“حماد بدتمیزی نہیں کرو اور میرا سیل مجھے واپس دو ورنہ میں ماموں سے تمہاری شکایت کردوں گی
زمل اُسکے پیچھے بھاگ رہی تھی ۔
اور
انعم اُن دونوں کو کب سے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے دیکھ ہنسی جارہی تھی ۔کیونکہ وہ جانتی تھی حماد اتنی آسانی سے ماننے والا نہیں تھا۔
اور
وہ انجوائے کررہی تھی یہ سب۔۔ لیکن زمل کے سامنے شو نہیں کروایا۔
کیونکہ وہ اُسکی ناراضگی بلکل برداشت نہیں کر سکتی تھی –
“جب میں نے تم سے کہا تھا، کل آنے کو تو تم کیوں نہیں آئی تھی؟
حماد اب اُسے تنگ کرنے کا ارادہ بند کرتے ہوئے اپنی اصل بات پر آیا ۔
“زمل”
جو کہ
کب سے اُسکے پیچھے بھاگتے بھاگتے تھک چُکی تھی رُک کر اُسے گھورنے لگی۔۔ بتا تو رہی ہوں،
تم سنو تب نا۔۔ آتے ہی تو لڑاکا عورتوں والے طریقے اسٹارٹ کر لیے کوئی کہہ سکتا ہے تمہیں دیکھ کر
کہ
“مستقبل کے ڈاکٹر” بننے والے ہو ۔
“زمل” نے بھی دل جلانے کے لیے کہا ۔
“ہاہاہاہا ابھی سے جلنے لگی مجھ سے بے فکر رہو تمہارا علاج مفت کیا کروں گا تم بھی کیا یاد کرو گی ۔” حماد نے بھی فوراً بدلہ لیا
“اللہ نہیں کرے کہ کبھی تمہارے پاس آؤں تم تو بدلہ لینے کے لیے ہی اُوپر بھیج دو گے ۔۔”
زمل نے منہ بنایا۔
“اچھا اب دو میرا فون مجھے۔۔
میری رات “طبیعت” نہیں ٹھیک تھی۔ تم نے “میسج” بھی تو میرے سونے کے بعد کیا تھا ۔
اور
صبح میں “یونیورسٹی” چلے گئ تھی
ابھی آئی ہوں
اور
تم جن بن کر مجھ پر نازل ہوگئے۔ ”
زمل نے ایک ہی بار میں ساری بات کہہ دی۔۔ کیونکہ وہ بہت تھکی ہوئی تھی ۔
اچھا بہانہ بنایا ہے
جو کہ “پرانا” ہوچُکا ہے میڈم اس لیے آپ کے پاس سچ بولنے کے علاوہ اب کوئی دوسرا “راستہ” نہیں بچا ہے سو وہ بولیے
حماد نے اُسے تپانے کے لیے کہا۔
“حماد”
ذیادہ بکواس نہیں کرو میرے ساتھ۔۔ “یقین کرنا ہے تو کرو” نہیں تو تمہاری مرضی ۔۔
“زمل” نے زچ ہو کر کہا ۔
اور وہاں سے جانے لگی۔
“اچھا اچھا ٹھیک ہے رکو تو سہی ایک آخری بات کا جواب دیتی جاؤ
تم کو پتہ تھا۔۔ نا؟
کہ
“میں”
تم کو “بھائی” کو لینے جانے کے لیے بُلارہا تھا۔۔؟ ” جھوٹ بلکل مت بولنا اب “تم”
حماد نے ڈائیرکٹ ہی “زمل” سے سوال کر لیا ۔
“نہیں “۔۔ اُس نے خود، کو “نارمل ” رکھتے ہوئے جواب دیا ۔
“جھوٹ بول رہی ہو تم ” ایک ایک خبر ہوتی ہے تمہیں یہاں کی پھر “کیسے نہیں پتہ تھا تم کو۔۔؟
حماد نے انعم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے
“زمل” کو بھی چڑایا ۔
میں کوئی چیز اُٹھاکر تمہارے سر پر مار دوں گی
“اگر”
مجھے بیچ میں لائے تو۔۔ انعم نے وارننگ دیتے ہوئے پہلے ہی روک دیا ۔
“حماد اب آگئ ہوں نا پلیز اب بات ختم کرو۔۔ ” زمل نے لہجے کو نرم بناتے ہوئے کہا
“پہلے میری بات کا جواب ” ۔۔ حماد نے پھر سے پوچھا۔
