“بی جان آپکو کسی چیز کی ضرورت ہے؟؟؟”۔ قدسیہ کے روم میں داخل ہوتے اسنے احتیاط پوچھ لیا۔
“نہیں میری بچی کسی چیز کی ضرورت میسر نہیں ۔۔۔۔ ادھر آو میرے پاس بیٹھو”۔ نفی کرتے اسنے نین تارا کو اپنے سامنے بیڈ پہ آنے کا اشارہ کیا۔
“جی”۔ وہ بھی قدسیہ کے کہنے پہ اسکے سامنے جا بیٹھی تھی۔
“نین تارا میں جانتی ہوں تم اس گھر میں خوش نہیں ہو”۔ اسکا ہاتھ پکڑتے اسنے کہا۔
“نہیں بی جان ایسا نہیں ہے۔۔۔ میں یہاں بہت خوش ہوں”۔ اسکا جھکا سر فورا سے قدسیہ کے چہرے کی جانب اٹھا تھا۔
“نین تارا میں نے یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کیئے۔۔۔ مرنے کے قریب ہوں اتنا تو سمجھ آ گئی ہے کہ خوش دکھنے والے انسان کے دل میں کیا چل رہا ہے۔۔۔ اور انسان کو سمجھ بھی تو تبھی لگتی ہے جب پانی سر سے اوپر چلا جاتا ہے”۔ دھیمے افسردہ لہجے میں اسنے کہا۔
“نہیں بی جان ایسا مت کہیں آپ کے سوا میرا اس دنیا میں ہے ہی کون؟؟ ۔۔۔ اگر آپ بھی ایسی باتیں کریں گیں تو میں کہاں جاوں گی؟؟”۔ قدسیہ کی باتوں پہ اسکی آنکھوں میں چھپی نمی اجاگر ہوئی تھی۔
“تو کیا تم ساری زندگی یونہی ممتاز کی خدمت گار بن کے گزارنا چاہتی ہو؟؟”۔ قدسیہ نے خفگی ظاہر کی۔
“بی جان مجھے تائی جان سے کوئی شکوہ نہیں بلکہ میں تو انکی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے یہاں رہنے کی اجازت دی ورنہ میری زندگی تو تا دم زیست کسی اورفنیج کے نام لکھ دی جاتی۔۔۔۔ اب تک تو نین تارا میرے وجود میں ہی مر کے دفن بھی ہو چکی ہوتی”۔ قدسیہ کی گود میں سر رکھے وہ دل کا بوجھ ہلکا کرنے لگی۔
“ثمرین نے جو کیا سو کیا۔۔۔۔ وہ تو تھی ہی بختوں کی ماری۔۔۔۔ میں جانتی ہوں ناصر کے جانے کے بعد تم اپنے آپکو اکیلا سمجھنے لگی ہو۔۔ نین تارا میں چاہتی ہوں کہ تم ڈر کر نہیں بلکہ خوشی اور آزادی کیساتھ اپنی زندگی اپنے طریقے سے گزارو بلکل احتشام اور روہینہ کی طرح”۔ اسکے بال سہلاتے قدسیہ نے تفصیلا کہا۔
“تو بی جان آپ سے کس نے کہا ہے کہ میں پریشان رہتی ہوں؟؟”۔ گردن کو جنبش دیتے اسنے قدسیہ کے چہرے کی جانب دیکھا جو اسکے چہرے پہ ہلکا سا جھکا تھا۔
“لازمی نہیں نینی ہر بات زبان تک لائی جائے۔۔۔ اپنوں کی یہی تو خاصیت ہوتی ہے کہ وہ بنا کہے عزیزوں کے دل کی بات جان لیتے ہیں۔۔۔ اگر اپنوں کے ساتھ دکھ درد بانٹنے کیلئے بھی ان ناقص اور بناوٹی الفاظ کا سہارا لینا پڑے تو ایسے اپنوں کا کیا فائدہ میری جان؟”۔ قدسیہ نے نہایت خوبصورتی سے اسے سمجھایا تھا جس پہ نین تارا سوچ میں ڈوب گئی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“احتشام بیٹا تم کہیں جا رہے ہو؟؟”۔ جونہی وہ احتشام کے روم میں داخل ہوئی ڈریسنگ ٹیبل کے پاس احتشام کی موجودگی اسے کھٹکی۔
