[ 9 ]
اس بلا نوش سے میری ملاقات رانچی کے سادھنا لاج میں ہو ئی اور دھند کی اگر آنکھیں ہوتی ہیں تو اس کی آنکھوں جیسی ہوں گی۔۔۔۔ اور دھند کا اگر چہرہ ہوتا ہے تو اس کا چہرہ بھی۔۔۔۔ !
کوئی پیاری سی چیز جیسے اس کے ہاتھ سے پھسل گئی تھی اور۔ زندگی کی دھند میں کہیں کھو گئی تھی۔۔۔۔ وہ سونی سونی سی آنکھیں لیئے۔۔ دور خلا میں کہیں تکتا رہتا تھا۔ وہ میرا روم میٹ تھا۔ ان دنوں میں رانچی میں تھا اور ہند پیڑی کے سادھنا لاج میں رہتا تھا۔ یہ مسلم لاج تھا۔ میرے روم میں دو بیڈ تھے۔
بلا نوش دن بھر باہر رہتا اور رات دس بجے ترنگ میں ڈوبا ہو لوٹتا۔ مجھے دیکھ کر آ ہستہ سے مسکراتا اور بستر پر گر کر خرّاٹے بھرنے لگتا۔ وہ کم بات کرتا تھا۔ لاج کے مکیں اس سے نفرت کرتے تھے کہ مسلمان ہو کر کھلے عام شراب پیتا ہے لیکن میرا جی کرتا کہ اس کے قریب جاؤں۔ میں اس سے میل جول بڑھانے لگا۔ میں جب بھی کمرے میں چائے بناتا اس کو ضرور پوچھتا۔ وہ پہلے تو انکار کرتا لیکن جب چائے بن جاتی تو پی لیتا تھا۔
رفتہ رفتہ وہ میرے قریب ہونے لگا تو میں نے پوچھا کہ وہ اتنی شراب کیوں پیتا ہے ؟ میرے سوال پر کچھ دیر خاموش رہا۔ پھر سگریٹ سلگائی اور لمبا سا کش لیتے ہوئے مجھ سے پوچھا۔
’’تم نے کبھی محبّت کی ہے ؟‘‘
’’محبّت ہر آدمی کی زندگی میں ایک بار دستک دیتی ہے۔‘‘ میں نے بھی فلسفی کی طرح جواب دیا۔
’’لیکن بزدل کو محبّت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘ اس نے سگریٹ کا دوسرا کش لگایا۔
’’محبّت اگر سچّی ہے تو حوصلہ بھی آ جاتا ہے۔‘‘
وہ جذباتی ہو گیا اور کانپتے لہجے میں بولا۔ ’’محبّت ہمیشہ سچّی ہوتی ہے۔ آدمی جھوٹا ہوتا ہے۔ بزدل اور نا اہل کے دروازے سے محبّت ہمیشہ ذلیل ہو کر لوٹتی ہے۔‘‘
اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ ’’مجھے شراب چاہیئے۔‘‘
اس نے بیگ سے وہسکی کی بوتل نکالی۔ ایک پیگ میرے لئے بھی بنایا اور اپنا گلاس ایک ہی سانس میں خالی کر دیا۔
’’آپ کی زندگی میں کیا ہوا ؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’میری زند گی میں۔۔۔۔ ؟‘‘ وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا۔ اس کی آنکھیں سپنیلی ہو گئیں۔ وہ دور خلا میں کچھ ڈھونڈنے لگا۔ اس نے دوسرا سگریٹ سلگایا، دو تین کش لگائے اور مجھ سے مخاطب ہوا۔
’’مجھے ایک لڑکی سے پیار تھا۔‘‘
’’پھر۔۔۔۔ ؟‘‘ میری دلچسپی بڑھی۔
’’میں اس کے لئے دروازے نہیں کھول سکا۔‘‘
میں چپ رہا۔ اس نے اپنے لئے دوسرا پیگ بنایا۔ لیکن اس بار ایک ہی سانس میں گلاس خالی نہیں کیا۔ ایک لمبا گھونٹ بھرتے ہوئے بولا۔
’’میرے باپ نے اس سے شادی نہیں ہونے دی۔‘‘
کیو ں۔۔۔۔ ؟‘‘
اس نے دونوں ہاتھ جیب میں ڈالے اور نوٹوں کا بنڈل نکالا۔ اس کی مٹھیوں میں سوسو اور پچاس کے نوٹ پھنسے ہوئے تھے۔ میرے چہرے کے آگے نوٹ لہراتا ہوا بولا۔
’’پیسوں کے لئے میری شادی ہونے نہیں دی۔۔۔۔ پیسوں کے لئے۔۔۔۔‘‘ اور اس نے دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپا لیا اور سسک سسک کر رو پڑا۔ میں اسے حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ اس کے آنسو تھمے تو ٹوٹے ہوئے لہجے میں بولا۔
’’میں بزدل تھا۔ میں بغاوت نہیں کر سکا۔ وہ جہاں چاہتے تھے میں نے شادی کر لی اور جانتے ہو آگے کیا ہوا ؟‘‘
’’کیا۔۔۔۔ ؟‘‘
’’میں نے اس کا گھونگھٹ الٹا تو وہ زور سے چلّائی ’’ہاوں۔۔۔۔۔ !‘‘ اور میرا منھ نوچ لیا‘‘
’’ارے۔۔۔ ؟ کیوں۔۔۔۔ ؟‘‘ میں چونک پڑا۔
’’وہ پاگل تھی۔۔۔۔ پاگل۔۔۔۔ اس کو ہسٹریہ تھا۔‘‘ وہ پھر رونے لگا۔
’’آپ کو پتہ نہیں تھا وہ پاگل ہے ؟‘‘
اس نے انکار میں سر ہلایا اور میز پر مکّا مارتے ہوئے زور سے بولا۔ ’’لیکن میرے باپ کو پتہ تھا۔ اس نے پانچ لاکھ روپے اس شادی کے لئے تھے۔‘‘
میں سوچ رہا تھا کہ باپ کا رول اکثر ویلن کا ہوتا ہے۔ اس وقت پانچ لاکھ روپے کی قیمت کیا رہی ہو گی ؟
تیسرا پیگ ختم کرنے کے بعد وہ دکھ بھرے لہجے میں بولا۔
’’تم نے میرے گھاؤ ہرے کر دیئے۔ میں پی کر سب کچھ بھول جاتا ہوں اور لوگ پوچھتے ہیں میں کیوں پیتا ہوں ؟‘‘
وہ واقعی پی کر سب کچھ بھول جاتا تھا۔ اسے کچھ یاد نہیں رہتا تھا۔ کئی بار وہ غلطی سے دوسرے کمرے میں چلا گیا تھا اور وہاں سے دھتکار کر نکالا گیا تھا۔
میں نے آگے کچھ نہیں پوچھا۔ اس نے خود بتایا کہ وہ اسی رات گھر سے نکل گیا، بیس سال ہو گئے۔ آج تک لوٹ کر نہیں گیا لیکن ان لوگوں کو برابر پیسے بھیجتا رہتا ہے۔
جب سپنے چوری ہوتے ہیں تو دل کے مقام میں ننھا سا سوراخ ہو جاتا ہے جو کبھی نہیں بھرتا۔ پانچ لاکھ کی رقم نے اس کے دل میں گہرا شگاف کیا تھا جسے وہ شراب سے بھرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
رمضان کا مہینہ آیا تو لڑکوں نے میٹنگ کی کہ میس میں کھانا نہیں بنے گا لیکن افطار کا نظم ہو گا۔ ایک لڑکے نے سحری کے وقت سب کو اٹھانے کی ذمہ داری لی۔ شرابی نے کہا کہ اسے بھی اٹھایا جائے کہ وہ بھی روزے رکھے گا۔ لڑکوں نے اسے نفرت سے دیکھا۔۔۔۔ ’’سالا۔۔۔۔۔ پیکّڑ۔۔۔۔‘‘!
