بقول ڈاکٹر انوار احمد:
جدید پاکستان کا بیشتر حصہ پنجاب اور پنجاب کا اکثریتی حصہ دیہی معاشرت کا امین ہے۔ اِس لئے اگر اُردو کے ایک بھی ایسے افسانہ نگار کا نام لیا جائے جس کی تخلیقات میں پاکستانیوں کی کثیر تعداد مٹی اور پسینے کی مہک، خواب اور تعبیر کا تضاد، روایت اور جدت کی کشا کش لئے موجود ہے تو بلاشبہ وہ نام ندیم کا ہی ہو گا۔ ۷
قاسمی صاحب نے تواتر کے ساتھ پنجابی دیہات کو اپنا موضوع بنایا اور اِس حوالے سے اُن تمام تر امکانات کو افسانوں میں ڈھالا جو پنجابی دیہات کے حقیقی تشخص کو اُجاگر کرسکتے ہیں۔ قاسمی صاحب کا اپنا تعلق شمالی پنجاب کے ایک ایسے دیہات سے رہا ہے جہاں اُنہوں نے غریب گھرانے میں آنکھ کھولی۔ یوں اُن کا مشاہدہ اور تجربہ دیہات سے متعلق سنی سنائی دانش یا مطالعے کی بدولت نہیں ، اپنے تجربات پر مشتمل ہے۔ یوں بھی وہ اِس نقطۂ نظر کے قائل رہے ہیں کہ عصری شعور حقیقی تجربات و مشاہدات کے بغیر تخلیقی تجربہ نہیں بننا چاہیے۔
جس شخص نے چوپالوں میں بیٹھ کر غریب کسانوں کے ساتھ حقّے کے کش لگائے ہوں اور چرواہوں کے ہمراہ دور افتادہ گھاٹیوں اور ویران میدانوں میں گھومتا پھرا ہو۔ وہ ٹھنڈی سڑک کے آس پاس بکھرے ہوئے بنگلوں کی اندرونی زندگی کے متعلق کیا خاک لکھے گا۔ اور جو شخص گونجتے ہوئے ایوانوں میں نرم و گداز صوفوں پر بیٹھنے کا عادی ہو اور کانٹا چھری کے بغیر پیٹ بھرنا اجیرن ہو جائے وہ ننگ دھڑنگ دہقانوں کی پھٹی ہوئی ایڑھیوں ، کھردری انگلیوں اور پھڑ پھڑاتے ہوئے چیتھڑوں کا تجزیہ کیسے کرسکے گا؟۸
قاسمی صاحب کے اِس نقطۂ نظر کو اگرچہ ڈاکٹر انوار احمد نے ’’باغ و بہار‘‘ کے دیباچے میں ثقافتی زعم کے ساتھ گونجنے والے میر امن کے لہجے سے مماثل قرار دیا ہے۹تاہم اُن کا یہ زعم پرولتاری طبقے سے شعوری طور پر جڑنے کی خواہش سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے جو اُن کی کہانیوں کا بنیادی تخلیقی تجربہ بھی ہے اور عصری شعور کا واضح ثبوت بھی۔
’’جوتا‘‘ قاسمی صاحب کا ایسا افسانہ ہے جہاں ایک نوجوان موچی نادر جاگیر دار کے لئے تِلّے والا جوتا تیار کرتا ہے لیکن اِسی دوران اُس کی شادی طے ہوتی ہے تو سسرال والوں کی جانب سے یہ شرط بھی رکھی جاتی ہے کہ وہ ایک خوب صورت تِلّے والا جوتا تیار کر کے یہ کہہ کر پہنے کہ یہ اُسے سسرال والوں نے دیا ہے۔ نادر اور اُس کی ماں اِس شادی کو سج دھج سے رچانے کی متمنی ہیں اور راجہ صاحب کے لئے تیار کیا گیا جوتا انہیں پیش کرتے ہوئے ڈرتے ڈرتے نادر اس خواہش کا اظہار کرتا ہے کہ اگر اُسے وہی جوتا عاریتاً مل جائے تو وہ شادی والے دن پہننے کے بعد راجہ صاحب کو واپس کر دے گا۔ یہاں واضح رہے کہ یہ جوتا اُسی کی محنت سے تیار کیا گیا ہے اور اُجرت بھی نہیں لی گئی کیونکہ دیہاتوں میں اِن پیشوں سے وابستہ افراد کو اُجرت سالانہ غلّے کی مقدور بھر مقدار کی شکل میں دی جاتی ہے اور اس کے عوض سارا سال اُن سے خدمت لی جاتی ہے۔ راجہ صاحب اُس کی اِس فرمائش پر یوں بھِنّا اُٹھتے ہیں گویا کوئی انہونی بات کر دی گئی ہو۔ ایسے وقت میں راجہ صاحب کے مکالمے اُسی طبقاتی احساسِ برتری کی علامت بنتے دکھائی دیتے ہیں جو برادری ازم اور ذات پات کے ساتھ جڑا ہوا ہے:
’’میرا جوتا میرے پاؤں اور اِن کمیّوں کے سروں کے لئے ہوتا ہے۔ ‘‘۱۰
یعنی تم میرا جوتا پہنو گے؟۔۔۔ یہ موچی چھوکرا میرا جوتا اپنے پاؤں میں پہننا چاہتا ہے یارو۔ کہتا ہے میری شادی ہو رہی ہے۔ ذرا پہن لینے دو ٹھاٹھ رہ جائے۔ بد ذات۔ ۱۱