“نہیں ماما کیوں کوئی کام ہے؟؟”۔ ممتاز کی آواز پہ وہ اسکی جانب گھوما۔
“نہیں بیٹا کام تو نہیں ہے بھلا مجھے کیا کام ہونا ہے تم سے۔۔ دراصل تمھاری خالہ کی کال آئی تھی ضد کرنے لگی کہ آج رات کا کھانا ہم انکی طرف کھائیں”۔ احتشام کے قریب آتے اسنے کہا۔
“تو آپ نے کیا کہا؟؟”۔
“کہنا کیا ہے بیٹا؟۔۔۔۔ میں نے کہا ہے کہ احتشام سے پوچھ کر بتاتی ہوں”۔ اسنے مزید کہا۔
“ماما رات کا مشکل ہے آپ خالہ جان کو کل دن کا بول دیں”۔ دائیں سائیڈ وال کلاک کو دیکھتے اسنے کہا۔
“چلو ٹھیک ہے بیٹا جیسے تم مناسب سمجھو ۔۔۔ مگر بیٹا کل پھر کوئی مصروفیت نا پال لینا اس طرح بار بار انکار کرنا بھی کوئی مناسب نہیں”۔ جاتے جاتے اسنے باور کروایا پھر روم سے نکل گئی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
ساری رات خواب خرگوش کے مزے لوٹنے کے بعد سورج کی کرنوں نے اپنے ہونے کا ثبوت دے کر آغاز صبح کا پیغام دیا تھا۔
“تائی جان ناشتہ تیار ہے ۔۔۔ آپ آ جائیے”۔ دھیرے قدم اٹھاتی وہ ممتاز کے روم کی دہلیز پہ آ کھڑی ہوئی۔
“ٹھیک ہے تم جاو ہم آتے ہیں۔۔۔۔ اچھا سنو”۔ اسے جاتے ہوئے ٹوکا۔
“جی تائی جان”۔ ممتاز کی آواز پہ وہ ایڑیوں کے بل گھومی۔
“جاو احتشام کو بھی بلا لاو”۔ ہاتھ میں پکڑے فون پہ انہماک سے نظریں گاڑھے اسنے کہا۔
“تائی جان احتشام تو اپنے روم میں نہیں ہیں”۔
“نہیں ہے ۔۔۔۔ کچھ بتا کر گیا ہے کہ کہاں جا رہا ہے؟؟”۔ فون سے نظر اٹھاتے اسنے مزید پوچھا۔
“جی نہیں”۔ بولتے ہی اسنے نفی میں سر ہلا دیا۔
“اچھا تو پھر یہاں کھڑی کس کا انتظار کر رہی ہو؟؟؟؟ دفع بھی ہو جاو”۔ عادتا اسنے غصے میں کہا۔
“ایسے لگتا ہے جیسے ہما وقت گرم توے پہ بیٹھی رہتی ہیں۔۔۔ بندہ پیار سے ہی بات کر لیتا ہے مگر نہیں جب بھی منہ کھولتی ہیں انگاڑے ہی اگلتی ہیں”۔ نین تارا بڑبڑاتے کچن کی جانب بڑھ گئی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“بلال تم اپنے امی ابو کو میرے گھر کب بھیجو گے؟؟”۔ ریسٹورنٹ میں اسکے مقابل بیٹھے روہینہ نے اسے مخاطب کیا۔
“روہینہ اتنی بھی کیا جلدی ہے یار؟؟ ابھی تو ہم دونوں پڑھ رہے ہیں۔۔ اور ویسے بھی تم سے بڑا ایک بھائی ہے ابھی تک تو اسکی بھی منگنی نہیں ہوئی۔۔۔ جب تک اسکی شادی ہو گی تب تک ہم بھی پڑھ کے فارغ ہو چکے ہوں گے۔۔ پھر ہم بھی شادی کر لیں گے”۔ روہینہ کے بارہا اصرار پہ بلال نے کوفت کا اظہار کیا۔