سحری کے وقت ایک لڑکا مجھے اٹھانے آ یا تو میں نے کہا۔ ’’اسے بھی اٹھاؤ۔۔۔ وہ بھی روزہ رکھے گا۔‘‘
لڑکے نے سرگوشی میں کہا ’’آپ پاگل ہیں ؟ اسے آپ اٹھانے کہہ رہے ہیں۔۔۔ ؟ اس شرابی کبابی کو۔۔۔ ؟ ایسے گناہ گار آدمی سے اللہ بچائے۔‘‘
اس گناہ گار کی نیند ٹوٹ گئی۔ وہ اٹھ گیا۔ اس نے بتّی جلائی۔ اچانک روشنی ہونے سے میں نے اپنی آنکھیں میچیں تو ’’سوری‘‘ کہتے ہوئے اس نے فوراً روشنی گل کر دی۔ پھر ٹارچ جلا کر وقت دیکھا اور آہستہ سے بڑبڑایا ’’ابھی وقت ہے۔‘‘ اور سرہانے سے شراب کی بوتل نکالی۔ بوتل خالی تھی۔ بس پیندی میں دو چار بوند شراب بچی ہوئی تھی۔ گناہ گار نے بسم اللہ کہا اور بوتل منھ سے لگا لی۔ گناہ گار نے دو بوند شراب سے سحری کی۔ دن بھر روزہ رکھا اور شام کو افطار بھی شراب سے کیا۔ معلوم ہوا وہ بیس سال سے اسی طرح روزے رکھ رہا ہے۔ لیکن لاج میں کہرام مچ گیا توبہ۔۔۔۔۔ توبہ۔۔۔۔ چھی۔۔۔۔ چھی۔۔۔۔ روزے میں شراب۔۔۔۔ ؟ شراب سے سحری۔۔۔۔ شراب سے افطار۔۔۔۔ لا حول ولا قوۃ۔۔۔۔ نکالو مردود کو۔۔۔۔۔‘‘
لاج کا مالک صبح صبح آیا۔ گناہ گار چادر تان کر بے خبر سو رہا تھا۔ مالک نے زور سے چادر کھینچی اور ڈپٹ کر بولا۔
’’اے صاحب۔۔۔ نکلئے یہاں سے۔۔۔۔ کمرہ خالی کیجیئے۔۔۔۔ !‘‘
وہ گھبراتے ہوئے اٹھا اور بہت آہستہ سے بولا۔ ’’اچھی بات ہے۔ خالی کر دیتا ہوں !‘‘
وہ اپنا سامان باندھنے لگا۔ مجھے لاج کے مالک پر غصّہ آ رہا تھا۔ میں احتجاج کرنا چاہتا تھا لیکن اس نے مجھے روک دیا۔
’’جانے دیجیئے۔۔۔۔ !‘‘
’’کیوں جانے دوں۔۔۔ ؟ اس نے آپ کی بے عزّتی کی۔‘‘
وہ دھیرے سے مسکرایا۔ ’’آپ نے دیکھا نہیں وہ کتنا خوش تھا ؟ ایک آدمی مجھے بے عزّت کر کے اگر خوش ہوتا ہے تو ہونے دیجیئے۔ کم سے کم کوئی تو مجھ سے خوش ہوا۔ میرا کیا ہے ؟ میں کہیں بھی جا کر رہ لوں گا۔‘‘ ‘
اس نے خاموشی سے سامان باندھا اور چلا گیا۔
لاج والے بہت خوش تھے۔ میں نے انہیں سمجھانا چاہا کہ شراب اس کے ہاتھوں میں اپنی اصلیت کھو چکی تھی۔ شراب شراب نہیں رہ گئی تھی بلکہ اس کے لئے زندگی کی بہترین چیز تھی۔ وہ زند گی کی بہترین چیز سے سحری کرتا تھا اور بہترین چیز سے افطار کرتا تھا۔ شراب پینے کی سزا اس کو مل سکتی تھی لیکن وہ روزے کے ثواب کا بھی اتنا ہی حق دار تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مجھے بھی لاج خالی کرنے کا فرمان ملا۔ ان دنوں ہند پیڑی میں صدّیق مجیبی رہتے تھے۔ میں نے انہیں بتایا کہ مجھے لاج سے نکالا جا رہا ہے تو وہ آگ بگولہ ہو گئے۔ لاج میں آ کر چیخنا شروع کیا۔
’’کون ہے مائی کا لال جو شموئل کو نکالنا چاہتا ہے ؟ ایک ایک کو چیر کر رکھ دوں گا۔‘‘ لڑکے ڈر گئے۔ کوئی اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلا۔ مجیبی نے لاج کے مالک کو بھی دھمکی دی۔ ’’حضرت ! اگر آپ نے میرے دوست کو لاج چھوڑنے پر مجبور کیا تو آگ لگا دوں گا۔‘‘
کسی کی ہمّت نہیں ہوئی کہ مجھے کچھ کہتا۔ ان کا یہ روپ میں نے پہلے نہیں دیکھا تھا اور پھر تو میں نے ان کے کئی روپ دیکھے۔
