ڈرائنگ روم میں یکدم خاموشی چھا گئی تھی۔ ان دو نفوس نے آمد کا جو مقصد بیان کیا تھا، وہ کسی طرح بھی شہیر ولا کے مکینوں کے حلق سے نہیں اتر رہا تھا۔
“آپ اتنے حیران کیوں ہیں؟
ہم نے کوئی انوکھی بات تو نہیں کی،
ہم عشال کو اپنی گھر کی عزت بانا چاہتے ہیں۔”
زبیر عثمانی نے سگار کی راکھ جھاڑتے ہوئے آغا سمیع الدین سے براہ راست کہا تھا۔ درمیان کی ٹیبل پر ان کے لائے گئے تحائف رکھے ہوئے تھے۔ جن کو دیکھنا تک کسی نے گوارا نہیں کیا تھا۔
“شکریہ زبیر صاحب!
آغا سمیع الدین نے نہایت سنبھلے ہوئے لہجے میں آغاز کیا۔
یقینا آپ معززین شہر میں سے ہیں، أپ کے جذبات کی قدر بھی کرتے ہیں۔ لیکن آپ نے تھوڑی دیر کردی۔ ہم آخری فیصلہ کرچکے ہیں۔
ہماری بچی کا نکاح ہوچکا ہے۔”
عائشہ نے کن اکھیوں سے شوہر کی طرف دیکھا تھا۔ جن کے چہرے پر رعونت اور فتح مندی کے علاوہ کوئی دوسرا تاثر نہیں تھا۔
“اس سے کیا فرق پڑتا ہے، آغا صاحب! آپ صرف ہاں کریں، باقی معاملات بھی ہینڈل ہو جائیں گے۔”
زبیر عثمانی ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے گویا کوئی بزنس ڈیل کررہے تھے۔
ضیاءالدین صاحب کا خون کھول اٹھا لیکن ضبط کیے آغا جان کے بولنے کے منتظر رہے۔
“لیکن ہم “ہاں” نہیں کرنا چاہتے! شرفاء میں ایک ریت ہوتی ہے، زبان کا پاس۔۔۔! اگر بات نکاح تک نہ بھی پہچتی، تو ہم “ہاں” نہ کرتے۔
میرا خیال ہے ہم واضح الفاظ میں اپنی بات کہہ چکے۔”
ایک طرح سے آغا جان نے انھیں باہر کا راستہ دکھایا تھا۔
“زبان؟ اکیسویں صدی کے اس دور میں آپ ابھی تک سن ڈیڑھ سو کی روایات اور اصولوں کو گلے لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں، آغا صاحب! کنویں سے باہر جھانکیں، دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے، اینٹیکس اب صرف شوکیسز میں اچھی لگتی ہیں۔ اپنے فائدے کو دیکھیے! ہمارے ساتھ رشتہ جوڑ کر آپ کی حیثیت بدل جائے گی۔”
زبیر عثمانی نے سگار کو دانتوں میں گھمایا۔
“زبیر صاحب آپ ہماری توہین کررہے ہیں!”
ضیاءالدین صاحب نے انھیں آداب یاد دلانا چاہے مگر آغا سمیع الدین نے ان کے زانو پر ہاتھ رکھ کر ضیاءالدین صاحب کو تسلی دیتے ہوئے زبیر عثمانی سے کہا۔
“بجا فرمایا آپ نے! لیکن نہ ہم اپنے کنویں سے باہر دیکھنا چاہتے ہیں، اور نہ ہمیں اپنا مقام و حیثیت بدلنے میں کوئی دلچسپی ہے۔ امید کرتے ہیں،آپ ہمارا مدعا سمجھ چکے ہیں، عقلمند کے لیے اشارہ ہی کافی ہے اور آپ کافی سمجھدار انسان ہیں۔”
آغا سمیع الدین نے اپنے مخصوص ٹھہرے ہوئے، متحمل لہجے میں انھیں جواب دیا۔
“سمجھدار تو آپ بھی لگے تھے۔ لیکن سمجھداری کا ثبوت نہیں دیا آپ نے، خیر! یہ تحائف ہماری بہو کا صدقہ سمجھ کر رکھ لیجیے۔
نکاح کیا ہے؟ ایک کچا دھاگہ ہی تو ہے!
أپ سے پھر ملاقات ہوگی، ان شاءاللہ!
زبیر عثمانی ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑے ہوئے اور سگار کو وہیں قالین پر پھینک کر جوتے سے مسل ڈالا۔
“ہو سکے تو ایک بار اپنی بیٹی سے بھی اس کی مرضی پوچھ لیجیے، ہو سکتا ہے، آپ کو نہ سہی لیکن اسے اپنی حیثیت بدلنے میں ضرور دلچسپی ہو؟”
جاتے جاتے عائشہ عثمانی نے آغا جان سے کہا تھا۔
اس نشست میں صرف آغا جان اور ضیاءالدین صاحب نے شرکت کی تھی۔
ضیاءالدین! یہ سب کوڑا باہر پھنکوا دو!”
