پوہ پھٹ رہی تھی جب نادیہ لاہور کے مضافات میں پہنچ گئی۔اس کی سمجھ بوجھ کے مطابق تو لاہور آ گیا تھا۔اس کے ساتھ بیٹھی عورتوں کی باتوں سے احساس ہو گیا تھا۔ وہ بے تابی سے اسٹیشن آجانے کا شدت سے انتظار کرنے لگی۔تمام راستے وہ جی کڑا کر کے سفر کر تی رہی تھی۔اگرچہ اس کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا اور ایک لمحے کے لئے بھی آنکھ نہیں لگی تھی۔لیکن تمام راستے اسے کسی نے ڈسٹرب نہیں کیا تھا۔وہ چند خواتین کے درمیان ایک کونے میں سمٹی رہی تھی۔کہانیوں ،افسانوں میں پڑھے ہوئے نجانے کتنے واقعات اس کے ذہن میں گھومتے رہے اور سفر کٹنا رہا۔ مضافات میں آتے ہی وہ بے چین ہو گئی۔وہ سمجھتی تھی کہ اب اسے سب سے مشکل مرحلہ درپیش ہے۔اسٹیشن سینکل کر اجنبی شہر میں جس ایڈریس پر اس نے جانا تھا،یہی وقت سب سے کھٹن تھا۔مگر ایک حوصلہ اسے پر سکون رکھے ہوئے تھا۔اگر اس دوران کوئی بھی ایسی ویسی بات ہو جاتی تو فون کا سہارا اس کے پاس موجود تھا۔جو ٹرین میں بیٹھتے ہی اس نے بند کر دیا تھاکہ کہیں کال نہ آ جائے۔وہ پہلے ہی فون نہیں کرنا چاہتی تھی۔وہ اختر ورمانوی تک پہنچ کر ہی اس کا رویہ دیکھناچاہتی تھی۔ممکن تھا کہ وہ فون پر منع کر دیتا۔اسے سمجھانے بجھانے کی کوشش کرتا۔لیکن اچانک سامنے آ جانے پر اسے کہیں نہ کہیں رکھنے کا بندوبست ضرور کرتا۔ٹرین اسٹیشن پر رکی تو اس نے اتر کر پہلے فون کھولا اور پھر اسٹیشن سے باہر آگئی ۔
سامنے اجنبی شہر تھا،جس میں کہیں اختر رومانوی بس رہا تھا۔صبح کی دھوپ میں چمکتا ہوا شہر اسے بہت اچھا لگا۔اس نے اپنا چہرہ ڈھانپا ہوا تھا۔بھانت بھانت کے لوگ ، طرح طرح کی آوازوں کا شور،دھڑکتا ہوا دل، امید و نا امید میں ڈوبتی ہوئی اس کی اپنی ذات ،بڑے حوصلے اور ہمت کے ساتھ وہ ایک رکشے کے پاس آگئی جس میں ایک ادھیڑ عمر آدمی بیٹھا ہوا تھا۔پہلی بار وہ کسی اجنبی سے مخاطب ہو رہی تھی۔اس نے لرزتی ہوئی آواز میں پتہ بتایا تو اس ادھیڑ آدمی نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا تو وہ کانپ گئی۔وہ حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا اور یہ بے ہوش ہونے والی ہو گئی کہ وہ ایسے کیوں دیکھ رہا ہے۔اگلے ہی لمحے اس نے اپنے کاندھے اچکائے اور اسے بیٹھنے کے لیے کہا۔پھر رکشہ سٹارٹ کیا اور چل پڑا ۔وہ شہر جو چند لمحے پہلے اسے بڑا خوبصورت سا لگ رہا تھا۔اس کے اپنے ہی اندر کے خوف کے باعث گم ہو گیا۔وسوسے سر اٹھانے لگے۔اس وقت اس کی حالت یوں تھی کہ جیسے کھلے سمندر میں وہ کسی نا خدا کے رحم و کرم پر ہو۔نجانے وہ اسے کہاں لے جائے۔دل تھا کہ بند ہوتا ہوا محسوس ہوا۔خدا خدا کر کے وہ سفر ختم ہوا۔
’’بس بی بی جی اتریں۔‘‘رکشے والے نے شیشے میں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’یہاں۔آپ اندر سے ۔۔۔اختر صاحب کو بلا لائیں۔‘‘اس نے ہمت کرتے ہوئے کہا۔
’’اختر۔!یہاں تو کوئی اختر صاحب نہیں ہوتے۔۔‘‘رکشے والے نے الجھتے ہوئے کہا۔
’’آپ کو کیسے پتہ ،وہ یہاں نہیں ہے۔آپ جائیں معلوم کریں۔‘‘وہ جی کڑا کر کے ذرا سخت لہجے میں بولی۔تووہ رکشہ ورکشاپ کے اندر ہی لے گیا۔پھر اتر کر دفتر کی جانب چلا گیا۔جہاں بھاء حمید ایک پڑھے لکھے لڑکے سے اخبار سن رہا تھا۔نادیؔ نے دیکھا،اس شخص نے انتہائی حیرت سے اس پر نگاہ ڈالی۔پھر تیزی سے اٹھ کر اس کے پاس آگیااور کافی حد تک گبھرائے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
’’بیٹی ۔!تم کہاں سے آئی ہواور کس اختر سے ملنا ہے تمہیں؟‘‘
’’اختر رومانوی ۔!یہی پتہ ہے نا ان کا۔۔۔‘‘نادیؔ نے وہ پتہ دہرایا ۔تبھی بھاء حمید چونک گیا۔اسے لمحوں میں سمجھ آ گئی کہ یہ یہاں تک کیسے پہنچ گئی ہے اور وہ اختر کون ہے؟‘‘