نادر خاندانی نمک حلالی (جو اپنی جگہ غلامی کو قبول کر لینے کا ایک تصور ہے) بھی راجہ صاحب کو یاد دلاتا ہے جسے راجہ صاحب بے اعتنائی اور احساسِ برتری سے ٹال جاتے ہیں :
’’میرے باپ نے تو آپ کے اور بڑے راجہ جی کے قدموں میں عمر گزار دی۔ نادر نے کہا۔ ہاں اچھا مٹا ہوا کمین تھا۔ راجہ نے کہا۔ ‘‘۱۲
’’توبہ میری ‘‘ کا مرکزی کردار ایک محنت کش نوجوان ہے اور لاچار بوڑھے و الدین کا اکلوتا کفیل بھی ہے۔ اسی افسانے میں اِن محنت کشوں کی کسمپرسی اور لگان دینے کی مجبوری بھی دیکھیں :
’’ملک جی کے آگے بوڑھے نے ہاتھ جوڑے کہ بالشت بھر زمین پر اُگتا تو خاک نہیں لگان کہاں سے ادا کروں۔ لیکن انہوں نے یہی رَٹ لگائے رکھی کہ صاحب بہادر کے سامنے پیش کر دوں گا وہ حوالات میں بند کر کے نکال لیں گے پیسے تیری گڑی ہوئی تجوری سے۔ ‘‘۱۳
یہ وہ احساسِ ذلت اور مجبوری ہے جس کا شکار جاگیر دار اپنے مزارعین کو رکھتے ہیں اور ساتھ ساتھ انہیں حوالات یا کچہری کا خوف بھی دلاتے رہتے ہیں۔ اِسی طرح ’’چوری‘‘ اُن کا ایسا افسانہ ہے جس میں جاگیر دار کے پر تشدّد اور ہتک آمیز رویے کو دکھایا گیا ہے۔ اِس افسانے میں جاگیردار کے تشدد کی ایک جھلک دیکھیے:
’’اب اُس کی پیٹھ پر سردار کا پتلا چابک شڑاپ شڑاپ پڑ رہا تھا۔ نکال ورنہ تیری مشکیں کس کر اُلٹا لٹکا کر مرچوں کا دھواں دوں گا، مرچوں کا۔ ‘‘۱۴
’’ہر جملے پر اُس کی پیٹھ پر ایک ایسا چابک پڑتا تھا کہ اُس کی جلد سر سے پاؤں تک طنبورے کے تاروں کی طرح لرز کر رہ جاتی تھی۔ ‘‘۱۵
’’کانی آنکھ‘‘ کا چودھری نو رنگ اگرچہ ایک شیخی بکھیرنے والا ایسا شخص ہے جو اپنی ایک آنکھ ضائع ہونے کے وہ تمام اسباب مختلف لوگوں کو بتاتا رہتا ہے جن میں اُس کی جواں مردی کا پہلو نمایاں ہو۔ تاہم اپنے موضوع سے قطعِ نظر جاگیر دار کے جس تصور کو قاسمی صاحب نمایاں کر رہے ہیں اُس کی ایک جھلک اِس اقتباس میں دیکھیے:
’’چودھری نیا نیا جوان ہو رہا تھا۔ نیلی پگڑی پر ابرق چھڑک کر جب طرہ جماتا تھا سر پر اور لٹھے کے تہمد کو کھڑ کھڑا تا، زریں جوتے کو چر چراتا، جب گلیوں میں فوں فاں کرتا گزرتا تو لوگ جل جاتے پر کیا کرتے! چودھری تھا کوئی اُلٹی بات کر دیتے تو دوسرے دن پُلسا دھمکتی۔ ‘‘۱۶
یہاں چودھری کے کردار کی ظاہری ٹھاٹ کے ساتھ ساتھ اُس کے ساتھ جڑا وہ احساس بھی موجود ہے جو طاقت کے ذریعے دوسروں کو اپنا مطیع بنائے رکھنے کا قائل ہے۔ ایسے میں پولیس کا کردار بھی نمایاں ہو رہا ہے جو ایسے علاقوں میں اِن ناخواندہ لوگوں کو ڈرانے دھمکانے اور تشدّد سے ایسے جاگیر داروں کا تابع فرماں رکھنے کا فریضہ بخوبی سرانجام دیتی ہے۔ پولیس کے ہاتھوں تشدّد کا شکار ہونے یا کسی مصیبت میں پھنسنے کا یہی تصور اُن کی کہانی’’سونے کا ہار‘‘ میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ کہانی بنیادی طور پر معاشی مجبوری کی کوکھ سے جنم لینے والی اُس بے بسی کو ظاہر کر رہی ہے جو انسان سے اُس کی خود داری چھین کر مجبورِ محض بنا دیتی ہے۔
جاگیردار کے تصور کو ایک زندہ اور متحرک کردار میں ڈھالتا قاسمی صاحب کا افسانہ ’’لارنس آف تھیلبیا‘‘اِس موضوع پر ایک نمائندہ افسانہ ہے۔ افسانے میں جاگیردارانہ سماج میں موجود جبر کی فضا کی عمدہ عکاسی کی گئی ہے۔ افسانے میں اس بات کی نشان دہی بھی بخوبی کی گئی ہے کہ جاگیر کا زعم ایسی ذہنیت کو جنم دیتا ہے جسے بظاہر حاصل کی جانے والی سندی تعلیم اور شعور بھی تبدیل نہیں کرسکتے۔ افسانے کا آغاز ہی ہمیں جاگیردار کے کردار سے یوں متعارف کرواتا ہے: