لفظ آشفتہ کے مضمرات و اشارات کی تشریح کی جس قدر کی جائے معانی کی تہوں پر تہیں کھلتی چلی جائیں گی۔ اقبال نے غزل اور تغزل کے ایک زرخیز تخیل کو بڑی خوبصورتی سے انسان کی ذہنی تاریخ اور عمل سرگزشت کا اشاریہ بنا دیا ہے اور اس کے تمام لفظی و معنوی تلازمات و مناسبات کا لحاظ کر کے ایسی عبارت آرائی کی ہے کہ ذہین اور حساس قاری بہت دیر تک اس کی معنوی و جمالیاتی کیفیات میں کھوجاتا ہے۔ مشت غبار کی جگہ خاک زمین ہے‘ مگر آشفتگی اسے بلند تر فضائوں میں پرواز کی تحریک کرتی ہے اور وہ بالآخر وسعت افلاک پر چھا جاتی ہے کمرہ خاکی کی حدود سے بہت دور نکل کر سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچ جاتی ہے۔ حالانکہ ذکر فتنہ اشتراکیت کا ہو رہا تھا‘ مگر پانچواں مشیر اس فتنے کو انسانی تاریخ کے طویل پس منظر میں دیکھتا ہے اور مجموعی طور پر عروج آد م خاکی کی پوری داستان کی طرف اشارہ کرتا ہے یعنی جو ترقیات انسان کے ہاتھوں صدیوں سے دنیا میں ہو رہی تھیں اب ان میں ایک اشتراکیت کا بھی اضافہ ہو گیا۔
لیکن یہ خیال ابلیس کا پانچویں مشیر کا ہے خود ابلیس کا نہیں لہٰذا آخری شعر:
میرے آقا وہ جہاں زیر و زبر ہونے کو ہے
جس جہاں کا ہے فقط تیری سیادت پر مدار
کا طنز پور ا کا پورا مغربی ملوکیت ‘ سرمایہ داری اور جمہوریت کے مروجہ نظام حیات پر ہے اور مشیر ابلیس کے خیال میں عصر حاضر کے اس جہان مغرب کا مدار فقط ابلیس کی قیادت و سیاست پر ہے اس لیے کہ مغربی نظام ہی ابلیسی نظام ہے اور اب اس نظام کی برہمی اسی اندر سے ابھرنے والے ایک نئے تصور کمیونزم کے ہاتھوں میں مقدر معلوم ہوتی ہے۔ بات یہ ہے کہ کمیونزم کا فلسفہ اصولاً امپیریلزم کیپٹلزم اور ڈیمو کریسی… نظام مغربی کے عناصر ترکیبی… پر تنقید کرکے ان سب کو رد کرتا ہے لہٰذا اگر کمیونزم کا یہ تصور غالب آ گیا تو دور جدید کا مروجہ ابلیسی نظام ختم ہو جائے گا۔
پانچویںمشیر کی یہ تقریر ابلیس کے آخری خطاب کے بعد ویسی ہی نادانی ثابت ہو گی جیسی خود ابلیس سے روز ازل آدم کو محض اک مشت غبار سمجھ کر سرزد ہوئی تھی۔ جو قارئین ابلیس کی آئندہ تقریر سے باخبر ہیں یا جب وہ باخبر ہو ں گے تو پانچویں مشیر کی تقریر کا بڑا حصہ انہیںتمثیلی طنز کا نشانہ معلوم ہو گا بہرحال اب ابلیس اپنے مشیروں کو ایک طویل مفصل اور قطعی خطاب کرتا ہے جس کے تین حصے ہیں پہلے حصے میں اشتراکیت کا مذاق اڑاتا ہے اوراس کی بنیادی خامیوںاور کمزوریوں کی طر ف اشارہ کرتے ہوئے مغربی نظام یعنی ابلیسی نظام کی محکمی پر اعتماد کا اظہار کرتا ہے ۔ مگر مستقبل کے لیے ایک ایسے زبردست اندیشے اور خطرے کا ذکر کرتا ہے جس کی طرف کسی مشیر کی نگاہ نہ گئی تھی:
ہے مرے دست تصوف میں جہاں رنگ و بو
کیا زمیں کیا مہر و مہ کیا آسمان تو بتو
دیکھ لیں گے اپنی آنکھوں سے تماشا غرب و شرق
میں نے جب گرما دیا اقوام یورپ کا لہو
کیا امامان سیاست‘ کیا کلیسا کے شیوخ
سب کو دیوانہ بنا سکتی ہے میری ایک ہو
کارگاہ شیشہ جو ناداں سمجھتا ہے اسے
توڑ کر دیکھتے تو اس تہذیب کے جام و سبو
دست فطرت نے کیا ہے جن گریبانوں کو چاک
مرد کی منطق کی سوزن سے نہیں ہوتے رفو
کب ڈرا سکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کوچہ گرد
یہ پریشاں روزگار آشفتہ مغزہ آشفتہ ہو
ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس امت سے ہے
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرار آرزو
خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ
کرتے ہیں اشک سحر گاہی سے جو ظالم وضو
جانتا ہے جس پہ روشن باطن ایام ہے
مزدکیت فتنہ فردا نہیں اسلام ہے
٭٭٭
اس خطاب سے وہی طنطنہ اور دبدبہ ہے جو ابلیس کے پہلے خطاب میں تھا اور یہ اس کے تکبر اور شیخی کے عین مطابق ہے یہ خیالات کی شاعری ہے اور سار ا کمال فکروری اور سخن طرازی کا ہے ۔ حسب معمول لفظ و معنی کے اشارات اور پیکر تراشیاں بلند بانگ دعوئوں کو دلچسپ اور خیال انگیز بناتی ہیں۔ صرف دو تصویروں پر غور کیجیے:
دست فطرت نے کیا ہے جن گریبانوں کو چاک
مزدکی منطق کی سوزن سے نہیں ہوتے رفو
٭٭٭
مزدوروں اور کسانوں کے افلاس او رغربا کی معاشی کم زوری کو گریبانوں کے چاک ہونے سے تعبیر کرنا تنگدستی اور پریشاں حالی کی انتہائی پر اثر اور پر خیال شاعرانہ ترجمانی ہے‘ پھر دست فطرت کے مقابلے میں مزدکی منطق کی سوزن اور چاک گریباں کو دور کرنے کے لیے رفو کا اہتمام اظہار و بیان کی زیبائی و رعنائی کا باعث ہے۔ اس آرائش تخیل میں منطقیت اور شعریت کا وہ نادر امتزاج ہے جو کلام اقبال کا اختصاص ہے دوسری تصویر یہ ہے :
خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ
کرتے ہیں اشک سحر گاہی سے جو ظالم وضو
اشک سحر گاہی سے وضو عبادت و ریاضت جیسے متین اور ثقہ عمل کو محبت کے سوز و گداز سے آراستہ و پیراستہ کر دیتا ہے۔ اس تصویر میں اشک سحر گاہی‘ اور وضو تینوں الفاظ اپنے اپنے معانی کو ایک مرکب مفہوم میں ضم کر کے اوراق گل پر شبنم کے درخشاں قطرے کی طرح تازہ و شاداب پیکر کی تخلیق کرتے ہیں اور ابلیس کا کہا ہوا لفظ ظالم اس پیکر کے تقدس اور تابانی میں بے پناہ اضافہ کر دیتا ہے۔ پھر ابلیس ہی کے بقول اس پیکر خوبی کا خال خال نظر آنا اس کے جادو کو اوربھی بڑھا دیتا ہے۔
ان سالم استعاراتی تصاویر کے علاوہ بھی لفظ و معنی کے رخ زیبا کی کئی دلکش جھلکیاں ہیں… کار گاہ شیشہ تہذیب کے جام و سبو خاکستر میں شرار آرزو ان میں آخری جھلکی ایک آئینہ خانے کا جلوہ پیش کرتی ہے‘ پہلے مشیر نے نظم کے ابتدائی مرحلے میں جس حلقہ انسانیت کے اندر آرزو کے فنا ہو جانے کا اعلان کیا تھا‘ اب اسی کی خاکستر میں نظم کے نقطہ عروج پر خو د ابلیس کو شرار آرزو کی چمک نظر آتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ اللہ کی رحمت سے مایوس شیطان کے لیے انسان اور خدا کے آخری پیغام کے حامل انسان کے اندر شرار آرزو کی تابانی سب سے زیادہ پریشانی کی بات ہے۔ یہی وہ شرار آرزو رحمت خداوندی کی تمنا اور اس سے وابستہ اطاعت الٰہی کا جذبہ ہے جس نے ہر دور میں ابلیس کو شکست دی ہے اور ابلیسی نظام کے تارو پور بکھیر دیے ہیں چنانچہ ابلیس اپنی اصل حریف طاقت کو اچھی طرح پہچانتا ہے ۔ اور ا س کی خصوصیات سے بھی واقف ہے لہٰذا جب وہ دیکھتا ہے کہ شرار آرزو سے شعلے کی طرح روشن ہو کر اشک سحر گاہی سے وضو کرنے والے ابھی باقی ہیں تو پکار اٹھتا ہے :
جانتا ہے جس پہ روشن باطن ایام
مزدکیت فتنہ فردا نہیں اسلام ہے
٭٭٭
ابلیس اشتراکیت کو مزدکیت کہہ کر جتانا چاہتا ہے ۔ کہ یہ کوئی تازہ فتنہ نہیں‘ دور قدیم میں بھی ایران کے مزدک کے ہاتھوں رونما اور چندے اپنے بہار دکھا کر ختم ہو چکا ہے لہٰذا عصر حاضر میں بھی اسی طرح جلد ختم ہو جائے گا۔ پھر اس فتنے سے ابلیسی نظام کو کوئی خطرہ نہیں۔ اس لیے کہ اصلاً دونوں کے درمیان کوئی تضاد و تصادم نہیں۔ اسی طرح ابلیس کو بھی اسلام کا بھی تجربہ ہے اوروہ جانتا ہ کہ اسلام کا فروغ ابلیسی نظام کے لیے پیغام فنا ہے۔ لہٰذا اپنے مستقبل یا اپنے خیال میں دنیا کے مستقبل کے لیے اس کے فتنہ ہونے کا وہ قطعی اعلان کرتا ہے۔
دوسرے حصے میں ابلیس اسلام … فتنہ فردا… کی ان خصوصیات پر روشنی ڈالتا ہے جو نظام ابلیسی کی جڑ کھودنے والی ہیں:
جانتا ہوں میں یہ امت حامل قرآں نہیں
ہے وہی سرمایہ داری بندہ مومن کا دیں
جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں
بے ید بیضا ہے پیران حرم کی آستیں
عصر حاضر کے تقاضائوں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبر کہیں
الحذ آئین پیغمبر سے سو بار الحذر
حافظ ناموس زن مرد آزما‘ مرد آفریں
موت کا پیغام ہر نوع غلامی کے لیے
نے کوئی فعفور و خاقاں نے فقیر رہ نشیں
کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک صاف
منعموں کا مال و دولت کا بنایا ہے امیں
اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب
بادشاہوں کی نہیں‘ اللہ کی ہے یہ زمیں
چشم عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئیں تو خوب
یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محروم یقیں
ہے یہی بہتر الٰہیات میں الجھا رہے
یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے
چند لفظوں میں ابلیس نے نظام اسلامی کی ان خوبیوں کا ذکر کر دیا ہے جو عصر حاضر کے بنیادی مسائل کا واحد اور بہترین حل ہیں۔ اس ذکر سے پہلے اور بعد دو اشعار میں اس نے بروقت امت مسلمہ کے حال زار کا تذکرہ بھی کیا ہے اوراسی حال کے مستقبل میں بھی جاری رہنے کی ضرورت کا اظہار کیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے دلچسپ اور خیال انگیز نکتہ یہ ہے کہ گرچہ امت مسلمہ غافل و کاہل ہے مگر عصر حاضرکے تقاضے شرع پیغمبر کے دوبارہ فروغ کی راہ ہموار کررہے ہیں لہٰذا ابلیسوں کے کرنے کا کام اب صرف یہ ہے کہ کسی طرح امت مسلمہ کو شرع پیغمبر پر عمل اور اس کے مطابق اقدامات سے باز رکھیں۔ چنانچہ تیسرے اور آخری حصے میں ابلیس اس مقصد کے لیے ایک پورا منصوبہ عمل پیش کرتا ہے ۔ جس سے ان سارے فتنوں کی نشاندہی ہو جاتی ہے جو اسلام کی راہ میں حائل ارو اس کے فروغ میں مزاحم ہیں:
توڑ ڈالیں جس کی تکبیریں طلسم شش جہات
ہو نہ روشن اس خدا اندیش کی تاریک حیات
ابن مریم مر گیا یا زندہ جاوید ہے؟
ہیں صفات ذات حق‘ حق سے جدا عین ذات؟
آنے والے سے مسیح ناصری مقصود ہے
یا مجدد جس میں ہوں فرزند مریم کے صفات؟
میں کلام اللہ کے الفاظ حادثات یا قدیم
امت مرحوم کی ہے کس عقیدے میں نجات؟
کیا مسلماںکے لیے کافی نہیںاس دور میں
یہ الٰہیات کے ترشے ہوئے لات و منات؟
تم اسے بیگانہ رکھو عالم کردار سے!
تا بساط زندگی میں اس کے سبب مہرے ہوں مات
خیر اسی میں ہے قیامت تک رہے مومن غلام
چھوڑ کر اوروں کی خاطر یہ جہان بے ثبات
ہے وہی شعر و تصوف اس کے حق میں خوبتر
جو چھپا دے اس کی آنکھوں سے تماشائے حیات
ہر نفس ڈرتا ہوں اس امت کی بیداری سے میں
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب کائنات
مست رکھو ذکر و فکر صبح گاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی میں اسے
ابلیس کے آخری خطاب کے دونوںآخری حصے صرف مسائل پر مشتمل ہیں اور وہ بھی دقیق اور مشکل مسائل پر ‘ جو اگر نثر میں بھی بیان کیے جائیں تو آسانی سے لوگوں کی سمجھ میں نہ آئیںگے۔ اور ان میں دلچسپی تو کم ہی لوگوں کو ملے گی۔ لیکن جس طرح اقبال کے گہرے تفکر نے ان کی سب گرہیں کھول دی ہیں اسی طرح ان کی فن کاری نے ایسے ٹھوس اور ثقہ نکات کو دلچسپ بنا دیا ہے ۔ ا سلسلے میں دیکھنے کی خاص بات یہ ہے کہ حقائق کو دل کشا بنانے کے لیے بہت زیادہ آرائش و زیبائش سے کام لینے کی کوشش نہ کی گئی ہے۔ مگر بے ساختگی اور سادگی سے جو کچھ کہا گیا ہے اس میں بھی جا بجا ایک فطری طرز بیان کے شاعرانہ پیکر اپنی آب و تاب دکھا رہے ہیں اور ان کی چمک دمک پورے سیاق و سباق کو روشن کرتی ہے۔ چند تصویریں ملاحظہ ہوں:
مشرق کی اندھیری رات‘ بے ید بیضا‘ پیران حرم کی آستیںُ‘ فغفور و خاقاں‘ فقیر رہ نشیں‘ طلسم شش جہات‘ الٰہیات کے ترشے ہوئے لات و منات ‘ بساط زندگی ‘ مہرے‘ مات‘ تماشائے حیات‘ ذکر و فکر صبح گاہی‘ مزاج خانقاہی۔
بعض ترکیبیں عام ہوتے ہوئے بھی سیاق و سباق میں خاص معانی رکھتی ہیں اور ان کے رنگ و آہنگ میں ایک شوکت اور وقار ہے مثلاً:
مرد آزما‘ مرد آفریں ‘ چشم عالم‘ عالم کردار‘ احتساب کائنات
یہ طرز اقبال ہے جس کی جمالیات فن حسن معنی پر مبنی ہے۔ یہ ایک فطری لالہ کاری ہے جو مشاطگی کے تکلفات سے بے نیاز ہے۔ اقبال کے ابلیس اور اس کے مشیر شیطنت کے باوجود ایک سلیقہ سخن رکھتے ہیں وہ بڑی نفیس گفتگو کرتے ہیں اور اپنے خیالات کا اظہار پورے زور اثر کے ساتھ کرتے ہیں چنانچہ ان کا لطف بیان ان کے اس اضطراب پر بھی وہ ڈالتا ہے جس میں وہ سب مبتلا ہیں اور ان کے اندیشے ایک خوش فکر اور خوش گفتار فلسفی کے شبہات بن جاتے ہیں بہرحال وہ حالات کا تجزیہ گہرائی اور دوربینی کے ساتھ کرتے ہیں اور حقائق کو دلچسپ اور خیال انگیز انداز میں پیش کرتے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ ان کے بالخصوص ابلیس کے طرز بیان میںشوخی کے ساتھ ساتھ شیخی دعا تحکم اور تمرد ہے ۔ لیکن یہ بالکل ان کے شیطانی کردار کے مطابق ہے۔ فنی اعتبار سے تمثیل کا یہ انداز بہت کارگر ہے ۔ کہ عصر حاضڑ کے غیر اسلامی رجحانات کے ابلیسی سرپرستوں اور اس نقطہ نظر کے ابلیسی مخالفوں کی جانب سے‘ ایک طنزیہ اسلوب میں ہوا ہے۔
ابلیس کی مجلس شوریٰ بہ وجوہ اقبال کے فن کا ایک زبردست اشاریہ ہے۔ یہ ایک فکری و پیامی نظم ہے مگر شاعرانہ استعارا ت و اشارات سے مملو ہے‘ حالانکہ سارا زور حکایت کے بلیغ اظہار پر ہے نہ کہ زبان و بیان کی آراستگی و پیراستگی پر۔ اس طرح کلام اقابال میں فطری طور سے سنجیدہ ترین موضوعات اور دقیق۔ ترین افکار بھی ایک لطیف و نفیس‘ پرشوکت اور پروقار انداز میں بروئے اظہار آتے ہیں شعریت کا یہ ملکہ اور فن کا یہ رسوخ اتنا ہموار و استوار ہے کہ آخری مجموعہ کلام کی ایک طویل نظم میں بھی شروع سے آخر تک قائم رہتا ہے۔ لہٰذا اقبال کا فن شاعری از اول تا آخر اپنی جگہ ایک نادر نمونہ کمال ہے۔ لیکن اس فن سے پوری طرح لطف اندوز ہونے اور اس کی صحیح طور سے قدر شناسی کے لیے ضروری ہے کہ شاعرکے نقطہ نظر سے اگر اتفاق نہ بھی ہو تو کم از کم اس کو سمجھا جائے ار اس کے خلاف کسی قسم کا تعصب فنی مطالعے میں حامل نہ ہو‘ اس لیے کہ معروضی انداز نظر فن کار کے لیے اتنا ضروری نہیںجتنا اس کے قاری کے لیے اور ناقد کے لیے ہے۔