“بات تو تمھاری بالکل ٹھیک ہے ۔۔ تمھیں کیا لگتا ہے تمھارے پیڑنٹس با آسانی مان جائیں گے؟؟؟”۔
“روہینہ یار تم کیسی باتیں کر رہی ہو؟؟ کیوں نہیں مانیں گے؟؟ ضرور مانیں گے اگر نا بھی مانے تو تم بے فکر رہو میں انہیں منا لوں گا”۔ دائیاں ہاتھ بڑھاتے بلال نے اسکا ہاتھ تھام کر دلاسہ دیا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
ایک ہاتھ میں پانی سے بھری بکٹ اور دوسرے ہاتھ میں پوچا پکڑے وہ آہستگی سے سیڑھیاں چڑھنے لگی تھی۔ سیڑھیاں عبور کرتے اسنے بکٹ سائیڈ پہ رکھی اور پوچے کو اس میں ڈبوتے گیلا کیا پھر اسے اچھے سے نچوڑ کر فرش پہ مارتے فرش چمکانا شروع کیا تھا۔۔۔ فرش پہ لگا ٹویڑا روز کی طرح شیشے کی مانند چمکنے لگا تھا۔
“اچھا ٹھیک ہے۔۔ میں اب گھر آ گیا ہوں تم سنبھال لینا مجھے امید ہے کہ کام ہو جائے گا۔۔ اگر نا ہو سکا تو مجھے بر وقت آگاہ کر دینا میں ہینڈل کر لوں گا۔۔ ہاں جی۔۔۔ پھر مل۔۔۔۔۔۔”۔ اپنی دھن میں وہ کان کے ساتھ فون لگائے اپنے روم کی دہلیز تک آ پہنچا تھا ۔۔۔ اس بات سے یکسر بے خبر کہ کب وہ اپنے پیروں کے گرد آلود نشانات اپنے عقب میں چھوڑ آیا ہے۔
اپنے تعاقب میں ساکت وجود کی موجودگی اسے کھٹکی۔۔ تا ہنوز فون کان سے لگائے وہ یکایک اپنی دائیں اور گھوما جہاں نین تارا ہاتھ میں پوچا پکڑے بے زارگی سے ان نشانات کو دیکھ رہی تھی۔
“میں تمھیں پھر کال کرتا ہوں ۔۔ بائے”۔ کال کاٹتے ہی اسنے فون پینٹ کی پاکٹ میں رکھا۔۔ پھر پشیماں انہی نشانات پہ پیر دھرتا نین تارا کے قریب جا پہنچا جو ابھی بھی زمین پہ پنجوں کے بل بیٹھی تھی۔
“آئی ایم سوری ۔۔۔ مجھے علم ہی نا ہوا کہ کب تمھاری محنت پہ پانی پھیر دیا”۔
“کوئی بات نہیں ۔۔۔ میں پھر سے صفائی کر دیتی ہوں”۔ احتشام کے قریب آتے وہ بھی اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
“یہ تو آپکی پرانی عادت ہے احتشام کہ بن بتائے چلے آتے ہیں۔۔۔۔ برسوں پہلے میرے دل کی دہلیز بھی یونہی پار کر گئے تھے آپ ۔۔۔ یہ نشانات تو عارضی ہیں ختم ہو جائیں گے مگر میرے دل پہ لگی پنہاں مہریں کیسے مٹیں گیں؟؟۔۔۔ کاش کہ عشق زادوں کے ہاتھوں میں اسکے پتنگ کی ڈوریں بھی تھما دی جاتیں جسے وہ اپنی مرضی سے جہاں چاہے جب تک چاہے اڑا سکتے”۔ احتشام اپنے روم کی جانب گھوم گیا جبکہ نین تارا اپنی چاہت بھری نظریں اس پہ منجمد کیئے ہوئے تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