’’بیٹی۔!وہ تو یہاں نہیں ہوتا اب۔۔پہلے ہمارے پاس کام کرتا تھا،اب چھوڑ کر چلا گیا ہے۔‘‘بھاء حمید نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’چلا گیا ہے۔‘‘اس نے مایوسی کی انتہاؤں کو چھوتے ہوئے کہا۔اس کا دل ڈوب گیا۔صحرا میں چلتے ہوئے اس نے تخلستان دیکھا تھاجو سراب بن گیا تھا۔پھر اچانک اسے خیال آیا۔’’آپ ان کے گھر کا پتہ تو جانتے ہوں گے۔پلیز انہیں بلوا دیں۔میں یہاں ان کا انتظار کر لیتی ہوںیا پھر آپ مجھے ان کے گھر پہنچا دیں۔‘‘میں انہیں ملنے کے لئے بہت دور سے آئی ہوں۔
’’اس کا گھر۔۔چلو،میں تمہیں اس کے گھر لے چلتا ہوں۔آپ آؤ۔ادھر دفتر میں بیٹھو۔‘‘بھاء حمید سوچتے ہوئے کہا ۔نادیؔ رکشے سے اتری۔پرس کھول کر اس میں سے ایک بڑا نوٹ نکال کر رکشے والے کو دیااور دفتر میں آ گئی۔اس نے اپنا فون نکال لیا تا کہ اختر سے بات کر سکے۔
’’بیٹی۔!کیا اختر کو فون کر نے لگی ہو؟‘‘بھاء حمید نے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
’’جی۔‘‘اس نے انتہائی اختصار سے کہا۔
’’ابھی ٹھہرو۔میں معلوم کرتا ہوں۔‘‘بھاء حمید نے کہااور دفتر سے باہر آ گیا۔اس نے اپنے سیل سے شعیب کے گھر کا نمبر ملایا۔ذرا سی دیر میں زبیدہ خاتون نے فون اٹھا لیا۔
’’خیریت تو ہے نا بھاء حمید ۔اتنی صبح فون کیا آپ نے؟‘‘
’’وہ آپ کو پتہ ہے نا بہن ،اپنا شعیب جو ہے۔۔وہ اختر کے نام سے شاعری کرتا ہے۔‘‘اس نے کہا۔
’’ہاں۔۔ہاں۔۔ہوا کیا ہے۔‘‘وہ پریشان ہوتے ہوئے بولیں۔
’’اسے ملنے کے لئے ایک لڑکی یہاں ورکشاپ میں آ گئی ہے۔دفتر میں بیٹھی ہے۔اب یہاں شعیب تو ہے نہیں۔مجھے سمجھ نہیں آ رہی ہے،کیا کروں اس کا؟‘‘
’’لڑکی آ گئی ہے۔اس نے شعیب کو فون تو نہیں کیا ابھی تک۔۔‘‘زبیدہ نے پوچھا۔
’’پتہ نہیں۔۔لگتا ہے نہیں کیا ہو گا۔ورنہ وہ یوں گھر جانے کی بات نہ کرتی۔۔اپنے اختر کے۔۔‘‘بھاء حمید خاصا پریشان ہو گیا تھا۔
’’اسے سمجھا بجھا کر واپس بھیج دیں۔‘‘زبیدہ نے کہا
’’ ایسے کیسے بھیج دوں بہن۔کوئی اس کے بارے میں معلوم تو ہو۔ میں نے تو اپ کو اس لئے فون کیا ہے کہ شعیب اتنی دور ہے، اسے کیا پریشان کرنا۔ پھر اکیلی لڑکی ہے۔کچھ پتہ تو چلے اس کے بارے میں۔ اب میں اس سے کیا پوچھوں؟‘‘ بھاء حمید نے بے بس لہجے میں کہا
’’اگر ایسی بات ہے توبھاء حمیداسے یہاں میرے پاس ہی بھجوا دیں۔پتہ نہیں کہاں سے آئی ہو گئی۔فون کر کے شعیب ہی کو پریشان نہ کرے۔۔۔آپ بس اسے میرے پاس بھیج دیں۔۔‘‘زبیدہ خاتون نے تیزی سے کہااور فون بند کر دیا۔
کچھ ہی دیر میں بھاء حمید نے نادیؔ کو اپنی گاڑی میں شعیب کے گھر بھجوا دیا ۔ زبیدہ خاتون اس کے انتظار ہی میں تھی۔نادیؔ اس خاتون کو دیکھ کر چونک گئی۔اسے یوں لگا جیسے یہ چہرہ اس نے پہلے دیکھا ہوا ہے۔جانا پہچانا سا چہرہ ،ایسا کیوں ہے؟اسے فوراً احساس نہ ہو سکا۔
’’لڑکی تم کون ہو اور کہاں سے آئی ہو؟‘‘زبیدہ نے پوچھا تو وہ اپنے حواسوں میں آ گئی۔
’’میں نادیہ ہوں اور اختر مجھے بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔‘‘اس نے فوری طور پر اپنے بارے میں تفصیل بتانے سے گریز کیا۔
’’کیا تمہارے پاس اس کا فون نمبر نہیں ہے۔تم نے اس سے رابطہ نہیں کیا ۔ ‘ ‘ زبیدہ نے تصدیق کی خاطر پوچھا۔
’’فون نمبر تو ہے،لیکن ابھی میں نے اس سے رابطہ نہیں کیا۔وہ گھر پر نہیں ہے ۔ ‘ ‘ اس نے پوچھا۔
’’نہیں،وہ گھر پر نہیں ہے۔‘‘زبیدہ نے کہا پھر فوراً ہی بولی۔’’تم اس سے ابھی رابطہ مت کرنا،ابھی تم فریش ہو کر ناشتہ کرو،میں خود اس سے رابطہ کرتی ہوں۔چلو شاباش۔۔‘‘زبیدہ نے اس کے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا۔نادیہ نے اپنا پرس وہیں پر رکھا اور اٹھ گئی۔نجانے کیوں وہ یہاں آ کر بڑا سکون محسو س کر رہی تھی۔
***
پیر سائیں کی فور ویل جیپ لاہور کے مضافات میں پہنچ گئی تھی ۔ ڈرائیور جس قدر تیز گاڑی چلا سکتا تھا ،اس نے چلائی۔اگرچہ پیر سائیں غصے کی شدت کے باعث اپنے آپ میں نہیں تھا۔لیکن وقت اور حالات کا تقاضا یہی تھا کہ نہایت تحمل اور حوصلے سے اس معاملے کو حل کرنے کی کوشش کی جائے۔نادیہ کی حویلی سے نکل جانا کوئی معمولی بات نہیں تھی اوروہ بھی اس وقت جب اس کا نکاح ظہیر شاہ سے ہونے والا تھا۔ ایک طرف اس کے سارے منصوبے چوپٹ ہو سکتے تھے اور دوسری طرف یہ خبر اگر پھیل جاتی تو اس کی اپنی حیثیت کیا رہ جاتی۔نادیہ کے بارے میں شاید اس نے غلط اندازہ لگایا تھا۔وہ اسے ایسی لڑکی سمجھ رہا تھا جسے باہر کی دنیا کی خبریں نہیں تھی اور اسی وجہ سے وہ حیرت میں ڈوبا ہوا تھا کہ وہ باہر نکل کیسے گئی ؟یہ معمہ تھا س کے لئے جو اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا۔
جس وقت پیر سائیں لاہور اسٹیشن پہنچا۔اچھی خاصی دھوپ نکل آئی تھی۔اس نے اسٹیشن پر ایک جانب کھڑی پولیس جیپ کو دیکھا۔پھر فون پر رابطہ ہوا تو ایک نوجوان پولیس آفیسر اس کے قریب آ گیا اور پوچھا۔
’’جی۔آپ دلاور شاہ جی ہیں۔‘‘
’’ہاں۔!میں ہی ہوں۔۔گاڑی۔۔‘‘اس نے پوچھنا چاہا لیکن اس نے پہلے ہی پولیں آفیسر نے کہا۔
’’ٹرین آئے تو کافی دیر ہو چکی ہے۔جس قسم کا حلیہ آ پ نے بتایا تھا،ویسی ایک لڑکی یہاں دیکھی تو گئی ہے۔وہ ایک رکشے میں سوار ہو ئی تھی۔ہم اس رکشے والے کی تلاش میں تھے۔جس کا پتہ تو چل گیا ہے لیکن ابھی وہ ملا نہیں۔‘‘
’’کب تک ملے گاوہ۔۔۔‘‘پیر سائیں نے اضطرابی انداز میں پوچھا۔
’’ابھی کچھ دیر میں مل جائے گا۔اس کے پیچھے بندے پھیل گئے ہیں۔جلدی معلوم ہو جائے گا۔آپ آئیں۔تھانے چلتے ہیں۔وہیں انتظار کرتے ہیں۔‘‘پولیس آفیسر نے کہا اور اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔پیر سائیں نے خود پر قابو پاتے ہوئے ڈرائیور کو اس کے پیچھے چلنے کا اشارہ کیا۔اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔
***
شعیب اپنے آفس کے لئے تیار ہو چکا تھا۔وہ ڈرائینگ روم میں بیٹھا چائے پی رہا تھا ۔اس کا سارا دھیان نادیہ کی طرف تھا۔رات بھر اس کافون بند رہا تھا۔پہلے پہر تک تو وہ خود اس کے فون کا انتظار کرتا رہا۔پھر جب خود اس نے اکتا کر فون کیا تو بند تھا۔کوئی جواب نہ ملا۔چند بار جب اس نے کوشش کی اور فون بند ہی ملا۔تب اس نے سوچا کہ کوئی نہ کوئی مجبوری ہو گئی ہو گی۔اس لئے وہ بھی سو گیا۔لیکن ایک بے چینی اس کے اندر آ ئی۔ایسا پہلی بار ہوا تھا۔نجانے اسے کیوں یہ خیال آتا ہی چلا جا رہا تھا کہ کچھ ایسا انہونا ہوا ہے ،جس کی وجہ سے اس کی بات نہیں ہوسکی۔حالانکہ پہلے کئی کئی دن گذر جاتے تھے اور ان کی بات نہیں ہو پاتی تھی۔
وہ انہی خیالوں میں کھویا ہوا تھا کہ اس کا ملازم ایک چٹ تھامے اندر آ گیا ۔ ملازم نے وہ چٹ اس کی طرف بڑھا دی۔
’’یہ صاحب آپ سے ملنے کے لئے آئے ہیں۔‘‘
’’کون ہے۔۔؟‘‘چٹ پکڑتے ہوئے اس نے یونہی سرسری سے اندازمیں پوچھا۔
’’چوہدری ثنا اللہ ہیں جی،یہاں کافی عرصے پہلے ڈی ایس پی رہ چکے ہیں۔اب یہ ریٹائیر ہو گئے ہوئے ہیں۔‘‘ملازم نے تیزی سے بتایا تو اس نے کاغذ کے اس پرزے پر نگاہ ڈال کر ایک طرف رکھ دیا اور اسے بلانے کے لئے کہا۔کچھ ہی دیر بعد ایک ادھیڑ عمر صحت مند شخص اندر آ گیا۔سلام و مصافحہ کرنے کے بعد شعیب نے سامنے صوفے پر بیٹھے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’جی فرمائیں ۔کیسے تشریف آوری ہوئی؟‘‘
’’میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گا۔چند باتیں ہیں جو میں آپ کے گوش گذار کرنا چاہتا ہوں۔اس سے آپ سمجھ جائیں گے کہ میں کس مقصد کے لیے آپ کے پاس آیا ہوں۔‘‘اس نے بڑے نپے تلے انداز میں گفتگو کا آغاز کیا۔
’’جی فرمائیں۔!میں سن رہا ہوں۔‘‘اس نے تحمل سے کہاتو وہ کافی حد تک شائستہ انداز میں کہتا چلا گیا۔
’’مجھے معلوم ہو اہے کہ آپ وہ پہلے آفیسر ہیں۔جنہوں نے سلامت نگر آ کر پیر سائیں کی تابعداری نہیں کی۔ایک تو میں آپ کو دیکھنے آ یا تھااور آپ سے ملنا چاہتا تھا۔دوسرا مجھے آپ جیسے آفیسر کی مدد چاہیے۔وہ دراصل میں نے پیر سائیں کی بڑی مخالفت کی تھی۔جب میں یہاں تعینات تھا۔اس کے ناجائز کام نہیں کئیے۔ظاہر ہے مجھے پھر یہاں بڑا مشکل وقت گذارنا پڑا۔اس کے چھوٹے موٹے کام نچلے درجے کے اہلکاروں نے نکل جایا کرتے تھے۔اصل مخالفت اس وقت ہوئی جب اُن دنوں حویلی ہی کی ایک ملازمہ شرماں مائی کو قتل کر دیا گیا تھا۔اس کے لواحقین بچارے بہت بھاگے دوڑے،مجھ سے رابطہ کیا۔ میں نے پیش رفت کی ہی تھی کہااچانک لواحقین خاموش ہو گئے۔‘‘
’’وہ کیوں خاموش ہو گئے؟‘‘شعیب نے دلچسپی سے پوچھا۔
’’خوف زدہ ہو گئے تھے۔بہت بعد میں پتہ چلا تھا کہ پیر سائیں نے ہر طرح سے دباؤ ڈالا اور کچھ دے دلا کر انہیں خاموش کر دیا تھا۔‘‘وہ بولا۔
’’آپ کچھ نہیں کر سکے اس وقت؟‘‘اس نے سکون سے پوچھا۔
’’نہیں،تھانے کا پورا عملہ بہر حال پیر سائیں کے زیر اثر تھا۔انہوں نے سارا واقعہ گول مول کر کے اتفاقیہ موت قرار دے دیا تھا۔‘‘اس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
’’اتنی پرانی بات کا اب۔۔۔۔‘‘اس نے کہنا چاہا تو ثنا اللہ تیزی سے بولا۔
’’وہی عرض کر رہا ہوں نا،اب پھر وہی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔شرماں مائی کی بیٹی تاجاں مائی بھی حویلی میں کام کر تی تھی۔اب وہ حویلی میں بند ہے ۔کچھ معلوم نہیں کہ حویلی والوں نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔ غالب امکا ن ہے کہ اسے قتل کر دیا گیا ہو گا یا پھر اس کا قتل کر دیں گے وہ ۔۔۔‘‘اس نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔
’’یہ آپ اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہیں۔‘‘شعیب نے پوچھا۔
’’کیونکہ پیر سائیں کی نگاہ میں تاجاں مائی نے بھی وہی جرم کیا ہے،جو شرماں مائی نے کیا تھا۔شرماں مائی کے زمانے میں پیر سائیں کی بہن نے حویلی سے فرار حاصل کر لیا تھا۔ اور اب اس کی بھتیجی حویلی چھوڑ کر غائب ہو چکی ہے۔ان دونوں ملازمین خواتین نے ان دونوں حویلی والی خواتین کی مدد کی ہے۔‘‘اس نے پوری طرح مسئلہ بیان کیا۔
’’آپ کو یہ باتیں کیسے معلوم ہوئیں۔‘‘اس نے پوچھا تو ثنا اللہ نے کہا۔
’’شرماں مائی کے وقت تو میں کچھ نہ کر سکا۔لیکن بعد میں مجھے بہت سارے شواہد مل گئے۔ان لواحقین سے میں نے خود رابطہ رکھا تھا۔آج صبح تاجاں مائی کے بیٹے نے مجھے اطلاع دی ہے تو میں آپ کے پاس آ گیا ہوں۔‘‘
’’ٹھیک ہے آپ میرے پاس آ گئے لیکن یہ معاملہ تو پولیس کا ہے۔ہماری دخل اندازی کا جواز کیا ہے بھلا۔‘‘اس نے کہا۔
’’میں مانتا ہوں کہ ابھی کوئی جواز نہیں ہے۔مگر معاملہ ایک زندگی کا ہے۔تاجاں مائی کے بیٹے نے تھانے میں درخواست دے دی ہے۔مگر بہت مشکل ہے کہ اس پر عمل درآمد ہو۔‘‘وہ اس طرح بولا جیسے بے بس ہو
’’آپ کیا چاہتے ہیں۔‘‘اس نے تحمل سے پوچھا۔
’’یہی کی تھانے والوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ اس واقعہ سے آپ کو بھی آگاہی ہے۔آپ کے علم میں ہے۔میرا مقصد ہے کہ وہ تاجاں مائی کو فی الفور کوئی نقصان نہ پہنچائیں۔‘‘ثنا اللہ نے تیزی سے کہا۔
’’اس وقت وہ تاجاں مائی کہاں ہے؟‘‘اس نے پوچھا۔
’’بقول اس کے بیٹے کے رات حویلی کے کچھ ملازمین ان کے گھر آئے تھے اور اس کی ماں کو زبردستی اپنے ساتھ حویلی لے گئے تھے۔اس کے بعد معلوم نہیں۔‘‘وہ تشویش سے بولا تو شعیب نے کہا۔
’’ٹھیک ہے ۔میں ڈی ایس پی صاحب کو بلا کر ان سے بات کرلیتا ہوں۔باقی آپ دیکھ لیں۔‘‘
’’میں سنبھال لوں گا۔مجھے ابھی کچھ پریس والوں سے بھی ملنا ہے۔اخلاقی طور پر ہی سہی ،آپ ضرور مدد کیجئے گا۔روحانی شخصیت ہونے کا مطلب یہ تو نہیں کہ وہ دوسروں کی زندگیوں سے یونہی کھیلتا رہے۔بہر حال میں نے جو عرض کرنا تھا وہ آپ سمجھ گئے ہیں۔اب مجھے اجازت دیں۔‘‘
شعیب اس کی ہچکچاہٹ سمجھ رہا تھا۔اس سے مزید بات کرنا فضول تھا۔اس لیے کوئی بات نہیں کی۔وہ چلا گیا۔تب وہ سوچنے لگا کہ شاید یہ اس کے لیے غیبی مدد آ گئی ہے یا پھر اس کے خلاف کوئی سازش ہے۔کیونکہ ہمارے ہی اس معاشرے میں جہاں دوسری برائیاں ہیں۔وہاں ایک اور برائی منافقت بھی ہے۔جو بہر حال اعلیٰ درجے کی خباثت ہے۔جب گھٹیا قسم کے لوگ کسی کا کچھ بگاڑ نہ سکیں اور حسد کی آگ میں جلتے ہوئے بے بسی محسوس کریں تو منافقت ہی وہ ہتھیار ہے جس سے دوسروں کی زندگی تباہ و برباد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔حالانکہ وہ اپنی زندگی اورآخرت پہلے ہی تباہ و برباد کر چکے ہوتے ہیں۔
***
نادیہ فریش ہو کر ناشتہ کر چکی تھی۔زبیدہ خاتون نے اس کے ساتھ ہی سب کچھ کھایا تھا اور ایک لمحے کے لیے بھی اپنی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونے دیا تھا۔اب اس نے چائے کی پیالی نادیہ کو دیتے ہوئے دوسری اپنے سامنے رکھی۔پھر چند سپ لینے کے بعداس کے چہرے پر دیکھا اور بڑے پر سکون لہجے میں بولی۔
’’دیکھ بیٹی نادیہ۔!میں نہیں جانتی کہ شعیب تمہارے ساتھ اختر بن کر بات کیوں کرتا رہا۔میں یہ بھی نہیں جانتی کہ تم دونوں کی آپس میں کیا بات ہے ۔وہ ساری باتیں ہم بعد میں کر لیں گے مگر تم یہاں ہو،اس بارے ابھی شعیب کو بتانے کی ضرورت نہیں۔‘‘
’’وہ کیوں آنٹی۔میں۔۔۔‘‘نادیہ نے حیرت سے پوچھا۔
’’وہ یہاں اس شہر میں نہیں ہے۔میں نہیں چاہتی کہ اتنی دور بیٹھا میرا بیٹا پریشان ہوتا رہے۔جب ضرورت ہو ئی تو اسے فون بھی کر لیں گے۔میں خود بتاؤں گی اسے تمہارے بارے میں۔بلکہ خود تمہاری بات کراؤں گی۔‘‘انہوں نے اس تحمل سے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’آپ میری بات سنیں۔۔‘‘نادیہ نے کہنا چاہا مگر وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے بولی۔
’’اور دوسری بات ۔!یہاں میرے پاس بہت ساری لڑکیاں کام کرنے کے لیے آتی ہیں۔انہیں تمہارے بارے میں قطعاً معلوم نہیں ہونا چاہئے کہ تم گھر سے بھاگ کر آئی ہو۔‘‘
’’تو پھر میں کیا کہوں گی ان سے ،اگر کسی نے پوچھ لیا تو۔۔؟‘‘وہ زچ ہوتے ہوئے بولی۔
’’یہی کہ تم میری دور پار کی رشتے دار ہو اور چند دن کے لیے یہاں میرے پاس رہنے کے لئے آئی ہو۔‘‘اس نے قدرے سختی سے کہا اور برتن سمیٹنے لگی۔تب نادیہ جلدی سے اٹھ کر خود برتن سمیٹنے لگی اور پھر انہیں لے کر کچن میں چلی گئی۔وہ زبیدہ خاتون کا سامنا کرتے ہوئے گبھرا گئی تھی۔وہ کچن میں تھی اور زبیدہ خاتون کمرے میں،دونوں کے ذہن میں کئی خیال گردش کر رہے تھے۔
نادیہ نے کبھی کچن میں کام نہیں کیا تھا۔زبیدہ نے دیکھا کہ وہ الٹے سیدھے ہاتھ مار رہی ہے ۔تب اس نے نادیہ کو روکتے ہوئے کہا۔
’’بس کرو،یہ تم سے نہیں ہو گا۔آؤ،میں تمہیں شعیب کے کمرے میں چھوڑ آؤں ۔ وہاں جا کر سو جاؤ۔ساری رات جاگتے ہوئے تم تھک گئی ہو گی۔‘‘
’’ہاں،مجھے نیند تو آ رہی ہے۔لیکن میں یہ کر لوں تو۔۔۔‘‘اس نے کہنا چاہا۔
’’آؤ۔!‘‘وہ بولیں۔
’’جی اچھا۔‘‘اس نے دھیرے سے کہا اور چلتے ہوئے شعیب کے کمرے تک آ گئی۔زبیدہ خاتون باہر ہی سے واپس چلی گئی اور نادیہ دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ اندر چلی گئی۔کمرہ ویسا ہی صاف ستھرا تھا،جیسے وہ ابھی یہاں سے گیا ہو۔اس کمرے کو دیکھ کر شعیب کے اعلیٰ ذوق کا اندازہ ہو رہا تھا۔سامنے دیوار پر اس کی تصور لگی ہوئی تھی۔’’اچھا۔!تو یہ ہے اختر۔۔میرا مطلب ہے شعیب۔۔‘‘وہ کافی دیرتک اسے دیکھتے ہوئے اپنے من میں اتارتی رہی اور پھر بیڈ پر پھیل گئی۔اسے وہ بالکل منفرد سا لگا تھا۔اس کا چہرہ ویسا نہیں تھا،جیسا وہ سوچتی رہی تھی۔ان لمحات میں اس کا دل شدت سے یہ چاہنے لگا کہ اختر کو فون کرے اور اسے ستائے۔اس کے نین نقش بارے باتیں کرے اسے حیران کرے۔مگر اگلے ہی لمحے اسے زبیدہ خاتون سے کیاہوا وعدہ یاد آ گیا۔اس نے اپنی اس خواہش کو دبا لیا اور کروٹ بدل کر لیٹ گئی۔آنکھیں بند کرتے ہی پہلی سوچ اس کے ذہن میں یہی در آئی کہ جب زبیدہ خاتون اس کے بارے میں پوچھے گی تو وہ اسے کیا جواب دے گی۔وہ اپنے بارے میں سچ بتائے یا وہی جو اس نے ’’اختر‘‘ کو بتایا ہوا تھا۔و ہ کچھ دیر سوچتی رہی۔اس کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آیا کہ کیا کہنا چاہئے۔سکون سے لیٹتے ہی تھکن اورنیند اس پر غالب آ گئی اور اسے کچھ ہوش نہ رہا وہ نیند میں کھو گئی۔
باہر دالان میں بیٹھی ہوئی زبیدہ خاتون پریشان ہو گئی تھی۔گھر سے بھاگی ہوئی ایک لڑکی اس کے ہاں آ گئی تھی۔و ہ بھی اس کے اپنے اکلوتے بیٹے کے لئے ۔ نجانے ان دونوں میں ایسا کیا چل رہا تھا کہ وہ لڑکی اپنے گھر سے بھاگنے پر مجبور ہو گئی ۔نادیہ کے یوں گھر سے بھاگ آنے میں شعیب اس لئے قصور وار دکھائی نہیں دے رہا تھا کہ وہ اس کا اپنا بیٹا ہے بلکہ حالات و واقعات بتا رہے تھے ۔اگر اس میں شعیب کی مرضی شامل ہوتی تو وہ یوں اکیلی یہاں تک نہ پہنچ سکتی۔بلکہ کم ازکم اسے اسٹیشن سے ضرور لاتا۔ان کا آپس میں رابطہ ہوتا۔وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ شعیب اس سے جھوٹ بولے گا یا پھر کوئی بات چھپالے گا۔وہ یہی سوچتی رہی اور دوپہر سر پر آ گئی۔لڑکیاں اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھیں۔مگر اس کے ذہن سے سوچیں ہی نہ نکل رہی تھیں۔نجانے وہ لڑکی کس خاندان کی ہے۔اس کا کوئی آگے پیچھے ہے بھی یا نہیںیا پھر بھرا پرا گھر چھوڑ کر آئی ہے۔زبیدہ خاتون کو اس کا اپنا ماضی بار بار اپنی جانب کھینچ رہا تھا اوروہ اس سے اپنا ذہن بچا رہی تھی۔وہ جیسے جیسے نادیہ کے بارے میں سوچتی جاتی تھی ،اس کا اپنا آپ اس کے سامنے آ کھڑا ہوتا تھا۔اور وہ گبھرا کر نگائیں چرا لیتی تھی۔وہ صبح ہی سے اسی کشمکش میں تھی ۔اس کی عقل یہی کہہ رہی تھی کہ پہلے اسے کریدنے کی کوشش کرے کہ وہ کون ہے ؟پھر اپنے بیٹے کو بتائے، پتہ نہیں شعیب کا نادیہ کے بارے میں کیا خیال ہے۔یہ سب اسے بڑے تحمل اور حکمت عملی سے کرنا تھا۔یہ سوچ کر اسے ڈھارس بندھی کہ وہ اس معاملے کو حل کر لے گی۔وہ انہی سوچوں میں الجھی ہوئی تھی کہ دروازے پر بیل ہوئی۔پھر یوں مسلسل بیل ہوتی چلی گئی جیسے کسی نے بٹن پر ہاتھ رکھ دیا ہو۔اس سمیت سبھی لڑکیاں چونک گئیں۔ایسا کبھی نہیں ہو ا تھا۔ایک لڑکی نے اٹھ کر باہر جانا چاہا مگر اس نے روک دیا اور خود دروازے تک گئی۔ اس نے دروازہ کھول کر اوٹ میں ہوتے ہوئے پوچھا۔
’’کون ہے؟‘‘اس کے لہجے میں درشتگی تھی۔
’’وہ بہن۔۔میں ہوں بھاء حمید۔!وہ لڑکی ۔۔۔‘‘باہر سے آواز آئی تو اس نے بھاء حمید کے لہجے میں حد درجہ گبھراہٹ محسوس کی۔جیسے سن کر اس کا ماتھا ٹھنکا۔اس نے اوٹ ہی سے باہر دیکھا تو کئی گاڑیاں کھڑی تھیں، جن میں پولیس کی گاڑیاں نمایاں تھیں اور پولیس والے لوگ بھی موجود تھے۔
’’کیا بات ہے بھائی۔خیریت تو ہے نا؟‘‘اس نے دھڑکتے ہوئے دل سے پوچھا۔
’’وہ لڑکی جو میں یہاں صبح چھوڑ گیا تھا۔اسے یہ لوگ لینے آئے ہیں، وارث ہیں اس کے۔‘‘اس نے جواباً تیزی سے کہا۔
’’بھاء جی،آپ نے تصدیق کر لی ہے۔یہ واقعی ہی اس کے وارث ہیں۔‘‘اس نے تحمل سے پوچھا۔مگر نجانے کیوں اس وقت اس کا دل نہیں مان رہا تھا کہ نادیہ کے یوں ان لوگوں کے حوالے کر دے۔اگر خود اسے ایسی صورت حال کا سامنا ہوتا۔کاشف کے ہاتھوں سے اسے حویلی والے واپس لے جاتے تو کیا وہ اب تک زندہ ہوتی؟
’’آفیسر۔!یہ ایسے نہیں مانیں گے۔۔اندر جائیں اور باہر لے آئیں اسے یا پھر میں جاتا ہوں۔‘‘پیر سائیں نے انتہائی اکتائے ہوئے لہجے میں کہا جس میں غصہ اور حقارت تھی۔تبھی بھا ء حمید نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے غصے میں کہا۔
’’اُو بھائی ،تو جو کوئی بھی ہے اتنی اونچی آواز میں بات نہیں کرو۔یہ میری بہن کا گھر ہے اور یہاں پر کئی گھروں کی بیٹیاں آتی ہیں۔میں نے یہ بات تم لوگوں کو پہلے بھی سمجھائی تھی۔اس لئے خاموش رہو۔وہ بچی آ جاتی ہے ابھی۔۔۔۔‘‘
’’تو پھر لادو نا جا کر اپنی بہن کے گھر سے۔۔
پیر سائیں نے اسی حقارت بھرے لہجے میں یوں کہا جیسے طنزیہ انداز میں گالی دے رہا ہو۔تبھی زبیدہ خاتون نے اس شخص کو دیکھا،جس نے اتنی سخت بات کی تھی۔یا خدا۔! یہ تو اس کا اپنا بھائی اس کے دروازے پر کھڑا ہے۔اگرچہ وقت نے اس کو اچھا خاصا بدل دیا ہے لیکن اپنا خون تو نہیں بھلایا جا سکتا۔تو کیانادیہ اس کی بیٹی ہے ؟کیا وقت نے اپنے آپ کو پھر سے دھرادیا۔وہ جو اب تک دنیا کی نظروں سے چھپی ہوئی تھی،اس کا راز فاش ہو جانے کا وقت آ گیا ہے؟میں اپنا راز چھپاؤں یا نادیہ کو بچا لوں،اگر یہ بچی ان کے حوالے کر دی گئی تو اس کا زندہ بچنا محال ہو گا۔نادیہ کی زندگی کی قیمت اس کا راز ہے؟ ایک ہی لمحے میں نجانے کتنے سوال اس کے سامنے آن ٹھہرے تھے۔ اس میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ کسی بھی سوال کا جواب دے سکے۔
’’بہن بھیجونا،اس لڑکی کو۔۔‘‘بھاء حمید نے کہا تو زبیدہ ایک دم سے چونک گئی۔ پھر لمحے کے ہزارویں حصے میں اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ نادیہ کو نہیں دے گی۔تبھی اس نے بڑے تحمل سے پوچھا۔
’’بھاء حمید۔!یہ جو شخص غصے میں بات کر رہا ہے ۔کیا اس کا نام دلاور شاہ ہے او ر یہ سلامت نگر کا ہے؟‘‘اس کے اس طرح پوچھنے پر پیر سائیں نے خود ہی اونچی آواز میں جواب دیا۔
’’ہاں۔!میں دلاور شاہ ہوں۔وقت ضائع مت کرو اور اس لڑکی کو باہر بھیجو،ورنہ میں خود اندر سے نکال لاؤں گا۔‘‘
تبھی زبیدہ خاتون نے دروازہ کھول دیا اور خود دروازے میں تن کر کھڑی ہوگئی۔پھر اس کی طرف دیکھتے ہوئے غصے میں کہا۔
’’اگر تم میں ہمت ہے نا دلاور۔!تو میرے دروازے کی یہ دہلیز پار کرکے دکھاؤ۔۔‘‘
پیر سائیں اس کی طرف دیکھتا رہ گیا۔وقت نے اس کے چہرے پر اپنی پر چھائیں تو ڈالی تھیں مگر اتنی بھی نہیں کہ نقش مٹ جائیں۔چند لمحوں میں وہ پہچان گیا کہ سامنے کھڑی عورت اس کی بہن زبیدہ خاتون ہے۔
’’تم۔۔تم۔۔۔ابھی تک زندہ ہو۔۔۔‘‘وہ انتہائی حیرت سے بولا
’’تمہارا کیا خیال ہے ۔۔۔میں مر گئی ہوں۔۔۔میں زندہ ہوں دلاور۔۔اور اب اس معصوم کو مرنے نہیں دوں گی۔جسے ابھی تک یہ معلوم نہیں ہے وہ کس کے گھر میں پنا ہ لے چکی ہے۔‘‘
’’کیا میں اندر آ سکتا ہوں۔‘‘پیر سائیں نے چاروں طرف دیکھتے ہوئے کہا۔اتنی گاڑیاں دیکھ کر وہاں پر کافی لوگ جمع ہو گئے تھے۔
’’اگر دشمن بن کر آئے ہو تو انہی قدموں پر واپس چلے جاؤ۔مجھ میں اتنی ہمت ہے کہ میں تیرے جیسے دشمن کا راستہ روک سکوں۔آزمانا چاہو تو آزما لو۔۔اگر بھائی بن کر آئے ہو تو یہ دروازہ پار کرو تو آجاؤ۔۔‘‘زبیدہ خاتون نے انتہائی سرد لہجے میں کہا تو پیر سائیں نے پولیس آفیسر کی جانب دیکھ کر کہا۔
’’آفیسر ۔آپ کا بہت شکریہ ۔آپ نے میر ی بہت مدد کی۔‘‘
’’ٹھیک ہے ۔اگر ضرورت ہوتو کال کر لیں۔‘‘اکتائے ہوئے پولیس آفیسر نے کہا اور فوراً ہی پلٹ کر اپنی گاڑی میں جا بیٹھا۔کچھ ہی دیر بعد وہ اپنی ساتھ لائی نفری سمیت وہاں سے چلا گیا۔وہ اپنے بندوں کو گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ کر کے اندر آ گیاتو زبیدہ نے کہا۔
’’بھاء حمید آپ بھی آ جاؤ۔‘‘
’’وہ انہیں لے کر ڈرائینگ روم میں آگئی۔تب تک نادیہ بیدار ہو چکی تھی۔اسے لڑکیوں نے جگا دیا تھا کہ باہر کیا ہنگامہ ہو رہا ہے، جو اسی کی وجہ سے ہے۔وہ بھی دروازے سے آن لگی تھی۔
’’کہاں ہے نادیہ۔؟‘‘پیر سائیں نے بیٹھتے ہی پوچھا۔
’’میرے پاس ہے ۔مگر اسے قطعاً معلوم نہیں ہے کہ میں کون ہوں اور میرا بیٹا کون ہے۔اسے فقط میرے بیٹے کی شاعری پسند ہے ۔اسی ناطے وہ یہاں آ گئی ۔کیوں آ گئی ہے ،یہ اب سے کچھ دیر پہلے نہیں جانتی تھی مگر اب سمجھ رہی ہوں۔اب بولو۔تم کیا چاہتے ہو؟‘‘زبیدہ نے سکون سے کہا۔
’’میں اسے واپس لے جانا چاہتا ہوں‘‘اس نے جواباًکہا۔
’’تا کہ تم اسے لے جا کر مار دو۔میں نہیں جانتی تمہیں۔۔۔میں اسے۔۔‘‘
’’آج اس کی شادی ہے میرے بیٹے ظہیر شا ہ کے ساتھ۔وہ لندن سے صرف اسی لیے آیا ہے۔اور ۔۔۔‘‘
’’وہ نادیہ تمہاری بیٹی نہیں اور اسے تمہارا بیٹا پسند نہیں ہے۔تبھی وہ حویلی کی زندگی چھوڑ کر ایک غریب شاعر کے پیچھے آ گئی۔اب میں سمجھی وہ مجبوری میں پناہ کی خاطر یہاں تک آئی ہے۔‘‘اس نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
’’تمہارا بیٹا کدھر ہے۔میں اس سے بات کرتا ہوں،اسے سمجھاتا ہوں۔‘‘پیر سائیں نے اب تحمل سے کہا۔
’’وہ یہاں نہیں ہے۔اپنے کام سے کہیں گیا ہوا ہے۔وہ آ جائے گا تو میں اس سے مشورہ کر کے جو فیصلہ ہوا وہ تمہیں بتا دوں گی۔‘‘
’’وہاں،نادیہ کی شادی ہونے والی ہے،اس بات کو سمجھو۔‘‘
’’اگر وہ یہاں تمہیں نہ ملتی،تب شادی کی تاریخ کا کیا ہونا تھا۔جب نادیہ ہی کو شادی منظور نہیں ہے تومیں اسے تمہار ے ساتھ کیسے بھیج دوں۔وہ عاقل بالغ ہے ۔اپنی مرضی کر سکتی ہے۔پھر تم ہی کیوں،جاؤ،اس کے باپ کو بھیجو۔‘‘اس نے زبیدہ نے ذرا سختی سے کہا۔
’’تمہیں شاید معلوم نہیں ۔نادیہ دو برس کی تھی جب ظاہر شاہ اپنی بیوی سمیت ایک کار حادثے میں اللہ کو پیارا ہو گیا ہے۔‘‘وہ آہستگی سے بولا۔
’’اُوہ۔!تو نادیہ یتیم ہے اور اس کے سر پر ست ہو تم۔۔۔‘‘وہ انتہائی دکھ سے بولی ۔ اپنے بھائی کے بارے میں سن کر وہ ایک دم سے غم زدہ ہو گئی تھی۔
’’ضد نہ کر آپا۔اسے میرے ساتھ جانے دو۔وہ میری بہو بننے جا رہی ہے۔بلکہ اب توتم بھی میرے ساتھ چلو،میں ماضی کی ساری باتیں بھلا دینا چاہتا ہوں۔‘‘پیر سائیں نے التجا بھرے لہجے میں کہا تو اس کا دل پسیج گیا۔وہ موم ہونے لگی۔
’’ٹھیک ہے دلا ور۔!اگر تم یہ وعدہ کرو کہ تم اسے کچھ نہیں کہو گے۔تو لے جاؤ اسے ‘‘وہ روتے ہوئے بولی۔
’’تم بھی ہمارے ساتھ چلو آپا۔۔۔‘‘اس نے دکھ سے کہا۔
’’نہیں،میں تمہارے ساتھ نہیں جا سکتی۔میں اپنے بیٹے کے بغیر کچھ نہیں کر سکتی۔‘‘وہ بھیگے ہوئے لہجے میں بولی۔
’’بھیجو نادیہ کو۔!ایک دو دن میں تم لوگوں کو لینے دونوں آ جائیں گے۔‘‘پیر سائیں نے کہا تو دروازے سے لگی نادیہ نے تقریباً چیختے ہوئے کہا۔
’’نہیں پھوپھو۔!میں ان کے ساتھ نہیں جاؤں گی۔اگر آپ نے مجھے بھیجا بھی تو حویلی میں میری لاش جائے گی۔میں نے وہاں جا کر بھی مرنا ہی ہے۔‘‘
وہ تینوں اس کی چیخ بھری آواز پر چونک گئے اور جو اس نے بات کی تھی،اس کاسب سے زیادہ اثر بھاء حمید پر ہوا۔تب وہ تڑپ کر بولا۔
’’زبیدہ بہن۔!میں آپ کی بہت عزت کرتا ہوں۔میری نگاہ میں آپ کا کتنا احترام ہے یہ آپ جانتی ہیں۔آج آپ پہلی بار میرے سامنے آئی ہیں۔میری رائے یہی ہے کہ بچی کو ابھی واپس حویلی مت بھیجا جائے۔ اسے اس وقت تک اپنے پاس رکھیں۔جب تک یہ خود جانے کے لیے تیار نہ ہو جائے۔‘‘
’’یہ ہمارا خاندانی مسئلہ ہے۔‘‘پیر سائیں نے تیزی سے کہا۔
’’میں مانتا ہوں ۔لیکن وہ بھی میری بیٹی جیسی ہے۔وہ جب تک نہیں چاہے گی ،یہیں رہے گی،چاہے جو مرضی کر لو۔۔۔تم جتنے بھی طاقتور ہو، اپنی طاقت آزما لو۔‘‘بھاء حمید نے پھنکارتے ہوئے کہا۔
’’جاؤ دلاور ۔!چلے جاؤ۔یہ میرا وعدہ ہے کہ میں چند دنوں تک نادیہ کو لے کر خود حویلی آؤں گی۔‘‘زبیدہ خاتون نے کہا ا ور زارو قطار رونے لگی۔پیر سائیں چند لمحے یونہی خاموش بیٹھا رہا پھر تیزی سے اٹھ کر باہر چلا گیا۔ چند لمحوں بعد ان کے دروازے کے آگے کوئی گاڑی نہیں تھی۔زبیدہ خاتون دونوں ہاتھ چہرے پر رکھے روتے چلی جا رہی تھی۔تبھی نادیہ اندر آئی اور دھیرے سے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا۔تب زبیدہ نے اسے گلے لگایا اور یوں روئی کہ جیسے سارے آنسو آج ہی بہا دے گی۔
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...