مجیبی ان دنوں تک بندی کرتے تھے۔ کہیں مشاعرے میں جاتے تو سبھی ان کا مذاق اڑاتے۔ خاص کر وہاب دانش اور پر کاش فکری تو ان کے پیچھے پڑے رہتے تھے۔ لیکن ان میں گاڑھی چھنتی بھی تھی۔ تینوں ہم پیالہ ہم نوالہ تھے۔ ان کی تکڑی مشہور تھی۔ تینوں بلا نوش۔۔۔۔ ان کی بلا نوشی نے انہیں ایک دوسرے سے باندھ رکھا تھا۔ میں اکثر ان کے ساتھ ہوتا تھا۔ شام والی محفلوں میں گرچہ میں ساتھ نہیں ہوتا تھا لیکن ان کے ساتھ سڑکوں پر مٹر گشتی کرتا۔۔۔ ریستوراں میں چائے پیتا اور قہقہے لگاتا۔ لوگوں کو حیرت تھی کہ مجھ جیسا شخص ان سڑک چھاپ لوگوں کے درمیان کیا کرتا ہے ؟ ان کی کوئی سماجی حیثیت نہیں تھی لیکن ادب میں ان کی شہرت تھی۔ وہاب دانش اور پر کاش فکری جدید شاعری میں اپنی شناخت بنا چکے تھے۔ میری بھی کہانیاں چھپنے لگی تھیں۔ ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا میری مجبوری تھی۔ اور کسی سے میری جان پہچان نہیں تھی۔ ایک اختر یوسف تھے جن سے میری دوستی تھی لیکن وہ الگ تھلگ رہتے تھے۔ تب میں ہندی میں نہیں لکھتا تھا اور اردو سماج ہی میری دنیا تھی۔
بلا نوش جب ترنگ میں ہوتے تو خوب ادھم مچاتے۔ وہاب دانش زور زور سے گاتا ، فکری تالی بجا بجا کر ہنستے اور مجیبی کی چال بدل جاتی۔۔ وہ چیتے کی طرح چلتے اور راہ گیروں کو گھور کر دیکھتے۔۔ فکری جس زور سے ہنستے ہنسی کی آواز اتنی ہی مدھم ہوتی تھی۔ میں نے اپنے ناول گرداب میں درجات کی جس ہنسی کا ذکر کیا ہے وہ فکری کی ہنسی ہے۔ میں وہاب دانش سے دوری بنائے رکھتا تھا لیکن فکری مجھے معصوم لگتے۔ ان سے پہلی بار ان کے گھر پر ملا تھا۔ تب وہ بخار میں پھنک رہے تھے لیکن مجھ سے ملنے باہر آئے۔ ان کی آنکھوں میں پگھلتی موم سا دکھ تھا اور چہرے پر عجیب سی سادگی۔ ان کو دیکھ کر جی میں آیا پیٹھ پر ایک دھپ لگاؤں کہ یار۔۔۔۔ یہ بخار وخار کیا ہوتا ہے۔۔۔۔ ؟ چل کسی ریستوراں میں چائے پیتے ہیں۔
رانچی میں جب فساد ہوا تھا تو کرشن چندر نے انہیں خط لکھا تھا وہ فساد کی تفصیل جاننا چاہتے تھے تا کہ ایک افسانہ لکھ سکیں۔ فکری نے جواب میں لکھا کہ ہمارا گھر جل رہا ہے اور آپ اپنی روٹی سینکنا چاہتے ہیں۔ فکری نے ایک شعر کہا تھا۔
خنجر بہ کف تھے لوگ کھڑے اس کے ارد گرد
نکلا نہ ایک شخص بھی اپنے مکان سے
ان دنوں مجیبی کی اردو غزل میں کوئی پہچان نہیں بنی تھی۔ لیکن مقامی مشاعروں میں حصّہ لیتے تھے۔ ایک بار بہت ہو ٹنگ ہوئی۔ اس نشست میں میں بھی موجود تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ لوگ آپ پر آواز کستے ہیں اور آپ خاموش رہتے ہیں۔ مجیبی مسکراتے ہوئے بولے۔
’’ایک جنگجو پنجڑے میں بند ہے۔ کچھ لوگ آتے ہیں اور اسے لکڑی چبھوتے ہیں۔ جنگجو خاموش ہے۔ پھر ایک سپاہی ننگی تلوار لے کر آتا ہے اور تلوار کی نوک جنگجو کے سینے میں پیوست کرنا چاہتا ہے۔ جنگجو کی آنکھیں چمک اٹھتی ہیں کہ اس کی چیز آئی۔۔۔ شمشیر برہنہ جو اس کی پہچان ہے۔ وہ مسکراتا ہے اور تلوار دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیتا ہے۔ سپاہی تلوار اپنی طرف کھینچتا ہے اور جنگجو اپنی طرف۔۔۔۔ کھینچا تانی میں جنگجو کے ہاتھ زخمی ہو رہے ہیں۔ خون کی دھار بہہ رہی ہے اور جنگجو مسکرا رہا ہے۔ اس کی آنکھوں کی چمک گہری ہو رہی ہے۔۔۔ !‘‘
’’تو شمو ئل۔۔۔ یہ چھٹ بھیئے سالے مجھے چھیڑتے ہیں تو ان کو کیا کہوں۔ ؟ میں جنگجو ہوں اور یہ نالی کے کیڑے۔۔۔ آئے کوئی با ہو بلی تو شیر کی دہاڑ سنو۔۔۔۔ ٓ‘‘
اور میں نے شیر کو دہاڑتے ہوئے دیکھا۔۔۔۔۔ !
وہ ایک سرمئی شام تھی۔ ہم انڈیا ہوٹل میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ ایک با ہو بلی آ کر پیچھے بیٹھ گیا۔ مجیبی بہت اچھے موڈ میں تھے اور اپنا ہی شعر گنگنا رہے تھے۔ با ہو بلی نے پیچھے سے آواز کسی اور غضب ہو گیا۔ مجیبی اچانک پیچھے مڑے اور زور سے گرجے۔
’’ارے مادر۔۔۔۔ تیری ہمّت کیسے ہوئی مجھ پر آواز کسنے کی ؟ ارے حرام زادہ تجھے معلوم ہے میں کون ہوں ؟ ابے سالے اتنا ماروں گا کہ تیری کھو پڑی تیرے انڈ کوش میں گھس جائے گی۔۔۔۔ ارے مادر۔۔۔۔‘‘
مجیبی آگ بگولہ تھے۔ سڑی سڑی گالیاں دے رہے تھے اور وہ سکتے میں تھا۔ اس کے منھ سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا تو مجیبی نے اسے پھٹکارا۔ ’’ارے سالا۔۔۔۔ کچھ تو بول۔۔۔۔ کچھ تو پروٹسٹ کر۔۔۔۔ کم سے کم میرا کالر ہی پکڑ۔۔۔۔‘‘
لیکن وہ اسی طرح چپ رہا تو مجیبی نے زمین پر تھوکا۔ ’’میں کس نا مرد سے الجھ پڑا۔۔۔۔ چھی !‘‘ اور میرا ہاتھ پکڑ کر ہوٹل سے باہر آ گئے۔
ایک بار وہ اردو کے کسی پروفیسر سے الجھ گئے۔ باتوں ہی باتوں میں مجیبی نے کہہ دیا کہ اردو میں ایم۔ اے۔ کریں گے اور ٹاپ کر کے دکھائیں گے۔ پروفیسر ہنسنے لگا۔ اس کی ہنسی مجیبی کے دل میں گڑ گئی۔ بس انہوں نے رانچی یونیور سٹی کا فارم بھرا۔ بہت ساری کتا بیں خریدیں اور کمرے میں بند ہو گئے۔ ان سے ملا قاتیں کم ہونے لگیں۔ وہ رات دن پڑھائی میں لگے رہتے۔ ملاقات ہوتی تو میں کہتا کہ ایسا بھی کیا جان دینا۔ وہ بس اتنا ہی کہتے کہ بات منھ سے نکل گئی کہ ٹاپ کرنا ہے تو کرنا ہے۔ مجیبی کے سات بچّے تھے۔ امتحان کا وقت قریب آیا تو بیوی پھر امید سے تھی۔ شاید قدرت بھی مجیبی کا امتحان لے رہی تھی۔ بیوی بیمار رہنے لگی اور جس دن امتحان شروع ہوا اسی دن۔۔۔۔
۔ اسی دن مر گئی۔ میّت گھر میں پڑی رہی اور مجیبی کمرے سے باہر نہیں نکلے۔ جنازے کو کندھا نہیں دیا اور امتحان دینے چلے گئے۔ وہاں سے لوٹے تو بیوی دفن ہو چکی تھی۔ قبر سے لپٹ کر رات بھر روتے رہے۔
امتحان کا نتیجہ نکلا تو مجیبی فرسٹ کلاس فرسٹ تھے۔ ان کا ایک شعر ہے
اپنا سر کاٹ کر نیزے پر اٹھائے رکھا
صرف یہ ضد کہ مرا سر ہے تو اونچا ہو گا
مجیبی رانچی یونورسٹی میں پروفیسر ہوئے۔ اردو غزل میں بہت تیزی سے اپنا مقام بنایا۔ بہار اردو اکاڈمی کے وائس چیر مین بھی رہے۔ ایک آدی باسی حسینہ کی زلفوں کے اسیر تھے۔ وہ بہت کالی تھی۔ میں ان سے کہتا تھا کہ اتنی کالی کہاں سے پکڑی تو مجیبی مسکراتے اور کہتے کہ عورت کا حسن چہرے پر نہیں دیکھو۔ رات کے اندھیرے میں سبھی چہرے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ عورت کا حسن کانوں کی آہستہ آہستہ ہلتی بالیوں میں ہوتا ہے جب وہ تمہارے لئے روٹیاں بیلتی ہے۔
مجیبی نے اپنی زندگی جی۔ جو اپنی زندگی جیتے ہیں سماج ان سے خار کھاتا ہے۔
ہر آدمی دو زندگی جیتا ہے۔ ایک وہ جو جینے پر مجبور ہے اور دوسری جو جی نہیں سکا تو اپنی دا خلیت میں جیتا ہے۔ داخلیت کی دنیا بہت وسیع ہے ادب اسی دنیا کی بازیافت ہے۔ اندر کے آدمی کو جاننا ہے تو افسانوی ادب سے ہو کر گذرنا پڑے گا۔
اپنی زندگی جینے کی چاہ رکھنے والی تسنیم سے میری ملاقات پٹنہ میں ہوئی۔ وہ ویلنٹا ئن ڈے تھا۔ صبح صبح ایک فون آیا۔
’’ہیلو !‘‘
’’ہیلو !‘‘
ہیپّی ویلنٹائن ڈے !‘‘
ہیپّی ویلنٹائن‘‘
’’مجھ سے دوستی کرو گے۔۔۔ ؟‘‘ مجھے لگا کوئی خواب میں پکار رہا ہے۔ آواز کہیں دور سے آتی معلوم پڑی۔ کھنکتی سی آواز۔ ..۔ .مجھے یقین تھا اس کی عمر بیس سے زیادہ نہیں ہو گی۔
’’میری عمر زیادہ ہے۔‘‘
’’دوستی کا تعلّق عمر سے نہیں ہوتا۔ دوستی کسی بھی عمر میں ہو سکتی ہے۔‘‘ ادھر سے آواز آ ئی۔ میں مسکرایا۔ گویا وہ گلو بل و لیج میں سانس لے رہی تھی۔ میں نے اسے لورز پوائنٹ پر بلایا لیکن اس دن نہیں۔۔۔ اس دن بجرنگ دل والے گھومتے تھے کہ انہیں سنسکر تی خطرے میں پڑتی نظر آتی تھی۔ اس نے شہر بہت دیکھا نہیں تھا۔ لورز پوائنٹ کا لوکیشن اس کی سمجھ میں نہیں آیا۔ اس نے مجھے موریہ لوک میں بلایا۔ میں نے پوچھا پہچانو گی کیسے تو ہنس کر بولی کہ میری آنکھوں سے مجھے پہچانے گی کہ ان میں ایک تجسس ہو گا۔۔۔۔ میں سبھی آنے جانے والی لڑکیوں کو پر شوق نظروں سے دیکھوں گا۔ میں نے کہا اس کی مسکراہٹ سے پہچانوں گا کہ مجھے دیکھتے ہی اس کے ہونٹوں پر دھوپ جیسی مسکراہٹ پھیل جائے گی۔ اس جیسی لڑکیاں کسی سے مل کر خوش ہوتی ہیں تو چپ نہیں رہتیں۔ ان کی مسکراہٹ اور دمکتا ہوا چہرہ ان کے دل کا حال بیان کرتا ہے۔ تب وہ زور سے ہنسی اور بولی کہ اسے خوشی ہے کہ دوست کے انتخاب میں اس نے کوئی غلطی نہیں کی۔
وہ موریہ لوک آئی۔۔۔۔ اور میں سکتے میں ا ٓ گیا۔۔۔۔ !
وہ بے حد حسین تھی میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔
مجھے ودّیا پتی کا شعر یاد آتا ہے جس کی تفسیر کچھ اس طرح ہے کہ
رادھے !
چاند کی چوری ہو گئی ہے۔
پولیس چاند کو ڈھونڈ رہی ہے
تم چہرہ ڈھک کر رکھنا۔۔۔۔ !
اس نے پوشاک بہت قیمتی پہن رکھی تھی۔ سرمئی رنگ کا شلوار سوٹ۔ آستین گردن اور دامن پر چاندی کے تاروں سے کیا ہوا بہت باریک کام۔ سر بھی سرمئی رنگ کے اسکارف سے ڈھکا ہوا تھا۔ ہونٹ ایکدم سرخ تھے اور گالوں پر سورج جیسے ڈوبتے ڈوبتے تھم گیا تھا۔ اس نے کوئی میک اپ نہیں کیا ہوا تھا۔ آنکھوں میں کہیں کاجل کی مدھم سی لکیر بھی نہیں تھی لیکن پلکوں کی گھنی چلمن لئے غضب کی سیاہ آنکھیں تھیں اور ان میں دھوپ کا اجالا بھی اتنا ہی تھا۔ اس کے حسن میں چاندنی کی ٹھنڈک کے ساتھ اگتے سورج کی کہیں ہلکی سی تپش بھی شامل تھی۔ اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا کہ کہاں چلنا ہے تو میرے دل کی دھڑکن بڑھ گئی۔ اس کی چال میں عجیب سی مدہوشی تھی۔ اک ذرا بھاری کولہے۔۔۔۔ کمر میں ہلکی سی لوچ۔۔۔۔ نتمبوں میں مدھم مدھم سی تھرکن۔۔۔۔۔ گل مہر کی ٹہنی ہوا میں جیسے دھیرے دھیرے ہل رہی ہو۔ میں خوف سے بھر گیا۔ اگر کسی با ہو بلی کی نظر پڑ گئی تو۔۔۔۔۔ ؟
اصل میں کچھ دن پہلے ایک جین لڑکی کا یہاں کے ایم ال اے اور اس کے گرگے نے مل کر گورنمنٹ گیسٹ ہاوس میں گینگ ریپ کیا تھا۔
مجھے خدا عورت کا طرف دار نظر نہیں آتا۔ اس نے عورت کو پیغمبر نہیں بنایا اور دروپدی کے لئے سورگ کے دروازے بند کر دیئے۔ دروپدی سماج میں عورت کے استحصال کی معراج ہے۔ موپاساں کی ایک کہانی یاد آتی ہے ’’بال آف فیٹ‘‘ کہانی میں جنگ کا زمانہ ہے۔ ایک طوائف بگھی میں بیٹھی کسی محفوظ جگہ کو جا رہی ہوتی ہے۔ ساتھ میں کچھ رئیس بھی ہیں۔ طوائف ناشتے کی باسکیٹ نکالتی ہے تو دوسرے بھی شئر کرتے ہیں۔ راستے میں دشمن کے سپاہی بگھی روک لیتے ہیں۔ کمانڈر اس شرط پر انہیں تحفّظ دیتا ہے کہ وہ طوائف کو اس کے پاس بھیجیں۔ طوائف میں خود داری ہے۔ وہ کسی بھی قیمت پر دیش کے دشمن کا پہلو گرمانا نہیں چاہتی لیکن بگھی میں تشریف فرما بورژوا اپنی جان بچانے کے لیئے اسے دشمن کا بستر گرم کرنے کے لئے مجبور کرتے ہیں اور جب وہ کمانڈر کے پاس سے لوٹ کر آتی ہے تو یہی لوگ اسے نفرت سے دیکھتے ہیں اور اس کی نفی کرتے ہیں۔ پہلے استعمال کیا پھر ردّ کیا۔
شاید خدا کو دروپدی کی یہ بات بری لگی کہ اس نے اپنے بال کھلے رکھے اور مردانہ سماج سے انتقام لیا۔ ایک عورت کا اتنا کٹھور قصد کہ مرد کے خلاف سینہ بہ سپر ہو۔۔۔ ؟ خدا نے اس کی سزا دی۔ یو دھشٹر کے کتّے کو سورگ جانے دیا اور دروپدی کے لئے دروازے بند کر دیئے۔ یو دھشٹر جب کہتے ہیں کہ دروپدی ارجن کے پاس زیادہ رہی تو اس میں محض ایک مرد کا حسد نہیں جھلکتا بلکہ اس سے زیادہ اپنے برتر ہونے کا احساس بھی چھپا ہوا ہے۔
خدا نے انسان کو بنایا تو اس کو سر کی بلندی عطا کی۔ دوسرے مخلوق کی ساخت اس طرح بنائی کہ اس کا سر دھرتی کی طرف جھکا دیا یعنی پستی کی طرف اور آدمی کو پیروں پر کھڑا کیا تا کہ سر اٹھا کر فلک پر نظر جما سکے۔ لیکن عورت آدمی کی پسلی سے خلق ہوئی۔۔۔۔ جسم کے اس حصّے سے جو سر کے قریب نہیں ہے یعنی وہ حصّہ جو عظمت کا اشاریہ نہیں ہے۔ گویا مرد نے اپنی تخلیق میں ہی عورت پر برتری حا صل کی۔ عظمت کا یہ احساس مرد کی سائکی کا حصّہ ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ارسطو کو عورت ارتقا کی نچلی سیڑھی پر نا مکمّل مرد کی طرح کھڑی نظر آتی ہے۔
نطشے نے لکھا ہے کہ مرد اور عورت کی یہ جنگ ابدی ہے اور امن اسی وقت ہے جب ایک کی برتری کو دوسرا قبول کر لے۔ عورت کی درگتی جو آدی گرنتھوں میں ہوئی اس کی مثال کہیں مشکل سے ملے گی۔ تلسی داس نے تو اسے گنوار اور پشو کے کھاتے ہی میں ڈال دیا۔ کتھا سرت ساگر کے تخلیق کار نے بھی طرح طرح سے رسوا کیا ہے۔ کتھا سرت ساگر میں ہی آیا ہے کہ عورت کو ناک نہیں ہوتی تو بشٹھا کھاتی۔ کتھا سرت ساگر کا مصنّف عورت کی بے وفائی کو جنسی شہوت سے جوڑتا ہے۔ لکھتا ہے کہ نفسانی خواہشات کی تکمیل میں عورت نچلی سطح پر چلی جاتی ہے بلکہ تہہ خانے میں بھی بند ہو تو اپنا یار ڈھونڈ لیگی چاہے کوڑھی اور اپاہج ہی کیوں نہ ہو۔ وشنو پران میں آیا ہے کہ عورت نیچ پرانی ہے اور ان سے زیادہ گنا ہوں میں ملوث دوسرا نہیں ہوتا۔ گنا ہوں میں ان کا پلڑا ہمیشہ بھاری ہوتا ہے۔