“ہاں” مجھے پتہ تھا بس ۔۔ زمل نے جان چھڑائی
پھر تو تم کو “آنا چاہیئے تھا لازمی ”
حماد باز آنے والا نہیں تھا ۔
“میرا آنا کوئی ضروری نہیں تھا۔۔ تمہارے بھائی کوئی شہزادے گلفام نہیں کہ پوری دنیا اپنے ضروری کام چھوڑ کر اُن کے استقبال کے لیے حاضر ہو جائے ویسے بھی “میرا ضروری ٹیسٹ تھا ”
“زمل” حماد کا تنگ کرنے کا ارادہ جانچتے ہوئے جان بوجھ کر
اُسے
تنک کر جواب دیا یہ جانے بنا کہ ۔۔
“بالاج” جو کہ کسی “وجہ ” نیچے آیا تھا۔۔اور
“کچن میں موجود ” تھا۔
اور
اُنکی سب باتیں سن رہا تھا ”
ٹیسٹ تو “بہانہ ” ہے تم بالاج بھائی کے سامنے نہیں آنا چاہتی تھی ” کیونکہ تم کو اُن سے ڈر لگ رہا ہوگا
اور
“شہزادے کی بھی خوب کہی پتہ جو ہے کہ تمہارے ہی “سر کا تاج” جو بنے گے وہ تو شرم بھی آرہی ہو گی ۔۔ حماد نے ڈھٹائی دکھاتے ہوئے انعم کو انکھ ماری ۔
جبکہ
“انعم ” نے اُسے آنکھ کے اشارے سے باز کرنا چاہا، وہ “زمل” سے واقف تھی۔
اور جانتی تھی اُسکا موڈ خراب ہوچُکا ہے اب ۔
“شٹ اپ ۔۔کسی سے ڈرتی ہے میری جوتی۔
زمل کو سچ میں “غصہ” آیا تھا اُسے حماد سے اس بات کی
امید نہیں تھی، کہ وہ سامنے کہہ دے گا۔
“اچھا۔۔ نہیں ڈرتی” کسی سے؟۔۔ تو اپنا یہ سیل بھائی سے لے کر دکھاؤ تو مانیں۔۔ حماد اُسے چڑاتا اُوپر کی طرف بھاگا۔
“زمل اُسے بھاگتا دیکھ ” پیچھے گئی کہ کہیں وہ سچ میں ہی نہ دے آئے۔۔ وہ ابھی بالاج کے سامنے جانے کی سچ میں ہمت نہیں رکھتی تھی ۔۔
لیکن ۔۔
کارپٹ پر پیر اٹکنے کی وجہ سے خود کو بچانے میں کچن سے نکلتے “بالاج سے ٹکرا گئی ” اور
اُسکے ہاتھوں میں کُافی کا کپ نیچے زمین بوس ہو گیا۔۔
دیکھ کر نہیں چلا جاتا ہے کیا”؟
اتنی بڑی ہو کر بچوں کے جیسے شور مچا کر پورے گھر کو سر پر اُٹھا کر بھاگتے ہوئے شرم نہیں آتی ؟ ۔۔ بالاج نے بھی جیسے اپنا بدلہ لے لیا ہو اور کہہ کر رکا نہیں چلا گیا-
اور وہاں پر موجود سب نفوس کھڑے کے کھڑے رہ گئے مدثر صاحب اور زکیہ بیگم بھی اپنی جگہ سناٹے میں آگئے۔
“زمل” کی آنکھ سے آنسو نکل پڑے۔۔ لیکن یہ آنسو اس تذلیل پر تھے جو بالاج کے رویے سے آئے تھے اور
پاؤں پر گری کافی کا درد “زمل” کو تو کم ہی لگا اس کے سامنے –
اور پھر وہ وہاں رُکی نہیں۔۔
_______________
مدثر احمد اور جمال سعید کزنز ہونے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے بچپن سے دوست بھی تھے۔۔ زکیہ انکی یونیورسٹی فرینڈ تھیں۔
مدثر احمد کی زکیہ سے پسند کی شادی”تھی اور انکے تین بچے تھے سب سے بڑا بالاج تھا اُسکے بعد حماد اور پھر انکی بیٹی انعم تھی ۔
جمال سعید کی “شادی اپنی کزن ثمینہ احمد سے ہوئی تھی جو مدثر کی بہن تھی ۔۔ جمال اور ثمینہ کے ایک بیٹا شہریار اور ایک بیٹی زمل ہے۔۔ زمل کی “پیدائش کے بعد ہی ثمینہ بیگم دنیا سے رخصت ہوجاتی ہیں جمال کے لیے یہ صدمہ بہت زیادہ تھا ۔۔اُنھوں نے اس غم کو لے کر اپنی ایک دنیا بسا لی تھی۔ ایسے میں مدثر اور زکیہ نے اپنے ہونے کا ثبوت دیا تھا اور زمل سب کی توجہ کا مرکز بن گئی تھی اپنی سگی اولاد سے زیادہ چاہتے تھے وہ اُنکو ۔دونوں گھر الگ ہو کر بھی ایک ہی تھا ساتھ ساتھ بنے ہوئے تھے اور ایک دروازہ بھی اندر سے ہی کھولا گیا تھا ۔اس لئے کبھی محسوس ہی نہیں ہوا کہ الگ گھر ہیں
شہریار اور زمل کے درمیان پانچ سال کا فرق ہوتا ہے
اور
اُدھر بالاج اور حماد زمل سے بڑے ہوتے ہیں لیکن زمل کے آجانے سے بالاج کو اپنی اہمیت کم محسوس ہونے لگتی ہے اور وہ شروع ہی سے زمل کو ناپسند کرنے لگ جاتا ہے ۔۔”انعم” کےآنے سے انکی فیملی مکمل ہوجاتی ہے –
“لیکن ”
گزرتے وقت کے ساتھ بالاج زمل سے اور بھی نفرت کرنے لگتا ہے اور بچپن میں اکثر زمل کو تکلیف پہنچا کر وہ خوش ہوتا تھا اور کبھی کبھی سب کے غصے کے عتاب میں بھی آجاتا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ مزید بڑھتا ہی رہا ۔
بالاج باہر سے اپنی تعلیم مکمل کرکے ابھی وآپس آتا ہے لیکن زمل کے معاملے میں خود کو اب بھی نہیں بدل پاتا ہے۔
بالاج کے “واپس آنے کی خوشی” میں سب کا ڈنر احمد ولا میں ہوتا ہے جس میں جمال کی فیملی اور انکے ایک فیملی فرینڈ کی فیملی بھی شامل ہوتی ہے ۔
سب لاؤنج میں ڈنر کر کے بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے ایسے میں
کارنر پر “زمل اپنے بھتیجے کو گُود میں لے کر بیٹھی ہوتی ہے ”
جینز کی پینٹ پر بلیک ایمبراڈیڈ لانگ شرٹ پر بلیک کلر کا دوپٹہ اوڑھے اور بالوں کو کیچر میں مقید کیے ہوئے سادگی میں بھی وہ بلا کی حسین لگ رہی تھی ۔
“زمل” یہاں صرف ماموں کے لیے آئی تھی ۔اس لیے باقی سب نے صرف اُسکا آجانا ہی غنیمت سمجھا اور اُسے زیادہ تنگ نہیں کیا-
“بالاج میں نے سنا ہے آتے ہی تم نے اپنی دشمنی پھر سے شروع کردی ہے ؟۔۔”
باری نے آہستہ سے زمل کی طرف دیکھتے ہوئے بالاج سے پوچھا –
باری بالاج کا بیسٹ فرینڈ ہونے کے ساتھ ساتھ جمال اور مدثر کے دوست حمدان کا بیٹا بھی تھا – شروع ہی سے وہ لوگ دوست تھے اور آگے انکے بچوں کی بھی آپس میں اچھی دوستی ہوتی ہے بچپن سے ایک دوسرے کے ساتھ ہی کھیل کُود کر بڑے ہوئے ہیں۔۔ باری کی بہن ہی زمل کی بھابی ہیں –
بالاج نے باری کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا اور وہاں زمل کو بیٹھا دیکھا اور پھر رخ اُسکی طرف سے موڑ لیا
“کچھ لوگوں کو عادت ہوتی ہے دوسروں کے رستوں میں آنے کی اور اُنکا مقصد صرف لوگوں کی توجہ حاصل کرنا ہوتا ہے اور کچھ بھی نہیں۔” بالاج نے بھی بات سمجھ کر فوراً جواب دیا ۔