گھڑی کی چھوٹی سوئی ایک پر تھی جبکہ بڑی بارہ پر۔۔۔ انہوں نے دونوں کاریں گھر کے باہر کی پارک کیں تھیں کیونکہ یہ ایک چھوٹا سا مکان تھا جو بمشکل گزر بسر کیلئے کم وسائل میں بنایا گیا تھا۔
احتشام قدسیہ بیگم اور نین تارا کے ہمراہ گورنمنٹ کی جانب سے دی گئی بلیک ہونڈا میں اگلی کے عقب میں تھا۔
“اسلام و علیکم خالہ جان کیسی ہیں آپ؟؟؟”۔ ممتاز کے ڈور بیل بجانے پہ سندس نے دروازہ کھولا تھا۔
“وعلیکم السلام ۔۔ میں ٹھیک ہوں تم سناو سندس۔۔۔ تم کیسی ہو؟؟”۔ ممتاز ہشاش اسکے گلے لگی۔
ممتاز کو ملنے کے بعد اسکی نظریں گیٹ پہ جا رکیں جہاں احتشام ٹھاٹ سے چلتا اندر داخل ہوا تھا۔۔۔ احتشام کو دیکھ کر جہاں سندس کا چہرہ کھل اٹھا تھا وہیں اسکے متعاقب نین تارا کو دیکھتے اسکا منہ دوبارہ سے اتر آیا تھا۔
چہرے کے تنے ہوئے نقوش،،،، سفید کلف لگے کرتے پہ کالی واسکٹ جو عموما وہ زیر استعمال لے آیا کرتا تھا،،،، ہم رنگ سادہ شلوار۔۔۔ سامنے کے بالوں کو سپرے لگا کر سیٹ کیا گیا تھا جبکہ سائیڈ کے بال قدرے ہلکے تھے۔۔۔۔ پیروں میں کالے چمکتے جوتے،،،، سانولی رنگت پہ ہلکا خط بڑی نفاست سے بنایا گیا تھا۔۔۔ اسکی شخصیت کا خاصہ تھا جو یونیفارم میں اور بھی نکھر آتی تھی۔
ملنے ملانے کی رسومات سے دوچار ہوتے اب وہ سب گھر کے بنے مخصوص اور چھوٹے مہمان خانے میں جا ٹھہرے تھے۔
تبسم کی بڑی بیٹی صنم بھی چائے کے ہمراہ کھانے کی اشیا لیئے مہمان خانے میں آ پہنچی تھی۔
“لو احتشام یہ کھاو۔۔۔۔۔ سندس نے خاص طور پر تمھارے لیئے بنائے ہیں”۔ پلیٹ میں کباب رکھے صنم نے اسکی جانب بڑھاتے کہا۔
“صنم آپی یہ کباب کس کے بنے ہیں؟؟”۔ ایک نظر سندس کو دیکھتے جہاں مسلسل دھیمی مسکان احتشام کی جانب اچھالی جا رہی تھی،،، احتشام نے صنم کو مخاطب کیا۔
“احتشام یہ کباب بیف کے ہیں”۔ سندس نے فورا سے جواب دیا۔
“سوری ۔۔۔۔۔ لیکن میں بی۔۔۔۔”۔
“صنم آپی یہ کباب بیف کے بنے ہیں اور احتشام کو بیف سے الرجی ہے ۔۔۔ یہ بیف نہیں کھاتے”۔ جونہی احتشام نے زبان کو حرکت دی نین تارا نے اسکی بات کاٹ دی تھی۔
نین تارا کی تفصیل سنتے احتشام نے متحیر سنجیدہ نگاہیں نین تارا پہ فکس کیں جو اسکے مقابل بیٹھی تھی جبکہ نین تارا کی اس حرکت سے سندس کا تن بدن غصے سے تپ اٹھا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“آپا مجھے بہت اچھا لگا بغیر کسی فرق اور امتیاز کے آپ میرے غریب خانے میں تشریف لائے۔۔ مجھے عزت بخشی ۔۔ میں بہت خوش ہوں”۔ لنچ سے فارغ البالی وہ سب دوبارہ سے مہمان خانے میں تشریف فرما تھے جب تبسم نے ممتاز کو مخاطب کیا۔
