” خود تو تیار بھی ہو گئے لینڈ لارڈ صاحب اور مجھے اب اٹھا رہے ہیں ” بڑبڑاتے ہوئے وہ فریش ہونے چلی گئی
” کیا کہہ رہی ہو بیگم ہوشربا زرا اونچا فرمانا ” احسن نے پیچھے سے ہانک لگائی تو برش کرتے ہوئے فاطمہ کے ہاتھ رک گئے
“اپنا
کام کریں آپ کو کسی نے بلایا نہیں ” اس نے وہیں سے آواز دی تھی
” کام ہی تو کر رہا ہوں بیگم ، مجھے اب یہی کام تو ہے ” احسن نے کہتے ہوئے اپنی مرضی سے الماری میں سے اس کا جوڑا نکالا تھا اور واشروم کا دروازہ کھٹکھٹا کر اسے پکڑا دیا جب کہ فاطمہ نے بھی بنا کوئی رد عمل ظاہر کیے پکڑ لیا تھا کیوں کہ وہ ابھی غائب دماغی سے برش کر رہی تھی اور سو کر اٹھنے پر وہ ایسے ہی ہو جاتی تھی
احسن کو حیرانگی توہوئی تھی لیکن پھر وہ آئینے کے سامنے کھڑا ہو کر بال بنانے لگا تب تک فاطمہ بھی فریش ہوکر آ چکی تھی
ریڈ کلر کی فراک میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھی
احسن نے اسے تعریفی نظروں سے دیکھا تھا اور اس کے نزدیک آیا
“مانتی ہو نا پھر میری چوائس ؟”
” کیا مطلب ”
“یہ ڈریس میں نے سلیکٹ کیا ھے نا اور تم پر سوٹ بھی بڑا کر رہا ہے ”
“کیا مطلب ۔۔۔یہ ؟ یہ آپ کی پسند کا ہے ؟وہ ہکلائی تھی
‘ہاں میں نے ہی تمہیں پکڑایا ہے ” احسن نے ہنستے ہوئے کہا تو وہ فاطمہ بات یاد آنے پر اپنے آپ کو کوستی دروازہ کھولتے نیچے چلی گئی تھی جبکہ احسن بھی قہقہہ لگاتے ہوئے اس کی جانب ہی لپکا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناشتے کی ٹیبل پر سبھی ہی موجود تھے وہ دونوں سیڑھیوں سے نیچے اتر رہے تھے اس وقت وہ ایک خوبصورت مکمل جوڑا تھا احسن نے مزید تاثر پیدا کرنے کے لیے فاطمہ کا ہاتھ پکڑ لیا تھا فاطمہ ردعمل ظاہر نہیں کر سکتی تھی چونکہ سب کی نظریں ان پر ہی تھیں رقیہ اور امتیاز صاحب دونوں ہی خوش تھے رقیہ بیگم کی تو آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ گئے تھے احمد صاحب نے اپنی بہن کو اپنے ساتھ لگایا تھا ، فاطمہ اور احسن کو مخصوص چئیرز دی گئی تھیں
آنسہ نہ فاطمہ کہ ماتھے پر پیار کیا اور دونوں کو ناشتہ کرنے کا کہا
احسن چپ چاپ بیٹھا ہوا تھا
“احسن تم ناشتہ کیوں نہیں کر رہے ہو ” آنسہ نے اپنے بیٹے کو چپ بیٹھے ہوئے تحیر سے پوچھا تو وہ ہنس دیا
” میں آپ کی بہو کا انتظار کر رہا ہوں کہ کب وہ فری ہو اور کب مجھے ناشتہ ملے ” احسن نے بات کرتے ہوئے فاطمہ کو دیکھا جو ایک دم چونک کر سر اٹھا کر احسن کو دیکھ چکی تھی
“تو میں ڈال دیتی ہوں نا چائے ”
آنسہ نے احسن کے کندھے پر ہولے سے چپت لگاتے ہوئے کہا تو احسن نے انکار میں سر ہلایا
نہیں ماما اب آپ کی زمہ داری ختم ” احسن کی باتیں احمد صاحب رقیہ اور امتیاز بھی سن رہے تھے اور دل ہی دل میں ان کے لیے دعا گو بھی تھے
“فاطی بیٹا آپ احسن کو چائے ڈال دو کپ میں اور پوچھ لو وہ کیا کھانا پسند کرے گا ”
“جی ماموں ” فاطمہ نے فورا بات مانی تھی لیکن دل ہی دل میں وہ احسن کو کئی صلواتیں سنا چکی تھی
” احسن انڈہ لیں گے ؟” فاطمہ نے دانت کچکچاتے ہوئے بڑے ہی سکون سے پوچھا تھا اس کی بات کا لہجہ وہ سمجھ تو گیا تھا لیکن اپنی ہنسی کنٹرول کی تھی
“ہاں انڈہ بھی دے دو اور پلیز چائے بھی کپ میں ڈال دو ” فاطمہ نے اس کے کپ میں چائے ڈال کر رکھی تو تھی لیکن اس نے پاس پڑے ہوئے فاطمہ کے کپ کو پکڑا تھا باقی سب باتوں میں مصروف تھے فاطمہ نے اپنا کپ لینا چاہا تھا
” یہ میرا کپ ہے آپ واپس کریں ”
” تو پھر کیا ہے میرا اور تمہارا ایک ہی تو ہے ” احسن نے کہتے ہوئے ایک گھونٹ لگایا تھا اور وہ کپ واپس اسے دے دیا تھا
“یہ لو پیو اب ”
“مجھے نہیں لینا اب ” فاطمہ نے رخ پھیرا تھا وہ جانتی تھی کو وہ گھونٹ لے چکا ہے
” تو میرے والا کپ لینا ہے کیا؟ ” احسن نے آہستگی سے کہا تو وہ چڑ گئی دونوں صورتوں میں ہی وہ اچھا خاصا پھنسی تھی
” بیٹا کرو نا ناشتہ رک کیوں گئی ” احمد صاحب نے فاطمہ کو دیکھتے ہوئے کہا تو فورا سے کپ اٹھا لیا
” جی ماموں کر رہی ہوں ”
فاطمہ نے کپ کی بلکل سائیڈ سے چائے کا گھونٹ لگایا تھا
” چاہے اوپر سے پیو چاہے نیچے سے جھوٹی تو میری ہی ہے نا ؟” احسن نے اس کے کان کے پاس سرگوشی کی تو فاطمہ نے اپنا ہیل والا پاؤں اس کے پاؤں پر مارا احسن کی تو ایک دم سے چیخ نکلی تھی
“کیا ہوا احسن؟” آنسہ بیگم ایکدم گھبرائی تھیں
“کچھ نہیں ماما بس وہ مجھے لگتا ہے جوتے میں کچھ ہے ” احسن کو بہت عجیب لگ رہا تھا جھوٹ بولنا
“تو دیکھ لو نا ”
“ہاں اب ٹھیک ہوں ” اس نے ان کا دھیان بٹایا تھا
” میرے پینے سے پہلے آپ بھی تو میری ہی جھوٹی پی چکے ہیں نا ؟” فاطمہ نے ہولے سے کہتے ہوئے جتایا تو وہ اس گھور کر رہ گیا
” میں تو ہر وقت تیار ہوں یہ تو تم ہی ہو جو تیار نہیں ہو ” وہ ایک دفعہ پھر لاجواب کر گیا تھا فاطمہ نے سر جھٹکتے ہوئے وہی چائے کا کپ دوبارہ اٹھا لیا تھا جبکہ احسن کہ ہونٹوں پر ایک دفعہ پھر سے مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ولیمے کی ادائیگی بھی بہت خوبصورتی سے ہو گئی تھی تمام کام نبٹا کر وہ لوگ رات گئے گھر واپس آئے تھے ، فاطمہ کافی حد تک تھک چکی تھی چوڑیاں اورزیورات باری باری ہر چیز اتار کو وہ بیڈ پر آڑھی ترچھی لیٹی ہوئی تھی جب احسن کمرے میں آیا تھا
” فاطمہ تھک گئی ہو پہلے ہی اتنا بھاری ڈریس اٹھو شاباش چینج کر کے آؤ ” احسن کی بات پر اس نے کوئی جواب نہیں دیا تھا احسن نے کندھے سے پکڑ کر اسے سیدھا کیا تو اس نے احسن کا ہاتھ جھٹک دیا تھا
“کر لوں گی چینج آپ سونے دیں” فاطمہ کی آنکھیں نیند سے بھری ہوئی تھیں
” اچھا تو پورے بیڈ پر تو تم قبضہ کیے ہوئے ہو تو میں کس اسٹائل میں لیٹوں بتاؤ زرا ” احسن نے اس کے لیٹنے والے اسٹائل پر غور کیا تھا سر ایک کونے میں تھا اور پاؤں دوسرے کونے میں ،
” جہاں مرضی سوئیں ،مجھے ڈسٹرب نہ کریں بس ”
“یار ڈسٹرب تو تمہیں ہونا پڑے گا ”
احسن بھی بلکل اسی انداز میں لیٹ گیا تھا جیسے وہ لیٹی تھی ایسے وہ اسکے ساتھ لگ رہا تھا فاطمہ نے ہچکچاتے ہوئے اٹھنے کی سعی کی تھی لیکن اس کے بال احسن کی قمیض کے بٹنوں میں الجھ گئے تھے
” کیا مسئلہ ہے آپ کو چھوڑیں میرے بال ” فاطمہ نے بنا دیکھے کہا تھا
” میں نے تو نہیں پکڑے خود ہی وہ میرے قریب رہنا چاہتے ہیں تو اس میں میرا کیا قصور ہے ” احسن وہی لیٹا رہا تھا فاطمہ کی نیند خراب ہو گئی تھی اسے احسن پر بہت غصہ آیا دو تین دفعہ بالوں کو دور سے کھینچ کر نکالنے کی کوشش کی لیکن وہ نکلے نہیں تھے بلکہ اور الجھ رہے تھے
احسن نے فاطمہ کو بازو سے پکڑ کر اپنے قریب کیا تھا ایسے کرتے ہوئے وہ زور سے اس۔کے سینے سے ٹکڑائی تھی فاطمہ کی رنگت سرخ پڑ گئی اس نے دونوں ہاتھ اس کے سینے پر رکھ کر اٹھنا چاہا لیکن بالوں کی وجہ سے پھر نہ اٹھ سکی تھی احسن نے سر اونچا کرتے ہوئے اس کے بال بٹن میں سے نکال تھے پھر کہیں جا کر فاطمہ کو سکون آیا تھا
” اب اٹھ ہی گئی ہو تو نیند خراب بھی ہو گئی ہے لہزا چینج کر لو ‘” احسن نے اپنی طرف سے اچھا مشورہ دیا تھا لیکن فاطمہ کو ایک آنکھ نہ بھایا
” میری مرضی ہے میں جو مرضی کروں ” بالوں کو جوڑے میں باندھتی وہ بڑبڑاتی چل گئی تھی واپس آ کر پھر وہ ویسے ہی لیٹنا چاہتی تھی لیکن احسن اب سیدھا لیٹ چکا تھا اس لیے اسے بھی سیدھا ہے لیٹنا پڑا ، جب بھی فاطمہ بہت تھکی ہوتی تو وہ ایسے ہی اوندھے منہ آڑھی ترچھی لیٹا کرتی اب بھی وہ سختی سے اپنی آنکھیں میچ رہی تھی جب اس عین اپنی آنکھوں کے سامنے چھت پر چھپکلی نظر آئی ۔
___________
فاطمہ نے ایک زور دار چیخ ماری تھی اور اپنی جگہ سے اٹھ کہ چھلانگ لگا کر وہ احسن کی جانب گری تھی ،احسن کے لیے یہ سب کچھ غیر متوقع اور غیر یقینی تھا ، وہ مسلسل ہانپ رہی تھی اور سانسیں تیز تیز لے رہی تہی احسن تو ڈر سا گیا تھا فاطمہ نے زور سے اس کے کالر کو مٹھیوں میں بھینچا ہوا تھا اور مسلسل روئے جا رہی تھی احسن کے لیے یہ سچویشن عجیب تھی
” فاطی کیا ہوا ہے بتاؤ مجھے ” احسن نے اس کا چہرہ اوپر اٹھایا تھا جو آنسوؤں سے تر تھا اور وہ نہ جواب دے رہی تھی اور نہ ہی چپ کر رہی تھی لیکن بار بار چھت کی طرف دیکھتی احسن نے اوپر نظریں اٹھائیں تو ساکت ہو گیا یعنی وہ زرا سی چھپکلی سے ڈر رہی تھی وہ نہیں جانتا تھا کہ فاطمہ کو چھپکلیوں کا فوبیا ہے
” فاطی اتنا ڈرنے کی کیا ضرورت ہے ” اس نے اپنی انگلیوں کی پوروں سے اس کے آنسو صاف کیے تھے جو اب ہچکیوں سے رو رہی تھی
اچھا چلو میں بھگاتا ہوں اسے تم چپ تو کرو ” احسن نے اپنا کارلر اس سے چھڑوانا چاہا تھا لیکن اس نے اور مضبوطی سے پکڑ لیا
” نہیں پلیز نہ جائیں۔۔۔مجھے ڈر لگ رہا ہے ۔۔” فاطمہ نے اس کا کارلر نہیں چھوڑا تھا ۔
” بی ریلیکس یار ،ایسے رو تو مت ” احسن نے اس کے بالوں کو سہلایا
” پلیز نا فاطی اس طرح تم مجھے اور پریشان کر رہی ہو ” احسن اب واقعی پریشان ہوا تھا کیونکہ وہ جان گیا تھا کہ فاطمہ کو کس قدر چھپکلیوں سے فوبیا ہے اس نے اپنا کرلر زبردستی چھڑوایا تھا اور چھپکلی کو بھگا دیا تھا وہاں سے ،فاطمہ کی سانس میں سانس آئی تھی ،
” دیکھو اب وہاں کچھ بھی نہیں ہے ، اب آرام سے سو جاؤ ” احسن نے فاطمہ کو بازو سے پکڑ کر اپنی طرف اس کا رخ کیا تھا ۔۔۔لیکن فاطمہ پھر بھی چپ ہی تھی ، توبہ اس قدر ڈر یعنی حد ہو گئی احسن تو حیران و پریشان تھا
فاطمہ ۔۔۔ احسن نے اسے جھنجوڑا تھا اور چلاتے ہوئے اسے پکارا ،ایسا اس نے جان بوجھ کے کیا تھا تا کہ وہ حواسوں میں لوٹ آئے ۔۔۔فاطمہ سہم سی گئی تھی اس نے ڈبڈبائی آنکھوں سے احسن کی طرف دیکھا اور آہستگی سے بیڈ کے کونے میں جا کر بیٹھ گئی ۔۔۔
وہ اس کی حرکتوں کو ہی نوٹ کر رہا تھا
” فاطی سونا نہیں کیا ؟”
اس نے انکار میں سر ہلایا تھا
“کیوں ڈر آ رہا ہے کیا ؟” احسن نے ہاتھ بڑھا کر اس کے چہرے پر آئی ہوئی لٹوں کو سمیٹا تھا
” ہاں “۔۔۔ میں نے ادھر نہیں سونا ”
“اچھا ۔۔چلو کوئی بات نہیں تم میری سائیڈ پر سو جاؤ ” احسن نے جگہ دی تھی اور وہ آرام سے وہی لیٹ گئی لیکن اس کی نظریں بار بار چھت کی طرف ہی اٹھتی تھیں احسن نے اسے تسلی دی تو اسے بھی زرا سکون آیا ، اور سو گئی ۔۔۔رات کا نہ جانے کونسا پہر تھا جب احسن کو کچھ محسوس ہوا تھا ، زرا غور کرنے پر اسے سمجھ آ گئی تھی فاطی نے مضبوطی سہ اس کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اور اس کے کندھے پر سر رکھے سو رہی تھی یعنی کہ وہ اب بھی کہیں نہ کہیں خوف کے زیر اثر تھی اس نے بھی فاطمہ کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا تھا اور سکون سے آنکھیں موند لیں ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح جب فاطمہ اٹھی تو بلکل زہنی طور پر ٹھیک لگ رہی تھی ، احسن نے کوئی بات نہیں کی تھی وہ دوبارہ وہی بات یاد نہیں کروانا چاہتی تھی
ایسا لگ رہا تھا جیسے اسے کچھ یاد ہی نہ ہو ۔۔۔ وہ بلکل ہشاش بشاش تھی ۔۔
” فاطی میری شرٹ پریس کر دو یار ۔۔مجھے آفس جانا ہے ” سب لوگ ناشتہ کر رہے تھے جب احسن نے فاطمہ کو مخاطب کیا تھا
” بیٹا میں کر دیتی ہوں اسے ناشتہ کر لینے دو ” آنسہ بیگم اٹھنے لگی تھیں جب رقیہ نے منع کر دیا