اگر میں اُسے جانتا نہیں ہوتا تو ضرور تمہاری اس “بات پر یقین کرتا ”
لیکن
افسوس تم ابھی بھی وہاں ہی کھڑے ہو جب کہ مجھے لگتا تھا کہ شاید اب تم سمجھدار ہوگئے ہوگے اور بدل چکے ہوگے۔ باری نے سمجھانا چاہا
ہاں بھائی جب سب ہی “اُسکے گُن گارہے ہیں ” تو ایسے میں تم کیوں پیچھے رہنے لگے لیکن میں کبھی شامل نہیں ہوں گا تمہیں ویسے میرا ساتھ دینا چاہیے ہے کیونکہ تم میرے دوست ہو ۔
اور وہ میری بہن کی طرح ہے اور میں بھی اُسے بچپن سے جانتا ہوں وہ انجانے میں بھی کسی کا دل نہیں دُکھاتی اور اپنوں کی خوشی کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہے جسکا ثبوت آج کی لڑائی کے باوجود اُسکا یہاں موجود ہونا ہے۔باری نے پہلے ہی بات کاٹ کر اُسے جواب دیا ۔
“بالاج نے چپ رہنا ہی ٹھیک سمجھا واحد یہ ایسی بات ورنہ دونوں ہمیشہ ایک بات پر متفق رہنے والے ہیں زمل کے لیے دل میں اور غلط سوچ آئی ۔”
آپ دونوں نے تو عورتوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا باتوں میں ۔۔ حماد جو کب سے بیٹھا انکی باتیں سننے کی کوشش کررہا تھا تنگ آکر بول پڑا
“اور
اگر تم کو یہ لگ رہا ہے کہ تم ہماری باتیں سننے کا کہہ کر ہم سے یہ اُگلوا سکتے ہو کہ ہم کیا باتیں کررہے تھے تو تم بہت بڑی خوش فہمی کا شکار کیونکہ اب آپکا یہ طریقہ بہت پرانا ہوچکا ہے اور آپ کی ہم تک رسائی ناممکن ہے ۔” باری نے چڑانے کے لیے کہا ۔
زمل طبیعت خراب کا کہہ کر جلدی گھر چلی جاتی ہے ”
اچھے بہانے ہیں سب کی توجہ حاصل کرنے کے ” زمل کو جاتا دیکھ بالاج نے باری سے کہا۔
“تو تم کیوں متوجہ ہو رہے ہو ۔۔ تم کو تو خوش ہونا چاہیے اُس کے یہاں سے جانے پر یہی تو ہمیشہ سے چاہتے ہو نا ۔۔ کہ جہاں تم ہو وہ وہاں نہیں ہو “۔۔باری نے سنجیدگی سے کہا ۔
“پھر وہ لوگ باقی سب کے ساتھ باتوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔۔ ”
________________
زمل کچھ دنوں تک سب کچھ بُھلا کر پھر سے سب کے ساتھ گُھل مل جاتی ہے ۔۔” وہ ایسی ہی تھی ذیادہ دیر تک کسی کے لیے دل میں بات نہیں رکھتی تھی یہی وجہ کہ بالاج کی باتوں کو بھی بچپن سے لے کر اب تک وہ بُھلاتی آئی تھی”
“تم دونوں نے مجھے بلا لیا اور خود تم لوگ تیار بھی نہیں ہو۔۔ پیپرز تھے تو تم لوگ میری جان کو آتے تھے کہ میرے پاس ٹائم نہیں ہے تم لوگوں کے لیے اور آج آئی ہوں تو تم لوگوں کے نخرے نہیں ختم ہو رہے ہیں ” زمل کب سے انتظار کرتی تنگ آکر بولی۔
“پہلے تم ہمیں نخرے دکھارہی تھی لوگوں کا غصہ ہم پر نکال رہی تھی اب ہمارا اتنا تو حق بنتا ہے نا۔۔؟
حماد ہمیشہ اسے تنگ کرنے کو تیار رہتا تھا ۔
“بکواس نہیں کرو حماد تمہیں پتہ ہے میرے پیپرز تھے اور میں کسی کا غصہ نہیں اتار رہی۔۔ لوگوں کی وجہ سے میں دوسروں کا دل نہیں دکھاتی زیادہ پریشان نہیں ہو تم “-