“ارے تبسم کیسی باتیں کر رہی ہو؟؟ چھوٹی بہن ہو تم میری اور یہ جمع تفریق والی رسمیں اپنوں میں تھوڑی نا ہوتی ہیں”۔ تبسم کی بات ممتاز کو شاق گزری۔
“اچھا آپا میں نے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔۔۔ فرحان کو قاصد بھائی کی بیٹی عمارہ بہت پسند ہے۔۔ میں نے اس سلسلے میں ان سے بات کی تھی انہیں بھی اس رشتے سے کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔ تو میں یہ سوچ رہی تھی کہ کیوں نا فرحان اور عمارہ کی اسی ہفتے منگنی کر دی جائے۔۔ آپکا کیا خیال ہے؟؟”۔ وضاحت کرتے اسنے رائے طلب کی۔
“یہ تو اچھی بات ہے میرے خیال سے فرحان کیلئے عمارہ سے اچھی لڑکی ہو ہی نہیں سکتی۔۔۔ دیر کس بات کی ہے اگر فرحان کی پسند ہے پھر تو تمھیں قطعا دیر نہیں کرنی چاہیئے”۔ ممتاز نے مخلصانہ مشورہ تبسم کی جانب اچھالتے تائید کی۔
“یہ احتشام کدھر ہے؟؟”۔ خیال آتے ہی اسنے من ہی من میں کہا پھر خاموشی سے اٹھ کر باہر کی جانب بڑھ گئی۔
متلاشی نظریں چار سو گھماتے وہ گیٹ کی جانب قدم اٹھانے لگی جہاں اسکی تلاش احتشام کو دیکھتے ہی اختتام پذیر ہوئی۔
“احتشام تم اتنی گرمی میں یہاں کیا کر رہے ہو؟؟”۔ وہ جو فون پہ پوری دلچسپی سے نظریں جمائے کھڑا تھا،،،، سندس کی آواز پہ اسکی جانب متوجہ ہوا۔
“ایک ضروری کام تھا ۔۔۔ اندر سگنل پرابلم تھی تو یہاں چلا آیا۔۔ یہاں کھڑا ہونا ممنوع ہے؟؟”۔ مدعہ بیان کرتے اسنے بائیاں آبرو قدرے اوپر کو کیا۔
“نہیں نہیں ۔۔ منع کیوں ہو گا؟؟ اپنا ہی گھر ہے تمھارا۔۔ میں تو بس ایسے ہی پوچھ رہی تھی”۔ بولتے ہی وہ لمحہ بھر کو خاموش رہی۔ “احتشام تم یہ کام وام گھر جا کر کر لینا ابھی تم میرے ساتھ باتیں کرو”۔ بغیر کچھ سوچے اسنے بے ساختہ کہا پھر چہرے پہ آئی لٹوں کو محض اسے رحجھانے کی غرض سے انگلیوں پہ رول کرنے لگی۔
“آئم سوری۔۔ مجھے سیریسلی ایک بہت ضروری کام ہے”۔ معذرت کرتے اسنے گیٹ کی جانب گھومتے دروازہ اپنی جانب کھولا تھا۔
“احتشام”۔ نین تارا کی آواز تعاقب سے سنائی دیتے وہ دھیرے سے نین تارا کی جانب مڑا۔
“کہو کیا بات ہے؟”۔ اسنے مختصر کہا۔
“آپ کہیں جا رہے ہیں؟؟”۔ احتشام کے قریب آتے اسنے دھیرے سے کہا۔
“نہیں”۔ احتشام کے “نہیں” پہ سندس کی آنکھیں شاک سے ابھریں۔ ” کیوں کیا ہوا ہے؟؟”۔ اسنے مزید کہا۔
“وہ بی جان بول رہی تھیں کہ آپ انہیں گھر لے چلیں”۔
“میں کار سٹارٹ کرتا ہوں ۔۔۔ تم بی جان کو لے کر باہر آو”۔ بولتے ہی وہ گیٹ سے نکل گیا تھا۔
“نین تارا ۔۔۔ نین تارا ۔۔۔ نین تارا۔۔۔ میں اسے چھوڑوں گی نہیں”۔ غصے میں پیر پٹختی وہ گھر کے اندرونی جانب بڑھ گئی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“امی جی آپ نے مجھے یوں اچانک بلایا۔۔ سب خیریت تو ہے نا؟؟”۔ قدسیہ بیگم کے روم میں داخل ہوتے اسنے کنفرم کرتے پوچھا۔
“ہاں واجد آو میرے پاس بیٹھو”۔ قدسیہ بیگم جو بیڈ پہ آرام فرما تھیں واجد کے روم میں آتے ہی اٹھ بیٹھیں اور بیڈ کے تاج سے ٹیک لگائے واجد کو اپنے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
واجد قدسیہ بیگم کے مقابل آ بیٹھا اور اسی پل کا منتظر تھا کہ کب وہ اس سے ہم کلام ہوں گی۔
“واجد اب میں جو تم سے بات کرنے جا رہی ہوں امید ہے کہ تم میری بات کا پاس ضرور رکھو گے؟”۔ واجد کو اعتماد میں لیتے قدسیہ بیگم نے بات کا آغاز کیا۔
“آپ حکم کریں امی جی”۔ اسنے احتراما کہا۔
“دیکھو واجد احتشام اب میچور ہو گیا ہے۔۔۔ اچھی جاب ہے اچھا کماتا ہے۔۔۔ احتشام میرا اکلوتا پوتا ہے۔۔ میری تمنا ہے کہ اپنے جیتے جی اسکے سر پہ سہرا بندھا دیکھوں۔۔۔ میری سانسوں کا کوئی بھروسہ نہیں اس لیئے میں چاہتی ہوں کہ یہ کام جلد از جلد ہو جائے تو بہتر ہے”۔ قدسیہ بیگم نے دلی آرزو بیان کرتے کہا۔
“بات تو آپکی بجا ہے امی جی لیکن۔۔ ممتاز اور میں نے ابھی تک اس بارے میں نہیں سوچا اور احتشام کا رشتہ بھی نہیں ہوا ۔۔۔ ایسے میں شادی؟؟”۔ قدسیہ بیگم کی بات نے اسے سوچ میں ڈال دیا تھا۔
“واجد کئی بار حل اور جواز ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے فقط باریک بینی کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔۔ میری نظر میں احتشام کیلئے ایک لڑکی ہے”۔
“مگر امی جی پتہ نہیں کون ہے؟؟ کہاں رہتی ہے؟؟ اسکے ماں باپ؟ ۔۔ اسکے ماں باپ کیسے لوگ ہیں؟؟ کچھ بھی”۔ واجد نے خفگی ظاہر کی۔
“تم بے فکر رہو واجد۔۔۔۔ بچی دیکھی بھالی ہے گھر کی۔۔۔۔ اور رہی بات ماں باپ کی تو تمھیں خود پہ تو اعتماد ہے نا؟؟”۔ اسکا ہاتھ تھامے قدسیہ بیگم نے تمسکن آمیز انداز میں کہا۔ قدسیہ بیگم نے متبسم نین تارا کی جانب اشارہ کیا تھا جسے واجد بخوبی سمجھ چکا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“آپ کا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا واجد۔۔۔ احتشام میرا اکلوتا بیٹا ہے اسکی شادی کو لے کر بحیثیت ماں میرے دل میں نجانے کتنے ارمان ہیں۔۔۔ آپ میرے ارمانوں کا گلہ گھونٹ کر بی جان کی خواہش کی لاج رکھیں گے؟؟”۔ قدسیہ بیگم کی خواہش کا احترام کرتے رات کے اس پہر جب واجد اور ممتاز روم میں اکیلے تھے،،، واجد نے ممتاز کو اپنے اعتماد میں لیتے اسے آگاہ کیا۔