” اب یہ اس کی زمہ داری ہے سب ، بھابھی آپ کرنے دیا کریں ۔۔۔” انہوں نے آنسہ کو واپس بیٹھنے کا کہا تھا ۔۔۔۔ فاطمہ نے احسن کی طرف خالی نظروں سے دیکھا اور چائے چھوڑتی وہاں سے اٹھ گئ ۔۔۔۔ اسے کچھ گڑبڑ لگی تھی یعنی وہ ایسی نظروں سے چائے چھوڑ کر احسن کو دیکھتی وہاں سے اٹھی تھی جیسے وہ اسے شرمندگی دلا رہی تھی
خود وہ جب ناشتہ کر کے کمرے میں گیا تو فاطمہ کو دروازے کے آگے کھڑے دیکھ کر اسے عجیب حیرت ہوئی تھی
“شرٹ پریس کر دی کیا ” احسن کمرے میں گیا تھا لیکن وہاں کچھ نہیں پڑا تھا ، پھر دوبارہ واپس آیا
” فاطی کیا ہو گیا ہے تمہیں کہاں دماغ ہے تمہارا رات سے میں پوچھ رہا ہوں کہ شرٹ کہاں ہے لیکن تم یہاں بت کی طرح کھڑی ہوئی ہو ،۔۔۔ہو کیا گیا ہے آخر ؟” اس نے اسے کندھوں سے پکڑ کر جھنجوڑا تھا اور کمرے میں لے آیا
فاطمہ کی آنکھوں سے آنسو آئی جا رہے تھے احسن کے دل کو کچھ ہوا تھا
” سوری یار میں نے سب کے سامنے تمہیں ناشتہ کرتے ہوئے اٹھایا ” اس نے فاطی کے آنسو صاف کرنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تھا لیکن فاطمہ نے جھٹک دیا اور وہاں سے چلی گئی ۔۔۔۔احسن کو احساس ہوا تھا کہ اس نے غلط کیا ہے شاید رات کا کچھ نہ کچھ ابھی تھا کچھ سوچ کر وہ رقیہ پھوپھو کے کمرے میں گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھوپھو میں کمرے میں آ سکتا ہوں ؟” احسن نے دروازہ ناک کیا تھا رقیہ بیگم فاطمہ کی چٹیا کر رہی تھیں
‘” ہاں ہاں پوچھنے کی کیا ضرورت ہے بیٹا آؤ “”فاطی تم جاؤ زرا میں نے پھوپھو سے کچھ کہنا ہے ” احسن نے فاطمہ کو وہاں سے بھیج دیا تھا اور خود رات والی ساری روداد سنا دی تھی ، وہ بہت پریشان تھا اس نے تو پہلی دفعہ ایسا کچھ دیکھا تھا
” بیٹا تم پریشان نہ ہو کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ فاطمہ بچپن سے ہی چھپکلیوں سے ڈرتی ہے اور جب تک مری ہوئی چھپکلی کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لے تب تک اسے یہی ڈر رہتا ہے کہ وہ کہیں اس کو پھر نہ دیکھ لے ۔۔۔”
لیکن پھوپھو یہ تو بہت سیریس کنڈیشن ہے اسے ڈاکٹر کو چیک کرانا چاہیے ” احسن نے پریشانے میں اپنے سر کے باپوں کو مٹھیوں میں جھکڑا
” تمہیں کیا لگتا ہے میں نے ڈاکٹر کو چیک نہیں کروایا کیا ؟
” پھپھو یہ مسئلے کا حل نہیں ہے میں کل ہی ڈاکٹر کے پاس لے کر جاؤں گا اور آپ پلیز اس کو سارا دن اپنے پاس رکھا کریں ۔۔۔۔میں نے فاطمہ کوایسا کبھی نہیں دیکھا میں اسے جب اس حالت میں دیکھتا ہوں تو مجھے بڑی تکلیف ہوتی ھے ۔۔۔ ” رقیہ بیگم نے احسن کو تسلی دی تھی اور اب اس نے ارادہ کر لیا تھا کہ وہ فاطمہ کو ضرور ڈاکٹر کہ پاس لے کر جائے گا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” فاطی آؤ باہر ڈنر کرتے ہیں آج ” فاطمہ لاؤنج میں بیٹھی ڈائجسٹ پڑھ رہی تھی جب احسن پاس آ کر بیٹھ گیا تھا
” مجھے نہیں جانا کہیں بھی آپ جائیں ” اس نے ڈائجسٹ ایک سائیڈ پر رکھ دیا تھا احسن نے اس کا ہاتھ ہولے سے پکڑا تھا
” میں کہہ رہا ہوں نا تو یہ کافی نہیں ہے کیا؟ ” احسن نے استفہامیہ انداز میں اس کی طرف دیکھا
” بس مجھے نہیں جانا آپ جائیں ” اس نے دوبارہ انکار کیا تھا اب کی بار احسن نے اس کو بازو سے پکڑا تھا اور زبردستی گاڑھی کی طرف لے آیا
” مجھے چینج تو کرنے دیں ” وہ جھنجھلائی تھی
” بلکل ٹھیک ہیں تم کیوں ایسے کہہ رہی ہو مجھ سے پوچھو نا مجھے تو تم ہر حالت میں ہی پیاری لگتی ہو ” احسن نے بڑے پیار سے اس کی طرف دیکھا تو وہ نروس ہو گئ ، وہ زیر لب ہنسا تھا
وہ اسے ایک ریسٹورنٹ میں لے کر آیا تھا ماحول کافی پرسکون تھا
وہ لوگ ڈنر کر چکے تھے جب احسن نے عمیر کو اپنی طرف آتے دیکھا تھا
” یار تم یہاں ۔۔۔کیسے ہو؟ ”
ہاں میں ٹھیک ہوں تم سناؤ ” احسن نے عمیر کو اپنے ساتھ بیٹھنے کا کہا تھا اس نے فاطمہ کو یہی ظاہر کروانے کی کوشش کی جیسے وہ اس کا دوست ہے اور وہ یہاں اتفاقا آیا ہے جبکہ ایسی بات ہر گز نہیں تھی اس نے اپوائنٹمنٹ لے رکھی تھی اور اس طرح ریسٹورنٹ میں ہی بلایا تھا اور اب ڈاکٹر عمیر باتوں ہی باتوں میں فاطمہ سے انٹرویو لے رہا تھا جب کہ وہ بیزاری سے جواب دے رہی تھی اسے غصہ تھا کہ احسن کیوں چپ ہے حالانکہ وہ عمیر اس سے سوال پوچھ جا رہا ہے ٹائم ختم ہو گیا تھا اور اب وہ اجازت لے کر چلا گیا تھا جبکہ گھر واپس آتے سارے راستے وہ غصے میں رہی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹڑ عمیر نے احسن کی وہ تمام باتیں زہن دہانی کروا دی تھیں جو فاطمہ کے لیے ضروری تھیں اس لیے احسن ان پرعمل کر رہا تھا اس نے جراثیم کش سپرے کروایا تھا فاطمہ نے اپنی آنکھوں کے سامنے مری ہوئی چھپکلی دیکھ لی تو ہی اسے سکون ملا تھا
احسن لیپ ٹاپ پر مصروف اپنا کچھ کام کر رہا تھا فاطمہ بہت دھرلے سے دروازہ کھولتی کمرے میں داخل ہوئی تھی
” آپ اپنا لیپ ٹاپ اٹھائیں یہاں سے ” فاطمہ نے دونوں ہاتھ کمر پر رکھے ہوئے تھے اور رعب دارانہ انداز میں کہا
” کیا مطلب ہے یار میں کام کر رہا ہوں پلیز کچھ دیر ٹھہر جاؤ پھر میں اٹھاتا ہوں یہ سب کچھ ” احسن کافی تھکا ہوا لگ رہا تھا
نہیں مجھے سونا ہے ” فاطمہ نے ضد کی تھی
احسن کو حیرانگی ہو رہی تھی کہ مری ہوئی چھپکلی کو کیا دیکھ لیا تھا فاطی پہلے سے زیادہ تیز ہو گئی تھی
” اچھا تو ویٹ نہیں ہوتا آپ سے ؟ ” احسن نے غور سے اس کی آنکھوں میں دیکھا
“فاطمہ نے گھبرا کر رخ بدلا تھا
“ہاں مجھے سونا ہے ابھی اور ویٹ نہیں ہوتا ” اس کے کہنے پر احسن نے اس کو کندھوں سے پکڑ کر رخ اپنی طرف موڑا تھا
” اب اگر میں ویٹ کروا لوں تو ؟” اس نے فاطمہ سے سوال کیا تھا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...