اندر آتا بالاج اُسکی بات سن چُکا تھا۔۔
“بھائی شکر ہے کہ آپ آگئے ہم کب سے آپکا انتظار کر رہے تھے اگر آپ مزید لیٹ ہوتے تو یہ زمل تو ہماری جان لے لیتی بیچاری کب سے آئی ہوئی ہے ” انعم بالاج کے ہاتھوں سے بیگ لیتے ہوئے بولی۔
“تم دونوں نے تو کہا تھا کہ صرف تم دونوں جاؤ گے اب مجھے تھوڑی علم تھا کہ یہ محترمہ بھی جا رہی ہیں ہمارے ساتھ۔۔ ورنہ انتظار کرواتا ہی نہیں ” بالاج نے زمل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔
“یہ محترمہ بھی بے خبر تھی اس بات سے ورنہ کب سے جو ہمارے کان کھا رہی ہیں نہیں کھا رہی ہوتی “حماد کوئی موقع جانے دے ایسا تو ہوا ہی نہیں۔۔ زمل نے حماد کی بات پر صرف اُسے گُھورا۔
“بھائی ہم تو صرف سرپرائز دینا چاہتے تھے ” انعم نے زمل کی طرف دیکھے بنا کہا وہ جانتی تھی کہ زمل اُسے بہت سُنانے والی ہے اس پر۔
“لیکن میں جانتا ہوں کہ آپ دونوں کے لیے یہ سرپرائز نہیں شاکڈ ہے جسے آپ دونوں برداشت کر لیں تو ذیادہ بہتر ہے کیونکہ آج کے دن ہم کوئی بدمزگی نہیں چاہتے ہیں۔۔ اتنے ٹائم سے کوئی پلان نہیں بنا اور آج ہم صرف انجوائے کرنا چاہتے ہیں۔ ” حماد نے پہلے ہی ان دونوں کو کچھ کہنے سے روک دیا –
میں فریش ہو کر آتا ہوں پھر ہم چلتے ہیں۔۔ بالاج یہ کہہ کر وہاں سے چلا گیا ۔
“مجھے تو آج خیریت نہیں لگتی ہے ان دونوں کی طرف سے ” حماد نے انعم کو آنکھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا –
“زمل جو بالاج کے رویے پر حیران تھی۔۔ حماد کے ایسے کہنے پر زمل نے خود کو نارمل کیا ۔۔ تم دونوں کو تو میں پوچھوں گی بعد میں۔۔ یہ کہہ کر انعم کے پیچھے چل پڑی۔۔ حماد کا قہقہ دور تک اُس نے سنا تھا”
______________
“بھابی آپ کو بھی ابھی جانا تھا۔۔؟ ” زمل روہانسے لہجے میں بولی ۔
“چندا صرف تین دن کی ہی تو بات ہے اور تم جانتی ہو میری مجبوری یے ورنہ میں نہیں جاتی اور تم تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے پہلی بار جارہی ہوں میں ۔
بھابی آپ اچھی طرح جانتی ہیں کہ میں کیوں اس بار ماموں کے گھر نہیں رُکنا چاہتی ہوں پھر بھی آپ ایسے کہہ رہی ہیں ۔ زمل “شکایتی نظروں سے کہنے لگی –
“اچھا بابا آئی ایم سوری۔۔ میں صرف تم کو تنگ کرنے کے لیے کہہ رہی تھی لیکن تم کو یہ سب محسوس نہیں کرنا چاہیے۔وقت کے ساتھ ساتھ سب ٹھیک ہوجائے گا اور کیا پتہ کہ شاید اس سے ہی سب ٹھیک ہو “نظروں کے سامنے رہو تو دل میں بھی فرق پڑے ” بھابی آخر میں مزاق کرتے ہوئے بولی ۔
“بھابھی پلیز نا میں بلکل بھی مزاق کے موڈ میں نہیں ہوں اس وقت۔۔ آپ لوگوں کو بلکل بھی میرا خیال نہیں ہے جائیں آپ سب -” زمل نے مصنوئی ناراضگی دکھاتے ہوئے کہا ۔