“آرام سے بولو ممتاز کوئی سن لے گا۔۔۔ خاص کر بی جان۔۔۔ کہیں وہ نا سن لیں”۔ ممتاز کا ردعمل اسے ناگوار گزرا تبھی وہ بیڈ پہ اسکے مقابل جا بیٹھا تھا۔
“ہاں پورے جہان کی فکر ہے آپکو ۔۔۔ ایک نہیں ہے تو بس میری اور میرے بچے کی۔۔۔ میں احتشام کی شادی ہر گز اس بھگوڑی ماں۔۔۔۔”۔
“ممتاز”۔ واجد نے بھڑکتے اسکی جانب منہ پھیرا۔
“چلانے سے حقیقت نہیں بدل جاتی واجد نعیم صاحب”۔ واجد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اسنے کہا۔
“حقیقت بھلے نا بدلے۔۔۔ تم میری بات کان کھول کر سن لو احتشام کی شادی ہو گی تو صرف اور صرف نین تارا سے۔۔۔ جسے اس شادی سے مسئلہ ہے وہ بے شک اس میں شرکت نا کرے۔۔۔ ایک اور بات ۔۔۔ جب تک میں نا چاہوں تم اس بات کا ذکر کسی سے نہیں کرو گی”۔ واجد بیڈ سے اٹھ کھڑا ہوا اور واسکٹ سیٹ کی جبکہ ممتاز اسے زہریلی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“ارے سندس بیٹا تم ابھی تک جاگ رہی ہو؟”۔ پانی لینے کی غرض سے وہ کچن کی جانب بڑھ رہی تھی جب سندس کے روم کی جلتی لائٹ اسے بے قرار کر گئی۔
“بس ماما نیند نہیں آ رہی تھی”۔ وہ جو کھڑکی کے پاس کھڑی سوچ کے بھنور میں پھنسی تھی،،، تبسم کی آواز پہ اسکی جانب مڑی۔
“تمھاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟؟”۔ سندس کا ڈل چہرہ اسے مزید پریشان کر گیا تھا۔
“جی ماما میں ٹھیک ہوں”۔ بغیر چہرے کے تاثرات بدلے اسنے کہا۔
“تو بیٹا کوئی اور پریشانی ہو گی۔۔ تم اتنی رات گئے جاگتی تو نہیں ہو”۔ اسکی تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھتے تبسم نے اسکا جھکا چہرہ قدرے اوپر کو کیا۔
“ماما میں احتشام سے بہت محبت کرتی ہوں۔۔۔ نہیں رہ سکتی اسکے بنا”۔ اسکی ہمت جواب دے چکی تھی اور آنکھوں میں بند سیلاب بہہ نکلا تھا۔
“کوئی بات ہوئی ہے سندس؟؟”۔ اسکی حالت دیکھتے تبسم کو بے چینی سے زیادہ حیرت ہو رہی تھی۔
“ماما احتشام جب سے باہر سے آیا ہے مجھ سے بے اعتنائی برتتا ہے۔۔۔ اسکی بے رخی میرے دل کو چھلنی کر دیتی ہے۔۔۔ میرا دل کرتا ہے وہ میرے ساتھ باتیں کرے میرے ساتھ وقت گزارے مگر وہ بالکل بھی ایسا نہیں کرتا ماما۔۔۔ بس آپ خالہ جان سے میرے اور احتشام کے رشتے کی بات کریں”۔ دل میں دبا لاوہ اسنے بذریعہ الفاظ باہر اگلا تھا۔
