“صبح جب اُسکی آنکھ کھلی تو بالاج سامنے کھڑا اپنے بال بنا رہا تھا ۔وہ بھی اُٹھ کر بیٹھ گئی زمل کا سر بھاری ہورہا تھا اُس میں کھڑے ہونے کی ہمت نہیں تھی۔۔ لیکن باہر دروازه ناک ہونے کی آواز پر اُٹھ گئی اور شاور لینے چلے گئی تھی ”
“شاور لے کر جب وہ باہر آئی تو انعم اور اُسکی کزن موجود تھی اور بالاج بھی وہاں ہی تھا۔ ”
“زمل میں تمہیں تیار کروں۔ “انعم نے اُسکی خاموشی نوٹ کرتے اُسے کہا ۔
“نہیں انعم میں خود ہوجاؤں گی “زمل نے انکار کیا تھا۔ بالاج کو غصہ آیا تھا لیکن وہ خاموش رہا ۔
“انعم تم لوگ چلو ہم آرہے ہیں۔۔ ” بالاج نے اُنکو وہاں سے جانے کو کہا ۔
“بالاج بھائی اچھا طریقہ ہے اپنے روم سے نکالنے کا کہا ایک ہی دن میں نظریں پھیر لیں گے یہ امید نہیں تھی آپ سے۔۔ ” تانیہ نے مصنوعی ناراضگی سے کہا ۔
” ایسا نہیں ہے تانیہ ہم چلتے ہیں ماما کی بھی ہیلپ کراونی ہے ۔” انعم بات ختم کرکے تانیہ کا ہاتھ پکڑکر وہاں سے چلے گئی تھی ۔
“آئندہ اگر انعم سے اس بی ہیو سے بات کی تو دیکھنا اچھا نہیں ہوگا۔ “بالاج نے انعم کے جاتے ہی زمل کو کہا ۔
“میں نے ایسا کچھ نہیں کہا انعم کو اور ویسے بھی آپ بھولے نہیں کہ اس رشتے کے علاوہ بھی میرا اُس سے رشتہ ہے ” زمل کو حیرانگی ہوئی تھی ۔
“جتنا کہا ہے اُتنا سمجھ لوگی تو بہتر ہوگا تمہارے لیے ۔” اور پھر الماری سے ایک باکس نکال کر بیڈ پر اُسکی طرف پھینکتے ہوئے کہا ۔”یہ پہن لینا ماما نے تمہیں دینے کے لیے کہا تھا اور وہاں سے چلا گیا ۔
“بالاج آپ اب اسطرح سے بدلہ لو گے آپ بہت کم ظرف نکلے۔۔ ” زمل نے اس قدر ہتک آمیز لہجے پر سوچا اور اُسکی آنکھ سے آنسو نکل پڑے ۔ جسے اپنے ہاتھوں سے صاف کرتی اپنے بال برش کرنے لگ گئی ۔
****
“ڈائیننگ ٹیبل پر سب موجود تھے ۔زمل بالاج کی ساتھ والی چئیر پر بیٹھی تھی ۔ نیوی بلیو ایمبرائیڈری ڈریس پہنے وہ لائٹ میک میں بہت پیاری لگ رہی تھی ۔
“زمل بیٹا آپ نے تو کچھ کھایا ہی نہیں ہے طبیعت ٹھیک ہے آپ کی ۔۔؟ “مدثر صاحب اُسے کھوئے انداز میں بیٹھا دیکھ کر پوچھنے لگے ۔
“جی میں ٹھیک ہوں بس سر میں درد ہے۔۔ ” زمل کو لگا آنسوؤں کا گولا اُسکے گلے میں پھنسا ہے اُسکی آواز روہانسی ہوئی تھی ۔
بالاج نے اُسکی طرف رخ موڑ کر دیکھا تھا زمل نے اُسکا دیا چین سیٹ نہیں پہنا تھا ۔ بالاج کو لگا جیسے وہ ابھی رو دے گی ۔
“زمل کوئی بات ہوئی ہے کیا۔۔ ” مدثر صاحب نے بالاج اور زمل کی طرف دیکھتے ہوئے پریشانی سے پوچھا ۔