ہمارے سماج میں عورت کی حیثیت ابھی بھی تصرّف میں آنے والی جنس کی طرح ہے۔ صارفی کلچر نے عورت کو جلد کی حیثیت دی ہے۔ زور اس بات پر ہے کہ دکھنا کیسے ہے۔۔۔۔ ؟ تم وہی ہو جو دکھو گی۔ تم جو ہو وہ مت دکھو۔ اس میں کشش نہیں ہے۔ تمہاری ایڑیاں پھٹی ہوئی ہیں۔۔۔۔ تمہاری جلد جھلسی ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ کش کے لئے چمچماتی ہوئی جلد چاہیئے۔۔۔۔ صاف اور چمک دار۔۔۔۔ ! اس لئے ہماری کریم استعمال کرو۔۔۔۔ ! سدھیش پچوری کے لفظوں میں صارفی کلچر عورت کو عزّت نہیں دیتا اسے پرکشش بنا کر اس کی کھال بیچتا ہے ٹی وی سیریلوں اور اشتہارات میں کردار ہمیشہ بورژوا طبقے کے ہوتے ہیں۔ عالیشان مکان۔۔۔۔ خوب صورت عورتیں۔۔۔۔۔ قیمتی لباس اور زیور سے آراستہ۔۔۔۔ ! یہاں عورت کو ہی عورت کے حق میں چڑیل دکھایا جاتا ہے جہاں سب کا مرد کسی نہ کسی سے پھنسا ہوتا ہے اور اپنے پھنسے ہونے کا جواز پیش کرتا ہے اور اسے دیکھتی ہیں نچلے متوسط طبقے کی عورتیں۔ ان کے رنگ و روپ پر موہت ہوتی ہیں اور ان کی طرح دکھنا چاہتی ہیں۔ اس آ کرشن کو سماج قبول کر چکا ہے۔
نطشے نے لکھا ہے کہ محبّت کو مرد زندگی میں جزوی چیز سمجھتا ہے لیکن عورت محبّت کو جسم اور روح کا مکمّل عطیہ سمجھتی ہے۔ بالمکی رامائن میں آیا ہے کہ سیتا کو رام پر فخر ہے۔ وہ راون کو یہ کہہ کر دھتکارتی ہے کہ اندر کی سچی کا اغوا کر بچنا ممکن ہے لیکن رام کی سیتا کا اغوا موت کو دعوت دینا ہے۔ سیتا سمجھتی رہی کہ جنگ اس کی خاطر ہوئی لیکن رام کہتے ہیں ’’جنگ تمہارے لیے نہیں کیا، جس وجہ سے میں نے تمہیں نجات دلائی ہے وہ مقصد پورا ہو گیا۔ تم میں میری اب کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ جہاں جی چاہے چلی جاؤ‘‘
المیہ یہ ہے کہ اگنی پرکچھا کے بعد بھی مردانہ سماج میں عورت کو خود کشی کرنی پڑتی ہے۔
اندر نے گوتم منی کا روپ دھارن کر اہلیہ کا ریپ کیا۔ اصلی منی جب کٹیا میں لوٹے تو اہلیہ سمجھ گئی کہ اندر نے چھل کیا۔ اس نے منی کو ساری باتیں سچ سچ بتا دیں۔ منی بھی تو مرد تھے کیسے برداشت کرتے۔ کرودھ میں آ گئے منتر پڑھا اور اہلیہ کو پتّھر بنا دیا۔ عمرانہ کو اس کے سسر نے ریپ کیا۔ مولانا نے فتویٰ پڑھا اور عمرانہ حرام ہو [ پتھر ] ہو گئی۔ اہلیہ سے عمرانہ تک کچھ نہیں بدلا۔ سماج وہی ہے مرد وہی ہے عورت کا درد وہی ہے۔ فرق اتنا ہے کہ سورگ کے دیوتا کی جگہ آج ستّا کے دیوتا نے لے لی ہے۔ سورگ کے دیوتا خود چل کر آتے تھے۔ ستّا کے دیوتا کو خود جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ وہ عورت کو اٹھوا لیتا ہے اور ستّا گھر میں گینگ ریپ کرتا ہے۔ ایک نام چین پولس افسر نے ایک آی۔ اے۔ اس۔ عورت کے کولہے سہلائے تو اسے دو لاکھ جرمانہ بھرنا پڑا۔ آئی اے اس خاتون کے کولہوں کی قیمت تو دو لاکھ ٹھہری، عام عورت کے اندام نہانی کی کیا قیمت ہے جسے قلعہ سمجھ کر نام چین چڑھائی کرتے ہیں ؟
اور اس جین لڑکی کے ساتھ کیا ہوا ؟ بہت جی جلتا ہے جناب یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے۔ ستّا کے سادھو نے اسے فریزر روڈ سے اٹھا لیا اور گورنمنٹ گیسٹ ہاوس میں اجتماعی ریپ کیا۔ یہاں البرٹو موراویہ کی ایک کہانی کا ذکر کرنا چا ہوں گا۔ کچھ کلین ایک لڑکی کو ہوٹل میں لاتے ہیں۔ اسے ننگا کرتے ہیں اور سب ایک ساتھ اس کو بھنبھوڑنا شروع کرتے ہیں۔ کوئی ٹانگوں سے لپٹ جاتا ہے کوئی پیٹ پر بیٹھ جاتا ہے کوئی چھاتیوں میں دانت گڑاتا ہے کوئی کولھے مسلتا ہے کوئی جانگھ سہلاتا ہے کوئی ہونٹوں کو کاٹتا ہے لڑکی چیخ رہی ہے اور بورژوا مزہ لے رہے ہیں۔۔۔۔ واہ۔۔۔۔ واہ۔۔۔۔ کیا چھاتیاں ہیں۔۔۔۔ ؟ کیا جانگھ ہے۔۔۔۔ ؟ہائے۔۔۔۔۔ کیا کو لہے ہیں۔۔۔ ؟ ہائے۔۔۔ ہائے۔۔۔۔ ہائے۔۔۔۔ اور لڑکی بیڈ پر ہی مر جاتی ہے۔
جین لڑکی بھی بیڈ پر ہی مر گئی۔۔۔۔۔ !