آغا جان کہتے ہوئے واپس پلٹ گئے تھے۔
****************
شام کا سر سرنگوں تھا۔ اور سرخ لکیریں آسمان کے چہرے پر کینوس کی طرح پھیل رہی تھیں۔ اس مشہور ریستوران میں نورین کے مقابل ایک بار پھر شامی تھا۔ ان کے درمیان پڑے جوس کے گلاسوں میں برف پگھل چکی تھی۔ اور گلاس کی سطح پر نھنھے قطرے نمودار ہوچکے تھے۔
“تم اندازہ نہیں کرسکتیں، محبت کا آکٹوپس جب کسی وجود پر اپنے پنجے گاڑتا ہے تو پھر اس کی روح تک کو چچوڑ کر رکھ دیتا ہے،
میں نے عشال کو کھونے کا تصور بھی نہیں کیا تھا نورین! میری زندگی اس کے نام سے وابستہ ہو چکی، میرا دل خالی کاغذ کی طرح بے رنگ تھا۔ اس پر عشال کے نام کا رنگ چڑھ چکا۔ لیکن پتہ نہیں، کیوں؟ میرے احساسات اس کے دل تک آنچ نہ دے سکے۔
وہ مجھ سے کیوں ان سکیور ہے؟
اگر زبردستی ہی اسے حاصل کرنا ہوتا، تو یقین کرو یہ بہت آسان تھا میرے لیے۔۔۔۔!مگر میں اسے مکمل حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ اس کی رضا سے، اس کی خوشی سے، جانتی ہو، آج سے پہلے تک کوئی خواہش میرے لیے لاحاصل نہیں تھی۔ عشال بھی نہ ہوتی، اگر وہ صرف ایک خواہش ہوتی! وہ میری چاہت ہے، میری زندگی کا حاصل! میں اسے حاصل کرنا چاہتا ہوں، لیکن۔۔۔۔ اس کے دل کے ساتھ!
میں نے اپنے قدم اسی موڑ پر روک لیے ہیں نورین! آج سے دس سال بعد بھی تم مجھے یہیں پاؤ گی، عشال کے انتظار میں! میرے دل کی شام ہوگئی نورین!”
شامی نے سرخ آنکھوں اور بھیگے لہجے کے ساتھ کہا تھا۔
‘میں کیا کرسکتی ہوں تمہارے لیے شامی! میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آرہا؟”
نورین سخت کنفیوز تھی۔ شامی کا یہ ملگجا حلیہ، اس کے لفظ، اس کا آنچ دیتا لہجہ! نورین سچ مچ پریشان تھی۔ ایک طرف اسے شامی پر رحم آتا تھا تو دوسری طرف عشال کا خیال آتا تھا۔ نورین چاہ کر بھی شامی کے لیے اب کچھ نہیں کرسکتی تھی۔
“تم صرف ایک چھوٹا سا فیور دے دو مجھے!”
میں عشال سے ایک آخری بار ملنا چاہتا ہوں، مجھے وہ غلط سمجھے یہ احساس مجھے کبھی جینے نہیں دے گا۔ میں صرف ایک بار خود کو اس کے سامنے کلیئر کرنا چاہتا ہوں۔”
شامی نے باقاعدہ نورین کی منت کرتے ہوئے کہا۔
“سوری شامی! تمہیں دینے کے لیے میرے پاس جھوٹی امید بھی نہیں۔”
نورین نے تأسف سے کہا۔
“بہتر ہے خود کو آس و یاس کے بھنور میں ختم مت کرو، اور اس کا انتظار کرو، جو قدرت نے تمہارے لیے مقرر کر رکھا ہے۔ یقین جانو، قدرت کے خانے میں صرف خیر ہے، چاہے ہم اس کی سمجھ رکھتے ہوں یا نہ ہوں۔”
شامی کے چہرے پر ہٹ دھرمی پھیل گئی تھی۔
“تم میری مدد نہیں کرنا چاہتیں، ٹھیک ہے۔مگر مجھے مایوسی کا راستہ مت دکھاؤ! اور پھر میں نے تم سے مانگا ہی کیا ہے؟ صرف ایک ملاقات۔۔۔؟
خدا کے لیے نورین! صرف ایک بار اس کو مجھے دکھادو، زندگی بھر تمہارا یہ احسان یاد رکھوں گا۔۔۔پلیز، مجھے صرف جینے کی ایک وجہ چاہیے! کیا تم اتنا نہیں کرسکتیں؟”
شامی کی آنکھوں سے پانی بہہ نکلا تھا۔
“شامی۔۔!