“ذرا صبر سے کام لو سندس۔۔۔ میں اچانک ایسے بات نہیں کر سکتی۔۔ ایک بار فرحان کی منگنی ہو جانے دو پھر میں آپا سے تمھارے متعلق بات کروں گی۔۔۔۔ تب تک تم کسی کو اس بات کا احساس بھی نا ہونے دینا ورنہ سب گڑ بڑ ہو جائے گی”۔ تبسم نے اسے دلاسہ دیتے باور کرایا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
گھڑی کی دونوں سوئیاں بارہ پہ آ جمیں تھیں۔۔۔ گھر کے کام سے فارغ البالی وہ سیڑھیوں پہ بیٹھی تھی۔
“یہ تائی جان صبح سے اپنے روم میں ہی ہیں آج سے پہلے تو ایسا کبھی نہیں ہوا؟۔۔۔ اس بن ماہ اعتکاف بیٹھنے کے پیچھے کی وہ سنگین وجہ کیا ہے؟؟”۔ ممتاز کی گرجتی آواز کانوں میں نا گونجنے کی وجہ سے وہ پریشان تھی۔۔۔ اس بات نے صبح سے نین تارا کے دل میں طوفان برپا کر رکھا تھا۔
“کہیں یہ بھیانک طوفان آنے سے پہلے کا خاموش پیغام تو نہیں؟”۔ اسے تشویش ہوئی۔
“جو مرضی ہو جائے ۔۔ بھلے دنیا ادھر کی ادھر ہی کیوں نا ہو جائے نین تارا زیادہ سیانی بن کر شیر کی گچھاڑ میں جانے کی قطعا ضرورت نہیں ورنہ یہ جنگلی شیر تجھے بھی گھائل کر دے گا”۔ سیڑھیوں سے اٹھتے وہ بی جان کے روم کی جانب بڑھ گئی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“روہینہ جلدی کرو ٹائم نہیں ہے”۔ صحن میں کھڑا وہ دائیں اور منہ کا رخ کیئے بے زارگی میں اسکا نام پکارے جا رہا تھا۔
“بس آ گئی۔۔۔۔ چلیں بھائی”۔ جلد بازی میں کلچ اٹھائے وہ برق رفتاری سے اسکے قریب آئی تھی۔
“نین تارا۔۔۔۔ تم نہیں چلو گی کیا ہمارے ساتھ”۔ جونہی نین تارا روم کی دہلیز سے کچن کا راستہ ناپ رہی تھی تب احتشام نے اسے مخاطب کرتے پوچھا۔
“نہیں۔۔ وہ۔۔۔ مجھے رات کا کھانا بنانا ہے۔۔۔ تو میں نہیں جا سکتی”۔ ہاتھ کی انگلی سے اٹکیلیاں کرتے اسنے ہچکچاتے جواب دیا۔
“احتشام روہینہ نے شاپنگ کرنی ہے۔۔۔ دیر ہو جائے گی۔۔ تم لوگ جاو”۔ ممتاز بھی اس جانب آ کر غصے میں کہنے لگی۔
“چلو روہینہ”۔
احتشام اور روہینہ انٹرنس کی جانب بڑھے تھے۔
“نین تارا”۔ جونہی وہ کچن کی جانب گھومی ممتاز نے اسے واشگاف بھڑکیلی آواز میں پکارا جس سے وہ سہم کے وہیں رکی رہ گئی۔ “اب اگر تم احتشام کے قریب بھی بھٹکی تو تمھیں اس گھر سے چلتا کروں گی”۔ اسکے قریب جاتے ممتاز نے اسکا بائیاں بازو ہاتھ کی مضبوط گرفت میں لیا تھا۔
“سمجھ رہی ہو؟؟”۔ اسنے کنفرم کرتے پوچھا جسکے جواب میں نین تارا بمشکل سر ہی ہلا سکی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