لڑکی کو بچانے اس کا پریمی بھی آیا تھا۔ وہ ان کی پارٹی کا ہی آدمی تھا لیکن اس کا زندہ رہنا اب خطرے سے خالی نہیں تھا۔ پریمی کو بھی دھر دبوچا اور گلا دبا کر مار دیا ان دنوں خبر گشت کر رہی تھی کہ کسی پرائیوٹ چینل کا رپورٹر اپنی محبوبہ کے ساتھ گاڑی میں مردہ پایا گیا تھا۔ اس کی پینٹ کی زپ کھلی تھی اور اے سی چل رہا تھا۔ پولس کا بیان آیا کہ اے سی کھلا رہنے سے دم گھٹ کر موت ہوئی۔ گاڑی کی اے سی پائپ لیک کر رہی تھی جس سے کاربن مونو آکسائڈ گیس پھیل گئی اور شیشہ بند رہنے سے دم گھٹ گیا۔
ستّا کے سادھووں نے اس واقعہ کا فائدہ اٹھایا۔ دونوں لاشیں پریمی کی گاڑی کی پچھلی سیٹ پر رکھ دی گئیں۔ پینٹ کی زپ کھول دی گئی۔ گاڑی پریمی کے گھر اس کے گیرج میں پارک کر دی گئی اور اے سی کو چا لو رکھا گیا۔ پولس کو اب سہولیت تھی۔ اس نے یہی بیان دیا کہ اے سی چالو رہنے سے۔۔۔۔۔۔۔
بات یہاں ختم نہیں ہوتی ہے۔ پریمی کا باپ پردیس میں تھا۔ ستّا کے سادھو اپنے رضا کاروں کی بھیڑ لے کر آئے نعرے بازی کی، سب کو یقین دلایا کہ ہم اس کے بہی خواہ ہیں کہ یہ ہماری پارٹی کا آدمی تھا۔ اس کا باپ نہیں ہے تو کیا ہوا ؟ ہم اس کا داہ سنسکار کریں گے۔ اور اسی دن ارتھی اٹھا کر لے گئے اور بجلی مردہ گھر کے حوالے کر دیا۔
میں تسنیم کے ساتھ ڈر ڈر کر چل رہا تھا۔ آخر اس کو لے کر اندھیرے کی جنّت میں داخل ہوا۔ کونے والی میز مل گئی۔ ریستوراں کے نیم اندھیرے کونے میں بھی اس کا حسن درخشاں تھا۔ بیٹھتے ہی اس نے پہلا جملہ یہی کہا کہ وہ اس طرح کبھی اپنے پاپا کے ساتھ کسی ریستوراں میں نہیں آ ئی۔ اس کے لہجے میں حسرت تھی۔ اس نے بتایا کہ پاپا ڈاکٹر ہیں اور دبئی میں نوکری کرتے ہیں۔ امّی ان کے ساتھ رہتی ہیں۔ وہ اکیلی اپنے بھائی کے ساتھ رہتی ہے۔ رکھوالی کے لئے گھر میں کھوسٹ نانی ہے جو ہر بات پر ٹوکتی ہے۔۔۔۔ یہ مت کرو۔۔۔۔ وہ مت کرو۔۔۔۔ سر پر دو پٹّہ کیوں نہیں ہے۔۔۔۔ نماز کیوں نہیں پڑھتی۔۔۔۔ ؟
بھائی کو دوستوں سے فرصت نہیں تھی۔ اس کے لئے وقت گذارنا مشکل تھا۔ کہاں جائے ؟ کس سے باتیں کرے ؟ کوئی نہیں تھا جس سے اپنے احساسات شئیر کر سکتی۔ بولتے بولتے اس کا لہجہ رو ہانسی ہو گیا، کچھ دیر رکی۔۔۔۔ پھر کہنے لگی کہ پاپا بھی آتے ہیں تو وہ اکیلی رہتی ہے۔ کہیں گھمانے نہیں لے جاتے۔ امّی بھی نہیں پوچھتیں۔ دونوں ایک دوسرے میں مست رہتے ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ان لوگوں کے ساتھ کبھی باہر گئی ، شاپنگ کی، کسی ریستوراں میں گئے۔۔۔۔۔ !
میں نے محسوس کیا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو ہیں۔ پھر بہت حسرت سے بولی کہ اس کا بہت دل چاہتا ہے کہ پاپا سے اپنی پرابلم شیئر کرتی۔ اس نے سسکاری سی بھری اور اپنا سر میرے کندھے پر ٹکا دیا۔ میرا ہاتھ اس کے سر پر چلا گیا۔۔۔ ’’مجھ سے شیئر کرو۔۔۔۔۔ میں دوست ہوں تمہارا۔۔۔۔
بات بہت واضح تھی۔ وہ الکٹرا کامپلیکس میں مبتلا تھی۔۔۔ فادر کامپلیکس میں۔۔۔۔ اس لئے اس نے مجھ سے دوستی کی۔۔۔ وہ مجھ میں اپنے والد کی شناخت کر رہی تھی۔ والد سے جو شفقت نہیں ملی مجھ سے مل سکتی تھی۔
اور ہم دوست بن گئے۔ اس نے پہلے دن ہی مجھے ’ تم ‘ سے مخاطب کیا تھا۔ میں پھر اسے اندھیرے کی جنّت میں نہیں لے گیا۔ سڑکوں پر ساتھ گھومنا بھی مناسب نہیں تھا۔ میں اسے کبھی آکاش وانی کے گیٹ پر بلاتا کبھی خدا بخش لائبریری میں۔ میرا جیوتش کاریالیہ اسے پسند نہیں تھا۔ کہتی تھی ایک کمرے سے نکل کر دوسرے کمرے میں بند ہو جاتی ہوں۔ وہ کھلے میں گھومنا پسند کرتی تھی۔ وہ بہت بنداس قسم کی لڑکی تھی۔ اس نے ایک بار مجھ سے سگریٹ مانگ کر پیا۔ وہسکی کا مزہ بھی لینا چاہتی تھی۔ میں اس سے کہتا کسی اچھے لڑکے سے دوستی کر لو اور مناسب ہو تو شادی بھی کر لو لیکن اسے کوئی لڑکا پسند نہیں آتا تھا۔ کہتی تھی بہت چھچھورے قسم کے لڑکے ہیں۔ فوراً سیکس پر اتر آتے ہیں اور سیکس اسی کے ساتھ ہو سکتا ہے جس سے شادی ہو گی۔ وہ اکثر مجھ سے مذاق کرتی کہ میں بڈّھا کیوں ہو گیا ؟ تیس سال بعد کیوں نہیں پیدا ہوا اور پھر زور سے ہنستی اور میرے کندھے پر سر ٹکا دیتی۔
وہ جب بھی آتی میرے لئے چاکلیٹ کا پیکٹ لے کر آتی اور میں اس کو پر فیوم خرید کر دیتا۔ اس نے سمندر نہیں دیکھا تھا۔ اس کی بہت تمنّا تھی کہ سمندر کے کنارے گیلی ریت پر چلے۔۔۔۔ کنارے کنارے سیپیاں چنے۔۔۔۔ دور تک کھلی ہوا میں دوڑے۔۔۔۔ !
ایک دن بہت ضد کی کہ گنگا کنارے چلو۔ دن بھر گزاریں گے۔ ! میں اسے گھاٹ کنارے لے گیا۔ ساتھ میں رینو بھی تھی۔ اس نے دو گھروندے پاس پاس بنائے۔ میں نے پوچھا دوسرا گھروندا کس لئے ہے تو بولی۔
’’یہ تمہارے لئے ہے۔۔۔۔ ما ئکہ قریب ہونا چاہیئے تا کہ کوئی پرابلم ہو تو مائکے کا رخ کیا جا سکے۔‘‘
وہاں سے ہم رینو کے گھر آئے۔ رینو نے پاپ سنگیت کا کیسٹ لگا دیا۔ تسنیم کے پاؤں تھرکنے لگے۔۔۔ وہ دیر تک ڈانس کرتی رہی۔
میرا بھی ہاتھ پکڑ کر کھینچا کہ اس کا ساتھ دوں۔۔۔ جب تھک گئی تو میرے کندھے پر سر رکھ کر رونے لگی؛
’’اتنی آزادی اور اتنی خوشی مجھے پہلے کبھی نہیں ملی۔۔۔۔ کاش تم ہمیشہ میرے ساتھ ہوتے۔۔۔ !‘‘
رینو اس سے مل کر اداس ہوئی۔ رینو کا تبصرہ تھا وہ اتنی حسین اور اتنی بنداس ہے کہ اس کا مستقبل خطرے میں ہے۔ وہ ایسے ماحول میں پیدا ہوئی ہے کہ اپنی زندگی جی نہیں سکے گی اور جب زندگی کے کمزور لمحوں سے گذ رے گی تو غلط فیصلہ کرے گی۔ اس کے نصیب کو اسی کمزور لمحوں کا انتظار رہے گا کہ قسمت کی ستم ظریفی ہر حسین چیز کو غلیل کے پیچھے سے دیکھتی ہے۔
رینو کہتی ہے کہ عورت جب تک جسمانی سطح پر جیتی ہے غیر محفوظ رہے گی۔ ناری مکتی آندولن کی ایک عورت نے اس سے کہا تھا کہ وہ برا نہیں پہنتی، اس سے انکش کا احساس ہوتا ہے۔ انکش کا یہ احساس جسم ہونے کا احساس ہے۔ وہ ایک جسم ہے تب ہی تو انکش ہے۔ عورت جذباتی تحفّظ کی زیادہ بھوکی ہوتی ہے۔ گھر مرد سے ہوتا ہے جسے عورت سنوارتی سجاتی ہے۔ اسے گھر کی ہر چھوٹی بڑی چیز سے پیار ہوتا ہے۔ اپنے گھر میں مرد کا داڑھی بنانا بھی اسے پسند ہے۔ اس کے ساتھ صوفے پر بیٹھ کر چائے پینا اسے اچھا لگتا ہے لیکن مرد کے لئے یہ باتیں اہمیت نہیں رکھتیں۔ مرد دیر سے گھر لوٹتا ہے تو وہ غصّہ کرتی ہے۔ اس لئے نہیں کہ وہ قابض رہنا چاہتی ہے۔ اس لئے کہ وہ اپنی تکمیل میں جیتی ہے۔ اسے مکمّل سپردگی چاہیئے۔ وہ مرد کی پیٹھ سے لگ کر سونا چاہتی ہے تا کہ ایک داخلی آہنگ کا احساس کرے۔ لیکن جب مرد اس کا ہاتھ جھٹکتا ہے تو اس کو ٹھیس سی لگتی ہے۔ اس کو لگتا ہے مرد خود غرض ہے۔۔۔۔ اس کا استعمال کرتا ہے ایک آبجکٹ کی طرح۔۔۔ عورت کو سیکس سے زیادہ ایک پیار بھرا لمس چاہیئے۔ احساسات کی سطح پر اگر ٹوٹتی ہے تو ٹھنڈے بستر میں بدل جاتی ہے۔
تسنیم نے ڈینٹل کالج میں داخلہ لیا اور اپنے ایک ہم جماعت سے شادی کی اور شمالی ہندوستان میں دور جا بسی۔ ایک دن اس کا فون آیا کہ اس کا شوہر اس کا روز ریپ کرتا ہے۔۔۔۔ بہت خود غرض ہے۔۔۔۔ بہت شہوت پسند۔ جب چاہے بھنبھوڑنے لگتا ہے۔ نہیں چاہ کر بھی اس کو ہم بستر ہونا پڑتا ہے کہ وہ اس کا سر تاج ہے۔
تسنیم ایک ٹھنڈے بستر میں بدل چکی ہے۔۔۔۔۔ !