مبارکہ باجی میرے خالو جان پروفیسر ناصر احمد صاحب کی پہلی اہلیہ سے سب سے بڑی بیٹی تھیں۔یعنی کہ وہ ہماری کزن تھیں۔پہلی اہلیہ کی وفات کے بعد خالو جان کی شادی ہماری خالہ جان سے ہوئی تھی۔شادی کے بعد ہم سب کزنز انھیں مبارکہ باجی کہہ کر ہی پکارتے تھے۔
مبارکہ باجی سے میری پہلی ملاقات میرے بچپن کی ہے۔ایک دفعہ سردیوں کی چھٹیوں میں ہم اپنی چھوٹی خالہ کے گھر گئے ہوئے تھے اور اسی محلے میں مبارکہ باجی کا سسرالی گھرتھا جو ابھی نیا نیا ہی بنا تھا۔چنانچہ مبارکہ باجی سے ملنے کے لیے ان کے گھر بھی گئے۔وہاں برآمدے میں ایک بڑی میز پر چائے کا اہتمام تھا۔بڑے افراد توچائے لے کر کمرے میں بیٹھ کر باتیں کرنے لگے اور ہم مہمان بچے اس میز پر سجے لوازمات میں سے اپنی پسند کے مطابق مٹھائی،بسکٹ،اور سموسے وغیرہ مزے مزے سے کھاتے رہے۔
اسی طرح ایک اور واقعہ کچھ یوں ہے کہ مبارکہ باجی کی خالہ کی بیٹی کی شادی تھی اور ہم سب حسبِ معمول سردیوں کی چھٹیوں میں اپنی چھوٹی خالہ کے گھر گئے ہوئے تھے۔ مہندی والی رات ہم سب بھی شادی والے گھر مدعو تھے۔وہاں مبارکہ باجی نے ڈھولک کی بجائے مٹکا بجا کر شادی کے گیت گائے اور خوب رونق لگائی۔ہم بچوں کو گانے تو نہیں آتے تھے پر ہم نے گانے کی لَے کے مطابق زور زور سے تالیاںبجائیں۔تالیاں بجانے سے ہاتھ لال ہو رہے تھے۔ہم اپنے لال لال ہاتھ ایک دوسرے کو دکھاتے کہ دیکھو کس نے زیادہ زور سے تالیاں بجائی ہیں۔
۱۹۹۰ء میں حیدر بھائی اور مبارکہ باجی ہمارے گھر ملتان آئے۔تب ان کے چھوٹے بھائی نوید کی مجھ سے منگنی ہوئی تھی۔ان دونوں کی شمولیت میرے سسرالی رشتہ داروں کی تھی۔اُس وقت میری عمر انیس سال کی تھی۔ناسمجھی کی عمر تھی اور بے فکری کے دن تھے۔شام کو منگنی ہوئی اور اگلے روز صبح میں کالج چلی گئی۔واپس آئی تو دیگر مہمانوں کی طرح باجی مبارکہ اور بھائی جان حیدر بھی جا چکے تھے۔لیکن اس رشتہ کے طے ہونے کے بعد حیدر بھائی میرے جیٹھ اور اور مبارکہ باجی میری جیٹھانی بن گئیں۔اور اس دن سے ہی میں انہیں مبارکہ باجی سے مبارکہ بھابی کہنے لگ گئی۔
ہماری شادی سے پہلے ہی یہ سب جرمنی چلے گئے تھے اور پھر کبھی پاکستان واپس نہیں آئے۔جب کبھی ان کے پاس کچھ گنجائش نکلتی تو مکہ ،مدینہ کا چکر لگا آتے۔ہاں ان کے بچے کبھی کبھار پاکستان آتے رہے اور ان سے ملاقات پر بھابی اور بھائی کی خیریت کی خبر ملتی رہی۔
۲۰۰۹ء میں ہم لوگ بھی امریکہ پہنچ گئے۔پھر امریکہ سے جرمنی میںہمارا براہِ راست رابطہ رہنے لگا۔پہلے پہل اسکائپ پر کال کے ذریعے اور پھر وٹس ایپ کال کے ذریعے ایک دوسرے سے گفتگو بھی ہونے لگی اور ایک دوسرے کو لائیو دیکھنے کا موقع بھی ملتا رہا۔پھر ۲۰۱۵ء میں مجھے اپنے بچوں کے ساتھ جرمنی جانے کا موقعہ ملا۔شادی کے بعد میری یہ بھای جان اور مبارکہ بھابی سے پہلی بالمشافہ ملاقات تھی۔
بھابی مبارکہ،بھائی جان اور ان کے سب بچے اس قدر اپنائیت سے ملے کہ لگتا ہی نہیں تھا کہ ہم سب پہلی بار مل رہے ہیں۔بھابی مبارکہ نے ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی مختلف کھانے اور چائے کے ساتھ کے لوازمات بنا بنا کر رکھے ہوئے تھے اور کچھ فریز بھی کیے ہوئے تھے۔کیونکہ مبارکہ بھابی ہر دوسرے دن ڈایلے سز کے لیے جاتی تھیں اور انہیں فکر تھی کہ ان کی غیر موجودگی میںہمیں کھانے پینے کے سلسلہ میں کوئی کمی یا تکلیف نہ ہو۔جتنے دن بھی ہم ان کے گھر میں رہے بھابی مبارکہ اور بھائی جان نے ہمارابہت خیال رکھا،کبھی بچوں کو کشتی کی سیر کروائی جا رہی ہے تو کبھی آؤٹ ڈور پکنک کا انتظام کیا جا رہا ہے۔کبھی بچوں کے لیےPizza آرڈر کیا جا رہا ہے۔ جب ہم واپس جانے لگے تو تب بھی بہت سارے تحفے تحائف دے کر ہمیں رخصت کیا۔
کیا خبر تھی کہ بھابی مبارکہ کے ساتھ ہماری آخری ملاقات ہو گی۔اللہ تعالیٰ بھابی مبارکہ کی مغفرت فرمائے،ان کے درجات بلند کرے اور اپنے قرب میں انہیں جگہ دے اور بھائی جان اور سارے بچوں کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔آمین ثم آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