نورین نے بے اختیار اسے پکارا تھا۔ اردگرد کے لوگ انھیں دیکھنے لگے تھے۔
“تمہیں اس طرح دیکھ کر مجھے اچھا نہیں لگ رہا شامی! لیکن میں بھی کیا کروں؟ مجبور ہوں! میرے پاس کوئی راستہ نہیں ہے، تمہاری یہ خواہش پوری کرنے کے لیے۔”
نورین نے ٹھنڈی سانس لی تھی۔
“راستے نکل آتے ہیں نورین! اگر انسان نکالنا چاہے۔۔۔۔صرف ارادہ کرنے کی دیر ہے، اگر تم چاہو تو، عشال کو میرے پاس لاسکتی ہو۔”
وہ بضد تھا۔
“اف!
نورین نے سر تھاما۔
” تمہیں کیسے سمجھاؤں یہ ممکن نہیں ہے۔”
وہ دیر سے اسے قائل کرنے کی کوشش کررہی تھی۔ مگر وہ ایک انچ اپنے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹا تھا۔
“اوکے! تم عشال کو میرے پاس نہیں لا سکتیں، لیکن مجھے تو عشال کے پاس پہنچا سکتی ہو؟”
نورین نے چونک کر شامی کی طرف دیکھا، اس کی آنکھوں میں امید کے دیے جھملا رہے تھے۔
*****************
رت نے آنچل بدلا تھا، کراچی کی تپتی دوپہروں کا جوبن ٹوٹ چکا تھا، درختوں کے پتے زردی مائل تھے، شامیں قدرے سرد اور طویل راتوں میں ڈھل چکی تھیں۔ مسٹر اینڈ مسز عثمانی اپنے پتے کھیل کر اب تماشا لگنے کے منتظر تھے۔ اس بات کو اتنا وقت ضرور بیت چکا تھا کہ شہیر ولا میں اب اس موضوع کو سوچنا بھی گوارا نہیں کیا جارہا تھا۔
“آغا جان! آپ کی ای میل ہے۔”
آبریش سیڑھیاں پھلانگتی ڈائننگ ٹیبل تک آئی تھی۔
“آرہے ہیں بھئی! جلدی کس بات کی ہے؟”
ضیاءالدین صاحب نے اسے سرزنش کی۔
“بابا وہ ای میل میں لکھا ہے، فوری جواب دیں۔ جلدی چکیں ناں آغا جان!”
وہ ضد کرتے ہوئے اپنے ساتھ ہی لے جانا چاہتی تھی۔ اس کا گیم میں خلل پیدا ہورہا تھا۔
“ٹھیک ہے، ضیاءالدین میاں! ہم دیکھ لیتے ہیں، کیا معاملہ ہے؟ تم بچی کو مت ڈانٹو!”
آغاجان اوپر کمرے میں پہنچے تع عشال کمپیوٹر چیئر سنبھال چکی تھی۔ ان کی ای میلز وہی چیک کرتی تھی۔
“پیارے آغا جان
السلام علیکم!
بہت بار آپ سے رابطے کی کوشش کر چکا ہوں، لیکن آپ کا جواب موصول نہیں ہوا۔ میں اس وقت اکیڈمی میں ہوں۔ یہاں معارف میں بہت کام جمع ہو گیا ہے۔ آپ کو مہینوں ہوگئے یہاں سے نکلے ہوئے۔ مجھے آپ کی مصروفیات کا پوری طرح احساس ہے۔ لیکن کیا کروں؟ معاملاتباب میرے بس سے باہر ہوگئے ہیں۔ اس کے علاوہ مجھے آپ سے کچھ ضروری باتیں طے کرنی ہیں۔ جن کے لیے آپ کی موجودگی ازحد ضروری ہے۔
امید کرتا ہوں آپ جلد آنے کی کوشش کریں گے۔ اور مجھے اور اپنے تمام چاہنے والوں کو مایوس نہیں کریں گے۔
پلیز میری نافرمانی کو درگزر کیجیے گا۔
فقط
آپ کا ضیغم۔”
“ان کینتین چار ای میلز لگاتار أچکی ہیں۔ اور کم و بیش سبھی کا مضمون ایک جیسا ہے۔”
عشال نے ای میل پڑھ کر سنانے کے بعد آغا جان کو مطلع کیا تھا۔
“یہ کون ہیں، آغا جان! پہلی بار ان کا نام سنا ہے۔”
آبریش فٹ بولی تھی۔ اس میں تجسس کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔
“آغا جان کے تایازاد بھائی کا پوتا ہے ضیغم!”
جواب سطوت آراء نے دیا تھا۔ جو آغا جان کے لیے چائے تھامے کھڑی تھیں۔ اور جوابا آبریش نے سر ہلایا تھا۔
“جب میں نے دیکھا تھا، تب تو بہت چھوٹا تھا، ہر وقت روتا رہتا تھا۔ معصوم گودیوں کھیلنے کی عمر میں ہی لطیم ہوگیا تھا۔
“سطوت آراء نے افسوس بھرے انداز میں کہا۔
” ماما یہ “لطیم” کیا ہوتا ہے؟”
آبریش نے سوال داغا۔
“لطیم یعنی جس کے والدین دنیا میں نہ ہوں۔”
آغا جان نے جواب دیا۔
“اب تو کافی بڑا ہوگیا ہوگا؟ کرتا کیا ہے؟”
سطوت آراء نے دلچسپی سے پوچھا۔
“کرنا کیا ہے؟ رضاکار پولیس میں نوکری کررہا ہے۔ بہت چھوٹی عمر سے اپنی پڑھائی کا خرچ خود اٹھا رہا ہے۔ ماشاءاللہ بہت سعادتمند اور محنتی بچہ ہے لیکن۔۔۔!”
آغا جان کچھ کہتے کہتے رک سے گئے۔
“لیکن کیا آغا جان؟”
سطوت آراء نے الجھ کر پوچھا۔
“کچھ نہیں، بس یونہی خیالات بھٹک گئے۔
ٹھیک کہتے ہیں ضیغم میاں! اب ہمیں رخت سفر باندھ لینا چاہیے۔”
آغا جان صاف بات بدل گئے تھے۔ لیکن ان سے اصرار کی بھلا کس میں جرأت تھی۔
“لیکن آغا جان! ہمارا تو خیال تھا آپ کی موجودگی میں ہی عشال کے فرض سے سبکدوش ہوجاتے۔۔۔ آپ کا کب تک واپسی کا ارادہ ہے؟”
سطوت آراء کو نئی فکر لاحق ہوچکی تھی۔
عشال آہستگی سے وہاں سے کھسک گئی تھی کہ اب اس کی موجودگی غیر ضروری تھی۔
“ظاہر ہے بھئی سب کچھ سوچ کر ہی پروگرام ترتیب دیں گے۔
تم ایسا کرو، صارم کی والدہ سے بات کرو، ان کا ارادہ معلوم کرو، ہم مزید دو ماہ نہیں ٹھہر سکتے۔ ہوسکے تو ان سے بات چیت کر کے اگلے ہفتے تک سارا معاملہ نمٹا دو۔ آخر کو بچی تو ہم نے رخصت کرنی ہی ہے۔ زیادہ شور شرابے کی ویسے بھی ضرورت نہیں، اللہ رسول کی سنت ہے، بہتر ہے شریعی طریقے سے سب کچھ ہوجائے۔”
آغا جان نے سطوت أراء کے تفصیلات گوش گذار کیں۔
“وہ تو ٹھیک ہے آغا جان لیکن۔۔!”
سطوت آراء کچھ سوچنے لگی تھیں۔
“کیا سوچنے لگیں؟ کوئی الجھن ہے تو کہو؟”
أغاجان نے ان کا سوچتا چہرہ دیکھ کر کہا۔
“میں بس یہ سوچ رہی تھی، یہ ان کے گھر کی پہلی شادی ہے آغاجان! اور ماشاءاللہ ہمارے گھر کی بھی، کچھ ارمان تو ان کے بھی ہوں گے ہی، وہ اعتراض نہ کریں؟”
سطوت آراء نے خدشہ بیان کیا۔
“درست کہا تم نے! یہ سب باتیں ہمارے ذہن میں ہیں، لیکن تم بات چھیڑ کر تو دیکھو! أگے جو اللہ کی منشاء!”
آغا جان نے بات ختم کردی تھی۔
سطوت آراء نہال سی واپس پلٹ گیئیں۔
اور عشال کمرے کے باہر ضیغم مصطفی کو کوس رہی تھی۔ نہ اس کی میل آتی، نہ یہ کھٹراگ کھڑا ہوتا۔
اسے ضیغم مصطفی سے ایک بے نام سی خلش محسوس ہوئی، جو اکثر ہی اس کے پیارے آغا جان کو یونہی اس سے چھین لیتا تھا۔ ایک انجانی سی کدورت وہ ضیغم مصطفی سے محسوس کررہی تھی۔ بنا اسے دیکھے، بنا جانے۔ اسے فقط آغا جان کا اس کے لیے محبت سے ذکر کرنا کھل رہا تھا۔
*****************
موسم نے اچانک ہی کروٹ لے لی تھی۔ شمالی ہواؤں نے یکدم شہر کو تلپٹ کر کے رکھ دیا تھا۔
خشک ہوا کے بگولوں نے عروس البلاد کے باسیوں کو شوں شاں جیسے امراض میں مبتلا کر دیا تھا۔ جیکٹ، سوئٹرز جو اتر چکے تھے، دوبارہ پہن لیے گئے۔ سرد ہوائیں روٹھ کر دوبارہ مہربان ہوگئی تھیں۔۔ ڈاکٹروں، اسپتالوں اور سوپ کارنرز پر بھیڑ بڑھ گئی تھی۔لیکن اس کے ساتھ ہی اسٹریٹ کرائمز میں بھی اضافہ ہوچکا تھا۔ اس لیے سر شام سناٹے بھی کچھ زیادہ محسوس ہونے لگے تھے۔
ایسے میں اگر کہیں زندگی کا ہنگام دکھائی دیتا تھا تو شہیر ولا کی طرف جانے والی وہ کشادہ سڑک تھی۔
دور سے ہی گہما گہمی اور ستاروں کی طالع آزمائی دکھائی دیتی تھی۔
شور اور ہنگامے کے بیچ مسلسل بجتے لینڈ لائن فون پر کسی کی توجہ ہی نہیں جارہی تھی کہ نجانے کہاں سے آبریش پھدکتی ہوئی آئی اور لینڈ لائن فون کو بجتے دیکھ کر کان سے لگایا ہی تھا کہ دوسری جانب سے لائن ڈراپ کردی گئی۔آبریش کندھے اچکاتی لا پروائی سے نیچے چلی گئی۔ کچھ ہی دیر میں مہندی کا فنکشن شروع ہونے والا تھا۔
فون کی آواز دوبارہ نہیں ابھری شاید وہ بھی مایوس ہوچکا تھا۔
عشال کو اس کے کمرے میں ہی تیار کیا جارہا تھا۔ آغا جان کو رخصتی سے پہلے دلہن کا گھر سے قدم نکالنا پسند نہیں تھا۔
املتاس کا بہروپ اسے دو آتشہ کررہا تھا۔ مہندی سے رنگے ہاتھ، گیندے اور موتیے کا سنگھار، اس پر ٹوٹ کر برس رہا تھا۔
دل ہی دل میں نورین نے اسے کئی بار ماشاءاللہ کہا تھا۔اور عشال کی مسکراہٹ سے تو نورین نے نظریں چرائی تھیں۔ اسے خدشہ تھا عشال کی خوشیوں کو کہیں اس کی ہی نظر نہ لگ جائے۔
“ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟ نظر لگاؤگی کیا؟”
عشال نے نورین کو یک ٹک اپنی جانب دیکھتے پاکر پوچھا۔ اس کے دونوں ہاتھ مہندی سے رنگے جارہے تھے۔
“میں بھلا کیوں تمہیں نظر لگانے لگی؟ بس یہ سوچ رہی ہوں، تمہیں دیکھ کر میری آنکھیں نہیں جھپک رہیں تو بے چارے صارم بھائی کا کیا حال ہونے والا ہے؟”
نورین نے بات بدلی۔ حالانکہ اس کے دل و دماغ میں الگ ہی جنگ چھڑی ہوئی تھی۔
عشال دل کھول کر ہنس دی۔ اس کی ہنسی میں اندرونی خوشی کی چہکار تھی۔ اور بہت مترنم انداز میں بولی۔
“ابھی تو عشق میں ایسا بھی حال ہونا ہے
کہ اشک روکنا تم سے محال ہونا ہے
ہر ایک لب پہ ہیں میری وفا کے افسانے
تیرے ستم کو ابھی لازوال ہونا ہے
بجا کہ خار ہیں لیکن بہار کی رت میں
یہ طے ہے اب کے ہمیں بھی نہال ہونا ہے
تمہیں خبر ہی نہیں تم تو لوٹ جاؤ گے
تمہارے ہجر میں لمحہ بھی سال ہونا ہے
ہماری روح پر جب بھی عذاب اتریں گے
تمہاری یاد کو اس دل کی ڈھال ہونا ہے
کبھی تو روئے گا وہ بھی کسی کی بانہوں میں
کبھی تو اس کی ہنسی کو زوال ہونا ہے
ملیں گی ہم کو بھی اپنے نصیب کی خوشیاں
بس انتظار ہے کب یہ کمال ہونا ہے
ہر ایک شخص چلے گا ہماری راہوں پر
محبتوں میں ہمیں وہ مثال ہونا ہے
زمانہ جس کے خم و پیچ میں الجھ جائے
ہماری ذات کو ایسا سوال ہونا ہے
وصی یقین ہے مجھ کو وہ لوٹ آئے گا
اسے بھی اپنے کیے کا ملال ہونا ہے
(وصی شاہ)
” شٹ اپ عشال! اتنی خوشی کے موقع پر تمہیں یہ سڑی ہوئی غزل ہی یاد آئی تھی؟”
نورین نے کسی خیال سے دہل کر اسے گھرکا تھا۔
عشال نے قدرے حیرت سے اسے دیکھا اور خوشگوار لہجے میں بولی۔
“چلو حسب موقع نہ سہی، حسب حال سہی، کیوں میری رخصتی پر تم نے شکر کے کلمے پڑھنے ہیں؟ اس غزل کا مصداق تم ہو نورین!
اور خبردار اس غزل کے بارے میں کچھ بھی کہا، یہ میری موسٹ فیورٹ پوئٹری ہے۔
یاد آگئی تو پڑھ ڈالی۔”
عشال نے نورین کے خفا چہرے کو دیکھ کر کہا۔ مگر جوابا وہ منہ پھلائے خاموش بیٹھی رہی تو۔۔۔،
“اچھا بس! منہ پھلانے کی ضرورت نہیں۔ اوکے بابا! سوری ناں؟”
عشال نے منت سے کہا تو نورین کو اس کے انداز پر ہنسی آگئی تھی۔
اسی وقت نورین کے سیل پر ایک نمبر چمکا تھا۔ وہ سرد ہاتھوں میں موبائل تھامے، کسی خاموش گوشے کی تلاش میں باہر چلی آئی تھی۔
****************
“میری توبہ! میں تو پھنس گئی وہاں رشتہ ڈال کر۔ الٹی آنتیں گلے کو آرہی ہیں۔ یعنی کہ حد ہوگئی! ہر بات پر اعتراض، اب میرے گھر کی پہلی شادی ہے، میں اپنے بچے کی خوشی بھی ڈھنگ سے نہ کروں؟
ہر بات میں تو بڑے میاں کی شریعت آڑے آجاتی ہے۔ ٹھیک ہے، بھئی، مانتے ہیں ہم بھی شریعت کو! لیکن خوشی کے موقع پر ہی تو یہ سب کچھ ہوتا ہے۔ ہم بھی آخر مسلمان ہیں، لیکن آغا صاحب کی نظر میں وہ خود ہی عقل کل ہیں بس!”
شافعہ سخت تلملا رہی تھیں۔ آغا جان نے بڑی مشکل سے صرف مہندی کی رسم کرنے کی اجازت دی تھی۔ اس کے علاوہ نہ کوئی شور نہ شرابا!
شافعہ کے تو سارے ارمان ہی ڈھے گئے تھے۔ وہ سخت بد مزہ تھیں۔ حقیقتا ان کا دل کھٹا ہو چکا تھا۔ وہ مجبور تھیں تو صرف صارم کی وجہ سے۔
دو ہفتے میں شادی کی شرط تو شافعہ نے خوشی خوشی مان لی تھی کہ ان کی تیاری مکمل تھی۔ لیکن مایوں سے ڈھولکی تک باقی ہر چیز پر أغا جان نے اعتراض کردیا تھا۔ اس پر طرہ عشال کے برائیڈل ڈریس کی آستینیں لمبی اور سر پر گولڈن حجاب نے ان کا موڈ سخت خراب کردیا تھا۔ لیکن خوبصورتی کے نام پر آغا جان بے حجابی کی رتی بھر اجازت نہیں دی تھی۔
“اپنی لڑکی کو تو ٹرک بھر جہیز دے رہے ہیں، اس وقت تو انھوں نے جہیز کو سنت قرار دے ڈالا! بس اپنے مطلب کی شریعت ہی ہے ان کی! غضب خدا کا، ایسا بھی ہوا ہے کہیں؟”
“ارے ماما! بس بھی کردیں، آپ کیوں اپنا بی پی شوٹ کررہی ہیں؟ اپنی بیٹی کو دے رہے ہیں، دینے دیجیے! وہ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں کرنے دیجیے!
آئیے میں آپ کے ارمان پورے کر دیتا ہوں!”
صارم نے وقار کو اشارہ کیا تھا۔
اس نے اسٹیریو سسٹم میں میوزک چلا دیا تھا۔ اور صارم نے شافعہ کو لے کر جھومنا شروع کردیا۔
“ارے پاگل ہوئے ہو کیا؟”
مجھے کوئی شوق نہیں اس عمر میں ناچنے کا!”
شافعہ جھینپنے لگیں۔ لیکن صارم باز ہی نہیں آرہا تھا۔ جبکہ وقار تالیاں پیٹتے ہوئے قہقہے لگا رہا تھا۔
***************
سنسان سڑک پر اکا دکا گاڑیوں کی آواز کبھی کبھار ہی گونجتی تھی۔ اس طرف گیٹ کے لیمپ پوسٹ بھی خاموش تھے۔ یہ کشادہ مکانوں کا پچھواڑہ تھا اور یہاں سے عموما روشنیوں کا گذر بھی نام نہاد تھا۔
ایک سایہ آہستگی سے چھوٹے سے گیٹ میں درز پیدا کرتا اندر داخل ہوچکا تھا۔ درختوں سے لپٹی فینسی لائٹس نے راہداری میں ناکافی سی روشنی پیدا کردی تھی۔
وہ لان کی عقبی سیڑھیوں تک آیا اور گھومتی ہوئی ماربل کی سیڑھیوں پر قدم قدم جماتا اوپر کی طرف بڑھ رہا تھا۔
اوپر کمرے میں عشال آئینے کے سامنے تنہا تھی۔ ایک ایک کر کے سبھی لڑکیاں لان میں اسٹیج کے سامنے جمع ہو چکی تھیں۔ نورین سے عشال نے رکنے کو کہا تھا مگر وہ ضروری کام کا کہہ کر نیچے چلی گئی تھی۔ اور اس وقت وہ سطوت آراء سے شہیر کے بارے میں استفسار کررہی تھی۔
“ارے ہاں! یہ لڑکا بھی ناں؟ کہہ رہا تھا شام تک پہنچ جاؤں گا۔ لیکن دیکھو اب فنکشن شروع ہونے والا ہے۔ لڑکے والے گھر سے نکل چکے ہیں۔ وہ شگن کی مہندی بس لاتے ہی ہوں گے۔ تم ایک کام کرو بیٹا! عشال کو دیکھ لو، جیسے ہی مہمان آجائیں اسے نیچے لے آنا۔
میں ذرا مہمانوں کو دیکھ لوں۔”
“جی جی خالہ جان! آپ بالکل پریشان مت ہوں۔ آپ مہمانوں کو ریسیو کر لیجیے۔ میں عشال کے پاس جارہی ہوں۔”
نورین سطوت آراء کو تسلی دے کر اندر داخل ہوگئی۔
نیچے چہل پہل تھی۔ لیکن اوپر کا سارا پورشن خاموش تھا۔ صرف اپنے بیڈروم میں عشال اپنے سراپے پر نظریں جمائے ہوئے کہیں اور ہی گم تھی۔
“صرف غموں میں اللہ کی ذات کو یاد کرنا خود غرضی ہے۔ ہاں خوشی وہ موقع ہے جب انسان کی درست پہچان ہوتی ہے۔ خوشی میں اگر انسان اللہ کو یاد رکھے تو یہ شکرانہ ہے۔ غم کو اگر آزمائش سمجھ کر اس پر صبر اور شکر بجا لانا اصل ایمان ہے۔
خوشی اور غم یہ دو موقع ہوتے ہیں جب اللہ اپنے بندے کے ظرف کو آزماتا ہے۔”
آغا سمیع الدین کے الفاظ عشال کے کانوں میں گونجے تھے۔
“میں بہت خوش ہوں اللہ! میں جانتی تھی، پروردگار تونے میرے لیے بہترین رکھا ہوگا۔ میں نے ہمیشہ تجھے اور صرف تجھے چاہا۔ میں آج تجھ سے تاپنی اس چاہت کا واسطہ دے کر سوال کرتی ہوں، مجھے وہ عطا کردے، جو میرے لیے بہترین ہے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔۔۔!”
عشال آنکھیں موندے آئینے کے سامنے کھڑی اپنے رب سے ہم کلام تھی۔ کہ اس نے اپنے اوپر کسی اور سایے کو پڑتے محسوس کیا۔ اس نے جیسے ہی آنکھیں کھولیں۔ خوف و دہشت کے پنجوں نے اسے دبوچ لیا۔ اس سے پہلے کہ اس کی چیخ درودیوار کو پھاند کر مکینوں کو متوجہ کرتی۔ اس کا دہن سختی سے بھینچ دیا گیا۔ چند لمحوں کی کسمساہٹ کے بعد اس کا شعور تاریکیوں میں ڈوب چکا تھا۔
******************
ٹھنڈے موسم میں بھی نورین کے ماتھے پر پسینے کے قطرے جگمگا رہے تھے۔۔ میک اپ کی دبیز تہہ کے باوجود وہ چہرے سے گھبراہٹ کے تاثرات چھپا نہیں پارہی تھی۔
کچھ دیر پہلے اسے شامی کی کال موصول ہوئی تھی۔ وہ بری طرح رو رہا تھا۔
“میں تمہیں آخری بار کال کررہا ہوں نورین!
میں ہمیشہ کے لیے یہ جگہ یہ راہیں یہ شامیں چھوڑ رہا ہوں۔ میں جارہا ہوں کبھی نہ لوٹنے کے لیے۔ کیا تم مجھے ایک آخری فیور نہیں دو گی؟ صرف ایک بار دور سے مجھے اس دشمن جاں کو دکھا دو، صرف ایک آخری بار میں عشال کو دیکھوں گا اور پھر چلا جاؤں گا۔ کبھی نہ مڑ کر دیکھنے کے لیے۔ صرف ایک بار، صرف ایک نظر۔۔۔۔۔؟
اور نورین اس کے لفظوں کے اتار چڑھاؤ میں کھو کر زندگی کی سب سے بڑی غلطی کر چکی تھی۔ اس نے پچھلے گیٹ کا لاک کھول دیا تھا۔
*****************
” بہت سی گاڑیاں یکے بعد دیگرے پارکنگ کے لیے مخصوص پلاٹ میں آکر رکی تھیں۔ سب سے اگلی کار کی نشست پر وقار کے ساتھ صارم اور پچلھی سیٹوں پر شافعہ اور دایک کوئی اور قریبی عزیزہ تھیں۔
چونکہ نکاح ہوچکا تھا تو ایک ساتھ مہندی کے فنکشن پر آغاجان نے اعتراض نہیں کیا تھا۔ ویسے بھی ان کے گھر کی خواتین اس وقت بھی حجاب میں تھیں۔ لڑکے بالے مردانے کی طرف بڑھ گئے تھے۔ جبکہ صارم گیندوی رنگ کے کرتے اور سفید پاجامے میں، گلے میں رنگین مفلر ڈالے وقار کے ساتھ اسٹیج کی طرف بڑھ گیا تھا۔ ان کے استقبال کو ضیاءالدین صاحب اور آغا جان خود آگے بڑھے تھے۔ لان چونکہ اچھا خاصا وسیع تھا تو مہمانوں کا پارٹیشن ادھر ہی کردیا گیا تھا۔
شافعہ دل کی ساری کدورت ایک طرف رکھ کر خود کو کافی حد تک کمپوز کر چکی تھیں۔ انھوں نے خود کو سمجھالیا تھا کہ عشال سے ہی ان کے بیٹے کا نصیب جڑا ہے۔ اور نصیب اللہ کا فیصلہ ہوتا ہے۔ جو اس کی قدر نہ کریں وہ ناشکرے لکھ دیے جاتے ہیں۔ اور وہ ہمیشہ ہر حال میں اپنے رب کی شکر گذار رہی تھیں۔
نورین!”
سطوت آراء شافعہ سے گلے ملیں۔ انھیں ان کی نشست پر باھانے کے بعد نورین کو آواز دی۔
“بیٹا عشال کو بھی لے آؤ۔”
جج۔۔جی!؟”
نورین ہونقوں کی طرح انھیں دیکھ کر رہ گئی۔
“کیا ہوا بھئی۔ میں تم سے کہہ رہی ہوں، عشال کو لے کر آؤ۔
“جی اچھا!”
نورین کیا بتاتی، وہ تو گئی تھی عشال کے کمرے میں لیکن۔۔۔۔۔!
نورین نے جھرجھری لے کر آنکھیں میچ لیں، گویا چکر کھا کر رہ گئی ہو۔
اسے کچھ سمجھ نہ آیا تو خاموشی سے اوپر چلی آئی۔ آہستگی سے دروازے کے لاک پر ہاتھ رکھا اور جی کڑا کر کے اندت داخل ہوگئی۔ اس کے پاس اور کوئی حل نہیں تھا کہ خود کو قید کر لے۔
سطوت آراء گھوم پھر کر مہمانوں کو کمپنی دے رہی تھیں۔ لیکن سب خواتین کو دلہن کا ہی تجسس تھا۔ شافعہ بھی دو ایک بار کہہ چکی تھیں۔ سطوت آراء کئی بار نظروں سے نورین کو تلاش کر چکی تھیں۔ لیکن نہ اس کا کچھ پتا تھا نہ عشال کا۔
“آخر یہ لڑکیاں کر کیا رہی ہیں؟”
سوال جب زیادہ بڑھنے لگے تو سطوت آراء کو خود ہی آنا پڑا۔
“نورین! عشال کو لے کر آؤ بھئی۔۔۔!”
سطوت آراء نے پکارتے ہوئے دروازے کو اندر کی جانب دھکیلا اور برف کا مجسمہ بن کر رہ گیئیں۔
ڈریسنگ ٹیبل کے پاس عشال کی ٹوٹی ہوئی چوڑیاں اور مسلا ہوا دوپٹہ پڑا تھا۔ اور نورین کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں۔
*****************************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...