“ارے تم تو ہم سب کی جان ہو ایسا سوچنا بھی مت کہ ہمیں تمہارا خیال نہیں ہے۔۔ ٹھیک ہے، میں نہیں جارہی ہو گھر مریم سے کہوں گی۔۔ یہاں آکر مل جائے کیا ہوا جو وہ اتنے ٹائم بعد آئی ہے اور اب حج پر جا رہی ہے میں اُس سے کہو گی کہ میں اپنی گڑیا کا دل نہیں دکُھاسکتی ہوں ” بھابی نے پیار سے کہا ۔
“رہنے دیں آپ جانتی ہیں کہ میں آپ کو کبھی نہیں روکوں گی اور مجھے پتہ ہے کہ آپ سب مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں اور آپ رُک بھی جائیں گی لیکن میں آپ کی بھی خوشی چاہتی ہوں اتنے ٹائم کے بعد تو آپ سب بہن بھائیوں کو ایک ساتھ وقت گزارنے کا موقع مل رہا ہے ۔” زمل نے مسکرا کر کہا ۔
“بھابی اسکے ڈارموں میں آنے کی کوئی ضرورت نہیں دل میں تو لڈو پھوٹ رہے ہوں گے اور آپ کے سامنے اوپر اوپر سے ڈرامے کر رہی ہے اس لیے اب آپ دونوں اپنا ایموشنل سین بند کریں اب ” حماد انکی باتیں سن رہا تھا اور اندر آتے ہوئے بولا
حماد سدھُر جاؤ تم۔۔” بھابی نے اپنی ہنسی چپھاتے ہوئے اپنا رخ موڑ کر کہا –
“شرم تو آتی نہیں ہے دوسروں کی باتیں چھپ کر سنتے ہوئے “زمل نے شرم دلانا چاہی –
ہاہاہا۔۔ “اب اپنی شرمندگی چھپانے کے لیے آپ مجھے شرم دلانا چاہ رہی ہے جو کہ مجھے آنے والی نہیں۔۔ اینڈ ڈونٹ وری میں بھائی کو بلکل بھی نہیں بتاؤں گا کہ تم اس بار اُنکے ڈر کی وجہ سے وہاں نہیں رکنا چاہتی ہو اور پھر خود ہی ہنسنے لگا “۔۔
حماد تم سے زیادہ “زہرانسان میں نے اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھا” زمل نے غصہ دباتے ہوئے کہا ۔
ویسے زمل تم بھائی سے ایسے ہی خفا رہتی ہو جبکہ بھائی کے غصے میں بھی پیار دکھتا ہے ابھی بھی اُنہوں نے ہی مجھے بھیجا ہے کہہ رہے تھے کہ تمہیں جلدی آنے کا کہوں ۔۔ اب تم کو اکیلا بھی نہیں چھوڑ سکتے ہیں گھر میں دیکھو کتنا خیال رہتا ہے اُنھیں تمہارا۔۔ ” حماد نے شرارت سے کہا
“خیال نہیں مجبوری کہو اور اُنہوں نے جس طرح سے کہا ہوگا نا میں بہتر جانتی ہوں وہ مجھے چھوڑ جاتے اگر ماموں اور بابا نے میری زمہ داری اُنکو نا دے کر گئے ہوتے۔۔ تمہاری تو ویسے ہی عادت بات کو بدل کر بتانے کی “زمل نے کھا جانے والی نظروں سے گُھور کر کہا ۔
“بھابی دیکھ رہی ہیں ابھی سے ایکدوسرے کو جاننے لگے ہیں۔ اور ہمارے سامنے لڑنے کی ایکٹنگ کرتے ہیں ” حماد باز آنے والوں میں سے کہاں تھا۔
اس سے پہلے کہ زمل کچھ کہتی۔۔ “بھابی نے اُسے ٹوک دیا زمل اتنی غلط فہمی اچھی بات نہیں ۔۔اور حماد تم بھی اب اسے تنگ نہیں کرو۔ ہمیں دیر ہورہی ہے اب بالاج صحیح کہہ رہا ہے وہ ہمارا انتظار کررہا ہے ہم بس آرہے ہیں وہاں بھی امی ابو ہمارا انتظار کر رہے ہیں باری کا بھی فون آیا تھا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...