“ماموں اگر آپ کی اجازت ہو تو میں بابا سے ملنے چلیں جاؤں ابھی۔۔؟ ” زمل سب کو اپنی طرف متوجہ دیکھ مشکل سے پوچھ پائی تھی آنسو بھی اُسکی آنکھ سے نکل کر ہتھیلی پر گرا تھا ۔بالاج کی نظر اُس پر ہی تھی ۔
“ماموں کی جان کو کب سے اجازت لینے کی ضرورت پڑگئی زمل تم صرف وہاں سے یہاں آئی ہو لیکن تم ابھی بھی بلکل ویسے ہی رہو گی جیسے رہتی تھی آئندہ ایسے مت کرنا۔۔ شاباش جلدی سے ناشتہ مکمل کرو اور وہاں چلو بلکہ میں بھی چلتا ہوں تمہارے ساتھ۔۔ ” انہوں نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا ۔
“ماموں مجھے بھوک نہیں ہے ہم ابھی چلتے ہیں” زمل جلد سے جلد وہاں سے جانا چاہتی تھی ۔
“انسان کبھی بھی حقیقت سے بھاگ نہیں سکتا ہے چاہے وہ کتنی ہی فرار کی کوشش کر لے گھوم پھر کر وہ وہاں ہی پر آکر کھڑا ہوجاتا ہے”
“اچھا ٹھیک ہے چلو ” مدثر صحب نے منع کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
“آج کے دن بھی باز نہیں آئی نا تم ڈرامہ کوئین۔۔ ” حماد نے سر پر چپت لگاتے ہوئے کہا ۔
لیکن مدثر صاحب کے گُھورنے پر خاموش ہوگیا ۔
****
مدثر صاحب اور زمل جب لاؤنج میں آئے تو وہاں پر ثناء اور شہریار چائے پی رہے تھے۔ان کو آتا دیکھ شہریار کھڑا ہوگیا ۔
“خیریت ہے ماموں آپ دونوں اس وقت یہاں۔۔؟ شہریار نے مصاحفہ کرتے ہوئے پوچھا۔
“کیوں برخودار ہم یہاں پہلی مرتبہ آئے ہیں یا تم اب رشتہ داری بدلنے پر ایسا کرریے ہو۔۔؟ مدثر صاحب کو ناگوار گزرا تھا ۔
“نہیں ماموں ایسی بات نہیں ہے دراصل زمل کو آپ کے ساتھ آتا دیکھ میں سمجھا کوئی بات تو نہیں ہوگئی۔۔؟ شہریار کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو فوراً بات بنانا چاہی ۔ زمل کو بھی عجیب لگا تھا ۔
“زمل کے آنے سے کیا ہوگیا تم لوگوں نے اسے پرایا کردیا ہے کیا۔۔ ؟ میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ زمل کے لیے کچھ بھی نہیں بدلے گا آئندہ ایسے سوال مت کرنا زمل سے ” انہوں نے بھرم ہوکر کہا ۔
“ماموں آپ تو غصہ ہی کرگئے ہیں ہم بھی جانتے ہیں یہ دونوں گھر اسکے اپنے ہی ہیں۔۔ ” شہریار نے زمل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔ زمل جو کب سے اپنے آنسو روکنے کی کوشش کررہی تھی اُسکے آنسو بہہ نکلے ۔
“تم تو رونے ہی لگ گئی ہو آئی ایم سوری یار۔۔ میرا ایسا مطلب ہرگز نہیں تھا۔” شہریار نے اُسے اپنے ساتھ لگانے کے لیے اُسکا ہاتھ پکڑ کر پاس کیا تو زمل چکرا کر اُسکے بازوؤں میں ہی بے ہوش ہوگئی ۔” شہریار بروقت اُسے نا تھام لیتا تو وہ زمین بوس ہوُچکی ہوتی ۔
“اسے تو بہت تیز بخار یے۔۔ ” شہریار نے فوراً ہی حماد کو کال ملائی ۔
****
“کمزوری اور بخار کی وجہ سے بے ہوش ہوگئی ہیں یہ ” حماد نے میڈیسن ثناء کو دیتے ہوئے کہا ۔
“ان دنوں صحیح سے کھا بھی نہیں رہی تھی اور کل تو صرف صبح جوس پیا تھا میں نے جب ہی انعم سے کھانے کا کہا تھا ۔
“بھابھی میں بھول گئی تھی پوچھنا۔۔ “انعم شرمندہ ہوتے ہوئے بولی ۔
“تمہیں بھی خیال نہیں آیا تھا کہ ایک بار پوچھ لیتے۔۔ ” مدثر صاحب نے انعم کو گھورتے ہوئے بالاج سے پوچھا ۔
“مدثر سب بزی تھے کل کچھ نہیں ہوتا بھول جاتا ہے انسان۔۔ ” جمال صاحب نے بات کوختم کیا۔
“زمل تھوڑا آرام کرلے پھر انعم کے ساتھ پارلر چلی جائے گی۔ ” ثناء نے بھی بات بدلی ۔
“زمل اب ٹھیک ہے وہ آپ لوگوں کے ساتھ ہی جارہی ہے ۔” جمال صاحب نے آنکھیں بند کرکے لیٹی زمل کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
****
“یہی ڈرامہ کرنے گئی تھی وہاں تم آج دوپہر میں” بالاج روم میں داخل ہوا تو زمل کو بیٹھا دیکھ کر بولا ۔
“زمل کو بالاج کا ایسا آگ برساتا لہجہ برا بہت لگا لیکن وہ برداشت کرگئی وہ ولیمے کے فنکشن سے پہلے ہی کافی تھک چُکی تھی ۔ وہ بنا کچھ کہے وہاں سے چلی گئی ۔
“زمل چینج کرکے آئی تو بالاج کو وہاں ٹہلتا پایا وہ نظر انداز کرتی اپنی چادر لے کر مُڑی تو بالاج سے ٹکراتے ہوئے بچی ۔” زمل نے اپنی نظریں نیچے کرلی ۔
“ایکٹینگ اچھی کرلیتی ہو تم اور اسطرح خاموش رہ کر تم خود کو معصوم ظاہر نہیں کرسکتی ہو۔۔” بالاج کی نظرہں اُسکے بالوں پر تھی اُسکا چہرہ جھکا ہوا تھا ۔
“آپ چاہتے کیا ہیں بالاج۔۔؟” زمل نے بالاج کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
“تمہاری اصلیت سب کے سامنے آجائے یہ چاہتا ہوں۔۔”
“کون سی اصلیت بالاج اصل دیکھنے کی ضرورت تو آپکی ہے۔۔ جسے آپ پسند کرتے تھے اُسے چھوڑ کر مجھ سے شادی کرنے کا ناٹک جو آپ کررہے ہیں خود کو بھی اور دوسروں کو بھی صرف دھوکہ دے رہے ہیں اور جس دن آپکو اسکا احساس ہوگا نا تب صرف پچھتاوے کے علاوہ آپکے پاس کچھ نہیں بچے گا اور جس دن سب کو آپ کی یہ حقیقت معلوم ہوگی تب میں پوچھوں گی کہ اصلیت کُھلنے سے کیا ہوگا ۔” زمل کی آواز رندھ گئی تھی ۔
“جسٹ شٹ اپ۔۔ میرے پرسنل میں بولنے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں۔۔ ” بالاج کے غصے سے بولنے پر زمل نے خاموش رہنا ہی ٹھیک سمجھا اور وہ وہاں سے ہٹ گئی۔
****
“زمل شادی سے پہلے تو تم اتنا بولتی تھی لڑتی تھی اب کیا ہو گیا ہے۔ اچھا چلو یہ بتاؤ بھائی کی محبت میں یہ سب کررہی ہو یا پھر اُنکے ڈر سے۔۔؟ ” حماد زمل کے سامنے برجمان ہوتے ہوئے بولا ۔
“اور تم جب بھی بولنا فضول ہی بولنا۔۔ ” زمل سے پہلے انعم بول پڑی ۔
“تم چُپ ہی رہو تمہارا بھی انتظام ہورہا ہے بات ہوئی ہے پاپا سے۔۔ کتنا اچھا ہوگا تم بھی زمل کی طرح خاموش ہو جاؤ گی سکون آجائے گا اس گھر میں۔۔ ” حماد نے بھی حساب برابر کیا۔
“اتنا تھک جانے کے بعد تمہاری باتوں سے سر میں درد کروانے کا کوئی شوق نہیں ہے مجھے۔۔ ” زمل نے رکے بنا جواب دیا ۔
“بے وفا لڑکی۔۔ ” حماد زور سے بولا ۔
“تمہارا اثر ہے اُس پر بھی۔۔ “انعم نے ہنستے ہوئے کہا ۔
“تم نے ٹائم دیکھا ہے رات کا ایک بج رہا ہے جاؤ اپنے روم میں اب۔۔ ” حماد نے منہ بنا کر کہا ۔ انعم ہنستی ہوئی وہاں سے چلے گئی۔
****
“زمل تم ناراض ہو ہم سب سے۔۔؟” مدثر صاحب نے اپنے برابر میں ساتھ بٹھاتے ہوئے پوچھا۔
“نہیں۔۔ ” زمل نے چہرہ اوپر کیے بنا مختصر سا جواب دیا ۔
“پھر اتنی خاموش کیوں ہو اس بات پر۔۔؟ انہوں نے پوچھا ۔
“کیا کہوں میں ماموں۔۔؟ ” زمل نے اُلٹا سوال کیا اُن سے ۔
“میں جانتا ہوں تم یہاں سے جانا نہیں چاہتی ہو میں نے بالاج کو بہت سمجھایا ہے لیکن وہ مان ہی نہیں رہا ہے ضد پر آگیا ہے اسلام آباد ہی جا کر رہنا چاہتا یے۔۔ انعم کی شادی تک ہم نے خاموش رہنے کا سوچا ہے پھر ہم سب وآپس بلوا لیں گے اُسے۔۔ تم پریشان نہیں ہونا میں بہت شرمندہ ہوں تم سے۔۔ ”
“مجھے کسی سے کوئی شکوہ نہیں ہے ماموں آپ بھی شرمندہ نہیں ہوں۔۔ میں بابا سے بھی مل آؤں پھر صبح جانا بھی ہے۔۔ ” زمل وہاں سے اُٹھ گئی تھی ۔
“مدثر صاحب کے دل کو کچھ ہوا تھا یہ وہ زمل تو نہیں تھی جسے وہ جانتے تھے۔۔ شادی کو مہینہ ہوگیا تھا زمل بلکل خاموش ہوچُکی تھی وہ کچھ کہہ بھی نہیں رہی تھی کہ وہ کچھ کرتے اُس کے لیے بالاج کا بی ہیو بھی نارمل تھا ۔ اب بالاج کی اسلام آباد میں رہنے کی ضد نے اُنکو پریشان کردیا تھا اور اُسکی بات نہ ماننے کی صورت میں وہ زمل کو چھوڑ جائے گا اس لیے اُنکو خاموش ہونا پڑا وہ کوئی بھی فیصلہ غصے یا جذبات میں نہیں کرنا چاہتے تھے۔۔ ”
****
“مجھے بلکل بھی زمل کی سمجھ نہیں آرہی ہے مجھے لگا تھا کہ اسلام آباد جا کر رہنے والی بات پر وہ خوب واویلا کرے گی۔۔ لیکن وہ تو ایک لفظ نہیں بولی اُلٹا پاپا کے سامنے اپنا آپ عجیب لگ رہا ہے اُنکو دھمکی دے کر منایا یے ورنہ وہ تو اپنی لاڈلی کو دور بھیجنا چاہتے ہی نہیں ہیں۔” بالاج نے سگریٹ سلگاتے ہوئے کہا ۔
“بالاج اب بس کر جا ۔۔ وہ ایسی نہیں ہے جتنا تُو اُس کے ساتھ کررہا ہے برا۔۔ ” باری نے اسکے سامنے بیٹھتے ہوئے کہا ۔
“تم سب اُسکی چالاکی کو نہیں جانتے ہو کیا پتہ یہ بھی اُسکا ایک ڈرامہ ہو۔۔ ”
“بالاج ثناء ہمیں بتا چُکی ہے کہ زمل صرف انکل کے سمجھانے پر خاموش ہوئی تھی اُس نے بہت انکار کرنا چاہا تھا شادی پر بھی۔۔ پھر تم کیسے اُسے الزام لگا سکتے ہو اور اگر وہ ابھی خاموش ہے نا تو بھی اُسکی وجہ یہی ہے تم چھوڑ کیوں نہیں دیتے یہ سب۔۔ ”
بالاج خاموش رہا باری کی بات پر۔۔
****
“آپ نے کہا تھا مجھے نیو سیل لادیں گے۔۔ ” زمل نے مصروف بیٹھے بالاج سے پوچھا۔
“تمہاری سب سے بات ہو رہی ہے نا پھر کیا مسئلہ یے۔۔ ؟” بالاج نے اُسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو یہاں آکر ایک ہفتے سے ہی بیمار تھی ۔ اور سب کو کافی مس کر رہی تھی ۔
“کہنا کیا چاہتے ہیں آپ بالاج اب آپ کو میرے سیل رکھنے پر بھی پرابلم ہے۔۔؟ زمل نے حیرانگی سے پوچھا ۔
“اگر میں کہوں ہاں ہے تو۔۔؟ ” بالاج نے تیوری چڑھاتے ہوئے پوچھا ۔
“آپ بہت غلط کررہےہیں میرے ساتھ بالاج۔۔ ” زمل نے دُکھ سے کہا۔
“ابھی تو بہت کچھ برداشت کرو گی زمل تم نے جو بھی سوچ کر شادی کے لیے ہامی بھری تھی نا تمہیں اپنے فیصلے پر پچھتانے پر مجبور نہیں کردیا تو دیکھنا ۔” بالاج نے دل میں سوچتے ہوئے پھر سے اپنے کام میں مصروف ہوگیا ۔
****
“بالاج آپ اس حد تک جاسکتے ہو میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔۔ زمل کو یہاں آئے ایک مہینہ ہوگیا تھا اور وہ یہ بات بہت اچھی طرح سمجھ چُکی تھی کہ بالاج اُسے یہاں جان بوجھ کر سب سے دور تکلیف دینے کے لے کر آیا ہے اور وہ کہیں نا کہیں کامیاب بھی ہوگیا تھا اُسکی برداشت جواب دے رہی تھی لیکن اُسے برداشت کرنا تھا وہ بالاج کی حد دیکھنا چاہتی تھی وہ اب اُسکی برداشت کی حد ختم کرنا چاہتی تھی ۔
“گھر والوں سے دور کر کے اور سیل جان بوجھ کر توڑ دینے سے اُن سے رابطہ کم کروا کر بالاج نے سچ میں اُسکی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھا تھا۔۔ گھر والے اُسکی کمزوری تھے اور اُس نے اُنکو ہی دور کردیا تھا اور اسطریقے سے کسی کو ذرا بھی شک نہیں ہوسکتا تھا۔
“جب کسی کی کمزوری کا آپ کو معلوم ہوجائے تو آپ اُسکا فائدہ ضرور اُٹھاتے ہو چاہے محبت میں ہو یا نفرت میں۔۔ ”
****
“بالاج مجھے گھر میں بات کرنی یے مجھے سیل دے دیں اپنا۔۔ ”
“ابھی مجھے کام ہے بعد میں کرلینا بات۔۔ “بالاج نے اُسے ٹالنا چاہا۔
“”مجھے ابھی ہی کرنی یے میں جانتی ہوں آپ جان کر ایسا کر رہے ہیں تاکہ میں کسی سے بات نہیں کرسکوں۔۔ ” زمل نے غصہ دباتے ہوئے کہا ۔
“اگر ایسا سمجھتی ہو تو یہی سمجھو۔۔ “بالاج نے اُسکے سامنے کھڑے ہوتے ہوئے کہا ۔ اور سیل پر آنے والی کال ریسیو کی ۔
“وعلیکم اسلام۔۔ جی پاپا ۔۔” زمل کے برابر میں مسکراہٹ دیتے ہوئے اُسے دیکھا ۔
“نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے پاپا وہ خود نہیں لے رہی ہے اور بزی تو وہ اتنی ہوتی کہ میں خود بات کرنے کے لیے ترس جاتا ہوں کچھ کہوں گا تو آپ تک شکایت آجائے گی۔۔ ” بالاج نے اُسکے پیچھے کھڑے ہوکر سامنے مرر میں اُسکے چہرے کے اتار چڑھاؤ کو دیکھا۔ اور اس پہلے کے زمل کچھ کہنے کے لیے لب کھولتی بالاج نے اپنا ہاتھ اُسکے منہ پر رکھ دیا زمل کوشش کے باوجود اُسکا ہاتھ نہیں ہٹا سکی اور بالاج کے اتنے قریب کھڑے ہونے پر بے بسی سے اُسکی آنکھوں سے آنسو نکل کر بالاج کے ہاتھ میں جذب ہوگئے۔۔
“پاپا جیسے ہی وہ سوکر اُٹھے گی میں آپ کی بات کروا دوں گا ۔ خدا حافظ “۔ بالاج نے کال بند کرتے ہوئے اپنا ہاتھ بھی ہٹالیا ۔
“آئی ایم سوری ” بنا اُسکی طرف دیکھے بالاج وہاں سے چلاگیا ۔
زمل قالین پر بیٹھ گئی اور اپنے آنسوؤں کو بہنے دیا ۔
****
“کھانا تو بہت اچھا بنایا ہے آج آپ نے۔۔ ” بالاج نے لقمہ منہ میں رکھتے ہوئے کہا۔
“زمل بی بی نے اپنے ہاتھ سے بنایا ہے خود آج۔۔ ” رُکیہ بی نے مسکراہتے ہوئے بتایا ۔ بالاج کا منہ تک جاتا ہاتھ رُک گیا اور اُس نے واپس پلیٹ میں رکھتے ہوئے ماتھے پر تیوری لائی اور زمل کی طرف دیکھا ۔زمل نے نظریں جُھکا لی ۔
“رُکیہ بی یہ کام آپکا ہے اور آپ ہی کریں گی آئندہ مجھے کہنے کی ضرورت نہیں پڑے آپ کو اور میرے باقی کام بھی آپ خود کریں گی مجھے نہیں پسند اپنا کام ہر کسی سے کروانا۔۔ ” غصے سے کہہ کر بالاج وہاں سے چلاگیا ۔
“زمل سے اس قدر تذلیل پر اپنا چہرہ اوپر نہیں کیا گیا۔۔ آپ کھانا رکھ دیں رُکیہ بی ” زمل بنا اُنکی طرف دیکھے وہاں سے چلی گئی ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...